اسلام آباد : الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی ہدایات کی خلاف ورزی کی بنا پر عادل بازئی کو ڈی سیٹ کیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کیے جانے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے حوالے سے ذرائع الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن پر چند اہم فرائض بھی عائد کیے گئے ہیں۔
ذرائع نے کہا کہ آئین الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اسپیکر سے ڈکلیئریشن کی وصولی کے30دن میں فیصلہ کرے۔
ریکارڈ سے ثابت ہے کہ فنانس بل2024پر ووٹنگ کے دوران عادل بازئی کا تعلق ن لیگ سے تھا، انہوں نے پارٹی کی ہدایات کے خلاف12جون2024کوووٹ نہیں دیا۔
ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق 20جون2024کو انہوں نے شو کاز نوٹس کا جواب بھی نہیں دیا، الیکشنز ایکٹ2017میں2 اکتوبر2024کو نئی دفعہ104اے کا اضافہ کیا گیا۔
آزاد امیدواروں کی فہرست، پارٹیوں میں شمولیت پر کمیشن نے25اپریل2024کو خط میں آگاہ کیا تھا، فہرست میں ان کا نام مسلم لیگ ن کے ممبر کے طور پر درج تھا۔
ان کی پارٹی وابستگی کی تصدیق قومی اسمبلی کے ریکارڈ سے بھی کی گئی، عادل بازئی نے16فروری2024کو مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 12جون2024کو پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کیخلاف فنانس بل پر ووٹ نہیں دیا۔
پارٹی وابستگی اور اس کیخلاف کارروائی کی بنا پرعادل بازئی کی قومی اسمبلی رکنیت ختم ہوگئی اور عادل بازئی کی نشست خالی قرار دی گئی۔
عادل بازئی کی ن لیگ سے پارٹی وابستگی الیکشن کمیشن کے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو25اپریل2024کو بھیجی گئی۔
ذرائع الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اپنے خلاف ریفرنس دائر ہونے پر2نومبر2024کو انھوں نے مقامی عدالت میں درخواست دائر کی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کیے جانے کا الیکشن کمیشن فیصلہ کالعدم قرار دینے کے حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے 18 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ عدالتی ہدایات کے باوجود الیکشن کمیشن ایسا رویہ اپناتا ہے جو اس کے آئینی فرائض سے مطابقت نہیں رکھتا، الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ اسے دوسرے آئینی اداروں اور ووٹ کے بنیادی حق کو نظرانداز کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
عادل خان بازئی بطور آزاد امیدوار قومی اسمبلی کے حلقے 262 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
18 فروری کو ن لیگ کا جبکہ 20 فروری کو سنی اتحاد کونسل کا عادل بازئی کی پارٹی شمولیت کا سرٹیفکیٹ جمع کرایا گیا تھا۔
اسلام آباد : الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں ووٹرز کے اعداد و شمار جاری کر دیے، جس کے مطابق ملک میں ووٹرز کی تعداد 13 کروڑ 22 لاکھ سے زائد ہوگئی۔
الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ووٹرز کی تعداد13 کروڑ 22 لاکھ 54 ہزار 310ہوگئی، جس میں مرد ووٹرز کی شرح 53.74 فیصد جبکہ خواتین کی 46.26 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق مرد ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 10 لاکھ 76 ہزار 830 ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد6 کروڑ11 لاکھ 77ہزار 480 ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اسلام آباد میں ووٹرز کی تعداد 11 لاکھ 54 ہزار 471 ہے، صوبہ بلوچستان میں ووٹرز کی تعداد 55 لاکھ 26 ہزار 217 ہے۔
صوبہ خیبر پختوانخوا میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 25 لاکھ 36 ہزار 455 ، پنجاب میں ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 53 لاکھ 753 ہے، جبکہ سندھ میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 77 لاکھ 36 ہزار 414 ہے۔
خیال رہے کہ 2024 کے الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر کافی تنقید کی گئی تھی اور کچھ سیاسی جماعتوں نے ادارے پر انتخابی نتائج تبدیل کرنے کا بھی الزام عائد کیا تھا۔
حالیہ ادوار میں بھی سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کے رویے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بنیادی فریق سے مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے۔
اسلام آباد : پی آئی اے کی نجکاری کے معاملہ پر اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، الیکشن کمیشن نے نگراں وفاقی حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے روک دیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے نام ایک مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں الیکشن کمیشن نے پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق ریکارڈ طلب کیا ہے۔
مراسلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے تک پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق کوئی فیصلہ نہ لیا جائے، نجکاری کےحوالے سے کابینہ کے فیصلوں ودیگر ریکارڈ مہیا کیا جائے۔
