Tag: environment

  • سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    قدیم حکایات میں کچھوا کائنات کی علامت تھا۔ مشہور صوفی شاعر وارث شاہ اپنی نظم ’ہیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دریا ہماری کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک فانی انسانوں کی سرزمین، اور دوسرا حصہ محبوب کا دیار۔ وہ اپنی شاعری میں جب ہیر کے دریا میں سفر کی منظر کشی کرتے ہیں، تو ہیر کی کشتی کو ایک کچھوا سہارا دیے ہوتا ہے۔

    معروف صحافی و شاعر مصدق سانول کے مجموعے ’یہ ناتمام سی اک زندگی جو گزری ہے‘ کا پس ورق۔ مصور: صابر نذر

    وارث شاہ کی اس لازوال نظم کے علاوہ حقیقت میں بھی کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا یہ جاندار آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔

    کچھوے کی بقا کیوں ضروری؟

    کچھوے کو آبی خاکروب کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھوے سمندر میں موجود کائی، غیر ضروری گھاس اور آبی حیات کے لیے دیگر مضر صحت اجسام کو کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر یا دریا صاف ستھرا رہتا ہے۔

    کچھوؤں کی خوراک میں جیلی فش بھی شامل ہے جو آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں باآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    کچھوے اس جیلی فش کو کھا کر سمندر کو ان سے محفوظ رکھتے تھے تاہم اب جیلی فش میں اضافے کی ایک وجہ کچھوؤں کی تعداد کا کم ہونا بھی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کچھوے پانی کی کائی اور گھاس کو نہ کھائیں تو سمندر میں موجود آبی حیات کا نظام زندگی اور ایکو سسٹم غیر متوازن ہوسکتا ہے جس کا اثر پہلے آبی حیات اور بعد میں انسانوں تک بھی پہنچے گا۔

    سندھ وائلڈ لائف کے مطابق کراچی میں 2 سے 3 سال قبل نگلیریا وائرس کے پھیلنے کی وجہ بھی کچھوؤں کی تعداد میں کمی تھی۔ اس وقت اگر بڑی تعداد میں کچھوے سمندروں اور آبی ذخائر میں چھوڑ دیے جاتے تو وہ پہلے ہی اس وائرس کو کھا کر اسے طاقتور ہونے اور انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بننے سے روک دیتے۔

    کچھوا معدومی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟

    کچھوے کی تیزی سے رونما ہوتی معدومی کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو ان کی افزائش نسل کا مرحلہ سمجھنا ہوگا۔

    دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سمندری کچھوؤں کی 7 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 2 اقسام سبز کچھوا (گرین ٹرٹل) اور اولیو ریڈلی ٹرٹل کچھوا پاکستانی ساحلوں پر پائے جاتے ہیں۔

    پاکستان میں ان کچھوؤں کے انڈے دینے کے مقامات میں صوبہ سندھ کے شہر کراچی کا سینڈز پٹ اور ہاکس بے کا ساحل، جبکہ صوبہ بلوچستان میں جیوانی، استولا جزیرہ اور ارماڑا کا ساحل شامل ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔

    اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔

    لیکن خطرہ کیا ہے؟

    تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔

    مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔

    وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

    کچھوؤں کی نسل کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے جب کراچی کے سینڈز پٹ ساحل کا دورہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ وہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

    یہ کتے تفریح کے لیے آنے والے افراد کی جانب سے پھینکے گئے کچرے کے لالچ میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہیں انہیں کچھوے کے انڈے بیٹھے بٹھائے کھانے کو مل جاتے ہیں۔

    جیسے ہی مادہ کچھوا انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے، یہ کتے اس گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔

    مداخلت کے باعث مادہ کچھوا کے گڑھا کھلا چھوڑ جانے کے بعد کتوں نے اس کے انڈے کھا لیے

    اگر کچھ خوش نصیب انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    ایسے موقع پر اگر بدقسمتی سے وہاں کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوا کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    چاندنی راتوں میں ساحل پر انڈے دینے کے لیے آنے والے کچھوے جب ساحل پر چہل پہل اور لوگوں کی آمد و رفت دیکھتے ہیں تب وہ سمندر سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں یوں ان کے انڈے ان کے جسم کے اندر ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک خطرہ جان

    صرف کراچی یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ساحلوں پر پھینکا گیا کچرا خصوصاً پلاسٹک کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات کے لیے موت کا پروانہ ہے۔

    اس پلاسٹک کو کھا کھا کر یہ آبی جانوروں کے جسم میں جمع ہونے لگتا ہے، جس کے بعد ان آبی جانوروں کا جسم پھولنے لگتا ہے اور وہ کچھ اور نہیں کھا سکتے نتیجتاً ان کی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے لیکن وہ بھوک سے مرجاتے ہیں۔

    کچھ جانور اس پلاسٹک میں پھنس جاتے ہیں اور ساری عمر نہیں نکل پاتے جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنسنے سے کچھوؤں اور دیگر آبی جانداروں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندر، سمندری حیات کی جگہ پلاسٹک سے بھرے ہوں گے۔

    گو کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے پھیلاؤ کو روکنے اور کچھوے سمیت دیگر آبی جانداروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • دیا مرزا اقوام متحدہ کی ماحولیاتی سفیر مقرر

    دیا مرزا اقوام متحدہ کی ماحولیاتی سفیر مقرر

    نئی دہلی: بالی ووڈ اداکارہ اور پروڈیوسر دیا مرزا کو اقوام متحدہ کی جانب سے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیات مقرر کردیا گیا۔ وہ اب بھارت میں تحفظ ماحولیات کے لیے کام کریں گی۔

    دیا اس سے قبل بھی ماحولیات پر خاصا کام کرچکی ہیں اور ان کی انہی خدمات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے انہیں اپنا سفیر مقرر کیا ہے۔

    اپنی تقرری پر دیا مرزا نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ اب میں تحفظ ماحولیات کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرسکوں گی۔

    مزید پڑھیں: دیا مرزا کا ماحول دوست گھر

    انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے ملک میں جنگلی حیات کے تحفظ اور موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کو روکنے کے اقدامات پر کام کریں گی اور لوگوں کو اس بات کی طرف راغب کریں گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ ماحول دوست بنیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    ایک ہفتے بعد وہ پوری طرح ہوش میں آئی تھی۔۔ اُس کے پورے جسم میں صرف آنکھیں تھیں۔۔ جنھیں وہ جنبش دے سکتی تھی اور باقی سارا جسم جیسے بے جان تھا ۔۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کئی روز تک ۔۔منتہیٰ کے پاس آکر اسے جھوٹی تسلیاں اور تھپکیاں دیکرجاتے رہے ۔۔ دس دن بعد اپنے پاس جو پہلا شناسا چہرہ اُسے نظر آیا ۔۔۔ وہ ۔۔ ارمان یوسف تھا ۔۔ بڑھی ہوئی شیو ۔۔ ستا ہوا چہرہ۔۔ اور سرخ متورم آنکھیں اُس کے رت جگوں کی گواہ تھیں ۔۔۔ منتہیٰ اُس سے نظر ملانے کی ہمت ہی نہیں کرسکی ۔۔ سرابوںکے تعاقب میں جس شخص کو اُس نے سب سے پہلے چھوڑا تھا ۔۔۔ وہ آج کڑے وقت پر سب سے پہلے آیا تھا ۔
    جس کی آنکھوں سے چھلکتے درد کو پڑھنے کے لیئے آج منتہیٰ دستگیر کو کسی عدسے کی ضرورت ہر گز نہیں تھی ۔۔ کامیابیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ بھول گئی تھی کہ وقت کی تلوار بہت بے رحم ہے ۔۔ اور دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے ۔۔۔’’ یقیناًیہ بد نصیبی کی انتہا ہوتی ہے کہ انسان اپنے در پر آئی اللہ پاک کی رحمت کو ٹھکرا دے ۔۔ سچی محبت اور نیک جیون ساتھی عورت کے لیے اللہ کا بہت بڑا انعام ہوتے ہیں ۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عروج کی چوٹیوں کو سر کرنے والی ہر عورت کے پیچھے ایک نہیں ۔۔ کئی مردوں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔۔فاروق صاحب۔ ڈاکٹر یوسف اور پھر ارمان ۔۔ خدا نے اُسے یہ تین مضبوط ستون عطا کیے تھے ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    مگر سارا کریڈٹ خود بٹورنے کی دُھن میں منتہیٰ نے منہ کی کھائی تھی ۔‘‘
    زندگی اتفاقات ، واقعات اور حادثات کا مجموعہ ہے ۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کون سا واقعہ یا حادثہ آپ کو کسی بند گلی کے موڑ پر لیجا کر چھوڑ دیگا ۔۔جہاں اسے ایک بے مصرف زندگی گزارنی پڑے گی۔۔ ایک کامیاب ترین زندگی سے ایک بے مصرف وجود تک پہنچ جانے میں انسان پر کیا کچھ بیت جاتی ہے ۔۔یہ وہی جان سکتا ہے جو اِن حالات سے گزرے۔۔ تب زندگی گزارنے اور اِسے بیتنے کااصل مفہوم سمجھ میں آتا ہے ۔۔۔
    پہلے اُس کے پاس زندگی کو سمجھنے کا وقت نہیں تھا ۔۔ اور اَب ۔۔ جب وقت ملا تھا ۔۔ تو زندگی اُس سے روٹھ گئی تھی ۔

    ***********

    اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے ۔۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا ، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے۔۔

    دو ماہ پہلے پیل لیک کے کنارے کاٹی ایک رات اُس کی زندگی کی کھٹن ترین راتوں میں سے ایک تھی ۔۔اور آج پھر ارمان کو ایک ایسی ہی رات کا سامنا تھا ۔۔ فرق صرف یہ تھا ۔۔۔اُس رات ۔۔ جس دشمنِ جاں نے رلایا تھا اور آج اُسی کے دکھ میں آنسو چھلکے تھے ۔۔
    صبح اُس کی منتہیٰ کے ڈاکٹرز کے ساتھ فائنل میٹنگ تھی ۔۔ ڈاکٹرز کو سپائنل چورڈ کی ایم آر آ ئی رپورٹ کا انتظار تھا کیا وہ عمر بھر کے لیے معذور ہوجا ئیگی ۔۔۔ ؟؟ یہ سوال ۔۔ عجیب دیوانگی اور وحشت میں وہ شدید ٹھنڈ میں اسپتال سے نکلا تھا ۔۔یونہی سڑکوں پر دھول اُڑاتے اُس نے ساری شام کاٹی ۔۔ یہ دُھول تو شاید اب اُس کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔۔

    زہر ملتا رہا ‘ زہر پیتے رہے روز مرتے رہے روز جیتے رہے۔۔
    زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے آزماتے رہے ۔۔

    بے د ھیانی میں زور سے ٹھوکر لگنے پر ارمان منہ کے بل گرا ۔۔ اُس نے گرد آلود آنکھوں کو مسل کر دیکھا۔۔ سامنے ہاسٹن کا اِسلامک سینٹر تھا ۔۔ وہ آیا نہیں تھا ۔۔ لایا گیا تھا ۔۔ وضو کر کے وہ چپ چاپ امام صاحب کے گردلوگوں کے گروپ میں جا بیٹھا ۔۔جن کی شیریں آواز سماعتوں میں رَس گھول رہی تھی ۔۔۔

    ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیںُ ان کے لیئے ہدایت اور نصیحت ہے ، دل شکستہ نہ ہو ۔۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں میں گردش دیتے رہتے ہیں ۔۔ تم پر یہ وقت اِس لیئے لایا گیا کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں ۔۔ ‘‘ ( سورۂ الِ عمران) ۔

    خدا کی اِس وسیع و عریض کائنات کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں ہر شے متحرک ہے۔۔ ہر رات کہ بعد سحر اگر خدا کا قانون ہے ، تو ہر آسائش کے بعد تکلیف اور ہرُ دکھ کے بعدُ سکھ کی گھڑی بھی اِسی اللہ کے حکم سے میسر آتی ہے زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ ہر وہ شخص جس نے اچھا وقت دیکھا ہو ۔۔ اُسے کبھی نہ کبھی بدترین حالات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے اعمال سے کچھ لینا د ینا نہیں ۔۔ وہ ہر شے سے بہت بلند ہے ۔
    امام صاحب ایک لمحے توقف کو رکے ۔۔

    ”آپ کی زندگی میں آنا والا برا وقت خدا نخواستہ آپکے اعمال پر اللہ کا عذاب نہیں ہوتا ۔کبھی یہ محض ایک اشارہ ہوتا ہے کہ آپ بھٹک کر کہیں اور نکلنے لگے ہیں ۔۔ تو اپنی اوقات، اپنی اصل پر واپس آجائیے ۔کبھی یہ آزمائش ہوتی ہے ۔ جس طرح لوہا آگ میں تپ کر اور موتی سیپ میں ایک متعین وقت گزار کر باہر آتا ہے ۔اِسی طرح ہر انسان کے اندر چھپی اُس کی ہیرا صفت خصلتیں آزمائشوں کی کھٹالی سے گزر کر کچھ اور نکھر کر سامنے آتی ہیں اور اِس کھٹالی سے یقیناًوہی کندن بن کر نکلتے ہیں ۔جن کا ایمان اورتوکل خالص اللہ تعالیٰ پرہوتا ہے۔ "وقت کبھی رکتا نہیں گزر جاتا ہے لیکن کچھ گھڑیاں ، کچھ ساعتیں ، کچھ آزمائشیں اپنے پیچھے اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔اور یقیناً فلاح وہی پاتے ہیں جو صرف اپنے رب سے مانگتے ہیں اور وہ اپنے ہر بندے کی یکساں سنتا ہے ۔۔”بے اختیار ارمان کے ہاتھ دعا کے لیئے اٹھے تھے ۔۔ اور ۔۔ دل کی گہرائیوں سے اَوروں کے لیئے مانگی جانے والی دعائیں اللہ تعالیٰ کے دربار سے کبھی رَد نہیں ہوا کرتیں ۔

