Tag: electricity bills

  • بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسز ہوتے ہیں؟

    بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسز ہوتے ہیں؟

    بجلی کے بھاری بل لوگوں کے گھروں پر قیامت ڈھانے لگے، لوگ بچوں کا پیٹ بھریں یا بل؟ سوال یہ ہے کہ ان سفید ہاتھیوں ’آئی پی پیز‘ کو ادائیگیاں کیسے روکی جائیں؟ یہ مسئلہ حل کیسے ہوگا؟

    بجلی کیوں مہنگی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسز ہوتے ہیں؟ اس کی تفصیل اے آر وائی نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن کے اینکر وسیم بادامی نے بتائی۔

    انہوں نے بتایا کہ اس میں شامل ہے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ( بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یعنی ایندھن کی قیمت پر منحصر ہوتا ہے، دوسرا ہے فیول کاسٹ یعنی جو نجلی پیدا ہوئی اس کے ایندھن کی قیمت۔ سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ (بجلی کی قیمت میں رد و بدل)کا علیحدہ سے ٹیکس ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ بجلی کی فی یونٹ لاگت کا الگ سے ٹیکس ہوتا ہے، پھر جنرل سیلز ٹیکس (جی اسی ٹی) اس کے بعد فیول پرائس ایڈجسمنٹ پر بھی ٹیکس لگتا ہے۔ اس کے ساتھ گردشی قرضے کی مد میں فنانسنگ کاسٹ چارجز بھی اسی بل مین شامل ہیں۔

    اسی بجلی کے بل میں انکم ٹیکس بھی شامل ہے جو 25 ہزار سے زائد بل پر ساڑھے 7فیصد نان ٹیکس فائلر کیلئے ہے ٹی وی کی ماہانہ فیس بھی اسی بل میں لگ کر آتی ہے۔ اس کے ساتھ دیگر اور ٹیکسز بھی ہیں جس کی ایک طویل فہرست ہے۔

    اس مسئلے کا آخر حل کیا ہے؟

    اے آر وائی نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سید مصطفیٰ کمال نے بجلی کے ہوشربا بل اور اس مسئلے کا حل بیان کرتے ہوئے خودمختار گارنٹی پر بھی روشنی ڈالی۔

    پروگرام کے میزبان وسیم بادامی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ70فیصد آئی پی پیز لوکل ہیں، ان میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کے شیئرز ہیں،جبکہ 23 فیصد آئی پی پیز چین کے ہیں۔

    مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آئی پی پیز کو ادائیگیاں جاری رہیں تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، چالیس سال سے جو مٹی کارپیٹ کے نیچے ڈال رہے تھے اب وہ باہر آگئی ہے۔

    متحدہ رہنما نے بتایا کہ جہاں تک خود مختار گارنجٹی کی بات ہے، بیرون ممالک کو چھوڑ کر جتنے بھی لوکل آئی پی پیز ہیں ان کو بلا کر اس مسئلے پر بات کی جاسکتی ہے۔

  • آئی پی پیز کے معاہدے کیسے منسوخ کیے جا سکتے ہیں؟

    آئی پی پیز کے معاہدے کیسے منسوخ کیے جا سکتے ہیں؟

    آئی پی پیز کے معاہدے عوام پر بجلی بن کر گررہے ہیں، جن کا سارا بوجھ عوام کی جیبوں پر پڑا ہے، کیا ان معاہدوں سے چھٹکارا ممکن ہے؟

    اس حوالے سے اے آر وائی کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر معاشیات خرم شہزاد نے گفتگو کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل بتایا۔

    ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے معاملے میں دو تین عوامل ہیں جبکہ صرف ایک مسئلے پر ہی بات کی جارہی ہے، جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ بجلی کا مسئلہ نہیں بلکہ بجلی پہنچانے کا ہے۔ اس کیلئے کسی بھی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔

    جس کی وجہ سے لائن لاسز اور بجلی چوری کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے سو میں سے تیس یونٹ ضائع ہوجاتے ہیں اور اس کا اثر ایک عام آدمی کے بل پر بھی پڑتا ہے۔ جہاں تک کیپسٹی پیمنٹ کی بات ہے اس کے معاہدے پالیسی سازوں اور حکومتوں نے بنائے۔

    IPP

    خرم شہزاد نے کہا کہ بجلی کے بل بڑھنے کی وجوہات میں لائن لاسز کے علاوہ گردشی قرضوں کا بھی حصہ ہے اس کے علاوہ دیگر ٹیکسز بھی بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ ہیں۔

