Tag: environment

  • پاکستان میں عام پائے جانے والے اس درخت میں بے شمار بیماریوں کا علاج

    پاکستان میں عام پائے جانے والے اس درخت میں بے شمار بیماریوں کا علاج

    کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں پایا جانے والا ایک عام درخت اپنے اندر بے شمار بیماریوں کا علاج اور انوکھی خصوصیات رکھتا ہے؟

    یہ درخت مورنگا کا درخت ہے جسے سوہانجنا بھی کہا جاتا ہے۔ سوہانجنا ایشیا اور افریقہ دونوں خطوں میں پایا جاتا ہے۔ مشرقی افریقہ میں اس درخت کو طویل عرصے سے مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    آئیں دیکھتے ہیں اس کے مزید کیا کیا حیران کن فوائد ہیں۔

    سوہانجنا کے بیج پینے کے پانی کو صاف کرتے ہیں۔

    اس کے پتے اگر زمین میں دبا دیے جائیں تو یہ کھاد کی شکل اختیار کرجاتے ہیں جو اس زمین پر ہریالی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

    اس درخت کا ایک ایک حصہ بطور غذا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    سوہانجنا کی پھلیوں کا استعمال جوڑوں میں درد کے لیے نہایت مفید ہیں۔

    ماہرین اب اس درخت سے خطرناک بیماریوں کا علاج دریافت کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر اس کے پتوں کو پیس کر خشک کرلیا جائے تو یہ جز ذیابیطس، کولیسٹرول، موٹاپے اور آنتوں کی بیماریوں کے علاج میں بہترین ثابت ہوسکتا ہے۔

    اس کے پتوں اور پھلیوں میں خصوصی کیمیائی اجزا موجود ہوتے ہیں جو اس درخت کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور کیڑے مکوڑوں سے بچاتے ہیں۔

    اور سب سے حیران کن بات یہ کہ یہ درخت قحط اور خشک سالی کے موسم میں بھی اگ سکتا ہے اور سخت ترین موسمی حالات میں بھی بہت تیزی سے نشونما پاتا ہے۔

    صوبہ پنجاب میں سوہانجنا کے درخت بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ ماہرین نباتات کے مطابق یہ درخت اندرون سندھ کے علاقوں کے لیے بھی موزوں ہے۔

    مزید پڑھیں: کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چین میں تازہ ہوا فروخت کے لیے پیش

    چین میں تازہ ہوا فروخت کے لیے پیش

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ تازہ ہوا بھی فروخت کی جاسکتی ہے؟ لیکن یہ کام بھی اب ہونے لگا ہے اور اس کا آغاز فضائی آلودگی سے متاثر ترین ملک چین سے ہوا جہاں واقعی تازہ اور صاف ستھری ہوا کی شدید قلت ہے۔

    چین کے شہر ژنگ ژنگ میں 2 خواتین نے ایک انوکھے آن لائن کاروبار کا آغاز کیا ہے جس میں وہ تازہ ہوا کو پیکٹ میں بند کر کے فروخت کر رہی ہیں۔

    یہ تازہ ہوا مختلف اقسام میں دستیاب ہے۔ یہاں آپ کو پہاڑوں کی تازہ ہوا بھی ملے گی جبکہ کسی سرسبز وادی کی خوشبودار ہوا بھی دستیاب ہوگی۔

    تازہ ہوا کے ہر پیکٹ کی قیمت 15 یان (لگ بھگ237 پاکستانی روپے) ہے۔ رپورٹس کے مطابق اب تک دونوں بہنیں 100 سے زائد پیکٹ فروخت کر چکی ہیں۔

    ایک چینی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ان دونوں بہنوں کا کہنا تھا کہ ان کے اس کاروبار کا مقصد پیسہ کمانا ہرگز نہیں، بلکہ عام لوگوں اور حکام کی توجہ فضائی آلودگی کی طرف دلانا ہے۔

    یاد رہے کہ چین کی فضائی آلودگی کا سب سے بڑا سبب توانائی کے لیے کوئلے کا استعمال ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں کوئلے کا سب سے بڑا استعمال کنندہ چین ہے جو اپنی توانائی کی تمام تر ضروریات کوئلے سے پوری کر رہا ہے جبکہ دنیا بھر میں موجود کوئلے کا 49 فیصد حصہ چین کے زیر استعمال ہے۔

    کوئلے کا یہ استعمال چین کو آلودہ ترین ممالک میں سرفہرست بنا چکا ہے اور یہاں کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک ہوچکی ہے کہ یہ ہر روز 4 ہزار افراد کی موت کا سبب بن رہی ہے جو آلودگی کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    سمندروں کی آلودگی کا مسئلہ نیا نہیں اور اب یہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ماہرین کے مطابق اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندروں میں پانی سے زیادہ کچرا اور پلاسٹک بھرا ہوا ہوگا۔

    تاہم حال ہی میں ایک سیاح نے ایک ایسی تصویر کھینچی ہے جو بظاہر تو بہت منفرد معلوم ہو رہی ہے لیکن اس کا پس منظر نہایت خوفناک ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر یہ تصویر ٹوئٹ کرتے ہوئے جسٹن ہوف مین نامی سیاح اور ماحولیاتی کارکن نے لکھا کہ کاش یہ منظر مجھے دیکھنے کو نہ ملتا، مگر اب میں اسے پوری دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں۔

    It’s a photo that I wish didn’t exist but now that it does I want everyone to see it. What started as an opportunity to photograph a cute little sea horse turned into one of frustration and sadness as the incoming tide brought with it countless pieces of trash and sewage. This sea horse drifts long with the trash day in and day out as it rides the currents that flow along the Indonesian archipelago. This photo serves as an allegory for the current and future state of our oceans. What sort of future are we creating? How can your actions shape our planet?
.
thanks to @eyosexpeditions for getting me there and to @nhm_wpy and @sea_legacy for getting this photo in front of as many eyes as possible. Go to @sea_legacy to see how you can make a difference. . #plastic #seahorse #wpy53 #wildlifephotography #conservation @nhm_wpy @noaadebris #switchthestick

    A post shared by Justin Hofman (@justinhofman) on

    انہوں نے لکھا کہ سمندر کی لہروں کے ساتھ بے تحاشہ کچرا بھی سمندر کے اندر آجاتا ہے جو آبی حیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    ان کے مطابق انڈونیشیائی جزیروں کے پانیوں میں کھینچی جانے والی اس تصویر میں موجود یہ ننھا سا سمندری گھوڑا بھی اسی کچرے زدہ پانی سے گزر کر آیا ہوگا اور واپسی پر یہ کانوں کی صفائی کرنے والی ایئر بڈ میں پھنس گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    اب یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ اس سے زور آزمائی کر کے اس سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے یا اسے کوئی دلچسپ چیز سمجھ کر اس پر سواری کر رہا ہے۔

    جسٹن ہوف کا کہنا ہے کہ یہ تصویر ہمارے خوفناک مستقبل کی ایک مثال ہے۔ ’یہ کیسی ترقی ہے جو ہم کر رہے ہیں؟ اپنے ماحول، فطرت اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچا کر کی جانے والی ترقی کسی کام کی نہیں‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    بہت سارے دلوں کو توڑتا
    بہت سے اَشکوں کو بہاتا
    لاکھوں گھروں کو تباہ کرتا ۔۔
    ہزاورں جانوں سے کھیلنے کے بعد۔۔
    طوفان تھم چکا ہے ۔۔
    خدا نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا۔۔
    کہ اُس مقام پر جا ؤ۔۔
    اور۔۔
    مصیبت میں گھرے لوگوں کو
    اپنے مضبوط پروں کی پناہ میں لے لو
    تاکہ آفت سے لڑتے لڑتے
    وہ تنہا نہ رہ جائیں ۔۔
    ****************