    ***********

    منتہیٰ کے پاس سے کچھ دیر پہلے نینسی گئی تھی ۔۔ اُس نے کسلمندی سے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ دروازہ کھلا۔۔ اور ارمان داخل ہوا ۔۔ اُس کے ہاتھ میں خوبصورت سا بُوکے تھا ۔
    آل اِز ویل ہر گز نہیں تھا ۔ مگر منتہیٰ کی ایم آر آئی حیرت انگیزطور پر کلیئر آئی تھی ۔ بیس ہزار فٹ کی بلندی سے گرنے کے بعد ریڑھ کی ہڈی کا سلامت رہنا یقیناً ایک معجزہ تھا ۔لیکن اُس کی بائیں ٹانگ میں دورانِ خون بند تھا ۔۔ وقتی یا عمر بھر کی معذوری تلوار ہنوز سر پر لٹکی تھی ۔۔ لیکن ہمت توکرنا تھی ۔ ارمان ۔ آپ کو ڈاکٹرز نے ایم آر آئی رپورٹ دیکھ کر کیا بتایا ہے ۔۔؟؟ آئرن لیڈی ہر نا گہانی کے لیے خود کو تیار کیے بیٹھی تھی ۔ ارمان کھڑکی کے قریب کھڑا تھا اور منتہیٰ کی طرف اُس کی پشت تھی ۔۔ وہ مڑا ۔۔ اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اُس کے بیڈ تک آیا ۔۔
    ڈونٹ وری منتہیٰ ۔۔ آپ کی ایم آر آئی بالکل ٹھیک آئی ہے ۔۔ اور باقی باڈی انجریز سے صحت یاب ہونے میں آپ کو چارسے چھ ماہ کا عرصہ لگے گا۔۔ وہ آدھا سچ بتا کر آدھا چھپا گیا ۔
    منتہیٰ نے بہت غور سے اُسے دیکھا ۔۔ وہ ہمیشہ کا گُھنا تھا ۔۔ اندر کا حال پتا ہی نہیں لگنے دیتا تھا ۔ وہ گھنٹوں اسپتال میں اُس کے پاس یوں گزارتا ۔۔ جیسے سارے کاموں سے فارغ بیٹھا ہو ۔۔نیوز پڑھ کے سناتا ۔۔ کبھی ایس ٹی ای کے پراجیکٹس کی تفصیلات بتاتا ۔۔ کبھی لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتا اور ایسٹرانامی پر اس کی پسند کے آرٹیکلز سرچ کرتا۔۔
    منتہیٰ کو ہاسپٹل میں دو ماہ ہونے کو آئے تھے ۔۔ اُس کے فریکچرز تیزی کے ساتھ بہترہو رہے تھے لیکن ڈسچارج ہونے کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک اُسے ایکسر سائز اور ٹریٹمنٹس کی ضرورت تھی ۔۔جس کے لیے اس کے پاس کسی کا موجود ہونا ضروری تھا ۔ منتہیٰ فی الحال سفر کے قابل نہیں تھی اِس لیے فاروق صاحب ، رامین کو اس کے پاس ہاسٹن بھیج رہے تھے۔۔ رامین کی چند ماہ بعد رخصتی طے تھی ۔۔۔ مگر فی الحال اُن سب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ منتہیٰ کی صحت یابی تھی ۔

    ***********

    اُن کا ہیلی کاپٹر تقریباً۲۱ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا ۔ اِس سے پہلے منتہیٰ کی ساتھی ٹرینر مارلین ۔ نندا اور ربیکا اِسی بلندی سے چھلانگ لگا چکی تھیں اور نیچے اُن کے پیرا شوٹ چھتریوں کی طرح گول گول گھومتے نظر آ رہے تھے ۔’’ون ۔۔ ٹو۔ ۔ تھری ‘‘۔۔
    اور پھر انسٹرکٹر کے ا شارے پر منتہیٰ نے جمپ لگائی ۔۔۔ بچپن سے امی اور دادی کی ہر کام بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی ہدایت آج بھی اُس کے ساتھ تھی ۔
    تقریباًپندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر آکر انہیں پیرا شوٹ کھولنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔۔ ایک ، دو ، تین ۔۔۔ ہر دفعہ بٹن دبانے پر صرف کلک کی آواز آئی ۔۔۔ شدید گھبراہٹ میں اُس نے نیچے چودہ ہزار فٹ کی گہرائی کو دیکھا ۔۔
    ’’ہیلپ می اللہ ۔۔ ہیلپ می اللہ۔۔۔‘‘
    دو مہینے میں یہ خواب شاید اُسے دسویں بار نظر آیا تھا ۔۔ وہ دوپہر کی سوئی تھی ۔۔اوراب مغرب کا وقت تھا۔۔ اُس نے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا ۔۔۔ بیڈ سے کچھ فاصلے پر۔۔ ارمان جانما ز پر دعا کے لیئے ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔۔ منتہیٰ یک ٹک اسے دیکھے گئی ۔۔۔ دو ۔۔ پانچ ۔۔ پورے دس منٹ بعد اُس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر جا نماز لپیٹی اور پلٹا۔۔ منتہیٰ کو یوں اپنی جانب دیکھتا پاکر چونکا ۔۔۔
    آپ کب جاگیں منتہیٰ۔۔؟؟۔۔ وہ آج بھی پہلے کی طرح احترام سے اُس کا نام لیتا تھا ۔ لیکن منتہیٰ کچھ کہے بغیر چپ چاپ چھت کو گھورتی رہی ۔۔ وہ کچھ قریب آیا
    کیا بات ہے منتہیٰ طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔ ٹمپریچر تو نہیں ۔۔؟؟
    اور پیشانی پرُ اس کے لمس نے جیسے منتہیٰ کی ساری حسیات بیدار کردی تھیں ۔۔ بہت دنوں سے ۔۔ بہت سے رکے ہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔
    اور ارمان اپنی جگہ گنگ تھا ۔۔۔ یہ آنسو ۔۔ اُس کے لیے اجنبی تھے ۔۔ آئرن لیڈی کبھی روئی ہی نہ تھی ۔۔ منتہیٰ۔۔ کیا بات ہے ۔۔ درد بڑھ گیا ہے کیا ۔۔؟؟ ۔۔وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
    ار۔۔ارمان۔۔وہ اَٹکی اندر بہت کچھ۔ بہت پہلے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا ۔۔ بس ایک اعتراف ۔ایک معافی ۔۔
    ’’ارمان مجھے معاف کر دیں ‘‘۔۔۔ہچکیوں کے درمیان بہ مشکل ارمان کو اُس کے الفاظ سمجھ میں آئے۔۔ اُس نے سختی سے آنکھیں بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔۔ منتہیٰ کو یوں روتے دیکھنا ۔۔ اُس کے لیے دو بھر تھا ۔۔
    آنسو نہ کسی کی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں ۔۔ نہ کم ہمتی کی ۔۔ اشک بہہ جائیں تو من شانت ہو جاتا ہے ۔۔ رکے رہیں تو اندر کسی ناسور کی طرح پلتے رہتے ہیں ۔۔ پانی اگر ایک لمبے عرصے تک کسی جوہڑ یا تالاب میں رکا رہے تو گدلا اور بد بو دارہو جاتا ہے ۔
    ارمان نے اُسے رونے دیا ۔۔۔۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا تھا ۔۔ اپنے سیل کی مدہم سی بیپ پر وہ کمرے سے باہر آیا ۔۔

    ***********

    یار تجھے اپنی جاب کی کوئی فکر ہے یا نہیں ۔۔؟؟ ۔۔دوسری طرف اَرحم ۔۔ چھوٹتے ہی برحم ہوا ۔۔۔ آج فائنل نوٹس آ گیا ہے ۔ اگر تو نے ایک ہفتے تک آفس جوائن نہیں کیا تو ۔۔ تیری چھٹی ہے سمجھا تو ۔۔
    ارمان نے گہری سانس لیکر دیوار سے ٹیک لگایا ۔۔ وہ مجنوں تھا نہ رانجھا ۔ کہ اپنی ہیر کے لیے بن باس لے کر بیٹھا رہتا ۔۔
    پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر میں ایک بہترین جاب ۔۔ ہر نوجوان کا خواب تھی ۔۔
    میں اِسی ہفتے پاکستان آجاؤں گا ۔۔ ارمان نے اَرحم کو مطلع کیا
    دیٹس گڈ ۔۔ پر تیری ہیر کا کیا ہوگا ۔۔؟؟
    منتہیٰ کے پاس چند روز تک رامین آجائے گی ۔
    چل یہ تو اچھا ہوا ۔۔۔ یہ بتا کہ وہ پاکستان کب تک آسکیں گی ۔۔۔؟؟
    پاکستان وہ کیوں آئیں گی ۔۔ صحت یاب ہوکر وہ واپس ناسا کے مشن پر جائیں گی ۔۔ اُن کو اپنے خواب جو پورے کرنے ہیں
    نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تلخ ہوا ۔۔
    اور تیرا کیا ہوگا پیارے ۔۔؟؟۔۔ تو جو دو ماہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہاسپٹل کا ہوا بیٹھا ہے ۔۔۔ اُ ن کی زندگی میں تیری جگہ ۔۔
    کدھر ہے۔۔۔؟؟؟
    اَرحم ۔۔۔کلوز دس ٹا پک پلیز۔۔ وہ برحم ہوا ۔۔ یہ اس کی دھکتی رگ تھی ۔۔ ہر زخم تازہ تھا ۔۔۔ کچھ بھی تو مند مل نہیں ہوا تھا ۔۔
    مگر وہ دشمنِ جاں شدید اذیت میں تھی ۔۔۔اور اب ۔۔ ایک گہری چوٹ کھا کر نادم بھی ۔۔۔
    ہر فیصلہ وقت کے ہاتھوں چھوڑ کر وہ ہاسپٹل سے فلیٹ چلا آیا ۔۔ ۔ جو اس نے ایس-ٹی-ای کے کچھ امریکی سپانسرز کی مدد سے حاصل کیا تھا ۔۔۔اُسے اب پیکنگ کرنا تھی ۔۔ اِس فلیٹ میں چند دن بعد منتہیٰ نے رامین کے ساتھ منتقل ہوجانا تھا۔

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    ییل یونیورسٹی میں ارمان کی ساتھی انجینئرز نے اس کی فاؤنڈیشن میں بھرپور دلچسپی لی تھی، کیونکہ قدرتی آفات پاکستان ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں
    بسنے والے افراد کا مشترکہ مسئلہ ہے اور بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ نے اِن آفات کی شرح ایشیائی ممالک
    سمیت یورپ اور امریکہ میں بھی تیز تر کردی ہے "۔۔
    "تقریباٌ چھہ برس قبل سپارکو کے پلیٹ فارم سے پاکستانی انجینئرز نے ڈیزاسٹرمینجمنٹ کی جو تکنیک متعارف کروائی تھی اور پھر۔ قدرتی آفات سے نہتی لڑتی عوام کے ریلیف کے لیئے جس طرح انہوں نے سیو دی ارتھ کو متحرک کیا ۔۔ آج ایشیا ء کے کئی ممالک اسے رول ماڈل کو طور پر اپنائے ہوئے تھے "۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "اس جدوجہد کے دوران ارمان یوسف نے ہی نہیں، آسائشوں اور ائیر کنڈیشنڈ میں پلنے والے اُس جیسے ہزاروں نوجوانوں نےاپنے ہم وطنوں کی غربت ،
    مفلوک الحالی اور اَبتر حالت کو بہت قریب سے دیکھ کر زندگی کا اصل مفہوم جانا تھا ۔۔۔
    "انسانی زندگی کی حقیقت کیا ہے "۔۔؟؟
    ’’ محض روٹی ،کپڑا اور مکان ۔۔ وہ اِس دنیا میں آتا بھی خالی ہاتھ ہے ۔۔ اور جاتے وقت بھی تہی داماں ہی ہوتا ہے‘‘ ۔۔
    ارمان یونیورسٹی سے اپنا کورس مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فاؤنڈیشن کے لیے بھی بھرپور سرگرم تھا ۔اور اِس وقت اس کا بھرپوردھیان تھر
    اورچولستان کے علاوہ ملحقہ ریگستانی علاقوں میں قحط ، خشک سالی اور بھوک سے لڑتی عوام۔۔ کو ریلیف دلانے کی سٹرٹیجی
    بنانے میں پر تھا جس میں اُس کے ساتھی انجینئرز مائیکل اور سٹیون اُس کی بھرپور معاونت کر رہے تھے ۔
    "تھر میں تیزی سے پھوٹتے وبائی امراض سے ہونے والی اموات کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی تھی ۔ جس کے بارے میں اتھاریٹیزٹی وی چینلز پر۔’’ منہ پھاڑ کے بیان دے دیا کرتی تھیں کہ بچے مر رہے ہیں ‘بابا تو ہم کیا کرے۔ بڑے بھی تو مرتے ہیں ۔‘‘
    ’’ مرنا تو ایک دن ہم سب نے ہے لیکن ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اوروں کی موت ہمیں اپنا آخری وقت یاد نہیں دلاتی ۔۔ہم دوسروں کو قبر میں
    اتارتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ انسان کی اصل یہی مٹی ہے ۔۔اربوں کھربوں کے بینک بیلنس ، محل اور
    جائیدادیں جمع کرنے والوں کی قبر کا سائز بھی اُتنا ہی ہوتا ہے جتنا ایک مفلوک الحال مزدور کی قبر کا ، کروڑوں کے برانڈڈ ملبوسات پہننے والے کبھی اپنے لیے
    لاکھوں کا سٹائلش کفن تیار کروا کر کیوں نہیں رکھتے ۔۔؟؟
    شایدِ اس لیے کہ اِس حقیقت سے سب ہی بخوبی آگاہ ہیں ۔۔۔کہ قبر میں جا کر ہر شے نے مٹی ہی ہوجانا ہے ۔‘‘

