Tag: encroachments case

  • سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے  اور ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنےکا حکم دے دیا اور  سڑکوں پرپولیس اور رینجرز کی چوکیاں بنانےپر  برہم ہوتے ہوئے آئی جی اور ڈی جی رینجرز کونوٹس جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی ، اٹارنی جنرل کی پیش رپورٹ پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا، جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہا دستخط کیا کسی پٹے والے کے ہیں، سیکریٹری  دفاع دستاویزات پر دستخط کریں، سیکریٹری دفاع نے دستاویزات پردستخط کردیے۔

    جسٹس گلزار نے استفسار کیا عدالتی احکامات پرعمل کیوں نہیں ہوا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا سپریم کورٹ کا حکم ہے، مجھے وضاحت کا موقع دیا جائے، آپ ہمیں وقت دیں سروے کروالیتے ہیں تو جسٹس گلزاراحمد نے کہا حکومت کام کرنا چاہے تو 5 منٹ لگتے ہیں۔

    جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس میں کہا شادی ہال چل رہے ہیں، نہیں ہٹائیں گے تو دوسرے کیسے عمل کریں گے، وزیر بلدیات کہتے ہیں میں عدالتی حکم پر عمل نہیں کروں گا، یہ لوگ عدالت سے جنگ کرناچاہتے ہیں، کہاں ہیں وہ بلدیاتی وزیر جو کہتے ہیں ایک عمارت نہیں گرائیں گے، مئیر کراچی بھی کہتے پھر  رہےہیں ہم عمارتیں نہیں گرائیں گے۔

    کہاں ہیں وہ بلدیاتی وزیرجوکہتےہیں ایک عمارت نہیں گرائیں گے، جسٹس گلزار

    دوران سماعت سینئیر وکیل رشید اے رضوی اور بینچ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، رشید اے رضوی کا کہنا تھا 72 سالہ تاریخ میں تو کسی نے نہیں پوچھا،  جسٹس گلزاراحمد نے کہا چلیں آج تاریخ بدلتے ہیں،رشید اے رضوی نے سوال کیا واٹر بورڈ اپنی زمین کیسے کسی کو فروخت کرسکتاہے؟ جس پر جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا زمین خود حکومت نے دی ہے، ہرادارے نے اپنی زمین ملازمین کو بانٹ دی ہیں۔

    ملٹری لینڈاور کنٹونمنٹس سےتجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ نے ملٹری لینڈ پر شادی ہالز اور تجارتی سرگرمیوں پرسیکر یٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کردی اور ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم دیا اور شادی ہالزاور تجارتی مراکز گرانے کے حکم پر فوری عمل کا بھی حکم دیا۔

    کالا پل پر گلوبل مارکی اور واٹر بورڈ آفیسرز کلب کے انہدام پر درخواستیں بھی مسترد کردیں اور ناقص رپورٹ پر سپریم کورٹ کی سیکریٹری دفاع کی سرزنش کی۔

    سعیدغنی کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری

    ،تجاوزات کے خلاف آپریشن سےمتعلق بیان دینے پر عدالت وزیر بلدیات اورمیئرکراچی پر برہم کا اظہار کیا ، جسٹس گلزار احمدنےصوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کی تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے سعید غنی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، محمود اختر نقوی نے ریمارکس میں کہا سعید غنی نے عدالتی حکم کے خلاف  تقریر کی، عملدرآمد نہ کرنے کا اعلان کیا۔

    کراچی میں سترفیصدتعمیرات غیر قانونی ہیں، جسٹس گلزار

    ،جسٹس گلزار نے اپنے ریمارکس میں کہا کراچی میں ستر فیصد تعمیرات غیر قانونی ہیں، کراچی کے جتنے پارکس تھے شہیدوں کے نام کردیئے گئے ، جس پر  اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا شہید کا تو بڑا رتبہ ہوتا ہے ،شہید کےلیےتو بڑی سخت شرائط ہیں تو جسٹس گلزار نے کہا شہدا کا بڑا رتبہ ہوتا ہے اللہ کرے ہم بھی ہو جائیں ، آپ کا مطلب میں مارا جاؤں توشہید نہیں ہوں گا ؟

