Tag: environment

  • کلائمٹ چینج سے زمین پر نقصانات کا انوکھا مظاہرہ

    کلائمٹ چینج سے زمین پر نقصانات کا انوکھا مظاہرہ

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور زمین کو اس سے ہونے والے نقصانات سے آگاہی دینے پر بے تحاشہ کام کیا جارہا ہے تاہم ابھی بھی ماہرین اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے اور لوگوں میں زمین اور ماحول سے محبت کا شعور جگانے میں ناکام رہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک مثال بھارت میں بھی پیش کی گئی جہاں لوگوں کو نہایت انوکھے طریقے سے کلائمٹ چینج کے نقصانات کی طرف متوجہ کروایا گیا۔

    بھارت کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں 120 کلو گرام چاکلیٹ سے زمین کا ماڈل بنایا گیا۔

    اس کے بعد ہوٹل میں ہر چاکلیٹ ڈش کے آرڈر کو پورا کرنے کے لیے اسی ’زمین‘ سے چاکلیٹ کاٹا جانے لگا۔

    نتیجتاً ہر آرڈر کے ساتھ زمین کا حجم کم ہونے لگا اور وہ غیر متوازن ہونے لگی۔

    وہاں موجود لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اس عمل کو روک سکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں سوشل میڈیا پر اس زمین کی تصویر اور ایک ماحول دوست پیغام شیئر کرنا ہوگا۔

    ہر سوشل میڈیا پوسٹ کے ساتھ چاکلیٹ سے بنی اس زمین میں چاکلیٹ دوبارہ شامل کی جانے لگی۔

    تاہم ان سوشل میڈیا پوسٹس کی تعداد، چاکلیٹ ڈشز آرڈر کرنے والے آرڈرز کی تعداد سے نہایت کم تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی چاکلیٹ سے بنی اس زمین میں بڑے بڑے گڑھے بن گئے اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔

    اس آئیڈیے کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی اس کوشش کا مقصد لوگوں کو یہ باور کروانا ہے کہ اپنی زمین کو پہنچنے والے نقصانات کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود انسان ہی ہیں۔

    کلائمٹ چینج سے متعلق مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    آبی آلودگی ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے جو سمندروں اور دریاؤں میں رہنے والی آبی حیات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ سمندر کی مچھلیوں کا آلودہ پانی میں افزائش پانا اور پھر اس مچھلی کا ہماری غذا میں شامل ہونا ہمیں بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔

    علاوہ ازیں دریاؤں کے قابل استعمال میٹھے پانی کی آلودگی بھی انسانی صحت کو شدید خطرات کا شکار بنا رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    تاہم حال ہی میں امریکی ماہرین نے ایسا پہیہ ایجاد کیا ہے جو دریاؤں اور سمندروں کی صفائی کر کے اس میں سے ٹنوں کچرا باہر نکال سکتا ہے۔

    امریکی ریاست میری لینڈ کے ساحلی شہر بالٹی مور میں آزمائشی تجربے کے موقع پر اس پہیہ نے سمندر سے 50 ہزار پاؤنڈ کچرا نکالا۔

    یہ تجربہ بالٹی مور کی بندرگاہ پر انجام دیا گیا جہاں جہازوں کی آمد و رفت اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے بے تحاشہ کچرا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

    اس پہیہ پر شمسی توانائی کے پینلز نصب کیے گئے ہیں جو اسے فعال رکھتے ہیں۔ پہیہ استعمال کے لیے کسی بحری جہاز یا چھوٹی کشتی پر نصب کیا جاتا ہے جس کے بعد یہ تیرتے ہوئے سمندر میں سے کچرا نکالتا جاتا ہے۔

    اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کو بنانے کا مقصد سمندر کی آلودگی میں کمی کرنا اور بندرگاہ کو تیراکی کے لیے محفوظ بنانا ہے۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پھول اور پودے اگانے والے جوتے

    پھول اور پودے اگانے والے جوتے

    آپ اپنے پرانے جوتوں کا کیا کرتے ہیں؟ جوتوں کے استعمال کی ایک عمر ہوتی ہے اور اس عمر کے بعد وہ خراب اور خستہ حال ہونے لگتے ہیں جس کے بعد انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں پھینکے جانے والے کپڑے اور جوتے ہمارے شہروں کے کچرے میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر دنیا کے ہر شخص کے استعمال شدہ اور پھینکے ہوئے جوتوں کو جمع کیا جائے تو یہ کچرے کا ایک بہت بڑا پہاڑ بن جائے گا۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک کی بوتلوں سے بنائے گئے جوتے

    مختلف اشیا کو ماحول دوست طریقے سے تلف کرنے کے اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کمپنی نے ایسے جوتے تیار کیے ہیں جو استعمال کے بعد کھاد میں تبدیل ہوجائیں گے۔

    دراصل ان جوتوں کو ایسی اشیا سے تیار کیا گیا ہے جو زمین میں جانے کے بعد آہستہ آہستہ مٹی کا حصہ بننا شروع ہوجاتی ہیں۔

    ان جوتوں کے تلف ہوجانے کے بعد ان سے کھاد بھی بنائی جاسکتی ہے جس کے بعد یہ پھول اور پودے اگانا شروع کردیں گے۔

    یہ جوتے نہ صرف ماحول دوست ہیں بلکہ دیکھنے اور پہننے میں بھی نہایت خوبصورت اور فیشن ایبل ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دین اسلام میں ماحول کی حفاظت کا سبق

    دین اسلام میں ماحول کی حفاظت کا سبق

    دین اسلام تمام شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں انسانی فطرت کے مطابق ہدایات فراہم کرتا ہے۔ آج دنیا بھر میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات قرآن میں لکھے گئے الفاظ کی تصدیق کر رہی ہیں۔

    قرآن کریم کے ذریعے 14 سو سال پہلے ہمیں جو رہنمائی فراہم کی گئی اگر ہم اس پر عمل کرتے تو آج دنیا اور انسانیت ایک محفوظ موڑ پر کھڑی ہوتی جہاں کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

    اس وقت ہماری دنیا کو سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کا درپیش ہے جو ماہرین کے مطابق دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: قرآن شریف میں‌ زمین کے خشک حصے غرق آب ہونے کی پیش گوئی

    زمین کو بچانے کے لیے سائنسدان اور ماہرین آج جو مشورے اور اقدامات کر رہے ہیں قرآن کریم اس کی 14 سو سال پہلے ہدایات دے چکا ہے۔

    قرآن کریم اور اسوہ حسنہ میں جہاں انسانوں اور جانوروں سے محبت و شفقت کا سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے، وہیں درختوں، پھولوں، پودوں، ماحول کا خیال رکھنے اور قدرتی وسائل کے اسراف سے بھی ممانعت کی ہدایت کی گئی ہے۔

    آئیں دیکھتے ہیں کہ اسلام ہمیں کس طرح ماحول کی حفاظت کرنے کا سبق دیتا ہے۔

    صفائی نصف ایمان ہے

    کیا آپ نے بچپن سے پڑھی اس حدیث کے مفہوم پر کبھی غور کیا ہے؟ صفائی ہمارے ایمان کا آدھا حصہ ہے یعنی اگر ہم صفائی پسند نہیں تو ہمارا ایمان بھی آدھا ہے۔ جسم اور لباس کی صفائی سے لے کر گھر، گلی، محلے، اور پورے شہر تک کی صفائی لوگوں کے اہل ایمان ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے ہم اس پر عمل نہیں کر رہے جس کا ثبوت ہمارے شہروں میں جابجا لگے گندگی کے ڈھیر ہیں۔ گندگی اور کچرا نہ صرف ماحول کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انسانی صحت و جذبات پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    صاف ستھرے علاقوں اور شہروں کے لوگوں کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے جبکہ ان کی جذباتی و دماغی کیفیت بھی مثبت رہتی ہے اور وہ غصے، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ سے محفوظ رہتے ہیں۔

    اصراف سے بچیں

    اسلام میں اصراف یا فضول خرچی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام کے پیروکار ہوتے ہوئے ہمیں ہر شے خصوصاً قدرتی وسائل جیسے پانی، غذا یا توانائی کے غیر ضروری استعمال سے بچنا چاہیئے۔

    قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے، ’اللہ اصراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘۔

    درخت لگانا

    ایک درخت لگانے کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ ہمیں تازہ ہوا میسر کرتا ہے، آب و ہوا کو صاف کرتا ہے، پھل اور سایہ فراہم کرتا ہے، جبکہ ماحول میں ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔

    حضور اکرم ﷺ نے ایک بار فرمایا (مفہوم)، ’زمین بہت خوبصورت اور سرسبز ہے، اللہ نے انسان کو اس کا محافظ بنایا ہے۔ جو شخص ایک پودا لگائے اور اس کی دیکھ بھال کرے، یہاں تک کہ وہ درخت بن کر پھل دینے لگے، تو ایسے شخص کو اس کا انعام ضرور ملے گا‘۔

    اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں جنگ کی جو اخلاقیات طے کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی، ’جنگ کے دوران دشمن علاقے کا کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں‘۔

    ذمہ داری کا احساس

    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’اللہ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے‘۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ بطور ایک ذمہ دار ہونے کے ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، دیگر جانداروں کو اس زمین پر سکون سے رہنے دیں، ماحول کو صاف ستھرا رکھیں اور گندگی اور کوڑا کرکٹ نہ پھیلائیں۔

  • کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    مایا تہذیب ایک قدیم میسو امریکی تہذیب ہے جو شمال وسطی امریکہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب موجودہ میکسیکو، ہونڈراس اور گوئٹے مالا کے علاقے پر محیط تھی۔

    یہ تہذیب حضرت عیسیٰ کی آمد سے کئی سو سال پہلے سے دنیا میں موجود تھی تاہم اس کا عروج 250 عیسوی کے بعد شروع ہوا جو تقریباً نویں صدی تک جاری رہا۔

    مایا تہذیب کے لوگ نہایت ذہین اور ترقی یافتہ تھے۔ یہ تہذیب میسو امریکا کی دیگر اقوام سے یوں ممتاز تھی کہ انہوں نے بہت پہلے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا اپنا طرز تحریر اور رسم الخط تھا۔

    ان کی ایک اور خصوصیت ریاضی اور علم فلکیات میں ان کی مہارت تھی۔ مایا دور کی تعمیر کردہ عمارتوں کی پیمائش اور حساب آج بھی ماہرین کو دنگ کردیتی ہے۔ یہ قوم فن اور تعمیرات کے شعبے میں بھی یکتا تھی۔


    مایا تہذیب کا زوال

    قدیم دور کی نہایت ترقی یافتہ یہ تہذیب کیوں زوال پذیر ہوئی، یہ سوال آج تک تاریخ کے پراسرار رازوں میں سے ایک تھا، تاہم کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق نے کسی حد تک اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

    مایا قوم ہسپانویوں کے حملے کا شکار بھی بنی اور ہسپانویوں نے انہیں بے تحاشہ نقصان پہنچایا، تاہم وہ اس قوم کو مکمل طور پر زوال پذیر کرنے میں ناکام رہے۔

    محققین کے مطابق ہسپانویوں کے قبضے کے دوران اور بعد میں بھی اس قوم کی ترقی کا سفر جاری تھا۔

    لیکن وہ کون سی وجہ تھی جس نے اس ذہین و فطین قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی تہذیب کے خاتمے کی عمومی وجوہات بیرونی حملہ آوروں کے حملے، خانہ جنگی، یا تجارتی طور پر زوال پذیر ہونا ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک اور وجہ بھی ہے جس پر اس سے قبل بہت کم تحقیق کی گئی یا اسے بہت سرسری سی نظر سے دیکھا گیا۔

    سنہ 1990 سے جب باقاعدہ طور پر موجودہ اور قدیم ادوار کے موسموں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا تب ماہرین پر انکشاف ہوا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اس عظیم تہذیب کے زوال کی وجہ بنا۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 250 عیسوی سے 800 عیسوی تک یہ تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں بے تحاشہ بارشیں ہوتی تھیں، اور یہاں کی زمین نہایت زرخیز تھیں۔

    تاہم حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سنہ 820 عیسوی میں یہاں خشک سالی اور قحط کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا جو اگلے 95 سال تک جاری رہا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مایا تہذیب کے زیادہ تر شہر اسی عرصے کے دوران زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ یہ نویں صدی کا شدید ترین کلائمٹ چینج تھا جس نے ایک عظیم تہذیب کو زوال کی طرف گامزن کردیا۔

    تاہم اس قحط سے تمام شہر متاثر نہیں ہوئے۔ کچھ شہر اس تباہ کن قحط کے عالم میں بھی اپنے قدموں پر کھڑے رہے۔

    تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط پورے خطے میں نہیں آیا بلکہ اس نے مایا تہذیب کے جنوبی حصوں کو متاثر کیا جہاں اس وقت گوئٹے مالا اور برازیل کے شہر موجود ہیں۔

    اس عرصے کے دوران شمالی شہر معمول کے مطابق ترقی کرتے رہے اور وہاں کاروبار زندگی بھی رواں رہا۔

    ماہرین موسم کے اس انوکھے تغیر پر مشکوک ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ موسمیاتی تغیر صرف ایک حصے کو متاثر کرے جبکہ دوسرا حصہ ذرا بھی متاثر نہ ہو، تاہم وہ اس کلائمٹک شفٹ کی توجیہہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔


    عظیم قحط

    مایا تہذیب کے بارے میں حال ہی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط جب اختتام پذیر ہوا تو دسویں صدی میں موسم ایک بار پھر سے معمول پر آنے لگا۔ قحط سے متاثر شہر ایک بار پھر خوشحال اور زرخیز ہونے لگے۔

    تاہم یہ بحالی عارضی تھی۔

    گیارہویں صدی کے آغاز سے ہی ایک ہولناک اور تباہ کن قحط اس خطے میں در آیا کہ جو 2 ہزار سال کی تاریخ کا بدترین قحط تھا۔ ماہرین نے اس قحط کو عظیم قحط کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قحط اس تہذیب کے لیے ایک کاری وار تھا جس کے بعد یہ تہذیب سنبھل نہ سکی اور بہت جلد اپنے زوال کو پہنچ گئی۔

    مضمون بشکریہ: بی بی سی ارتھ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    منتہیٰ ڈورم میں ہاتھ میں کافی کا مگ لیے انتہائی دلچسپی سے سٹیفن ہاکنگ کے نئے کارنامے پڑھنے میں مصروف تھی جبکہ ساتھ والے بیڈ پر کیلی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔ کیلی ہاروورڈ سے انوائرمینٹل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ یہاں آنے سے پہلے وہ یونیورسٹی آف الاسکا میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی۔۔ بنیادی طور پر وہ ایک گونگی عورت تھی۔۔ جسے شاذو نادر ہی مسکراتے دیکھا گیا تھا۔

    منتہی سے لاتعلق کیلی اپنا کام کرنے میں مصروف تھی کہ اس کا سیل تھرتھرایا ۔ دوسری طرف کی بات سن کر وہ لیپ ٹاپ سائڈ پر ڈال کر تیزی سے باہر لپکی۔۔ منتہیٰ نے کچھ خاص تردد کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔ اسے پتا تھا۔۔۔ جواب نہیں ملنا۔ کیلی جلدی میں لیپ ٹاپ اس طرح پھینک کر گئی تھی کہ اس کی سکرین منتہیٰ کی جانب تھی ۔۔اگرچہ یہ غیر اخلاقی تھا۔۔ مگر کبھی کبھی ہر بندے کو کچھ غیر اخلاقی کام کرنے ہی پڑتے ہیں ۔۔ سکرین پر جو فائل کھلی ہوئی تھی اُسے دیکھ کر منتہیٰ کے چودہ طبق روشن ہوئے۔۔ہارپ اینڈ الاسکا یونیورسٹی ۔۔جوائنٹ وینچر ۔۔ چند منٹوں میں وہ فائل منتہیٰ کی یو ایس بی میں کاپی ہوچکی تھیں ۔۔ جب پانچ منٹ بعد کیلی ہانپتی ہوئی واپس لوٹی ۔۔تو منتہیٰ اُسی طرح بیٹھی کافی کی چسکیاں لے رہی تھی۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    اگلے رو ز کیمبرج لائبریری کے ایک سنسان گوشے میں بیٹھ کر منتہیٰ نے وہ فائل کھنگالی تھی ۔۔ اور پھر ہر آ تے دن کے ساتھ کیلی سے قریب ہونے کی اس کی کوششیں بڑھتی گئیں۔ بعض اوقات کسی کا اعتماد جیتنے کے لیے آپ کو ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور کیلی کے ساتھ الاسکا میں گزاری  گئی اس کی چھٹیاں یقیناًرائیگاں نہیں گئیں تھی۔

    **********

    ارمان فجر کی نماز کے بعد ۔ چائے کے دو کپ لے کر کمرے میں واپس آیا تو توقع کے عین مطابق منتہیٰ آتشدان کے پاس بیٹھی آگ سینک رہی تھی۔۔ ارمان نے ساتھ بیٹھ کر ایک کپ اسے تھمایا ۔۔ وہ ساری رات جاگا تھا ۔۔ اور منتہیٰ اسے جگا کر مزے سے سوتی رہی تھی۔۔ وہ عادی تھا ۔۔اس کی اِن عادتوں کا۔۔ وہ اب بھی ویسی ہی تھی۔