    ***********

    منتہیٰ کو ہالی ووڈ کی فلمز’’ گریویٹی‘‘ اور’’ انٹرسٹیلر‘‘ اسی لیے سب سے زیادہ پسند تھیں کہ اِن میں خلا کی افسانوی کہانیوں کے بجائے وہ کڑوا سچ دکھایا گیا تھا جو ’’ خلا
    کے سفر‘‘ کو ایک طلسماتی دنیا کے بجائے ۔۔ ایک مشکل ترین چیلنج کے طور پر پیش کرتا تھا ۔
    دل پر بہت سا بوجھ لے کر وہ ہاسٹن کے جانسن سپیس سینٹر میں اپنی ٹریننگ شروع کر چکی تھی ۔ جسے درحقیقت دنیا کی مشکل ترین ٹریننگز میں شمار کیا
    جاتا ہے ۔۔ خلا میں انسانی جسم کو لاحق سب سے بڑا خطرہ گریویٹی کا ہے جس کے سبب بڑے بڑے سورما
    خلا باز مختلف طرح کے جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے رہے ہیں ۔۔
    صبح شام انہیں شدید مشکل ایکسرسائز کے مراحل سے گزرنا ہوتا تھا ۔۔ اور پھر ہر دو یا تین دن کے بعد ان کا مکمل جسمانی معائنہ کیا جاتا ۔۔
    منتہیٰ کے ساتھ انڈیا کی نندا اور ربیکا بھی تھیں جو اس کی نسبت زیادہ تناور اور مضبوط خدوخال کی مالک تھیں مگر منتہیٰ کی ذہانت اور چیلنجز سے مردانہ وار نمٹنے کی
    قدرتی صلاحیت ہر چیز پر بھاری تھی۔ٹریننگ سینٹر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ دن رات ایک ساتھ گزارنے کے باوجود ہر کوئی ایک دوسرے سے لا تعلق اور بیگانہ رہتاتھا ۔ منتہیٰ کی اپنے خول میں بند رہنے والی طبیعت کے لیے یہ ماحول کسی نعمتِ مترقبہ سے کم نہ تھا ۔
    اِس دھان پان سی لڑکی کی ذہانت نے ہی نہیں ۔۔ مضبوط قوتِ ارادی اور مشکل حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نے ناسا کےٹرینرز کو کچھ نئے تجربات پر اُکسایا
    تھا ۔
    چار ماہ سے تربیت پانے والے تیس مرد و خواتین کی پراگریس رپورٹ ان کی مکمل پروفائل کے ساتھ ناسا کے مشن کنٹرول کرنے والے سینئر انجینئرز اور
    سائنسدانوں کے سامنے کھلی پڑی تھیں اور وہ سب سر جوڑے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے ، فی الوقت ان کی سب سے بڑی ضرورت پیگی واٹسن کی جگہ انٹر نیشنل سپیس سٹیشن پر طویل مدت تک قیام کے لیے کسی جاندار ،توانا اور مضبوط اعصاب رکھنے والی خاتون کا انتخاب تھا ۔
    تربیت پانے والی دس خواتین میں اب تک سب سے بہتر کارکردگی منتہیٰ کی تھی مگر سینئرز اس کے انتخاب میں اس لیے تذبذبکا شکار تھے کہ وہ نہ صرف مسلمان تھی بلکہ اس کا تعلق پاکستان سے تھا ، ایک ایسا ملک جسے اب دنیا بھر میں’’ دہشت گردوں ‘‘ کی
    آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر اپنے مشن کی مناسبت سے انھیں جس ’’باکرہ پن‘‘ کی ضرورت تھی وہ کسی مغربی خاتون ہی نہیں انڈیا کی نندا اور ربیکا میں بھی ملنامشکل تھی۔
    طویل میٹنگ میں بہت سے اہم فیصلے کرنے کے بعد ایک ایک کرکے سب اٹھ کر جاچکے تھے مگر منتہیٰ کا ٹرینر ایڈورڈ گہری سوچوںمیں غرق اپنی جگہ
    بیٹھا رہا تھا ۔
    کیا یہ لڑکی ان کی توقع کے مطابق معاون ثابت ہو سکے گی ‘‘۔۔؟؟

    ***********

    ارمان کا ٹیلی کام کورس تکمیل کے آخری مراحل میں تھا اور ایک ماہ تک اس کی پاکستان واپسی طے تھی ۔ وہ مائیکل کے ساتھ اُس روز ہاسٹن میں تھا
    جب سیل پر اسے منتہی ٰ کے حادثے کی خبر ملی ۔
    اسپتال میں پٹیوں اور مشینوں میں گھری منتہیٰ کی ایک جھلک دیکھ کر ارمان کا سانس ایک لمحے کوبند ہوا ۔۔
    "اُسے وہ وقت یاد آیا جب وہ خود بھی۔۔ اِسی طرح ایک ہسپتال کے آئی سی یو میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا ۔۔ اُسے توصرف چند گولیاں لگی تھیں ۔۔۔
    مگر یہ لڑکی تو پلاسٹک کی ایسی گڑیا کے طرح بکھری پڑی تھی۔۔ جسے کسی ضدی شرارتی بچے نے
    پرزے پرزے کر ڈالا ہو” ۔
    دو روز پہلے پیرا گلائیڈنگ ٹریننگ کے آخری مرحلے میں بیس ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاتے ہوئے ۔۔ منتہی کا پیرا شوٹ کسی تکنیکی خرابی
    کے باعث بر وقت کھل نہیں پایا تھا ۔۔ اور وہ انتہائی زخمی حالت میں ہسپتال لائی گئی تھی ۔۔ دو دن سے ڈوبتی
    ابھرتی سانسوں کے ساتھ وہ زندگی اور موت کے درمیان معلق تھی ۔
    ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ اگر وہ بچ بھی گئی ۔۔۔” تو عمر بھر کی معذوری یقیناٌ اب اُس کا مقدر تھی "۔۔۔
    اُس کی ایک جھلک دیکھ کر ارمان پلٹا تو پیچھے نینسی کھڑی تھی ۔۔۔ دونوں کی نظریں ملیں ۔۔کسی کے پاس بھی کہنے سننے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔ وہ ایک
    دوسرے سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر وقت کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے ۔
    دو روز تک ارمان اسپتال کے ایک ہی کونے میں بیٹھا رہا۔۔ نینسی اسے چائے ، کافی اور کھانے کی کوئی اور شے لا دیتی تو وہ اس کے اصرار پر جیسے تیسے زہر مار کر لیتا ۔۔جیسے
    جیسے وقت گزر رہا تھا ۔ بھوک، نیند ، تھکاوٹ ۔۔ زندگی کا ہر احساس ختم ہوتا جا رہا
    تھا ۔اور منتہی ٰ کی حالت میں رتی بھر بھی فرق نہ تھا ۔
    "ایک دھندلی دھندلی سی یاد اتنے عرصے بعد بھی کہیں ذہن کے گوشوں میں اٹکی رہ گئی تھی۔۔چند برس قبل وہ خود بھی اسی کیفیت میں کئی روز تک وینٹی لیٹر پر پڑا رہا تھا اور عین اس وقت جب سانس زندگی سے اپنا ناتا توڑنے والی تھی تو ۔ماما کی دعا اسے موت کے منہ سے کھینچ کر زندگی کی طرف واپس لے آئی تھی”۔
    اس نے اب تک پاکستان میں اپنی اور منتہیٰ کی فیملی کو اس حادثے کی اطلاع نہیں دی تھی۔جب کے دوسرے ذرائع جن سے انھیں خبر ملنے کا ندیشہ تھا ، ان کو بھی ارمان نے سختی سے تنبیہ کردی تھی۔ مگر اس وقت منتہیٰ کو دعا کی شدید ضرورت تھی اور وہ بھی براہِ راست عرش تک رسائی پانے والی ’’ماں‘‘ کی دعا کی۔
    انہی سوچوں میں گم وی اپنے ہاتھ میں پکڑے سیل فون کو خالی نگاہوں سے تکنے میں مصروف تھا کہ یکدم اس کی سکرین روشن ہوئی
    "پاپا کالنگ ‘‘۔۔
    اُس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کال ریسیو کی ۔۔ "ہیلو "۔۔
    "ھیلو ارمان "۔ "تم کہاں ہو "۔۔؟؟ ۔”فوری طور پر ہاسٹن پہنچو۔۔ منتہیٰ کے حادثے کی اطلاع ہمیں آج ہی ملی ہے "۔۔ڈاکٹر یوسف کی آواز میں شدید تشویش تھی ۔۔۔
    مگر دوسری طرف ۔۔ ہنوز خاموشی تھی ۔۔
    "ارمان "۔۔ انہوں نے پکارا ۔۔ "بیٹا یہ وقت پرانی باتیں سوچنے کا نہیں ۔۔ ہم میں سے کوئی فوری طور پر وہاں نہیں پہنچ سکتا "۔۔
    "پاپا ۔۔۔ پاپا میں تین دن سے یہیں ہاسپٹل میں ہوں "۔۔ اُس کے حلق سے بمشکل آوا زنکلی ۔۔
    "اچھا "۔۔ ڈاکٹر یوسف چونکے ۔۔ "کیسی حالت ہے منتہی ٰ کی "۔۔؟؟
    "وہ کیا بتاتا انہیں ۔۔پاپا اب وہ بہتر ہے”۔۔ "ڈونٹ وری "۔۔ حلق میں کوئی گولا سا آکر اٹکا
    "اُوکے "۔۔۔ "تم فوراٌ فاروق صاحب سے رابطہ کرو ۔۔۔ وہ بہت پریشان ہیں "۔۔۔
    اور اِس کے بعد جیسے کالز کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔۔ رامین ، ارسہ ، فاریہ ، ارحم ، شہریار ۔۔ ڈاکٹر عبدالحق مسلسل کئی روز تک وہ کسی
    مشین کی طرح فیڈ جملے دوہراتا رہا ۔
    "منتہی اب بہتر ہے ۔۔ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی "۔۔۔
    "لیکن وہ خود کو کیونکر یقین دلاتا ۔۔ جس طرح منتہیٰ کا جوڑ جوڑ فریکچر ہوا تھا ۔۔ اس کا زندہ بچنا محال تھا ۔بچ بھی گئی تو اب وہ محض ایک زندہ لاش تھی ۔۔ یہ کسی طور
    ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی چلنے پھرنے کے قابل ہو سکے۔۔
    مگر ارمان لا علم تھا۔۔۔”کہ معجزے کی اصل روح یہی ہے کہ انسان معجزے کا انتظار چھوڑ دے ۔دعا اور محبت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں”۔
    اور بالاآخر وقت نے منتہیٰ کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔۔وہ کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہ کرنے والی لڑکی موت سے جیت کرزندگی کی طرف لوٹ آئی تھی ۔۔
    "ہاں منتہیٰ دستگیر۔۔ دنیا کے جینیئس ترین مائنڈزسے جیت گئی تھی” ۔

    جاری ہے
    ***********

     

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    تیسرا باب

    ( ایثا ر و وفا )

    محبت میں جو قربانی دی جاتی ہے۔۔
    اُ س کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے ۔
    لیکن اُس کا ما حصل ۔۔
    ایک دائمی محبت ہے
    یہ احساس کے اوروں کے لئے جیا جائے۔۔
    محبت اور ایثار کے ساتھ
    دوسروں کے دلوں میں گھر کیا جائے۔۔
    یہ کسی دوسری روح تک رسائی کے لیے
    خدا کا ودیعت کردہ ایک موقع ہوتا ہے ۔۔
    ایک ایسی محبت ۔۔ جو زندگی کے ہر خلا کو پُر کرتی ہے۔۔
    ہم سب کی زندگیاں ۔۔
    ایک بہت بڑے دائرے کا حصہ ہیں
    جس کی ہر کڑی ۔۔ ایثار سے جڑی ہوئی ہے
    یہ احساس انسانی ذات میں تغیر لاتا ہے
    کہ اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر
    وفا اور ایثار کے ساتھ
    لوگوں سے ربط بڑھایا جائے
    اور اِسی سے ۔۔
    زندگی کا یہ لا محدود دائرہ مکمل ہوتا ہے۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "ناسا دنیا بھر میں خلا ئی سرگرمیوں سے متعلق مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔ ایک وقت تھا جب امریکہ اور روس میں زبردست سپیس وار جاری تھی ۔۔ لیکن سرد جنگ کے اختتام کے بعد بہت سی دوسری جنگیں بھی ہمیشہ کے لیئے ٹھنڈی پڑ گئیں ۔
    گزشتہ دو دہائیوں سے خلا میں انسانی سرگرمیاں بڑھ جانے کی ایک بڑی وجہ زمین سے کم فاصلے والے مدار میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کا قیام ہے ۔
    جو امریکہ اور روس دونوں کا مشترکہ منصوبہ تھا ۔۔ ناسا کی کوشش ہےکہ وہ ۲۰۲۰ تک اس سٹیشن
    تک کمرشل فلائٹس کا آغاز کر سکے ۔ جس کے لیے وقتاٌ فوقتاٌ مختلف مشن تشکیل دیئے جاتے رہتےہیں ۔ ایک ایسے ہی مشن کے لیے ایم آئی ٹی کے ایسٹرو فزکس ڈیپارٹمنٹ نے منتہیٰ دستگیر کو ،اس کی غیر معمولی ذہانت اور انتہائی مضبوط قوتِ اارادی
    دیکھ کر نامزد کیا تھا ۔ اِس مشن کے لیے دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے تقریباٌ تیس کے قریب مرد اور خواتین کا انتخاب کیا گیا تھا جنھیں نا سا کے فٹنس اور دیگر ٹیسٹس پاس کر کے چھ ماہ کی انتہائی پیچیدہ ٹریننگ مراحل سےگزر کر مشن کے
    لیے کلیئرنس حاصل کرنا تھی”۔
    "اور منتہیٰ دستگیر اِس وقت ایک دوراہے پر کھڑی تھی ۔۔ ایک طرف بین الاقوامی اعزاز تھا اور خواب تھے، تو دوسری طرف اپنی پیاری دھرتی اور مفلوک الحال عوام کی تقدیر بدلنے کے اُس کے پختہ عزائم ۔۔ جس کے لیے وہ بہت آگے تک جا چکی تھی
    لیکن اِن سب سے بڑھ کر اہم ارمان تھا ۔ وہ یقیناًاپنے منصوبوں کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر سکتی تھی ۔ پسِ منظر میں رہ کر سیو دی ارتھ کے ذریعے اُن کو جاری رکھ سکتی تھی۔
    ” لیکن ارمان ۔ اُسے اب اور کتنا انتظار کرنا ہوگا "۔۔؟؟ اِس سوال کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا ۔
    ذہن میں اٹھتے ہر سوال اور خدشے کو جھٹک کر ہارورڈ میں فائنل ڈیفی اینس سے پہلے منتہیٰ ناسا کے ایسٹراناٹ فٹنس اینڈ کلیئرنس ٹیسٹ دے آئی تھی ۔
    "پاکستان کی پہلی خاتون خلا باز۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا ۔ اور اِس سنگِ میل کو بھی اس نے اب ہر حال میں عبور کرنا تھا ‘‘۔
    لیکن ابھی تک اِس کی خبر کسی کو بھی نہیں تھی۔بے انتہا ذہین یہ لڑکی جو زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکی تھی ۔رشتوں اور محبتوں کے معاملے میں ہنوز کوری تھی ۔