واضح رہے کہ قبل ازیں سیکرٹری الیکشن کمیشن ڈاکٹر سید آصف حسین نے وزیر اعظم کے سیکرٹری کیپٹن ریٹائرڈ خرم آغا کے نام مراسلہ ارسال کیا تھا اور کہا تھا کہ نگران حکومت کا اسکوپ آئین اور الیکشن ایکٹ میں واضح ہے۔ ایف بی آر کی اصلاحات اہم پالیسی فیصلے میں شامل ہوتی ہے۔ ایف بی آر کی اصلاحات کا معاملہ منتخب حکومت کا اختیار ہے۔
الیکشن کمیشن کو ان کاموں کی نشاندہی بھی کرنی ہوتی ہے جو نگران حکومت نہیں کر سکتی۔ وزیر اعظم کو مشورہ دیا جائے کہ وہ ایف بی آر میں اصلاحات نہ کریں۔ایف بی آر میں اصلاحات کا جائزہ عام انتخابات کے بعد منتخب حکومت کے لیے چھوڑ دیں۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ صدر کے پاس مشاورت یا الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں اس لیے الیکشن کمیشن کا وفد صدرسے ملنے نہیں جائے گا۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر صدرمملکت نے انتخابات کی تاریخ دے بھی دی تو الیکشن کمیشن اسے مسترد کردے گا۔
کنور دلشاد نے کہا کہ آرٹیکل48(5)کے تحت صدر الیکشن کمیشن کو خط لکھنے کے مجاز نہیں، صدر کا وزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیر ای سی کو خط لکھنا غیرمنطقی ہے، الیکشن ایکٹ کے تحت انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیارچیف الیکشن کمشنر کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ 90دن میں الیکشن کرانے میں سب بڑی رکاوٹ آرٹیکل 51 ہے، الیکشن ایکٹ کے تحت صدر کی مشاورت کا اختیار ختم کردیا گیا ہے،الیکشن کمیشن صدر مملکت کے خط کا جواب تو دے گا لیکن اس کا وفد ملاقات نہیں کرے گا، الیکشن کمیشن خط میں جواب دے گا کہ صدر آئینی طور پر معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ مردم شماری کا نوٹی فکیشن مسترد کرتی ہے تو90دن میں الیکشن ہوں گے۔
لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو چیئرمین تحریک انصاف کیخلاف توہین کمیشن کی کارروائی میں حتمی فیصلہ کرنے سے روک دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد وحید خان نے تحریک انصاف کے سربراہ کی درخواست پر سماعت کی جس میں الیکشن کمیشن میں کی گئی کارروائی کو چیلنج کیا گیا ہے۔
سمارت کے کے موقع پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت کی لیکن اس درخواست پر حتمی فیصلہ کرنے سے روک دیا۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹہ آئی کی درخواست چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بجھوا دی اور سفارش کی کہ کیس کو سماعت کیلئے لارجر بنچ کے روبرو پیش کیا جائے۔
سمیر کھوسہ ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر درخواست میں استدعا کی گٸی ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ کیخلاف توہین الیکشن کمیشن کی کارروائی کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں لہٰذا وہ کسی کے خلاف توہین عدالت کا اختیار استعمال نہیں کر سکتا۔
اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے رواں سال اکتوبر میں انتخابات کے انعقاد کیلئے تیاریوں کا آغاز کردیا ہے اس حوالے سے بیوروکریسی کے تعاون کیلئے اہم اقدامات کیے جارہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا آئندہ عام انتخابات کیلئے آر اوز کو بیوروکریسی سے لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کچھ روز میں ریٹرننگ آفیسرز (آراوز) کی تعیناتی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔
ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے الگ الگ ریٹرننگ آفیسرز (آراوز) تعینات کئے جائیں گے، ای سی پی نے آر اوز کیلئے ممکنہ افسران کی اسکروٹنی کا عمل شروع کردیا۔،
الیکشن کمیشن کی جانب سے چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز سے حتمی تجاویز طلب کرلی گئیں، قانون کے مطابق عام انتخابات کیلئےشیڈول سے2ماہ پہلے ریٹرننگ افسران کی تقرری لازمی ہے۔
الیکشن کمیشن وفاقی وصوبائی حکومت کےافسران میں سے بھی آراوز، ڈی آر اوز،اے آر اوز لگائے گا، الیکشن کمیشن اکتوبر 2023 میں عام انتخابات کی مناسبت سے تیاریاں کررہا ہے۔
اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے3حلقوں میں ضمنی انتخابات کرانے کی تاریخ کا اعلان کردیا، جس کے تحت پولنگ 28مئی کو ہوگی۔
اس حوالے سے ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ این اے 108فیصل آباد، این اے 118ننکانہ صاحب اوراین اے 239کراچی میں ضمنی انتخاب ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ممنوعہ فنڈنگ کی رپورٹ 15 دن کےاندر کمیشن کو جمع کرائیں۔
اس کے علاوہ صوبہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جماعت اسلامی کے خطوط اور شکایات پر الیکشن کمیشن نے غور وخوص کیا اور7مئی کے ضمنی انتخابات میں یونین کونسل 119 حیدر آباد میں بےضابطگیوں کا نوٹس لیا۔
الیکشن کمیشن نے15 مئی کو کیس سماعت کے لئے مقرر کردیا ہے، کمشنر، آراو، ڈی آر او، ڈی پی او سے3 دن میں رپورٹ طلب کرلی، امیدواروں، آراو،ڈی آراو، متعلقہ عملہ اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر کو 15مئی کیلئے نوٹسز جاری کردیے گئے۔