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    نیا سمسٹر ، نئے سبجیکٹ ،نئے چیلنجز! منتہیٰ اِن سب سے نمٹنے کے لئے بھرپور توانائی کے ساتھ تیار تھی ۔۔ ۔جس کی ابتداریسرچ سینٹر کے ڈسکشن پارٹ ٹو سے ہوئی تھی۔
    ایک دفعہ پھر وہ سب کیل کانٹوں سے لیس ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے ۔سپار کو سینئرز نے بات کا آغاز کرتے ہوئے بال ارمان کے کورٹ میں ڈالی۔ مسٹر ارمان آپ لوگوں کے سمسٹر امتحانات کے باعث یہ عرصہ کچھ طویل ہو گیا ۔ "میرا خیال ہےکہ اب تک اپنے پراجیکٹ کے متعلق آپ کوئی حتمی فیصلہ کر چکے ہوں گے۔۔؟؟؟۔”
    ارمان نے کھنکار کر گلا صاف کیا ، جی سر ہم نے دو ماہ میں ہر زاویئے سے پراجیکٹ کا مکمل جائزہ لیا ہے اور اُس کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ارمان نے ایک لمحے کو رک کر سب کے چہروں کو باری باری دیکھا ۔
    "اگر ہم واقعی قدرتی آفات سے نہتی لڑتی عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے طور پر ایک کیمپئین کا آغاز کرنا ہوگا ”
    "جہاں حکومتیں نا اہل ہوں وہاں پھر عوام ہی میں سے کچھ لوگ اٹھ کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ ہم کوئی نئی این جی او بنانے نہیں جا رہے بلکہ ہم ایک ایسی تحریک کا آغاز کرنے جا رہے ہیں جو آج بہت سوں کو ایک دیوانے کی بَڑ معلوم ہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری لگن سچی ہے۔ توہم بہت کچھ نہ سہی اپنے عوام کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کر لیں گے ‘ ارمان کا لہجہ دھیما مگرپُر عزم تھا ۔
    ڈسکشن روم کے پن ڈراپ سائیلنس کو ڈاکٹر عبدالحق اور ڈاکٹر حیدر خان کی مدہم سی تالیوں کی آواز نے توڑا ۔
    "ویل ڈن بوائے! مجھے آپ سے یہی توقع تھی، آج کا ہر نوجوان اگر انفرادی طور پر اِسی جذبے سے سرشار ہو تو کوئی شک نہیں کہ ہم گورنمنٹ کے تعاون کے بغیر اپنے ہم وطنوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں "۔ ڈاکٹر عبدالحق کے لہجے میں ارمان کے لئے ستائش تھی
    شہریار نے گردن اُونچی کر کے منتہیٰ کو دیکھا ۔۔جو بدستور سپاٹ چہرے کے ساتھ ہاتھ کی انگلیوں میں ڈیٹا ٹر یولر گھما رہی تھی ۔
    "مس دستگیر ۔اب تو آ پ کو ہمارے پراجیکٹ پر کوئی خاص اعتراض نہیں رہا ہوگا ؟؟ "۔۔وہ پو چھے بنا نہ رہ سکا
    "یو نو واٹ مسٹر ، کہ اِس دنیا میں پرفیکٹ صرف خدا کی ذات ہے۔۔ باقی ہر شے میں خامیاں بھی ہیں اور نقائص بھی، پہلے بھی میرا مقصد آپ کے پراجیکٹ میں کیڑے نکالنا یا رخنے ڈالنا ہر گز نہیں تھا ۔میں صرف یہ چاہتی تھی کہ ایک مکمل ریموٹ سینسنگ سسٹم اِس طرز پر تیار کیا گیا ہے تو اِ س سے عوام کو ریلیف بھی ملے "۔۔ منتہیٰ کا لہجہ سخت تھا
    "سر میں نے ایک پریزینٹیشن تیار کی ہے میں آ پ لوگوں کو دکھانا چاہوں گی۔۔ اُس نے اجازت طلب کی
    سیکنڈ سمسٹر کے امتحانات کے بعد منتہیٰ کا سارا ٹائم اسی ریسرچ میں گزر ا تھا ۔ کپمین کے لئے کئی ہفتوں کی محنت سے تیار کی گئی اس کی پریزینٹیشن کا پہلا بنیادی نکتہ تھا ‘ سسٹم کے ذریعے سائنٹیفک بنیادوں پر قدرتی آفات کی زد پر رہنےوالے علاقوں کا مکمل سروے ۔
    نمبردو۔ اِن علاقوں کو لاحق خطرات کی بروقت تشخیص ۔
    نمبر تین ۔ایک ایسی باقاعدہ مہم جس کے ذریعے اِن علاقوں کی عوام کو خطرات سے آگاہ کر کے ڈیسازٹر سے اَزخود نمٹنے کی ٹریننگ دی جائے ۔
    نمبر چار۔ ریسکیو سینٹر ز کا قیام اور ان میں ٹریننگ کے لئے مقامی افراد کی بھرتی۔ جس سے انہیں بڑے پیمانے پر روزگار کی سہولیات دستیاب ہوں گی۔
    نمبر پانچ۔ اِن علاقوں خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں بڑ ھتی ہوئی انتہا پسندی پر قابو۔ کیونکہ ڈیسازسٹر سے نفسیاتی طور پر متاثربے روزگار نوجوانوں کو پاکستانی اور افغان طالبان گروپ بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔
    تقریباٌ آدھے گھنٹے کی پریزینٹیشن نے کانفرنس روم میں موجود ہر شخص کو متاثر کیا تھا ۔۔ حتیٰ کے تھوڑی دیر پہلے اُس سے چڑےبیٹھے شہریار نے بھی تالیاں بجا کر بھرپور داد دی تھی ۔
    ویل مس دستگیر۔میں چاہوں گا کہ آپ اِس پریزینٹیشن کی ایک کاپی مجھے اور سپارکو آفیسرز کو بھی دیں ،ارمان نے بات کرنے میں پہل کی ۔
    جی ضرور !مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔ منتہیٰ نے بنا پس و پیش ڈیٹا ٹریولر ارمان کی طرف بڑھایا ۔
    ۔۔۔Guys you are playing well
    ایک ہفتے بعد پھر میٹنگ رکھتے ہیں ۔۔ آفیسرز کو کسی کام سے جانا تھا ۔۔سو وہ تیزی سے الوداعی کلمات کہتے ہوئے جا چکے
    تھے۔۔ ان کے پیچھے منتہیٰ بھی ۔۔اور فاریہ اور ارحم کی توقع کے بر خلاف ۔
    ’’ وہ آج بھی فاتح لوٹی تھی ۔۔۔‘‘
    ****************

    مکمل تیاریوں کے ساتھ ٹھیک دو ہفتے بعد وہ سپارکو کے ریسرچ سینٹر کے پلیٹ فارم سے زمین کو بچاؤ تحریک (Save the earth) کا آ غاز کر رہے تھے جس کا ایجنڈہ اور مقاصد ارمان یوسف نے منتہیٰ کی پریزینٹیشن کی مدد سے خود تحریر کئے تھے ۔
    ابتدائی طور پر اس کمپین میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ریسرچ سینٹر کے آفیسرز اور عملہ ، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور پنجاب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس اور ٹیچرز شامل تھے ۔۔
    کمپین ہیڈ ارمان یوسف کی ابتدائی تقریر مختصر لیکن مدلل تھی ۔ بے شک وہ ایک اچھا مقرر تھا ۔
    ’’لگ بھگ چھ ماہ پہلے جب ہم نے ریموٹ سینسنگ پر اپنے پرا جیکٹ کا آغاز کیا تھا ۔۔تو ہمارا مقصد صرف اور صرف سمیسٹر کاپراجیکٹ پورا کرنا تھا ۔۔ ۔لیکن اس دوران اکتوبر میں آنے والے ایک خوفناک زلزلے نے ہماری توجہ ڈیسازسٹر مینجمنٹ کے طرف مبذول کروائی ۔”
    "کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ کی نیت صاف ہو تو پھر راستے کے پتھر کچھ معنی نہیں رکھتے "۔ اللہ پاک کی بھر پور مدد ہمارے ساتھ تھی سو چند ہی ماہ میں ہمارے پراجیکٹ کو لمس سے سپارکو تک بوسٹ ملا ۔۔میں سپارکو کے سینئر آفیسرزاور مس منتہیٰ دستگیر کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایک رفاحی تحریک کی جانب ہماری راہنمائی کی ۔
    "ہمیں بخوبی علم ہے کہ جو کام ہم شروع کرنے جا رہے ہیں وہ قطعاٌ آسان نہیں ہمارے پاس وسائل کم ہیں اور مسائل بے پناہ ۔۔
    "لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آج تک وہی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جن کی ابتداء چھوٹے پیمانے پر بہت کم وسائل کے ساتھ کی گئی ۔۔فائیوسٹار ہوٹلوں میں سیاستدانوں اور بزنس مینز کے آشیرواد سے جنم لینے والی این جی اوز صرف فائلوں یا بینک اکاؤنٹس تک محدود رہتی ہیں۔۔ جن کے اکاؤنٹس میں جمع کی جانے والی چیریٹی دراصل وہ کالا دھن ہے جو ہمارے سیا ستدان عوام کا خون چوس کر حا صل کرتے ہیں۔ ان این جی اوز کے سائے تلے جو گھناؤنے کھیل ۔۔کھیلے جارہے ہیں وہ اب عوام کی نظروںسے پوشیدہ نہیں رہے ۔”
    "کسی بھی ڈیساسٹر سے نمٹنے کے لئے اپنی شرائط پر امریکہ اور یورپ سے ملنے والی گرانٹ دراصل بھیک کے وہ ٹکڑے ہیں جو عیاش اپنی من مانیاں جاری رکھنے کے لیے انہیں مہیا کی جاتی ہیں ۔ اور ہمارے بے ضمیر ، ننگِ انسانیت حکمران اسے من و سلویٰ سمجھ کے قبول کرتے ہیں۔”
    ارمان کی تقریر کے بعد ریسرچ سینٹر کے سینئر آفیسر ڈاکٹر عبدالحق نے اپنی مختصر تقریر میں پچھلے دو تین ماہ میں ان سب، خاص کر ارمان اور منتہیٰ کی کارکردگی کو بھرپور سراہتے ہوئے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
    "ہمیں یقین ہے کہ آپ نوجوان نیک نیتی سے جو بیج بو رہے ہیں وہ چند برس یا ایک عشرے بعد تناور درخت بن چکے ہونگے، جن کی گھنی ، میٹھی چھاؤں سے آنے والی نسل مستفید ہوگی”۔
    میں سیو دی ارتھ کے بورڈ آف گورنرز کے لیے ڈاکٹر حیدر اور ڈاکٹر عقیل احمدکے نام تجویز کرہا ہوں۔ جبکہ باقی عہدیداروں کے انتخاب کے لیے آپ سٹوڈنٹس آزاد ہیں ۔ مگر کچھ پوائنٹس میں یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
    رفاحی کاموں کو تیزی سے زیادہ نیک نیتی ، ان تھک محنت اور استقامت کامیاب بناتی ہے۔بے شک آپ کو آگے بڑھنے کے لیئے ایک کثیر سرمائے کی ضرورت ہوگی، مگر خدمتِ خلق سے وابستہ افراد تب ہی آپ کی مالی مدد کریں گے جب آپ شب و روز محنت سے اپنا ایک معیار بنائیں گے۔ انشاء اللہ آہستہ آہستہ یوتھ آپ کے ساتھ شامل ہوتی جائے گی ۔بلاشبہ کسی بھی قوم کی اصل قوت اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے۔ ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں ۔”

    جاری ہے
    ****************

  • کلائمٹ چینج کو نہ ماننے والے احمق ہیں: پوپ فرانسس برہم

    کلائمٹ چینج کو نہ ماننے والے احمق ہیں: پوپ فرانسس برہم

    دنیا بھر میں عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے ان افراد کو بشمول امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ احمق قرار دے دیا جو موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کو نہیں مانتے، اسے جھٹلاتے یا وہم قرار دیتے ہیں۔

    امریکی ریاستوں ٹیکسس، فلوریڈا، شمالی امریکی ملک میکسیکو اور کیریبئین جزائر میں تاریخ کے بدترین تباہ کن طوفانوں کے بعد پوپ فرانسس نے کولمبیا کا دورہ کیا جہاں سے واپسی پر ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے ان افراد پر برہمی کا اظہار کیا جو کلائمٹ چینج کی نفی کرتے ہیں۔

    اپنی پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا، ’ایسے لوگ سائنسدانوں کے پاس جائیں اور ان سے ملیں۔ سائنس دان اس بارے میں بالکل پریقین ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: سیلاب کے بعد ہیوسٹن میں دل دہلا دینے والے مناظر

    انہوں نے آسمانی کتاب توریت کی ایک آیت کا بھی حوالہ دیا، ’انسان احمق ہے، ضدی ہے اور نابینا (مستقبل کو نہیں دیکھ سکتا) ہے‘۔

