Tag: environment

  • مال مفت دل بے رحم: قدرتی وسائل کی فضول خرچی عروج پر

    مال مفت دل بے رحم: قدرتی وسائل کی فضول خرچی عروج پر

    کیا آپ جانتے ہیں اس سال ہم انسانوں نے زمین کے لیے ایک سال میں قابل تجدید قدرتی وسائل کو 7 ماہ کے اندر ختم کرلیا ہے؟

    ماہرین کے مطابق ہم انسانوں کو ایک سال کے اندر قدرتی وسائل کا اتنا ہی استعمال کرنا چاہیئے جتنا کہ زمین انہیں اسی ایک سال کے اندر پھر سے پیدا کرسکے۔

    تاہم ہم نے ان وسائل کو مقررہ وقت سے پہلے استعمال کرلیا اور اب آج کے دن کے بعد سے استعمال کیے جانے والے وسائل کی حیثیت ایسی ہے جیسے کوئی شخص برے وقت کے لیے بچائی گئی رقم کو روز مرہ کے معمولات کے لیے استعمال کرلے۔

    وسائل کے استعمال کے مقررہ وقت کے خاتمے کو اوور شوٹ ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے جو دنیا بھر میں آج منایا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق رواں سال ہم نے صرف 7 ماہ میں اتنا زیادہ کاربن اخراج کیا ہے جو سمندروں اور جنگلات سے جذب کرنا مشکل ہے، ہم نے حد سے زیادہ مچھلیوں کا شکار کیا، بے تحاشہ درخت کاٹے اور مقررہ حد سے زائد پانی کا استعمال کیا۔

    سال کے اختتام تک چونکہ ہم ان وسائل کا مزید استعمال کرچکے ہوں گے تو اب ان جنگلات، پانی اور صاف ہوا کی دوبارہ بحالی میں زمین کو ایک سال سے کہیں زیادہ وقت درکار ہوگا۔

    مزید پڑھیں: ہم کچرے سے زمین پر نئی تہہ بچھا رہے ہیں؟

    یہ دن گزشتہ سال کے مقابلے میں پہلے منایا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال یہ دن ستمبر میں منایا گیا تھا۔ گزشتہ صدی کے آخر میں یعنی 90 کی دہائی میں یہ دن اکتوبر اور نومبر میں منایا جاتا تھا۔

    گویا ہم زمین کے وسائل کو، مال مفت دل بے رحم کے مصداق نہایت بے دردی سے استعمال کرتے ہوئے ان کی فضول خرچی کر رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے قدرتی وسائل کو اسی طرح استعمال کرتے رہے تو ان وسائل کو دوبارہ پیدا کرنے کے لیے ہمیں کم از کم ایک اور زمین کی ضرورت پڑے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    (دوسری قسط)

    "مسز مریم یوسف کا معمول تھا کہ وہ روز رات کو سونے سے پہلے گھر کے سارے دروازے چیک کرکے ایک آخری چکر ارمان کے کمرے کا لگایا کرتی تھیں جو دیر سے سونے کا عادی تھا اور عموماٌ لیپ ٹاپ یا اپنے سمارٹ فون پردوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوتا تھا "۔ مگر بی ایس ٹیلی کام انجینئرنگ میں آتے ہی ارمان میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں ، وہ جو باپ کے غصے اور ماں کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد بمشکل کتابوں کو ہاتھ لگایا کرتا تھا ،اب لیٹ نائٹ سٹڈی کا عادی ہو گیا تھا ۔ "ارمان کا شمار اُن ذہین طالبعلوں میں ہوتا تھا جو سٹڈی کو ٹف ٹائم دیئے بغیر بھی اے گریڈ لاتے ہیں ، یوسف صاحب اپنے بیٹے کی صلا حیتوں سے بخوبی واقف تھے ، اگرچہ اسکا اے گریڈ ہمیشہ انکی ا میدوں پر پانی پھیر دیا کرتا تھا ، مگر وہ ان باپوں میں سےنہیں تھے جوزبردستی اپنے فیصلے بچوں پر ٹھو نس کر انکا مستقبل برباد کر دیتے ہیں "۔

    "آج کل نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی شدت، انتہا پسندی اور مختلف طرح کی ایڈکشنزکی ایک بڑی وجہ والدین کا غیر دوستانہ رویہ،اور ان کے مستقبل کے فیصلوں میں من مانی ہے۔ یہ نئی نسل پابندیاں برداشت نہیں کرتی ، آ پ اِنہیں رسی سے باندھیں یہ اُسے توڑ بھا گیں گے ، اِنہیں زنجیروں میں جکڑیں یہ اِن سے فرار کا وہ راستہ اختیار کریں گے کہ آپ کو جوان اولاد سے عمر بھر کے لیے ہاتھ دھونے پڑیں گے” ۔ یہ وہ نوجوان نہیں ہے کہ آرمی یا ائیر فورس کا خواب ، مستقبل کی اپنی منصوبہ بندیوں کو منوں مٹی تلے سلا کر والدین کے فیصلے پر چپ چاپ ان کی پسند کی فیلڈاختیار کر لیا کرتی تھی”۔”آج کی نسل مستقبل کے فیصلوں پر اپنا حق چاہتی ہے” ۔ "سو ایک جہاندیدہ پروفیسر ہونے کے باعث اپنی اکلوتی اولاد کو ایک حد تک آزادی دیکر رسی کا دوسرا سرا بہر حال اپنے ہاتھ ہی میں رکھا تھا "۔ "اب ہر سمیسٹر میں ارمان کا پہلے سے زیادہ جی پی اے اُن کو یہ باور کرانے کے لیے کافی تھا کہ بیٹاصحیح سمت میں چل پڑا ہے ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