    *********************

    ارمان ییل یونیورسٹی میں اپنی شدیدمصروفیات کے با وجو د اُس کی سرگرمیوں سے بے خبر نہیں تھا ۔۔
    منتہیٰ ہاسٹن سے فٹنس ٹیسٹ دے کر واپس میسا چوسٹس لوٹی ہی تھی ۔۔ کہ ارمان کی کال آئی ۔
    "ہیلو”۔۔”آگئیں آپ واپس "۔۔؟؟ ارمان کا لہجہ اجنبی اور برفیلا تھا
    "جی” ۔۔ اُس نے بمشکل تھوک نگلا ۔۔ اب جو بھی تھا۔۔۔ فیس تو کرنا تھا۔۔
    "پھر کب تک آرہا ہے ایسٹراناٹ ٹیسٹ کا رزلٹ "۔۔۔؟؟؟
    "جب آپ کو سب پتا ہے تو یہ بھی پتا ہوگا "۔۔ منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی
    ارمان کو شاک ہوا ۔۔ "منتہیٰ ضدی تو تھی۔۔ لیکن وہ ہٹ دھرم کبھی بھی نہیں تھی” ۔۔
    "ہم سب سے اپنی اِن سرگرمیوں کو خفیہ رکھنے کی وجہ بتانا پسند کریں گی آپ "۔۔؟؟۔۔ اب کہ ارمان کا لہجہ مزید سرد ہوا
    "ارمان”۔۔ "سپیس ٹریول میرا خواب ہے نہ "۔۔
    "تو ۔۔ہم میں سے کوئی بھی آپ کے خوابوں کی راہ میں رکاوٹ بننے کا ارادہ نہیں رکھتا "۔۔
    "آپ کی ممی کو شادی کی جلدی ہے” ۔۔ منتہیٰ نے اُسے جتایا
    "وہ آپ کی اپنی امی کو بھی ہے "۔۔
    "میں اپنی امی کو سنبھال سکتی ہوں "۔۔
    "میں بھی اپنی ممی کو سمجھا سکتا ہوں” ۔۔
    "آپ۔۔ اُن کی اکلوتی اولاد ہیں ۔۔ ان کو ۔۔ ان کو مزید انتظار مت کروائیں "۔۔ منتہیٰ دل کڑا کر کے اصل موضوع پر آئی۔۔
    "کیا مطلب” ۔۔؟؟۔۔ ارمان چونک کر سیدھا ہوا
    "آپ ۔۔ آپ کسی اور سے شادی کر لیں ۔۔ میرا انتظار مت کریں "۔۔۔
    اور دوسری طرف ارمان کو لگا تھا کہ کسی نے اُس کی سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ سائیں سائیں کرتے کانوں نے ساتھ اس نے انتہائی بے یقینی سے سیل کی سکرین کو دیکھا ۔
    "منتہیٰ "۔۔ "کیا کہا ہے آپ نے ابھی”۔۔؟ اس نے تصدیق چاہی
    "وہی جو آپ نے سنا ہے ۔مجھے نہیں معلوم کہ کتنا عرصہ مجھے ناسا کے مشن پر لگ جائے ۔۔ آپ آنٹی ،انکل کو مزید انتظارمت کروائیں ۔۔ شادی کر لیں "۔۔ اُس نے رسان سے کہا ۔۔ لیکن دوسری طرف ارمان کا پارہ چڑھ چکا تھا
    صاف بات کیجئے’’ منتہیٰ بی بی ‘‘کہ ناسا تک پہنچ کر ارمان یوسف آپ کو خود سے بہت چھوٹا لگنے لگا ہے ۔۔ "بہت مل جائیں گےاب آپ کو اپنے لیول کے "۔۔۔ وہ نہ جانے کیوں اتنا بد گمان ہو ا تھا ۔
    "جسٹ شٹ اَپ ارمان "۔۔۔ "میں نے ایسا کچھ نہ سوچا ہے ۔۔ نہ کہا ہے "۔۔ منتہیٰ کو طیش آیا
    "یو ٹو شٹ اَپ "۔۔۔ جواباٌ وہ بہت زور سے گرجا تھا ۔۔ منتہیٰ سہم سی گئی ۔۔
    ارمان کا یہ روپ اس کے لیے بالکل نیا تھا ۔۔ "وہ بہت ٹھنڈے مزاج کا ایک شائستہ لڑکا تھا "۔۔
    "مس منتہیٰ "۔۔ "ہمارا یہ رشتہ ہمارے بڑوں نے طے کیا تھا ۔ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ اپنے طور پر اتنے بڑے فیصلے کرنے لگ جائیں۔۔۔؟؟ کیا آپ دنیا کو اور پاکستان میں آپ کی کامیابیوں کے لئے ہمہ وقت دعا گو والدین کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ
    ناسا تک پہنچ کر آپ بہت خود مختار ہو گئی ہیں ۔۔ اپنے فیصلے خود کر سکتی ہیں "۔۔۔؟؟ وہ گرجا
    "ارمان میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے اور فیصلہ یقیناًہمارے بڑے ہی کریں گے ۔۔ میں نے آپ سے صرف اتنا کہا ہے کہ آپ کی ممی شادی میں جلدی چاہتی ہیں ۔۔ آپ ان کی بات مان کر کسی اور سے شادی کر لیں ۔ میں آپ سب کو انتظار میں نہیں ڈالنا
    چاہتی ۔۔ جب میرے پاس بتانے کو کوئی مدت بھی نہیں ۔۔ خلافِ مزاج بہت کول رہ کر منتہیٰ نے رسانیت سے اسے سمجھانےکی ایک اورسعی کی "۔
    لیکن دوسری طرف ارمان اس کی بات پوری ہونے سے پہلی ہی کال کاٹ چکا تھا ۔۔۔ منتہیٰ نے پیشانی مسلتے ہوئے کئی دفعہ کال بیک کی ۔۔ پھر مسلسل تین روز تک وہ اسے کال کرتی رہی ۔۔۔ لیکن ارمان کا نمبر بند تھا ۔۔
    "وہ شاید ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا تھا "۔۔ بہت دکھ سے منتہیٰ نے اپنی انگلی میں پہنی رِنگ اتاری ۔”چھ سال کا ساتھ تھا ان کا ۔۔ شریک ِزندگی نہ سہی وہ دوست تو رہ سکتے تھے مگر”۔ ۔وہ کیا چاہ رہا تھا۔۔” منتہیٰ سمجھنے سے قاصر تھی اور رابطے کے سارے دَراب بند ہو چکے تھے "۔

    *********************

    ارمان یوسف کے لیے وہ رات زندگی کی کٹھن ترین راتوں میں سے ایک تھی ۔۔۔ منتہیٰ سے بات اَدھوری چھوڑ کر اُس نےاپنا سیل بہت زور سے دیوار پر کھینچ مارا تھا ۔
    "کوئی اذیت سی اذیت تھی ۔۔۔ وہ لڑکی جو اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی ‘یوں ریجیکٹ کر دے گی "۔۔؟؟ ۔۔”صرف اپنےمستقبل ۔۔اپنے خوابوں کے لیے ۔۔ اُس کی زندگی میں میرا کوئی حصہ کبھی تھابھی یا نہیں "۔۔۔؟
    "وہ اُن مردوں میں سے ہر گز نہیں تھا جو عورت کی صلاحیتوں کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا کر انہیں آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں ۔۔وہ ناسا جوائن کرنا چاہتی ہے۔۔ ضرور کرے ۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کا کوئی مشن شروع کرنا چاہتی ہے۔۔ ’’بصد شوق‘‘۔۔
    وہ ایک دفعہ مجھ سے بات تو کرتی ۔ لیکن اُس نے صرف فیصلہ سنایا تھا ۔۔۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہے "۔۔
    "شایدِ اس لیے کہ اُس کے مستقبل میں ۔۔میری حیثیت صرف ایک آپشن کی سی تھی "۔۔۔ ارمان دکھ سے سوچتا گیا ۔۔
    "تین سال کے رشتے کو اُس نے تین منٹ میں ختم کر دیا ۔۔ کیا اُس کے دل میں میرے لیے آج تک کوئی جگہ نہیں بن سکی "۔۔؟؟
    "وہ زندگی میں آج تک کبھی نہیں رویا تھا ۔ پر اُس رات ۔۔۔ وہ رات اس پر بہت بھاری گزری تھی ۔۔
    "ییل یونیورسٹی سے کچھ فاصلے پر نیم منجمد ’پیل لیک‘کے کنارے شدید ٹھنڈ میں ارمان ساری رات گھٹنوں میں سر دیئے روتا رہا تھا "۔۔
    "دنیا کہتی ہے کہ مرد رویا نہیں کرتے ۔لیکن ہر مرد اپنی زندگی میں ایک دفعہ اذیت کی انتہا پر پہنچ کر ضرور روتا ہے ۔نا جانے کیوں آنسوؤں کا رشتہ صرف عورت ذات سے جوڑ دیا گیا ہے ۔۔ ورنہ مرد جذبوں سے نا آشنا تو نہیں ہوتے "۔۔۔
    اجنبی شہر کے اجنبی راستے ، میری تنہائی ہر مسکراتے رہے۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
    "سچا مرد زندگی میں صرف ایک دفعہ محبت کرتا ہے ۔۔۔ میں نے بھی وہ محبت صرف تم سے کی تھی منتہیٰ ۔۔ میرے دل کے سارے تار آخری سانس تک صرف تمہارے نام سے جڑے ہیں ۔۔یہ نام ہے تو ساز بجیں گے ۔۔ ورنہ آج کے بعد سارے
    مدھرُ سر تال ۔۔ ساری کیف آفریں دھنیں۔۔ ہمیشہ کے لیے گونگی ہو جائیں گی۔۔ تم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں”۔۔
    وہ جھیل کے ٹھنڈے پانیوں کو ۔۔ اپنے سارے رت جگوں ۔۔اپنے سارے آنسوؤں کا گواہ بنا کر علی الصبح لوٹ آیا تھا ۔۔
    زہر ملتا رہا ۔زہر پیتے رہے ، روز مرتے رہے روز جیتے رہے
    زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اِسے آزماتے رہے۔۔
    کئی روز تک وہ خود کو یونیورسٹی سے ڈورم تک گھسیٹتا رہا ۔۔ سیل اُس رات سے دیوار تلے ٹوٹا پڑا تھا ۔۔ مگر ہوش کس کو تھا ۔۔؟۔۔کوئی اس کا نام لے کر بھی پکارتا ، تو وہ یوں خالی نظروں سے اُسے دیکھتا ۔۔ جسے ارمان نام کے کسی بندے کو وہ جانتا ہی نہیں ۔۔
    شام ڈھلے ۔۔وہ شدید ٹھنڈ میں ایک شرٹ میں باہر نکل جاتا ۔۔۔اور ساری رات کبھی جھیل کنارے ۔۔ کبھی کسی پارک میں ۔۔توکبھی مرغابیوں کے جھنڈ میں بیٹھ کر کاٹ آتا ۔
    کل کچھ ایسا ہوا میں بہت تھک گیا ۔۔اِس لیے سن کہ بھی اَن سنی کر گیا۔
    کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں ، دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے
    لیکن زندگی ابھی ختم نہیں ہو ئی تھی ۔۔ اُسے خود کو سنبھالنا تھا ۔ ییل یونیورسٹی میں اُس نے اپنی فاؤنڈیشن کے لیے انتہائی اہمسپانسرزحاصل کیے تھے ۔۔وہ اُن کم نصیبوں میں سے ہر گز نہیں تھا جن کی زندگی چند لوگوں ، کچھ خواہشات اور روزمرہ کے
    معمول کا محور ہوتی ہے ۔۔ اُسے اب اپنے ویران دل اور اجڑے ارمانوں کے ساتھ اوروں کے لیے جینا تھا ۔
    زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا ، زندگی کی طرف اِک دریچہ کھلا۔۔
    ہم بھی گویا کسی ساز کے تار تھے، چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے
    اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے

    *********************

    You rocked Meena….!
    نینسی سمیت منتہیٰ کے سب ہی کلاس فیلوز نے ناسا کے فٹنس ٹیسٹ پاس کرنے اور مشن کے لیے منتخب ہو جانے پر اُسے بھرپور ٹری بیوٹ دیا تھا ۔ فائنل ڈیفی اینس اور تھیسز سے فارغ ہوکر وہ سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹنے کو تھے ۔
    جبکہ نینسی کا ارادہ ایم آئی ٹی جوائن کرنے کا تھا ۔۔
    منتہیٰ کا ستا ہوا چہرہ اور آنکھوں کی بجھی جوت کو نینسی کئی دن سے نوٹ کر رہی تھی ۔
    Is everything okay Meena..??
    منتہی ٰنے جذبات چھپاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔
    مگر نینسی اتنے عرصے میں اس کی رگ رگ سے واقف ہو چکی تھی ۔”کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور تھی "۔۔۔
    "کیا تمہاری ارمان سے لڑائی ہوئی ہے”۔۔۔؟؟ نینسی نے اندھیرے میں تیر چھوڑا
    وہ جان ہارورڈ سٹیٹیو کے پاس ایک نسبتاٌ پر سکون گوشے میں بیٹھی تھیں ۔۔۔اور ارد گرد بہت چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔۔
    منتہیٰ نے کچھ سوچتے ہوئے مختصراٌ اسے ارمان سے اپنی جھڑپ کے بارے میں بتایا ۔۔۔
    Oh no silly girl .. Why did you do that??
    مینا تم نے کبھی ارمان کی آنکھوں پر غور کیا ہے ۔۔ اُس میں تمہارے لیے سچی اور بے لوث محبت صاف جھلکتی ہے ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے "۔۔۔؟؟
    مجھے یقین ہے وہ تمہارا انتظار کرے گا ۔۔ اور بہت جلد تم دونوں کا دوبارہ ملاپ ہو جائیگا ۔۔ میرا دل کہتا ہے تم دونوں ایک دوسرےکے لیے بنائے گئے ہو” ۔۔
    منتہیٰ نے بہت غور سے نینسی کو دیکھا ۔۔’’ وہ بولتی ،ہمہ وقت بہت کچھ کہتی نگاہیں ‘‘۔۔جنھیں تین، چار سال میں بھی وہ نہیں پڑھ سکی تھی ،انہیں نینسی نے ارمان سے صرف ایک مختصر ملاقات میں پڑھ لیا تھا۔۔’’ لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی
    گزر چکا تھا ۔۔ اور وہ ٹائم مشین اب تک ایجاد نہیں ہوئی تھی جو بیتے وقت کو انسان کے لیے واپس لا سکے ۔‘‘
    منتہیٰ نے بہت سے آنسو اندر اتار ے ۔۔اور بیگ کھول کر لکڑی کا ایک نفیس نقش و نگار والا باکس نینسی کی طرف بڑھایا ۔۔
    کیا تم میری ایک امانت اپنے پاس رکھ سکتی ہو ۔۔۔؟؟
    Yeah.. Why not … but what’s here inside..??
    نینسی نے با کس کو تھام کر جانچنے کے انداز میں پکڑا کہ اُس کے اندر کیا ہے ۔۔؟؟
    اس میں کچھ گفٹس ہیں جو ارمان مجھے دیتا رہا ۔۔ کیا تم یہ اسے لوٹا دو گی ۔۔؟؟
    Don’t do that Meena .. Everything will be soon fine… Just wait and have
    faith my dear.
    نینسی نے اُسے سمجھانے کی آخری کوشش کی ۔۔۔
    "آل رائٹ”۔ ۔”لیکن یہ تمہارے پاس میری امانت ہے ۔۔ اگر ناسا ٹریننگ کے دوران مجھے کچھ ہو جائے ۔۔ تو یہ ارمان کو واپس کر دینا ۔۔ ورنہ پھر میں واپس آکر تم سے لے جاؤں گی ۔۔۔ یُو نو ۔میں ہاسٹن یہ ساتھ نہیں لے جا سکتی "۔۔۔
    Sure why not Darling …
    نینسی نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر گال چومے ۔۔۔ اور منتہیٰ اِس بلائے نا گہانی پر پہلے ششدرہ ہوئی ۔۔۔ پھر سرخ چہرے کے ساتھ نینسی کو زور سے دکھا دیا ۔
    Oh no… You are so shy girl. ..
    "نینسی بہت دیر تک گود میں باکس رکھے لوٹ پوٹ ہوتی رہی تھی "۔۔