    پوپ فرانسس نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں اور حکمران سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کے باعث آئندہ آنے والی آفتوں اور نقصانات سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے خفگی سے کہا، ’یہ لوگ (سائنس دان) ہوا میں مفروضے نہیں چھوڑ رہے۔ ان کے پاس ثبوت ہیں اور تحقیقات ہیں‘۔

    پوپ نے کہا کہ دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے حکمران اب کیا فیصلے کرتے ہیں اور اب تاریخ ان کے فیصلوں سے بنے گی‘۔

    مزید پڑھیں: پوپ کی جرمنی کو تحفظ ماحولیات کا معاہدہ بچانے کی تاکید

    یاد رہے کہ پوپ فرانسس پہلے دن سے کلائمٹ چینج کے اثرات کی طرف دنیا کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنی مذہبی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ کثرت آبادی، مختلف امراض، جنگوں اور ہجرتوں کے بارے میں بھی حکمرانوں سے رابطے میں ہیں اور متاثرہ ممالک کے دورے کرتے رہتے ہیں۔

    انہوں نے اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب ٹرمپ نے کلائمٹ چینج کو وہم قرار دیتے ہوئے کلائمٹ چینج کے عالمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

    اس سے پہلے امریکی خاندان اول سے ملاقات کرتے ہوئے پوپ نے صدر ٹرمپ کو ایک دستاویزی خط بھی تحفے میں دیا جس میں انہوں نے کلائمٹ چینج، دہشت گردی اور امن عامہ سے متعلق مسائل پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔

    اس ملاقات میں پوپ نے ٹرمپ سے گفتگو کے دوران بھی کلائمٹ چینج کا ذکر کیا اور ٹرمپ کو پیرس معاہدے سے دستبردار نہ ہونے کی بھی تاکید کی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کینیا میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد

    کینیا میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد

    نیروبی: افریقی ملک کینیا میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔

    یہ فیصلہ اس عدالتی درخواست کے بعد سامنے آیا ہے جس میں پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ تاجروں نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی کہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے سے ان کے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔

    تاہم عدالت نے درخواست کو رد کرتے ہوئے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا اصولی فیصلہ جاری کردیا۔

    گو کہ اس سے قبل کئی ممالک پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کر چکے ہیں تاہم کینیا اس حوالے سے قابل تعریف ہے کہ یہاں خلاف ورزی کی صورت میں 32 ہزار یورو کا جرمانہ جبکہ 4 سال قید کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات کا کہنا ہے کہ کینیا کی سپر مارکیٹس میں سالانہ 10 کروڑ تھیلیاں استعمال ہوتی تھیں۔ اب اقوام متحدہ نے کینیا کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔

    یاد رہے کہ کینیا کی حکومت 6 ماہ قبل اس پابندی کا اعلان کر چکی تھی اور پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ افراد اور استعمال کندگان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ماحول دوست بیگز کا استعمال شروع کردیں۔

    اس قانون کے مکمل طور پر اطلاق کے روز متعدد مقامات پر اس وقت شدید افراتفری کی صورتحال سامنے آئی جب دکانداروں نے اپنے گاہکوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سامان دینے سے انکار کردیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا سامان ہاتھوں میں اٹھا کر لے جائیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی میں سیلاب کا خطرہ، بچاؤ کیسے ممکن؟

    کراچی میں سیلاب کا خطرہ، بچاؤ کیسے ممکن؟

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں محکمہ موسمیات نے موسلا دھار بارشوں کے سبب اربن فلڈ کے خطرے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات نے آئندہ 2 روز میں ہونے والی بارشوں کے پیش نظر اربن فلڈ (شہری سیلاب) کا خدشہ ظاہر کردیا۔

    مزید پڑھیں: کراچی میں اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    اربن فلڈ کیا ہے؟

    عام سیلاب اور شہری سیلاب (اربن فلڈ) میں کیا فرق ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر ماحولیات رفیع الحق نے بتایا کہ عام سیلاب اس وقت آتا ہے جب کسی دریا یا نالے کے کنارے بھر جائیں، پانی ابل پڑے اور آس پاس کی آبادیاں زیر آب آجائیں۔ یہ ایک قدرتی عمل اور قدرتی آفت ہے۔

    تاہم ان کے مطابق اربن فلڈ ناقص شہری منصوبہ بندی کے باعث رونما ہوتا ہے اور یہ سراسر انسانی ہاتھوں کی کارستانی ہے۔

    انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا، ’جہاں کہیں سڑکوں پر نشیب واقع تھا اور پانی بہہ کر ایک طرف ہو جاتا تھا، وہاں کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی یا اسپیڈ بریکر بنا دیا گیا جس کے باعث پانی کی آمد و رفت رک گئی۔ اب جب اس جگہ پر بے تحاشہ پانی کھڑا ہوجائے گا تو وہ مقام زیر آب آجائے گا‘۔

    انہوں نے کہا کہ پورے شہر میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے پھیلاؤ جاری ہے، کہیں نہر ہے، نالہ ہے یا دریا ہے وہاں گھر بنا کر پانی کا بہاؤ روک دیا گیا۔ ’پورا شہر کچرے سے اٹا ہوا ہے، نکاسی آب کے ذرائع کچرے سے بھرے پڑے ہیں، ایسی صورت میں پانی جمع ہو کر شہر میں سیلاب ہی لاسکتا ہے‘۔

    کراچی کا گجر نالہ

    رفیع الحق نے بتایا کہ اربن فلڈ آنے کی ایک وجہ درختوں کا نہ ہونا بھی ہے کیونکہ درخت کسی مقام کی مٹی کو تھام کر رکھتے ہیں یوں زمین کے اوپر کوئی بڑا نقصان نہیں ہونے پاتا، ’لیکن ہم نے درختوں کو بھی کاٹ دیا، پورا شہر عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے‘۔

    مستقبل کو مدنظر رکھنا ضروری

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اب بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’بظاہر سعودی دارالحکومت ریاض بہت منصوبہ بندی سے بنایا ہوا شہر ہے لیکن جب وہاں غیر معمولی بارشیں ہوئیں تو شہر میں سیلاب آگیا اور پورا شہر زیر آب آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سائنسی بنیادوں پر طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ان کے خیال میں کم بارشیں ساری زندگی ہوتی رہیں گی‘۔

    انہوں نے کہا کہ ’پہلے کراچی میں بارش کی چھینٹ پڑنے کی دیر تھی کہ اسکول اور دفاتر میں چھٹیاں ہوجایا کرتی تھیں اور لوگ خوشی خوشی بارش کا لطف اٹھانے سڑکوں پر نکل آیا کرتے تھے، لیکن اب یہ حال ہے کہ بارشیں ہوتے ہی ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی خبریں سامنے آتی ہیں‘۔

    انہوں نے ایک بار پھر موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر وقت ہر قسم کے حالات سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صحرا میں برف باری ہو یا خشک ترین شہروں میں بارشوں اور سیلابوں کا آنا، اب ہر جگہ کے لوگوں کو، ہر قسم کے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

    تحفظ کیسے ممکن ہے؟

    رفیع الحق نے ارلی وارننگ یعنی قبل از وقت انتباہ کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اسی صورت میں فائدہ مند ہوسکتی ہیں جب ان پر عمل کر کے آنے والے وقت سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں بارش شروع ہونے سے قبل ہنگامی بنیادوں پر کسی حد تک صفائی کر کے نکاسی آب کے راستوں کو بحال کردیا جائے تو آنے والے سیلاب کا خدشہ خاصی حد تک کم ہوجائے گا۔

    یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں میں بھی بارش کی پیشگوئی کی ہے۔ بدھ سے جمعہ تک ٹھٹہ، بدین، سجاول، مٹھی، تھر پارکر اور نواب شاہ میں بھی بارش کا امکان ہے۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    سر یوسف کے لبوں پر گہری مسکراہٹ آئی ا نہیں یہی امیدتھی۔ ٹھیک ہے میں آ پ کو کانٹیکٹ نمبر دے رہا ہوں مزید تفصیلات آپ خود طے کر لیں اگرچہ آپ انفرادی طور پر اِس ڈسکشن میں شریک ہوں گی لیکن میری خواہش ہے کہ آ پ مجھے اس کی اوورآل پروگریس سے آ گاہ کریں "۔۔۔ سر نے خوش دلی سے کہ
    وہ میں نہ بھی کروں تو سر آ پ کا سپوتِ نامدار آ پ کو سب خود ہی بتا دے گا ۔ مینا نے جل کر سوچا ۔
    "اوکے شیور آئی ول سر "۔۔ سنجیدگی سے جواب دے کر وہ جانے کے لیے اٹھی۔
    "یہ پیج مس فاریہ کو واپس کر دیجئے گا "۔۔ سر نے ایک فولڈ پیج اس کی طرف بڑھایا۔ اب وہ اپنے سیل کی طرف متوجہ تھے۔
    منتہیٰ نے آفس سے باہر آکر پیج کھولا سر کی ہینڈ رائیٹنگ میں اوپر ہی ایک نوٹ لکھا تھا
    Really appreciating !! Miss Faria your sense of humor is quite impressive…I Hope your assignment on Aliens will be more amusing…