    دوسروں کو جگا کر ۔۔خوب سوئیں آپ ۔۔ارمان نے چائے کا گھونٹ بھرا
    میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ آپ ایک ہی شفٹ میں پزل حل کریں۔ سو جاتے آپ۔
    ارمان نے ہنس کر عادتاً اپنا بازو اُس کے کندھے پر پھیلایا ۔۔ مجھے صرف ایک سوال پوچھنا ہے۔۔ جواب دینا پسند کریں گی آپ۔۔؟؟
    نہیں ۔۔ میں نہیں رہتی تو پھر کس سے پوچھتے ۔ وہ پہلی جیسی بد لحاظ منتہیٰ بنی ہوئی تھی ۔۔ ارمان جانتا تھا وہ اُسے آزما رہی تھی
    تم نہ رہتیں ۔۔ تو اِس سے بڑے سوالیہ نشان میری زندگی میں در آتے ۔۔ میں خود کیسے جیتا ۔۔ وہ جذباتی ہوا۔
    جی لیتے ۔۔ منتہیٰ کی نظریں آتشدان کے لپکتے شعلوں پر تھیں۔
    تمہیں میری محبت پر شک ہے۔۔ ارمان نے سختی سے اُس کا رخ اپنی جانب موڑا ۔۔
    نہیں ۔۔ مجھے آپ کی محبت پر فخر ہے ۔۔ اس نے ارمان کی گہری براؤن آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ہر لفظ ٹہر ٹہر کر ادا کیا۔ ’محبت یہ نہیں ہوتی کہ آپ کسی کے نہ ملنے پر ۔یا ہمیشہ کے لیے کھو جانے پر دنیا تیاگ کر بیٹھ جائیں ۔ کیا ہوا کہ آپ کا دل ہی نہیں روح بھی زخمی ہے ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کی آنکھوں کے دیپ بجھ چکے ہیں ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کے ہونٹ مسکرانے کو ترس گئے ہیں ۔۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں آپ سے بھی زیادہ دکھی ہیں ۔۔آپ اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ بہت سے دوسروں کا سہارا بن سکتے ہیں ۔۔ بہت سے بکھرے ہوؤں کو اپنی آغوش میں پناہ دے سکتے ہیں ۔۔ محبت کا اصل مفہوم انسان اُسی وقت سمجھتا ہے جب وہ اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر ۔۔اوروں کے لیے جینا شروع کرتا ہے ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ میرا ارمان بھی میرے بغیر جی سکتا ہے‘ ۔۔

    ارمان اپنی جگہ ساکت تھا ۔۔ یہ لڑکی جو اَب اُس کی بیوی تھی ۔۔ گزشتہ سات سال سے اُس کے ساتھ تھی ۔۔ ہر دفعہ ۔۔ ہر نئے موڑ پر وہ اُسے زندگی کے نئے مفہوم سے آشنا کراتی تھی ۔۔ وہ آل راؤنڈر تھی ۔۔ ہر دفعہ جیت جاتی تھی ۔۔
    ارمان نے جھک کراُس کی فراخ پیشانی کو چوما ۔۔ لیکن اِس بوسے میں محبت کم تھی ۔۔ احترام تھا ۔۔ عقیدت تھی ۔۔
    پھر اس نے ساتھ دھرے ہوئے لکڑی کے باکس سے ۔۔ پلاٹینم رِنگ نکال کر منتہیٰ کی طرف بڑھائی۔۔ جس میں اوپر سات آٹھ آرٹیفیشل ڈائمنڈ لگے ہوئے تھے ۔۔ جن کے نیچے مائیکرو یو ایس بی ڈرائیو کی پن تھی۔۔
    اگر تم ایک سو بیس کا آئی کیو رکھتی ہو تو ایک سو اٹھارہ سے کم میں بھی نہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کے اس فلیش ڈرائیو میں کیا کچھ ہے لیکن تم نے کیلی سے روابط کیوں بڑھائے ۔۔ تم الاسکا کیا کچھ کرنے گئیں۔۔ میرے علم میں ہے ۔۔ ہارورڈ اور ایم آئی ٹی میں بھی دو چار ٹیکنیکل سیکرٹس پر تم نے ہاتھ ضرور صاف کیے ہوں گے ۔۔
    لیکن مجھے صرف ایک چیز پریشان کر رہی ہے ۔۔ ؟؟ وہ ایک لمحے کو رکا ۔۔
    وہ کیا ۔۔؟؟ منتہیٰ چونکی
    تمہارا یہ پیرا گلائیڈنگ کا حادثہ۔۔ منتہیٰ کو ارمان کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی ۔۔ کانوں میں سیٹیاں سی گونجیں ۔۔
    تو اعتراف کا وقت ۔۔آ ہی گیا تھا ۔۔
    منتہیٰ۔ ارمان نے اُس کے جھکے چہرے کو تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر اوپر اٹھایا ۔۔
    کیا یہ حادثہ پہلے سے طے شدہ کوئی منصوبہ تھا ؟؟
    ہاں ۔۔ بہت دیر بعد ۔۔اُس کی آواز بمشکل نکل پائی ۔۔ حلق میں آنسوؤں کا گولا سا اٹکا تھا۔
    ارمان نے آنکھیں سختی سے بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔ تو اس کے خدشات درست تھے
    اگر ایسا تھا اور تمہاری سرگرمیاں کسی کی نظر میں آچکی تھیں ۔۔تو انہوں نے تمہیں زندہ کیوں چھوڑا ۔۔ تمہیں پاکستان کیوں کر آنے دیا ۔۔ کیا تم اس کی کوئی قیمت ادا کر کے آئی ہو ۔۔؟؟ اس کی گہری کھوجتی آنکھیں منتہیٰ کے چہرے کو ٹٹول رہی تھیں۔
    ایسا کچھ نہیں ہوا ارمان ۔۔ منتہیٰ نے اسے سختی سے گھورا
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم نے ابھی کہا کہ یہ حادثہ پری پلانڈ تھا ۔۔پھر ۔۔؟؟
    ہاں یہ حادثہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا ۔۔ لیکن کسی اور کا نہیں ۔۔ ارمان کو اُس کا چہرہ ایک لمحے کو چٹخا ہوا لگا تھا ۔۔ یہ میرا اپنا پری پلانڈ تھا ۔۔ پیرا شوٹ میں وہ خرابی ۔۔ٹریننگ کے آخری مرحلے سے ایک رات قبل ،میں نے خود پیدا کی تھی۔
    اور ارمان کو لگا تھا کہ بہت زور کا زلزلہ آیا ہو ۔۔ دیواریں ، چھت ۔۔ ریسٹ ہاؤس کی ایک ایک چیز ۔۔اس پر گر رہی تھی ۔۔
    اور اس ملبے کے نیچے وہ فنا ہوتا جا رہا تھا ۔۔

    ***********

    رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ڈاکٹر یوسف اپنی سٹڈی میں دم بخود بیٹھے ۔اِس لڑکی کو سن رہے تھے جس کے بارے میں
    انہیں گمان تھا کہ وہ اسے دنیامیں سب سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر نہیں، اس ویڈیو کو دیکھ کر انہیں لگا تھا ۔۔ منتہیٰ دستگیر سے ان کا اصل تعارف آج ہوا ہے۔۔
    گزشتہ روز ارمان کے ساتھ مری روانہ ہونے سے پہلے منتہیٰ انہیں ایک فلیش ڈرائیو دے کر گئی تھی ۔۔اور اب وہ اِسی ڈرائیو میں سیو ویڈیو دیکھ رہے تھے جو اُس نے سیلفی کیمرے سے شاید کچھ دن پہلے ہی بنائی تھی۔

    اسلام و علیکم پاپا۔ اس ویڈیو کے ساتھ کچھ فائلز منسلک ہیں جن کے متعلق آپ نے استفسار کیا تھا ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ میری اِن تمام سرگرمیوں کا ادراک آپ اور ارمان سمیت میری ذ ات سے وابستہ بہت سے لوگوں کا تھا ۔۔ لیکن ایک بڑی حقیقت اب تک آپ سب کی نظر سے پوشیدہ ہے ۔۔ اور وہ میری زندگی کا یہ اندوہناک حادثہ ہے جو مجھے تحفے میں یہ مفلوج ٹانگ دے کر گیا ہے ۔۔لیکن مجھے کچھ افسوس نہیں ۔ کیونکہ زندگی کی ہمیشہ سے یہی ریت رہی ہے کہ ہار کے بعد جیت مقدر بنتی ہے۔

    دنیا بھر میں ایک معتبر ادارہ سمجھا جانے والا ناسا ۔۔ اندرونِ خانہ ایک گورکھ دھندہ ہے ۔۔دنیا نہیں جانتی کہ اربوں ، کھربوں ڈالرز چاند ، مریخ اور انٹر نیشنل سپیس سٹیشن کے جن مشنز پر جھونکے جارہے ہیں اُن میں سے کتنے انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں ۔۔ وہ تمام انسانی سرگرمیاں جو موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بنی ہیں ۔۔ ناسا اُن سے کئی عشروں سے واقف ہے ۔۔وہ الینز تو ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔ مریخ پر پانی بھی تلاش کر ہے ہیں ۔۔ زحل کے لیے کیسینی جیسے مشن پر دو دہائیوں سے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن اس سیارۂ زمین کے استحکام کے لیے۔ ان کا کوئی خاص مشن اب تک سامنے نہیں آسکا۔
    میری بے پناہ صلاحیتیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔۔وہ میرے لیے ایک خاص مشن تشکیل دینے لگے تھے۔۔
    ڈاکٹر یوسف چونک کر سیدھے ہوئے۔۔ ’مجھے پیگی وٹسن کے بعد انٹرنیشنل سپیس سٹیشن میں ایک طویل عرصہ گزارنا تھا اور ناسا کے ایسٹرو بائیو لوجسٹ میرے ذریعے خلا میں پریگ نینسی ٹیسٹ کا ارادہ رکھتے تھے ۔۔ اگر میں شرعی شادی پر بضد رہتی تو میرے ساتھ ارمان کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ ان کے کسی بھی ایسے مشن کا حصہ بننے کے بعد میری ہی نہیں ارمان کی حیثیت بھی ایک ناکارہ پرزے کی ہوتی۔ یا ایک ایسا آلہ جس پر وہ دل کھول کر تجربات کر سکیں۔۔
    دو چار مشنز کے بعد جن کا مقدر سی آئی اے کے ہاتھوں کسی اندھیری سڑک ۔۔کسی گمنام ہوٹل میں خاموش موت ہوتا ۔۔ یا پھر عمر قید ۔۔ ہمیں ساری عمر اُن کی نگرانی میں کاٹنی پڑتی ۔۔ اور اپنے ہم وطنوں کے لیے جو کچھ کرنے کا عزم ہم دونوں رکھتے تھے جس کے لیے ارمان ییل یونیورسٹی میں بھی دن رات ایک کیے ہوئے تھے ۔۔ہمارے وہ خواب ادھورے رہ جاتے ۔

    زندگی کی بساط پر شہہ ہے یا مات ۔۔سو میں نے بھی ایک داؤ کھیلا تھا ۔۔ اگر میرے اللہ کو مجھ سے انسانیت کی فلاح کے لیے کچھ کروانا منظور ہے ۔۔ تو وہ مجھے کسی بھی طرح بچا لے گا ۔۔جس طرح اس نے ارمان کو بچایا تھا ۔۔ یہ حادثہ میرا اپنا منصوبہ تھا کیونکہ ناسا کا آلہ کار بننا میری انا کو قبول نہ تھا ۔۔اور فرار کے سب راستے مسدود ہو چکے تھے۔۔

    پاپا۔۔ میری یہ اعلیٰ صلاحیتیں ۔۔ یہ غیر معمولی ذہانت ۔۔ میرا پاس میرے خدا کی ا مانت ہیں۔۔ جن کے لیے میں اپنے رب کو جواب دہ ہوں کہ میں نے اس کی ان بے پایاں نوازشات کہاں اور کس مقصد کے لیئے استعمال کیا ۔۔؟؟ میرے وطن ہی نہیں دنیا بھر میں غربت، افلاس ، امراض اور آفات سے سسکتے بلکتے لوگوں کے لیئے میں کیا کچھ کر سکی ۔۔؟؟
    میں ایک عام لڑکی نہیں تھی ۔۔ میں منتہیٰ دستگیر تھی ۔۔ اگر ناسا مجھے ڈسکور کرسکتا تھا ۔۔ تو میں خود کیوں نہیں۔۔

    ڈاکٹر یوسف سانس روکے ۔۔ سب سنتے رہے ۔۔ یہ لڑکی جو کبھی ان کی شاگرد رہی تھی ۔۔آج انہیں وفا ،ایثار اور حب الوطنی کا ایک انوکھادرس دے گئی تھی۔۔۔

    ایک ایسی ہی ویڈیو چند روز قبل ڈاکٹر عبدالحق کو بھی ملی تھی ۔۔ اور اب وہ بے چینی کے ساتھ اِس دھان پان سی لڑکی کی اسلام آباد آمد کے منتظر تھے جو پاکستان کا سرمایۂ افتخار تھی ۔۔ جو آج کی یوتھ کا ایک انمول ستارہ تھی ۔۔

    دنیا بھر میں پاکستانی نوجوان ایم آئی ٹی سے ورلڈ بینک تک اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔لیکن باہر کی چمک دمک نے انہیں اپنے مٹی کی مہک ہی نہیں ۔۔وہ قرض بھی بھلا دیا ہے جو اُن پر تا عمر واجب ہے ۔ وہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیز اور نامور اداروں میں جو کچھ بھی ہیں اِس وطنِ عزیز کی وجہ سے ہیں ۔۔ مگر صد حیف کے آج کی اس نوجوان نسل نے تو ماں باپ کی ان قبروں کو بھی یکسر فراموش کر دیا ہے ۔جو انکی راہ تکتیں ہیں۔ کہ کسی عید ، کسی بقر عید ، کسی شبِ برات پر۔۔کوئی اُن پر بھی فاتحہ کے دو بول پڑھنے کو لوٹے گا’۔

    ***********

    ’میری پیدائش سے قبل میری ماں اپنے ماڈلنگ کیریئر کے عروج پر تھی ۔۔اگر اُسے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ میری پیدائش کے بعد اُس کا جسم جس کی نمائش کر کے اسے پیسا ملا کرتا تھا دوسروں کے لیے وقعت کھو دیگا ۔۔ تو وہ مجھے اِس دنیا میں ہر گز نہ آنے دیتی‘۔ کیلی کی مضطرب انگلیوں میں جلتا ہوا سگریٹ ختم ہونے کو تھا ۔۔

    وہ آئی وی یارڈ کے باہر کشادہ لان میں بیٹھی تھیں ۔۔ اور ہلکی بوند اباندی ہو رہی تھی ۔۔ میری ماں نے مجھے ابتدا سے ہی نظر انداز کیا۔جیسے ہی اس کا ماڈلنگ کیرئیر ڈوبا وہ خود کو ڈرگز اور الکوحل کے نشے میں غرق کرتی چلی گئی ۔۔ یو نو۔ مینا کہ یہاں امریکہ اور یورپ میں مجھ سمیت ہر تیسرا شخص اس فرسٹریشن کا شکار ہے کہ جب اُسے ماں باپ ہی پیار نہیں دے سکے ۔ تو کوئی اور کس طرح اس سے سچا پیار کر سکتا ہے ۔یہ خوف اب مجھے کسی سے گھلنے ملنے نہیں دیتا۔ کیلی نے کسی احساس کے زیرِ اثر نفرت
    سے ادھ بجھا سگریٹ دور اچھالا۔

    منتہیٰ کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ہم مسلمان اور ایشیائی بندوں کی اکثریت کو آنکھ کھولتے ہی ماں کی آغوش میسر آتی ہے باپ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے ۔۔ جہاں والدین جوانی تک اولاد کے لیے گھنی چھاؤں ہوتے ہیں ۔۔مگر ہم اِن مہربان رشتوں کی قدر نہیں کرتے ۔۔ اِن کی اصل قدر کیلی جیسے بے انتہا ذہین اور با صلاحیت لوگوں کے ہاں تھی جو زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر بھی ۔۔ماں باپ کی اولین توجہ اور پیار کو ترستے تھے۔ جہاں سچے پیار کو بہت عرصے پہلے دیس نکالا مل چکا تھا ۔۔

    منتہیٰ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی ۔۔کیلی تک آئی جو ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ لیئے ایک درخت سے ٹیک لگائے۔ کہیں کسی
    دوسرے جہان میں گُم تھی ۔اس نے آہستہ سے کیلی کا ہاتھ تھاما ۔۔ میں نہیں جانتی کہ تمہیں سچا پیار ۔ کب اور کہاں ملے گا ؟؟
    لیکن میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں تمہاری اِس بے چین روح کو سکون ضرور مل جا ئیگا ۔۔
    so tell me where is that meena..??
    کیلی نے تیزی سے اُس کی طرف رخ موڑا ۔
    یہ سکون تمہیں ۔۔میرے پیارے مذہب اِسلام اور سوہنے رب کی کتاب قرآن پاک میں ملے گا۔۔ جس میں ہر مضطرب دل اور بے چین روح کے لیے ابدی سکون ہے ۔۔ میں تمہاری ہر طرح کی مدد اور راہنمائی کے لیے ہمیشہ حاضر ہوں ۔۔ منتہیٰ نے ہاتھ بڑھا کر اُسے گلے لگایا ۔۔ یہ ہارورڈ چھوڑنے سے پہلے اُنکی آخری ملاقات تھی ۔

