ٹوکیو : دنیا بھر میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے حکومتیں ایسے اقدامات کو ترجیح دے رہی ہیں کہ جس سے ان کے عوام کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس سلسلے میں جاپانی حکومت گھرانوں اور کاروباری اداروں سے دسمبر سے بجلی بچانے کی اپیل کررہی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کی فراہمی کی صورت حال کی پیشگوئی ممکن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ سات سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت جاپان نے سردیوں کے موسم میں بچت کے لیے عوام سے اس طرح کی درخواست کی ہے۔
حکام کو توقع ہے کہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں تین فیصد کی ریزرو پاور سپلائی کی صلاحیت کی شرح کو حاصل کر لیں گی، جو ملک بھر میں مستحکم فراہمی کے لیے کم از کم درکار شرح ہے۔
تاہم، مائع قدرتی گیس کی خریداری کی لاگت بدستور زیادہ ہے۔ وہ روس کے یوکرین پر حملے کو زیادہ لاگت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
حکومت نے درخواست جاری کرنے کا باضابطہ فیصلہ منگل کے روز کیا۔ اس اقدام کے تحت گھرانوں اور کاروباری اداروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ دسمبر سے مارچ تک بجلی بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابقحکومت لوگوں سے درخواست کر رہی ہے کہ وہ گھر کے اندر زیادہ کپڑے پہنیں اور غیر ضروری روشنیاں بند کر دیں۔
حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کے تمام دفاتر میں ایک فیصد کی کٹوتی تقریباً ایک لاکھ گھرانوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہوگی۔ کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ لائٹس اور ایئر کنڈیشنر کا استعمال کم کریں۔
برسلز : یورپی ممالک میں ادویات کی قلت اور اس ان کی عدم دستیابی یورپی یونین اور پوری دنیا میں بڑھتے ہوئے مسائل کا بڑا سبب ہے، جس کی بڑی وجہ کوویڈ 19کی وباء ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر یورپ کی ادویہ ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے نتیجے میں ان پر بری طرح دباؤ تھا جس کے بعد اب توانائی اور ایندھن کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔
اس کے علاوہ ادویات کی ترسیل کے یورپی نظام کے بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے ادویات بنانے والے اہم ادارے یورپ سے نکلنے پر مجبور ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اگر یورپ میں توانائی کا بحران جاری رہا تو صرف وہی کمپنیاں اس براعظم میں رہنا چاہیں گی جنہیں یورپی ممالک کے قومی طبی نظام یا انشورنس مراکز سے رعایت حاصل ہوگی۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آپریشن اور طویل المدت علاج کی دوائیں تیار کرنے والی ادویہ ساز کمپنیاں ہی ایسے حالات میں یورپ میں رہنا پسند کریں گی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ عام ادویات اور اے پی آئی یعنی دواؤں کا خام مادہ تیار کرنے والی کمپنیوں نے بہت عرصے سے یورپ چھوڑ کر ہندوستان اور چین سمیت مشرق کا رخ کیا ہے جہاں پیداوار کے اخراجات کافی حد تک کم ہیں۔
جینیرک دوائیں تیار کرنے والی دوا ساز کمپنی کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فی الحال یوکرین کی جنگ اور اس سے منسلک توانائی اور اقتصادی بحران نے یورپ میں ادویات کی پیداوار کے شعبے میں مصروف کمپنیوں کے لئے سنجیدہ خطرہ پیدا کردیا ہے۔
تیوا کمپنی کے ترجمان نے مزید بتایا ہے کہ یہ صورتحال اس بات کا باعث بنے گی کہ آئندہ پانچ سے دس سال کے اندر اینٹی بائیوٹک، جینیرک دواؤں اور کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات سمیت اہم دوائیں بنانے والی کمپنیاں یورپ سے نکل کر دنیا کے دوسرے ممالک کا رخ کریں۔
رپورٹ کے مطابق بتایا جا رہا ہے کہ توانائی کا یہ بحران ادویات کے شعبے میں یورپ کی خودکفالت کو بھی ختم کردے گا۔
لندن : برطانیہ کے عوام کفایت شعاری اختیار کرتے ہوئے توانائی کے اخراجات میں کمی کے لیے ایئر فرائیرز سلو کوکرز کے استعمال کو ترجیح دے رہے ہیں۔
انگلینڈ میں توانائی کے بحران کی صورتحال کے بعد برطانوی عوام تیل و گیس کی قلت کے پیش نظر روزمرہ کی ضروریات پورا کرنے کیلئے متبادل طریقے اختیار کررہے ہیں۔
اس حوالے سے غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں کھانا بنانے کیلئے ایئر فرائیرز اور سلو کوکرز کا استعمال زور پکڑ رہا ہے۔