رواں سال 14 اور 18جنوری کو بالترتیب صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں میں آئین کے تحت 90روز میں عام انتخابات کا انعقاد گھمبیر مسئلہ بن گیا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے اور عدلیہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہر ممکن کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔
دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے تقریباً ایک ماہ بعد تک دونوں صوبائی گورنرز کی جانب سے تاریخ نہ دیئے جانے پر 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ایک اور بحث نے جنم لیا کہ صدر کو یہ اختیار ہے بھی یا نہیں جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور ملک میں جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگیا، اسی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ نے الیکشن کے التواء پر ازخود نوٹس لیا۔
چیف جسٹس کا از خود نوٹس
22فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔
پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، جے یو آئی ایف نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے نو رکنی بنچ میں شامل دو ججوں، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان ججوں کو بنچ سے الگ ہوجانا چاہیے، جنہوں نے بعد ازاں بنچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔
اس کے بعد سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجر بینچ سے مزید دو ججز علیحدہ ہوگئے، 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔
ازخود نوٹس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات90 دنوں میں کرانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو پنجاب میں الیکشن انتخابات کیلئے30 اپریل سے7 مئی تک کی تاریخیں تجویز کی تھیں۔
الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کردیے
سپریم کورٹ کے فیصلے اور صدر کی جانب سے تاریخیں تجویز کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے اس کے مطابق پنجاب کا انتخابی شیڈول جاری کیا اور اس کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہوا اور پی ٹی آئی سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے تاہم پھر اچانک بدھ 22 مارچ کو الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ پنجاب میں انتخابات اب آٹھ اکتوبر کو ہوں گے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے امن و امان کی صورتحال سازگار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے آڈر میں کہا گیا تھا کہ وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا تھا کہ وہ سول اور فوجی اہلکاروں کو الیکشن ڈیوٹی کے لیے فراہم نہیں کرسکتی جبکہ اس آرڈر میں وزارت خزانہ کے حکام کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جنہوں نے انتخابات کے لیے لیے فنڈز کی فراہمی سے معذرت کی ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست
الیکشن کمیشن کے اس اقدام کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت کی، 27مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے۔
28مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔
29مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟
30مارچ بروز جمعرات کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بنچ ٹوٹ گیا تھا۔ بعد ازاں عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بنچ 31 مارچ (جمعہ کو) کرے گا۔
31مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
تین رکنی ججز کی سماعت کا فیصلہ محفوظ
اس تین رکنی بینچ نے درخواست گزار، اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد 3 اپریل کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو 4 اپریل کو سنایا اور اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن شیڈول میں معمولی ردوبدل کیا اور پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔
دوران سماعت ای سی پی کے وکیل کا ججز سے مکالمہ</h3
قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اور چیف جسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں عرفان قادر نے کہا کہ پہلے مجھے سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، پوچھنا ہے کہ کیا آپ نے فیصلہ کرنے کا پہلے ہی بتادیا ہے؟ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کیا۔
بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی، عرفان قادر
اپنے دلائل میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ موجودہ بینچ میں بھی جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی۔ جس کے جواب میں چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ وہ وجوہات بتائیں کہ کیوں جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اپنے انتظامی اختیارات پر آپ کو جوابدہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس انہیں نہیں لیکن قوم کو جوابدہ ضرور ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جوڈیشل آرڈرز پر جوابدہ ہوں لیکن انتظامی آرڈرز پرنہیں؟
