کراچی: شہر قائد میں اب ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی صنعتوں کے خلاف کارروائی ہوگی، غیر ٹریٹ شدہ فضلے کو سیوریج میں ڈالنے والی صنعتیں سیپا قوانین کی زد میں آئیں گی۔
ڈی جی ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ نعیم احمد مغل نے کہا ہے کہ کراچی کی تمام تجارتی اور صنعتی انجمنوں کو گندے پانی کی صفائی کے پلانٹ کی تنصیب کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے، اور سیپا قوانین کا اطلاق بحیرہ عرب میں غیر ٹریٹ شدہ فضلے کے اخراج کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا گندہ اور صنعتی پانی سمندری ماحولیاتی نظام اور حیات کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے، سندھ ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 2014 کا سیکشن 11 تمام صنعتوں، کاروبار اور دیگر اداروں کو ہوا، پانی اور زمین کی آلودگی سے بچانے کا پابند بناتا ہے، جب کہ سیکشن 21 کے ضوابط کو نافذ کرنے اور عمل نہ کرنے والے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
سیپا کے مطابق وہ صنعتیں جو ان ضوابط کی پابندی نہیں کرتیں اور ضروری صفائی کے پلانٹ نصب نہیں کرتیں، قانونی نتائج کا سامنا کریں گی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ماحولیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، سنہ 1973 سے یہ دن ہر سال 5 جون کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این انوائرنمنٹ کے زیر اہتمام اس سال اس دن کا عنوان صرف ایک زمین رکھا گیا ہے جبکہ رواں برس کا میزبان ملک سوئیڈن ہے۔
ماحولیات کا عالمی دن منانے کا مقصد دنیا میں ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کی طرف توجہ دلانا اور ان کے سدباب کے لیے کوششیں کرنا ہے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ زمین کے موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔
پاکستان اس وقت کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک میں شامل ہے، لیکن اب بھی کلائمٹ چینج پاکستان میں ڈسکس کیا جانے والا ایک غیر اہم ترین موضوع ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے سنہ 1980 سے لے کر اب تک گزشتہ 42 سال میں پاکستان کے درجہ حرارت میں مجموعی طور پر 0.9 سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے ہیں، جب گلیشیئرز پگھلتے ہیں تو دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نتیجتاً آس پاس کی آبادیوں میں سیلاب آجاتا ہے جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔
یہ گلیشیئرز ملک میں پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ کرتے ہیں، لیکن جب بہت سا پانی ایک ساتھ آجاتا ہے تو وہ اسٹور نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے پہلے سیلاب آتا ہے، اور بعد میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔
اسی صورتحال کی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2040 تک پاکستان کی دو تہائی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہوگی۔
کلائمٹ چینج ہماری زراعت کو بھی بے حد نقصان پہنچا رہا ہے، غیر متوقع بارشوں اور گرمی سردی کے بدلتے پیٹرنز کی وجہ سے ہماری فصلوں کی پیداوار کم ہورہی ہے جس سے ہماری فوڈ چین پر اثر پڑ رہا ہے۔
اس کا نتیجہ ملک میں غذائی قلت کی صورت میں نکلنے کا امکان ہے۔
ماہرین کے مطابق کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی فہرست اور ان کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے، ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کلائمٹ چینج دنیا میں تیسری عالمی جنگ کو بھی جنم دے سکتا ہے جس کی بنیادی وجہ غذائی قلت اور قحط ہوسکتے ہیں۔
نیدر لینڈ : یورپی یونین نے قدرتی گیس اور جوہری بجلی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار اقتصادی سرگرمی قرار دیتے ہوئے اس کے فروغ کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
یہ اقدام یورپی یونین کی جانب سے سال2050ءتک ماحولیات کے لیے ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو صفر پر لانے کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔
یورپی کمیشن نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ غالب طور پر قابلِ تجدید توانائی کے حامل مستقبل کی جانب تبدیلی میں آسانی بہم پہنچانے کیلئے قدرتی گیس اور جوہری توانائی کا ایک اہم کردار ہے۔
فرانس اور وسطی و مشرقی یورپ کے ممالک نے جوہری توانائی کو پائیدار توانائی کے زُمرے میں شامل کرنے کی حمایت کرتے ہوئے توانائی ذرائع کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو اپنی حمایت کی بنیاد بنایا تاہم جوہری توانائی کے مخالف رُکن ملک جرمنی نے فوراً اس پالیسی کی مخالفت کا اظہار کیا۔
