پنجاب اور سندھ کے دریائی علاقوں میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں کئی دہائیوں سے موجود ہیں، جنہیں کچے کے ڈاکو کہا جاتا ہے۔
ان میں رحیم یار خان دیگر کی نسبت زیادہ خطرناک علاقہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہاں ڈاکو انتہائی دیدہ دلیری سے اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرتے ہیں۔
ان ڈاکوؤں کیخلاف اب تک ایسا فیصلہ کن آپریشن کیوں نہ کیا گیا کہ ان کی مکمل بیخ کنی اور سرکوبی کی جاسکے اس قسم اور دیگر سوالات بھی ہیں جو عوام کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں۔
ان ہی سوالات کے جوابات کیلیے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے رحیم یار خان جا کر ڈی پی او عرفان سموں سے ملاقات کی اور ان سے کچے کے علاقے اور اس کے ڈاکوؤں سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے بتایا کہ کچے کا علاقہ دریاؤں کے کنارے واقع ہوتا ہے، خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں۔ یہ علاقہ ہموار اور زرخیز ہوتا ہے لیکن بارشوں کے موسم میں سیلاب کی زد میں آسکتا ہے۔
مقابلے کے دوران ایک گولی میرے سر میں لگی لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ پولیس اہلکار کا جذبہ قابل دید
کچے کے علاقے میں ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس اہلکار کا جذبہ قابل دید تھا، ٹیم سرعام سے گفتگو کرتے ہوئے اس جانباز سپاہی نے بتایا کہ ہم اپنی ڈیوٹی جہاد سمجھ کر ادا کرتے ہیں، اہلکار نے بتایا کہ ڈاکوؤں سے مقابلے کے دوران ایک گولی میرے سر میں لگی اور دوسری مرتبہ سر پھٹ گیا تھا جس میں 17 ٹانکے آئے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور آج بھی ڈیوٹی پر موجود ہوں۔ اہلکار نے بتایا کہ اس مقابلے میں پولیس کے 5 جوان شہید ہوئے تھے۔
ڈی پی او عرفان سموں نے بتایا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران مختلف آپریشنز میں 33 ڈاکو ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے ہیں اس کے علاوہ وہ خطرناک ڈاکو جن کے سروں کی بھاری قیمتیں مقرر تھیں انہیں بھی بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے۔