    اسی ناول کی پہلی قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "مشرق کی بیٹی چاہی کتنی ہی پڑھ لکھ جائے شادی بیاہ کے معاملے میں براہِ راست باپ سے بات میں ایک حجاب حائل رہتا ہے ، رات جب وہ بلاوے پر ابو کے کمرے میں گئی تو ذہن جیسے کوری سلیٹ تھا "۔ دو دن میں محنت سے تیارکیے تمام دلائل اڑن چُھو ہو چکے تھے ۔”اوپر سے عاصمہ کی تیز برماتی ، آنکھیں بیٹی کی سرکشی کو لگام ڈالنے کو پوری طرح مستعد تھیں” ۔ ملک غلام فاروق دستگیر نے صورتحا ل کی نزاکت کو بھا نپتے ہوئے عاصمہ کو وہاں سے جانے کا کہا تو وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی منتہیٰ کو سرزنش میں آنکھیں دکھاتی، چپل گھسیٹتی وہ کمرے سے نکلی تو ضرور ۔۔مگر باہر جانے کے بجائے دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہو گئیں، ان کے پیچھے لاؤنج کے پردے کے پیچھے چھپی ارسہ اور رامین نے سر پیٹا ۔ "دھت تیرے کی ۔ امی کو بھی یہیں کھڑا ہونا تھا "۔ "منتہیٰ بیٹا آپ یقیناٌ جانتی ہیں کہ میں نے آپ کو کس لیے بلایا ہے سو بغیر کسی جھجک کے اپنا فیصلہ بتایئے "۔ فاروق صاحب کے دوستانہ لہجے سے منتہیٰ کی ٹوٹتی ہمت کچھ واپس آ ئی ۔۔ کمرے میں کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی ۔ منتہیٰ نظریں جھکائے کارپٹ کے ڈیزائن کی بھول بھلیوں میں اپنا مستقبل تلاش رہی اور بلاآخر اُسے راستہ مل ہی گیا ۔۔ "ابو۔میرے مستقبل کا فیصلہ یقیناٌ آپ ہی نے کرنا ہے لیکن فی الحال میری خواہش ہے کہ مجھے آگے پڑھنے دیا جائے "۔۔ اور فاروق جو بہت دیر سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ بے اختیار مسکرا اٹھے ۔ "مجھے اپنی بیٹی سے ایسے ہی جواب کی توقع تھی ،تم میرا فخر بھی ہو اور مان بھی ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم میرے سارے خواب سچ کر دکھا ؤ گی "۔ "تیزی سے امڈتے آ نسوؤں کو پونچھتے ہو ئے وہ باپ کے گلے لگی "۔ "لیکن ابو ۔۔ دادی اور پھپو”۔۔۔۔ بہت سے خدشات نے سر ابھارا ۔۔؟؟ میری جان ۔”تم اُ ن کی فکر مت کرو ، یہ یاد رکھو کہ اگر تم کچھ غیر معمولی کر کے دکھانا چاہتی ہو تو تمہیں بہت سی رکاوٹیں عبور کرنا ہوں گی، بہت سے عزیز رشتوں کا دل توڑ کر اُنکی خفگی مول لینا پڑے گی "۔ "لیکن یہ ناراضگیاں عارضی ہوا کرتی ہیں ۔۔ ایک وقت آتا ہے جب یہی لوگ آپ کی کامیابیوں پر سب سے زیادہ خوش بھی ہوتے ہیں اور دعاگو بھی کیونکہ خون کے رشتے کبھی نہیں ٹوٹاکرتے”۔ منتہیٰ جو اندیشوں اور خدشوں میں گھری کمرے میں داخل ہوئی تھی شاداں و فرحاں وہاں سے نکلی ، تو عاصمہ ماتھے پر تیوریاں چڑھائے سامنے تخت پر موجود تھیں مگر وہ سر جھکائے تیزی سے ان کے سامنے سے گزرتی چلی گئی ۔جبکہ پردے کی پیچھے چھپی ارسہ اور رامین پہلے ہی رفو چکر ہو چکی تھیں "۔ اگلے روز شام کو مہرالنساء کو گھر میں موجود پاکر فاروق صاحب کو صورتحا ل سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی ۔

    صبح جاتے وقت وہ ماں اور بیوی کواپنے فیصلے سے آگاہ کر گئے تھے۔ "فی الحال وہ منتہیٰ کو ماسٹرز کے لیئے لاہور بھیج رہے ہیں "۔ اُنک ا خیال تھا کہ عاصمہ خوش اسلوبی سے بات سنبھال لیں گی مگر یہاں تو الٹا محاذ کھلا ہوا تھا ۔ "بھا ئی مجھے آپ سے ایسی توقع ہر گز نہیں تھی "۔۔ "آخر کیا کمی ہے میرے چاند سے بیٹے میں ماشاء اللہ بینک کی جاب ہے۔۔؟” "جی پھپو”۔”بس آپ کے چاند میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تاریکی چھائی رہتی ہے "۔ رامین نے ارسہ کے کان میں سرگوشی کی جو پور ی توجہ سے دوسری طرف کی بات سننے میں مصروف تھی ۔۔ مہرالنساء۔ "میں نے انکار ہر گز نہیں کیا میں منگنی کرنے کو تیار ہوں لیکن شادی منتہیٰ کے ماسٹرز کے بعد ہی ہوگی "۔

    فاروق صاحب نے بات سنبھالنے کی آخری کوشش کی ۔ "بھائی انکار اور کیسا ہوتا ہے ؟ آپ جوان بیٹی کو لاہور ہاسٹل بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔”غضب خدا کا۔ میرا تو پورا سسرال ایسی لڑکی کو کبھی قبول نہیں کرے گا "۔ "کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہوں "۔مہرالنساء کی قینچی جیسی چلتی زبان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔وہ سوچ کر آئی تھیں کہ ہاں کروا کر ہی جائیں گی۔ سو فاروق صاحب کو مداخلت کرنا پڑی۔ "آپ سب لوگ سن لیں کہ میں کوئی ایسا فیصلہ ہر گز نہیں کروں گا جس سے میری بیٹی کا مستقبل داؤ پر لگ جائے” ۔ پہلے تو میں منگنی کرنے پر تیار تھا لیکن اب میری طرف سے صاف انکار ہے ۔

    "میں اپنی بیٹی ایسے لوگوں میں قطعاٌ نہیں دوں گا جن کے لیئے اعلیٰ تعلیم باعثِ فخر نہیں بلکہ قابلِ ندامت ہے” ۔ فاروق فیصلہ سنا کر اپنے کمرے میں جا چکے تھے اور پورے گھرمیں قبرستان کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ "اور منتہیٰ اپنے کمرے میں بیڈ پر سر جھکائے گہری سوچوں میں غرق تھی "۔