جرمنی کے وزیر معیشت و ماحولیات رابرٹ ہیبیک نے مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جوہری توانائی کو پائیدار قرار دینا غلط ہے کیونکہ یہ انتہائی خطرات کی حامل ٹیکنالوجی ہے، انہوں نے اس کے تابکار فضلے کے انسانوں اور ماحول پر طویل مدتی اثرات کی نشاندہی کی۔
ریاض : سعودی حکومت نے ماحول کی بہتری کیلئے اہم اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مقصد مملکت میں کرونا کے بعد کی صورتحال انسانی صحت، روزگار اور دیگر معاملات کو بہتر بنانا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سعودی عرب جواس سال جی 20 کی سربراہی کے فرائض انجام دے رہا ہے نے اس امر کی یقین دہانی کرائی ہے کہ متفقہ طور پر ماحول کو بہتر بنانے کے لیے دو خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔
جن میں پہلا اقدام صحرا کو کم کرتے ہوئے سرسبز مقامات میں اضافہ کرنا جبکہ ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے فضا میں سے کاربن سرکلر اکانومی کے تصور کو اپنانا ہے جس سے ماحولیات کے تحفظ کے لیے وسائل کی مستقل طور پر فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
سعودی وزیر خزانہ و معیشت اور منصوبہ بندی محمد بن عبداللہ الجدعان نے جی 20 کے اعلیٰ سطحی اجلاس سے مملکت کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کورونا وائرس کے جن حالات سے گزر رہی ہے ایسے حالات تاریخ میں کبھی نہیں آئے اور یہ بھی یقینی امر ہے کہ کورونا وائرس کے بعد دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں معمولات زندگی پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انسانی صحت ، معاش، روزگار اور دیگر روزمرہ زندگی کے معمولات متاثر ہوئے ہیں تاہم اس کی وجہ سے اقتصادی، سماجی اور ماحولیات کو بہتر کرنے کے بھی بہترین مواقع میسر آئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے وبا کے اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ایک سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں مل کر عالمی سطح پرمشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ مل کر ان چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے جن کی وجہ سے دنیا کو مختلف امور میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں موجودہ حالات میں پائیدار ترقی کے لیے اہداف متعین کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے جو کہ ہمارے 2030 کے وژن کے مطابق ہے جس میں معاشی ، معاشرتی اور ماحولیاتی منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے ترقی کی مثالی منازل طے کرنا ہے۔
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کو کلین اینڈ گرین پاکستان منصوبے پر بریفنگ دی گئی، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ماحولیات کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کلین اینڈ گرین پاکستان منصوبے پر بریفنگ اجلاس ہوا، مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے وزیر اعظم کو بریفنگ دی۔
وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ کلین اینڈ گرین منصوبے میں 10 ارب درخت لگائے جائیں گے۔ وزیر اعظم کو پلاسٹک بیگ کے استعمال پر پابندی، الیکٹرک وہیکلز پالیسی، گرین بلڈنگز سے متعلق قواعد اور ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ 10 ارب درخت لگانے کے لیے صوبائی سطح پر منصوبہ بندی مکمل کرلی گئی۔ پلاسٹک بیگ پر پابندی کے آغاز میں ہی اچھے تنائج ملے ہیں، الیکٹرک وہیکلز کے ضمن میں پالیسی مرتب کرلی گئی ہے۔
بریفنگ کے مطابق کلین اینڈ گرین پاکستان انڈیکس منصوبے کا آغاز ستمبر میں کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں پنجاب کے 12 اور پختنوخواہ کے 7 شہروں میں منصوبہ شروع ہوگا۔
مشیر ماحولیات کی جانب سے وزیر اعظم کو کل لاہور میں شجر کاری مہم پر بھی بریفنگ دی گئی، مشیر ماحولیات کے مطابق شجر کاری مہم میں 3 کروڑ پودے لگائے جائیں گے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ماحولیات کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، پلاسٹک بیگ پر پابندی مہم میں عوام کا مثبت ردعمل نہایت حوصلہ افزا ہے، مہم کو کامیاب بنانے کے لیے طلبہ کی شرکت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے دارالحکومت اسلام آباد کو ماڈل سٹی بنایا جائے۔
ٹوکیو : سمندروں سے پلاسٹک کا کچرا کم کرنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں جس کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے جائیں، یہ اقدامات رضاکارانہ طور پر اٹھائے جائیں گے اور سالانہ بنیادوں پر ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے حامل ممالک کا گروپ ’جی 20‘اس بات پر رضامند ہوگیا ہے کہ سمندروں سے پلاسٹک کا کچرا کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں جو کہ سمندروں کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جاپان میں ہونے والے جی ٹوئنٹی کے ایک اجلاس میں ارکان ممالک اس بات پر راضی ہوگئے کہ سمندروں سے پلاسٹک کا کچرا کم کرنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں جس کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے جائیں اور اس ضمن میں ایک ڈیل سائن کی جائے۔