    *********************

    "انسان جب کبھی اپنے ذات سے منسلک پیارے رشتوں کو نظر انداز کر کے صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے تو جلد یا بدیر ۔۔نتائج اس کی توقع کے برخلاف ہی آتے ہیں ۔۔ بہت دنوں سے کسی کچھوے کی طرح اپنے خول میں بند وہ جس صورتحال سے
    بچنے کی کوشش کر رہی تھی اب اُس کا سامنا کرنے کا وقت آپہنچا تھا "۔
    رات اس نے گھر کال کی تو خلافِ توقع ابو نے فون اٹھایا ۔۔ "ابو مجھے آپ کو ایک بہت بڑی خوش خبری سنانی ہے”۔۔۔ شدتِ جذبات سے اس کی آواز بوجھل تھی ۔
    "جانتا ہوں "۔۔ ابو کی آوازبہت سرد تھی ۔
    ’’اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ تمہیں اتنی دور اکیلا بھیج کر میں رو ز سکون سے سو جاتا ہو ں تو یہ تمہاری بھول ہے۔۔ گزشتہ دو سال سےتمہارے باپ کو اُسی وقت نیند آتی ہے جب اُسے اپنے ذرائع سے تمہاری خیریت کی اطلاع ملتی ہے۔۔ تم بتاؤ یا نہیں لیکن
    تمہاری ہر سرگرمی میرے علم میں ہوتی ہے ‘‘۔۔ ان کا لہجہ بدستور برفیلا تھا
    "ابو آپ۔۔آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں میں نے سوچا تھا میں سب کو سرپرائز دوں گی "۔۔۔ منتہیٰ نے بمشکل تھوک نگلا
    "ہاں بہت اچھا لگا تمہارا سرپرائز ۔۔ ماشاء اللہ اب تم خود مختار ہو اپنے فیصلے خود کر سکتی ہو” ۔۔
    "ابو پلیز ۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔ آپ کو پتا ہے نہ سپیس ٹریول میرا خواب تھا ۔۔ اور یہ پاکستان کے لیے بھی بہت بڑا اعزازہوگا "۔۔ہمیشہ لاڈ اٹھانے والا باپ آج پہلی دفعہ اُس سے خفا ہوا تھا ۔
    مگردوسری طرف بہت دیر خاموشی رہی تھی ۔۔۔ فاروق کو منتہیٰ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھی ۔۔ جس نے کامیابیوں کی چوٹی پر پہنچ کر بھی ہمیشہ ان کا مان رکھا تھا ۔وہ اس کی ہر خطا کسی ایکسکیوز کے بغیر بھی معاف کر سکتے تھے ۔۔ لیکن یہ نا فرمانی بڑھ نہ جائے
    سوانہوں نے اپنا لہجہ سخت رکھا تھا ۔
    "منتہیٰ تم جانتی ہو کہ ماں باپ اپنی ہونہار اولاد پر اُسی وقت خفا ہوتے ہیں ۔۔ جب اُس کے کسی روئیے سے انہیں دکھ پہنچا ہو مجھے کبھی تم پر پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ میری بیٹی نے کبھی میرا سر جھکنے نہیں دیا "۔۔ لیکن ۔۔آج ۔۔۔
    ’’آج یہ مان پہلی دفعہ ٹوٹا ہے ۔۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ آخری دفعہ بھی ہوگی ‘‘۔ رسانیت سے اپنی بات مکمل کر کے فاروق صاحب کال کاٹ چکے تھے "۔۔۔اور منتہیٰ اپنی جگہ گُم صُم بیٹھی تھی۔۔
    بہت دیر بعد چونک کر اُس نے سیل دوبارہ تھاما ۔۔ اور ڈاکٹر یوسف کا نمبر پنچ کیا ۔۔
    ’’مبارکباد مائی ڈیئر‘‘ ۔۔کال ریسیو ہوتے ہی دوسری طرف سے آواز آئی جو اُس کی توقع کی عین مطابق بے حد سرد تھی ۔
    منتہیٰ کے حلق میں جیسے کانٹے سے اُگ آئے ۔۔بہت سے خشک آنسو آنکھوں میں اُترے ۔۔” کبھی کبھی انسان کو اپنے خوابوںکو پانے کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے "۔۔
    "چپ کیوں ہو منتہیٰ”۔۔؟۔ ڈاکٹر یوسف نے بہت دیر کی خاموشی کے بعد اُسے پکارا
    "انکل کیا ارمان نے آپ کو کچھ بتایا ہے "۔۔؟؟
    "بہت دنوں سے جو خدشات ذہن میں کیڑوں کی طرح کلبلا رہے تھے ۔ بالا آخروہ لبوں پر آہی گئے "۔۔اور دوسری طرف ڈاکٹریوسف بری طرح چونک کر سیدھے ہوئے تھے ۔۔۔’’ ارمان ‘‘۔۔؟؟
    اگرچہ ارمان نے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔ لیکن گزشتہ مہینے وہ اسکی وجہ سے کافی پریشان رہے تھے ۔۔۔ کئی روز تک اُس کا نمبر آف تھا۔ مجبوراٌ انہیں اس کے ڈیپارٹمنٹ کال کرکے رابطہ کرنا پڑا ۔
    وہ ٹھیک نہیں تھا ۔۔ یہ جاننے میں انہیں دیرنہیں لگی تھی ، مگر وہ گھُنااُن کو کچھ بتا نے پر آمادہ ہی نہ تھا ۔۔۔
    "ہاں بتایا تھا "۔۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اندھیرے میں تیر چھوڑا ۔۔۔ ’’یہ کل کے بچے آخر ہمیں سمجھتے کیا ہیں‘‘ ۔۔۔ "ہونہہ”
    ایک لمحے کو منتہیٰ کا سانس تھما ۔۔۔ پھر اُس نے خود کو سنبھالا۔
    "انکل پلیز آپ تو میری بات سمجھیں ۔۔ میں نے ۔۔ میں نے ارمان سے صرف اس لیے کہا کہ میں آپ لوگوں کی درمیان خلیج نہیں بننا چاہتی ۔۔ آپ لوگ ان کی کہیں اور شادی کر دیں”۔بے انتہا پر اعتماد رہنے والی منتہیٰ بمشکل اپنی بات واضح کر پائی۔۔
    ’’آپ کتنے ہی بڑے ہو جائیں ۔کامیابیوں کی کتنی ہی چوٹیاں عبور کر لیں ، اگر آپ میں رشتوں کا احترام کرنے کا سلیقہ ہےتو والدین اوراستاد دو افراد کے سامنے بہت سے مواقع آپ کو گو نگا کر دیتے ہیں ۔۔دنیا جہان میں تقریریں جھاڑ نے والوں
    کے سارے الفاظ اُس وقت دم توڑ دیتے ہیں ۔جب ماں باپ یا بہت عزیز استاد میں سے کوئی آپ سے خفا ہو‘‘ ۔۔
    اور دوسری طرف پروفیسر یوسف کا سر چکرایا تھا ۔۔۔ وہ شاک میں تھے ۔۔ "انکل پلیز کچھ بولیں "۔۔۔ اُن کی بہت دیر کی خاموشی پر منتہیٰ رو دینے کو تھی ۔
    "کیا تم یہی سمجھتی ہو کہ میرے یا مریم کے کہنے پر ارمان کسی اور سے شادی پر آمادہ ہو جائے گا "۔۔؟ بہت دیر بعد ڈاکٹر یوسف نے اُس سے ایک صرف ایک سوال پوچھا ۔۔
    "جی انکل "۔۔ وہ ۔۔ "وہ ایک فرمانبردار بیٹے ہیں "۔۔
    اور ڈاکٹر یوسف نے بہت گہرا سانس لیکر صوفے کی پشت سے سر ٹکایا تھا ۔۔ "اگر تم ایسا سمجھتی ہو ۔۔ تو تم دنیا کی احمق ترین لڑکی ہو” ۔۔ "اور وہ دیوانہ "۔ انہوں نے سر جھٹک کر بات اَدھوری چھوڑی ۔
    ’’کتابوں ، تھیوریز اور ریسرچ سے باہر بھی ایک دنیا ہے میری بچی ۔۔ دنیا والوں اور اُن کے روئیوں کو سمجھنا بھی ایک علم ہے ۔کبھی اپنی ذات سے منسلک لوگوں کو بھی وقت دیا کرو ۔۔ یہ نہ ہو کہ اپنے خوابوں کو پانے کی دھن میں تم رشتوں کی دنیا میں بالکل اکیلی رہ جاؤ ۔۔ اور مسرت کا خوبصورت پرندہ ہمیشہ کے لیے تمہاری زندگی سے رخصت ہو جائے‘‘۔
    بہت مدلل انداز میں اپنی بات مکمل کر کے ڈاکٹر یوسف کال کاٹ چکے تھے ۔۔ اورمنتہیٰ اپنی جگہ گنگ بیٹھی تھی ۔
    کیا واقعی۔اِن خوابوں اور سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ۔۔ وہ تنہا رہ گئی تھی "۔۔۔؟؟؟؟