    "کاش ہر مشرقی لڑکی کا باپ بیٹی کے مستقبل کا فیصلہ اپنی مجبوریاں سامنے رکھ کر کرنا چھوڑ دے ۔۔ لڑکی کے ماں باپ لڑکے اور اس کے گھر والوں کے دسیوں عیبوں کو نظر انداز کر تے ہوئے جب ہاں کرتے ہیں تو اُن کے پیشِ نظر صرف ایک یقین ہوتا ہے کہ اُن کی بیٹی ہر دکھ جھیل کر ان کا سر جھکنے نہیں دیگی ۔۔بیٹیاں نہ زحمت ہوتی ہیں نہ بوجھ پھر بھی ناجانے کیوں ماں باپ انکی خواہشوں، امنگوں اور سب سے بڑھ کر اُن کی صلاحیتوں کے بر خلاف جلد بازی میں فیصلے کر کے اِنہیں عمر بھر کا وہ روگ لگا دیتے ہیں جو لا علاج ہے ۔ وہ سسکتی ، بلکتی ، رلتی کولہو کا بیل بن کر گھر ، شوہر ، اولاد اور سسرال کی خدمتوں میں ساری عمر بتا دیتی ہیں پھر بھی سسرال میں کوئی عزت و قد ر نہیں ہوتی ، شوہر کی محبت اور توجہ کو ترستی بلآخر قبرمیں جا سوتی ہیں”۔ "ہمارے معاشرے کی یہ بے جوڑ شادیاں دراصل وہ پنجر ہ ہیں جن میں ایک دفعہ قید ہوجانے والی معصوم لڑ کی کا پروا نۂ آزادی پھر موت ہی لیکر آ تی ہے "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ارمان یوسف کی مردانہ وجاہت اور گریس فل شخصیت اسے ہر جگہ صنفِ نازک کی توجہ کا مرکز بنا دیتی تھی ۔۔ لیکن اِس حوالے اُس کا کیریئر بے داغ تھا ۔ حسن اُسے اَٹریکٹ ضرور کرتا تھا لیکن اُس سے بڑھ کر اسے مخالف صنف کی ذہانت اور کیریکٹراپیل کرتا تھا ۔ وہ پریوں کے ہجوم میں گھرا ہوا وہ شہزادہ تھا جس کے من کو کوئی بھا تی ہی نہ تھی ۔۔ یونیورسٹی کی الٹرا ماڈرن لڑکیاں تو اسے چلتا پھرتا شادی کا اشتہار لگا کرتی تھیں جو ہر اُس لڑکے کے ساتھ دوستی ، افیئر اور ڈیٹنگ پر آ مادہ تھیں جس کے پاس وہ نیوماڈل کی کار ، گلیکسی ایس ۷ یا آئی کور ۹ جیسے سیل فونز اور کریڈٹ کارڈز سے بھرے ہوئی والٹ دیکھ لیتی تھیں ۔ منتہیٰ کے فیس بک گروپ میں ارمان کو کسی فرینڈ آف فرینڈ نے ایڈ کیا تھا ، اُس کی دوستوں کا خیال تھا کہ جس کسی نے بھی کیا ،،کارِ خیرکیا ۔۔۔

    "اس قدر ڈیشنگ سا بندہ ہے ، یار منتہیٰ تیرے پاس تو دل ہی نہیں ہے۔” "یمنیٰ ڈیئر دل ، گردے ، کلیجی ، پھیپڑے وغیرہ الحمداللہ سب موجود ہیں "۔ "لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرا دل پمپنگ کا وہی مخصوص کام کرتا ہے جس کے لیئے خدا نے اِسے بنایا ہے اور تم دیکھنا کہ اِس کی لائف ٹائم تم سب کے دلوں سے زیادہ ہوگی کیونکہ یہ فضول کاموں میں پڑ کر اپنی انرجی ضائع نہیں کرتا "۔ ہمیشہ کی طرح لوجیکل اورٹو دی پوائنٹ جواب حاضر تھا۔۔ جس پراُس کی فرینڈز سر پیٹ لیا کرتی تھی ۔۔ "یار مینا بندے کو اتنا بھی پریکٹیکل نہیں ہونا چاہیے کہ عین جوانی میں ساٹھ سال کا کوئی خبطی پروفیسر لگنے لگے "۔۔ ہونہہ

    "یہ فاریہ تھی منتہیٰ کی بیسٹ فرینڈ ۔” ارے ہاں۔ "خبطی پروفیسر سے یاد آیا کہ یہ جو ارمان یوسف ہے نہ اس کے والدِ بزرگوار پنجاب یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں سینئر پروفیسر ہیں "۔ اور منتہی ٰ جو لائبریری جانے کے لیے اٹھنے ہی لگی تھی چند لمحوں کے لیئے اپنی جگہ منجمد ہوئی۔ "پنجاب یونیورسٹی اُس کی اگلی منزل”ارے واہ۔ "یہ تو کمال ہو گیا” ۔ چلو دیکھیں گے یہ تمہارے شہزادۂ گلفام کتنے پانی میں ہیں ، یہ ڈی پی کسی کی اُڑا کر نہ لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا ۔۔ منتہیٰ نے مضحکہ اُڑایا۔۔ ۔۔مینا "پہلی بات تو یہ کہ اُس بندے کی پروفائل ہرگز فیک نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ اُس نے ہمارے گروپ میں جگہ اپنی ذہانت سے بنائی ہے ورنہ تم جیسی خبطی ، سڑیل ایڈمن کب کی اسے کک آ ؤٹ کر چکی ہوتیں "۔۔ فاریہ نے اسے آئینہ دکھا یا ۔۔ لیکن فی الحال وہ کوئی آ ئینہ دیکھنے کے موڈ میں نہیں تھی سو برے برے منہ بناتی ہوئے لا ئبریری کی طرف قدم بڑھا دیئے ۔۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ٹاپ۔ ۱۲۰ آ ئی کیو رکھنے والی منتہیٰ دستگیر کے لیے کچھ غیر معمولی نہ تھا ۔۔ اگرچہ یہاں گزارے ہوئے چار سال اس کی زندگی کے بہترین سالوں میں سے تھے ۔۔ یہاں وہ سب کچھ سیکھنے کو ملا تھا جو ایک مضبوط عمارت کی بنیاد کے لیئے اشد ضروری ہوتا ہے ۔ "پاکستان کا تعلیمی نظام عموماٌ تنقید کی ضد میں رہتا ہے جس کی ایک بڑی وجہ وہ کالی بھیڑیں ہیں جو ہر شعبۂ زندگی کی طرح تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ” ۔”جن کا مقصدِ حیات نوجوان نسل کی اعلیٰ پیمانے پر تربیت کے بجائے صرف لوٹو، اور بینک بیلنس بناؤ ہے” ۔اِس کے با وجود دیکھنے میں آ یا ہے کہ "جو جینیئس مائنڈ ز دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے ہیں اُن کا تعلق معاشرے کے نچلے طبقے سے تھا "۔۔ "جنھیں ابتدائی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر میسر تھی لیکن ٹیلنٹ اپنی جگہ اور پہچان ہمیشہ خود بناتا ہے۔یہ گدڑی میں چھپے ہوئے وہ لال تھے جنھوں نے نا مساعد حالات کے باوجود ساری دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کیا ۔ اور پاکستان کے افق پر طلوع ہونے والے ’’ نیبیولہ‘‘ میں ایک ستارہ منتہیٰ دستگیر بھی تھی "۔ فاریہ کے بر عکس منتہیٰ پنجاب یونیورسٹی میں بھی وہ پہلے جیسی پر سکون ہی تھی ۔۔ اُسے نہ کلاسز شیڈول دردِ سر لگا تھا نہ لاہور کی شدید گرمی نے اُسم کے اوسان خطا کیئے تھے ۔۔حتیٰ کے ہوسٹل کے میس کا بیکار سا کھانا بھی وہ مطمئن ہوکر کھا لیا کرتی تھی ۔۔۔ جبکہ فاریہ کی سارا دن کمنٹری جاری رہتی تھی ، کبھی گھر کا کھانا ، کبھی آرام ، کبھی گھر والے حتیٰ کی اپنی پالتو بلی ’’میشا ‘‘بھی اُسے دن میں پچاس دفعہ یاد آتی اورہر دفعہ وفورِ جذ بات سے آنکھیں بھر آیا کرتی تھیں "۔

