Tag: Employment Opportunities

  • سی پیک منصوبوں میں روزگار کے وسیع مواقع

    سی پیک منصوبوں میں روزگار کے وسیع مواقع

    اسلام آباد : سرمایہ کاری بورڈ حکام نے کہا ہے کہ سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز پاکستان میں تیزی سے صنعت کاری کو فروغ دینے کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔

    ان کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے پہلے مرحلے میں سی پیک کے منصوبے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور توانائی کے منصوبوں پر مشتمل تھے۔

    اس کے بعد جوں جوں سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا جارہا ہے اس میں تیزی سے خصوصی اقتصادی زونز قائم کیے جا رہے ہیں جن سے صنعتی یونٹس قائم ہونے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع  بھی پیدا ہوں گے اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔

    سرمایہ کاری بورڈ حکام کے مطابق خصوصی اقتصادی زونز میں مراعات کی فراہمی سے صنعتی ترقی کو فروغ اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ مقامی صنعت کو خصوصی اقتصادی زونز میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے برابر مراعات اور چھوٹ پر بھی بات چیت ہورہی ہے۔

  • سعودی عرب میں روزگار کے نئے مواقع : حکومت کا بڑا فیصلہ

    سعودی عرب میں روزگار کے نئے مواقع : حکومت کا بڑا فیصلہ

    ریاض : سعودی وزیر افرادی قوت و سماجی بہبود انجینیئر احمد الراجحی نے کہا ہے کہ نگراں اداروں کے تعاون سے مزید 6 پیشوں اور  سرگرمیوں کی سعودائزیشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق نئے فیصلے کے تحت شہری ہوا بازی کے لائسنس، آپٹکس، فحص دوری (گاڑیوں کے سالانہ انسپیکشن)، پوسٹل سروس آؤٹ لیٹس اور پارسل ٹرانسپورٹیشن، کسٹمر سروس، سیلزآؤٹ لیٹس کے پیشے سعودیوں کے لیے مختص کردیے گئے۔

    سعودی وزیر افرادی قوت کا کہنا ہے کہ نئےفیصلے پر مملکت کے مختلف علاقوں میں عمل کرایا جائے گا، لیبر مارکیٹ میں سعودیوں کی شرکت کا معیار بلند کیا جائے گا۔ اقتصادی نظام میں ان کی شراکت بہتر بنائی جائے گی۔ ان فیصلوں کی بدولت33 ہزار سے زیادہ سعودیوں کو روزگار ملے گا۔

    شہری ہوابازی کے لائسنس والے پیشوں کی سعودائزیشن کا فیصلہ دو مراحل میں نافذ ہوگا۔ پہلے مرحلے کی شروعات 15 مارچ 2023 سے ہوگی۔ اس کے تحت معاون پائلٹ، ایئر ٹریفک کنٹرولر اور فلائٹ اٹینڈنٹ (سو فیصد)، ایئر ٹرانسپورٹ پائلٹ (60 فیصد)، ایئر ہوسٹس (50 فیصد) کی سعودائزیشن ہوگی۔

    دوسرے مرحلے کی شروعات 4 مارچ 2024 سے ہوگی۔ اس کے تحت ایئر ٹرانسپورٹ پائلٹ (70 فیصد) اور ایئرہوسٹس(60 فیصد) تک سعودائزیشن کی جائے گی۔

    وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پرائیویٹ سیکٹر کے ان تمام اداروں پر لاگو ہوگا جن میں 5 یا اس سے زیادہ اہلکار ایئر لمیٹڈ پروفیشن میں کام کررہے ہوں گے۔

    اہلکاروں کے لیے ان پیشوں پر کام کرنے کے لیے محکمہ شہری ہوابازی سے پروفیشنل منظوری لینا ہوگی۔ اس فیصلے سے 4 ہزار سے زیادہ سعودیوں کو روزگار ملے گا۔

    آپٹکس کے پیشوں کی سعودائزیشن کے فیصلے پرعمل درآمد 18 مارچ 2023 سے شروع ہوگا، پچاس فیصد سعودی ملازم رکھے جائیں گے۔

    سعودی مارکیٹ میں سرگرم پرائیویٹ سیکٹر کے تمام اداروں میں اس کا نفاذ ہوگا، ایسا وہ ہر ادارہ جس کے کارکنان کی تعداد چار یا اس سے زیادہ ہوگی اس میں پچاس فیصد سعودیوں کی تقرری لازمی ہوگی۔

    اس کے تحت نظر کے چشموں کے ٹیکنیشن، فزیکل لیب ٹیکنیشن، روشنی، آپٹکس اور آپٹکس ٹیکنیشن کے پیشے اس میں شامل ہوں گے۔

