Tag: environment

  • مہکتے ہوئے خوش رنگ پھول بھی ماحول کے لیے نقصان دہ؟

    مہکتے ہوئے خوش رنگ پھول بھی ماحول کے لیے نقصان دہ؟

    مہکتے ہوئے خوش رنگ پھول کسے اچھے نہیں لگتے، ان کی بھینی بھینی خوشبو اپنے قریب رہنے والے افراد کو معطر کردیتی ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پھول ہمارے ماحول کے لیے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں۔

    دنیا بھر میں اگائے جانے والے پھولوں کو دیگر فصلوں کے مقابلے میں زیادہ پانی، کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔

    نیدر لینڈز یورپ میں پھولوں کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے والا ملک ہے۔ یہاں گلاب کے ایک ایکڑ پر 106 کلو گرام کیڑے مار ادویات جبکہ للی کے پھولوں کے ایک ایکڑ پر 135 کلو گرام ادویات چھڑکی جاتی ہیں۔

    پھولوں میں سبزیوں کی فصلوں سے 30 گنا زیادہ پانی بھی استعمال ہوتا ہے۔

    دوسری جانب افریقی ملک کینیا دنیا میں پھولوں کی پیداوار کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ یہاں استعمال کی جانے والی ادویات مٹی اور پانی کو بھی زہر آلود کر دیتی ہیں۔

    کینیا میں پھولوں کی سب سے زیادہ افزائش نیواشا جھیل کے کنارے ہوتی ہے جو میٹھے پانی کی ایک بڑی جھیل ہے۔ پانی اور کیڑے مار ادویات کا بہت زیادہ استعمال اس جھیل کو خشک کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    دنیا بھر میں پھولوں کی مانگ کے سبب اس کی برآمدات کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ پھولوں کو ہوائی جہازوں کے ذریعے برآمد کیا جاتا ہے جس سے ایندھن کا بے تحاشہ استعمال اور کاربن کا اخراج بھی ہوتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق صرف ایک عدد پھول اپنی افزائش اور برآمد کے مرحلے کے دوران اتنی کاربن خارج کرتا ہے جتنی کہ ایک دھواں چھوڑتی گاڑی کی چند منٹوں کی ڈرائیو۔

    ماہرین کے مطابق کیڑے مار ادویات کے بغیر اگائے جانے والے پھول ماحول دوست ہوسکتے ہیں جو کم از کم زمین اور پانی کو زہریلا نہیں کرتے۔

  • درختوں پر چڑھنے والی بکریاں جنگلات میں اضافے کا سبب

    درختوں پر چڑھنے والی بکریاں جنگلات میں اضافے کا سبب

     کیا آپ نے ایسی بکریاں دیکھی ہیں جو درختوں پر چڑھ کر باآسانی اس کے اوپر پہنچ جاتی ہیں؟

    ایسی بکریاں عموماً شمالی افریقی ملک مراکش میں پائی جاتی ہیں اور انہیں درختوں پر چڑھتے دیکھنا خاصا دلچسپ تجربہ ہوسکتا ہے۔

    ایک عمومی خیال تھا کہ یہ بکریاں درختوں کو برباد کرنے کا سبب بنتی ہیں کیونکہ یہ درختوں کے اوپر چڑھ کر ان کے پھل کھا لیتی ہیں جبکہ ان کے چڑھنے اترنے کے باعث ٹہنیوں اور شاخوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

    تاہم ماہرین نے جب غور سے ان کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیا تو انہیں علم ہوا کہ یہ بکریاں دراصل جنگلات اور درختوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ بکریاں درختوں پر چڑھ کر مختلف پھل اور پھول کھاتی ہیں تو اس دوران ان کے بیج وہیں تھوک دیتی ہیں۔ یہ بیج زمین میں جا کر نئے پودے اگانے کا سبب بنتے ہیں۔

    گویا ان بکریوں کی حیثیت بیجوں کو پھیلانے والوں کی سی ہے جو جنگلات، درختوں اور پودوں میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    یہ کام بکریوں کے علاوہ پرندے اور مکھیاں بھی انجام دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: انسان کی بقا کے لیے مکھیاں ضروری