    جنھیں اب مینا مینڈک کے آ نسو ؤ ں سے تشبیہ دیاکرتی تھی، ہر وقت ٹر ٹر کرنے والی فاریہ کسی مینڈک سے کم بھی نہ تھی ۔۔ سکائپ اور واٹس اپ کے ذریعے گھر والوں سے مستقل رابطہ رہتا تھا ۔ منتہیٰ ہمیشہ سے کم گو رہی تھی مگر پہلی دفعہ گھر سے دوری پر اسے سب ہی بہت یاد آیا کرتے تھے۔ رات میں ابو بھی اُس سے تفصیلاٌ حال چال پوچھا کرتے تھے ۔۔ نئی جگہ پر جو بھی مسائل پیش آرہے تھے ابو کے پاس اُن کا فوری حل موجود ہوتا تھا ۔۔ فاروق صاحب نے اُسے ہاسٹل چھوڑتے وقت کوئی بہت لمبے لیکچرز نہیں دیئے تھے۔ مگر کچھ باتیں انہیں نے اس کے ذہن میں بٹھانا ضروری سمجھا تھا ۔

    "بیٹیاں ماں باپ کا مان بھی ہوتی ہیں اور فخر بھی ۔۔ یہی بیٹی اپنی تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے قدموں کو بہکنے سے بچاتی ہے” ۔۔ "ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ عورت کردار کے بغیر باسی روٹی کی طرح ہوتی ہے جسے ہر کوئی چھان بورے میں ڈال دیتا ہے ہر لڑکی کے لیے سب سے اہم اُسکا وقار ہے "۔ "عورت ذات کو اللہ تعالیٰ نے چھٹی حس اتنی تیز دی ہے کہ وہ کسی بھی مرد کی نظروں سے اپنے بارے میں اس کی نیت کو جان لیتی ہے یہ صلاحیت اللہ نے اُسے اِس لیے دی ہے کہ وہ جان سکے کہ کون اس کے لیے اچھا ہے اور کون برا ۔میں تمہارا باپ اپنی معصوم کلیوں کے لیے آخری حد تک حساس ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تمہاری منزل بہت آگے ہے۔ا ب تمہیں اپنی اور اپنے باپ کی عزت کی حفاظت اَز خود کرنی ہے ۔بہت سی رکاوٹیں تمہارے راستے میں آ ئیں گی، قدم قدم پر بھیڑیے تمہیں راستہ روکے ملیں گے ۔ لیکن ” میری جان ۔ "جو صرف اللہ پرکامل بھروسہ رکھتا ہے تو میرا رب اس کی ہر مشکل کو آسانی میں بدلنے کی قدرت رکھتا ہے۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "صدیوں پہلے جب نیوٹن نے یہ ثابت کیا تھا کہ حسابی مساواتوں کو حیرت انگیزطور پر اجسام کے زمین اور خلا میں باہمی تعلق کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو یہ امید ہو چلی تھی کہ مستقبل قریب میں کسی نئی سپیشل تھیوری اور انتہائی طاقتور اعداد و شمار کی صلاحیت کے ذریعے کائنات کے مستقبل کو آشکار کرنا ممکن ہوگا ۔وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ نئی تھیوریز سامنے آتی چلی گئیں اور آج انسان ٹیکنالوجیکل میدان میں بہت آگے نکل چکا ہے "نا نو ٹیکنالوجی "اور "آرٹیفیشل انٹیلیجنس” نے جیسے وقت کو انسان کی مٹھی میں قید کر دیا ہے "۔۔۔ اچانک منتہیٰ کی آواز آئی ’’ سر کیا میں بیچ میں بول سکتی ہوں؟؟‘‘ سر انور نے اپنی ناک پر ٹکی عینک کے پیچھے سے منتہیٰ کو گھورا۔۔ اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے وہ سر ہٹلر کے نام سے مشہورتھے کسی کی مجال نہیں تھی کہ لیکچر کے دوران مداخلت کرے، "مگر وہ منتہیٰ ہی کیا جو کسی کا رعب قبول کر لے”۔۔

    "وہ تم پہلے ہی کرچکی ہو ، آگے بولو "۔ انور سر کا پارہ بس چڑھنے کو تھا ۔ مگر منتہی ٰپر ان کی ناگواری کا کچھ خاص اثر نہیں ہوا تھا ۔۔ سر جیسا کہ آپ نے کہا۔ "کہ نئی تھیوریز اور ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی بھی حتمی طور پر انسان کو اُس کے مستقبل کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہے "۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ۔ "کیا ہم نے اپنا ماضی کو پوری طرح کھوج لیا ہے؟ ؟کیا انسان نے اپنے حال کو مکمل محفوظ اور پائیدار بنا لیا ہے؟؟ "