    جاری ہے

    *******

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    رامین سیو دی ارتھ کی ہفتہ وار میٹنگ میں تھی جب اسے سیل پر امی کی کال موصول ہوئی ۔۔ بہت تیزی کے ساتھ اپنی فائلزسمیٹتی ہوئی وہ باہر لپکی تھی کہ پیچھے سے آتی ارمان کی آواز نے قدم روکے ۔
    "رامین کیا بات ہے ۔۔ سب خیریت ہے نہ "۔۔؟؟
    "ارمان بھائی ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں مجھے جلدی گھر پہنچنا ہے” ۔۔ اُس نے تیزی سے قدم بڑھائے۔۔۔
    "میرے ساتھ آؤ وہ پارکنگ میں اپنی کار کی جانب بڑھا "۔۔۔ دو گھنٹے بعد وہ ہاسپٹل میں تھے ۔۔ فاروق صاحب کو ہلکا سا انجا ئناکا درد ہوا تھا ۔ارمان نے اپنے گھر اطلاع دے دی تھی ۔۔ سو ٹریٹمنٹ اور ٹیسٹس وغیرہ سے فارغ ہوکر جب رات نوبج وہ گھرپہنچے ۔
    تو ڈاکٹر یوسف اور مریم پہلی ہی وہاں موجود تھے ۔
    ارمان ، رامین کو ڈھونڈتا ہوا اُس کے کمرے تک آیا ۔۔ پھر ٹھٹکا ۔۔
    منتہیٰ بھی سکائپ پر رامین کے عقب میں ارمان کو دیکھ کر اُچھلی ۔۔ وہ ہاتھ میں برگر لیے ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیڈ پر بیٹھی تھی ۔۔”اور باہر اولڈ کیمبرج پر بادل ٹوٹ کر برس رہے تھے”۔۔رامین کب کی رفو چکر ہو چکی تھی ۔
    "ارمان آپ یہاں ۔۔ رامین کے روم میں "۔۔؟؟ ۔۔منتہیٰ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔۔ اور ارمان اس کی آواز پر جیسے خواب سےجاگا تھا ۔۔ "آج کتنے ماہ بعد ۔۔ دیدارِ یار نصیب ہوا تھا "۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "منتہیٰ ایکچولی "۔۔ "فاروق انکل کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو میں ۔۔ ممی پاپا کے ساتھ ابھی آیا تھا "۔۔
    کیا ہوا ابو کو ۔۔؟؟
    "کچھ نہیں بس ہلکا سا درد تھا انہیں ۔۔ اب ٹھیک ہیں وہ "۔۔
    "میں ابو سے بات کرتی ہوں "۔۔
    "منتہیٰ سب ٹھیک ہے” ۔۔ ارمان اسے روکتا ہی رہ گیا مگر وہ سکائپ آف کرکے گھر کے نمبر پر کال ملا چکی تھی ۔۔
    "امی، ابو کو کیا ہوا ہے”۔۔؟؟اس کی آوا ز میں بے پناہ تفکر تھا۔۔ عاصمہ کی آنکھیں بھیگیں ۔۔ان کی مرد بیٹی جب تک اُن کے پاس تھی ۔۔وہ کبھی ایسی تشویش سے نہیں گزری تھیں ‘ جس کا سامنا انہیں آج ہوا تھا۔
    ۔۔””ہر گھر میں بڑی بیٹی ماں کے سب سے زیادہ قریب ہی نہیں ہوتی ۔۔ ماں کے حالِ دل کی سب سے بڑی گواہ بھی ہوتی ہےاور اُس کے رازوں کی امین بھی
    "کچھ نہیں بس تھوڑی طبیعت خراب ہوئی تھی ۔۔ ٹیسٹ ہوئے ہیں کچھ ۔۔تم پریشان مت ہو "۔۔ وہ اپنی پریشانی چھپا گئیں
    "اچھا رپورٹس کب آئیں گی "۔۔؟؟ ۔”آپ پلیز اپنا خیال رکھنا پریشان نہیں ہونا "۔۔
    "رپورٹس ارمان کل لے آئے گا۔۔ بہت خیال کرتا ہے ۔۔ ابھی بھی تمہاری دادی کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا رہا ہے "۔۔ عاصمہ نے سامنے دیکھاجہاں دادی اپنی پوتی کے منگیتر سے ناز اٹھوا رہی تھیں ۔۔
    اور منتہیٰ نے سکون کی سانس لے کر کال بند کی ۔
    اگلے روز شام کو ارمان آفس میں تھا جب واٹس ایپ پر منتہیٰ کا مسیج آیا ۔۔۔ مجھے ابو کی رپورٹس سینڈ کریں ۔۔
    "رپورٹس کلیئر ہیں ۔۔ ڈونٹ وری "۔۔ اُس نے کام میں مصروف وائس مسیج کیا ۔۔
    "میں نے کہا ،مجھے رپورٹس کی امیج سینڈ کریں "۔۔۔ جواب آیا
    ارمان کو غصہ چڑھا ۔۔۔” آپ کو میری بات کا یقین نہیں ہے "۔۔؟؟
    "نہیں "۔۔
    "رامین کا یقین کریں گی آپ”۔۔؟؟
    "نہیں”۔۔
    "پھر آپ کس کا یقین کرتی ہیں "۔۔؟؟
    "صرف اور صرف اپنی آنکھوں کا "۔۔ سمائل ایموجی کے ساتھ جواب آیا
    ارمان نے بھنا کر موبائل سکرین دیکھی ۔۔۔” منتہیٰ بی بی "۔۔ "اگر گِن گِن کے سارے بدلے نہیں لئے نہ ۔۔ تو میرا نام بھی ارمان یوسف نہیں "۔
    ****************
    وقت کا دھارا بہتا رہا۔۔سات ماہ یوں پلک جھپکتے میں گزرے کہ پتا ہی نہیں چل سکا۔۔اور اب منتہیٰ کے بعد ارمان کی روانگی کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
    "سیو دی ارتھ فاؤنڈیشن کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ فردِ واحد یا مخصوص شخصیات پر ہر گز انحصار نہیں کرتی ۔۔ ہم نے شروع ہی سے اس کا نیٹ ورک کچھ ایسا رکھا ہے کہ نئے لوگ تیزی سے آگے آکر پرانے قابل لوگوں کی جگہ کور کرتے
    رہیں ۔ہم ہر چھ ماہ بعد ونگ کمانڈرز اسی لیے تبدیل کرتے رہے کہ کسی بھی کڑے وقت میں ہمارے پاس قیادت کا بحران نہیں ہو ۔۔ مجھے امید ہے کہ میری غیر موجودگی میں سارے پراجیکٹس ، میٹنگز سب کچھ اسی طرح جوش و خروش سے
    چلتا رہے گا "۔۔
    ارمان یوسف کی سکالر شپ پر "ییل یونیورسٹی "کے ٹیلی کام کورس کے لیے روانگی سے پہلے یہ اس کی آخری میٹنگ تھی۔منتہیٰ برین ونگ کی کمان کے لئے جانے سے پہلے ہی بہترین لوگ نامزد کر گئی تھی۔۔ اور پچھلے کچھ عرصے سے سٹڈیز کی
    کی بے پناہ مصروفیات کے باعث وہ ایس ٹی ای سے تقریباٌ لاتعلق تھی ۔۔۔ لیکن ارمان سمیت ۔۔ منتہیٰ کو قریب سے جاننےوالوں کو علم تھا ۔۔ "وہ لا تعلق ہو کہ بھی لا تعلق نہیں تھی ۔۔ وہ کچھ نا کچھ کر ہی رہی ہوگی "۔
    ارمان کو نا جانے کیوں یہ یقین سا تھا کہ سٹڈیز کے لیے بیرونِ ملک اُس کا یہ قیام ۔۔۔فاؤنڈیشن کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوگا۔۔ "اور ہمیشہ کی طرح اپنے اندازوں میں ایک دفعہ پھر وہ سو فیصد درست تھا "۔۔
    ائیرپورٹ پر اسے سی آف کرنے دوستوں اور ایس ٹی ای کارکنان کا ایک جمِ غفیر آیا ہوا تھا ۔۔ وہ یوتھ کا ہیرو تھا ،جس نے اپنی دن رات کی انتھک محنت سے ایک وسیع علاقے کے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کر کے ان کی تقدیر بدل دی تھی ۔۔۔ کوہاٹ سے
    سکھرتک اب لاکھوں کارکنان اِس قافلے کا حصہ تھے”۔۔
    اُس نے پاکستان سے ڈائریکٹ نیو ہاوان کے بجائے میسا چوسٹس کی فلائٹ لی تھی۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے ہی موسلا دھار بارش تھمی تھی ۔
    منتہیٰ سائنس سینٹر سے باہر نکلی ہی تھی کہ اُس کا سیل تھرتھرایا ۔۔ "ارمان کالنگ "۔
    "ہیلومنتہیٰ”۔۔ "میں یہاں ہارورڈ کیمپس پر ہوں ۔۔ آپ اس وقت کہاں ہیں "۔۔؟؟ارمان کی آواز بہت پُرجوش تھی۔۔۔ کئی ماہ سے ان کی سلام دعا کے علاوہ بات ہی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ منتہیٰ کو سٹڈیز اور اس کی ریسرچ نے اَدھ مواکیا ہوا تھا تو ارمان جاب اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کے درمیان گھن چکر بنا ہوا تھا۔
    منتہیٰ نے سیل کو حیرت سے گھورا ۔۔ "ارمان اور یہاں کیمپس میں” ۔۔؟؟
    ٹھیک بیس منٹ بعد وہ سائنس سینٹر پر تھا ۔۔ "بلیو جینزگرے شرٹ کے ساتھ براؤن جیکٹ اورآنکھوں پر گلاسز ۔۔بہت سی لڑکیوں نے اُسے مڑ کر دیکھا ۔۔ وہ اِس توجہ کا عادی تھا "۔
    "ہیلو منتہیٰ کیسی ہیں آپ "۔۔؟؟
    "آنکھیں حالِ دل چھپانے سے قاصر تھیں ۔مگر نگاہوں کی زبان سمجھ کسے آتی تھی”۔۔؟؟
    منتہیٰ کے ساتھ اس کی کلاس فیلو نینسی تھی ۔۔۔”اوہ سو ہینڈسم ۔۔ ُ ہو اِز ہی مینا ۔۔”۔۔؟؟
    I am Arman Yousaf .. Her fiancé…
    ارمان نے اَزخود تعارف کروایا ۔۔
    OH! Meena why didn’t you tell me before… he is so graceful…
    نینسی نے دل تھام کر دیدے نچائے ۔۔۔ نینسی کی نان سٹاپ چلتی زبان پر منتہیٰ کو اکثر فاریہ یاد آجایا کرتی تھی ۔
    "ہیپی برتھ ڈے منتہیٰ "۔۔۔ ارمان نے خوبصورت سا ٹیولپ بُو کے اس کی جانب بڑھایا ۔ اس کے شولڈر پر ایک بیگ تھا ۔۔ اور ہاتھ میں کیک کا پیکٹ ۔۔۔
    "اوہ ۔برتھ ڈے پارٹی”۔۔ نینسی نے خوشی سے نعرہ لگایا اور چھلانگیں لگاتی ہو ئی ایک سمت غائب ہو گئی ۔
    ارمان نے خاصی دلچسپی سے اِس نمونے کو دیکھا ۔۔ "میں تو سمجھا تھا ، فاریہ زمین پر ایک ہی پیس ہے ۔۔ مگر اُس کی تو اور کاپیز بھی موجود ہیں "۔۔وہ ہنسا ۔۔ تو منتہیٰ چونکی ۔۔ "اُن دونوں کا تجزیہ ایک جیسا تھا "۔۔
    "آئیں چلیں کہیں بیٹھ کے پہلے کیک کاٹتے ہیں "۔۔ ارمان نےِ ادھر اُدھر کسی پر سکون گوشے کی تلاش میں نظر دوڑائی۔۔ "وہ اولڈکیمبرج سے قطعاٌ فینٹی سائز نہیں تھا "۔۔
    سینڈرز تھیٹر کی طویل سیڑھیوں پر ایک جانب جاکر وہ بیٹھے ہی تھے کہ نینسی کوئی درجن بھر کلاس فیلوز کے ساتھ سر پر آدھمکی ۔۔
    وہ سب ارمان سے بہت خوش دلی سے ملے تھے ۔۔ نینسی کے نائف سے ہیپی برتھ ڈے کے شور میں منتہیٰ نے کیک کاٹا ۔دس منٹ بعد وہ ساری جنجال پارٹی کیک کا صفایا کر کے رفو چکر ہو چکی تھی ۔۔۔
    "آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ آپ آرہے ہیں "۔۔؟؟ منتہیٰ کو یکدم یاد آیا
    "منتہیٰ بی بی”۔”کچھ یاد ہے ۔۔ آخری دفعہ آپ کی مجھ سے کب بات ہوئی تھی "۔۔؟؟ ۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی
    "وہ بس میں بہت مصروف تھی‘ وقت نہیں ملتا "۔۔۔ منتہیٰ نے ٹالا
    "جی ۔۔ میں بھی بزی تھا ۔۔ مجھے بھی ٹائم نہیں ملا بتانے کا "۔۔۔ جواب حاضر تھا ۔۔ منتہیٰ نے نوٹ کیا وہ بدل گیا تھا ۔۔ لیکن اس کا ایک سو بیس آئی کیو اِس معاملے میں ہمیشہ غلط نتیجہ ہی نکالتا تھا ۔
    ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں ” ییل یونیورسٹی ” جا رہا ہوں۔ ٹیلی کام کورس کے لیے ۔۔ فلائٹ میں نے میسا چوسٹس کی لی تھی تاکہ آپ سے ملاقات ہو جائے۔ یہ سب نے آپ کے لیے گفٹ بھیجے ہیں ۔ اس نے ایک بیگ منتہیٰ کی طرف بڑ ھایا
    لیکن منتہیٰ کی سوئی کہیں اور اٹکی رہ گئی تھی ۔۔”ارمان ۔ییل یونیورسٹی۔۔ پھر تیزی سے خود کو سنبھال کر ۔ اُس کے ہاتھ سے بیگ لیا۔”
    وہ بہت دیر تک ارمان سے پاکستان میں ایک ایک کے بارے میں پوچھتی رہی ۔۔ وہ اسے سیو دی ارتھ کی پروگریس کےمتعلق بتاتا رہا ۔
    اُنہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ ایک ساتھ بیٹھ کے ڈھیر ساری باتیں کرتے ہوئے لنچ کیا ۔۔ شام ڈھلے جب ارمان منتہیٰ کو ہولسیارڈ(ڈورم) چھوڑ کر پلٹا تو دل بہت مسرور تھا۔۔ "اگر اَرحم آج یہاں ہوتا تو مارے حیرت کے بے ہوش ہی ہو جاتا "۔۔
    "آئرن لیڈی نے چنے چبانا چھوڑ دیئے تھے ۔۔ یا ۔۔یہ بہت دنوں کی تنہائی کا اثر تھا "۔۔؟؟
    ارمان کو تیزی سے ایئر پورٹ پہنچنا تھا۔۔ اس کی رات دو بجے نیو ہاوان کی فلائٹ تھی ۔۔
    ڈورم پہنچ کر منتہیٰ نے بیگ اپنے بیڈ پر رکھ کر کھولا ۔ امی نے اس کے کئی من پسند کھانے اپنے ہاتھوں سے پکا کر ٹن پیک میں بھیجے تھے ۔۔۔”مونگ کی دال ، آلو کے پراٹھے اور لہسن کا اچار ، مولی کی بھاجی”۔
    ۔۔””ماں کی محبت کا تو اِس دنیا میں کوئی مول ہی نہیں
    رامین نے نے اس کے پسندیدہ ایمبرائیڈری والے کرتے اور سکارف بھیجے تھے ۔ابو نے پرفیوم اور یوسف انکل نے کچھ اسلا می کتابیں بھیجی تھیں ۔ او ر سب سے نیچے ایک مخروطی چھوٹے سے ڈبے کے اندر ایک نازک سا گولڈ بریسلٹ تھا ۔منتہیٰ
    نے انگلی کی پوروں سے اسے چھوا۔ ارمان نے اسے پہلی دفعہ کوئی تحفہ دیا تھا۔۔ "مگر اسے تو جیولری کا کبھی کوئی شوق ہی نہیں رہا تھا”۔
    اس نے ڈبہ بند کر کے رکھنا چاہا ۔تو ایک لمحے کو پیچھے لکھے الفاظ پر نگاہیں ٹہریں۔
    "forever yours, Armaan”
    اگلے رو ز منتہیٰ نے نینسی کو وہ سارے مزیدار کھانے کھلائے ۔۔ جو امی نے اُسے بھیجے تھے ۔۔
    Meena! your Mom is really an excellent chef .. .. By the way, what
    did Armaan present you??
    نینسی نے منٹوں میں سب چَٹ کرتے ہی شرارت سے دیدے نچائے ‘ بہت کچھ سوچتے ہوئے منتہیٰ نے اُسے بریسلٹ دکھایا ۔۔ واؤ ۔۔ نائس چوائس ۔
    "He really loves you”

    جاری ہے
    ****************

     

  • گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    کچھوا معدومی کے خطرے کا شکار جانور ہے جن کی نسل میں اضافے کے لیے پاکستان سمیت کئی ممالک میں کام کیا جارہا ہے۔

    کچھوے کے ننھے بچے نہایت کمزور جانور سمجھے جاتے ہیں جو حملہ آور کتے بلیوں اور انسانی شکاریوں کا آسان ہدف سمجھے جاتے ہیں علاوہ ازیں مچھلی کے شکار کے کانٹے اور ساحلوں پر پھینکا جانے والا پلاسٹک بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    تاہم موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج ان کے سامنے ایک اور خوفناک خطرے کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔

    امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر آبی حیاتیات کرسٹین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرات دن کے اوقات میں ریت کو نہایت گرم کر دیتا ہے، اور یہ گرم ریت کچھوے کی مخصوص جگہوں پر اس کے انڈوں، یا ننھے بچوں کو جلا کر بھسم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    ان کے مطابق گرم درجہ حرارت کے باعث دن کے اوقات میں ریت اس قدر گرم ہوجاتی ہے کہ اس میں بنائے گئے کچھوے کے گھروں میں کسی زندگی کے پنپنے کا امکان نہیں ہوسکتا۔

    کچھوے ریت کو کھود کر گڑھے کی صورت گھر بناتے ہیں جہاں مادہ کچھوا انڈے دیتی ہے

    ریت کے ان گھروں میں دیے گئے انڈے یا انڈوں سے نکلنے والے ننھے بچے اس گرمی کو برادشت نہیں کرسکتے لہٰذا وہ مر جاتے ہیں۔

    فلوریڈا کی اٹلانٹک یونیورسٹی کی ماہر حیاتیات جینیٹ کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے دوران ہمیں اکثر کچھوؤں کے مردہ انڈے ملتے ہیں۔

    یہ وہ انڈے ہوتے ہیں جن کے اندر موجود جاندار گرمی سے جل کر مر چکا ہوتا ہے۔

    کچھوے کے بچے انڈے کے اندر جل کر مر چکے ہیں

    انہوں نے بتایا کہ کچھ کچھوے ایسی صورتحال میں بھی انڈے سے نکل کر دنیا میں آنے میں کامیاب رہتے ہیں، لیکن وہ گرمی سے اس قدر بے حال ہوتے ہیں کہ فوراً پانی کی طرف بھاگتے ہیں، مگر راستے میں ہی مرجاتے ہیں۔


    زمین میں گھر بنا کر رہنے والے جاندار خطرے میں

    اس سے قبل اسی نوعیت کی ایک تحقیق وسطی امریکی ملک کوسٹا ریکا میں بھی کی جاچکی ہے۔

    جرنل نیچر کلائمٹ چینج میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت زمین میں گھر بنا کر رہنے والے جانداروں کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق شدید گرم موسم کے باعث اگلی صدی کے آغاز تک ایسے جانداروں کی ایک تہائی آبادی معدوم ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    دوسری جانب کوسٹا ریکا میں ہی گرمی سے کچھوؤں کے مرنے کے واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔

    سنہ 2008 اور 2009 کے درمیان کوسٹا ریکا میں کچھوں کے انڈوں سے نکلنے کے موسم میں درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا جو نہایت غیر معمولی تھا۔

    اس گرمی نے کچھوؤں کی نئی آنے والی پوری نسل کا خاتمہ کر ڈالا اور ایک بھی ننھا کچھوا زندہ نہ بچ سکا۔


    بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے غیر فطری طور پر کچھوؤں کو ان کی پناہ گاہوں سے منتقل کر کے نسبتاً سرد جگہوں پر منتقل کیا جائے۔

    تاہم ماہرین تذبذب کا شکار ہیں کہ آیا کچھوے اس صورتحال سے مطابقت کرسکیں گے یا نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کچھوؤں کی زندگی میں انسانی مداخلت کی بدترین مثال ہوگی تاہم اگر موسم کے گرم ہونے کی یہی شرح جاری رہی تو ان کی زندگیاں بچانے کے لیے یہ اقدام ناگزیر ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "فاریہ انعام سے میری پہلی ملاقات الحمراء آرٹس کونسل میں ہوئی تھی جو کچھ وجوہات کی بنا پر زیادہ خوشگوار نہیں تھی "۔اَرحم تنویر نے ایک شریر سی نظر منتہیٰ پر ڈالی ۔جو اُس کی طرف متوجہ نہیں تھی ۔
    "پھر اِس کے ہم جب جب ملے ، جہاں جہاں ملے ‘ وہ ملاقاتیں یقیناٌ میری زندگی کی کتاب میں سنہری یادوں کی طرح ہمیشہ محفوظ رہیں گی ” پھر وہ ایک لمحے کو رکا ۔
    "ویسے فاریہ”۔۔”یہ اتنے خوبصورت الفاظ میں صرف اپنی تقریر کو پُر اثر بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہوں ۔۔ آپ اسے سچ مت سمجھ لینا "۔۔ سب کا مشترکہ قہقہہ گونجا ۔
    "میری ساری دعائیں اس مظلوم بندے کے ساتھ ہیں جس کے پلے آپ بندھنے جا رہی ہیں ۔۔ اللہ تعالیٰ اُسے ہمت ، حوصلہ اور صبرِ جمیل عطا فرمائے "۔۔۔”آمین "۔۔ کسی مولانا کی طرح دعائیہ کلمات ادا کر کے ارحم اپنی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا ۔
    یہ فاریہ کے لیے ایس ای ٹی کی جانب سے دی جانے والی فیئر ویل تھی ۔ ارحم کے بعد ارمان اور دیگر ونگ کمانڈر ز نے فاریہ کو فُل ٹریبیوٹ دیا تھا ۔ اُن سب کی خواہش تھی کہ وہ شادی کے بعد بھی فاؤنڈیشن کا ایک سر گرم حصہ رہے۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    ریفریشمنٹ شروع ہوتے ہی حسبِ عادت منتہیٰ ہال سے باہر سیڑھیوں پر جا بیٹھی ‘ ارمان کوک کے دو کین لے کر اُس سےکچھ فاصلے پر آکر بیٹھا اور ایک کین اس کی طرف بڑھایا ۔
    منتہیٰ کو اِس وقت واقعی طلب تھی ۔بنا پس و پیش کین لے کر کھولا اور دو تین لمبے لمبے گھونٹ لیے۔
    ارمان نے ایک گہری ترچھی نظر اس پر ڈالی ۔۔ "تو اب آپ بھی ہارورڈ سدھارنے کو ہیں”۔۔؟؟
    منتہیٰ نے ایک سِپ لے کر اثبات میں سر ہلایا ۔
    "کب تک روانگی ہے "۔۔؟؟؟۔۔ارمان کا دل بجھا
    "یہی کوئی ایک ڈیڑھ ماہ "۔۔
    اسی وقت منتہیٰ کا سیل تھر تھرایا ۔۔ وہ سکرین دیکھ کر ایکسکیوز کرتی ہوئی اٹھی ۔
    اور ارمان نے بہت پھرتی کے ساتھ اپنے کین سے اُس کا کین سے بدل لیا ۔ منتہیٰ کے کین سے سپ لیتے ہوئے اسے لگاتھا۔۔آج سے پہلے اتنا لذیذ کولڈرنک اس نے نہیں پیا ۔۔ وہ گھونٹ گھونٹ کر کےُ سرور اندر انڈیلتا گیا ۔
    پانچ منٹ بعد آکر منتہیٰ نے اپنا کین اٹھایا ۔۔ بہت تیزی کے ساتھ تین چار لمبے سپ لے کر خالی کین ایک جانب اچھال دیا ۔
    اور ارمان کے اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹا ۔ ’’ منتہیٰ دستگیر کا ایک سو بیس آئی کیو ‘محبت کے ذائقے سے ہنوز نا آشنا تھا "۔

    *************

    وہ کہیں بہت بلند چوٹی پر کھڑی تھی کہ یکدم اُسکا پاؤں رِپٹا اور پھر ہزاروں فٹ کی بلندی سے گہری کھائی میں گرتی چلی گئی ۔ منتہیٰ نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اورسا ئڈ لیمپ آن کیا ۔ گزشتہ ایک سال میں یہ خواب وہ کئی دفعہ دیکھ چکی تھی۔
    فجر کی اذان پر وہ چونک کر اٹھی ۔
    نماز پڑھ کر منتہی ٰ کمرے سے باہر آئی تو افق پر پُو پھٹنے کو تھی ۔ امی کچن میں چائے بنا رہی تھیں اور دادی قرآن پاک کی تلاوت شروع کر چکی تھیں ۔وہ دادی کی جا نماز کے پاس دوزانوں بیٹھ کر سنتی گئی ۔
    ٌ ’’کائنات میں ہر جگہ خدا کا قانونِ ربوبیت کارفرما ہے اور تمام ستا ئش صرف اُسی کی ذاتِ پاک کے لیے ہے ، اگر تم ذرا بھی غور و فکر سے کام لو ‘تو یہ حقیقت’ سمجھنے تمہیں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی کہ زندگی صرف سانس کی آمد و شد کا نام نہیں ہے ، جب انسان کی زندگی کا مقصد محض جسم کی پرورش اور حفاظت رہ جائے تو اُس کے سامنے کسی بلند مقصد یا محکم اصول کی پابندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔اگر سانس کے بند ہو جانے کے ساتھ ز ندگی کاخاتمہ ہو جاتا ۔۔ تو پھر انسان کے سامنے کوئی بلندمقصد ہی نہ رہے‘‘۔

    *************

    عاصمہ نے منتہیٰ کو آواز دی وہ چونک کر کچن کی طرف بڑھی ۔چائے لےکر پلٹنے لگی تھی جب عاصمہ نے اُسے ہاتھ پکڑ کراپنے سامنے چیئر پر بٹھایا ۔
    مینا ‘ تم میری سب سے لائق اولاد ہو اِس لیے میں نے تمہیں کبھی کسی کام سے نہیں روکا لیکن اِس دفعہ پتا نہیں میرا دل کیوں ہول رہا ہے !۔ مینا میری جان مت جا ‘ میرے دل کو قرار نہیں ۔ عاصمہ کی آوازآنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھی ۔
    منتہیٰ نے چونک کر ماں کو دیکھا اور پھر دیکھتی ہی گئی ۔’’نجانے خدا نے ماؤں کو کیسی حسیات اور کتنی آنکھیں دی ہیں ۔ جو کچھ کہے بغیر بھی اولاد کے اندرکا حال ہی نہیں مستقبل میں آنے والے اِن خطرات کو بھی بھانپ لیتی ہیں جن سے اولاد گزرنے والی ہو ۔”
    "ارے امی”۔۔ "اِرسہ بھی تو اتنا دور لندن چلی گئی ہے ۔۔ میں کون سا مستقل جا رہی ہوں ۔۔ بس سال دو سال ہی کی تو بات ہے "۔اُس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر دلاسہ دیا پھر ان کی پیشانی چومی ۔۔ مگر عاصمہ اسے کیا بتاتیں کہ ان کے دل کو قرارکیوں نہیں تھا ۔۔؟؟؟۔
    اور ایک عاصمہ ہی کیا ۔۔ ایئر پورٹ پر ہر کسی نے اُسے بھاری دل کے ساتھ رخصت کیا تھا ۔
    رامین اور فاروق صا حب کی آنکھیں پر نم تھیں تو ڈاکٹر یوسف کی پیشانی پر گہرا تفکر تھا ۔ اِس کشیدہ سی صورتحال کوتوڑنے کے لیے ارحم تنویر آگے بڑھا ۔
    "یہ ٹیڈی بیئر آپ کو یاد دلاتا رہے گا کہ پاکستان میں آپ کا ایک بھائی تھا جو آپ کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا "۔۔اس نے منتہیٰ کی طرف ایک ریڈ چھوٹا ٹیڈی بیئر بڑھایا ۔ منتہیٰ نے بیئر تھام کر پرس سے سے ایک سلور پین نکال کر ارحم کوتھمایا ۔
    "اور یہ پین آپ کو یاد دلاتا رہے گا کہ میں نے انشا ء اللہ واپس یہیں آنا ہے "۔ ارحم نے حسبِ عادت قہقہہ لگا کر شکریہ ادا کیا ۔
    پھر شہریار نے منتہیٰ کی طرف ایک بُوکے بڑھا کر آہستہ سے کہا ۔”آئی ول مس یو "۔۔
    "می ٹو”۔۔ ارمان کے دوستوں میں ایک شہریار ہی تھا جس سے منتہیٰ کی بنتی تھی ۔۔ کیو نکہ وہ اُسی کی طرح صلح جوتھا۔۔
    "میم”۔۔کیا یہ ڈائیلاگ ارمان تک پہنچا نا ہے ۔۔؟؟ ارحم کب باز آنے والا تھا ۔۔
    ارمان کی غیر موجودگی سب نے ہی محسوس کی تھی ۔۔جو اِن دنوں ڈاکٹر عبدالحق کے ساتھ جاپان کے ٹرپ پر تھا ۔۔
    "جی نہیں” ۔۔ انتہائی خشکی سے جواب دیکر منتہیٰ پلٹی
    "آپی تو اُن کے لیے بھی کچھ چھوڑتی جا ئیں نہ "۔۔ اب کہ رامین نے اُسے چھیڑا ۔
    رامین کو ٹھینگا دکھاتی ہوئی منتہیٰ تیزی سے انٹرنیشنل ڈیپارچر لاؤنج کی طرف بڑ ھتی گئی ۔ اُس کا دل بہت بھاری اور آنکھیںپر نم تھیں ۔ "وہ ہارورڈ کی ڈریم لینڈ میں قدم رکھنے جا رہی تھی "۔