    یونیورسٹی روڈ کی کھدائی پر سپریم کورٹ نے اظہار برہمی

    سماعت میں یونیورسٹی روڈ کی کھدائی پر سپریم کورٹ نے اظہار برہمی کیا، جسٹس گلزار احمد نے کہا ایک سال پہلے کارپٹنگ ہوئی تھی دوبارہ کیوں اکھاڑ  دیا، آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے، روڈ توڑنے سے لاکھوں شہری متاثر ہورہے ہیں۔

    وکیل میونسپل سروسز نے بتایا کےالیکٹرک کی زیر زمین کیبل بچھائی جارہی ہے، جس پرجسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے پہلے کے الیکڑک کو کیوں خیال نہیں آیا، الٰہ دین پارک کے ساتھ پلازہ کس کا اور کس کی زمین پر بن رہا ہے، کتنے پلازے بن رہے ہیں اور بنے ہی جارہے ہیں، الٰہ دین پارک کا کمرشل استعمال کیا جارہا ہے۔

    جسٹس گلزار نے ڈی جی کے ڈی اے سے استفسار کیا اسکے پاس سے گزریں تو کراہیت آتی ہے، ڈرائیو ان سینما ختم کردیا گیا آپ نے نہیں روکا، اس جگہ پر اتنا بڑا پلازہ بن گا کہ اب سانس لینا بھی مشکل ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا مئیر صاحب آگے آجائیں، مئیر کراچی نے بتایا جوہر میں مال میں آگ لگی رہائشی علاقہ ہونے سے مشکلات ہوئی، مجھے بھی ایسی مشکلات کا سامنا ہے، جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا جب ہی آپ نے اپنا سیاسی جنازہ نکال لیا ہے۔

    جسٹس گلزار کا ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا ملیر روڈ کو آپ نے کیا بنایا کیا کیا اسکا؟ آپ نے پورا شہر بیچ دیا کتنا پیسہ چاہیے؟ دبئی لندن میں پراپرٹی بنالی نہ وہاں رہ سکتے ہو، نہ کھا سکتے ہو، نہ وہاں کا موسم یہاں لاسکتے ہیں، آپ نے طارق روڈ دیکھا،ساراکچراوہاں ڈمپ ہورہاہے، کسی پلازے والے نے پارکنگ ایریا نہیں بنایا۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا شہر سے باہر نکلنے میں 3 گھنٹے لگتے ہیں، کراچی میگا سٹی کے معیار پر نہیں اترتا، روڈ سسٹم تباہ ہوگیا ہے، 1950 سے اب تک کے تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں۔

    تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں

    وسیم اختر نے اظہار بے بسی کرتے ہوئے کہا میرے پاس کوئی ماسٹر پلان نہیں، ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا ہمارے پاس ماسٹر پلان ہے، جس پر جسٹس  گلزار احمد نے کہا تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں اور یہ بھی بتائیں کس ماسٹر پلان میں کس کی ہدایت پر کب تبدیلی کی گئی، یہ بھی بتائیں کون سی رہائشی عمارت کو کب ، کس کےکہنے پرکمرشل کیا۔

    جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا حکومت نے ملیر ندی پر متبادل سڑک بنانے کا اعلان کیا تھا؟ جس پراٹارنی جنرل نے بتایا ملیرندی پرسڑک ایسی نہیں ہوگی جیسے لیاری ایکسپریس وے بنایا گیا ہے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا سپریم کورٹ نے لیاری ایکسپریس وے بنانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا، لیاری ایکسپریس وے کا بھی ٹھیک سے استعمال نہیں ہورہا، جتنا خرچہ لیاری ایکسپریس وے پر ہوا اتنا اس سےفائدہ نہیں ہورہا، میں بھی اکثر وہیں سے گزرتا ہوں،سڑک پرہرطرف سناٹاہوتاہے، اب تو لیاری ایکسپریس وے کی زمین پر بھی قبضہ ہورہا ہے۔

    تجاوزات کےخاتمےسےمتعلق سماعت میں جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری دفاع سے استفسار کیا آپ کو انگریزی نہیں آتی؟ سیکریٹری دفاع نے جواب دیا جی سر انگریزی سمجھتاہوں، تو جسٹس گلزاراحمد نے کہا رپورٹ پر دستخط کیوں نہیں کیے؟ ابھی دستخط کریں، عدالت کےحکم پرسیکریٹری دفا ع نےدستخط کردیں۔

    جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس میں کہا رپورٹ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، توہین عدالت کی کارروائی کیلئے آرٹیکل 204 موجود ہے رشید اے رضوی نے کہا ، میری بھی درخواستیں ہیں وہ سن لیں، جس پر جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا آپ خاموش ہوجائیں پہلےاٹارنی جنرل سےبات کرنے دیں۔

    جسٹس گلزاراوررشیدرضوی کےدرمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا،جسٹس گلزار نے کہا آپ لوگوں نے اپنا گھر بھی اسٹیک پر لگا دیا ہے ، میں تو کہیں بھی چھپرا ڈال کررہ لوں گا اپنی سوچیں۔

    کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے کا حکم

    دوران سماعت سپریم کورٹ نے سیکریٹری ریلوے کو کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے اور ریلوے اراضی سےہر حال میں 2ہفتے میں تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا، عدالت نے سوال کیا آپ کو معلوم نہیں ہمارا کیا حکم تھا ؟ابھی تک عمل کیوں نہیں ہوا، چیف سیکریٹری کو میئر کراچی اور دیگر حکام کے ساتھ مل کر آپریشن کرنے کا حکم دیا۔

    :تجاوزات کیس میں جسٹس گلزار نے استفسار کیا لائنز ایریا پراجیکٹ والے کیا کررہے ہیں ؟ آپ نے حالت دیکھی ہے کیا حشر کیا ہے، یونیورسٹی روڈ اور سوک  سینٹر کی کیا حالت ہے ، ڈی جی لائنز ایریا نے بتایا مالی معاملات کے باعث پریشانی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا فالتو ملازم بھرتی کیےان کو کم کریں مسئلہ حل ہو جائے گا، حسن اسکوائر کےسامنے دیوارگرادی توایمبولینس کھڑی کردی گئی، جس پر ڈی جی لائنز ایریا نے کہا سر ہٹانے کی کوشش کریں گے ،ڈی جی لائنز ایریا

    عدالت نے ریمارکس دیے سرکاری اداروں کے حالت بری ہے ، سرکاری افسرگاؤ تکیےاور پاندان لے کر آرام کرہے ہوتے ہیں ، جو آتا ہے وہ تکیےکے نیچے کچھ رکھ دیتا ہے کام ہوجاتا ہے ، میں نے یہ حالت ان کے ٹیکس آفس میں دیکھی ہے ، تب سے انکم ٹیکس کا کیس نہیں لیا، آباد نے تو شہر کوبرباد کیا۔

    سڑکوں پر پولیس اوررینجرز کی چوکیاں اور تجاوزات قائم، ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو نوٹس جاری

    دو تلوار کے نزدیک ملٹری لینڈ پر کمرشل تعمیرات سے متعلق درخواست پر اہل علاقہ نے کہا دو ایکڑ رہائشی زمین کوتجارتی مقاصد کیلئے الاٹ کردیا گیا، جس پر عدالت نےاٹارنی جنرل سے کل رپورٹ طلب کرلی، جسٹس گلزاراحمد نے کہا اوشین ٹاوربھی غلط بناہے،پہلےرہائشئ عمارت تھی، کمرشل عمارت پی ایس اوپمپ کے سامنے عمارت بن رہی ہے۔

    تجاوزات کےخاتمےسےمتعلق کیس میں سڑکوں پر پولیس اوررینجرز کی چوکیاں اور تجاوزات قائم کرنے پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ڈی جی رینجرز اور آئی  جی سندھ کو نوٹس جاری کردیا اور رینجرز، پولیس اور دیگر اداروں سے مکمل رپورٹ طلب کرلی۔

    سماعت میں کراچی پیکیج کےتحت منصوبوں کیلئےکے آئی ڈی سی ایل کمپنی کے قیام پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کراچی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے قیام کی کیوں ضرورت پیش آئی؟

    سی ای او کے آئی ڈی سی ایل نے بتایا منصوبے کی تکمیل کے لیے وفاقی حکومت نے کمپنی کی بنیاد رکھی، کمپنی نے سرجانی سے گرومندر تک گرین لائن بس کا منصوبہ مکمل کردیا ہے، گرین لائن بس منصوبےپرمزید کام جاری ہے، کراچی کا بنیادی انفراسٹرکچر بنانے کی ذمہ داری تو مقامی حکومت کی ہے۔