    پرندے اور مکھیاں جب پودوں پر بیٹھتی ہیں تو پودوں کے پولی نیٹس ان کے پیروں سے چپک کر جا بجا پھیل جاتے ہیں اس کے بعد جس جگہ یہ گرتے ہیں وہاں نئے پودے اگ آتے ہیں اور یوں پودوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • تحفظ فطرت کے دن پر ماحول دوست بننے کا عزم کریں

    تحفظ فطرت کے دن پر ماحول دوست بننے کا عزم کریں

    آج دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔

    ہم زمین پر موجود قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔

    زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق 1970 سے دنیا کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ہماری زمین پر پڑنے والا بوجھ دگنا ہوگیا ہے جبکہ قدرتی وسائل میں 33 فیصد کمی واقع ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: آبادی میں اضافہ پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    ماہرین کے مطابق زندگی میں سسٹین ایبلٹی یعنی پائیداری بہت ضروری ہے۔ اس پائیداری سے مراد ہماری ذاتی زندگی میں ایسی عادات ہیں جو فطرت اور ماحول کی پائیداری کا سبب بنیں۔

    مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔

    یا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوگی، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم ہے، اس میں تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات کی صورت میں نکلے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    ان کے مطابق جب ہم فطرت کو تباہ کرنے کی ایک حد پر آجائیں گے، اس کے بعد ہمارا وجود شدید خطرے میں پڑجائے گا، جبکہ زمین ویسی ہی رہے گی۔

    فطرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں کئی منفی اثرات واقع ہو رہے ہیں جن میں سے ایک کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لیے امن و امن کے مسئلہ سے بھی بڑا خطرہ ہوگا جبکہ اس کے باعث جانداروں کی کئی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں کچھ عادات اپنا کر فطرت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔


    آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔ جیسے ایندھن کے ذرائع یا کاغذ۔ واضح رہے کہ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں اور کاغذ کو ضائع کرنے کا مطلب درختوں کی کٹائی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

    گھروں پر پانی، بجلی اور ایندھن کا احتیاط سے استعمال کیاجائے اور بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کیا جائے۔ پلاسٹک ایک ایسی شے ہے جو ہزاروں سال بعد زمین میں تلف ہوتی ہے نتیجتاً زمین کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    سفر کرتے ہوئے ہمیشہ ماحول دوست بنیں۔ خصوصاً کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔

    ماحول کی تباہ کرنے والی کوئی بھی سرگرمی جیسے درخت کٹتا ہوا دیکھیں تو فوراً متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم ۔ تیمر کے بچاؤ کا عالمی دن

    سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم ۔ تیمر کے بچاؤ کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں تیمر یا مینگرووز کے جنگلات کے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان قیمتی جنگلات کی اہمیت اور ان کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

    تیمر کے جنگلات ساحلی علاقوں کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    ان کی جڑیں نہایت مضبوطی سے زمین کو جکڑے رکھتی ہیں جس کے باعث سمندری کٹاؤ رونما نہیں ہوتا اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔

    ساحلی پٹی پر موجود مینگروز سمندری طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف اس کی شدت میں کمی کرتے ہیں، بلکہ سونامی جیسے بڑے خطرے کے آگے بھی حفاظتی دیوار کا کام کرتے ہیں۔


    کراچی کے تیمر تباہی کی زد میں

    پاکستان میں صوبہ سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جنگلات کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے ہیں۔

    تیمر کا جنگل بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے اور دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ان ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

    تاہم ایک عرصے سے کراچی کو خوفناک سمندری طوفانوں اور سیلابوں سے بچائے رکھنے والا یہ تیمر اب تباہی کی زد میں ہے۔

    سندھ کی بے لگام ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے تیمر کے ان جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے۔

    بیسویں صدی کے شروع میں یہ مینگرووز 6 لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب گھٹتے گھٹتے صرف 1 لاکھ 30 ہزار ایکڑ تک رہ گئے ہیں۔

    ان مینگرووز کو تباہ کرنے والی وجوہات میں قریبی کارخانوں سے نکلنے والی آلودگی اور سندھ و پنجاب میں ناقص آبپاشی نظام کے باعث آنے والے سیلاب بھی ہیں۔