    "کیونکہ مستقبل پر کمندیں ڈالنے کا حق تو وہی رکھتے ہیں جن کی بھرپور نظراور گرفت اپنے ماضی وحال پر ہو” ۔۔ سر انور نے کچھ غور سے اِس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا ۔۔ "یس آج کا انسان اپنے ماضی سے کافی حد تک آگاہی حاصل کر چکا ہے ۔ یہاں تک کے وہ اُس سادہ ترین خلیے کی سا خت تک سے واقف ہے جس سے زمین پر زندگی کی ابتد ہوئی "۔۔ منتہا پھر بولی ۔۔ اور حال کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ماضی اور مستقبل کو جاننے کی جستجو میں انسان اپنے حال سے غافل ہو گیا ہے؟؟؟ "اسے اپنے ارد گردبھوک ، جہالت اور پسماندگی کی نچلی ترین سطح پر جیتے زمین کے باسی نظر نہیں آ تے ۔۔وہ اربوں ڈالراُس ماضی کی کھوج لگانے پر اُڑا رہا ہے۔۔ جس کی ایک جھلک وہ افریقہ میں ٹیکنالوجی کے نام سے نا بلد وحشی قبائل میں با آسانی دیکھ سکتا ہے "۔۔ "اِس سے پہلے کے ڈسکشن آگے بڑھتی پیریڈ ختم ہو چکا تھا "۔۔ لیکن کلاس سے جاتے ہوئے سر انور نے ایک گہری ستائشی نظر منتہیٰ پر ڈالی تھی ۔۔ ایک سو بیس کا آئی کیو رکھنے والی یہ لڑ کی ابتدا ہی سے سب اساتذہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکی تھی ۔جس طرح وہ لیکچر روم میں ہی نہیں مختلف سیمینارز اور ورک شاپس میں پوائنٹ اٹھایا کرتی تھی وہ سبجیکٹس پر اسکی گہری دسترس کی غماز تھی، ورنہ عموما ََ عسٹوڈنٹس اہم موضوعات کو سطحی طور پر سمجھ لیا کرتے ہیں لیکن منتہیٰ ہر چیز کو اس کی بنیاد سے سمجھنے کے لیے بلا جھجک سوال کیاکرتی تھی۔ "یار مینا کبھی اِن کتابوں کی بھی جان چھوڑ دیا کر”۔۔ "یہ دیکھ الحمراء میں سٹوڈنٹس کے آرٹس اور پینٹنگ کا مقابلہ ہو رہا ہے ۔اورانرولمنٹمیں صرف دو دن باقی ہیں "۔ لیکن جواب ندارد منتہیٰ اُسی تندہی سے اپنی اسائنمنٹ مکمل کرنے میں لگی رہی ۔۔ سو فاریہ کے پاس پلان ٹو تیار تھا ، مینا کی یونیورسٹی اور پرسنل ای میلز اُسکے علم میں تھیں۔۔ "چند ہی منٹ میں وہ منتہیٰ کی انرولمنٹ کروا کر چپس ٹھونگتے ہوئے الحمراء ایڈونچر کے تھرل کے بارے میں سوچ رہی تھی "۔۔ دو دن بعد ہاسٹل واپسی پر بڑا سا پارسل منتہیٰ کا منتظر تھا ۔

    وارڈن سے پارسل لیکر وہ یہ سوچ کر کمرے میں اٹھا لائی کے ارسہ اور رامین نے شائد کوئی گفٹ بھیجا ہو ۔ لیکن ۔ "اندر تو اس کی کچھ پینٹنگز تھیں جو وہ گھر پر فارغ وقت میں بنا یا کرتی تھی”۔ اگلے لمحے وہ تکیہ اٹھا کر فاریہ پر پل پڑی ۔۔” کمینی مجھے بتائے بغیر۔۔” "لینگویج پلیز میڈم "۔۔ فاریہ بگڑی ۔۔ "آپ کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ ما بدولت نے آپ کا قیمتی وقت بچاتے ہوئے یہ کارخیر سر انجام دیا "۔۔۔ہونہہ "ما بدولت کی بچی "۔۔ ‘اب تم الحمراء جانے کا کارِ خیر بھی خود ہی کر لینا سمجھیں ‘۔۔ میناکا تھکن سے برا حال تھا ۔۔ چند ہی منٹ بعد وہ گہری نیند میں تھی ۔ اور فاریہ پارسل کھول کر پینٹنگز کا جائزہ لینے میں مصروف تھی ۔ ایگزیبیشن کے لیے پینٹنگ جمع کروانے کا اگلے روز آخری دن تھا ۔۔ وہ پیریڈڈراپ کر کے الحمراء پہنچی۔۔ تو اُن کی توقع کے عین مطابق ریسیپشن پر خاصہ رش تھا ۔۔۔ مینا کو کوفت ہوئی۔ "فاریہ بس واپس چلتے ہیں بھاڑ میں جائے کمپی ٹیشن "۔۔ "اُف منتہیٰ تھوڑی سی دیر کی بات ہے ۔۔” کوئی آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد خیر سے اُن کی باری آئی ۔۔ پینٹنگ جمع کروا کر مینا اب تیزی سے نکلنے کو تھی کہ فاریہ کے قدم کچھ فاصلے پر کھڑے دو لڑکوں کو دیکھ کر تھمے۔ منتہیٰ نے اُسے غصے سے کھینچا ۔۔”فاریہ جلدی نکلو یہاں سے ۔۔” "مینا یار رک "۔۔وہ دیکھ سامنے جو بوائز کھڑے ہیں اُن میں سے ایک ارمان یوسف لگتا ہے ۔۔۔؟؟ "شٹ اپ "فاریہ ایک تو تم سارے مینرز بھلا کر بوائز کو اِس طرح گھور رہی ہو ۔۔ ارمان یا جاپان یوسف جو بھی ہو ۔ "جہنم میں ڈالو اور نکلو یہاں سے” ۔۔۔ مینا نے اُسے بری طرح گھرکا ۔۔

    منتہیٰ بی بی آ پ کو یاد ہے ایک دفعہ یو نیورسٹی میں آ پ نے کہا تھا ، "اگر یہ ڈی پی اِس نے کسی کی اڑا کر نا لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا” ۔ مینا نے فاریہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا ۔” ایک تو تمہیں پتا نہیں کب کب کی باتیں یاد رہتی ہیں ۔۔ ہونہہ ۔۔”تم چل رہی ہو یا میں اکیلی چلی جاؤں ۔۔؟؟ "تم باہر پانچ منٹ میرا انتظار کرو میں آتی ہوں”۔۔ اِس سے پہلی کہ منتہیٰ اُسے مزید گُھرکتی۔۔ فاریہ اعتماد سے قدم اٹھاتی اُن دولڑکوں کی طرف بڑھ چکی تھی جو اُن سے بے نیاز گفتگو میں مصروف تھے ۔۔ اور منتہی سینے پر ہاتھ باندھے محوِ تماشہ تھی۔۔ "اُسے سو فیصد یقین تھا کہ فاریہ کے ساتھ بہت بری ہونے والی ہے "۔۔۔ "ایکسکیوز می "۔۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو آپ ارمان یوسف ہیں ؟؟ کچھ حیرت سے فاریہ کو دیکھتے ہوئے اُس لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا "جی میں ارمان ہی ہوں”۔ سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں کیا ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں؟؟ "ہم”۔۔۔ لمبی سی ہم کرتے ہوئے فاریہ نے دور کھڑی محوِ تماشہ مینا کو معنی خیز مسکراہٹ سے نوازا۔۔ ایکچولی۔ بالواستہ تو یہ ہماری پہلی ملاقات ہے لیکن فیس بک پر ہم ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہیں ۔۔”میں فاریہ انعام ہوں”۔۔ ارمان نے دماغ پر زور ڈالا ۔۔ "یہ نام۔۔ فاریہ انعام "۔۔؟؟ "اور وہ جو کچھ فاصلے پر ایک لڑکی کھڑی ہے نہ وہ میری بیسٹ فرینڈ منتہیٰ دستگیر ہے "۔ اُسے سوچتا دیکھ کر فاریہ نے تیر چھوڑا۔ اور پھر لمحے ہی تو لگے تھے ارمان کو بوجھنے میں۔۔ اُس نے تیزی سے مڑ کراِس لڑکی کو دیکھا جو بظاہر دوسری طرف متوجہ تھی۔۔