    ان پیشوں پر کام کرنے والوں کے لیے سعودی اہلکاروں کو ہیلتھ سپیشلسٹ کونسل سے پیشہ ورانہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا جن پیشوں کی سعودائزیشن کا فیصلہ کیا گیا ہے ان میں سے ہر ایک پر کم از کم تنخواہ 5500 ریال رکھی گئی ہے۔

    اس سے مملکت کے مختلف علاقوں میں ایک ہزار سے زیادہ مقامی شہریوں کو روزگار ملے گا، فحص دوری کی سعودائزیشن کا فیصلہ دو مراحل میں نافذ ہوگا۔ پہلے مرحلے میں پچاس فیصد اور دوسرے مرحلے میں سو فیصد سعودائزیشن کی جائے گی۔

    اس حوالے سے (سائٹ مینیجر، اسسٹنٹ مینیجر، کوالٹی مینیجر، فنانشل سپروائزر، سائٹ سپروائزر، ٹریک ہیڈ، انسپکشن ٹیکنیشن، انسپکشن ٹیکنیشن اسسٹنٹ، مینٹیننس ٹیکنیشن، انفارمیشن ٹیکنیشن اور ڈیٹا انٹری) کے پیشے نمایاں ترین ہیں جن کی سعودائزیشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    اس سیکٹر کی سعودائزیشن سے12 ہزار سے زیادہ مقامی شہریوں کو روزگار ملے گا۔ عمل درآمد کا آغاز اب سے ایک سال بعد کیا جائے گا۔

    وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود نے چھ شعبوں کی سعودائزیشن کے فیصلوں پرعمل درآمد کی حکمت عملی بھی جاری کی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں اور مالکان کو تفصیلات سے آگاہ کردیا گیا ہے۔

  • کویت: غیرملکیوں کی ملازمت سے متعلق اہم خبر

    کویت: غیرملکیوں کی ملازمت سے متعلق اہم خبر

    کویت سول سروس کمیشن نے ملحقہ سرکاری ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ مزید کسی غیر کویتی کی تقرری کی درخواست نہ کریں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق کویت سول سروس کمیشن (سی ایس سی) نے اپنی ملحقہ سرکاری ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ مزید کسی غیر کویتی کی تقرری کی درخواست نہ کریں اور کمیشن کی قرار داد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملازمتوں کی کویتیائزیشن کے بارے میں سال 2017 کی سول سروس کمیشن کی قرارداد نمبر11 پر عملدرآمد کیا جائے۔

    کویت کے سول سروس کمیشن نے متعلقہ حکام کو یہ خط مختلف سرکاری اداروں بشمول وزارت اوقاف اور اسلامی امور کی جانب سے غیر کویتی افراد کی تقرریوں کیلیے متعدد درخواستیں موصول ہونے کے بعد لکھا ہے جنہیں بعد ازاں مسترد کردیا گیا تھا۔

    سول سروس کمیشن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غیر کویتی کی تقرری کی کوئی بھی درخواست جو سی ایس سی کے فیصلے میں بیان کردہ فیصد سے زیادہ ہے وہ خلاف ضابطہ ہے۔

    کمیشن نے اپنے خط میں اس بات کا بھی اشارہ دیا ہے کہ فیصلے کے مطابق کویتیائزیشن کی مقرر کردہ فیصد حاصل کرنے کی مدت رواں سال 26 اگست کو ختم ہورہی ہے اسی لیے قانون ساز نے حکام کو پابندی کیا ہے کہ وہ غیر کویتی ملازمین کی تعداد کو سالانہ اس حد تک کم کریں جب تک کہ کویتی ملازمین کی تعداد مقرر کردہ فیصد تک نہ پہنچ جائے۔

  • سعودی عرب : فیکڑیوں میں روزگار کے نئے مواقع

    سعودی عرب : فیکڑیوں میں روزگار کے نئے مواقع

    ریاض : سعودی وزارت صنعت ومعدنیات نے دسمبر2021 کے دوران 3.2 ارب ریال سے زیادہ سرمائے والی 80نئی فیکٹریوں کے لائسنس جاری کیے ہیں۔

    الاقتصادیہ کے مطابق مملکت میں فیکٹریوں کی مجموعی تعداد دس ہزار 293 تک پہنچ گئی ہے، صنعتی و معدنیاتی معلومات کے قومی مرکز نے رپورٹ میں بتایا کہ جن نئی فیکٹریوں کے لائسنس جاری کیے گئے۔

    ان کمپنیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق کاغذ اورغذائی اشیاء سے ہے، کاغذ اور غذائی اشیاء کی 24 اور معدنیات کی11فیکٹریاں قائم کرنے کے لیے لائسنس جاری ہوئے ہیں۔