    ***********

    I am speechless my child .. you are our true asset.. dnt worry every
    wound you suffered.. will be soon heal …!!
    وہ ارمان کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق کی سٹڈی میں تھی ۔۔ جنھوں نے اُسے پورا ٹری بیوٹ دیا تھا ۔
    تھینک یو سر ۔۔ ہم اور سیو دی ارتھ آج جہاں کہیں بھی ہیں ۔۔آپ کی وجہ سے ہیں۔۔ اور میں چاہوں گی کے سپارکو کی طرح پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا پلیٹ فارم بھی آج کی یوتھ کو میسرہو۔۔
    ارمان نے چونک کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ وہ پچھلے روز سے مسلسل گُم صُم تھا ۔۔
    منتہیٰ فی الحال یہ ممکن نہیں ہو سکے گا ۔۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ابھی پسِ منظر میں رہتے ہوئے اِن ٹیکنالوجیز پر کام کریں جن سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کا کسی حد تک سدِ باب کیا جاسکے ۔ ڈاکٹر عبدالحق ایک جہاندیدہ سائنسدان تھے ۔ وہ ایک ساتھ بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے ۔۔
    ایگزیکٹلی سر ۔۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں کسی ایسی موزوں جگہ کی ضرورت ہے جہاں ہماری سرگرمیاں۔۔ امریکی سیٹیلائٹس سے پوشیدہ رہ سکیں ۔۔
    ہوں ۔۔ انہوں نے ہنکارا بھرا ۔۔ کوئی ایسی جگہ ہے تمہاری نظر میں ۔۔؟؟
    سر بلوچستان میں چاغی کے پہاڑی سلسلے ایک بہترین جگہ تھے ۔۔ لیکن وہاں سٹیلائٹس مانیٹرنگ کا خطرہ بھی زیادہ ہے ۔۔ میں نے کچھ علاقوں کی نشاندہی کی ہے ۔ اُس نے اپنے ساتھ لایا ہوا پاکستان کا نقشہ پھیلایا ۔
    اُن کی دو ڈھائی گھنٹے کی میٹنگ میں ارمان صرف دو چار دفعہ ہی بولا تھا ۔۔ اور اب واپسی کے سفر پر بھی وہ خاموش تھا
    منتہیٰ نے ایک ترچھی نظر اُس پر ڈالی ۔۔ یہ چپ کا روزہ کب افطار کرنا ہے ۔۔؟؟
    تم نے کچھ بولنے کے قابل کب چھوڑا ہے ۔۔ وہ بدستور ونڈ سکرین کے پار دیکھتا رہا
    ویل۔۔ اب ساری عمر کیا یونہی چپ رہنا ہے ۔۔؟؟
    جی ۔۔ بالکل ۔۔ دل کرتا ہے کہ آپ بولتی رہیں ۔۔ میں سنتا رہوں ۔۔ وہ جذباتی ہوا
    جی ۔۔ سال ، دو سال بعد آپ فرمائیں گے ۔۔اُف کتنا بولتی ہو تم ۔۔ ہونہہ
    اگر ایسا نہ ہوا تو ۔۔؟؟ ارمان نے ہنستے ہوئے اُسکا ہاتھ تھاما
    تو پھر آپ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنے کے قوی امکانات ہیں۔ برسوں تک لگاتار بیوی کو سنتے رہنے کا عالمی ریکارڈ ۔
    ارمان کا زندگی سے بھرپور اونچا قہقہہ گونجا ۔۔۔ وہ ایک نیا دور شروع کرنے جا رہے تھے ۔۔ جو پہلے سے زیادہ پُرخطر بھی تھا اور سنگین بھی ۔۔۔ لیکن انہیں یہ جوا بھی ہر حال میں کھیلنا تھا ۔۔ ’ہم غازی رہیں گے یا شہید ۔۔ لیکن ہم میدان چھوڑ کر ہر گز نہیں بھاگیں گے‘ ۔۔

    جاری ہے

    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    سلور کام والا وائٹ شرارہ اور موتیوں کے زیورات ۔۔ منتہیٰ کسی ریاست کی راج کماری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔ سارا وقت وہ سٹیج پر رشتے داروں اور دوستوں میں گھری اکیلی ہی بیٹھی رہی ۔۔ ارمان کے مہمان بہت تھے وہ صرف ایک دفعہ اپنے ییل یونیورسٹی کے ساتھی انجینئرز کو منتہیٰ سے ملوانے سٹیج پر آیا تھا ۔۔بلیک سوٹ ہمیشہ سے ہی اُس پر بہت ججتا تھا ۔۔ پر آج اس کی سج دھج ہی نرالی تھی ۔
    رات گھر پہنچ کر وہ منتہیٰ کو سہارا دے کر اندر کمرے تک لایا تھا ۔۔ اتنا بھاری شرارہ سوٹ اور پھر اس کی لرزتی بائیں ٹانگ۔۔وہ کہیں گر ہی پڑتی ۔
    میرا خیال ہے کہ ممی کو آپ کے لیے اِس بھاری شرارے کے بجائے خلا بازی کا لباس بنوانا چاہئے تھا ۔۔ تاکہ آپ آرام دہ
    محسوس کرتیں۔۔ ارمان نے اس کی کوفت دیکھ کر چھیڑا ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    منتہیٰ برا سا منہ بنا کر دھپ سے بیڈ پر بیٹھی ۔۔ بہت سا درد دانتوں تلے دبایا ۔۔ اُس کی بائیں ٹانگ بری طرح دُکھ رہی تھی ۔
    ارمان نے اُس کے ساتھ اپنی کچھ سیلفیز بنائیں۔۔ تو منتہیٰ مزیدکوفت سے پیچھے ہٹی ۔
    یار۔۔ اپنے لیے بنا رہا ہوں ۔۔ آخر اتنے سارے دن مجھے اب اپنی وائف کے بغیر جو رہنا ہے ۔
    کیا مطلب ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے رخ اس کی طرف پھیرا ۔۔بایاں پاؤں مڑا ۔
    منتہیٰ مجھے کل شام مائیکل، سٹیون اور ان کی ٹیم کے ساتھ ۔۔تھر کے لیئے روانہ ہونا ہے ۔۔ارمان نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔
    کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا ۔۔ وہ یقیناً اَپ سیٹ تھا ۔
    اور منتہیٰ کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ ٹیسیں بائیں پاؤں سے اٹھی ہیں یا دل ۔۔سے ۔۔
    کتنے دن کے لیے جانا ہے ۔۔؟؟ بمشکل حلق سے آواز نکلی
    شاید ایک ماہ ۔۔ یا اُس سے کچھ کم ۔۔ ابھی کہہ نہیں سکتا ۔۔ارمان نے بیڈ پر پاؤں پھیلا کر پیچھے ٹیک لگایا ۔۔پھر اپنی جگہ گُم صُم
    بیٹھی منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ ناراض ہو ۔۔؟؟
    منتہیٰ نے صرف نفی میں سر ہلایا ۔۔ بہت سے آنسوؤں پر بند باندھ کر خود کو نارمل کیا ۔
    ارمان نے اُس کے ہاتھ تھا مے ۔۔ آئی نو کہ یہ بہت تکلیف دہ ہے ۔۔ مگر مجبوری ہے ، ہماری شادی کچھ اتنی جلدی میں ہوئی۔
    یہ سب تو کافی عرصے سے طے تھا ۔
    اِٹس اُوکے ۔۔خود کو سنبھال کر اُس نے ہاتھ چھڑایا ۔اور اٹھی ۔۔ بھاری کپڑے اور زیورات اُسے عذاب لگ رہے تھے۔
    دو قدم چل کر ہی شرارے میں پھنس کر گری۔۔ بائیں ٹانگ بری طرح مڑی تھی ۔۔ وہ درد سے بلبلائی ۔۔بہت سارے رکے
    ہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے اٹھ کر اُسے سنبھالا ۔۔
    اور ارمان کے سینے سے لگی ۔۔وہ روتے روتے کب سو گئی ۔۔اُسے کچھ خبر نہیں تھی۔

    *********

    منتہیٰ نے کھڑکی کا پردہ سرکایا ۔۔ رات کی بارش کے بعد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی کئی ماہ کی دھند چھٹی تھی ۔۔اور بہت نکھرا
    اجالا پھیلا ہوا تھا۔
    ڈاکٹر یوسف اور مر یم لان میں چیئرز ڈالے دھوپ سینکنے میں مصروف تھے اور ارمان کل شام ہی جاچکا تھا ۔منتہیٰ چھوٹے چھوٹے
    قدم دھرتی لاؤنج عبور کر کے لان تک آئی۔
    آؤ بیٹا ۔۔ بیٹھو۔۔ اُسے آتے دیکھ کر وہ دونوں خوش ہوئے ۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اپنے ساتھ والی چیئر کی طرف اشارہ کیا
    کیسی نیند آئی بیٹے ۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔؟؟ مریم ارمان کے یوں چلے جانے پر خاصی خفا تھیں ۔۔ لیکن۔
    ممی میں ٹھیک ہوں ۔۔ڈونٹ وری ۔۔۔منتہیٰ نے سامنے ٹیبل پڑا اخبار اٹھایا ۔۔ وہی سیاستدانوں کے کارنامے ، دہشت گردی اور لوٹ مار کی خبریں ۔
    اچھا میں تمہارے لیے ناشتہ یہیں بھجواتی ہوں ۔۔ اُس کے منع کرنے کے باوجود مریم اندر جا چکی تھیں ۔
    منتہیٰ نے اپنی بائیں ٹانگ سیدھی کر کے پھیلائی ۔۔ دھوپ پڑتے ہی سنسناہٹ جاگی تھی ۔۔ درد۔ رات سے کچھ کم تھا۔
    اس پاؤں کی کنڈیشن کیا ہے بیٹے ۔۔؟؟ ڈاکٹر یوسف کا دھیان بھی اِدھر ہی تھا۔
    پاپا۔۔ تھوڑی ریکوری ہے ۔۔ ٹائم تو لگے گا ۔۔اُس نے گول مول جواب دیا ۔۔ پتا نہیں ارمان نے انہیں کتنا بتایا تھا
    ہم۔۔ ڈاکٹر ہوسف نے ہنکارا بھرا ۔۔’’ یعنی بیٹا اور بہو میں پکی دوستی ہو چکی ہے‘‘ ۔۔ وہ مسکرائے ۔
    ایک بات پو چھوں منتہیٰ۔۔؟؟
    جی پاپا ۔۔ ضرور ۔۔اجازت کی ضرورت ہی نہیں ۔
    تم ہارورڈ ۔ ایم آئی ٹی اور الاسکا یونیورسٹی میں بہت کچھ کرتی رہی تھیں ۔۔ وہ سب کچھ گنوا آئی ہو۔۔یاتمہارےمنصوبےاور ترجیحات اب بدل گئی ہیں ۔۔؟؟ انکی گہری کھوجتی نظریں اُس کے چہرے پر تھی۔۔
    نہیں پاپا ۔۔ نہ میں بدلی ہوں نہ میرے منصوبے ۔۔
    شئیر کرنا پسند کرو گی ۔۔؟
    منتہیٰ نے چونک کر اپنے باپ جیسے عزیز استاد کو دیکھا ۔۔ آنکھوں میں کرچیاں سے اُتریں ۔۔اُسی وقت ملازمہ ناشتے کی ٹرے لے کر نمودار ہوئی ۔۔ چلو تم ناشتہ کرو ۔۔ ڈاکٹر یوسف شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے۔۔ انہیں یقین تھا ۔۔ منتہیٰ اب کبھی انہیں مایوس نہیں کریگی ۔
    دو روز بعد وہ امی کی طرف گئی تو دادی ارمان پر بہت برہم تھیں ۔’’یہ کوئی طریقہ ہے کہ ولیمے کے اگلے روز اپنی دلہن کو چھوڑ کر چلاگیا
    ارے دادی ۔۔ باہر سے انجینئرز کی ٹیم آئی ہوئی تھی نہ ۔۔ آجائیں گے کچھ دن میں ۔۔ بہت سا درد اندر دبا کر دادی کے گلے
    میں بانہیں ڈال کر وہ مسکرائی۔
    اور یہ تم کیوں سادہ جھاڑ منہ لیے پھر رہی ہو۔۔؟؟ یہ سونی کلا ئیاں، کاٹن کا سوٹ ۔۔ارمان کو چھوڑکر ۔اب اُن کی توپوں کا
    رُخ منتہیٰ کی طرف تھا ۔
    ’’دادی نہیں پہنا جاتا مجھ سے یہ سب‘‘ ۔۔ہونہہ۔۔اُسے کوفت ہوئی
    اے لو ۔۔لڑکی پہلے کی بات اور تھی ۔۔اب ماشاء االلہ تم بیاہتا ہو ، خبردار جو اگلی دفعہ تم میرے سامنے اِس طرح آئیں ۔
    عاصمہ ۔۔او عاصمہ ۔۔انہوں نے آوازیں لگائیں ۔۔ اور پھر انہوں نے اُسے سب کچھ پہنا کر دم لیا ۔
    منتہیٰ نے آئینے میں خود کو دیکھا ۔۔ سی گرین ہلکے کام والا سوٹ ۔۔ کانوں میں ٹاپس اور اور ڈھیر ساری چوڑیاں ۔۔ آئینے میں کسی کا عکس ۔۔ کسی کی پُر اشتیاق نگاہیں اُبھریں ۔ اُس نے سر جھٹکا ۔۔ اور کچن میں امی کے پاس آ گئی ۔
    اب اُسے کسی کے لیئے تھوڑی کوکنگ بھی سیکھنا تھی۔۔امی کے منع کرنے با وجود اُس نے زندگی میں پہلی دفعہ کھانا خود بنایا ۔
    ارمان چائنیز شوق سے کھاتا تھا ۔۔وہ ممی سے تھوڑی سن گن لے چکی تھی ۔
    کھانے سے فارغ ہوکر وہ اپنے روم میں سب بلاؤں سے نجات کا سوچ ہی رہی تھی کہ سکائپ پر ارمان کی کال آئی۔
    اُس نے جھٹ لیپ ٹاپ آن کیا ۔۔ دو دن بعد یاد آئی تھی جناب کو ۔
    سوری منتہیٰ یار ۔میں رابطہ نہیں کر سکا ۔۔ایکچولی ریموٹ ایریا سے دور سگنل پرابلم تھی ۔۔ارمان نے فوراً ایکسکیوز کی۔
    اِٹس اوکے ۔۔۔ میں بھی بزی تھی ۔۔ منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    اچھا واقعی۔۔کہاں بزی تھیں آپ ۔۔؟؟ ارمان نے ہنس کر پیچھے چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    بہت سے کام ہوتے ہیں مجھے ۔۔ میں آپ کی طرح فارغ نہیں ہوتی ۔
    وقت نے چال بدل لی تھی ۔ اُن کے مدار الٹ گئے تھے ۔۔ ایک دور تھا جب منتہیٰ کے پاس خود اپنے لیے بھی ٹائم نہیں تھا ۔
    جی بالکل ۔۔ ویسے یہ آپ کہیں جا رہی تھیں کیا ۔۔؟؟ ارمان نے اس کی سج دھج نوٹ کی
    نہیں تو اِس وقت میں نے کہاں جانا ہے ۔۔؟؟
    تو پھر یہ تیاریاں ۔۔ اُس نے شرارت سے تیاریاں کو خوب کھینچ کر لمبا کیا ۔۔ یہ سب تو مجھے دادی نے بہت ڈانٹ ڈپٹ کر
    پہنایا ہے ۔۔ منتہیٰ نے کوفت سے منہ بنایا ۔
    اچھا ۔۔ ویسے آپ اتنی فرمانبردار پوتی تھیں تو نہیں ۔۔ارمان نے چھیڑا
    اب بن گئی ہوں۔۔ ٹھوکریں کھا کر ۔۔ زخمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا
    اوہ کم آن ۔۔منتہیٰ ۔۔ زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ دنیا میں آج تک کوئی ایسا کامیاب انسان نہیں گزرا جس نے و قت یا زمانے کے ہاتھوں ٹھوکریں نا کھائی ہوں ۔
    منتہیٰ جھکی نگاہوں کے ساتھ انگلی میں پہنا رنگ گھماتی رہی ۔۔جوارمان نے اُسے شادی کی رات پہنایا تھا ۔
    اچھا جب میں آؤں گا تب بھی پہنو گی نہ یہ سب ۔۔۔ ارمان نے اس کا موڈ بدلنے کی سعی کی ۔
    سوچوں گی ۔
    واٹ۔۔؟؟ کیا سوچو گی ۔۔ وہ حیران ہوا
    یہی کہ یہ سب پہنوں یا نہیں ۔۔ کیونکہ ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی۔
    کیونکہ میں اچھی بیٹی اور پوتی تو بن گئی ہوں ۔۔ لیکن۔۔
    لیکن کیا ۔۔ وہ بے صبرا ہوا ۔۔
    لیکن ۔۔ میرا ابھی فرمانبردار بیوی بننے کا کوئی خاص ارادہ نہیں ۔ شرارت سے کہہ کر اُس نے سکائپ آف کرکے لیپ ٹاپ
    کی سکرین فولڈ کی۔۔ ارمان اُسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا ۔
    اگلے روز صبح اُس نے میسا چوسسٹس سے ساتھ لایا ہوا سامان سٹور سے نکالا ۔۔ جو اَب تک یونہی پڑا تھا ۔۔ اسے وقت ہی نہیں
    ملا تھا ۔۔وہ سامان الگ کرتی گئی ۔۔ کچھ ساتھ گھر لیکر جانا تھا ۔۔ اس میں لکڑی کے نفیس نقش و نگار والا وہ باکس بھی تھا ۔۔ جو
    جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے ۔۔اُس نے نینسی کے پاس اما نت رکھوایا تھا ۔۔ اسے نینسی یاد آئی ۔۔ ۔ جسے ارمان نے
    خاص طور پر شادی پر انوائٹ کیا تھا ۔۔ کتنے گُھنے تھے یہ سب ۔
    اب اسے جلدی جلدی کچھ اور اہم کام نمٹانے تھے ۔۔ وہ کمرا بند کر کے شام تک لگی رہی۔۔ پھر تھک کر سو گئی ۔
    وقت آگیا تھا ۔۔ ۔ پنڈورابکس جلد کھلنے والا تھا ۔