    جاری ہے

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں ہیں؟

    کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں ہیں؟

    ماحول کو صاف رکھنے اور آلودگی سے بچانے کے لیے درخت لگانا بے حد ضروری ہیں لیکن اس سے قبل یہ علم ہونا ضروری ہے کہ کس علاقے کی آب و ہوا اور محل وقوع کے لحاظ سے کون سے درخت موزوں رہیں گے۔

    فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد طاہر صدیقی اس بارے میں نہایت مفید معلومات فراہم کرتے ہیں۔

    زرعی یونیورسٹی سے ہی تعلیم یافتہ پروفیسر طاہر صدیقی نے ملائشیا اور نیوزی لینڈ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ماحولیات اور شجر کاری کے موضوع پر ان کی 45 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔

    پروفیسر طاہر صدیقی کے مطابق درخت اپنی افزائش اور ساخت کے اعتبار سے مختلف زمینوں اور مختلف موسمی حالات میں مخصوص اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مخلتف درخت مخصوص آب و ہوا، زمین، درجہ حرارت اور بارش میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کیا درخت بھی باتیں کرتے ہیں؟

    مثال کے طور پر ٹھنڈے علاقوں کا درخت پائن گرم مرطوب علاقوں میں نہیں بڑھ سکتا۔ لہٰذا موسمی حالات و تغیرات درختوں کے چناؤ میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن کا ادراک ہونا بہت ضروری ہے۔

    اس کی ایک اور مثال کراچی میں لگائے جانے والے کونو کارپس کے درخت بھی ہیں۔ یہ درخت کراچی کی آب و ہوا سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔

    یہ درخت شہر میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    تاہم معلومات کی عدم فراہمی کے باعث کراچی میں بڑے پیمانے پر یہ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ صرف شاہراہ فیصل پر 300 کونو کارپس درخت موجود ہیں۔

    مزید پڑھیں: ان انوکھے درختوں کی کہانیاں سنیں

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

    پنجاب کے لیے موزوں درخت

    پروفیسر طاہر صدیقی کے مطابق جنگلات کے نقطہ نظر سے جنوبی پنجاب میں زیادہ تر خشک آب و ہوا برداشت کرنے والے درخت پائے جاتے ہیں۔

    آب و ہوا خشک ہے تو یہاں پر خشکی پسند درخت زیادہ کاشت کیے جائیں جو خشک سالی برداشت کرسکیں۔ یہاں بیری، شریں، سوہانجنا، کیکر، پھلائی، کھجور، ون، جنڈ، فراش لگایا جائے۔

    اس کے ساتھ آم کا درخت بھی اس آب و ہوا کے لیے نہایت موزوں ہے۔

    ان کے مطابق وسطی پنجاب میں نہری علاقے ہیں لہٰذا وہاں املتاس، شیشم، جامن، توت، سمبل، پیپل، بکاین، ارجن، اور لسوڑا لگایا جائے۔

    شمالی پنجاب میں کچنار، پھلائی، کیل، اخروٹ، بادام، دیودار، اوک کے درخت لگائے جائیں۔

    پروفیسر طاہر صدیقی کا کہنا ہے کہ کھیت میں کم سایہ دار درخت لگائیں، ان کی جڑیں بڑی نہ ہوں اور وہ زیادہ پانی استعمال نہ کرتے ہوں۔ سفیدہ صرف وہاں لگایا جائے جہاں زمین خراب ہو، یہ سیم و تھور ختم کر سکتا ہے۔ جہاں زیر زمین پانی کم ہو اور فصلیں ہوں وہاں سفیدہ نہ لگایا جائے۔

    اسلام آباد اور سطح مرتفع پوٹھو ہار کے لیے موزوں درخت

    پروفیسر محمد طاہر صدیقی کے مطابق خطہ پوٹھوہار کے لیے موزوں درخت دلو، پاپولر، کچنار، بیری اور چنار ہیں۔ اسلام آباد میں لگا پیپر ملبری الرجی کا باعث بن رہا ہے اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔

    اس کی جگہ مقامی درخت لگائے جائیں۔ زیتون کا درخت بھی یہاں کے لیے موزوں ہے۔

    سندھ کے لیے موزوں درخت

    سندھ کے ساحلی علاقوں میں پام ٹری اور کھجور لگانا موزوں رہے گا۔

    کراچی میں املتاس، برنا، نیم، گلمہر، جامن، پیپل، بینیان، ناریل اور اشوکا لگایا جائے۔ اندرون سندھ میں کیکر، بیری، پھلائی، ون، فراش، سوہانجنا اور آسٹریلین کیکر لگانا موزوں رہے گا۔

    بلوچستان کے لیے موزوں درخت

    صوبہ بلوچستان کے لیے موزوں ترین درخت صنوبر کا ہے۔ زیارت میں صنوبر کا قدیم جنگل بھی موجود ہے جو دنیا بھر میں صنوبر کا دوسرا بڑا جنگل ہے۔

    باقی بلوچستان خشک پہاڑی علاقہ ہے اس میں ون کرک، پھلائی، کیر، بڑ، چلغوزہ پائن، اور اولیو ایکیکا لگایا جائے۔

    خیبر پختونخواہ کے لیے موزوں درخت

    پروفیسر طاہر کہتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں شیشم، دیودار، پاپولر، کیکر، ملبری، چنار اور پائن ٹری لگایا جائے۔

    درخت لگانے کے لیے مزید ہدایات

    پروفیسر طاہر صدیقی کے مطابق

    اگر آپ اسکول، کالج یا پارک میں درخت لگا رہے ہیں تو درخت ایک قطار میں لگیں گے اور ان کے درمیان 10 سے 15 فٹ کا فاصلہ ہونا چاہیئے۔

    گھر میں درخت لگاتے وقت دیوار سے دور لگائیں۔

    آپ مالی کے بغیر بھی باآسانی درخت لگا سکتے ہیں۔ نرسری سے پودا لائیں، زمین میں ڈیڑھ فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔ اورگینک ریت اور مٹی سے بنی کھاد ڈالیں۔

    اگر پودا کمزور ہے تو اس کے ساتھ ایک چھڑی باندھ دیں۔ پودا ہمیشہ صبح کے وقت یا شام میں لگائیں۔ دوپہر میں نہ لگائیں اس سے پودا سوکھ جاتا ہے۔