لندن کی مقامی سپر مارکیٹ کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ برطانوی شہری توانائی کی بچت کرنے والی مصنوعات جیسے ایئر فرائیرز اور سلو کوکرز کی خریداری میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ایئر فرائیرز کی فروخت میں رواں سال 320 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ سلو کوکرز کی فروخت دگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے، یہ دونوں مصنوعات عام طور پر روایتی اوون کے مقابلے میں کم توانائی استعمال کرتی ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ (سی ای بی آر) کے اعداد و شمارکے مطابق برطانیہ میں شہریوں کی آمدنی و اخراجات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
اس کی اصل وجہ یوٹیلیٹی بلوں میں ہوشربا اضافہ ہے کیونکہ گیس کی قیمتوں میں95.7 فیصد اور بجلی کی قیمتوں میں 54 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ کے عوام مہنگائی کی شرح 10 فیصد تک پہنچنے کے ساتھ اخراجات پرقابو پانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں اور انہیں سال2023 میں مہنگائی کے سخت دباؤ کے امکان کا بھی سامنا ہے۔
روم : یورپی ملک اٹلی میں توانائی کا بحران شدت اختیار کررہا ہے تیل کے ذخائر بھی کم ہوتے جا رہے ہیں، اس صورتحال میں بجلی کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں۔
بجلی کے گھریلو صارفین کے بلوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے، روس کی جانب سے بھی اب ویسے گیس کی سپلائی جاری نہیں جیسے جنگ سے قبل کی جاتی تھی۔
اس حوالے سے غیرملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپ میں انرجی کا بحران جاری ہے، اٹلی میں بجلی کی قیمتیں 500فیصد بڑھا دی گئی ہیں جس سے عوام شدید ذہنی اذیت کا شکارہیں۔
خبر کے مطابق بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، مقامی ہوٹل، ریستورانوں اور گھروں میں بجلی کے بلب کے بجائے موم بتیاں جلانا شروع کردی گئی ہیں۔
اٹلی کی وزارت ماحولیاتی منتقلی کی جانب سے جاری کردہ ایک دستاویز کے مطابق اٹلی سردیوں کے موسم میں کوئلے کے استعمال کو بڑھا کر ملک بھر میں حرارت پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔
اس کے علاوہ قدرتی گیس کی کھپت میں کمی کو ہدف بنا رہا ہے چونکہ اٹلی کو توانائی کی درآمدات کے لیے ایک سال پہلے کی نسبت دگنی قیمت ادا کرنے کے امکان کا سامنا ہے۔
اس اقدام کے تحت اٹلی کا مقصد مارچ تک گیس کی کھپت میں 8.2 بلین کیوبک میٹر کی کمی کرنا ہے تاکہ یورپی یونین کے 15 فیصد کمی کے ہدف کو پورا کیا جاسکے۔
دنیا بھر میں توانائی کے بحران نے متعدد ممالک کو مجبور کردیا کہ وہ توانائی پیدا کرنے کے لیے دوبارہ جوہری ذرائع استعمال کریں، اس حوالے سے مختلف حلقوں میں منقسم آرا پائی جاتی ہیں۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی سطح پر توانائی کی درآمدی لاگت میں اضافے اور موسمیاتی بحران کے سبب تباہی کے پیش نظر دنیا بھر میں کئی ممالک جوہری توانائی میں دلچسپی اور متبادل ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جاپان میں 2011 کے فوکوشیما حادثے کے بعد جوہری توانائی میں سرمایہ کاری میں کمی آئی تھی (جو 1986 میں چرنوبل کے بعد دنیا کا بدترین جوہری حادثہ تھا) کیونکہ اس کی حفاظت کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے تھے اور حکومتیں خوفزدہ ہو گئی تھیں۔
تاہم فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد توانائی کی فراہمی میں کمی اور یورپ کی جانب سے روس کے تیل اور گیس پر انحصار میں کمی کی کوششوں کے بعد اب یہ رجحان واپس جوہری توانائی کے حق میں پلٹ رہا ہے۔
حکومتوں کو گیس اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور قلیل وسائل کی وجہ سے مشکل فیصلوں کا سامنا ہے جن کی وجہ سے رواں سال موسم سرما میں بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
چند ماہرین کا اب بھی خیال ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جوہری توانائی کو ایک آپشن کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیئے، لیکن دیگر کا کہنا ہے کہ بہت سارے بحرانوں کے پیش نظر اسے دنیا کے توانائی کے مرکب کا حصہ رہنا چاہیئے۔
جوہری توانائی پر نظر ثانی کرنے والے ممالک میں سے ایک جاپان ہے جہاں 2011 کے حادثے کے سبب حفاظتی خدشات کے باعث بہت سے جوہری ری ایکٹر معطل کر دیے گئے تھے۔
رواں ہفتے جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا نے ملک کی جوہری توانائی کی صنعت کو بحال کرنے اور نئے ایٹمی پلانٹس کی تعمیر پر زور دیا۔ جوہری توانائی سے دور ہونے کے خواہاں دیگر ممالک نے بھی ان منصوبوں کو فی الحال مختصر مدت کے لیے ترک کر دیا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے ایک ماہ سے بھی کم وقت کے بعد بیلجیئم نے 2025 میں جوہری توانائی کو ختم کرنے کے اپنے منصوبے کو ایک دہائی تک مؤخر کردیا۔
اس وقت 32 ممالک میں استعمال ہونے والی جوہری توانائی دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کا 10 فیصد فراہم کرتی ہے، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے 2011 کی تباہی کے بعد پہلی بار ستمبر میں اس حوالے سے اپنے اندازوں میں اضافہ کیا۔