    ماہرین کو خدشہ ہے کہ تیمر اب اپنی ڈھال کی حیثیت کھو چکا ہے، اور اب اگر کسی منہ زور طوفان یا سونامی نے کراچی کا رخ کیا، تو اس شہر کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

    اس ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ قیمتی جنگلات کس طرح خوفناک سمندری طوفانوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • درخت اگانے والا ڈرون

    درخت اگانے والا ڈرون

    درخت اگانا ایک مشکل اور انتظار طلب مرحلہ ہے جس کے لیے بہت سا وقت درکار ہے۔ تاہم اب سائنسدانوں نے ڈرون کے ذریعے شجر کاری کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

    اس سے قبل سری لنکا میں ہیلی کاپٹر سے شجر کاری کرنے کا تجربہ کیا گیا تھا جو نہایت کامیاب رہا۔

    اس ہیلی کاپٹر سے جاپانی کسانوں کے ایجاد کردہ طریقہ کار کے مطابق چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے گولے پھینکے گئے جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آئے۔

    اب اسی خیال کو مزید جدید طریقے سے قابل عمل بنایا جارہا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک برطانوی کمپنی ایسا ڈرون بنانے کی کوشش میں ہے جو شجر کاری کر سکے۔

    یہ ڈرون فضا سے زمین کی طرف بیج پھینکیں گے جس سے ایک وسیع رقبے پر بہت کم وقت میں شجر کاری کا عمل انجام دیا جاسکتا ہے۔

    طریقہ کار کے مطابق سب سے پہلے یہ ڈرون کسی مقام کا تھری ڈی نقشہ بنائے گا۔ اس کے بعد ماہرین ماحولیات اس نقشے کا جائزہ لے کر تعین کریں گے کہ اس مقام پر کس قسم کے درخت اگائے جانے چاہئیں۔

    مزید پڑھیں: کیا درخت بھی باتیں کرتے ہیں؟

    اس کے بعد اس ڈرون کو بیجوں سے بھر دیا جائے گا اور وہ ڈرون اس مقام پر بیجوں کی بارش کردے گا۔ یہ ڈرون ایک سیکنڈ میں 1 بیج بوئے گا۔ گویا یہ ایک دن میں 1 لاکھ جبکہ ایک سال میں 1 ارب درخت اگا سکے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے شجر کاری کے مقابلے میں یہ طریقہ 10 گنا تیز ہے جبکہ اس میں رقم بھی بے حد کم خرچ ہوگی۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹرز کے رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

    گو کہ دنیا بھر میں شجر کاری کا عمل بھی تیز کیا جاچکا ہے لیکن ہر سال 15 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں اور ان کی جگہ صرف 6 ارب نئے درخت لگائے جاتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    ہماری زمین پر اس وقت لگ بھگ 3 کھرب درخت موجود ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو اب تک دنیا کے سامنے نہیں آسکے، صرف وہاں رہنے والے مقامی افراد ہی ان درختوں سے واقف ہیں جو جدید سہولیات سے عاری زندگی جی رہے ہیں۔

    ان میں سے کئی درخت ایسے ہیں جو اپنے اندر نہایت انوکھی کہانیاں سموئے ہیں۔ منفرد ساخت، قد و قامت اور رنگت کے حامل یہ درخت اپنےاندر بے شمار خصوصیات رکھتے ہیں۔

    ان میں سے کوئی درخت کئی صدیوں سے موجود ہے، اور وقت کی اونچ نیچ کا گواہ بھی، کچھ درختوں نے بڑی بڑی آفتیں، سیلاب، زلزلے، طوفان، ایٹمی دھماکے سہے لیکن پھر بھی اپنی جگہ پر مضبوطی سے کھڑے رہے۔

    مزید پڑھیں: جاپان کا 1 ہزار سال قدیم درخت

    سنہ 1999 میں بیتھ مون نامی ایک فوٹوگرافر نے ایسے ہی نایاب لیکن گمنام درختوں کی تصاویر کھینچ کر انہیں دنیا کے سامنے لانے کا سوچا۔

    اس نے ایسے درختوں کی تلاش شروع کردی جو تاریخی یا جغرافیائی اہمیت کے حامل تھے۔

    ان درختوں کی تلاش کے لیے اس نے طویل تحقیق کی، ملکوں ملکوں کی سیاحت کرنے والوں سے گفتگو کی، لوگوں سے پوچھا۔