    آئی پی پیز کے معاہدوں میں ترمیم یا اسے منسوخ کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاہدے میں شرائط و ضوابط کی وضاحت کی جاتی ہے کہ اس میں ایسی شق ہوتی ہے جب کوئی ایسا مسئلہ یا مشکل آئے گا تو مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔

     

  • ’’بجلی کے بلوں نے چیخیں نکال دیں، بچوں کا پیٹ بھریں یا بل؟‘‘

    ’’بجلی کے بلوں نے چیخیں نکال دیں، بچوں کا پیٹ بھریں یا بل؟‘‘

    لاہور : موجودہ دور میں ہوشربا مہنگائی کے اس عالم میں بجلی کے بلوں نے شہریوں کی چیخیں نکال دی ہیں، لوگ اپنے بچوں کا پیٹ بھریں یا بجلی کے بل۔

    آئے روز اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے اور بچوں کی تعلیم سمیت دیگر ضروریات سے پریشان شہریوں کو رواں مہینے اس وقت ایک بڑا جھٹکا لگا جب انہوں نے اپنا بجلی کا بل دیکھا۔

    وزیراعظم خدارا اس کا نوٹس لیں، شہریوں کی اپیل

    لاہور میں بجلی کے مقامی دفتر کے باہر اپنے بلوں کی درستگی یا ان کی اقساط کیلئے آنے والے شہریوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سرعام‘ کے میزبان اقرار الحسن سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے دکھڑے سنائے۔

    ایک شہری کا کہنا تھا کہ میری تنخواہ 32 ہزار روپے ہے اور بجلی کا بل 50 ہزار روپے آگیا، کیسے ادا کروں؟ پچھلے ماہ بھی قرضہ لے کر بجلی کا بل ادا کیا تھا۔ شہری نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ خدارا اس کا نوٹس لے کر پریشان کا مداوا کیا جائے۔

    بجلی کی قیمت کے خوف سے بیوی بچوں کو سسرال بھیج دیا

    ایک شہری کا کہنا تھا کہ میری تنخواہ 20 ہزار روپے ہے اور بجلی کا بل 17 ہزار روپے آیا ہے، اس کا کہنا تھا کہ شادی شدہ اور بچوں والا ہوں، اس صورتحال میں بچے ساتھ رکھنا ممکن نہیں تھا تو بجلی کی قیمت کے خوف سے بیوی بچوں کو کے پی کے میں سسرال بھیج دیا ہے، ہمارے گاؤں میں اتنا زیادہ بل نہیں آتا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY News (@arynewstv)

    ایک اور صارف نے بتایا کہ پہلے جو بل کبھی تین سے چار ہزار روپے تک آتا تھا، وہ اب 10 ہزار آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بوبت یہاں تک آچکی ہے کہ گھر کا سامان بیچ کر بجلی کے بل ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔

    تنخواہ اتنی نہیں جتنا بجلی کا بل آجاتا ہے

    پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک ریڑھی بان کا کہنا تھا کہ تنخواہ اتنی نہیں جتنا بجلی کا بل آجاتا ہے، اس کے ساتھ گیس اور ماہانہ راشن کیسے پورا کریں ہر ماہ قرضہ لے کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔

    بجلی کا بل زیادہ آنا صرف چند افراد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کے کئی شہروں میں اس کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

    ایک طرف عوام جہاں مہنگائی اور بجلی کے زیادہ بلوں پر غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں وہی گذشتہ روز بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی کی قیمتوں (ٹیرف) میں سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافے کی درخواست کی ہے جس کے بعد بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • بچوں کے پیٹ بھریں یا بجلی کے بل؟ لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں

    بچوں کے پیٹ بھریں یا بجلی کے بل؟ لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں

    موجودہ نئی حکومت کے نئے بجٹ میں عوام پر لگائے جانے والے ہوشربا ٹیکسز کے نفاذ کے بعد لوگ بجلی کے بل دیکھ کر اپنے ہوش کھو بیٹھے۔

    بجلی بھاری بھر کم بلوں کو دیکھ کر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، ٹیکسز سے بھرے بلوں نے عوام کے اوسان خطا کر دیے۔

    عوام کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام میں گفتگو کرتے ہوئے کچھ خواتین اس بات پر رو پڑیں کہ ہم گھر چلائیں یا بجلی کے بل بھریں؟