آئی اے ای اے کی جانب سے اب توقع کی جارہی ہے کہ سازگار منظر نامے کے مطابق 2050 تک موجودہ جوہری توانائی کی پیداواری صلاحیت دگنی ہوجائے گی۔
منقسم آرا
بجلی کی طلب میں اضافے کے پیش نظر کئی ممالک نے کوئلے کے متبادل کے طور پر جوہری انفرا اسٹرکچر تیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس میں چین بھی شامل ہے جس کے پاس پہلے ہی سب سے زیادہ ری ایکٹر موجود ہیں، نیز جمہوریہ چیک، بھارت اور پولینڈ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
اسی طرح برطانیہ، فرانس اور نیدر لینڈز بھی یہی عزائم رکھتے ہیں، حتیٰ کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا سرمایہ کاری کا منصوبہ اس شعبے کی ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جوہری توانائی کا استعمال معاشرتی ترجیحات کی وجہ سے محدود ہوسکتا ہے کیونکہ تباہ کن حادثات کے خطرے اور تابکار فضلہ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے حل طلب مسئلے کی وجہ سے اس پر رائے منقسم ہے۔
نیوزی لینڈ سمیت چند ممالک جوہری توانائی کی مخالفت کرتے ہیں اور یورپی یونین میں بھی اس معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی ہے کہ اسے گرین انرجی کے طور پر شمار کیا جانا چاہیئے یا نہیں۔
گزشتہ ماہ یورپی پارلیمنٹ نے ایک متنازع تجویز کی منظوری دی تھی جس میں گیس اور جوہری توانائی میں سرمایہ کاری کو پائیدار مالیاتی لیبل دیا گیا۔
نیوکلیئر انفرااسٹرکچر کے حوالے سے دیگر مسائل بھی موجود ہیں جس میں لاگت اور تاخیر پر سختی سے قابو پاتے ہوئے نئے ری ایکٹر بنانے کی صلاحیت شامل ہے۔
لاہور: ملک بھر میں بجلی کا بحران جاری ہے، بجلی کے تقسیم کار اداروں کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کے طے کردہ شیڈول کے علاوہ بھی بجلی کی بندش معمول بن گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ملک میں بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار 500 میگا واٹ ہوگیا، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ بجلی کی طلب 29 ہزار اور پیداوار 21 ہزار 500 میگا واٹ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لیسکو کو تقریباً 800 میگا واٹ شارٹ فال کا سامنا ہے، لیسکو کی طرف سے ساڑھے 3 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔
تاہم سسٹم اوور لوڈ ہونے کے باعث بجلی کی غیر اعلانیہ بندش اور ٹرپنگ بھی جاری ہے، لوڈ میں کمی بیشی کی وجہ سے ٹرانسفارمرز اور میٹر جلنے کی سینکڑوں شکایات موجود ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قصبوں، دیہات اور ہائی لاسز فیڈرز پر لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 10 گھنٹے سے تجاوز کر چکا ہے۔
کوئٹہ: صوبہ بلوچستان میں بجلی کا بحران شدید صورت اختیار کر گیا، صوبے کے اکثر اضلاع میں صرف 5 سے 10 گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ بلوچستان میں بجلی کا شارٹ فال برقرار ہے، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو بجلی کے تقسیم کار ادارے، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کا کہنا ہے کہ صوبے میں بجلی کی طلب 22 سو میگا واٹ ہے۔
کیسکو ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت صرف 600 میگا واٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے اور بجلی کا شارٹ فال 16 سو میگا واٹ ہے۔
شارٹ فال کے باعث کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں طویل دورانیے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ جاری ہے، کوئٹہ میں 11 سے 13 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔
بلوچستان کے اکثر اضلاع میں صرف 5 سے 10 گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں موجودہ بجلی بحران کا ذمے دار سابق حکومت کو قرار دیتےہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے نہ بروقت ایندھن خریدا نہ پلانٹس کی مرمت کی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ نواز شریف حکومت نے 5 سال کی بدترین لوڈشیڈنگ کاخاتمہ کیا تھا۔
انہوں نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے نہ بروقت ایندھن خریدا اور نہ پلانٹس کی مرمت کی، لوڈ شیڈنگ اور ناکارہ پلانٹس سے عوام کو ماہانہ ایک سو ارب کا نقصان ہو رہا ہے
Mian Nawaz Sharif’s govt ended the worst load-shedding in 5 years. PTI govt neither purchased fuel in time nor repaired power plants. Hence the current load-shedding. Costly power generation through inefficient plants is costing the people Rs.100 billion/month. We are fixing it.