    بالآخر اس نے اپنے منفرد سفر کا آغاز کیا۔ اس سفر میں وہ پہلے برطانیہ گئی، پھر امریکا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کا سفر کیا جہاں اس نے دور دراز علاقوں میں موجود قدیم اور انوکھے درختوں کی تصاویر کھینچی۔

    یہ درخت طویل عرصے تک موجودگی کے باعث مقامی قوم کے لیے ثقافتی خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے درختوں کی کئی اقسام خطرے کا شکار اقسام کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: طویل ترین درختوں کی کلوننگ

    بیتھ مون نے ان درختوں کی تصاویر کو ’ قدیم درخت: وقت کی تصویر‘ کے نام سے پیش کیا۔

    اس کا کہنا ہے کہ ہر درخت کی اپنی الگ ’زندگی‘ ہے۔ ہر درخت کئی عشروں سے موجود ہے اور اس نے وقت کے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔

    آئیں ہم بھی ان نایاب اور انوکھے درختوں سے ملتے ہیں۔


    ڈریگن بلڈ ٹری

    یمن کے جزیرہ سکوترا میں پائے جانے اس درخت کی عمر 500 سال ہے۔ یہ درخت ہر قسم کے حالات اور موسموں سے لڑنے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    شاخ در شاخ پھیلا ہوا یہ درخت ایک چھتری جیسا ہے جو بے شمار زندگیوں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔

    سال میں 2 بار گاؤں والوں کو ان درختوں کے تنے کا کچھ حصہ کاٹنے کی اجازت ہے جس سے یہ سرخ رنگ کا قیمتی محلول حاصل کرتے ہیں جو نہایت بیش قیمت ہوتا ہے اور دوائیں بنانے کے کام آتا ہے۔


    صحرا کا پھول

    ڈیزرٹ روز نامی یہ درخت بھی جزیرہ سکوترا میں ہی واقع ہیں۔ انہیں بوتل نما درخت بھی کہا جاتا ہے۔

    جس مقام پر یہ درخت موجود ہیں وہ علاقہ اپنے منفرد اور انوکھے پس منظر کی وجہ سے اس دنیا سے الگ ہی کوئی مقام معلوم ہوتا ہے۔


    اڈنسونیا گرنڈیڈر

    مشرقی افریقی ملک مڈغا سکر کے ساحلی شہر مورندوا میں پائے جانے والے ان درختوں کی لمبائی 100 فٹ تک ہوتی ہے۔ ان درختوں کو جنگل کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔

    ان درختوں کی اوسط عمر 800 سال ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے درختوں کی یہ نایاب ترین قسم اپنے خاتمے کے قریب ہے اور اس قسم کے صرف 20 درخت باقی رہ گئے ہیں۔

    صرف مڈغا سکر میں پائے جانے والے ان درختوں کا یہاں پورا جنگل موجود تھا۔


    کاپوک درخت

    امریکی ریاست فلوریڈا کے پام بیچ پر پایا جانے والا کاپوک درخت دیکھنے میں نہایت منفرد ہیئت کا حامل ہے۔

    فوٹوگرافر نے اس درخت کو سنہ 1940 میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں دیکھا تھا۔ ’60 سال میں یہ درخت عظیم بن چکا ہے‘۔

    اس درخت کی جڑیں زمین کے اوپر 12 فٹ تک پھیلی ہوئی ہیں۔


    افٹی ٹی پاٹ

    مڈغاسکر میں ہی موجود یہ درخت چائے دان جیسا ہے لہٰذا مقامی افراد نے اسے یہی نام دے ڈالا۔

    یہ درخت 12 سو سال قدیم مانا جاتا ہے۔ اس کا تنا 45 فٹ کے پھیلاؤ پر مشتمل ہے اور اس کے اندر 31 ہزار گیلن پانی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔


    تیر کے ترکش

    جنوبی افریقی ملک نمیبیا میں پائے جانے والے درختوں کی اس قسم کو زمین پر موجود تمام درختوں میں نایاب اور غیر معمولی ترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ درخت صدیوں پرانے ہوسکتے ہیں۔