    ***********

    فروری کے اوائل کے باوجود تھر میں دن کا درجۂ حرارت اُن سب کے لیے نا قابلِ برداشت تھا ۔۔ ارمان اگرچہ لاہور کی شدید
    گرمی کا عادی تھا ۔۔ پھر بھی یہاں اُس کے دماغ کی دہی بنی ہوئی تھی ۔۔ جبکہ مائیکل اور اس کی ٹیم کا پہلی دفعہ اس قدر شدید موسم
    سے واسطہ پڑا تھا ۔۔اِس کے باوجود وہ سب ہی اس صحرا کو گل و گلزار کرنے اور اور یہاں کے مکینوں کی انتظار سے پتھرائی آنکھوں
    میں امید کے نئے دیپ روشن کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم بھی تھے اور پُر عزم بھی ۔
    ارمان لنچ کے بعد ٹھنڈی چھا چھ کا پورا جگ چڑھا کر سستانے کو لیٹا ہی تھا کہ سیل تھرتھرایا
    ہیلو شہری ۔۔ کیا حال ہے یار ؟؟ شدید مصروفیت کے باعث اس کا کئی روز سے کسی سے بھی رابطہ نہیں تھا
    ٹھیک ٹھاک ۔۔ تو سنا ۔۔ زندہ ہے ؟؟۔
    بس یار جی رہا ہوں ۔۔ ارمان نے ٹھنڈی آہیں بھریں ۔۔ صحرا کی گرمی آج تک صرف سنی ہی تھی ۔۔ پہلی دفعہ پتا لگا کہ صحرا
    میں سفر کیا چیز ہوتا ہے ۔
    ہاں۔۔ اور وہ بھی جب بندہ اپنا دلِ بے قرار کہیں اور بھول آیاہو ۔قسم سے پورا صحرائی اونٹ لگ رہا ہے تو ۔ شہری نے پھبتی کسی ۔
    اڑالے مذاق بیٹا ۔۔ ہونہہ ۔۔ اچھا یہ بتا۔ زید کیسا ہے۔۔؟؟ شہریار کے ڈیڑھ سالہ بیٹے میں ارمان کی جان تھی
    ٹھیک ہے ۔۔کل لے کر گیا تھا ۔اُسے بھابی کے پاس ۔آنٹی پسند آگئی ہے اُسے ۔۔ اب تیری چھٹی ۔۔ وہ ہنسا
    وہ ہے ہی ایسی جادوگرنی ۔۔ ارمان کی آنکھوں کے سامنے اُس پری وش کا سراپا لہرایا ۔
    ہم مم۔۔ خیر تیری جادوگرنی کا کام کر آیا ہوں میں ۔۔
    کام۔۔؟؟ کیسا کام ۔۔؟؟ ارمان الرٹ ہوا ۔
    اوہ تجھے نہیں بتایا بھابھی نے ۔۔ انہوں نے خود بلایا تھا ۔۔ ایک پیکٹ دیا تھا کہ یہ کانفیڈینشل ہے۔۔ اسے بہت احتیاط سےڈاکٹر عبدالحق کو اسلام آباد پہنچانا ہے ۔۔ میں ابھی وہی نمٹا کر آیا ہوں ۔۔ شہریار نے پوری بات بتائی
    ڈاکٹر عبدالحق ۔۔ارمان چونک کر سیدھا ہوا
    تو منتہیٰ بی بی فارم میں واپس لوٹنے کو ہیں ۔۔۔’’ ویلکم بیک مسز ارمان ‘‘۔

    ***********

    ارمان کو گئے تیسرا ہفتہ تھا ۔۔ وہ پاپا کے ساتھ اسپتال سے پاؤں کی تھراپی کروا کے لوٹی تھی ۔ درد کچھ اور بڑھ گیا تھا ۔۔اوراحساسِ تنہائی بھی ۔۔ رات دو بجے کا وقت تھا ۔۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔تبھی اچانک باہر کچھ کھٹکا سنائی دیا ۔پھرکھڑکی کے پاس سے سایہ گزرا ۔۔ منتہیٰ کو الرٹ ہونے میں سیکنڈ لگے تھے ۔۔ وہ تیزی سے بستر سے نکلی ۔۔ باہر جو کوئی بھی تھا وہ اب اندر آچکا تھا ۔۔ ڈورلاک میں چابی گھمانے کی آواز آئی ۔۔ تب تک منتہیٰ بھاری گلدان ہاتھ میں لیے دروازے کےپیچھے پہنچ چکی تھی ۔۔آنے والا ناب گھما کر احتیاط سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ۔
    ون،ٹو۔۔تھری ۔۔منتہیٰ نے پوری طاقت سے گلدان کا بھرپور وار کیا ۔۔ مگر آنے والا الرٹ تھا ۔۔جھکائی دے گیا۔
    منتہیٰ گلدان سمیت لڑھکی ۔۔ پاؤں کادرد کچھ اور سِوا ہوا ۔پھر آنے والے نے اُسے اپنے بازوؤں میں سنبھالا ۔۔ وہ ارمان تھا
    اُس کا لمس وہ اب پہچاننے لگی تھی ۔
    اٹھیے میڈم ہلاکو خانم ! پتا تھا مجھے کہ وائف ہماری کتنی بہادر اور الرٹ ہیں ۔۔ارمان نے اسے سہارا دے کر بیڈ پر بٹھایا ۔
    یہ کوئی طریقہ ہے چوروں کی طرح اپنے گھر آنے کا ۔۔منتہیٰ کا چہرہ شدتِ درد سے لال ہو رہا تھا
    لیجئے جناب ۔۔ایک تو آپ سب کی نیند کا خیال کیا ۔۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ۔۔ارمان نے افسوس سے سر ہلایا
    تو آپ بتا نہیں سکتے تھے کہ آپ آرہے ہیں ۔۔ابھی جو گلدان آپ کو لگ جاتا ۔۔اپنا درد بھول کر اسے فکر ستائی۔
    تو پتا ہے کیا ہوتا ۔۔ارمان نے ڈرامائی انداز میں کارپٹ پر پڑاگلدان اٹھایا۔
    ’’یہ مجھ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ۔۔ تجربہ کر کے دیکھ سکتی ہیں آپ ۔۔ارمان نے منتہیٰ کو آفر کی جو بگڑے تیوروں کے ساتھ اسے گھور رہی تھی۔ پھر وہ واش روم کی طرف جاتے ہوئے چونک کر پلٹا۔
    اُوہ میں تمہیں ایک بہت ضروری بات تو بتانا بھول ہی گیا ۔
    کیا۔۔؟؟ سب خیریت ہے نہ ۔۔ پراجیکٹ میں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔ منتہیٰ اُس کے اس طرح واپس آنے پر ویسے ہی چونکی تھی
    ارمان نے سر کو پیچھے جھٹکا دے کر ایک لمحے کو آنکھیں زور سے بھینچی۔۔ یہ بیویاں بھی نہ ۔
    پھر منتہیٰ کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اُس کے ہاتھ تھامے ۔ ’’مجھے یہ بتانا تھا کہ میں نے اِن تین ہفتوں میں تمہیں بے انتہامس
    کیا ۔۔بے انتہا ۔
    بعض اوقات محبت کے اظہار کے لیے الفاظ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ۔۔محبت تو یہی ہے کہ بن کہے محسوس کی جائے ۔۔
    کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ۔۔ لفظوں میں ڈھل کر جذبے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں ۔ اُس نے جھک کر منتہیٰ کی پیشانی چومی اور واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔
    صبح وہ ممی پاپا سے مل کر دوبارہ سو گیا ۔۔ کسی نے اُسے ڈسٹرب نہیں کیا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    دوپہر کے وقت آہٹ سے ارمان کی آنکھ کھلی ۔۔ُ اس نے کمبل سے منہ نکال کر دیکھا ۔۔منتہیٰ اس کا سفری بیگ کھول کر ۔اِس میں
    کپڑے نکال رہی تھی ۔۔ وہ یک ٹک اُسے دیکھے گیا ۔۔’’ آئرن لیڈی کا گرہستن پارٹ‘‘۔
    پھر کچھ سوچتے ہوئے ایک دم سے اٹھا ۔۔ارے ۔ارے یہ کیا کر رہی ہو ۔۔؟؟
    کیوں۔۔کیا ہوا ۔۔؟؟ کپڑے ہی تو نکال رہی ہوں۔۔ منتہیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا
    یار مت نکالو ۔۔میں پھر یہی بیگ لے جاؤں گا ۔
    کیا مطلب۔۔؟؟ پھر جانا ہے ۔۔کب۔۔؟؟
    کل ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    تو آئے ہی کیوں تھے ،، منتہیٰ نے غصے سے شرٹ واپس بیگ میں پھینکی ۔۔وہ رو دینے کو تھی
    ارمان دوسری سائڈ سے گھوم کر اس کے ساتھ آکر بیٹھا ۔۔پھر اُس کی طرف جھک کر سرگوشی کی ۔۔’’تمہیں لینے ‘‘۔
    موسم انگڑائی لے رہا تھا ۔۔ مری کی برف اب پگھلنے کوتھیں ۔۔وہ گزشتہ دوروزسے مری میں تھے ۔۔ارمان کے ساتھی انجینئرز
    نے اسے زبردستی واپس بھیج دیا تھا ۔
    منتہیٰ ایک اونچے پتھر پر بیٹھی تھی اورارد گرد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔۔ لیکن مری کے بے ایمان موسم کا کچھ پتا نہیں ہوتا
    کب کس لمحے بادل نمودار ہو کر برسنے لگیں ۔۔ کسی کی نگاہوں کی تپش پر وہ چونکی۔۔ارمان اس کے قریب بیٹھا بہت غور سے۔
    اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔۔بے شک وہ دل جیتنے والی پرسنالٹی رکھتا تھا۔
    ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟ منتہیٰ خجل ہوئی
    منتہیٰ بی بی ۔ کوئی چار ہفتے پہلے آپ کے جملہ حقوق میرے نام لکھ دیئے گئے ہیں ۔۔میں ایسے دیکھوں یا ویسے۔۔ میری
    پراپرٹی ہے میری مرضی ۔۔ ارمان بہت اچھے موڈ میں تھا ۔
    پھر سوچ لیجئے ۔۔آپ کے رائٹس بھی میرے نام ہیں ۔۔منتہیٰ نے جواباًچوٹ کی
    اچھا۔۔تو زیادہ سے زیادہ آپ اِس خاکسار کے ساتھ کیا کر لیں گی ۔۔؟؟؟ وہ اُس کی طرف شرارت سے جھکا
    بہت کچھ ۔۔منتہیٰ نے تیزی سے پیچھے ہٹ کر اسے آنکھیں دکھائیں ۔۔ شکر تھا اس جگہ وہ اکیلے تھے۔
    ہم مم۔۔ارمان کی لمبی سی ہم پر اسے فاریہ یاد آئی تھی ۔۔ جس کے پاس ا سلام آباد انہیں اب جانا تھا ۔
    کس سوچ میں گم ہو گئیں ۔۔؟؟ارمان نے اُس کی آنکھوں سے سامنے ہاتھ لہرایا ۔
    کچھ نہیں بس یونہی ۔۔ آئیں واپس چلتے ہیں ۔۔ڈھلتی شام کے ساتھ خنکی بڑھنے لگی تھی ۔
    مگر اٹھنے کے بجائے ۔۔ارمان نے ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا۔ منتہیٰ۔ میں چاہتا ہوں کہ مکمل صحت یاب ہونے کے بعد تم
    واپس جاکر اپنا ناسا کا مشن مکمل کرو ۔
    اور منتہیٰ کو لگا تھا جیسے کسی نے اُسکی سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ ارمان میں وہ سب چھوڑ آئی ہوں ۔۔ کبھی نا پلٹنے کے لیے ۔۔اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔
    یار منتہی ٰ ! جذباتی نہ بنو ۔۔کٹھن وقت گزر گیا۔۔ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلا۔
    ارمان !بس میں خود بدل گئی ہوں۔۔ میں یہاں رہنا چاہتی ہوں ۔۔اپنے وطن میں ، اپنے لوگوں کے ساتھ ۔۔آپ کےپاس ۔۔اُس نے ارمان نے کندھے پر سر رکھا ۔
    "اوہ آئی سی ‘‘۔ارمان نے سیٹی بجائی ۔وہ خاصہ محفوظ ہوا تھا ۔۔
    ایسا ہے مسز ارمان کے میں چند ماہ کے لیے کچھ نہ کچھ کر کے آپ پاس آجاؤں گا ۔۔ ڈونٹ یو وری ۔۔ ارمان نے اسے راہ دکھائی
    اور جو میں سپیس سے واپس ہی نہ لوٹی تو ۔۔؟؟ منتہیٰ نے خدشہ ظاہر کیا
    تب آپ کا یہ مجنوں ‘ یہ قیس‘ یہ رانجھا ۔آ جائے گا ۔انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بھی ۔۔ارمان نے اُس کے گرد اپنے بازو پھیلائے۔
    ناسا کے سارے ٹیسٹ پاس کرنے ہوں گے آپ کو ۔۔ منتہیٰ نے برا سا منہ بنایا
    منتہیٰ بی بی! جو عشق کے امتحان پاس کر لیں ۔اُن کے سامنے یہ ٹیسٹ کیا چیز ہیں ۔۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔
    ویسے آپ فکر مت کریں ۔۔ابھی خلائی مخلوق کا ذوق اتنا برا نہیں ہوا ۔۔ کہ آپ جیسی ضدی ، سر پھری اور بد لحاظ لڑکی کو غائب کرنے
    لگیں۔۔کوئی لے بھی گیا تو ۔۔شکریہ کے ساتھ مجھے واپس کرکے جائے گا ۔۔اپنا فضول مال اپنے پاس رکھیں ۔۔ارمان نے
    شرارت سے اسے چھیڑا ۔
    مگر منتہیٰ اپنے سپید ہاتھوں کو گھورتے ہوئے کہیں اور گم تھی۔۔ منتہیٰ ڈونٹ وری ۔۔مجھے یقین ہے وہ ایک ٹرائل کا موقع ضرور
    دیں گے ۔۔ یہ صرف تمہارا ہی نہیں ہم سب کا خواب تھا ۔۔یہ پاکستان کے لیے ایک اعزاز تھا ۔
    مگر دوسری طرف بدستور گہری خاموشی رہی۔۔’’ وہ اسے کیا بتاتی کہ بعض خوابوں کی تعبیر کتنی بھیانک ہوا کرتی ہے۔‘‘
    ویسے یار میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ۔۔ شاعروں ادیبوں کو اِس بھدے سے چاند میں پتا نہیں کیا رومانس نظر آتا ہے ۔۔اصل
    چارم تو یہ ہے کہ کوئی آپ سے ہزاروں میل کے فاصلے پر انٹر نیشنل سپیس سٹیشن میں بیٹھ کے دن رات آپ کو یاد کرے۔
    ارمان نے منتہیٰ کا موڈ بدلنے کی ایک سعی کی ۔
    جسٹ شٹ اَپ ارمان ۔۔ بے اختیار ہنستے ہوئے منتہیٰ نے اُسے ایک مکا مارا ۔
    آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرا ایسا کوئی ارادہ ہرگز نہیں ۔
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم مجھے مِس نہیں کروگی ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    نہیں ۔۔میرا ناسا مشن پر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔ میں وہ سب چھوڑ آئی تھی ۔
    اُف۔۔ منتہیٰ۔۔ خیر ۔ ابھی بہت ٹائم ہے ۔۔ تمہارے پوری طرح صحت یاب ہونے میں ۔۔آئی ایم شیور کے تم میری بات
    مانو گی ۔۔ آؤ چلیں ۔۔ ارمان نے اس کا ہاتھ تھام کر ریسٹ ہاؤس کے طرف قدم بڑھائے۔
    لیکن منتہیٰ اُس روز رات سونے تک اِسی طرح گم صم تھی ۔۔ ارمان نے خود کو ۔کوسا ۔۔ وہ قبل از وقت ایک موضوع چھیڑنے کی
    غلطی کر چکا تھا۔۔۔وہ آتشدان کے پاس گھنٹوں میں سر دیئے کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ارمان لیپ ٹاپ لیکر اُس کے
    پاس جا کر بیٹھا اور فلیش ڈرائیو لگا کر اسے سیو دی ارتھ کے کچھ نئے پراجیکٹس دکھانے لگا ۔۔مگر دوسری طرف ہنوز لاتعلقی
    سی تھی ۔
    ارمان کے صبر کا پیمانہ چھلکا ۔۔ یار منتہیٰ کچھ تو بولو ۔۔ ٹھیک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتیں تو مجھ سمیت ۔۔کوئی بھی فورس نہیں کرے گا
    منتہیٰ نے کچھ جواب دیئے بغیر لیپ ٹاپ اُس کے ہاتھ سے لے کر سکرین فولڈ کر کے پیچھے رکھا ۔۔پھر وہ اٹھ کر اپنے ساتھ لائے
    سامان تک گئی ۔۔ارمان دم سادھے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا ۔۔اُس کی چھٹی حس خبردارکر رہی تھی ۔۔کہ کچھ انہونی
    ہونے والی تھی ۔
    منتہیٰ پلٹی ۔اُس کے ہاتھ میں لکڑی کا منقش باکس تھا ۔۔پھر واپس آتشدان تک آکر وہ ارمان کو تھمایا ۔
    یہ کیا ہے ۔۔؟؟ وہ حیران ہوا
    یہ باکس میں نے جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے نینسی کو دیا تھا ۔۔کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ۔۔وہ آپ کو دیدے
    کیا مطلب۔۔؟؟ کیا تمہیں پتا تھا کہ تمہیں کچھ ہو جائے گا ۔۔؟؟
    نہیں۔ احتیاطً رکھوایا تھا ۔۔ اچھا ۔۔لیکن اِس میں ہے کیا ۔۔ارمان اُسے کھولنے ہی لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُس کے ہاتھ روکے۔
    اِس میں ایک پزل ہے جو آپ کو خود حل کرنا تھا ۔۔ اور اب بھی آپ ہی حل کریں گے۔۔ بہت خشکی سے جواب دیکر وہ اٹھی
    کمبل اوڑھتے ہوئے ۔۔اُس نے ایک نظر ارمان پر ڈالی وہ باکس ہاتھ میں لیے کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔

    ***********

    ارمان یوسف کو منتہیٰ پر پہلا شک اُس وقت ہوا تھا جب وہ ہارورڈ کی سمر ویکیشنز میں اپنی ڈورم میٹ کیلی کے ساتھ الاسکا گئی تھی ۔۔بظاہر وہ کافی عرصے سے سیو دی ارتھ سے لا تعلق تھی ۔۔لیکن الاسکا یونیورسٹی اور ہارپ میں جتنی دلچسپی منتہیٰ کورہی تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی ۔۔ وہ اُس کے لیے فکر مند تھا ۔
    اور آج اِس لکڑی کے باکس کو کھولتے ہوئے ارمان کے سب خدشات نے ایک دفعہ پھر سر ابھارا تھا۔۔۔ دھڑکتے دل کےاس نے باکس کھولا ۔۔اُس میں کچھ گفٹس تھے ۔۔ایک رنگ کیس ۔۔ایک برانڈڈ پرفیوم ۔۔کچھ فلیش ڈرائیوز ۔۔اور۔۔
    ارمان کا منتہیٰ کو دیا ہوا واحد تحفہ بریسلٹ کیس ۔۔وہ ہر شے کو کارپٹ پر انڈیلتا گیا ۔
    پھر اُس نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ فلیش ڈرائیو ز ۔۔ایک ایک کر کے لگائیں ۔۔ان میں ایس ٹی ای کے کچھ پرانےپراجیکٹس کی تفصیلات تھیں ۔۔لیکن ارما ن کو اِس جگ سا پزل کا پہلا ٹکڑا مل چکا تھا ۔۔’’ سیو دی ارتھ‘‘۔
    اب اسے مزید ٹکڑے ڈھونڈ کر اس پزل کو مکمل کرنا تھا ۔۔وہ ہر چیز کو ایک دفعہ پھر کھنگالتا گیا ۔۔ یقیناًمنتہیٰ نے اس گفٹ باکس
    کا پزل اس لیے بنایا تھاکہ نینسی کو شک نہ ہو ۔اور اِس کے ذریعے وہ کچھ ا س تک پہنچانا چاہتی تھی ۔۔ محفوظ طریقے سے۔ لیکن کیا ۔۔؟؟
    یکدم اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا ۔۔ ڈیٹا پہچانے کا بہترین سورس ۔۔فلیش ڈرا ئیوز ۔۔وہ سیکرٹ کسی فلیش ڈرائیو میں تھا ۔۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ارمان نے مڑ کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ اس کے چہرے پر بے انتہا سکون تھا ۔۔ جیسےصدیوں کی جاگی ۔آج سوئی ہو ۔۔ ارمان نے اٹھ کر غٹا غٹ پانی کے دو گلاس چڑھائے ۔۔ اسے کافی شدید طلب تھی ۔
    وہ ہمیشہ ایک چھوٹا کافی میکر اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔۔ گرما گرم کافی کے گھونٹ لیتا ہوا وہ کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہلتا رہا ۔
    باکس کا سارا سامان اُسی طرح کارپٹ پر بکھرا پڑا تھا ۔۔
    کچھ سوچتے ہوئے جھک کر اس نے بریسلٹ کیس اٹھایا جو اس تمام سامان میں وہ واحد گفٹ تھا جو ارمان نے منتہیٰ کو دیا تھا ۔
    جب یہ منتہیٰ نے نینسی کو دیا ۔۔تو اس میں بریسلٹ موجود ہوگا ۔۔ جو اَب ہمہ وقت ۔۔اس کی نازک سی کلائی کی زینت بنا رہتاتھا ۔۔وہ سوچتا گیا ۔۔
    کسی خیال کے تحت اُس نے کیس کے فومی کور کو دبایا ۔۔ وہ دبتا چلا گیا ۔۔ ارمان کا دورانِ خون تیز ہوا ۔۔اُس نے چٹکی سے پکڑ کر فوم کھینچا ۔۔وہ اکھڑتا چلا گیا ۔۔ کور کی دوسری جانب کچھ لکھا تھا ۔۔ وہ اِس ہینڈرائٹنگ سے بخوبی آشنا تھا ۔
    A riddle wrapped in an engima …..
    پزل کا تیسرا ٹکڑا اُسے مل چکا تھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر یہ الفاظ گوگل کیے ۔۔ یہ ونسٹن چرچل کی ایک ریڈیو سپیچ سے ماخوذ الفاظ تھے ۔جب وہ دوران جنگ رشینز کو سیکیورٹی سے متعلق کوئی خفیہ پیغام دینا چاہتا تھا۔
    ارمان یوسف نے کڑی سے کڑی ملا ئی ۔۔ سیو دی ارتھ ۔۔، فلیش ڈرائیوز ۔۔،سیکرٹ میسج ۔۔ اگرچہ پزل کا چوتھا ٹکڑا باکس میں نہیں تھا ۔۔ مگر اُس کے ذہن میں ضرور تھا ۔۔ ہارپ ۔۔ اینٹی ہارپ ٹیکنالوجی ۔۔ اور ایسی دوسری تمام ٹیکنالوجیز کا توڑجو ہماری اِس پیاری زمین کو تیزی کے ساتھ تباہی کے دہانے پر لے کر جا رہی ہیں ۔۔ وہ جانتا تھا ۔ منتہیٰ اِن کی تلاش میں آخری حدتک گئی ہوگی ۔۔ ایک سو بیس آئی کیو رکھنے والی منتہیٰ کے لیے کسی بھی ٹیکنالوجی کی جڑتک پہنچنا بائیں ہاتھ کا کام تھا ۔
    اور پزل تقریباًمکمل ہو چکا تھا ۔۔یکدم بہت سارے خدشات نے سرا بھارا ۔۔ فلیش ڈرائیو اُس کے ذہن سے محو ہوچکی تھی۔

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    یورپ ، امریکہ ، فرانس، دبئی ۔۔ ایک عالم نئے سال کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر امڈا ہوا تھا ۔۔ کہیں آتش بازی کی تیاریاں تھیں توکہیں رات بھر کی ہلڑ بازی ، جشنِ عیش و نشاط کی ۔
    انسان بھی عجیب مخلوق ہے ۔۔ خود فریبی کے نجانے کیسے کیسے طریقے ایجاد کر لیے گئے ہیں ۔۔ ایک ایسے سال کا جشن منایا جا رہا تھا ۔۔ جس کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔۔ کہ وہ اُن سب کے لیے کیسے دکھ ، کیسی آزمائشیں ۔۔ کیسے خطراتاور کون کون سی آفات اپنے جلو میں لیے وارد ہونے والا ہے۔
    وہ جو آج جشن سالِ نو کی بد مستی میں سب سے آگے تھے۔۔کل اِسی سال کو رخصت کرتے ہوئے۔۔ کوسنے دینے میں بھی سب سے بڑھ کر ہوں گے ۔۔انسان جب اپنی زندگی سے اعلیٰ مقاصد کو نکال کر صرف اپنے لیے جینا شروع کر دے۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    تو پھر ہیپی نیو ایئر اور ہیپی ویلنٹائن ڈے جیسی اصطلا حیں وجود میں آتی ہیں ، جن کا سرے سے کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔دبئی کےبرج خلیفہ پر دنیا کے سب سے بڑے اور بے مثال آتش بای کے مظاہرے کا انتظام تھا ۔
    کیا دنیا کے اِن کھرب پتیوں کوبھوک اور امراض سے مرتے افریقی قبائل نظر نہیں آتے ۔۔؟؟ کیا ایشیا میں غربت کی سطح سے کہیں نیچے بسنے والے کروڑوں افراد اِن کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔۔؟؟؟آنکھوں پر پٹی تو کسی کے بھی نہیں بندھی ہوئی ۔۔۔ ہاںاگر انسان خود ہی نہ دیکھنا چاہے تو الگ بات ہے۔
    اور ان سب ہنگاموں سے لا تعلق اس چھوٹے سے فلیٹ میں دیوار سے لگی بیٹھی منتہیٰ کی دنیا اِس وقت شدید طوفانی جھکڑوں کی زد پر تھی۔۔۔ وہ کیوں رو رہی تھی ۔۔؟؟ اُسے کیا حق تھا ۔اُس شخص پر جسے وہ خود چھوڑ چکی تھی ۔ اپنے روشن مستقبل اور اپنے خوابوںکی تعبیر پانے کے لیے ۔۔۔؟؟
    وہ آسمان کی بلندیوں سے پاتال کی کھائیوں میں گری تھی ۔۔۔۔ اور وہ یقیناًخداکی ذاتِ پاک ہی تھی۔۔ جس نے اُس کے  نصیب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمعیں فروزاں کی تھیں ۔
    غم کی طویل رات ختم ہو چکی تھی اور سپیدۂ سحر نمودار ہونے کو تھا ۔ منتہیٰ نے فجر کی نما زکے بعد قرآنِ پاک کھولا ۔


    اور انسان طبعاًانتہائی نا شکرا واقع ہوا ہے۔۔جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پورے قلبی جھکاؤ کے ساتھ اپنے اللہ کو پکارتاہے ۔۔

    لیکن اس کے بعد جب اُسے آسائش میسر آتی ہے تو وہ اپنی ساری گریہ و زاری کو بھول کر کہنے لگتا ہے کہ اس کا مسیحا تو کوئی اور بنا ۔۔ 

    سورۂ الازمر


    آیت کیا تھی‘ ایک برچھی تھی جو سیدھی منتہی ٰ دستگیر کے سینے پر عین وسط میں پیوست ہوئی تھی ۔۔ ’’ اور ارمان یوسف اُس کے صبر کا
    انعام نہیں تھا ۔۔۔ یہ فیصلہ ہو چکا تھا ۔”
    اسی شہر میں کچھ فاصلے پر ارمان فجر کی نماز پڑھ کر کھڑکی میں کھڑا تھا ۔۔ اور موسم کی تمام پیشن گو ئیوں کے بر خلاف ۔۔نئے سال کا
    پہلا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تھا ۔ کل شام سے گرتی کچی بر ف، سورج کی کرنیں پڑتے ہی ۔۔ چاندی کی طرح
    جگمگانے لگی تھی۔
    رات بھر ۔۔سالِ نو کا جشن منانے والے ۔۔ نشے میں دھت اپنے اپنے بستروں میں مدہوش پڑے تھے ۔
    "اور یہ طلوع ہوتا سورج ، یہ گرتی برف ، ۔یہ پربتوں پر روئی کے گالوں جیسے اُڑتے بادل۔۔، یہ سونا مٹی ۔۔ اور اِس سے
    پھوٹتی ہریالی ۔۔ انسان سے شکوہ کنا ں تھی ۔۔کیا خدا نے یہ سب نعمتیں اِس لیے اتاری تھیں کہ انسان کی زندگی کا مرکز و محور
    صرف اور صرف اُس کی اپنی ذات ٹھہرے ۔۔وہ عیش و مستی میں دن رات خدا کی اِن سب نعمتوں کی نا قدری کرتا ہے ۔۔ انسانیت کی
    تذلیل کرتا ہے ۔۔ او ر وہ قطعاًبھول بیٹھا ہے کہ اگر کسی روز سورج نے طلوع ہونا بند کر دیا ۔۔ چاند نے سمندروں پر اپنا فسوں بکھیرنا چھوڑ
    دیا ۔۔ یایہ ہر دم رواں رہنے والی ہوا ۔۔ کسی دن ہمیشہ کے لیئے اُس سے روٹھ گئی ۔۔ تو پھر وہ کہاں جا ئے گا ۔۔۔؟؟؟

    ***********

    تین دن بعد کی فلائٹ ہے ۔۔ آپ پیکنگ کر لیں ۔۔ رات ارمان نے منتہیٰ کو آگاہ کیا ۔
    مگر دوسری طرف ہنوز گمبھیر خاموشی رہی ۔
    میری کسی مدد کی ضرور تو نہیں ۔۔؟؟؟ اُس نے بات کرنے کی ایک اور سعی کی
    نہیں۔۔ مختصر جواب آیا ۔
    میں ذرا امی ابو کو بتا دوں ۔۔ اُس دشمنِ جاں کا سامنا پتا نہیں آج اتنا دشوار کیوں تھا ۔ منتہیٰ نے پہلو بچایا ۔
    ارمان کچن میں کافی بناتے ہوئے گاہے بگاہے ایک نظر اِس لڑکی پر ڈال لیتا تھا جو ایک ہی رات میں مزید کئی ماہ کی
    بیمار لگنے لگی تھی ۔۔۔لیکن وہ کیا کر سکتا تھا ،، فی الحال تو کچھ بھی نہیں ۔
    منتہیٰ میری جان ۔۔مجھے تمہارے اِس فیصلے سے جتنی خوشی ہوئی ہے میں بتا نہیں سکتا ۔۔ فاروق صاحب کی آواز شدتِ
    جذبات سے بوجھل تھی ۔۔ ہم نے تاریخ رکھ دی ہے آج ہی ۔
    تاریخ۔۔؟؟؟۔۔ اوہ اچھا ابو ‘ رامین کی شادی کی تاریخ کی بات کر رہے ہوں گے ۔۔ اُس نے غائب دماغی سے سوچا
    جی ابو ۔۔ میں بھی بہت خوش ہوں ۔۔ صبح کا بھولا دیر ہی سے صحیح ۔۔ مگر گھر لوٹنے کو تھا ۔
    کال بند کر کے منتہیٰ بہت دیر تک سیل ہاتھ میں لیے روتی رہی ۔اور سامنے صوفے پر بیٹھے ارمان نے اُسے چپ کرانے کی کوئی
    بھی کوشش نہیں کی تھی ۔۔ وہ مزے سے کافی کی چسکیاں لیتا رہا ۔ اور پھر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
    فلیٹ سے باہرنکلتے ہی سیڑھیوں پر اس کی مڈ بھیڑ نینسی سے ہوئی ۔ جس نے اُسے دیکھتے ہی پہلے دیدے گول گول گھمائےپھر سیٹی بجائی ۔
    so finally you came … I said her..just wait and have faith
    اور جواب دینے کے بجائے ارمان اُسے سیڑھیوں سے نیچے دھکیلتا گیا تھا ۔۔۔
    رات سات بجے کی فلائٹ تھی ۔
    کلیئرنس وغیرہ سے فارغ ہوکر جب وہ ڈیپارچر لاؤنج پہنچے ۔۔تو ارد گرد کوئی سہارا نہ ہونے کے باعث منتہیٰ ڈگمگائی ۔ارمان
    اُسے سہارا دینے کے لیے بڑھا ۔ دونوں کی نظریں ملیں ‘ کچھ لمحے بیتے‘ کچھ سا عتیں گزریں اورپھر منتہیٰ نے تیزی
    سے خود کو سنبھال کر اپنا ہاتھ چھڑایا ۔ ارمان !منتہیٰ سہارے نہیں لیا کرتی ۔
    ارمان نے بمشکل خون کے گھونٹ پیے۔یہ لڑکی بھی نہ ۔’’ خیر منتہیٰ بی بی” ارمان یوسف بھی کم نہیں ۔۔یاد رکھو گی ۔
    ایئرپورٹ پر بہت سارے لوگ اُن کے منتظر تھے ۔۔ امی‘ ابو‘ رامین‘ جبران ۔۔ ارحم ، شہریار ۔۔ وہ آج بھی اُن سب کے
    لیے پہلے جیسی اہم تھی ۔۔۔اور معتبر بھی ۔
    دنیا کی ٹھوکریں کھا کر بالاخر اولاد واپس وہیں پلٹتی ہے ۔ جو ماں باپ بچپن سے سکھا اور سمجھا رہے ہوتے ہیں لیکن عقل تبھی آتی ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے ۔۔ذلت ، تنہائی اور زمانے کی ٹھوکریں مقدر میں لکھ دی گئی ہوں ۔ تو کیا کیجیے ۔۔ وہ لوٹ تو آئی تھی ۔ ۔ مگر آگے بڑھ کر گلے لگنے کی ہمت نہیں تھی ۔
    اولاد نکمی ہو یا ہونہار ۔۔کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر لوٹی ہو۔۔ یا ٹھوکریں کھا کر ۔۔ والدین کے لیے وہ صرف اُن کی
    اولاد اُن کے وجود کا ایک بچھڑا حصہ ہوتی ہے ۔اپنی آخری سانس تک وہ بازو وا کیے ۔ منتظر رہتے ہیں کہ طویل مسافتوں سے تھک کر مسافر اُن کی آغوش میں دم لینے کو ضرور پلٹے گا ۔۔ منتہی ٰ کے لیے بھی بازو و اکیے ماں بھی منتظر تھی اور باپ بھی ۔
    اور پھر آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ ارحم اور شہریار نے بہت دکھ اور حیرت سے ارمان کو
    دیکھا ۔۔ یہ ٹوٹی پھوٹی آنسو بہاتی لڑکی ۔۔ یہ کون تھی ۔۔؟؟۔
    یہ منتہیٰ دستگیر تو نہ تھی ۔۔ جسے ارحم آئرن لیڈی کہا کرتاتھا ۔
    اگرچہ طویل فلائٹ میں منتہیٰ نے صرف آرام ہی کیا تھا ۔۔ جس سے ارمان خاصہ بور ہوا تھا ۔۔ پھر بھی دادی کی گود میں سر رکھتے ہی وہ یوں بے فکر ہو کے سوئی کہ مغرب پر رامین نے اُسے جھنجوڑ کر اٹھایا۔
    آپی اٹھیے ۔۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ۔۔؟؟
    ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔ ویسے ہی تھکن ہو رہی تھی ۔۔منتہیٰ نے کیچر میں اپنے لمبے بال سمیٹے ۔
    مینا !اب اٹھ بھی جاؤ ۔ امی کمرے میں چائے کا کپ لے کر داخل ہوئیں ۔۔شادی کا گھر ہے ۔۔ پہلی ہی دسیوں کام ادھورے
    پڑے تھے ۔ اوپر سے تمہارے یہ جلد بازی کے فیصلے ۔۔ امی نے اُسے پیار بھری ڈانٹ سنائی ۔ عا صمہ بہت خوش تھیں
    جی امی! آپ فکر مت کریں میں رامین کے ساتھ سب کروا لوں گی ۔۔ اُس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔
    اچھا ۔۔ رامین کی شادی کے کارڈ تو چھپ کر آگئے ہیں ۔ اب تمہارے ابو اور دے آئے ہیں ۔تین چار دن میں مل جائیں
    گے ۔۔ امی نے اُسے مطلع کیا ۔
    اور کارڈ کیوں امی ۔۔؟؟؟ منتہیٰ چونکی
    ارے امی ۔۔آپ چولہے پر کچھ رکھ کر آئی ہیں ۔۔ دیکھیں جلنے کی بو آرہی ہے ۔۔ رامین کو تو جیسے پتنگے لگ گئے تھے
    مجھے تو نہیں آ رہی ۔۔۔۔ امی نے برا سا منہ بنا یا ۔
    ارے امی جا کر تو دیکھیں ۔۔میں آپی کو شادی کے کپڑے دکھا تی ہوں ۔۔ رامین نے ماں کو راہ دکھائی ۔
    رامین یہ امی کون سے کارڈز کی با ت کر رہی تھیں ۔۔؟؟ ۔۔منتہیٰ کی سوئی وہیں اٹکی رہ گئی تھی ۔
    وہ آپی ۔۔ رامین نے سر کجھایا ۔۔ ہاں وہ ۔۔ کارڈز کم پڑ گئے ہیں نہ۔۔ اب آ پ بھی تو اپنے فرینڈز کو انوائٹ کریں گی ۔
    تو ابو اور کارڈ چھپنے دے آئے ہیں ۔
    میں کس کو انوا ئٹ کروں گی ۔۔؟؟۔۔ منتہیٰ نے غائب دماغی سے سوچا ۔
    آپی میں ذرا ایک کال کر آؤں پھر آکر آپ کو ڈریسز دکھاتی ہوں ۔۔ رامین باہر لان تک آئی اور ارمان کا نمبر پنج کرنے لگی
    امی نے ڈنر پر خاصہ تکلف کیا ہوا تھا ۔ ڈنر سے فارغ ہوکر وہ بیٹھے ہی تھے کہ ڈور بیل بجی ۔ منتہیٰ چونکی اِس وقت ۔۔کون؟؟۔
    پھر آنے والوں کو دیکھ کر ایک لمحے کو اپنی جگہ ساکت ہوئی ۔۔ پتھرائی ۔۔ ڈاکٹر یوسف کاسامنا کرنے کا حوصلہ اب تک اُس
    میں نہیں تھا۔۔ اُن کے ساتھ مریم اور ارمان بھی تھے ۔
    منتہیٰ نے بمشکل خود کو سنبھال کر سلام کیا ۔۔۔ مریم ہی نہیں ڈاکٹر یوسف نے بھی ایک بہت گہری نظر منتہیٰ کی حالت پر ڈالی۔
    اور پھر اپنے دیوانے بیٹے پر ۔
    تھوڑی سی دیر بیٹھ کر وہ اٹھ آئی ۔۔ اور اُس کے پیچھے رامین بھی ۔۔ آپی پھر کل میرے ساتھ چل رہی ہیں نہ شاپنگ پر ۔۔ رامین
    کی اپنی تیاریاں ہی کیا کم تھی کہ اب اُسے بہن کی مدد بھی کرنی تھی ۔