کراچی: تھر کول انرجی منصوبے پر چالیس فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے‘ 4000 میگاواٹ کے اس منصوبے سے ابتدائی طور پر 660 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی‘ کام کی رفتار مقررہ وقت سے چار مہینے آگے چل رہی ہے۔
پراجیکٹ کے دورے کے موقع پر سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے ترجمان محسن ببر کا کہنا تھا کہ کوئلے سے بننے یہ بجلی نہ صرف ملک کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ اس منصوبے سے تھر کے عوام کو روزگار بھی میسر آئے گا جس سے علاقے میں غربت اور پسماندگی کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔
تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر کو 13 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس وقت بلاک ٹو میں کوئلے کے حصول کے لیے کھدائی کا کام جاری ہے‘ اب تک چھیاسی میٹر گہرائی میں کھدائی کی جاچکی ہے جبکہ کوئلے کے حصول کے لیے کمپنی کو کل 160 میٹر کی گہرائی تک کھدائی کرنی ہے۔
کوئلے کے ذخائر سے قبل کھارے پانی کا ایک بڑا ذخیرہ بھی زمین میں موجود ہے جسے اسی مقصد کے لیے تعمیرشدہ ’گھرانوڈیم‘ میں اکھٹا کیا جائے گا اور آر او پلانٹ کے ذریعے تھر کے عوام کے لیے قابلِ استعمال بنایا جائے گا‘ تاہم مقامی آبادی کی جانب سے ڈیم کی تعمیر پرخدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
کوئلے کی کان کا فضائی منظر
بلاک ٹو میں موجو د 1.57 ارب ٹن قابل استعمال کوئلہ تھر کے کل ذخیرے کا ایک فیصد ہے اور صرف اسی بلاک کے کوئلے سے آئندہ پچاس سال تک 5000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
کان کنی کے اس منصوبے میں 900 تھری باشندوں کو روزگار فراہم کیا گیا ہے جن میں 30 انجینئرز بھی شامل ہیں‘ اس کے علاوہ 400 چینی ورکرز بھی اس منصوبے پر کام کررہے ہیں۔
کوئلے کی کان پر جاری کام کے مناظر
تعمیراتی کام کی رفتار
تھر کول پراجیکٹ دراصل کئی مختلف پراجیکٹس کا مجموعہ ہے جو کہ کسی بھی توانائی کےمنصوبے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ پاور پلانٹ کے لیے8 ہزار ٹن کا اسٹیل اسٹرکچر تیار ہوچکا ہے اور اس پر مزید کام جاری ہے۔
بوائلر کے لیے واٹر پلانٹ کے دو ٹینک مکمل کیے جاچکے ہیں جبکہ ایڈمن بلاک کے دو فلور مکمل کرلیے گئے ہیں۔ پراجیکٹ پر مختلف اقسام کے استعمال کے لیے پانی کے لیے تالاب بنالیے گئے ہیں اور اس کے علاوہ کولنگ ٹاورز کی تعمیر کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔
پاور پلانٹ پر تعمیراتی کام جاری ہے
اس کے علاوہ بھی متعدد تکنیکی منصوبوں پر دن رات کام جاری ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر ان کے کام کی رفتار مقررہ وقت سے چار ماہ آگے ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ اکتوبر 2019 کے بجائے جون 2019 تک 660 میگا واٹ بجلی شروع کرسکیں گے۔
پاور پلانٹ سے ملحقہ دیگر پراجیکٹس
پاور پلانٹ منصوبے میں کام کرنے والے تھر کے مقامی باشندوں کی تعداد 381 ہے جبکہ875 چینی کارکن اس پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔
ماحولیات کا تحفظ
ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 180 میٹربلند ایک چمنی بھی تعمیر کی جارہی ہے جو 115 میٹر کی بلندی تک پہنچ چکی ہے‘ پاکستان کے ماحولیاتی قوانین کے مطابق اس نوعیت کی چمنی کی بلندی 120 میٹر طے کی گئی ہے تاہم عالمی قوانین کی روشنی اور ماحولیات کے تحفظ کی ضرور پیشِ نظراس منصوبے میں چمنی کی بلندی کو 180 میٹر رکھا گیا ہے۔