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    اور منتہیٰ جو بہت کم کھلکھلا کر ہنسا کرتی تھی ، اس نے اپنااونچا قہقہہ بمشکل ضبط کیا ۔
    "تم نے بتایا نہیں سر نے تمہیں کیوں بلایا تھا ؟؟”۔۔ رات تک فاریہ کا تجسس عروج پر پہنچ چکا تھا
    "تمہارے رائٹنگ پیڈ کا پیج واپس کرنے کے لئے”۔۔ منتہیٰ نے پرس سے کاغذ نکال کر اُس کے سامنے پھینکا
    حیرت سے دیدے گھماتے ہوئے فاریہ نے پیج کھولا ۔۔۔ سامنے ہی سر کا نوٹ تھا۔۔ اور پھر پیٹ پکڑ کر وہ کافی دیر تک ہنستی رہی ۔
    یہ سر یوسف کتنے کیوٹ ہیں نہ۔۔۔ بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پا یا
    فاریہ بی بی! صبح تک سر آ پ کو ڈفر بلکہ اوورکوٹ لگا کرتے تھے ۔۔ مینا نے اُسے جتایا ۔
    وہ تو اب بھی لگتے ہیں اور لگتے رہیں گے فاریہ جیسے ڈھیٹ پیس کم ہی تھے ۔ اچھا تم مجھے چکر مت دو شرافت سے بتاؤ کہ سر نے تمہیں کیوں بلایا تھا ۔۔؟؟
    فاریہ کو یقین تھا کہ ارمان یوسف کے پاس اپنے سارے بدلے چکانے کا یہ بہتر ین موقع تھا ۔
    اور منتہیٰ نے اسے مختصراٌ ڈسکشن سیشن کی تفصیلات بتائیں۔۔ شام میری سنٹر بات ہوئی تھی انہوں نے ایک ہفتے بعد کی ڈیٹ رکھی ہے اور فاریہ کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔
    "اف! تم نے ڈیٹ تک فائنل کرلی ۔۔یار منتہیٰ کچھ عقل کے ناخن لو وہ انجینئرز ہیں اپنے پراجیکٹ کے بارے میں ہم سے کہیں زیادہ نالج رکھتے ہیں ۔”
    "تمہارا خیال ہےکہ میں نے محض تفریحاًسوال کیا تھا ؟؟ ”
    "تو اور کیا ! یہ کیسے ممکن ہے کہ گھنٹہ دو گھنٹہ کی عمومی تفصیلات سے تم خامیاں ڈھونڈ لو "۔۔ فاریہ نے ناک سے مکھی اڑائی۔۔
    "فاریہ بی بی”۔ "ہم پچھلے پانچ‘ چھ سال سے ایک ساتھ ہیں اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ منتہیٰ ہارنا نہیں جانتی ۔۔ میں نے آج تک کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہیں کیا "۔۔ مینا کا اعتماد دیدنی تھا ۔
    "یہ پراجیکٹ کچھ عرصے پہلے انٹرنیٹ پر میری نظر سے گزرا تھا اور میں انتہائی گہرائی تک اِس کی تمام تفصیلات سے آگاہ ہوں ۔”
    "پھر تم چل رہی ہو نا میرے ساتھ؟؟ تمہارے نئے سوٹ کل ہی ٹیلر کے پاس سے آ ئے ہیں "۔۔ مینا نے شرارت سے اسے آفر کی ۔
    "کمینی ۔۔تم اکیلی بھگتو اپنے پنگے۔۔ فالتو میں مجھے مت گھسیٹو "۔۔فاریہ نے اسے کھینچ کر تکیہ مارا ۔
    فاریہ کو سو فیصد یقین تھا ارمان یوسف نے منتہیٰ کو بری طرح گھیرا تھا چانسز کم تھے۔ کہ وہ اِس بار بھی فاتح لَوٹے گی۔۔
    ***************************
    دوسری طرف ارحم کا جوش و خروش بھی دیدنی تھا۔ ۔۔ "اب آ ئی بکری چھری تلے۔۔”
    "تم مجھے تو ساتھ لے کر جا رہے ہونہ ؟؟ "سارے بدلے چکانے کا اس سے بہتر موقع بھلا ارحم کو اور کب ملنا تھا ۔
    "ہر گز نہیں ،،میرے ساتھ صرف شہریار جائے گا "۔ ارمان نے اپنے بیسٹ فرینڈ کا نام لیا جس کا پورے پراجیکٹ میں بھرپورتعاون تھا ۔
    "اگر وہ لڑکی اتنی آسانی سے ایک ڈسکشن سیشن پر آمادہ ہے تو لازمی اس کے پوائنٹس میں وزن ہوگا۔ ہمیں ایک دفعہ پھر سے پراجیکٹ کا مکمل جائزہ لینا ہوگا "۔۔ ارمان نے شہریار کو مخا طب کیا جو منتہیٰ کی ہسٹری سے نا واقفیت کے سبب ہونقوں کی طرح دونوں کی شکل دیکھ رہا تھا ۔۔
    "ارے یار تو اِس کو اتنا سیریس کیوں لے رہا ہے ۔۔ وہ لڑکی فزکس میں تھوڑی بہت نالج کی بنا پر اَکڑ رہی ہے "۔ ہونہہ
    وہ بھلا ہم انجینئرز کا مقابلہ کر سکتی ہے، وہ بھی جب سپارکو کے آفیشلز ہمارے پراجیکٹ کو کلیئر کر چکے ہیں ۔
    ارحم نے ناک سے مکھی اڑائی۔
    لیکن ارمان فیس بک کی طویل ڈسکشنز میں بارہا دیکھ چکا تھا کہ۔” منتہیٰ دستگیر صرف اسی موضوع پر بولتی ہے جس پر اسے مکمل عبورہوتا ہے ۔۔”
    ***************************
    پیر کے روز وہ بھرپور تیاریوں کے ساتھ سپارکو ریسرچ سینٹر پہنچے ۔۔ سپارکو کے دو آفیسرز ڈسکشنز روم میں موجود تھے۔۔ اور منتہیٰ ٹھیک وقت پر پہنچی تھی ۔ بلیک عبایہ اور سکارف میں ملبوس اِس دھان پان سی لڑکی کو شہریار نے بہت غور سے دیکھا ۔ گرمی کے باعث جس کا سپید چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا ۔
    "بیوٹی وِد برین "۔کیا دونوں اکھٹی ہو سکتی ہیں ؟؟ ابھی لگ پتا جائےگا محترمہ کتنے پانی میں ہیں ۔؟؟
    شہریار کو ارحم ‘ منتہیٰ کی ساری ہسٹری اَزبر کروا چکا تھا جبکہ شہریا ر کے بغور جائزے کے برعکس ابتدائی تعارف کے بعد ارمان نے ایک اُچٹتی نظر بھی منتہیٰ پر نہیں ڈالی تھی۔ وہ اپنے رائٹنگ پیڈ پر کچھ نوٹس لینے میں مصروف تھا ۔
    مس دستگیر! پانچ روز پہلے پراجیکٹ کی تمام تفصیلات آپ کو اِس وارننگ کے ساتھ میل کی گئی تھیں کہ یہ کانفیڈینشل رہنی چاہئے۔
    آپ یقیناٌ ان کا جائزہ لے چکی ہوں گی؟؟ سینئر آفیسر نے بات کا آغاز کیا ۔
    منتہیٰ نے اثبات میں سر ہلایا وہ محتاط تھی یہ فیس بک کا کوئی ڈسکشن گروپ نہیں تھا‘ ایک حساس جگہ تھی ۔سپارکو کی اِس پراجیکٹ میں دلچسپی کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں قدرتی آفات کی بڑھتی ہوئی شرح اور اُن سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی تھی جنسے نمٹنے میں ہماری اتھارٹیز تقریباٌ ناکام ہو چکی تھیں۔
    مس دستگیر !آپ نے سوال و جواب سیشن میں ہارپ کی یو ایف او سے متعلق پوائنٹ اٹھایا تھا ہم نے اِس پر ایک ہفتے تک کافی تحقیق کی ہے۔
    "یہ بے انتہا طاقتور الیکٹرومیگنیٹک ویو ز زمین کے اندر گہرائی تک جذب ہوکر اندرونی درجۂ حرارت کو آ خری حد تک بڑھاکر اِس کی ٹیکٹونک پلیٹس کوچند منٹوں میں متحرک کر دیتی ہیں ۔۔ جتنی طاقتور یہ لہریں ہوں گی اتنی ہی شدت کا زلزلہ آ ئے گا ۔ دوسری صورت میں اگر اِن کا اینگل آف پروجیکشن ۱۸۰ ڈگری کی حد میں ہو تو یہ سیدھا سفر کرتی ہوئی ایٹماس فیئر میں جذب ہوکر فوری طور پر سٹرینج کلاؤڈ ز ڈیویلپ کرتی ہیں‘ جس سے اِس علاقے کے موسم میں اچانک بڑی تبدیلی رونما ہوکر کبھی طوفان یا سائیکلون، کبھی ٹورناڈو یا موسلا دھار بارشوں کا سبب بنتی ہیں ۔ کچھ علاقوں میں اِن کے باعث بارش کی قلت اور خشک سالی بھی نوٹ کی گئی ہے۔”
    لیکن اِن سب تفصیلات سے قطعہ نظر اب تک کسی بھی ملک کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے جس کے ذریعے اِن موجوں کو روکا یاپسپا کیا جا سکے ۔
    کیونکہ بظا ہر یہ ا مریکہ کا ہائی فیکوئینسی اورورل ریسرچ پروگرام ہے جس کا تعلق آئینو سفیئر کی سٹڈی سے ہے۔
    ارمان نے تمام تفصیلات بتا کر بات ختم کی ۔
    یہ سب مجھے معلوم ہے ۔ منتہیٰ نے ناک سکیڑی ۔
    "یہ شعاعیں براہِ راست اوزون پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس کے باعث پوری دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے ،
    اِن کے لئے صرف جیو سینسنگ کافی نہیں ہوگی بلکہ ہمیں سٹیلائٹ یا راڈار سےایسا سسٹم متعارف کروانا ہوگا جو بر وقت اِن برقی مقناطیسی موجوں کو ڈیٹیکٹ کرے ۔”
    "جہاں شر ہو وہاں اللہ تعالیٰ خیر بھی ضرور اتارتا ہے ۔یہ لوگ آج انسانیت کے خدا بنے بیٹھے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہم صرف ا یک خدا کی ذاتِ پاک پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ ۔ہمیں میں سے کسی نے آگے بڑ ھ کر زمین کے اِن خداؤں کو چیلنج کرنا ہے ۔۔”
    مس آپ کے دلائل کافی خوبصورت ہیں لیکن یو نو واٹ کہ باتیں تو سب ہی بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ دنیا کا سب سے آسان کام ہوتاہے ۔شہریار نے چوٹ کی ۔
    "ایگز یکٹلی !”۔۔ منتہیٰ اِس طنز سے بالکل بھی متاثر نہیں تھی ۔۔
    "ایسا ہے کہ کسی بھی تعمیری کام کی بنیاد ڈسکشن پر ہی رکھی جاتی ہے دو چار افراد بیٹھ کر ایک عمارت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو سالوں بعد ایک تعمیری شاہکار وجود میں آتا ہے ۔ ہم اشاروں سے کام نہیں چلا سکتے ۔اپنا اپنا مؤقف ہمیں باتوں کے ذ ریعے ہی واضح کرناہے” ۔۔ منتہیٰ کی جوابی چوٹ مزید سخت تھی۔
    "اُوکے تو پھر آپ ٹو دی پوائنٹ رہتے ہوئے اِن خامیوں کا ذکر کریں جو آپ کو ہمارے پراجیکٹ میں نظر آ رہی ہیں ۔۔” شہریار کا خیال تھا کہ لڑکی باتوں میں اصل موضوع کو گھما رہی ہے ۔
    "جی اگر آپ تھوڑا صبر کر لیتے تو میں اسی طرف آ رہی تھی "۔ منتہیٰ نے تیکھی نظروں سے شہریار کو گھورا ۔۔ ایئر کنڈیشن کمرے میں بھی باہر کی سی گرمی در آئی تھی ۔
    "ایسا ہے کہ جو سسٹم آپ نے ڈیویلپ کیا ہے وہ ابتدائی وارننگ بھی دے گا ،دور دراز علاقوں کی بھر پور معلومات وغیرہ بھی ۔ سب آپشنز اس میں موجود ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ۔۔”
    منتہیٰ نے ایک لمحے رک کر شہریار اور ارمان پر گہری نظر ڈالی۔
    "کہ یہ صرف تخمینے فراہم کرے گا ۔اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ یو ایس یا یو این او‘ دوکے بجائے پانچ کروڑ کی امداددے دیں گے ۔۔ لیکن یو نو واٹ کے ہماری اتھارٹیز نا اہل ہیں ۔’’صرف تخمینے اُن المیوں کا سدِ باب نہیں کر سکتے جو کسی بھی طرح کے ڈیسازٹرسے جنم لیتے ہیں۔”
    "مِس ۔ڈیسازٹرز سے نمٹنا اور ریلیف فراہم کرنا ۔۔۔ہم انجینئرز کا نہیں گورنمنٹ کا کام ہے”۔ اب کہ ارمان نے مداخلت کی ۔۔
    تو پھر آپ یہ لکھ لیں کہ "اِس پراجیکٹ کو سپارکو بو سٹ اپ کرے یا ناسا ۔انجینئرنگ لیول پر آپ کو کتنے ہی واہ واہ یا
    ا یوارڈ مل جائیں۔۔۔یہ قدرتی آ فات سے لڑتے نہتے عوام کے کسی کام کا نہیں ہے "۔ منتہیٰ کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔
    "سر آ پ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟؟ "۔ارمان نے سینئر ریسرچ آفیسرز کو مخاطب کیا ۔جو کافی دیر سے خاموش تھے۔
    مس دستگیر کی بات میں وزن ہے۔ ۔”ہم اِس سے پہلے بھی گورنمنٹ کو اِس طرح کی کئی سہولیات فراہم کر چکے ہیں لیکن ہماری بیورو کریسی کسی بھی طرح کے فلاحی کام کو آ گے بڑھنے نہیں دیتی ،اگر سسٹم کے فوری تخمینوں کے مطابق بھرپور ریلیف آپریشن کیا جائے ، جو گائڈ لائنز یہ سسٹم دیتا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ایک سٹریٹیجی ڈیولپ کی جائے تو عوام کو بھر پور ریلیف ملے گا ۔۔۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہو اِس کے چانسز ۵۰فیصد بھی نہیں ۔
    "اور سر آپ کیا کہتے ہیں ؟؟”۔۔ شہریار نے دوسرے آفیسر سے پوچھا ۔۔ اسے ڈاکٹر عبدالحق کا تجزیہ ایک آنکھ نہیں بھایاتھا۔۔
    "میرا خیال ہے کہ اس ڈسکشن کو کچھ ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہیں ۔۔ سب کو سوچنے کے لیئے وقت چاہئے ۔”اگر صرف ایک سسٹم بنا کر اتھاریٹیز کو دینا ہے تو میں اس میں چھوٹے موٹے نقائص ہی دیکھ رہا ہوں جو زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔”
    "لیکن اگر ہم بڑے پیمانے پر عوام خصوصاٌ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے قدرتی آفات سے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کے لیے کچھ کرناچاہتے ہیں،تو ہمیں ابھی بہت کچھ اپ ڈیٹ کرنا ہوگا بہت سی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔”
    "سیشن کی اگلے ڈیٹ سے آپ لوگوں کو جلد مطلع کر دیا جائے گا ۔”
    شہریار وہاں سے کافی بد دل ا ٹھا تھا ،جبکہ ارمان کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔۔
    ’’یہ لڑکی واقعی کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہیں کرتی ۔‘‘
    ***************************
    رامین نے پری میڈیکل فیصل آباد ڈیویژن میں ٹاپ کیا تو سب سے پہلے یہ خبر منتہیٰ کو دی ۔
    سمسٹر کے امتحانات نزدیک ہونے کے باعث فوری طور پر گھر جانا ممکن نہیں تھا اور سر انور نے اُسے ریسرچ پیپر کا چیلنج بھی دیا ہوا تھا۔آہستہ آہستہ منتہیٰ کی مخفی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آ رہی تھیں۔ وہ بری طرح اپنے جھمیلوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ مگر چھوٹی بہن کی اتنی بڑی کامیابی پر تحفہ تو بنتا تھا سو اگلے دن وہ یونیورسٹی سے سیدھی لبرٹی مارکیٹ گئیں ۔
    رامین کے لیے اس کی پسند کے کچھ سوٹس لے کر ٹی سی ایس کئے اور پھر کافی دیر تک اِدھر اُدھر ونڈو شاپنگ کرتی رہیں
    فاریہ کا ارادہ اس روز لاہور کی فوڈ اسٹریٹ سے سیخ کباب اور کڑاہی اڑانے کا تھا، دونوں نے ڈھیر ساری باتیں کرتے ہوئے مزیدار کھانا کھایا ۔
    اگرچہ فاریہ کی خوش خوراکی سے مینا ہمیشہ سے چڑتی تھی۔۔ مگر کبھی کبھار کی یہ تفریح اب اُسے اچھی لگنے لگی تھی سٹڈیز اور سیمینارکے پیپر کا جو بوجھ ہفتوں سے وہ کندھوں پر لیے پھر رہی تھی آج گھنٹوں میں اس سے نجات ملی تھی ۔
    انسان اگر صرف کتابوں میں گھِراجینے لگے تو اُسے بہت جلد کسی سائیکاٹرسٹ کی خدمات درکار ہوتی ہیں ۔ فاریہ نے منتہیٰ کو جتایا۔
    تم ہر بات میں آئن سٹائن، فائن مین اور سٹیفن ہاکنگ کے حوالے دیتی ہو ۔ یو نوواٹ کہ آئن سٹا ئن کہتا تھا ’’انتہائی ذہین افراد کی زندگی میں سب سے بڑا فقدان خوشیوں کا ہوتا ہے ۔‘‘ ہزاروں دلوں پر راج کرنے والوں کے اپنے دل سونے کیوں رہ جاتے ہیں ؟ اِس لیے کہ دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والے ہیرے کو کہیں کوئی ایسا نہیں ملتا جو اُسے چھُو کرپارس کردے۔
    فاریہ کبھی کبھار فلسفہ بھی جھاڑا کرتی تھی ۔
    "اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِیسے لوگوں کا وجدان مختلف اور عام آدمی کی سطح سے بہت بلند ہوتا ہے ۔۔ اُنہیں ہجوم میں بھی کوئی اِیسا نہیں ملتاجس سے وہ برابری کی سطح پر دل کی بات کر سکیں اور وہ اُسے سمجھ بھی سکے”۔ مینا نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    "اُوہ اچھا ۔۔ تو آپ لوگوں کے پاس دل نام کی کوئی شے بھی ہوتی ہے ؟؟”
    "بالکل ہوتی ہے کیوں ہم انسان نہیں ہوتے "۔۔ مینا نے باقاعدہ برا منایا
    "ہم "۔۔۔ حسبِ عادت لمبی سے ہم کرتے ہوئے فاریہ نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔
    "چلو کچھ لوگوں سے ملاقاتوں نے تمہیں یہ باور تو کرایا کہ تمہارے پاس دل بھی ہے ورنہ۔ کچھ عرصے پہلے تک یہ صرف بلڈ پمپنگ ہی کیا کرتا تھا ۔”
    "اگر اُس وقت وہ میٹرو میں نہ ہوتیں تو آج فاریہ نے مینا کے ہاتھوں قتل ہی ہوجانا تھا "۔۔ میٹرو عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔۔سو منتہیٰ خون کے گھونٹ پی کے رہ گئی ۔
    ***************************
    ایک ہفتے بعد منتہیٰ کو صبح صبح امی کی کال موصول ہوئی ۔
    "تمہارے ابو کل لاہور آ رہے ہیں رامین کے ایڈمیشن کے سلسلے میں ۔۔”
    حالانکہ منتہیٰ کو رامین کی پلاننگ کے بارے میں کئی ماہ سے علم تھا ۔ پوزیشن کے بعد اب اس کا سکالرشپ ڈیو تھا ، سو حسبِ خواہش کنیئرڈ میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کچھ مشکل نہ تھا۔
    ہر روز صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے اور آ نے کے بعد وہ سب سے پہلے امی کو کال کیا کرتی تھی۔ کہ جب تک دن میں وہ چار دفعہ اس سے بات نہ کرلیتی تھیں ان کا دل ہولتا رہتا تھا۔
    ’’ "ماں کا دل بھی خدا نے ناجانے کس مٹی سے بنایا ہے کہ اس کی ہر دھڑکن اپنی اولاد کی سلامتی سے وابستہ ہوتی ہے ۔ کسی مرغی کی طرح اپنے چوزوں کو پروں میں چھپائے وہ مطمئن رہتی ہے، لیکن جب اُن میں سے کوئی دور چلا جائے تو جیسےُ اس کی روح کا ایک حصہ بھی کہیں بہت دور چلا جاتا ہے ۔ہر آ تی جاتی سانس کے ساتھ فکر اور اندیشے ۔ ”
    پتا نہیں ناشتہ کر کے گئی ہوگی، کینٹین کی کیا الا بلا کھا لی ہوگی ۔ ہاسٹل کے مینو پر تو اُنہیں بہت ہی تاؤ آتا تھا ۔۔ گرمی نے میری پھول سی بچی کا کیا حا ل کر دیا ہے ،سکائپ پر انہیں منتہیٰ کا رنگ ہر روزکچھ اور سنولایا ہوا محسوس ہوتا کہ منتہی ٰ کی سرخ و سفید رنگت والی لڑکی ان کے میکے یا سسرال دونوں میں نہ تھی ۔
    اور اب تو رامین بھی رختِ سفر باندھنے کو تھی ۔۔ عاصمہ کے دل کو جیسے کسی نے مُٹھی میں لے رکھا تھا مگر کچھ کہنا فضول تھا وہ جانتی تھیں
    فاروق ہی نہیں ان کی اولاد بھی جب ایک فیصلہ کر لے تو پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتی ۔
    اُن کی ہونہار بیٹیاں سکالر شپ پر میڈیکل ، انجینئر نگ میں جا رہی تھیں ۔ وہ اب بہت فخر سے اپنے حلقۂ احباب میں بتایا کرتی تھیں۔”یہ مائیں بھی نہ بس۔”
    ***************************
    "میری جان”۔”کبھی اپنی ان سٹڈیز سے باہر بھی نکل آیا کرو "۔۔ ممی نے لاڈ سے ارمان کے بال سنوارے جو ایک ہاتھ میں کافی کامگ لیے لیپ ٹاپ پر بزی تھا ۔
    "ممی بس پراجیکٹ کی وجہ سے مصروفیات کچھ بڑھ گئی ہیں” ۔۔ اس نے ماں کو گول مول جواب دیا ۔
    "ٹھیک ہے لیکن اب تمہیں ہر صورت ٹائم نکالنا ہے ۔ اگلے ہفتے تمہارے کزن رامش کی شادی ہے سارے کزنز ہلے گلے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں اور ایک تم ہو کہ پڑھائی سے فرصت نہیں۔”
    ممی نے پیار سے اُسے ڈانٹا ۔۔ یہ وہی ارمان تھا جسے وہ کبھی سٹڈی کے لیے گھُرکا کرتی تھیں ۔۔
    "اُوکے ممی! ڈونٹ وری میں فنکشن اور کوئی بھی امیوسمنٹ مِس نہیں کروں گا ۔۔ میں خود تھو ڑی چینج کے موڈ میں تھا ۔” آپ کب جا رہی ہیں ماموں کی طرف ؟؟؟
    میں اِسی لیے تو آئی تھی کل تمہاری خالہ نیو جرسی سے آ ئی ہیں میں اور تمہارے پاپا ملنے جا رہے ہیں تم بھی چلو ۔۔ اِس وقت وہ کہیں بھی جانے کے موڈ میں نہیں تھا پر ممی اُس سے بہت کم اِصرار کرتی تھیں سو پندرہ منٹ بعد وہ ڈرائیونگ سیٹ پر تھا ۔
    ماموں کے گھر فکنشنز کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ سب بڑے لان میں جبکہ کزنز پارٹی کا ڈیرہ لاؤنج میں تھا ۔ ماموں ، خالہ اور خاندان کے باقی بڑوں کو سلام کرتا ہوا ارمان اندر پہنچا ۔
    ارمان کا ماموں زاد را مش ایم بی اے کے بعد اپنے باپ کا وسیع بزنس سنبھالتا تھا جبکہ اُس سے چھوٹا ارمان کا ہم عمر صمید ابھی بی بی اے میں تھا ۔۔ اندر آتے ارمان پر پہلی نظر صمید ہی کی پڑی تھی۔
    "ارے واہ۔۔ آ ج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔۔ کہاں ہوتا ہے یار تو ؟؟ "۔گلے ملتے ہی ساتھ شکوہ بھی حاضر تھا
    "بس یار سٹڈیز اور پراجیکٹس سے ہی فرصت نہیں ملتی سب کزن سے مل کر ارمان کاؤچ پر بیٹھا ہی تھا کہپیچھے سے آتی آواز نے چونکایا۔
    گلیڈ ٹو میٹ یو ارمان ۔۔ یہ زارش تھی ارمان کی خالہ زاد جو کل ہی نیو جرسی سے آ ئے تھے ۔
    ارمان کچھ زیادہ مذہبی یا بیک ورڈ تو نہ تھا پھر بھی فیمیلز سے ہاتھ ملانے سے اجتناب ہی کیا کرتا تھا ،مگر زارش کا سپید نازک سا ہاتھ سامنے تھا سو اسے ہاتھ ملاتے ہی بنی ۔
    سب کزنز کا مشترکہ انٹرسٹ مہندی فنکشن تھا ۔۔ ارمان کے خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈانسر موجود تھا ۔۔ بہت سے پیئرز مقابلے کے لئے تیار تھے ۔
    "ارمان تم ایسا کر و ۔۔زارش کے ساتھ اپنا پیئر بنا لو "۔۔ رامش نے صلاح دی ۔
    "نہیں یار تم لوگ انجوائے کرو۔۔ میری تو کوئی پریکٹس ہی نہیں "۔۔ارمان نے جان چھڑائی
    "لو پریکٹس ابھی ہو جائے گی تم میرے ساتھ دو سٹیپ تو لو ۔۔ ردھم بن گئی تو دیکھنا ہم ان سب کو ہرا دیں گے”۔ زارش کی ایکسائٹمنٹ عروج پر تھی ۔ "بے شک سب میں ان کا کپل تھا بھی لا جواب۔۔”
    "ایسا ہے کہ میں ابھی پراجیکٹ کا کام ادھورا چھوڑ کر آیا تھا ۔۔ پھر کل فرصت میں ملتے ہیں "۔۔ اس سے پہلے کہ وہ بلا دوبارہ گلے پڑتی ارمان باہر لان میں تھا ۔۔
    "اور کل ۔ کس نے دیکھی ہے زارش بی بی "۔۔ وہ خاصہ بد مزہ ہوا تھا
    اور پھر دو دن بعد وہ ممی کے ساتھ مہندی فنکشن پر ہی پہنچا تھا ۔۔۔ یار تو کدھر تھا میں اور زارش تجھے کال کر کر کے تھک گئے۔۔رامش چھوٹتے ہی ناراض ہوا ۔
    "یار وہ بس پراجیکٹ ڈسکشن کے لیے سپارکو جانا پڑا "۔۔ ارمان نے ہفتوں پہلی کی ڈسکشن کا بہانا بنایا ۔
    زار ش اب کسی اور کزن کے ساتھ پیئر بنا چکی تھی اُس کا خیال تھا کہ ارمان کچھ سپیشل ایکسکیوز کرے گا۔ لیکن اس نے تو ایک کے بعد۔اُس پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی۔۔ حالانکہ سب ہی کزن کا خیال تھا ،کہ سی گرین شرارہ، سلیو لیس اور کھلے گلے کے بلاؤز ، فُل میک اپ اورڈھیر ساری چوڑیوں کے ساتھ‘ وہ قیامت ہی تو ڈھا رہی تھی ۔
    "ہونہہ! خود کو سمجھتا کیا ہے؟؟ "۔۔اس نے نخوت سے ارمان کو دیکھا ۔۔” اِسے اپنے قدموں میں نہ جھکایا تو میرا نام بھی زارش نہیں ۔”