    ***********

    منتہیٰ کے جواب دینے سے پہلے دستک ہوئی۔۔ دروازے کے عین وسط میں ارمان سینے پر ہاتھ باندھے ایستادہ تھا ۔
    رامین لپک کر اُس کے سر پر پہنچی ۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔؟؟ شرارت سے کمر پر ہاتھ رکھ کر اُس نے ارمان کا راستہ
    روکا ۔
    میں آنٹی اور انکل سے اجازت لے کر آیا ہوں رامین بی بی ۔۔ ارمان اُسے پرے دھکیلتا ۔۔اندر آیا
    منتہیٰ میں یہ اپنی شادی کا کارڈ آپکو دینے آیا تھا ۔۔ اُس نے قریب آکر ایک گولڈن اور میرون امتزاج کا خوبصورت سا
    کارڈا س کی طرف بڑھایا ۔
    ایک لمحے کو منتہیٰ کے ہاتھ کانپے تھے ۔۔ صرف ایک لمحہ۔ تھینک یو ۔۔ کب ہے آپکی شادی ۔۔؟ پھر وہ خود کو سنبھال چکی تھی ۔
    وہ آپ خود پڑھ لیں ۔۔ ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    ہاں آپی دیکھیں نہ کیسا ہے جناب کی شادی کا کارڈ ۔۔ رامین نے دوبارہ کارڈ اُسے تھمایا ۔۔ جو اَب سائڈ ٹیبل پر دھرا تھا ۔
    کیسا ہونا ہے۔۔؟؟ جیسے ویڈنگ کارڈ ہوتے ہیں ویسا ہی ہو گا ۔۔ انہوں نے کیا اپنا انسائکلو پیڈیا پبلش کروا یا ہوگا ۔؟؟
    منتہیٰ نے برا سا منہ بنا کر کارڈ دوبارہ تھاما۔
    ہاں میں نے سوچا کہ ۔۔ بندہ زندگی میں ایک ہی دفعہ شادی کرتا ہے تو کوئی یونیک سا کارڈ‘ کوئی منفرد ساآئیڈیا ہونا
    چاہیے۔۔ارمان کے لبوں بہت دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔
    اِس دشمنِ جاں کے منہ سے اُس کی شادی کا ذکر اور پھر ۔۔ یہ گہری مسکراہٹیں۔۔ منتہیٰ نے بہت سے آنسو اندر اتار کرکارڈ کھولا ۔
    اور پھر زمین گھومی تھی ۔۔ یا آسمان ۔۔ وہ خواب میں تھی ۔۔ یا جاگتے میں خواب دیکھنے لگی تھی ۔۔ اُس نے ایک دفعہ آنکھیں مسل
    کر بغور کارڈ کو اور پھر حیرت سے ساتھ بیٹھی رامین کو دیکھا ۔
    بہت بہت مبارک ہو آپی ۔ ارمان بھائی آپ کے تھے اور آپ کے ہی رہیں گے ۔ رامین نے اُس کے گال چومے۔۔ کمرے
    سے رفو چکر ہوتے وقت وہ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتی گئی تھی ۔
    ارمان آہستہ آہستہ کارپٹ پر قدم دھرتا اُس کے پاس بیڈ تک آیا ۔۔لیکن منتہیٰ ابھی تک گنگ بیٹھی تھی ۔
    کیا واقعی اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا تھا ۔۔ ارمان سمیت اُن تمام نعمتوں کی نا شکری پر جو وہ آج تک کرتی چلی آئی تھی ۔
    نیک مرد نیک عورتوں کے لیے اور نیک عورتیں ، نیک مردوں کے لیے بنائی گئی ہیں وہ نیک نہیں تھی پھر بھی نوازی جارہی تھی ۔
    "منتہیٰ”۔ ارمان نے بہت نرمی سے اُس کے ہاتھ تھام کر اسے پکارا ۔۔۔ اور منتہیٰ کو لگا تھا کہ اُ سے ارمان نے نہیں ۔۔ زندگی
    نے پکارا تھا ۔۔ وہ اُس کے روٹھے نصیب کی پکار تھی ۔۔آنسو کا ایک سیلاب تھا جو اُس کی کجراری آنکھوں سے نکل کر ارمان کے
    شرٹ کو بھگوتا چلا گیا ۔
    دروازے پر ہوتی مدھم سی دستک ۔۔ جیسے دونوں کو حال میں واپس لائی ۔۔منتہیٰ، ارمان کے بازوؤں سے تیزی سے نکل کر
    پیچھے ہٹی ۔۔ اورارمان بھی جیسے کسی خواب سے جاگا ۔
    رامین ہاتھ میں کافی کی ٹرے لیے اندر آئی ۔۔ تب تک وہ دونوں خودکو سنبھال چکے تھے ۔
    شکر کریں ۔۔ عین وقت پر میں نے امی کو روک لیا ۔۔ وہ کافی لے کر آرہی تھیں ۔۔ رامین نے ساری سچویشن سمجھتے ہوئے دونوں
    کو چھیڑا ۔۔منتہیٰ کے گال شہابی ہوئے۔
    شکر کیوں کریں۔۔ ہمیں پتا تھا باڈی گارڈ باہر ہی ہوگا ۔۔ ارمان کچھ کم ڈھیٹ نہیں تھا،
    اچھا زیادہ باتیں مت بنائیں ۔۔ جلدی سے کافی ختم کر کے یہاں سے نکلیں ۔۔ دادی ناراض ہو رہی ہیں آپ کے آنے پر ۔۔
    شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ۔۔؟؟
    رامین بی بی۔میں سب بڑوں کو بتا کر آیا تھا کہ منتہیٰ سے بک کے فائل لینی ہے ۔۔ تاکہ پبلشر سے بات کر سکوں ۔
    وہ تو ٹھیک ہے ۔۔ لیکن اگر اُن کو پتا لگ جائے نہ کہ آپ نے اُن کی لاڈلی کو کیسے ستایا ہے ۔۔ تو آپ کی خیر نہیں۔
    اُن کی لاڈلی نے بھی دوسروں کو کچھ کم دکھ نہیں دیئے سو تھوڑا حق میرا بھی بنتا تھا ۔ارمان نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ مگ
    کے کناروں کو گھورا ۔۔کمرے میں یکدم گمبھیر خاموشی چھا گئی۔
    ارمان نے تیزی سے کافی ختم کر کے مگ رامین کو تھمایا ۔۔پھر چند قدم چل کر منتہیٰ کے بیڈ تک آیا ۔ جس کا سر ندامت سے جھکا
    ہوا تھا ۔۔ ارمان نے اُس کی تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر اٹھایا۔
    تو پھر آپ آ رہی ہیں نہ میری شادی پر ۔۔؟؟ اس کی آوا زہی نہیں ۔۔ نگاہوں میں بھی بے پناہ شرارت تھی ۔
    کمرے میں رامین کا اونچا قہقہہ گونجا ۔۔ بہت سی آزمائشوں ، کٹھن اور طویل انتظار کے بعد وہ ایک ہونے کو تھے۔۔’’کیونکہ
    وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے تھے ۔”

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    Cosmology in the light of Holy Quran

    بہت سوچ کر منتہیٰ نے اپنی کتاب کا نام تجویز کیا تھا ۔۔ اور اب وہ ایڈیٹنگ کے آخری مراحل میں مصروف تھی۔۔ سینٹرٹیبل پر فائل اور پیجز بکھرے پڑے تھے ۔۔ تھک کر منتہیٰ نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔۔ کچھ سوچتے ہوئے ریموٹ تھام کر ٹی وی آن کیا ۔۔ پھر چینل پر چینل تبدیل کرتی گئی ۔ ایک سائنس چینل پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی کسی انٹر نیشنل کانفرنس کو لا ئیو دکھا نے کی فوٹیج چل رہی تھی ۔
    ’’ دنیا کے ذہین ترین افراد نیو یارک میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ۔۔ سر جوڑے بیٹھے تھے ۔ان کے پاس وسائل تھے ، کچھ کر دکھانے کا عزم بھی تھا ۔لیکن اُنکے پاس کمی تھی تو صرف ایک چیز کی ۔۔ اِس اعتراف کی ۔۔کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ زمین انسان کو جنت بنا کر عطا کی تھی ۔لیکن اِسے جہنم کا نمونہ اُس نے خود بنایا ہے۔۔ سپر پاورز اور جی ایٹ کے اِن مما لک نے جو آج انسانیت کےنا خدا بنے بیٹھے ہیں ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    چند یورپی شرکاء کے بعد سٹیج پر آکر مائک سنبھالنے والا ۔۔ ارمان یوسف تھا ۔۔ ڈارک بلیک سوٹ ، بلیو لائنر ٹا ئی ، آنکھوں پرنفیس فریم کا چشمہ ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ سکرین زوم کی ۔۔ اس کو اتنے دن بعد دیکھنا کتنا اچھالگ رہا تھا ۔۔ وہ پہلے سے زیادہ گریس فل ہو گیا تھا ۔۔
    "میں ایک ایسے خطے سے تعلق رکھتا ہوں جہاں کے باسیوں کی سوچ صدیوں سے یہ چلی آرہی ہے کہ قدرتی آفات ہمیشہ انسان کے برے اعمال پر اللہ کا عذاب ہوتی ہیں ۔۔ اپنی اِس سوچ کے مطابق وہ دعا ؤں ، نذر و نیاز ،صدقہ خیرات اوردرود و وضائف کے ذریعے اِن آفات کو ٹالنے کی سعی کرتے ہیں ۔۔ اِس یقین کے ساتھ کہ مجموعی اعمال میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لائے بغیر خدا اُن پر سے نا گہانی بلا کو ٹال دے گا ۔”
    "سات برس قبل جب میں نے ایک چھوٹے سے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کا آغا زکیا تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کے میرے لیے سب سے بڑا چیلنج لوگوں کی یہ قدامت پسند انہ سوچ بنے گی ۔ میں نے دیکھا کہ میرے وطن میں جو علاقے سب سے زیادہ قدرتی آفات کی زد پرتھے ۔وہاں کے باسی اپنی اِس سوچ میں اتنے ہی کٹر تھے ۔۔ ایسے لوگوں کا طرزِ زندگی تبدیل کر کے انہیں آفات سے از خود نمٹنے کی سٹر ٹیجی کی طرف لانا جان جو کھوں کا کام تھا ۔۔ بہت بار میرے اور میرے ساتھیوں کے قدم ڈگمگائے ۔۔ کئی دفعہ ہم سب کو اُن کے حال پر چھوڑ کر لوٹنے کو آمادہ ہوئے ۔۔ مگر خدا کو ہما رے  ہاتھوں ایک بڑا کام کروانا منظور تھا ۔۔ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اور زہر کا تریاق زہر ہے ۔ میں نے بھی مذہب کا توڑ مذہب سے کیا ۔ہمارے سامنے نبی آخرالزماں محمدﷺ کی عظیم مثال تھی کہ جب وہ تبدیلی کا پیغام لے کر نکلے تو پورا عرب  جہالت کے اندھیروں میں غرق تھا ۔۔”
    "آج کے مسلمان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہُ اس نے محمد ﷺ کے اعجاز سے ظہور میں آنے والے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا ہے ۔ اُس نے کبھی اِسے’’ وژولائز ‘‘کرنے کی کوشش نہیں کی ۔میں نے جانا کہ دیرپا تبدیلیاں استقامت اور  خونِ جگر مانگتی ہیں ۔۔”
    ارمان اِس وقت نیو یارک میں یو این او کے ایک معتبر پلیٹ فارم پرکھڑا تھا ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکا ۔۔ حاضرین پر ایک اچٹتی نظر ڈالی ۔۔جس میں نہ کوئی ڈر تھا نہ خوف ۔۔اور نہ ہی اِن نگاہوں میں سامنے بیٹھے دنیا کے ذہین ترین افرادکے لیے کوئی مرعوبیت تھی ۔۔ وہ مبہوت بیٹھےِ ا س شخص کو سن رہے تھے ۔۔ جو انہیں محمدﷺ کا اصل پیغام بتارہا تھا کہ انقلابات نہ خود کش دھماکوں کے زور پر آتے ہیں ۔۔ نہ توپوں ، ٹینکوں اور مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے بل بوتے پر۔

    "انقلاب نام ہے دلوں کی تسخیر کا ۔۔”

    ہم نے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، دیہاتوں میں ٹریننگ کیمپس لگائے ۔۔ آگاہی کی مہم چلائیں ۔ اپنی راتوں کی نیندیں حرام کرکے کبھی سیلاب، کبھی طوفان کی قبل از وقت وارننگ جاری کر کے بر وقت لوگوں کا انخلا کروایا۔
    زلزلے کے شدید جھٹکوں کے بعد ہم اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کبھی آرمی کے ساتھ اور کبھی ان سے بھی پہلے لوگوں کی مدد کو پہنچے ۔۔اور بعد کی
    آبادکاری میں ااپنا مؤثر کردار ادا کیا ۔۔یقیناًہم لوگوں کی سوچ مکمل طور پر اب تک تبدیل نہیں کر پائے ۔وہاں کوئی ہمیں دیوتا سمجھتا ہے تو کوئی اپنا مسیحا ۔۔لیکن ہماری جدوجہد ہر طرح کے ٹائٹلز سے ماوراء تھی۔
    آج آپ پاکستان میں جاکر دیکھیں تو آپ کو ہر علاقے میں اسکا اپنا ڈیزاسٹر سینٹر ملے گا ۔۔ جو نا صرف جیو سینسنگ اور کمپیوٹر کی تمام سہو لیات سے پوری طرح آراستہ ہے ۔ بلکہ اُسے وہاں کے مقامی افراد اپنے طور پر خود چلاتے ہیں ۔اِس سے وہاں لوگوں کو بہتر روزگار میسر آیا ۔۔ اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر بھی قابو پانے میں مدد ملی ۔۔
    آج شمالی علاقہ جات کا غیور پٹھان دوست اور دشمن میں فرق کی تمیز رکھتا ہے ۔۔ وہ پاک فوج کے ساتھ کھڑا اپنی سرحدوں کا محافظ ہے ۔۔ اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کا کھیل رچانے والوں کی گلی سڑی لاشوں کو گدھ نوچ کر کھا چکے ہیں۔۔ یقیناًہمارا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ۔۔جب تک پاکستان کا ہر شہری اپنے طور پر نا گہانی آفات سے نمٹنے کی اہلیت حاصل نہیں کر لیتا ہمارا مشن جاری رہے گا ۔۔
    منتہیٰ نے قریب جا کر حسرت سے سکرین کو چھوا ۔۔۔ رامین نے کہا تھا ۔۔ آپی وہ ایک دفعہ ضرور آئیں گے ۔۔ارمان نیو یارک میں تھا ۔۔۔ بہت قریب ۔۔ کیا وہ آئے گا ۔۔۔؟؟؟؟

    ************

    "تو آخر تم جیتے ۔۔اور میں ہارا ۔۔”
    درِ محبوب پر دستک سے پہلے ۔۔ارمان نے اپنے باغی دل کو مخاطب کیا ۔ لاکھ پہرے ڈالے ۔ زنجیریں پہنائیں لیکن بے سود ۔۔ آخر تمہیں رامین کی غلط فہمی بھی تو دور کرنی ہے۔۔ بے ایمان دل نے ایک اور عذرِ ناتواں تراشا ۔۔ ارمان نے سر جھٹک کر کوئی دسویں دفعہ بیل کی ۔۔ وہ جانتا تھا کہ منتہیٰ کے در۔ دیر سے ہی وا ہوا کرتے ہیں ۔۔ چند منٹ بعددروازے کے دوسری طرف آہٹ سنائی دی ۔۔ پھرڈور آئی سے کسی نے جھا نکا ۔۔ دروازہ کھلنے پر ارمان پلٹا ۔۔
    دونوں کی نظریں ملیں ۔ وقت کی چال تھمی ۔۔ سانسیں ساکت ہوئیں ۔ اور پھر ۔۔ وہ دونوں ہی حقیقت کی دنیا میں لوٹ چکے تھے ۔