    کچھ ایسا ہی کہنا بجلی کے بل کی قسطیں کروانے کیلئے آنے والے لوگوں کا تھا ایک شخص نے بتایا کہ 365 یونٹ پر 32 ہزار روپے بل آگیا۔ اتنی تو ہماری تنخواہ نہیں کوئی ہمیں بتائے کہ ہم یہ مسئلہ کیسے حل کریں؟

    ایک خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ میرے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے اور کمانے والا ایک ہی بیٹا ہے، ہم ایک وقت کھانا کھاتے ہیں ایک اور خاتون نے بتایا کہ بل کی قسطیں کروانے آئی تھی لیکن کسی نے کرکے ہی نہیں دیا۔

    شہریوں کا کہنا تھا کہ اتنی مہنگائی کے دور میں اتنے زائد بل کہاں سے جمع کرائیں؟ بجلی کے بل بھریں یا دال روٹی سے گزر بسر کریں، بجلی کے بل گھر کی اشیا بیچ کر ادا کرنے پر مجبور ہیں، اعلیٰ حکام ہم مزدوروں اور غریب طبقے پر رحم کریں اور زائد بل کا نوٹیفکیشن فوری طور پر واپس لیں۔

  • کراچی میں ہڑتال پر تاجر برادری دو حصوں میں تقسیم

    کراچی میں ہڑتال پر تاجر برادری دو حصوں میں تقسیم

    کراچی : بجلی کے بلوں میں شامل ہوشربا ٹیکسز کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، تاہم کل کراچی میں ہونے والی شٹرڈاؤن ہڑتال کے معاملے پر کراچی کے تاجر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔

    اس حوالے سے کراچی میں دی جانے والی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال شہر قائد کے تاجر محمصے کا شکار ہیں کہ ہڑتال کریں یا نہیں۔

    شہر قائد کی مارکیٹوں کے تاجر رہنماؤں سے ہونے والے مشاورتی اجلاس کے موقع پر تاجروں کی اکثریت نے دوسرے دن ہڑتال کی مخالفت کردی۔

    اس انکار کے بعد کراچی کے متعدد تاجر رہنما شٹرڈاؤن ہڑتال سے متعلق اپنا واضح مؤقف دینے سے گریزاں نظر آرہے ہیں۔

    تاجر رہنما شرجیل گوپلانی نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہڑتال کی نہ حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی مخالفت۔

    رضوان عرفان کا کہنا تھا کہ جو مارکیٹ کھولنا چاہتے ہیں وہ کھول لیں جو بند کرنا چاہتا ہے بند کردے جبکہ عتیق میر نے کہا کہ ابھی بھی کچھ مارکیٹوں میں مشاورت کا عمل جاری ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں کراچی کی تاجر برادری نے بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافے کے خلاف احتجاجاً بل ادا نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    ’روزگار بچاؤ تحریک‘ کے نام سے بولٹن مارکیٹ پر تاجر تنظیموں نے احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ تاجر رہنما رضوان عرفان کا کہنا تھا کہ ظلم اور مہنگائی کے خلاف تاجر برادری ایک پلیٹ فارم پر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ تاجر برادری و عوام حالیہ مہنگائی سے فاقہ کشی پر مجبور ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہو رہا ہے، ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو ملک گیر ہڑتال ہوگی۔

  • بجلی کے بل : فردوس عاشق اعوان بھی اضافی ٹیکسز کیخلاف بول پڑیں

    بجلی کے بل : فردوس عاشق اعوان بھی اضافی ٹیکسز کیخلاف بول پڑیں

    استحکام پاکستان پارٹی کی رہنما ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکسز کیخلاف بول پڑیں ان کا کہنا ہے کہ بلوں کی ادائیگی عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی۔

    اپنے ایک حالیہ بیان میں ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں نے مزدوروں کی زندگی اجیرن کردی ہے، غریب عوم کا کوئی پرسان حال نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، بلوں کی ادائیگی عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی، آمدن سے بھی زائد بجلی بلوں سے جینا دشوار ہو چکا ہے۔

    فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ استحکام پاکستان پارٹی نے عوام کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، ہمیں یقین ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام اس دوستی کے ہاتھ کو ضرور تھامیں گے۔

    آئی پی پی کی رہنما کا کہنا تھا کہ عوام اور استحکام پاکستان پارٹی مل کرترقی کا یہ سفر طے کریں گے، ہماری جماعت عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئےبنی ہے۔

    انہوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ فی گھرانہ 300یونٹ تک فری بجلی کی فراہمی ہمارے منشور کا حصہ ہے، ہمارے منشور میں غریب کے مسائل کےحل کیلئے بہت سے منصوبے ہیں۔