دھویں کے نکاس کے لیے بنائی گئی چمنی
اس کے علاوہ پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک انجینئر فرقان کا کہنا تھا کہ کوئلے کے پلانٹ سے پیدا ہونے والے دھویں میں سلفر کے زہریلے اثرات کو ختم کرنے کے لیے اس میں چونا ملایا جائے گا جبکہ 1 ملین درخت اگانے کا منصوبہ بھی جاری ہے تاکہ اس منصوبے کے ماحول پر اثرات کو کم سے کم رکھا جاسکے۔
مقامی آبادی کی بہبود
تھر کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے اور یہاں تعلیم‘ صحت اور روزگار کی صورتحال انتہائی مخدو ش ہے‘ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے تھر میں عوامی فلاح کے کئی منصوبے شروع کیے جارہے ہیں جن سے عوام کو ریلیف ملے گا۔
شاہد آفریدی فاؤنڈیشن او ر ’انڈس اسپتال- کراچی‘ کے تعاون سے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی اسلام کوٹ میں 100 بستروں پر مشتمل اسپتال کی تعمیر کا کام شروع کرچکی ہے۔
بلاک ٹو کے عوام کے لیے ماروی کلینک کے نام سے ایک زچہ بچہ ہیلتھ سنٹر بھی قائم کیا گیا ہے اور 80 فیصد آبادی کو یرقان سے بچاؤ کی ویکسین لگائی گئی ہے اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ دسمبر 2017 تک بلاک ٹو کو یرقان فری کردیا جائے گا۔
تھر میں تعلیم عام کرنے کے لیے ٹی سی ایف کے اشتراک سے اسکول قائم کیے جارہے ہیں جبکہ بلاک ٹو کے علاقے میں موجود سرکاری اسکولوں گود لے کر ان کی حالت بھی سنواری جارہی ہے۔
باہر سے عملہ بلانے کے بجائے مقامی لوگوں کو تربیت دے کر پراجیکٹ میں شامل کیا گیا ہے‘ جن میں ڈمپر ڈرائیور‘ کرین آپریٹر‘ ویلڈنگ اسٹاف‘ مکینکل ورکرز‘ الیکٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔
کان سے نکلنے والے پانی کو استعمال کرنے کے لیے کھارے پانی سے کاشت کا ابتدائی تجربہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں زرعی یونی ورسٹی کو تحقیق کی دعوت دی دی گئی ہے کہ وہ اس کام کو آگے بڑھائے تاکہ تھر میں قحط کے مسئلے کا سدِباب کیا جاسکے۔
تعمیراتی کام کی ویڈیو دیکھئے
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
کراچی: وزیراعظم نوازشریف نے حب میں آئل ریفائنری کا افتتاح کردیا، اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئل ریفائنری کی تعمیر بڑاکارنامہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق آج بروز جمعہ وزیر اعظم نوازشریف ملک کی سب سے بڑی آئل ریفائنری کا افتتاح کرنے کراچی پہنچے۔
آئل ریفائنری کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کو تعمیرو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ان کا عزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ کو خصوصی درجہ دیں گے اوراس پر قانون سازی بھی کریں گے۔
وزیراعظم نواز شریف نے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ملک میں آپریشن جاری رکھنے کا عزم ظاہرکیا، ان کا کہنا تھا کہ کراچی ائیرپورٹ پرحملے کے بعد دہشت گردوں سے مذاکرات کی گنجائش ختم ہوگئی تھی۔
ملک میں جاری توانائی بحران پر گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف کا کہنا تھا کہ دوہزارسترہ کے آخرتک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیا جائے گا۔