    ہم کے ٹہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
    کب بنیں گے آشنا کتنی مدا راتوں کے بعد

    منتہیٰ نے راستہ چھوڑا ۔۔ آئیے ۔۔
    ارمان فلیٹ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ڈرائنگ روم تک آیا ۔۔ نینسی موجود نہیں تھی ۔۔ پھر مڑ کر اُس دشمنِ جاں کو دیکھا ۔۔اس کی چال کی لنگڑاہٹ نوٹ کی ۔۔ قریب ہی جا نماز بچھی تھی ۔۔ شاید منتہیٰ نماز پڑھ رہی تھی ۔۔بیٹھیے ۔۔اُس کی آوا ز اتنی مدھم تھی ۔۔ کہ ارمان کو بمشکل سنائی دی نہیں ، میں پہلے نماز پڑھو نگا ۔۔ کیا میں وضو کر سکتا ہوں ۔۔؟؟
    منتہیٰ نے کچھ کہے بغیر اُسے واش روم کا راستہ دکھایا ۔۔ اور خود کچن میں کافی بنانے چلی آئی ۔۔
    کیا دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں ۔۔؟؟ ۔کل سے اُسے دیکھ کر لبوں پر بس ایک ہی دعا تھی ۔۔۔ اور وہ آگیا تھا ۔
    ارمان نے سلام پھیر کر سجدے کی جگہ کو انگلیوں سے چھوا ۔۔ آدھی جا نماز گیلی تھی ۔آنسوؤں سے ۔۔ وہ کب سے رو رہی
    تھی ۔۔ ؟؟۔دکھ سے سوچتے ہوئے ارمان نے گیلی جا نماز فولڈ کی ۔
    کیسی ہیں آپ ۔۔؟؟ کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے ارمان نے اُسے بغور دیکھا ۔۔ سوجی متورم آنکھیں گواہ تھیں کہ تازہ برسات ہوئی تھی۔

    تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
    تھیں بہت بے مہر صبحیں مہر باں راتوں کے بعد

    ٹھیک ہوں ۔۔ مختصر جواب دے کر منتہیٰ سینٹر ٹیبل پر پھیلے پیجز اور فائل سمیٹنے کے لیئے اٹھی ۔۔ پھر لڑکھڑائی ۔۔ کل سے وہ سب کچھ
    ویسا ہی پڑا تھا ۔
    آپ بیٹھیے میں سمیٹتا ہوں ۔۔ ارمان کافی کا مگ ہاتھ سے رکھ کر اٹھا ۔۔ پھر پیجز کو فائل میں لگاتے ہوئے چونکا ۔۔ قرآنِ پاک کی
    آیات بمع تفاسیر تھیں۔۔ یہ آپ کوئی کتاب لکھ رہی ہیں کیا ۔۔؟؟
    جی ۔۔ بس ایک چھوٹی سی کوشش کی تھی ۔۔۔ اب مکمل ہونی والی ہے ۔
    اچھا ۔۔پھر کوئی پبلشر ڈھونڈا ۔۔؟؟ارمان کی دلچسپی بڑھی ۔۔ وہ جانتا تھا ۔۔ منتہیٰ ایک بہترین رائٹر ہے ۔
    نہیں ۔۔ یہ شائع نہیں کروانی ۔۔ بس یونہی لکھی ہے ۔
    ارمان نے اُسے بغور دیکھا ۔۔ وہ پہلے کی نسبت کچھ مزید کمزور، زرد ۔۔اور بجھی بجھی سی تھی ۔
    میں یہاں ایک کانفرنس کے سلسلے میں آیا تھا ۔۔ سوچا آپ سے مل لوں ۔۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ۔۔ اُسے اب بھی بہت فکر تھی ۔ نہیں۔۔ جھکی نظروں کے ساتھ پھر مختصر جواب آیا ۔۔ ایک لمحے کو سکارف درست کرنے کے لیئے منتہیٰ دایاں ہاتھ سر تک لے کرگئی ۔۔ ارمان کی نگاہیں اپنی جگہ منجمد ہوئیں ۔
    منتہیٰ کی نازک سی کلائی میں ارمان کا دیا ہوا بریسلٹ تھا ۔۔
    یہ اعزاز ملا بھی تو کب ۔۔؟؟ جب اُن کے درمیان ۔۔ صدیوں کے فاصلے تھے ۔۔ اور فاصلوں سے اونچی اَنا کی دیوار حائل تھی ۔
    کیا میں اِسے ساتھ لے جاسکتا ہوں ۔۔؟؟ اٹھتے ہوئے ارمان نے منتہیٰ سی اسکی بک فائل لے جانے کی جازت چاہی ۔ میں دو تین دن تک یہیں ہوں ۔۔ نئے سال کی تقریبات کے وجہ سے تمام فلائٹس بک ہیں ۔۔میں جاتے ہوئے آپ کو واپس کرجاؤں گا۔
    اُس کے بے ایمان دل نے اٹھتے ہوئے بھی دوبارہ حاضری کا بہانا تراش لیا تھا ۔۔
    ہوٹل پہنچ کر ارمان نے کافی کے سپ لیتے ہوئے منتہیٰ کے پاس سے لائی فائل پڑھنا شروع کی ۔۔۔ اور پھر صبح تک ایک ہی نشست میں وہ کتاب ختم کر چکا تھا ۔۔ منتہیٰ کی صلاحیتیں ایک بڑے حادثے سے گزرنے کے بعد کچھ اور کھل کر سامنے آئی تھیں ۔۔ ’’ جب غرور کا بت ٹوٹ جائے ۔۔ تو اندر سے نکھرا ، اُجلا اور ہر حال میں اپنی اوقات یاد رکھنے والا انسان اللہ کا عاجز بندہ باہر نکل آتا ہے ۔۔”
    ارمان شام کو اپنے ہوٹل سے نکلا ۔۔ برف کے چھوٹے چھوٹے گالے گرنے لگے تھے ۔۔ اور جاتے سال کے آخری سورج نے غروب ہونے سے بہت پہلے ہی ۔۔اپنا چہرہ چھپا لیا تھا ۔۔ دکھوں اور کڑی آزمائشوں پر محیط زندگی کا ایک سال ختم ہونےکو تھا۔وہ فیصلہ کر کے نکلا تھا کہ منتہیٰ کو اِس کتاب کی پبلشنگ پر ضرور قائل کرے گا ۔
    کل کی نسبت منتہی آج قدرے بہتر حالت میں تھی ۔۔
    "آپی آپ کو بہت مس کرتی ہیں ‘‘۔۔ کانوں میں رامین کے کہے الفاظ گونجے
    کافی دیر کی بحث کے بعد منتہیٰ کتاب کو شائع کرانے پر راضی ہوئی تو ارمان سکون کا سانس لیتے ہوئے جانے کے لیے اٹھا ۔۔
    پبلشنگ کی تمام ذمہ داری وہ پہلی ہی لے چکا تھا ۔۔
    ارمان ۔۔ منتہیٰ نے اُسے پکارا ۔۔ وہ ٹھٹک کر پلٹا ۔۔ اِس پکار میں کچھ تھا ۔۔
    ارمان۔۔ آ۔۔آپ ۔۔ وہ اٹکی ۔۔
    کیا بات ہے منتہیٰ۔۔؟؟ وہ براؤن جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پوری طرح اُسی کی طرف متوجہ تھا ۔۔
    ارمان۔۔ آپ مجھے بھی پاکستان ساتھ لے جائیں ۔۔ منتہیٰ نے پھولی سانسوں کے ساتھ بمشکل اپنی بات مکمل کی ۔
    ایک لمحے کو ساری دنیا گھومی ۔۔ کئی مدار بدلے گئے تھے ۔۔ یہ لرزتی پلکیں ، یہ کپکپاتے لب۔۔، یہ کانپتے ہاتھ ۔۔ وہ کیا کہناچاہ رہی تھی ۔۔۔؟؟ ارمان کا دل یکدم بہت زور سے دھڑکا تھا ۔
    دبے پاؤں بہت سے لمحے سرکے ۔۔ کچھ ساعتیں گزریں ۔۔ پھر ارمان خود کو سنبھال چکا تھا ۔۔
    لیکن آپ تو ایم آئی ٹی جوائن کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔۔ پھر ناسا مشن ۔ ۔۔آپ کا خواب تھا ،، اُسے بھی تو پورا کرنا ہے آپ نے ۔۔ ارمان نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ چوٹ کی ۔
    اور لوہا شاید کچھ زیادہ ہی گرم تھا ۔۔بھاڑمیں جائیں خواب ۔۔ مجھے صرف اپنے وطن ۔ اپنی مٹی میں واپس جانا ہے ۔۔ اپنے پیاروں کے پاس ۔۔۔ ناسٹالجیا کا اٹیک شدید تھا ۔۔ آنسوؤں کی جھڑی لگی ۔
    ارمان نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے۔۔ کہ اس کا سیل تھر تھرایا ۔
    ممی کالنگ ۔۔وہ ایکسکیوز کرتا ہوا راہداری تک آیا۔۔ کال ریسیو کرنے سے پہلے وہ ایک فیصلہ کر چکا تھا ۔
    بہت دیر تک چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ۔۔ منتہیٰ روتی رہی ۔۔ پھر اُسے یکدم ارمان کا خیال آیا ۔۔ وہ چلا تو نہیں گیا ۔۔ وہ تیزی سے لپکی ۔۔ ارمان کی آوازپر اُس کے بڑھتے قدم تھمے۔
    جی پاپا ۔۔ بس آپ کل ہی جا کر انکل سے بات کر کے تاریخ رکھ آئیں۔۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ۔
    آہٹ پر چونک کر پلٹاپھر جلدی سے خدا حافظ کہہ کر کال کاٹی۔
    سوری ممی کی باتیں ہی ختم نہیں ہو رہی تھیں ۔۔ آپ ساتھ چلنا چاہتی ہیں ۔تو موسٹ ویلکم ۔۔۔ خوش دلی سے جواب دے کر وہ دروازے کی طرف بڑھا ۔
    ارمان۔۔اُس کے بڑھتے قدم ایک دفعہ پھر تھمے ۔۔ وہ مڑا  ارمان آپ یوسف انکل سے کون سی تاریخ رکھنے کی بات کر رہے تھے ۔۔ ؟؟منتہیٰ کی سوئی کہیں اور اَٹکی رہ گئی تھی وہ ٹھٹکا ۔۔ بمشکل تھوک نگلتے ہوئے گویا ہوا ۔۔ وہ منتہیٰ۔۔ دراصل ممی مجھے اب بالکل بھی ٹائم دینے کے لیے تیار نہیں ۔۔ وہ میری واپسی کے چند ہفتے بعد ہی کی کوئی شادی کی تاریخ رکھ دیں گی ۔
    آپ شادی کر رہے ہیں ۔۔۔؟؟ منتہیٰ کو لگا جیسے کسی نے سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔کئی ماہ پہلے ایک ایسا وقت ارمان پر بھی آیا تھا ۔ لیکن کس سے ۔۔؟؟
    وہ بس ممی ،پاپا کی جاننے والی کوئی فیملی ہے ۔۔ اچھا میں چلتا ہوں ۔ اللہ حافظ
    بظاہر بہت عام سے لہجے میں بتا کر ارمان جا چکا تھا اور منتہیٰ وہیں راہداری میں دیوار سے ساتھ بیٹھتی چلی گئی تھی ۔

    جاری ہے
    ************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
    نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
    نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

    آپی یہ جبران کے بڑے بھائی ہیں ۔۔ یہ ان کا بھتیجا ہے ۔۔ رامین منتہیٰ کو اپنے نکاح کی پکچرز دکھاتے ہوئے ساتھ ساتھ بتاتی جا رہی تھی ۔۔ اس کے چہرے پر شفق رنگ بکھرے ہوئے تھے ۔۔ منتہیٰ نے غور سے اُسے دیکھا ۔۔ نکاح کے بعد وہ پہلے سے زیادہ پیاری ہو گئی تھی ۔۔بات بات پر کھلکھلاتی ۔۔ آنکھوں کے جگنو روشنیاں بکھیرتے ۔۔ کیا محبت واقعی عورت کا روپ بڑھا دیتی ہے ۔۔؟؟ چھوٹی چھوٹی با توں کو اب وہ پہروں بیٹھ کے سوچتی تھی ۔۔ کیونکہ
    اب سوچنے کے لیے وقت ہی وقت تھا۔ ڈاکٹر جبران ٹیکساس میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مقیم تھا ۔۔ رامین اور جبران کا یہیں سے اسپیشلائزیشن کا ارادہ تھا ۔۔آپی ، آپ کو جبران کیسے لگے ۔۔؟؟۔ رات رامین نے اُس کے پاس بستر میں گھس کر کر پوچھا ۔۔؟ جبران وہاں سے تھوڑی دیرپہلے ہی گیا تھا ۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    ذہین ‘ سمارٹ اور ڈیسنٹ۔۔۔ ہمیشہ کی طرح ٹو دی پوائنٹ جواب ۔
    اف۔۔ آپی ۔۔ اچھا یہ بتائیں ہمارا کپل کیسا ہے ۔۔؟؟
    بہت پیارا ۔۔۔ منتہیٰ نے بچوں کی طرح اُس کے گال تھپتھپائے ۔۔ وہ کہیں اور گُم تھی ۔
    ارمان بھائی کی کال نہیں آئی کیا ۔۔ جو آپ اتنی کھوئی کھوئی سی ہیں ۔۔؟؟ رامین نے اُسے چھیڑا
    منتہیٰ نے تیزی سے اپنا رُخ پھیرا ۔۔ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔ اُس دشمنِ جاں کے ذکر پر بہت سے سوئے زخم جاگے ‘ جب سے گیا تھا ۔۔ پھر رابطہ ہی نہیں کیا ۔۔۔ یاد تو آنا تھا ۔۔

    نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
    نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
    تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
    مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
    مرے ہم راہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
    تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں

    کچھ سوچتے ہوئے رامین نے کمرے کی لائٹس آف کیں اور باہر لاؤنج میں آکر ۔۔ ارمان کا نمبر پنچ کیا ۔
    ارمان آفس میں بے انتہا مصروف تھا ۔۔ بیل جاتی رہی ۔۔۔ کافی دیر بعد اُس نے کال ریسیو کی
    ہیلو رامین! خیریت ہے نا ۔۔ منتہیٰ ٹھیک ہیں ۔۔؟؟
    اُوہ ۔ہو۔۔ نہ سلام ۔۔ نہ دعا ۔۔ بڑا خیال ہے لوگوں کا ۔۔ آخر ہم بھی آپ کے کچھ لگتے ہیں ۔۔؟؟ ۔رامین نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔
    ارمان نے ریلیکس سا ہوکر چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔ آپ کے بہت کچھ لگتے وہیں قریب ہی ہیں آپ کے پاس ۔ یہ بتاؤ کال کیوں کی ہے ؟۔
    ہمم۔۔۔ پہلے آپ یہ بتائیں آپی کو کب سے کال نہیں کی آپ نے ۔۔؟؟
    کال میں کرتا رہتا ہوں ۔۔ کیوں کیا مسئلہ ہے ۔۔ اس نے گول مول جواب دیا
    وہ کئی دن سے بہت اُداس رہتی ہیں اور گُم صم بھی ۔۔
    طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا ان کی ۔۔؟؟ ۔۔تم ڈاکٹر کے پاس لےکر جاؤ ۔۔ جبران کو بلا لو ۔۔
    اُن کا ڈاکٹر تو پاکستان میں بیٹھا ہے ۔۔۔ وہ آپکو مِس کرتی ہیں۔۔ پلیز انہیں کال کر لیں ۔۔
    رامین خدا حافظ کہہ کر کب کی کال کاٹ چکی تھی ۔۔ مگر ارمان اُسی طرح سیل ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا ۔۔
    رامین کو یقیناًکوئی بڑی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔ سر جھٹک کر وہ دوبارہ کام میں مصروف ہو چکا تھا ۔۔

    تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
    تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
    وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
    اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
    چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

    ************

    ’’ خدا کے قوانین اِس زمین تک محدود نہیں ہیں ، یہ ساری کائنات میں جاری و ساری ہیں۔۔زمین اور اجرامِ فلکی کی پیدائش بھی اُسی خدا کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، نیز وہ ذی حیات آبادیاں جو اللہ نے زمین اور آسمانی کروں میں  پھیلا رکھی ہیں ۔یہ آبادیاں اس وقت تو الگ الگ ہیں ۔۔لیکن خدا اِس پر قادر ہے کہ ان کو باہم ملا دے‘‘۔

    (سورۂ الشوریٰ)

    ہر انسان قرآن کو اپنی اپنی علمی سطح کے مطابق سمجھتا ہے ۔۔ ۔ اللہ تعالی ٰ نے اگر قرآن پاک صرف چومنے ، سپارے پڑھنےیا معاشرتی زندگی کے قوانین سمجھانے کے لیے اتارا ہوتا تو پھر اتنی دقیق آیات کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جس  طرح اِس آیت کی تشریح کی گئی ہے وہ متجسس ذہنوں پر آگہی کے نئے در وا کرتی ہے ۔ منتہیٰ قرآنِ پاک کی فلکیات سے متعلق تمام آیات اور ان کی ہر طرح کی تشریحات کو اکھٹا کر کے ایک کتاب لکھنے میں مصروف تھی ۔۔ اب اس کا سارا دن لیپ ٹاپ پرگزرتا ہے ۔