     

  • جناب نگران وزیراعظم صاحب!! سینیٹر مشتاق احمد حکومت پر برس پڑے

    جناب نگران وزیراعظم صاحب!! سینیٹر مشتاق احمد حکومت پر برس پڑے

    جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بجلی کے بلوں سے ملک بھر میں پیدا ہونے والے عوامی غیض وغضب پر نگراں وزیراعظم کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

    اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ جناب نگران وزیراعظم صاحب، عوام اب بپھر گئے ہیں، کراچی سے چترال تک عوام بجلی بلوں کیخلاف احتجاج کررہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے مظلوموں کو بجلی کے بلوں نے اشرافیہ کیخلاف متحد کردیا ہے، آج کے اجلاس میں ان 4 کاموں کا فیصلہ اور فوری عملدرآمد کروائیں۔

    سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ دانشورانہ گفتگو اور بھاری بھرکم الفاظ سے عوام کا پیٹ بھرنے والا نہیں، بجلی کے بلوں میں تمام ظالمانہ ٹیکس ختم کیے جائیں۔

    انہوں نے کہا کہ کسی بھی بااثر حکومتی یا سیاسی شخصیت کو بھی ایک یونٹ بجلی مفت نہ دی جائے، ججز، افسرشاہی، واپڈا ملازمین، پارلیمنٹیرینز کو بجلی مفت نہ دی جائے.

    رہنما جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے فراڈ معاہدے ختم کریں، مالکان پر مقدمہ اور گرفتار کریں، فرنس آئل اور امپورٹڈ کوئلے سے بجلی کی تیاری پر پابندی لگائیں.

    سینیٹر مشتاق احمد نے مزید کہا کہ بجلی کی چوری محکمہ واپڈا کی سہولت کاری سے ہوتی ہے بجلی چوری کو دہشت گردی کے برابر جرم قرار دے کر کھلے عام سزائیں دیں۔

  • بجلی کا بل : خاتون گھر کے حالات بتاتے ہوئے رو پڑی

    بجلی کا بل : خاتون گھر کے حالات بتاتے ہوئے رو پڑی

    کراچی : مہنگائی کی ستائی ہوئی خاتون اپنے حالات بتاتے ہوئے رو پڑی، خاتون کا کہنا تھا کہ بجلی کا بل بھریں یا بچوں کو روٹی کھلائیں۔

    پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت کے معاشی اقدامات کے بعد حالیہ دنوں میں پاکستان میں مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، خصوصاً بجلی کے بلوں نے شہریوں کی چیخیں نکال دی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام میں میزبان اقرار الحسن سے گفتگو کرتے ہوئے شہریوں نے دل کھول کر اپنے دُکھڑے سنائے اور بتایا کہ ہم کس طرح ان بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی ادائیگی کررہے ہیں۔

    ایک خاتون سے بتایا کہ کل بجلی کا بل جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے اور جیب میں پیسے نہیں کیونکہ میرے شوہر ٹھیلا لگاتے ہیں اور گردوں کا مریض ہونے کے باوجود رات تین بجے تک کام کرتے ہیں پھر بھی بجلی کے بل کے 12 ہزار روپے کا بندوبست نہیں ہورہا۔ان کا کہنا تھا کہ گھر میں صرف ایک پنکھا اور دو بلب جلتے ہیں جس کا بل 12 ہزار روپے آیا ہے۔

    ایک رکشہ ڈرائیور نے اپنی مالی حالت بتاتے ہوئے کہا کہ صبح 6 بجے گھر سے نکلا تھا اب تک صرف 50 روپے کمائے باقی سب پیٹرول اور دیگر اخراجات میں برابر ہوگئے، اس نے بتایا کہ میرے گھر کا بل 20ہزار روپے آیا ہے جبکہ گھر میں نہ فریج ہے نہ اے سی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی چیز کہ جس سے بل زیادہ آئے مگر بھی آگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے بجلی کے بل پھاڑ دیئے ہیں کہاں سے بھروں؟

  • بجلی کے بلز : شہباز شریف نے عوام سے سفاک جھوٹ بولا، مزمل اسلم

    بجلی کے بلز : شہباز شریف نے عوام سے سفاک جھوٹ بولا، مزمل اسلم

    پی ٹی آئی کے رہنما اور ماہر معاشیات مزمل اسلم نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے بجلی کی نئی قیمت سے متعلق عوام سے سفاک جھوٹ بولا تھا کہ نئی قیمتوں کا اطلاق 64فیصد عوام پر نہیں ہوگا۔