    جاری ہے
    **********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "جی مجھے یاد آیا کچھ عرصے پہلے تک آپ لوگوں سے فیس بک پر طویل مباحثے ہوا کرتے تھے ۔۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی”۔
    "کہیے یہاں کیسے آنا ہوا ؟؟ "۔۔ارمان نے خوش اخلاقی سے جواب دیا
    "ہم یہاں کنٹیسٹ کے لیے منتہیٰ کی پینٹنگ جمع کروانے آئے تھے "۔۔ فاریہ نے مڑ کر دیکھا منتہیٰ باہر جاچکی تھی ۔۔
    "آج تیری خیر نہیں بچو "۔۔۔ اُس نے اب منتہیٰ کا فل ریکارڈ لگانا تھا ۔۔
    "ہم بھی ارمان کی پینٹنگ جمع کروانے آئے تھے "۔۔۔ "یہ ارحم تنویر تھا "۔۔ فاریہ کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی
    "اوہ ریئلی پھر تو زبردست کنٹسیٹ رہے گا "۔۔فاریہ حسبِ عادت منٹوں میں ایکسائٹڈ ہوئی ۔۔
    "آپ لوگ کیا کپمیٹیشن کے لیے لاہور آ ئی ہیں ۔۔ ارحم نے دریافت کیا ‘ فاریہ کی طرح اسے بھی فرینک ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی”۔ جبکہ ارمان ریزرو تھا۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "نہیں ہم تو اب یہیں پائے جاتے ہیں پنجاب یونیورسٹی میں ۔۔ آپ کے پاپا سر یوسف بہت ہی متاثرکُن شخصیت رکھتے ہیں "۔۔اب کے اُس کا مخاطب ارمان تھا ۔
    "تھینکس ۔اینڈ وش یو بیسٹ آف لک ۔۔ ”
    فاریہ کو ایک دم منتہیٰ یاد آ ئی ۔۔ تیزی سے شکریہ اور الوداعی کلمات کہتے ہوئے اُس نے باہر دوڑ لگائی ۔
    حسبِ توقع مینا عریب قریب کہیں بھی نہ تھی ۔۔ فل سپیڈ میں بھاگ کر فاریہ مین انٹرینس تک پہنچی ۔منتہی گیٹ سے باہر ایک طرف جاتی نظر آ ئی۔۔
    "ایک تو تم انتہائی فضول لڑکی ہو فاریہ نے پھولی سانس کو بمشکل ہموار کیا ۔۔۔ ”
    "تم سے کم "۔۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ مختصر جواب آ یا
    "خوش فہمی ہے تمہاری ہونہہ ۔۔۔۔ تم پانچ منٹ انتظار نہیں کر سکتی تھیں ۔۔؟؟”
    "پانچ منٹ انتظار میں نے کیا تھا فاریہ بی بی” ۔۔ مینا نے اُسے جتایا ۔۔
    وہ مجھے پتا ہے کہ تم وہاں کیوں رکی تھیں ۔۔ ویسے تمہاری اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ فاریہ تو ارمان یوسف کو بھول گئی تھی لیکن منتہیٰ دستگیر اُسے سیکنڈوں میں یاد آئی ۔۔فاریہ نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔
    کیا۔۔۔ تم نے اُسے میرے بارے میں بتایا ؟؟ منتہیٰ کا پارہ آسمان کو پہنچا
    ہاں تو اِس کیا حرج تھا ۔۔ فیس بک پر تو وہ تمہیں جانتا ہی تھا نہ ۔۔تم فیک نہیں جو میں چھپاتی ۔۔۔
    اُف۔۔ فاریہ تم انتہائی درجے کی احمق اور ڈفر لڑکی ہو ۔۔ مینا کا بس نہیں چل رہا تھا کی فاریہ کو کچا چبا جائے۔۔
    "اچھا چلو غصہ تھوک دو ۔۔۔ آ ؤ تمہیں یہاں مزیدار آئس کریم کھلاتی ہوں "۔۔فاریہ پر مینا کی ڈانٹ پھٹکار کا کچھ خاص
    اثر نہیں ہوتا تھا۔
    سو وہ اسے کھینچتی ہوئی میٹرو سٹیشن کی جانب چل دی