    اس حوالے سے قومی مرکز کا کہنا ہے کہ 90 فیصد لائسنس مقامی شہریوں نے حاصل کیے جبکہ 3.75 فیصد لائسنس مشترکہ فیکٹریوں کے لیے جاری کیے گئے۔6.25 فیصد لائسنس غیرملکی سرمایہ کاروں کو دیے گئے ہیں۔

  • جرمنی میں روزگار کے مواقع، ہنرمند افراد کم پڑگئے

    جرمنی میں روزگار کے مواقع، ہنرمند افراد کم پڑگئے

    برلن : جرمنی میں اس وقت 34 ملین افراد مستقل ملازمت کر رہے ہیں جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے لیکن دوسری طرف افرادی قوت کی کمی کے باعث خالی آسامیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی کو ہر سال بیرون ملک سے چار لاکھ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، جرمنی میں ہنرمندوں کی شدید ضرورت ہے۔

    اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ضعیف افراد کی آبادی بڑھ رہی ہے اور نوجوان آبادی کم ہونے کے باعث مارکیٹ میں کام کرنے والے افراد اتنی تعداد میں دستیاب نہیں جتنی ضرورت ہے، ہر برس مزید کمپنیاں ہنر مند افراد کی کمی کی شکایت کر رہی ہیں جوکہ جرمنی کی معیشت کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

    برٹلسمان فاؤنڈیشن کے ایک سروے سے معلوم ہواہے کہ صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے، اس برس ساڑھے سات ہزار کمپنیوں میں سے 66 فیصد نے شکایت کی کہ انہیں ہنر مند افراد کی کمی کا سامنا ہے جب کہ گزشتہ برس55 فیصد کمپنیوں نے یہی شکایت کی تھی۔

    سالانہ چار لاکھ افراد کی ضرورت
    خالی آسامیوں اور انڈسٹری کی صورت حال کا انحصار مختلف علاقوں، شعبوں، تعلیمی اور پروفیشنل قابلیت کے اعتبار سے مختلف ہے لیکن جب کسی کمپنی سے پوچھا جائے کہ وہ کیسے ہنرمندوں کو تلاش کر رہے ہیں تو ہردو میں سے ایک کا جواب ہوتا ہے کہ ایسے ہنرمند جنہوں نے "ووکیشنل تربیت” کا کورس کر رکھا ہو۔ اسی طرح ایک چوتھائی کمپنیوں کو ڈگری یافتہ افراد کی تلاش بھی ہے۔

    شعبوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو دیکھ بھال کرنے والوں اور صحت کا شعبہ خاص طور پر ہنرمند افراد کی قلت کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ جرمن دفتر روزگار کے سربراہ ڈیٹلیف شیلے نے رواں برس اگست میں بتایا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جرمنی میں لیبر ختم ہو رہی ہے۔

    صحت کا محکمہ ہو یا ایئر کنڈیشنر سے متعلق ٹیکنیشین، ہر شعبے میں ہنرمندوں کی شدید ضرورت ہے۔ شیلے کا یہ بھی کہنا تھا کہ روزگار کی منڈی میں ہنرمندوں کی کمی پوری کرنے کے لیے ہرسال کم از کم چار لاکھ افراد بیرون ممالک سے جرمنی لانا پڑیں گے۔

    ملازمت کے لیے لوگ کیوں نہیں ملتے؟
    عملی طور پر دیکھا جائے تو زیادہ تر جرمن کاروباری ادارے اور کمپنیاں اب بھی مختلف وجوہات کی بنا پربیرون ممالک سے لوگوں کو ملازمت پر رکھنے سے کتراتے ہیں۔ برٹلسمان فاؤنڈیشن کے تازہ سروے کے مطابق صرف سولہ فیصد کمپنیاں ہی دوسرے ملکوں سے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہیں۔ زیادہ تر کمپنیوں کی کوشش ہےکہ وہ مقامی افراد کو ہی اپنی جانب راغب کریں اور اس سلسلے میں وہ انہیں کئی طرح کی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

    جرمن زبان سب سے بڑا مسئلہ
    جرمنی نے یکم مارچ سال2020 سے ایک نیا قانون متعارف کروایا تھا جس کا مقصد یورپی یونین کے باہر سےتعلیم یافتہ اسپیشلسٹ افراد کے لیے جرمنی آ کر کام کرنے کا عمل آسان بنانا تھا۔ اس کے باوجود اب بھی کئی کمپنیاں غیر ملکیوں کو بھرتی کرنے سے گریزاں دکھائی دے رہی ہیں۔