معاہدے کے تحت جی ٹوئنٹی ممالک اس ضمن میں پابند ہوجائیں گے تاہم اس بات کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ سمندروں سے کچرا اٹھانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔
مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات رضاکارانہ طور پر اٹھائے جائیں گے اور سالانہ بنیادوں پر ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔
جاپانی اخبار کے مطابق جاپانی حکومت پرامید ہے کہ اس ضمن میں نومبر میں پہلا اجلاس منعقد ہوگا جس میں آئندہ کے لائحہ عمل اور موثر اقدامات پر بات کی جائے گی۔
معاہدے کے تحت نہ صرف امیر اور بڑے ممالک کو اس دائرے میں لایا جائے گا بلکہ ترقی پذیرممالک کو بھی اس بعد کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ سمندروں میں پلاسٹک نہ پھینکیں خواہ وہ ماہی گیری کے جال ہوں یا پھر پلاسٹک کی بوتلیں ہوں۔
ٹھوس سائنسی شواہد سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ سمندروں میں گرایا جانے والا پلاسٹک وھیل سے لے کر کھچوﺅں تک کی غذا میں شامل ہوکر ان کی تیزرفتار ہلاکت کی وجہ بن رہے ۔
دوسری جانب یہ پلاسٹک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بہت تیزی سے خرد ذرات یا مائیکرو پلاسٹک میں ڈھل رہا ہے، اب یہ سمندری جانوروں اور سی فوڈ کے ذریعے دوبارہ ہمارے کھانے کی میز تک پہنچ رہا ہے۔
ٹوکیو: ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے جاپانی حکومت نے اہم اقدامات کرتے ہوئے کاربن اخراج میں مزید کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جاپان نے توانائی کے متبادل ذارئع کے ساتھ جوہری انرجی پر بھی توجہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے ذریعے موحولیات دوست اقدامات کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے کی کابینہ کے اجلاس میں کاربن گیسوں کے اخراج میں مزید کمی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب توانائی کے متبادل ذارئع کے ساتھ جوہری انرجی پر بھی توجہ برقرار رکھی جائے گی، جمعہ سات جون کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں انرجی وائٹ پیپر (قرطاس ابیض برائے توانائی) کو حکومتی ترجیحات کا حصہ بنانے پر اتفاق کیا گیا۔
اس دستاویز میں زیر زمین حاصل کیے جانے والے ایندھن پر بتدریج انحصار کم کرنے کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2011 کے زلزلے کے بعد سونامی کی لپیٹ میں آ کر فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کو جہاں تباہی کا سامنا رہا وہاں تابکاری پھیلنے سے قریبی علاقہ متاثر بھی ہوا تھا۔
ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی سالانہ 70 لاکھ افراد کو متاثر کرتی ہے اور اکثر معاملات میںجان لیوا ثابت ہوتی ہے، دنیا کی 91 فی صد آبادی کو آج سانس لینے کے لیے صاف فضا میسر نہیں ہے۔
اچھا لباس اور اچھے جوتے پہننا خوش ذوقی کی علامت ہے اور شخصیت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تاہم آپ کی یہ خوش لباسی ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہم ہر سال ایک کھرب کپڑے اور 20 ارب جوتے بنا رہے ہیں۔ یہ تعداد 1980 کی دہائی میں بنائے جانے والے کپڑوں اور جوتوں کی تعداد سے 5 گنا زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق آج کا فیشن سوشل میڈیا پر چلتے ٹرینڈز کا مرہون منت ہے جو ہر روز بدلتا ہے۔ اس ٹرینڈ کو اپنانے کے لیے ہم خریداری زیادہ کرتے ہیں، تاہم اس خریداری کو پہنتے کم ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ایک خاتون کسی لباس کو پھینکنے سے پہلے 7 بار استعمال کرتی ہیں۔
فیشن کے بدلتے انداز اور ہمارا کپڑوں کو استعمال کرنے کا انداز ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ آج جس طرح سے ملبوسات کی صنعتیں دن رات کام کر رہی ہیں وہ ہماری زمین کے کاربن اخراج میں 10 فیصد کی حصہ دار ہیں۔
اسی طرح آبی آلودگی کا 17 سے 20 فیصد حصہ کپڑا رنگنے اور دیگر ٹیکسٹائل شعبوں سے آتا ہے۔
کپاس کی فصل ٹیکسٹائل کی صنعت کا اہم ستون ہے اور اس وقت ازبکستان دنیا میں کپاس کی پیدوارا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ چونکہ کپاس کی فصل کو بہت زیادہ پانی درکار ہے لہٰذا کپاس کی بے تحاشہ فصلوں نے ملک کی ایک بڑی جھیل ارل جھیل کو صرف 2 دہائیوں میں خشک کردیا ہے۔
ارل جھیل