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ویک اینڈ پر شام پانچ بجے وہ الحمرا ء ہال میں پہنچیں تو ہال بھانت بھانت کے لوگوں سے اٹا اٹ بھرا ہوا تھا ، جن میں سے
    کوئی بھی ان کا شناسا نہ تھا ، سو ایک اِدھر اُدھر مٹر گشت کرتی ہال کی سیر کرتی رہی۔
    فاریہ بہت ایکسائیٹڈ تھی جبکہ منتہیٰ کو کچھ زیادہ پرامید نہیں تھی ، پینٹنگ ہمیشہ سے اس کا شوق رہا تھا ، مگر وہ بہرحال پروفیشنل پینٹرنہ تھی ، اس لیے جب رزلٹ اناؤنس ہوا تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا ۔
    "فرسٹ پرائز "۔ فاریہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ خوشی سے نعرے لگائے ۔۔۔اُس کی ایکسائٹمنٹ دیکھ کر اب منتہیٰ جلدی یہاںسے نکلنے کے چکر میں تھی۔۔۔کہ پیچھے سے آتی آواز نے اُن کے قدم روکے۔
    "ہیلو مس فاریہ ۔۔ یہ ارحم تنویر تھا ۔۔ کیسی ہیں آپ لوگ ؟؟ ”
    "ارے آپ لوگ فرسٹ پرائز جیت کر بھی اتنی جلدی جا رہی ہیں ۔۔غالباٌآپ لوگوں کے علم میں نہیں کہ یہاں لوگ منہ مانگے داموں پینٹنگز خرید لیا کرتے ہیں "۔ اَرحم نے انہیں آگاہ کرنا ضروریسمجھا۔
    اور منتہیٰ کے تو پاؤں کو لگی سر تک جا پہنچی ۔۔
    "مسٹر ایکس وائی زیڈ ۔۔ہمارا اپنی پینٹنگ سیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔”
    "”دنیا میں ہر چیزبکنے کے لیے نہیں ہوتی ۔۔ کچھ چیزیں اَن مول ہوتی ہیں ۔۔
    درشتی سے اَرحم کو جھڑکتی وہ آگے بڑھ چکی تھی ۔۔
    پلیز آپ مائنڈ مت کیجیے گا یہ میری فرینڈ خاصی بد لحاظ ہے ۔۔ فاریہ نے ایکسکیوز کی ۔
    "اِٹس اُوکے ۔۔ میرے پاس مائنڈ ہی نہیں”۔ اَرحم نے دانت نکالے۔۔
    "اچھا پھر تو آپ ہمارے ہی قبیلے سے ہیں۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی ۔ "آج آ پ کے دوست ساتھ نظر نہیں آ رہے ۔۔؟؟
    "ارمان ۔۔وہ ابھی تو یہیں تھا "۔۔ اَرحم نے اِدھرُ ادھر نظر دوڑائی ۔۔
    ویسے آپکی دوست کی پینٹنگ تھی بہت زبردست اِنھیں پروفیشنلی اِس طرف آنا چا ہیئے ۔۔
    "یہ جو میری دوست منتہیٰ ہے نہ۔۔اللہ نے اِسے ٹھونس ٹھونس کے صلاحیتیں دی ہیں ماشاء اللہ ۔۔”
    اُوہ آئی سی ۔۔
    Then  she  really  deserve  such  flatulence
    اَرحم نے دانت نکالے ۔۔ٹھیک اُسی وقت فاریہ کے سیل پر مینا کا ٹیکسٹ آ یا ۔
    "اب اگر میں اکیلی چلی گئی تو تمہیں ٹریٹ سے ہاتھ دھونے پڑیں گی "۔۔ اور فاریہ نے اللہ حافظ کہتے ہوئے باہر دوڑ لگائی ۔۔
    "اُن کی شرط لگی تھی کہ جیتنے پر مینا ٹریٹ دے گی” ۔ اور اسے پتا تھا دو سیکنڈ بھی لیٹ ہوئی تو منتہیٰ بی بی نے ارادہ بدل دینا ہے۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    پہلے سمسٹر میں فور پوائنٹ زیرو جی پی اے کے ساتھ منتہیٰ کی کلاس میں پوزیشن کچھ اور مستحکم ہو چکی تھی ۔۔۔سو ایک نئے جوش کے ساتھ دوسرے سمسٹر کے آغازکے لیے منتہیٰ مستعد تھی ، اس دفعہ کچھ اور لائق اساتذہ نے کلاسز لینی تھیں جن میں ڈاکٹر یوسف بھی شامل تھے۔