    یہ درخت 33 فٹ بلندی تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مقامی افراد ان درختوں کی کھوکھلی شاخیں کاٹ کر ان سے تیروں کے ترکش بناتے ہیں۔

    سنہ 1995 میں ان درختوں کے جنگل کو نمیبیا کی قومی یادگار کا درجہ دیا جاچکا ہے۔


    رلکیز بائیون

    کمبوڈیا میں موجود 12 ویں صدی کے ایک بودھ مندر میں موجود یہ درخت کچھ اس طرح موجود ہے کہ یہ اس عبادت گاہ کے کھنڈرات کا ہی حصہ لگتا ہے۔ درخت کی شاخیں اور مندر کے در و دیوار آپس میں پیوست ہیں۔

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قدیم وجود کو سہارا دیے کھڑے ہیں اور صرف مندر کو گرانا یا درخت کو کاٹنا نا ممکن لگتا ہے۔

    مندر کے پیچھے ان درختوں کا جنگل موجود ہے جس نے انسانوں کی جانب سے اس مندر کو ترک کیے جانے کے بعد اس پر ’قبضہ‘ کرلیا ہے۔

    مضمون بشکریہ: نیشنل جیوگرافک


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آج زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    آج زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    کراچی : آج پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی’ارتھ ڈے ‘منایا جارہاہے اس دن کی اہمیت کی مناسبت سے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیاجارہا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں مختلف تنظیموں نے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے زمین کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں آگہی پھیلائی۔

    اس سال کا عنوان ’’پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کاخاتمہ‘‘مقرر کیا گیا ہے، جس کا مقصد عالمی رہنماؤں کو ماحولیات کی اہمیت اور زمین دوست امور میں سرمایہ کاری پر راغب کرنا ہے۔

    آج بروز اتوار ’ارتھ ڈے‘ اس عزم کے ساتھ منایا گیا کہ ماحولیات کے تحفظ اور اپنی دنیا کو رہنے کا ایک بہتر مقام بنانے کے لیے کاوشیں کی جائیں گی۔ اس موقعے پر دنیا بھر میں مختلف تقریبات اور پروگرامز کا انعقاد کیا گیا جن کا مقصد ماحولیات کے تحفظ کی اہمیت واضح کرنا تھا۔


    پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کے خاتمے لیے تشکیل دی جانے والی اس مہم کے چار اہم زمرہ جات ہیں:

    پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کے خاتمے کے لیے طے کردہ گلوبل فریم ورک کو اختیار کرنے کے لیے نچلی سطح تک مہم چلائی جائے۔

    حکومتوں اور کارپوریشنز سے آلودگی کی روک تھام کے لیے عوامی پیمانے پر مہم چلانے کے لیے شہریوں کو شعور دیا جائے، انہیں منظم اور متحرک کیا جائے۔

    دنیا بھر میں لوگوں کو شعور دیا جائے کہ وہ اپنی ذاتی سطح پر پلاسٹک کے خاتمے کی ذمہ داری اٹھائیں اور از خود پلاسٹک کے استعمال سے اجتناب کریں یا اسے کم کریں اور جو بھی پلاسٹک استعمال کریں اسے ری سائیکل کریں۔

    حکومتوں کی جانب سے پلاسٹک کے خاتمے کی روک تھام کے لیے کی جانے والی قانون سازی کی تشہیر کی جائے۔


    یہ 1970ء کی بات ہے کہ جب دنیا میں پہلی مرتبہ ’ارتھ ڈے‘منایا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک طرف تو ماحولیات کی بقاء کے لیے کوششوں کا آغاز کیا گیا اور دوسری طرف تیل کی بڑھتی قیمتوں اور فضائی آلودگی کی وجہ سے اس دن کو منانے کی اہمیت بھی دو چند ہو گئی۔تب سے اب تک ’ارتھ ڈے‘ دنیا کے ایک سو بانوے ممالک سے بھی زیادہ ممالک میں باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔

    دنیا بھر میں اس موقعے پر اپنے ماحول کی صفائی اور فضائی آلودگی پھیلانے سے گریز کے لیے آگہی کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ جبکہ مقامی کمیونٹیز اپنے اپنے علاقوں میں صفائی کرکے اس دن کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں۔ بہت سی تنظیمیں شہر میں ساحل ِ سمندر، دریاؤں یا دیگر قدرتی مقامات پرجا کر صفائی کا کام کرکے زمین کو صاف ستھرا رکھنے کی کوششوں میں اپنا حصہ ادا کرتی ہیں۔

    پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اس دن کی اہمیت پر مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں مختلف تنظیموں نے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے زمین کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں آگہی پھیلائی۔ ان تنظیموں نے یہ بھی بتایا کہ انفرادی سطح پر ہر انسان کس طرح سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھ کر اس دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ہیم برگر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور اگر ہم گھر سے باہر ہوں اور کھانے کا وقت ہوجائے تو بھوک مٹانے کے لیے ذہن میں پہلا خیال برگر ہی کا آتا ہے۔

    دنیا بھر میں برگر کے شوقین افراد کے لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران برگر کے نئے نئے ذائقے متعارف کروا رہے ہیں اور اب برگر لاتعداد ذائقوں میں دستیاب ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ یہ برگر ہماری زمین کو کن خطرات سے دو چار کر رہا ہے؟

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اس بارے میں جاننے سے پہلے ہم ذرا برگر کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح اور کن کن مراحل سے گزر کر ہماری پلیٹ تک پہنچتا ہے۔

    ہیم برگر کا سفر برازیل میں ایمازون کے جنگلات سے شروع ہوتا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمازون کو سب سے بڑا خطرہ دنیا بھر کو نقصان پہنچنانے والے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے ہی ہم وطنوں سے ہے۔

    ایمازون کے خاتمے کی وجہ

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    ملک بھر میں لاتعداد فارمز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مختلف جانوروں کی پرورش کی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت دیگر ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس وقت گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مویشیوں کی ضروریات

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اس وقت ہماری زمین کا 30 فیصد حصہ مویشیوں کے زیر استعمال ہے جبکہ امریکا کی 80 فیصد زراعت مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    بدترین نقصان

    اب ان مویشیوں کا سب سے بدترین نقصان بھی جان لیں۔ ان مویشیوں کے فضلے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے ماحول اور زمین کے لیے نقصان دہ ترین گیس ہے۔

    ہماری فضا کو گرم اور زہریلا بنانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 18 فیصد حصہ انہی میتھین گیسوں پر مشتمل ہے۔

    یعنی ہم جو کاربن اخراج کا رونا روتے ہیں، تو مویشیوں سے خارج ہونے والی گیس کاربن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور مقدار میں بھی کاربن سے کہیں زیادہ ہے۔

    ماحول دوست کیسے بنا جاسکتا ہے؟

    ان مویشیوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہ کاری کو کم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال بے حد کم کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں کھائی جائیں۔

    قدرتی طریقوں سے اگائی گئیں سبزیاں اور پھل نہ صرف ہماری صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور یہ ہماری فضا سے زہریلی گیسوں کی کمی میں معاون ثابت ہوں گی۔

  • درخت اگانے والی کتاب

    درخت اگانے والی کتاب

    اگر آپ کتاب دوست انسان ہیں تو آپ نے بے شمار کتابیں پڑھی ہوں گی، کچھ کو سنبھال کر رکھا ہوگا، جبکہ کچھ کتابوں کو اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو دے دیا ہوگا۔

    تاہم ہر شخص یہ زحمت نہیں کرتا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کتابوں کو بے مصرف جان کر ردی میں ڈال دیتی ہے جس سے اور کوئی نقصان ہو نہ ہو، ان درختوں کی قربانی ضرور ضائع ہوجاتی ہے جو اس کتاب کے کاغذ بنانے کے لیے کاٹے گئے ہوتے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق کاغذ بنانے کے لیے ہر سال پوری دنیا میں 3 سے 6 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں جس کے باعث دنیا بھر کے جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

    اسی طرح نئے سال میں بچوں کی پرانی نصابی کتابیں بھی ردی میں دے دی جاتی ہیں جو بہر صورت ہمارے شہروں کے کچرے میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    تاہم ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کتاب کو ردی میں جانے سے بچانے کے لیے اسے کارآمد بنا ڈالا اور اسے درخت اگانے والی کتاب بنا دیا۔