    فوکل پرسن برائے معیشت پاکستان تحریک انصاف مزمل اسلم نے مہنگائی کے حوالے سے خصوصی ویڈیو پیغام میں  سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے متعلق کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بجلی کی نئی قیمتوں کااطلاق64فیصدعوام پر نہیں ہوگا، اب کوئی ان سے پوچھے وہ 64 فیصد عوام کہاں ہے جن کے بجلی کے بل نہیں بڑھے؟ شہباز شریف نے عوام سے سفاک جھوٹ بولا۔

    مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں کا بوجھ مکمل طور پرعوام پر ڈال دیا گیا ہے، بڑے لوگ چوری کرتے ہیں ریکوری غریب عوام سے کی جاتی ہے، آج گھروں کے کرائے سے زیادہ بجلی بل آرہے ہیں، اس ماہ لوگ اپنی قیمتی چیزیں بیچ کر بجلی کے بل ادا کررہے ہیں، اگلے ماہ اور زیادہ بل آئے گا تو کیا لوگ گردے بیچیں گے؟

    انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی اس وقت تکلیف دہ حالات سے گزر رہاہے، پچھلے سال پورے ملک سے7 ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا، حالیہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ تقریباً 1300ارب روپے ہے، حکومت نے بغیر کسی تجزیے کے عوام پر 2200ارب روپے ڈال دیے۔

    پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ اگر مہنگائی کم ہونا اسے کہتے ہیں تو پرانے دنوں والی مہنگائی زیادہ بہتر ہے، ملک کا تو پتہ نہیں لیکن عوام کو پوری طرح دیوالیہ کردیا گیا ہے، پاکستان میں سب سے کم بجلی بلوچستان میں استعمال کی جاتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار سے پوچھا جائے کہ جاتے جاتے عوام کو جو مہنگائی کم ہونے کی جھوٹی خوشخبری دی تھی وہ نظر کیوں نہیں آرہی؟ ماضی کی حکومتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے سستی بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر توجہ نہیں دی، یہ بحرانی کیفیت وقتی نہیں مسلسل برقرار رہے گی جو پاکستان کا سب سے طویل بحران ہوگا۔

    مزمل اسلم نے بتایا کہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ کوئٹہ اور پشاور میں بجلی چوری ہوتی ہے، سچ تو یہ ہے بلوچستان کے عوام کو بجلی ملتی ہی نہیں ہے، بجلی چوری ہونے کا مجموعی حجم سب سے زیادہ پنجاب میں ہے، جس کی وجہ سے پوری قوم کو اضافی بجلی کی قیمتیں چکانی پڑتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایک سال میں 184 ارب ایل این جی پلانٹ کے کرایوں کی مد میں جانے ہیں، عوام سے اتنا ٹیکس اور بھاری قیمتوں کے باوجود صرف 100 یونٹ پر ریلیف دیا گیا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے ذاتی مفاد کیلئے سستی بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر توجہ نہیں دی، یہ بحرانی کیفیت وقتی نہیں مسلسل برقرار رہے گی جو پاکستان کا سب سے طویل بحران ہوگا۔

  • بجلی کے بھاری بل، نگراں وزیر اعظم نے اہم قدم اٹھا لیا

    بجلی کے بھاری بل، نگراں وزیر اعظم نے اہم قدم اٹھا لیا

    اسلام آباد: نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے بجلی کے بھاری بلوں کے معاملے پر کل ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق بجلی کے بھارے بلوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کام کر گیا، نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری پیغام میں کہا کہ بجلی کے بھاری بلوں کے معاملے پر کل ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔

     نگران وزیراعظم نے ٹوئٹ میں لکھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں اجلاس میں وزارت بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ لی جائیگی، صارفین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت کی جائےگی۔

    ملک بھر میں بجلی بلوں کیخلاف عوام سراپا احتجاج، شہر شہر ریلیاں

    واضح رہے کہ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کیخلاف ملک کے مختلف شہروں میں عوام کا احتجاج جاری ہے ،شہر شہر ریلیاں نکالی جارہی ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے، اضافی ٹیکس واپس لیئے جائیں ورنہ احتجاج جاری رہے گا۔

    مظاہرین کا کہنا ہے پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں، بجلی کے بلوں نے گزارا مزید مشکل کردیا، گھرکی اشیا بیچ کربجلی کے بل جمع کرانے پرمجبور ہیں۔