ارل جھیل دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھی اور اب یہ تاحد نگاہ مٹی اور ریت سے بھری ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں موجود میٹھے پانی کا 2.6 فیصد حصہ صرف کپاس کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کے ماحول پر ان اثرات کو کم کرنے کے لیے آپ بھی کوشش کرسکتے ہیں۔
وہ کپڑے جو آپ مزید پہننا نہیں چاہتے، پھینکنے کے بجائے اپنے دوستوں کو دیں اور اسی طرح ان سے ان کے استعمال شدہ کپڑے لے لیں۔
معمولی خراب کپڑوں اور جوتوں کی مرمت کر کے انہیں پھر سے استعمال کے قابل بنائیں۔
اس وقت کچھ برانڈز ماحول دوست ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی تیاری میں ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچائیں، انہیں استعمال کرنے کو ترجیح دیں۔
معیاری اور مہنگے ملبوسات اور جوتے خریدیں جو زیادہ تر عرصے تک چل سکیں۔
آپ نے درختوں کے زندہ ہونے اور ان کے سانس لینے کے بارے میں تو سنا ہوگا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں درخت آپس میں باتیں بھی کرتے ہیں؟
دراصل درختوں کی جڑیں جو زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ان درختوں کے لیے ایک نیٹ ورک کا کام کرتی ہیں جس کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے نمکیات اور کیمیائی اجزا کا تبادلہ کرتے ہیں۔
ان جڑوں کے ساتھ زیر زمین خودرو فنجائی بھی اگ آتی ہے جو ان درختوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔
یہ فنجائی مٹی سے نمکیات لے کر درختوں کو فراہم کرتی ہے جبکہ درخت غذا بنانے کے دوران جو شوگر بناتے ہیں انہیں یہ فنجائی مٹی میں جذب کردیتی ہے۔
درخت کسی بھی مشکل صورتحال میں اسی نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے کو ہنگامی پیغامات بھی بھیجتے ہیں۔
ان پیغامات میں درخت اپنے دیگر ساتھیوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ قریب آنے والے کسی خطرے جیسے بیماری، حشرات الارض یا قحط کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرلیں۔
اس نیٹ ورک کے ذریعے پھل دار اور جاندار درخت، ٹند منڈ اور سوکھے ہوئے درختوں کو نمکیات اور کاربن بھی فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح اگر کبھی کوئی چھوٹا درخت، قد آور ہرے بھرے درختوں کے درمیان اس طرح چھپ جائے کہ سورج کی روشنی اس تک نہ پہنچ پائے اور وہ اپنی غذا نہ بنا سکے تو دوسرے درخت اسے غذا بھی پہنچاتے ہیں۔
نمکیات اور خوراک کے تبادلے کا یہ کام پورے جنگل کے درختوں کے درمیان انجام پاتا ہے۔
بڑے درخت ان نو آموز درختوں کی نشونما میں بھی مدد کرتے ہیں جو ابھی پھلنا پھولنا شروع ہوئے ہوتے ہیں۔
لیکن کیا ہوگا جب درختوں کو کاٹ دیا جائے گا؟
اگر جنگل میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کردی جائے، یا موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج یا کسی قدرتی آفت کے باعث کسی مقام کا ایکو سسٹم متاثر ہوجائے تو زیر زمین قائم درختوں کا یہ پورا نیٹ ورک بھی متاثر ہوتا ہے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ایک تار کے کٹ جانے سے پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوجائے۔
اس صورت میں بچ جانے والے درخت بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے اور تھوڑے عرصے بعد خشک ہو کر گر جاتے ہیں۔
اسلام آباد: پاکستان میں تعینات جرمن سفیر مارٹن کوبلر کا کہنا ہے کہ ہماری زمین موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے حوالے سے سخت خطرات میں ہیں، لیکن ابھی تک ہم اس کے بارے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں پاکستان میں تعینات جرمن سفیر مارٹن کوبلر نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ تاحال ماحولیاتی مسائل کو وہ توجہ نہیں دی جارہی جو دی جانی چاہیئے۔
جرمن سفیر کا کہنا تھا کہ خوبصورت قدرتی حسن سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان ماحولیاتی خطرات کا شکار ہے۔
انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پولینڈ میں اس وقت ماحولیات کی سب سے بڑی کانفرنس جاری ہے جس میں نہایت اہم فیصلے کیے جانے ہیں، تاہم اس بارے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ بالکل خاموش ہیں۔
انہوں نے کہا، ’اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔ یہ پوری دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کرے گا اس کے باوجود ہم مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں‘۔
مارٹن کوبلر نے ماحولیاتی مسائل اجاگر کرنے کے سلسلے میں صحافیوں کی کاوشوں کو بھی سراہا جو تمام تر مشکلات اور دباؤ کے باجود کلائمٹ چینج اور اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں۔
تقریب میں ماحولیات پر کام کرنے والے صحافیوں کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تعریفی اسناد سے بھی نوازا گیا۔