    بیونس آئرس کے اس شہری نے بچوں کی اس کتاب کے کاغذات کو تیزاب کی آمیزش کے بغیر تیار کیا ہے۔ اس کے بعد اسے پرنٹ کر لینے کے بعد کاغذ پر ہاتھ سے جاکرندا نامی درخت کے بیج سی دیے جاتے ہیں۔

    جاکرندا نامی نیلے پھولوں کا یہ درخت وسطی و جنوبی امریکا کا مقامی درخت ہے۔

    کتاب کو پڑھ لینے کے بعد بچوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اسے زمین میں دفن کردیں اور روزانہ اسے پانی دیں۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کتاب سے پودا اگ آتا ہے جو کچھ عرصے میں تناور درخت بن جاتا ہے۔

    کتاب کے اشاعتی ادارے کا کہنا ہے کہ درخت اگانے والی اس کتاب کے ذریعے وہ بچوں میں زمین کے تحفظ اور ماحول اور درختوں سے محبت کا شعور اجاگر کر رہے ہیں۔

    ادارے نے کتاب کے لیے ٹیگ لائن متعارف کروائی ہے، ’بچے اور درخت ایک ساتھ نشونما پائیں‘۔

    ان کے مطابق بچپن سے ہی کتاب کے ذریعے درخت کی دیکھ بھال بچوں کو ایک ماحول دوست انسان بننے میں مدد دے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس درخت سے ان کی جذباتی وابستگی بھی ہوگی جو مرتے دم تک انہیں درخت کا خیال رکھنے پر مجبور کرے گی۔

    جنگل میں مہمات پر مبنی اس کتاب کو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبولیت مل رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات دن بدن سامنے آتے جارہے ہیں اور حال ہی میں ایک تحقیق میں متنبہ کیا گیا کہ کلائمٹ چینج کے باعث مستقبل کے فضائی سفر غیر محفوظ ہوجائیں گے۔

    انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج مستقبل میں فضائی سفر کو بے حد غیر محفوظ بنا دے گا جس کے بعد پروازوں کے نا ہموار ہونے کے باعث مسافروں کے زخمی ہونے اور دوران سفر ان میں بے چینی اور گھبراہٹ میں مبتلا ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: فضائی حادثے کی صورت میں ان اقدامات سے جان بچانا ممکن

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان ناہموار پروازوں کی وجہ سے جہازوں کو نقصان پہنچنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوجائے گا جس کے بعد جہازوں کی مینٹینس پر اضافی رقم خرچ ہوگی، یوں فضائی سفر، سفر کا مزید مہنگا ذریعہ بن جائے گا۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے شمالی بحر اقیانوس کے اوپر فضائی گزرگاہ کا مطالعہ کیا۔ ماہرین کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار میں اضافہ پروازوں کی رفتار اور ہمواری پر منفی اثر ڈالے گا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ کلائمٹ چینج کے ان منفی اثرات کی وجہ سے فضائی سفر کی خطرناکی میں 59 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی سفر کے دوران پرواز کا معمولی سا ناہموار ہونا معمول کی بات ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو متلی اور گھبراہٹ میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    تاہم مستقبل کی جو تصویر سامنے آرہی ہے، اس کے مطابق فضائی سفر میں مسافروں کو گہرے زخم لگنے کا خدشہ ہوگا۔

    ان کے مطابق فضائی سفر کی یہ ناہمواری اس قدر خطرناک ہوجائے گی کہ جہاز کے لینڈ کرتے ہی جہاز میں سوار تمام مسافروں کو اسپتال منتقل کرنا ہوگا تاکہ انہیں طبی امداد فراہم کی جاسکے۔

    تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا یہ اثرات صرف بحر اقیانوس کے اوپر پروازوں پر مرتب ہوں گے یا دیگر خطوں میں بھی ایسی صورتحال پیش آئے گی۔

    تاہم ماہرین نے یہ ضرور کہا کہ جس علاقے میں موسمیاتی تغیرات کے جتنے زیادہ نقصانات مرتب ہوں گے، وہاں فضائی سفر اتنا ہی خطرناک ہوتا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