    پودا لگانے کے بعد اس کو پانی دیں۔ گڑھا نیچا رکھیں تاکہ اس میں پانی رہیں۔

    ہر ایک دن بعد کر پانی دیں۔ پودے کے گرد کوئی جڑی بوٹی نظر آئے تو اس کو کھرپی سے نکال دیں۔

    اگر پودا مرجھانے لگے تو گھر کی بنی ہوئی کھاد یا یوریا فاسفورس والی کھاد اس میں ڈالیں لیکن یوریا کم ڈالیں ورنہ اس سے پودا سڑ سکتا ہے۔

    گھروں میں لگانے کے لیے شہتوت، جامن، سہانجنا، املتاس اور بگائن نیم کے درخت موزوں ہیں۔

    یہ مضمون ٹی آر ٹی اردو کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جس کی مصنفہ جویریہ صدیق ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب زمین چھٹی معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن یہ عمل جس تیزی سے واقع ہورہا ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے کہیں آگے ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے نتائج کے مطابق زمین کی 30 فیصد ریڑھ کی ہڈی والے جاندار جن میں مچھلیاں، پرندے، دیگر آبی حیات، رینگنے والے جانور اور کچھ ممالیہ جاندار شامل ہیں، کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں پیش کی گئی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دہائی تک کہا جارہا تھا کہ زمین پر جانوروں کے خاتمے کا عمل رونما ہونے والا ہے۔ اب خیال کیا جارہا ہے کہ یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور حالیہ تحقیق سے علم ہورہا ہے کہ اس عمل میں تیزی آچکی ہے اور اسے کسی طرح نہیں روکا جاسکتا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    تحقیق میں بتایا گیا کہ معدومی کے خطرے کی طرف بڑھتے ان جانداروں میں گوریلا، چیتے، بندر اور گینڈے وغیرہ شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ معدومی کا یہ عمل شروع ہوچکا ہے تو ایک اوسط اندازے کے مطابق ہر سال ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 2 جانداروں کی اقسام معدوم ہوجاتی ہے۔

    پناہ گاہوں کی تباہی

    ماہرین نے اس عظیم معدومی کی سب سے بڑی وجہ جانداروں کی پناہ گاہوں یا ان کے گھروں کی تباہی کو قرار دیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں جاری کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت گرم علاقے کے جانداروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ صدیوں سے اپنی رہائش کو چھوڑ کر نئی رہائش اختیار کریں۔

    ہجرت کا یہ عمل جانوروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور نئے ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باعث تیزی سے ان کی اموات واقع ہوتی ہیں۔

    پناہ گاہوں کی تباہی کی ایک اور وجہ دنیا بھر میں تیزی سے ہونے والی جنگلات کی کٹائی بھی ہے جس سے جنگلوں میں رہنے والے جانور بے گھر ہوتے جارہے ہیں۔

    گوریلا سمیت دیگر افریقی جانور مختلف افریقی ممالک میں جاری خانہ جنگیوں کی وجہ سے بھی خطرات کا شکار ہیں جس کے باعث ان کے غذائی ذخائر میں بھی کمی آرہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چین میں پانڈا کی شکل کا شمسی توانائی پارک

    چین میں پانڈا کی شکل کا شمسی توانائی پارک

    بیجنگ: چین کے شہر ڈٹونگ میں دنیا کے سب سے خوبصورت پانڈا پاور پلانٹ کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ ایک بڑے پانڈا کی شکل میں یہ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا ایک اہم مرکز بن جائے گا۔

    اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی معاونت سے بنایا گیا یہ سولر پارک چین کے قومی جانوروں میں سے ایک پانڈا کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔

    پانڈا سولر فارم چین کے چند بڑے ماحول دوست توانائی حاصل کرنے والے منصوبوں میں شامل ہے جو 250 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔

    فارم میں شمسی توانائی حاصل کرنے کے پینلز اس طرح سے لگائے گئے ہیں کہ فضا سے یہ ایک جائنٹ پانڈا معلوم ہوتا ہے۔

    چین میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مذکورہ چینی کمپنی پانڈا کی شکل کے مزید سولر فارم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔  فارم کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد یہاں سے بجلی کی ترسیل بھی شروع ہوجائے گی۔

    منتظمین کا کہنا ہے کہ پانڈا کی شکل کا سولر فارم نئی نسل کو ماحولیاتی بہتری کے لیے ماحول دوست توانائی کے ذرائع اور معدومی کے خطرے کا شکار جانور پانڈا کے تحفظ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔

    مزید پڑھیں: پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر

    یاد رہے کہ چین اپنی توانائی کی تمام ضروریات کوئلے سے پوری کرتا ہے جس کے باعث چین دنیا کے فضائی طور پر آلودہ ترین ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔

    چین کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک ہوچکی ہے کہ یہ ہر روز 4 ہزار افراد کی موت کا سبب بن رہی ہے جو آلودگی کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    چین سمیت دنیا بھر میں اب کوئلے اور دیگر فاسل فیولز کا استعمال کم کر کے آہستہ آہستہ توانائی کی ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کی جارہی ہیں جن میں سرفہرست شمسی توانائی کا استعمال ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زمین کو ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کے لیے صرف 3 برس باقی

    زمین کو ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کے لیے صرف 3 برس باقی

    دنیا بھر کے چوٹی کے ماہرین نے الرٹ جاری کردیا ہے جس کے مطابق اگر اگلے 3 برسوں میں موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کو قابو کرنے کے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو 3 سال بعد یہ پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لے گا اور اس سے بچاؤ نا ممکن ہوگا۔

    اقوام متحدہ کی سابق سربراہ برائے موسمیاتی تغیرات کرسٹینا فگیریس سمیت 6 ماہرین طب و سائنس نے جرنل نیچر میں ایک خط شائع کروایا ہے جس میں انہوں نے کلائمٹ چینج کے ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا ہے۔

    ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگلے 3 برس ہمارا اور ہماری زمین کے مستقبل کا تعین کریں گے۔

    مزید پڑھیں: زمین کی تباہی میں صرف 100 سال باقی؟

    خط میں کہا گیا ہے کہ اگر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر سنجیدہ اقدامات نہ شروع کیے گئے تو 3 سال بعد یہ ہمیں ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے گا۔

    ان کے مطابق 3 سال بعد خوفناک سیلاب اور شدید موسمی تغریات و تبدیلیاں ہماری زمین کا معمول بن جائیں گے جو دنیا بھر کی زراعت پر بدترین منفی اثرات کریں گے اور اس سے اربوں لوگ متاثر ہوں گے۔