    سروے کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ جرمن کمپنیاں ایسا کیوں کر رہی ہیں تو یہ بات سامنے آئی کہ سب سے بڑی رکاوٹ جرمن زبان ہے اور اس کے بعد بڑی مشکل بیرون ممالک سے حاصل کی گئی تعلیمی سندوں کی تصدیق ہے۔

    جن اداروں نے بیرون ممالک سے افراد کو ملازمت پر رکھا بھی، ان کے لیے بھی ایسے افراد کی جرمن زبان سے واقفیت نہ ہونا مسئلہ رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں سے لوگوں کو جرمنی لانے کا پیچیدہ عمل بھی کمپنیوں کو ایسا کرنے سے روکتا رہا۔

    جرمنی میں کام کرنا آسان بن رہا ہے
    برٹلسمان فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق نیا قانون متعارف کرائے جانے کے بعد بیرون ممالک سے ہنرمند افرادکو جرمنی آنے کے لیے ترغیب دینا آسان بھی ہوا ہے۔ جرمنی میں ملازمت کے لیے خصوصی ویب سائٹ بھی بنائی گئی جس سے غیرملکیوں کو ملازمت کے لیے درکار قابلیت اور دیگر متعلقہ معلومات تک رسائی آسان بنائی جا رہی ہے۔

    جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 67 فیصد جرمن کمپنیوں کو اب بھی اندیشہ ہے کہ آئندہ برسوں میں بیرون ممالک سے وہ اتنے ہنرمند افراد جرمنی نہیں لا پائیں گے جتنی انہیں ضرورت ہے۔

    مائیگریشن امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس متعارف کرائے گئے "سکلڈ مائگریشن ایکٹ” پر تسلسل کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوسرے ممالک سے حاصل کی گئی تعلیمی اسناد کی تصدیق کا عمل آسان بنانا بھی ضروری ہے۔

    اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی پیش کی جا رہی ہے کہ جرمنی دیگر ممالک کے ساتھ "ٹریننگ پارٹنر شپ” پروگرام بھی شروع کرے۔ 57 فیصد جرمن کمپنیوں کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے غیر ملکی ہنرمند افراد کو  جرمنی میں ملازمت پر رکھنے کا مرحلہ مزید آسان ہوسکتا ہے۔

  • سعودی عرب میں روزگار کے مواقع بڑھنے کا امکان

    سعودی عرب میں روزگار کے مواقع بڑھنے کا امکان

    ریاض : سعودی عرب کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محمد الصبان نے امید ظاہر کی ہے کہ غیرملکی کارکنان کی لاگت بڑھ جانے کا فائدہ سعودیوں کو ہوگا اور ان کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

    ڈاکٹر محمد الصبان کے مطابق 2030 تک بے روزگاری کی شرح 7 فیصد تک لانے کا ہدف پورا ہوجائے گا اور رفتہ رفتہ سعودی کارکن مختلف شعبوں میں غیرملکی ملازمین کی جگہ لے لیں گے۔

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈاکٹر محمد الصبان نے کہا کہ جیسے جیسے غیرملکی کارکنان کی لاگت بڑھے گی اور ان کی درآمد کی راہ میں دشواریوں میں اضافہ ہوگا ویسے ویسے سعودی کارکنان کی طلب مارکیٹ میں بڑھتی چلی جائے گی۔

    الصبان نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ سعودی خواتین میں بے روزگاری کی شرح میں کمی نے ثابت کردیا ہے کہ خواتین کو روزگار دلانے کے لیے مختلف شعبوں کے دروازے کھولنے کا سرکاری فیصلہ درست تھا۔

    حکومت نے دینی تعلیمات کے دائرے میں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرکے مناسب اقدام اٹھایا، اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی اور بڑی تعداد میں غیرملکی کارکنان کی برطرفی سے سعودیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

    ڈاکٹر محمد الصبان نے مزید کہا کہ کورونا بحران ختم ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر سعودیوں کو ملازمتیں ملیں گی۔ سرکاری اور غیرسرکاری منصوبے دوبارہ شروع ہوں گے۔

    ماہر اقتصادیات کا کہنا تھا کہ بیرونی سرمایہ کار مملکت آئیں گے۔ 2030 تک مملکت میں بے روزگاری کی شرح گھٹ کر 7 فیصد یا اس سے بھی کم رہ جائے گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ بہت سارے غیرملکی کارکنان کی چھٹی کردی گئی ہے ان میں سے اچھی خاصی تعداد مملکت کو خیر باد کہہ چکی ہے، ان کی جگہ سعودی کارکنان آئیں گے تو اس سے سعودی اور غیرملکی کارکنان کے درمیان موجود خلیج مزید کم ہوگی۔