ایک موقع پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے کان میں لقمہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟، عرفان قادر نے کہا صرف 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، جسٹس منیب نے کہا کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی، چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے 2ججز کے نوٹ کیخلاف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکم نامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی بار تین ججز اٹھ کر جاتے تھے اور دو ججز واپس آتے تھے، جواباً چیف جسٹس نے فوری کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔
ون مین شو کس کو کہا گیا ہے؟
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے جسٹس قاضی فائز سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا؟ تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا
ایک موقع پر عرفان قادر نے کہا کہ حکومت نے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو نہیں مانا تھا، راجہ پرویز والے معاملے میں خط لکھ کر سپریم کورٹ کی فیس سیونگ کی گئی، نظریہ ضرورت بہت اچھی چیز تھی، ہم تواس سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ ناٸیک کے دلائل
کیس کی سماعت کے آغاز میں پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ ناٸیک روسٹرم پر آٸے تو جسٹس منیب اختر نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا، ہم کارروائی میں شامل ہوں گے، تاہم بینچ سے متعلق ہمیں کچھ تحفظات ہیں۔
اٹارنی جنرل صاحب!! بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی استدعا کی گئی، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، الیکشن کمیشن کا حکم برقراررہا تو تمام استدعا ختم ہوجائیں گی۔
نیوی اور ایئر فورس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے پوچھا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے،۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ یہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں نیوی اور ایئر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے۔
ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ کا بیان
مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارا وکالت نامہ آپ کے پاس ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ن لیگ کے وکیل سے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ موجود ہے لیکن جو بیانات دیئے گئے ہیں اس کا کیا؟ جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ہم وکلاء آپ کے سامنے آئے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ آپ پر اعتبار ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک طرف اعتراض اور دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا بیان
عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلایا۔ چیف جسٹس نے ان دریافت کیا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار ملیں گے تو انتحابات کرا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کیلئے دستیاب ہوسکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا، آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو جنگ لڑنے والے اہلکار درکار ہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔
اسلام آباد : الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کی 36 نشستوں پر ضمنی انتخابات ملتوی کردیئے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کے 24 حلقوں کے انتخابات ملتوی کردیئے گئے، اسلام آباد کے 3 اور کراچی کے 9 حلقوں کے انتخابات بھی ملتوی کردیئے گئے۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا کے 24 حلقوں میں انتخابات پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ملتوی کئے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پیپلزپارٹی سمیت پی ڈی ایم کی جماعتوں نے اس سے قبل ان 24 قومی اسمبلی کی نشستوں پر بھی ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جن پر عدالت نے حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے۔
خیبرپختونخوا سے مذکورہ تینوں نشستوں پر 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدواروں علی محمد خان ، فضل محمد خان اور حاجی شوکت علی نے کامیابی حاصل کی تھی۔
مذکورہ ارکان کے مستعفی ہونے کے بعد مذکورہ تینوں نشستوں پر گزشتہ سال 16 اکتوبر کو منعقدہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کامیابی حاصل کی تھی جن پر حلف نہ لینے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے ان نشستوں کو خالی قراردیا ہے۔