    ایک بہتے دریا کے بہاؤ کو اگر روک دیا جائے تو وہ یقیناًدریا نہیں رہتا بلکہ جھیل بن جاتا ہے ۔۔ جس کا اپنا علیحدہ حسن ہوتا ہے ۔۔ جینے کی لگن رکھنے والے ہر حال میں جینے کا ڈھنگ سیکھ لیتے ہیں ۔۔ سو اپنی مستقل مزاجی سے پتھر میں سوراخ کرکے منتہیٰ نے بھی اپنے لیئے راستہ بنا لیا تھا ۔۔ ناسا کے انسٹرکٹر زکے لیے وہ اب کسی کام کی نہیں تھی ۔۔ وہ اپنے ریسرچ پراجیکٹ کے لیے اُس کے صحت یاب ہونے کا طویل انتظار نہیں کر سکتے تھے ۔ ۔البتہ ایم آئی ٹی میں اُس کی صلاحیتوں کے معترف اب بھی کم نہ تھے ۔۔ اِس کے با وجود اُس کی بڑھتی ہوئی گمبھیر خاموشی کو رامین نے ہی نہیں جبران نے بھی نوٹ کیا تھا۔۔
    یار رامین۔۔ یہ آپی اور ارمان بھائی کے درمیان آل از ویل ہے ۔۔ نہ۔۔؟؟ ۔۔وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا
    پتا نہیں ۔۔ رامین خود اسی ادھیڑ بن میں لگی تھی۔۔
    تو پتا کرو نہ ۔۔!!! جبران نے اُسے گھورا
    کیسے کروں ۔۔؟؟ وہ دونوں ہی گُھنے ہیں۔
    ایکِ ٹرک ہے۔۔ جبران نے کچھ سوچتے ہوئے چٹکی بجائی ۔۔اور پھر رامین کے کان میں پلان بتانے لگا ۔۔
    واہ ۔۔کبھی کبھی تم بڑی سمجھداری کی بات کرتے ہو ۔۔ یہ مجھے پہلے کیوں نہ سوجھا ۔۔؟؟
    ایکچولی ۔ مسز جبران ۔میں تو ہمیشہ سمجھداری کی باتیں کرتا ہوں لیکن وہ آپ کو سمجھ کبھی کبھی آتی ہیں ۔۔جبران نے کالر جھاڑے
    کیا مطلب میں کم عقل ہوں ۔۔؟؟۔ رامین نے اُسے آنکھیں دکھائیں
    ارے نہیں ۔۔ آپ ایک لائق فائق سمجھدار ڈاکٹر ہیں ۔۔ لیکن میری فلسفیانہ باتیں سب ہی کو مشکل سے سمجھ آتی ہیں ۔۔
    رامین نے ہاتھ میں پکڑا میگزین اُسے کھینچ کر مارا ۔۔ جو بر وقت جھکائی کے باعث کچن کاؤنٹر پر جا لگا ۔۔ رامین کو اب ارمان کی کال کا انتظار تھا ۔۔ مگر ایک ہفتہ گزر گیا اس کی کوئی کال موصول نہیں ہوئی۔
    ارمان گزشتہ دو روز سے اسلام آباد میں تھا ۔۔ جہاں اُسے آفس کی کچھ میٹنگز میں شرکت کرنا تھی اور پھر ڈاکٹر عبدالحق سے ملاقات طے تھی۔ جو اَب پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں چیئرمین کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے ۔۔ لیکن سیو دی ارتھ سے اُن کا تعلق ہنوز برقرار تھا ۔۔ وہ آج بھی اُس کے تمام نئے پراجیکٹس میں پہلے کی طرح ہی بھر پور دلچسپی لیا کرتے تھے۔
    دو دن کا تھکا ارمان گھر پر اپنی خیریت کی اطلاع دیکر یوں گھوڑے گدھے بیچ کر سویا ۔۔ کہ پھر دو بجے شدید بھوک سے آنکھ کھلی ۔ہوٹل ریسیپشن پر کھانے کا آرڈر دیکر اُس نے سینٹر ٹیبل پر پاؤں پھیلائے اور سیل پر کال اور میسجز چیک کرنے لگا ۔
    رامین کی کوئی بیس پچیس مسڈ کالز تھیں ۔۔ چونک کر وہ سیدھا ہوا اور کال ملائی ۔۔
    رامین اُس وقت منتہیٰ کو ایکسرسائز کروا رہی تھی ۔۔
    ہیلو ارمان بھائی کہاں غائب ہیں ۔۔؟؟
    وہ بس آفس کی کچھ میٹنگز تھیں ۔۔ تم سناؤ سب خیریت ہے نہ۔۔ منتہیٰ کیسی ہیں ۔۔؟؟
    اُوہ ہو ۔۔۔ فکر تو بہت رہتی ہے جناب کو ۔۔ رامین نے دیدے نچائے ۔ یہ لیں، خود ہی پوچھ لیں ۔۔ اُس نے سیل منتہیٰ کو
    تھمایا ۔۔۔
    ہیلو منتہیٰ کیسی ہیں آپ ۔۔ ارمان نے دل میں رامین کو۔ کوستے ہوئے ۔ بات کا آغاز کیا ۔۔ دو ماہ سے منتہیٰ سے اُسکا کوئی
    رابطہ نہیں تھا ۔۔
    دوسری طرف منتہیٰ کے حلق میں اٹکے آنسوؤں کے گولے نے اُس کی آوا زہی نہیں نکلنے دی ۔۔ منتہیٰ آپ ٹھیک ہیں ۔۔؟؟
    ارمان نے دوبارہ پکارا ۔۔ اُسکا خیال تھا کہ منتہیٰ بات نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔ اب اُس کے پاس خیال رکھنے والے موجودتھے۔۔ اُسے ارمان کی ضرورت نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ ہمیشہ سے صرف ایک ضرورت تھا ۔۔ ۔یہ کڑوی گولی کئی ماہ پہلے ارمان پیل جھیل کے کنارے نگل چکا تھا ۔۔
    جی ۔۔ آنسوؤں پر بند باندھ کر منتہیٰ نے بمشکل جواب دیا ۔۔۔ ارمان نے اُسے معاف نہیں کیا تھا ۔۔اُوکے اپنا خیال رکھیے گا ۔۔ اللہ حافظ ۔۔ ارمان کال کاٹ چکا تھا ۔۔ اور منتہیٰ اِس اجنبیت پر ۔۔ چہرہ ہاتھ میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر ر و دی تھی ۔۔

    چلو اک بار پھر سے ا جنبی بن جائیں ہم دونوں ۔۔
    نہ میں امید رکھوں تم سے کوئی دل نوازی کی
    نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

    پھر بہت سارے دن یونہی دبے پاؤں گزرتے گئے ۔۔ اِس خاموشی میں پہلا پتھر ۔۔ ارسہ کی آمد نے پھینکا ۔۔ ارسہ کا بیٹا فہام اب ماشاء اللہ دو سال کا تھا ۔۔ اور تین ماہ کی ننھی سی گڑیا علیزے۔۔ دو بچوں کی آمد نے گویا چھوٹے سے فلیٹ کو خو شیوں سے بھر دیا تھا ۔۔
    ’’ایک ہی آنگن کی چڑیاں ۔۔ ساتھ ہنستے کھیلتے ،، لڑتے جھگڑتے ۔۔بڑی ہونے والیاں۔۔دور دیسوں میں جا بستی ہیں ۔۔ پھر جب کبھی لمبی مسافتوں کے بعد ایک چھت تلے جمع ہوتی ہیں تو گویا دھنک کے سارے بچھڑے رنگ مل کر سما باندھ دیتےہیں ۔‘‘
    تینوں مل کر سارا دن گپیں لگاتیں۔۔ جانے کب کب کی اُوٹ پٹانگ باتوں کو یاد کر کے پہروں ہنستیں ۔۔۔
    آپی میری مانیں ۔۔ اب آپ بھی شادی کر لیں ۔۔۔ ایک روز اِرسہ نے منتہیٰ کو ننھی علیزے سے کھیلتے دیکھ کر مشورہ دیا ۔۔
    منتہیٰ کے ہاتھ ایک لمحے کو ساکت ہوئے ۔ پھر اُس نے خود کو سنبھال کر علیزے کو بیڈ پر لٹایا۔۔
    کیوں رامین میں نے صحیح کہا ہے نہ۔۔ آخر ارمان بھائی اور کتنا انتظار کریں گے ۔۔؟؟
    ایک لمحے کو منتہیٰ اور رامین کی نگاہیں ملیں ۔۔ پھر منتہیٰ نے تیزی سے رُخ پھیرا۔
    ارمان جیسے نیک صفت بندے کے لائق تو وہ پہلے بھی کبھی نہیں تھی ۔۔ پھر اب ۔۔اُس نے اپنی بائیں مفلوج ٹانگ کو دیکھا ۔۔
    جس میں حادثے کے چار ،پانچ ماہ بعد بھی دورانِ خون بندتھا۔۔

    تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
    تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
    وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
    اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

    بہت سی کرب ناک راتوں کے بعد اب تقدیر کے فیصلے کو وہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ چکی تھی ۔۔ ارمان یوسف اس کے صبر کا انعام تھا یا نہیں ۔۔؟؟ یہ فیصلہ اب زیادہ دور نہیں تھا ۔۔
    آپی۔۔۔ آپ میری شادی میں آئیں گی نا ۔۔۔؟؟
    اِرسہ کے بعد رامین بھی اب پاکستان رختِ سفر باندھنے کو تھی ۔۔ پاکستان میں اس کی شادی کی تاریخ رکھی جانے والی تھی ۔۔
    ہاں میری جان کیوں نہیں ۔۔ میں کچھ دن پہلے آجاؤں گی ۔۔ منتہیٰ نے پیار سے رامین کے گال چھوئے
    دیکھیں ۔۔ اگر آپ نہیں آئی نہ تو میں کبھی شادی نہیں کروں گی ۔۔۔ رامین نے دھمکایا
    تین دفعہ ’قبول ہے‘ ۔۔ تو تم میرے بغیر کہہ ہی چکی ہو ۔۔ مینا نے اُسے چھیڑا
    ٹھیک ہے ۔۔ پھر آپ دیکھنا ۔۔ میں رخصتی نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔ ہونہہ
    تم نہیں جاؤگی تو۔۔ جبران تمہیں خود ہی اٹھا کر لے جائیگا ۔۔ بہت بے صبرا ہے وہ ۔۔
    رامین کے گال شہابی ہوئے ۔۔ لب مسکرائے ۔۔ پھر اُس نے بہن کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔۔ جی ۔۔ارمان بھائی جیسا
    صبر تو کسی کے پاس بھی نہیں ۔۔
    اُس دشمنِ جاں کے ذکر پر ۔۔ منتہیٰ کی آنکھوں میں کرچیاں سے اُتریں ۔۔ بیڈ کا سہارا لے کر وہ اٹھی ۔۔ اُسے پیکنگ کرنا تھی
    رامین کے پاکستان روانہ ہونے سے پہلے اسے نینسی کے ساتھ میسا چوسسٹس میں اُس کے فلیٹ منتقل ہونا تھا ۔
    وہ برسوں پہلے ۔۔ آنے والوں دنوں کا فیصلہ کر لینے والی ۔۔ وہ سپیڈ آف لائٹ کے ساتھ سفر کے خواب دیکھنے والی فی الحال اپنے مستقبل کے کسی بھی فیصلے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھی ۔۔ اُسے یقیناًپاکستان ہی واپس جانا تھا ۔۔
    اپنے ادھورےمنصوبے پورے کرنے کے لیے ۔۔ لیکن

    ************

    لنچ ٹائم تھا ۔۔۔ ارمان آفس میں ہی کچھ منگوانے کا سوچ رہا تھا کہ ۔۔ سیل تھر تھرایا ۔۔ رامین کالنگ۔۔
    ہیلو ۔۔ ویلکم بیک رامین ۔۔ کیسی ہو ۔۔؟؟
    ٹھیک ہوں ۔۔ ایسا ہے ارمان بھائی کے آپ کے آفس سے ۲۰ منٹ کی ڈرائیو پر آرکیڈین کیفے ہے ۔۔میں آپ کاوہاں انتظار کر رہی ہوں ۔۔
    سب خیریت ہے نہ ۔۔؟؟ رامین کے انداز پر وہ اَلرٹ ہوا
    بس آپ پہنچیں ۔۔ پھر بتاتی ہوں ۔۔ رامین نے کال کاٹی ۔۔
    پچیس منٹ بعد ارمان نے ریسٹورنٹ میں داخل ہو کر تیزی سے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی ۔۔ اُس کی توقع کے بر خلاف ایک کارنر ٹیبل پر بیٹھی رامین پورے سکون سے سیل پر کینڈی کرش کھیلنے میں مصروف تھی ۔۔
    ایسے کیوں بلایا ہے ۔۔؟؟
    بس بھوک لگ رہی تھی ۔۔ اور پیسے نہیں تھے ۔۔ رامین نے دانت نکالے
    ارمان نے گہرا سکون کا سانس لے کر چیئر کی پشت سے ٹیک لگایا ۔۔ کیوں تمہارے ڈاکٹر جبران کہاں ہیں ۔۔؟
    وہ جہاں کہیں بھی ہیں ۔۔ کیا آپ مجھے ایک وقت کا اچھا سا لنچ نہیں کروا سکتے ۔۔ چلیں جلدی سے کچھ منگوائیں ۔۔ بھوک سے برا حال ہے ۔۔ رامین نے اُسے آنکھیں دکھا ئیں ۔۔
    ارمان نے ویٹر کو اشارہ کرتے ہوئے محفوظ ہونے والے اندا ز میں اسے بغور دیکھا ۔۔ آخر وہ منتہیٰ کی بہن ہی تھی۔۔
    تمہاری شادی کی تیاریاں کہاں تک پہنچیں ۔۔؟؟ ۔۔ارمان نے نے فرنچ فرائز اپنے پلیٹ میں ڈالتے ہوئے پوچھا
    شادی ۔۔۔ میں سوچ رہی ہوں کہ شادی کچھ عرصے کے لیئے پھر ملتوی کروا دوں ۔۔۔
    واٹ ۔۔؟؟ ۔۔ارمان ایک جھٹکے سے سیدھا ہوا کیوں ۔۔ کیا مسئلہ ہے ۔۔؟؟
    مسئلہ بہت بڑا ہے ۔۔ اگر آپی میری شادی میں نہیں آئیں تو میں شادی نہیں کروں گی ۔۔
    ارمان اُس کے نروٹھے انداز پر مسکرایا ۔۔ ڈونٹ وری ۔۔ وہ آجائیں گی ۔۔تم سے بہت پیار کرتی ہیں وہ ۔۔
    آپ دیکھنا وہ نہیں آئیں گی ۔۔ رامین نے منہ بسورا ۔۔ کیونکہ وہ آئیں گی تو امی ابو کی طرف سے اُن کی اپنی شادی کے لئے دباؤ بڑھے گا ۔۔
    رامین۔۔ منتہیٰ اپنے پرابلمز بہتر طور پر خود فیس کر سکتی ہیں ۔۔ انہوں نے شادی نہیں کرنی ۔۔ وہ سنبھال لیں گی سب کچھ۔۔
    ارمان کی آنکھوں میں کرچیاں سے اتری تھیں مگر ۔۔ وہ نارمل تھا ۔۔
    لیکن وہ تو شادی سے انکار نہیں کر رہیں ۔۔
    کیا مطلب ۔۔؟؟ ۔۔ارمان کے ہاتھ سے کانٹا چھوٹ کر پلیٹ میں گرا ۔۔ وہ چونک کر سیدھا ہوا
    جی ۔۔ شادی تو وہ کر لیں ۔۔ مگر ۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔۔ اپنے دولہا کو تو وہ کچھ عرصے پہلے ناراض کر بیٹھی ہیں ۔۔ رامین کی مسکراہٹ بہت گہری تھی ۔۔
    تمہیں کس نے بتایا یہ سب ۔۔؟؟ ارمان نے سامنے دھرے کولڈرنک کے گلاس کو گھورتے ہوئے پوچھا
    کس نے بتانا تھا ۔۔۔؟؟ آپی آپ کو بہت مس کرتی ہیں ۔۔۔
    تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے رامین ۔۔
    بلکل بھی نہیں ۔۔ یو نو واٹ، بہنیں ایک دوسرے سے بہت کچھ چھپا سکتی ہیں ۔۔ لیکن حالِ دل نہیں ۔۔ میں نے بارہا نوٹ کیا ۔۔ وہ آپ کے نام پر چونکتی ہیں ۔۔ لمحوں میں انکی آنکھوں کے کنارے بھیگتے ہیں ۔۔
    انہوں نے ایک بڑی چوٹ کھائی ہے رامین۔۔ وہ صرف شرمندہ ہیں ۔۔ مجھ ہی سے نہیں ، اپنی ذات سے منسلک اور بھی کئی رشتوں سے ۔۔ میں نے واپس آکر اِسی لیے رابطہ نہیں رکھا تھا کہ میں انہیں مزید شرمندہ نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔
    وہ بہت مضبوط ہیں ۔۔ ڈونٹ وری ۔۔ وہ موو آن کر جائیں گی ۔۔ ارمان سفاکی کی حد تک حقیقت پسند تھا ۔
    ’’جی نہیں ۔۔ وہ آپ سے محبت کرتی ہیں ۔۔‘‘
    اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ ٹوٹ کر بکھریں نہیں ۔۔ موو آن کر جائیں ۔۔ تو پلیزایک دفعہ جاکر ان سے ملیے گا ضرور ۔۔رامین اپنا بیگ اٹھا کر کب کی جا چکی تھی ۔۔ اور ارمان اپنی جگہ گنگ بیٹھا رہا ۔۔
    She is in love with you….!!
    وہ ایک ایک کر کے رامین کے کہے الفاظ کی چاشنی اپنے اندر انڈیلتا گیا ۔۔ لیکن نہیں ۔۔
    رامین کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔ اُس نے سر جھٹک کر ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کیا ۔

    وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
    اسے اک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا
    چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

    جاری ہے
    ************