    "آپ میں سے کوئی جانتا ہے کہ کائنات کی حقیقت کی بارے میں آئن سٹا ئن کا مشہور قول کون سا ہے؟”
    سر یوسف نے ساری کلاس کی طرف استفہامیہ انداز میں دیکھا ۔۔ پہلا بلند ہونے والا ہاتھ حسبِ سابق منتہیٰ کا تھا ۔۔ "یس۔ یُو۔ مِس۔”سر نے اُسے اشارہ کیا ۔
    "سر آ ئن سٹائن کا کہنا تھا کہ کائنات کی سب سے بڑی قابلِ فہم حقیقت یہ ہے کہ۔ یہ نا قابلِ فہم ہے ۔۔”
    "رائٹ یو نو واٹ کہ آئن سٹا ئن نے صرف ۲۶ برس کی عمر میں اپنا وہ پہلا ریسرچ پیپر لکھا تھا جو بالاخر کوانٹم فزکس اور آسٹرونامی کی بنیاد بنا ۔۔ حالانکہ اُس وقت نہ تو ٹیکنالوجی کی اتنی سہولیات میسر تھیں نا ہی اُس کے پاس کوئی باقاعدہ لیبارٹری تھی ۔۔ اِس کے با وجودآئن سٹائن کی تھیوریز ا س حد تک درست ہیں کہ آج "ہبل اور کیک "جیسی پاورفل ٹیلی سکوپس کے ذریعے ہونے والی تحقیقات سے اِن تھیوریز کی تصدیق ہو رہی ہے جس کی تازہ ترین مثال "لیگو پراجیکٹ”ہے جس میں خوش قسمتی سے ہمارے دو ہم وطن بھی شامل تھے۔
    Sir!  Would  you  further  explain  Einstein  Gravitational  waves??
    سر نے منتہیٰ کی پسند کا موضوع چھیڑا تھا سو اُس کی دلچسپی عروج پر تھی ۔
    شیور ۔۔ ایسا ہے کہ لیگو کی ٹیم نے کئی برس کی اَن تھک محنت کے بعد دو انتہائی زیادہ ماس والے بلیک ہولزدریافت کیے جو آپس میں مدغم ہورہے تھے اِس سے جو گریویٹیشنل ویوز ڈیٹیکٹ کی گئی اِن سے نا صرف آئن سٹائن کی تھیوریز کی تصدیق ہوئی بلکہ ِ انہوں نے آسٹرونامی میں ایک نئی جہت متعارف کروائی۔
    "اِن موجوں کے ذریعے پہلی تصدیق تو یہ ہوئی کہ کائنات کی ابتدا سنگولیریٹی یعنی بگ بینگ سے ہوئی ۔۔مزید یہ کہ ہم انِ موجوں کے ذریعے ماضی میں جا سکتے ہیں اور اپنے سوال کا جواب تلاش کر سکتے ہیں کہ کا ئنات کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی ؟؟”
    "یہ وہ سوال ہے جس نے ماہرِ فلکیات ہی نہیں ہر اُس شخص کے دماغ کو جکڑا ہوا ہے جو صرف کھانے، پینے ، سونے جاگنے اور ز ندگی سے لطف اٹھانے کے لیے نہیں جیتا بلکہ اُس کا ذہن اپنے ماحول ، خدا کی اِس وسیع کائنات ، اجرامِ فلکی غرض یہ کہ ہر شے کی حقیقتکو سمجھنے کی جستجوکرتا ہے ۔”
    "عموماًسائنس اور مذہب دو بالکل الگ تھلگ ایسے آ پشنز تصور کیے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔حا لانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آ پ قرآن پڑھیے ۔۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ جس کائناتی مظہر پر غور و فکر کے بارے میں کہا ہے وہ اجرامِ فلکی ہیں ، بار بار ایک ہی سورت میں ۔۔ کچھ سورتوں بعد لوٹ کر پھر انہی چاند، سورج ، ستاروں کا ذکر آ جا تا ہے۔میں مذ ہبی آدمی ہر گز نہیں ہوں اور نہ ہی میں نے فزکس کو اسلام سے ریلیٹ کر کے پڑھنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ کیو نکہ عموماٌآسٹرونامی کو ما بعد الطبعیات ۔۔حقیقت سے ما وراء علوم میں شمار کیا جاتا ہے ۔۔”
    سر کیا میں مداخلت کر سکتا ہوں ؟؟ یہ فواد تھا
    "یس یو کین "۔۔ سر نے خوش دلی سے اجازت دی
    "سر ایسا ہے کہ جب ہم سائنس کو اسلام سے ریلیٹ کر کے پڑھتے ہیں تو یو نو واٹ کہ یہ مطالعہ ہمیں دہریت کی طرف
    لیکر جاتا ہے کیونکہ آسٹرو فز کس خدا کے وجود کا انکاری ہے ۔۔”
    Good  point  you raise …
    سر کے لہجے میں ستائش تھی ۔۔ لیکن میں چاہوں گا کہ اِس کا جواب اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق آپ لوگ خود سوچیں "یہ آ پ لوگوں کی کل کی اسائنمنٹ ہے انشاء اللہ کل اِس کو ڈسکس کریں گے "۔۔ سر یوسف نے مسکراتے ہوئے پوری کلاس کے فق چہروں کو دیکھا ۔۔”لیکن اِن میں ایک چہرہ بالکل پر سکون تھا ۔۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    چند ماہ بعد۔۔ اُن کا تیسرا ٹا کرہ یونیورسٹی آف پنجاب کے سٹیلائٹ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کی ایک ورک شاپ میں ہوا ۔۔”
    سپارکویہ سینٹر پنجاب میں سپیس سے متعلق واحد سورس ہے جو سپارکو کے تعاون سے قائم کیا گیا ہے۔۔ چند دن پہلے ان
    کے آفیشل فیس بک پیج پر قدرتی آ فات میں کارگر ریموٹ سینسنگ کی تککنیکس پر ہونے والی ایک ورک شاپ کا ایونٹ منتہی ٰ کی نظر سے گزرا تھا ۔ اس کا ایک بڑا مسئلہ ٹا ئمنگ تھا وہ سب پیریڈز چھوڑ سکتی تھی لیکن سر یوسف کا پیریڈ ۔۔۔ نا ممکن۔۔ ۔۔۔ اب تو کسی صورت بھی نہیں جب سر نے اتنے دلچسپ موضوع پر اسائنمنٹ دی ہوئی تھی ۔
    ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر وہ سب سے الگ بیٹھی اِسی اُدھیڑ بن میں لگی ہوئی تھی جبکہ فاریہ ، انعم ، سمین او ر باقی کلاس فیلوز فضول گپیں ہانک رہے تھے۔
    "مسٹر فواد۔ کیا آپ ہمیں اپنا پوائنٹ آ ف ویو بتانا پسند کریں گے تاکہ ہم بھی اسائنمنٹ بنا سکیں "۔۔ یہ انعم تھی
    "بالکل نہیں مفت میں تو میں کسی کو پانی بھی نہیں پلاتا "۔۔ فواد نے دانت نکالے
    "چل اوئے! تجھے ہر وقت کھانے پینے کی پڑی رہتی ہے تجھے کہا کس نے تھا سر سے یہ سوال پوچھنے کو؟ "منیب نے فواد کو ایک دھپرسید کی۔۔۔
    "لو کہنا کس نے تھا ۔۔ تم لوگ خود کبھی کورس کے علاوہ فزکس سے متعلق کچھ پڑھ لیا کرو "۔۔ فواد نے برا سا منہ بنایا
    "اُف۔۔ کورس کی بکس کیا کم ہیں دماغ کی چولیں ہلانے کو ۔۔ میں تو اُس وقت کو کوستی ہوں جب بی ایس میں فزکس رکھاتھا ۔۔” بھلا فاریہ کب کسی سے پیچھے رہنے والی تھی ۔
    اور اِن سب کی فضول بکواس سے لا تعلق بیٹھی منتہیٰ جو گوتم بدھ کی طرح گہری سوچ میں غرق تھی یکدم چونک کر اٹھی
    "اے مینا تم کہاں چلیں فاریہ نے پیچھے سے آواز لگائی "۔۔
    "میں ذرا ڈیپارٹمنٹ لائبریری تک جا رہی ہوں تم لوگ باتیں کرو "۔مڑے بغیر جواب دیکر منتہیٰ نے قدم بڑھائے ۔
    یار فاریہ تو منتہیٰ سے پوچھ نہ اُ س کو لازمی جواب کا آتاہوگا ۔۔ سمین نے فاریہ کے کان میں سرگوشی کی
    "پتا تو ضرور ہوگا میری جان پر وہ گھُنی بتائے گی کب ۔۔ ”
    تم رات کو اُس کی اسائنمنٹ پار کرکے نوٹس لے لینا، پھر فرسٹ پیریڈ ڈراپ ۔۔ ہم کچھ نا کچھ بنا ہی لیں گے ۔۔ سمین نے اسےراہ دکھائی ۔۔۔
    "بی بی سمین ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی اتنی جلدی قتل ہونے کا میرا کوئی ارادہ نہیں "۔۔ فاریہ نے صاف انکار کیا ۔۔ وہ منتہیٰ کی رگ رگ سے واقف تھی ۔
    ویسے یار سر یوسف اتنے زِیرک ہیں کہ چیٹنگ پکڑ ہی لیں گے ۔۔ بہتر ہے کہ ہم اپنے ننھے منے دماغوں پر کچھ زور ڈالیں ۔تھوڑی مدد گوگل انکل کر دیں گے ۔۔ انعم نے جیسے فیصلہ صادر کیا۔
    چلو آ ؤ کچھ پیٹ پوجا کریں تاکہ دماغ کچھ سوچنے کے قابل ہوں اور سب کینٹین کی طرف چل دیں۔۔
    ٹھیک اسی وقت منتہیٰ نے سر یوسف کے آفس میں داخل ہونے کی اجازت مانگی۔
    "سر کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟؟”
    سر یوسف جو اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھے ۔۔ انہوں نے چونک کر سر اٹھایا ۔ "یس پلیز ”
    سر مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔ میں آپ کا زیادہ ٹائم نہیں لوں گی۔۔ جسٹ فائیو منٹس پلیز ۔۔
    ۔۔سر نے خوش دلی سے کہا
    Okay Go ahead
    "سر کل سپارکو کے ریسرچ سینٹر میں ایک ورک شاپ یونیورسٹی ٹائمنگ میں ہے ۔ میں آ پ کا پیریڈ ہر گز مس نہیں کرنا چاہتی اورجو اسائنمنٹ آپ نے دی ہے اُس کے بعد تو کسی صو رت بھی نہیں ۔۔ لیکن میں ورکشاپ بھی اٹینڈ کرنا چاہتی ہوں ۔”
    "اِٹس اے نائس چانس فار می”۔۔وہ ایک لمحے کو توقف کے لیے تھمی اور سر کو دیکھا جو پوری طرح اسی کی طرف متوجہ تھے۔
    "سر کیا آپ یہ ڈسکشن ایک دن کے لیے ملتوی کر سکتے ہیں ؟؟ اب کے لہجے میں قدرے گھبراہٹ تھی۔”
    اور ڈاکٹر یوسف کے لبوں پر بے اختیار ایک گہری مسکراہٹ آئی تھی ۔
    ایسے سٹوڈنٹس ہمیشہ سے اُن کی خاص توجہ کا مرکز ہوتے تھے جو لرننگ کا ایک چھوٹا سا موقع بھی ضائع نہیں جانے دیتے ۔ایک بہترین استاد جانتا ہے کہ اُس کی کلاس میں کتنے طلبہ ایسے ہیں جو ڈگری کے لیے پڑھ رہے ہیں جن کی تعداد عموماٌزیادہ ہوتی ہے ، اِن سے کچھ کم، شوق اور لگن کے ساتھ اپنے سبجیکٹ سے اٹیجڈ ہو کرپڑھتے ہیں۔ جن کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی ڈگری جو نا صرف ان کے مستقبل کو تابناک بنانے میں کارگو ثابت ہو ،بلکہ جس سے اُن کے دل و دماغ پر آگاہی کے نئے دَر بھی واہوں جبکہ ایسے سر پھرے سٹوڈنٹس کی تعدادآ ٹے میں نمک کے برابرہوتی ہے جو صرف اور صرف اپنی علم کی پیاس بجھانے کےلیے پڑھتے ہیں ۔۔وہ ڈگریوں اورسرٹیفیکیٹس کے انبار میں بھی خود کو بحرِ علم کے کنارے کھڑا پیاسا ہی تصور کرتے ہیں ۔۔اور منتہی ٰکی صورت میں سر یوسف کو بھی ایک ایسا ہی نادر شاگرد نظر آ رہاتھا ۔
    yes, I can but on a condition ..!!
    اُن کی گہری نظریں منتہیٰ کے چہرے پر تھیں ۔۔ اُوکے تھینک یو سر۔ آ ئی ول ٹرائی مائی بیسٹ ۔۔
    سر یوسف نے ایک سادہ کاغذ اور پین اسکے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔۔ آپ کے پاس پانچ منٹ ہیں آ پ کو اسائنمنٹ کا مختصرلیکن مدلل جواب ابھی یہیں میرے سامنے لکھنا ہے ۔ سر یوسف نے اپنی رسٹ واچ دیکھی۔
    بغیر کسی گھبراہٹ کے منتہیٰ نے کاغذ اپنے سامنے گھسیٹا ۔۔ اور پورے ۴۰ سیکنڈ کے بعد وہ جواب لکھ کر سر کے سامنے رکھ چکی تھی۔
    ’’ "ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں قطعاٌ ضرورت نہیں کہ ہم سائنس کی مدد سے مذہب کی منزل تلاش کریں۔ بلکہ ہمارے پاس قرآن ہے جس کو سمجھ کر ہم سائنس کی نئی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔ خدا کے وجود سے انکار کسی صورت بھی ممکن نہیں ۔ "