    *************

    اور سنا! کیا پروگریس ہے پراجیکٹ کی ۔۔ صہیب میر تفصیلات جاننے کے لیے اوور ایکسا ئیٹڈ تھا ۔
    "زبردست یار "۔۔ "ریسپانس ہماری توقع سے بڑھ کر رہا "۔۔ ارمان کی آنکھوں میں جیسے قندیلیں سی روشن تھیں ، وہ ایک روزپہلے ہی جاپان سے واپس آیا تھا ۔
    کچھ عرصے پہلے جاپان کی ایک کمپنی نے زلزلے کے لیے سٹیلائٹ سگنلز کے پراجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور سپارکو کی معاونت سے ارمان اِس پراجیکٹ کا ایم او یو سائن کر کے آیا تھا ۔۔” دنیا بھر میں رات میں آنے والے زلزلے بہتزیادہ جانی نقصان کا
    سبب بنتے ہیں کیونکہ گہری نیند میں ہو نے کے باعث لوگوں کی ایک بڑی تعداد سوتی رہ جاتی ہے "۔
    ٹی وی انٹینا کی طرز پر بنایا گیا یہ سگنل سسٹم نیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسزکے ریموٹ سینسنگ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے ایس ٹی ای کے جی آئی ایس ونگ نے تیار کیا تھا جسے ابتدائی طور پر چترال ، دیر بالاکوٹ اور اُن سے ملحقہ ان علاقوں میں لگایا جانا
    تھا جہاں رات کے وقت زلزلے کے جھٹکے معمول تھے ۔
    "یار ۔بلاآخر ہماری دن رات کی محنتیں رنگ لے ہی آئیں ۔۔آج ہمارے پاس سپارکو اور پاک آرمی کے علاوہ انٹرنیشنل سپورٹ بھی ہے” ۔۔۔ شہریار اپنے پراجیکٹ کی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہا تھا ۔
    "بالکل "۔۔ "پاک آرمی گزشتہ کئی سال سے ہماری ہر طرح کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھی ۔۔ ہماری نیت صاف تھی ۔۔ سونہ صرف ہمیں کلیئرنس ملی بلکہ انٹر نیشنل سپورٹ بھی "۔ صہیب نے سیو دی ارتھ کو بھرپور ٹری بیوٹ دیا ۔
    "یہ تیرا کیوں منہ لٹکا ہوا ہے "۔۔؟؟۔۔ ارمان نے اَرحم کو چپ چپ دیکھ کر پوچھا
    "یار۔۔۔ آئی ایم مسنگ مائی آئرن لیڈی”۔۔۔ اَرحم نے منہ بسورا
    "اگر تیرا کڑوی کسیلی باتیں اور ڈانٹ کھانے کو دل کر رہا ہے ۔۔ تو انہیں فون کر کے بلا لے پیارے "۔۔ عاصم نے منہ بنایا
    "لو وہ تو کب کی ہارورڈ چلی بھی گئیں ۔ تمہیں نہیں پتا ۔۔لاسٹ ٹائم آئی تھیں ملنے "۔۔ شہریار نے عاصم کو مطلع کیا ۔
    "اچھا منتہیٰ کب آئی تھیں "۔۔؟؟؟۔۔ ارمان چونکا
    "جانے سے کچھ دن پہلے آئی تھیں ۔۔ اور خلافِ مزاج ۔۔لوہے کے چنوں کی جگہ پاپ کارن چبا رہی تھیں "۔۔ اَرحم نے دانت نکالے۔
    ارمان نے ہنستے ہوئے چیئر کی پشت سے ٹیک لگاکر آنکھیں موندیں۔وہ دشمنِ جاں اتنی دور چلی گئی ۔۔ اور وہ مل بھی نہیں سکا۔۔
    "ویسے میں اور ارحم ائیر پورٹ سی آف کرنے گئے تھے انہیں "۔۔ شہریار نے اُسے آگاہ کیا
    "مجھے ایک پین گفٹ ملا اور شہری کو ۔۔ مِس یُو ٹو ۔۔۔ لیکن تیرے لیے وہ صرف یہ ۔۔چھوڑ کے گئی ہیں "۔۔ ارحم نے شرارت سے ارمان کے سامنے ٹھینگا نچایا۔
    "مجھے انہوں نے بہت جلد اپنا سب کچھ سونپنا ہے تو زیادہ فکر مت کر "۔ ارمان نے اسے ایک زوردار دھپ لگائی ۔پھر کچھ سوچتا ہوا اپنا سیل اٹھاتا باہر آیا۔ اور منتہی ٰ کا نمبر ڈائل کیا جو انٹرنیشنل رومنگ پر تھا۔
    بیل جاتی رہی۔۔وہ منتہیٰ کی عادتوں سے واقف تھا ۔۔ مگر عین ممکن تھا کہ نئی جگہ پر وہ واقعی اس وقت مصروف ہو ۔۔ سو کال کاٹ کراس نے رامین کا نمبر ملایا تاکہ منتہیٰ کی ٹائمنگ معلوم کر سکے۔
    اگلے روز رات کو منتہیٰ بستر میں گھسی گہری سوچوں میں غرق تھی۔
    "پابندیاں انسان کو کبھی کبھی بوجھ کیوں لگنے لگتی ہیں "۔؟؟؟ اس نے انتہائی کوفت سے چھت کو گھورا۔۔ ڈورم لا ئٹس رات ٹھیک ٹائم پر آف ہو جایا کرتی تھیں ۔ جبکہ وہ لیٹ نائٹ سٹڈی کی عادت تھی ۔
    ہارورڈ میں سٹوڈنٹس کے ڈورمز یارڈ کہلاتے ہیں ۔۔جو ایک وسیع ایریا پر پہلی ہوئی مختلف بلڈنگز ہیں جن میں سے کچھ سترویں صدی کی ہیں ۔۔آئی وی یارڈ میں کینڈی بلڈنگ میں دو سو پچیس سٹوڈنٹس کی رہائش کی گنجائش ہے جبکہ منتہیٰ کو رہائش "ہولس یارڈ”
    میں ملی تھی جو ہارورڈ کا سینٹر کہلاتا ہے ۔ سائنس سینٹر ہی نہیں ‘ رابنسن اور اَمرسن لیکچر ہالز یہاں سے چند منٹوں کے فاصلے پر تھے ۔یارڈ میں چار چار سٹوڈنٹس کا مشترکہ بیڈ روم اور باتھ روم تھا ۔۔ منتہیٰ کے ساتھ لوزیانا کی میری‘ ہوائی کی باربرا ‘ او ر
    الاسکا کی کیلی رہائش پزیر تھیں ۔
    منتہیٰ کی ٹو دی پوائنٹ بولنے اور اپنے کام سے کام رکھنے کی عادت یہاں بھی بر قرار تھی ۔ دیگر فارن سٹوڈنٹس کی طرح اس نے نہ تو پورا ہارورڈ گھومنے کی زحمت کی تھی نہ ہی ۔۔یا "سینڈرز تھیٹر "یا "جان ہارورڈ سٹیٹیو "میں اپنی سیلفیز بنا کر فیس بک یا انسٹا گرام پر اَپ لوڈ کی تھیں ۔ اس کی واحد تفریح ہارورڈ سکوائر سے کچھ فاصلے پر واقع دنیا کی وہ ٹاپ ٹین لائبریریتھیں جہاں وہ کچھ کھائے پیے بغیر بھی پورا دن گزار سکتی تھی ۔ اِن میں کیمبرج پبلک لائبریری اپنے وسیع رقبے اور قدیم تاریخ کے باعث اُس کے لیے سب سے زیادہُ پر کشش تھی ۔
    کمبل منہ تک لپیٹے منتہیٰ جانے کن سوچوں میں گم تھی جب موبائل تھر تھرایا ۔۔۔ "ارمان کالنگ "۔۔
    اُس نے کال ریسیو کر کے بہت آہستہ سے ’ہیلو‘کی مبادہ اس کی کوئی ڈورم میٹ جاگ نا جائے ۔”تینوں میں سے کوئی بھی اسے ایک آنکھ نہیں بھائی تھیں”۔
    "ہیلو منتہیٰ کیسی ہیں آپ "۔۔؟؟
    "ٹھیک ہوں "۔۔ ہمیشہ کی طرح مختصر جواب آیا
    "سوری میں لاسٹ ٹائم آپ سے مل نہیں سکا ۔۔ شہریار نے بتایا آپ ملنے آئی تھیں” ۔۔۔
    "میں صرف آپ سے ملنے نہیں گئی تھی "۔۔۔
    "جی۔۔ آئی نو ڈیٹ "۔۔۔ ارمان ہنسا
    "یو نوواٹ کہ ایس ٹی ای کو بہت بڑی ریسیپشن ملی ہے ۔۔جاپان میں سائن کیے گئے ایم او یو کی تفصیلات بتاتے ہوئے ارمان کی آنکھوں میں دیئے سے روشن تھے”۔ مگردوسری طرف خاموشی رہی ۔۔
    "آپ کو خوشی نہیں ہوئی”۔۔؟؟
    ہوئی!!۔
    "لگ تو نہیں رہا "۔۔ ارمان کو مایوسی ہوئی
    "خوش کیسے ہوا جاتا ہے "۔۔؟؟ سوال آیا
    "خوش "۔۔ ارمان ایک لمحے کو روکا ۔۔”خوش ہوا جاتا ہے اچھی اچھی باتیں کر کے ۔۔ مستقبل کی سہانے سپنے دیکھ کے "۔۔۔
    اُس کی آواز میں کچھ تھا ۔۔ منتہیٰ جل ہی تو گئی ۔۔
    "بائی دی وے” ۔۔”یہ خیالی پلاؤ پکانا کہلاتا ہے "۔۔۔
    "تو کیا حرج ہے کبھی کبھی خیالی پلاؤ پکانے میں "۔۔۔ ارمان ہنسا
    "تو آپ پکائیے میں نے آپ کو کب روکا ہے "۔۔ جواب حاضر تھا
    "منتہیٰ”۔۔” کیا ہم کچھ دیر اچھے دوستوں کی طرح بات نہیں کر سکتے "۔۔ ؟؟ ۔۔ اب کہ ارمان کے لہجے میں سختی تھی
    "جی کہیے "۔۔۔ خلافِ توقع مثبت جواب آیا
    "ہم”۔۔ دوسری طرف ارمان نے گہری سانس لیکرسے چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔۔ "کیسی لگی آپ کو یونیورسٹی ۔۔ڈورم میٹس کیسی ہیں”۔۔؟
    "ہارورڈ اِز اے ونڈر لینڈ” ۔۔” ڈورم میٹس بس گزارا ہیں "۔۔۔ منتہیٰ نے منہ بنا کر سوتی ہوئی تینوں بلاؤں کو دیکھا
    ارمان ہنسا ۔۔۔ "وہ جانتا تھا ۔۔ منتہیٰ کو نئے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے میں وقت لگتا ہے "۔۔۔
    "اچھا سب کو کتنا مِس کرتی ہیں آپ”۔۔۔؟؟
    "جتنا کرنا چاہئے "۔۔۔ ٹو دی پوائنٹ جواب حاضر تھا ۔
    "ہمم۔۔۔ شکریہ” ۔۔
    "آئی مِس یُو ٹو "۔۔ شرارت سے کہہ کر ارمان کال کاٹ چکا تھا ۔۔
    منتہیٰ نے غصے سے سکرین کو گھورا ۔۔”خوش فہمی ۔۔ ہو نہہ

    جاری ہے
    *************

  • مجھے کیوں کاٹا: اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی کے خلاف خواتین کا احتجاج

    مجھے کیوں کاٹا: اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی کے خلاف خواتین کا احتجاج

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایمبسی روڈ پر موجود درختوں کو کاٹے جانے کے خلاف اسلام آباد کے شہری خصوصاً خواتین ریڈ زون میں جمع ہوگئیں اور درختوں کی کٹائی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ درختوں کی کٹائی کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ’مجھے کیوں کاٹا‘ کا ہیش ٹیگ مقبول ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع ایمبسی روڈ پر موجود درختوں کو بے دردی سے کاٹ دیا گیا جس کے خلاف خواتین بڑی تعداد میں ریڈ زون میں جمع ہوگئیں۔

    مظاہرین میں سماجی کارکنان، مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد اور عام شہری بھی شامل تھے۔

    احتجاج سے قبل تمام مظاہرین اسلام آباد پریس کلب میں جمع ہوئے اور دارالحکومت میں ہونے والی درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف بھرپور احتجاج کا عزم ظاہر کیا۔

    پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اور ماہر ماحولیات اور سابق وزیر ماحولیات ملک امین اسلم نے بھی شرکت کی۔

    احتجاج کے دوران خواتین نے ٹوٹے درختوں کی جگہ باقی رہ جانی والی جھاڑیوں کو تھام کر افسوس کا ظہار کیا۔

    باقی رہ جانے والے درختوں پر سرخ ربن کے ساتھ مختلف کارڈز بھی منسلک کیے گئے جن پر لکھا تھا، ’انہوں نے اسلام آباد کو گنجا کر ڈالا‘، ’میں تو انسان دوست ہوں مجھے کیوں کاٹا‘۔

    اس احتجاجی مہم کا نام ’ایمبسی روڈ کے درختوں کی فریاد ۔ مجھے کیوں کاٹا‘ رکھا گیا جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بے حد مقبول ہوگیا اور نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورے پاکستان سے لوگوں نے درختوں کی کٹائی کے خلاف برہمی کا اظہار کیا۔

    دارالحکومت کی خواتین کا کہنا ہے کہ ملک بھر کی طرح اسلام آباد میں بھی درختوں کو بے دردی سے کاٹے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور وہ اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گی، اور انہیں امید ہے کہ مرد حضرات بھی ان کا ساتھ دیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان میں گلیشیئرز کی اونچائی میں اضافہ، لیکن پانی کی کمی کا خدشہ

    پاکستان میں گلیشیئرز کی اونچائی میں اضافہ، لیکن پانی کی کمی کا خدشہ

    اسلام آباد: شمالی علاقوں میں رہنے والے افراد کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ ان کے علاقوں میں موجود گلیشیئرز کی اونچائی اور ان کی برف میں اضافہ ہورہا ہے، تاہم یہ عمل ملک میں پانی کی کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

    ایریزونا یونیورسٹی میں پاکستانی گلیشیئروں پر کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ گو کہ دنیا بھر میں عالمی درجہ حرارت بڑھنے یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر کے گلیشیئروں کی برف پگھل رہی ہے، تاہم پاکستان میں اس کے برعکس عمل ہورہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستانی گلیشئیروں پر برف پگھلنے کی رفتار میں کمی واقع ہورہی ہے جس سے دریاؤں میں کم پانی آنے اور ملک میں پانی کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ مستقبل قریب میں پاکستانی دریاؤں میں پانی کی 7 فیصد کمی دیکھی جاسکتی ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گلیشیئروں کے بڑھنے کی وجہ درجۂ حرارت میں کمی کے علاوہ اس علاقے میں بادلوں اور نمی کا ہونا اور تیز ہواؤں کا نہ چلنا ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں 5 ہزار سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں۔ یہ گلیشیئر بر اعظم انٹار کٹیکا کے بعد دنیا بھر میں سب سے بڑے گلیشیئر مانے جاتے ہیں اور پاکستانی دریاؤں کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    ماہرین نے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات کے برعکس ہونے والے اس عمل کو قراقرم اینا ملی (بے قاعدگی یا غیر معمولی) قرار دیا ہے۔

    یہ تحقیق ایریزونا یونیورسٹی میں ایک پاکستانی محقق فرخ بشیر، اور 3 امریکی محققین شوبن زنگ، ہوشن گپتا اور پیٹر ہیزنبرگ نے کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