    جاری ہے

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • پاکستان اور بھارت میں ناقابل برداشت جان لیوا ہیٹ ویوز کا خدشہ

    پاکستان اور بھارت میں ناقابل برداشت جان لیوا ہیٹ ویوز کا خدشہ

    نیویارک: پاکستان اور بھارت میں غیر معمولی موسم گرما اب عام بات بن گیا ہے تاہم ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں صدی کے خاتمے تک اس خطے میں ایسی ہیٹ ویوز آئیں گی جو نہایت خطرناک، جان لیوا اور ناقابل برادشت ہوں گی۔

    امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی جانب سے کی جانے والے تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2100 تک جنوبی ایشیا قیامت خیز گرمیوں کی زد میں آجائے گا۔

    تحقیق کے مطابق پاکستان کا جنوبی علاقہ، شمالی بھارت اور بنگلہ دیش اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

    ماہرین کے مطابق گرمی کی یہ شدت اس قدر ہوگی کہ گھر سے باہر دھوپ میں نکلنا ایک نا ممکن عمل بن جائے گا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس جان لیوا گرمی سے دریائے سندھ کا زرخیز علاقہ اور بھارت میں دریائے گنگا بھی متاثر ہوں گے جو دونوں ممالک میں غذائی پیداوار کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو کو ہوّا مت بنائیں

    ایم آئی ٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق یہ صرف ہیٹ ویو نہیں ہوگی جو لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنے گی، بلکہ اس کے باعث ہونے والی قلت آب، خشک سالی اور غذائی پیداوار میں کمی لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور یہ اگلی آنے والی دہائیوں میں مزید شدت اختیار کرجائے گا اور رواں صدی کے اختتام تک یہ گرمیاں ناقابل برداشت صورت اختیار کرلیں گی۔

    یاد رہے کہ قیامت خیز ہیٹ ویوز پاکستان کے لیے نئی نہیں، اور سنہ 2015 میں صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی خطرناک ہیٹ ویو کا سامنا کر چکا ہے جس میں 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

    اس ہیٹ ویو نے بھارت کو بھی متاثر کیا تھا اور دونوں ممالک میں تقریباً ساڑھے 3 ہزار افراد شدید گرمی کے باعث لقمہ اجل بن گئے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