    کرسٹینا فگیریس کے مطابق ’کلائمٹ چینج ایک ایسا عفریت بننے جارہا ہے جس سے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہوگی‘۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    ماہرین نے 3 سال بعد کلائمٹ چینج کے ممکنہ اقدامات کو ار ریورس ایبل ڈسٹرکشن کے نام سے پکارا ہے یعنی ایسے نقصانات جن کی تلافی، اور ان نقصانات کے وجوہات سے بچاؤ کسی صورت ممکن نہیں۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم سنجیدگی سے پیرس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے سنہ 2020 تک گرین ہاؤس یا زہریلی اور نقصان دہ گیسز کے اخراج میں کمی کر لیتے ہیں تو کلائمٹ چینج تو برقرار رہے گا، تاہم اس سے ہونے والے نقصانات کی شدت کم ہوجائے جن کی تلافی بہر صورت ممکن ہوگی۔

    :ماہرین نے کلائمٹ چینج کو شدید ہونے اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کرنے کے لیے کچھ تجاویز بھی دیں جن کے مطابق

    قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی، آبی یا ہوا کی توانائی کے استعمال کو مزید 30 فیصد تک بڑھایا جائے۔

    دنیا بھر کے مختلف شہروں اور ممالک میں فاسل فیول یعنی تیل، قدرتی گیس اور کوئلے کا استعمال کم کیا جائے اور اس کے لیے سالانہ 300 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ کم کرنے کے طریقے

    الیکٹرانک گاڑیوں کی تیاری و فرخت میں 15 فیصد اضافہ کیا جائے تاکہ گاڑیوں سے نکلنے والے زہریلے دھوئیں میں کمی کی جاسکے۔

    جنگلات کی کٹائی میں کمی کی جائے۔

    مختلف پیداواری شعبوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ماحول دوست اشیا کی پیداوار کریں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سائنس دانوں کے یہ خط شائع کرنے کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا چند روز قبل کیا جانے والا وہ فیصلہ ہے جس میں انہوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔

    ٹرمپ نے اس معاہدے کو امریکا کے لیے اقتصادی بوجھ قرار دیتے ہوئے امریکا میں کوئلے کی ڈرلنگ کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس سے قبل عہدہ صدارت پر براجمان ہوتے ہی انہوں نے سابق صدر اوباما کے تمام ماحول دوست منصوبوں کو منسوخ کردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھارت میں قرآنی آیات کا حوالہ دے کر درخت لگانے کی ترغیب

    بھارت میں قرآنی آیات کا حوالہ دے کر درخت لگانے کی ترغیب

    بھارت میں یوں تو مسلمانوں سے نفرت کے واقعات میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہے تاہم انتہا پسند وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے احکامات کے بعد سرکاری حکام مجبوراً قرآنی آیات کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے۔

    چند روز قبل عالمی یوم ماحول کے موقع پر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران لوگوں کو درخت لگانے پر زور دیا۔

    اس موقع پر انہوں نے ریاستی محکمہ جنگلات کی جانب سے شائع شدہ ایک پمفلٹ بھی پڑھا جس میں اسلام سمیت مختلف مذاہب سے منسوب درختوں کے بارے میں لکھا گیا تھا۔

    یوگی کا کہنا تھا کہ دنیا کے تمام مذاہب تحفظ ماحول اور شجر کاری کا درس دیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: طالبان کی لوگوں کو درخت لگانے کی تاکید

    یوگی کی اس تقریر کے بعد محکمے نے مذکورہ پمفلٹس کو مزید بڑی تعداد میں شائع کروا کے پوری ریاست میں بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ہر مذہب کے لوگوں میں درختوں کے تحفظ اور نئے درخت اگانے کا شعور پھیلایا کیا جاسکے۔

    ان پمفلٹوں میں نہ صرف قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے بلکہ دیگر مذہبی کتب جیسے انجیل، سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب، ہندوؤں کی وید اور بدھوں کی مقدس کتب سے حوالے دیےگئے ہیں جن میں درختوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

    پمفلٹ میں لکھا گیا ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے تلسی، انجیر، کھجور، زیتون، انگور، انار، پیلو (جس سے مسواک بنائی جاتی ہے) مہندی اور ببول کا ذکر کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ان انوکھے درختوں کی کہانیاں سنیں

    علاوہ ازیں دیگر مذاہب سے منسوب درختوں کے بارے میں بھی بتایا گیا جیسے انجیل میں انجیر، شہتوت، کھجور، انگور، ایلو ویرا وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ پمفلٹ کے مطابق حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا ؑ نے ممنوعہ پھل کھانے کے بعد انجیر کے پتوں سے اپنے بدن کو ڈھانپا تھا۔

    اسی طرح بدھ مذہب کی کتاب میں آم، پیپل، جامن، ریٹھا اور شیشم کے درختوں کا ذکر ہے اور پمفلٹ کے مطابق یہ درخت گوتم بدھا کے باغ میں موجود تھے۔

    محکمے کو امید ہے کہ ان پمفلٹس کی تقسیم کے بعد لوگ ماحول کی حفاظت بھی اپنے ایمان کی طرح کریں گے اور اسے ایک مقدس مذہبی فریضہ جانیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گوئٹے مالا کی خوبصورت جھیل بنجر زمین میں تبدیل

    گوئٹے مالا کی خوبصورت جھیل بنجر زمین میں تبدیل

    گوئٹے مالا سٹی: وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا میں اٹسٹمپا نامی خوبصورت جھیل موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث بنجر زمین میں تبدیل ہوگئی اور اب خشک پتھریلی زمین وقت کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔

    یہ جھیل کلائمٹ چینج کے تباہ کن اثرات کا ناقابل تردید ثبوت ہے جو کسی زمانے میں اس علاقے کا حسن تھی۔

    پہاڑوں کے دامن میں پھیلی نیلے پانیوں کی یہ خوبصورت جھیل آہستہ آہستہ مر رہی ہے۔ اس جھیل میں جن 2 دریاؤں سے پانی آتا تھا وہ دریا سکڑ چکے ہیں جس کے باعث جھیل کو پانی کی فراہمی بے حد کم ہوچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    گوئٹے مالا کا یہ علاقہ کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے گزشتہ برس خشک سالی کی زد میں رہا جس نے پانی کے ان ذخائر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

    یہ حصہ ایل نینو کی وجہ سے بھی متاثر ہوا جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    گوئٹے مالا اور جنوبی و وسطی امریکا کے کئی ممالک کا ساحل بحر الکاہل سے متصل ہے جس کے باعث یہ ممالک ایل نینو سے خوفناک حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

    ذریعہ روزگار بھی تباہ

    گوئٹے مالا کی ان جھیلوں اور دریاؤں نے خشک ہو کر اس علاقے کے ذریعہ روزگار کو بھی ختم کردیا ہے۔ یہاں 3 مرکزی ذرائع روزگار تھے جو براہ راست آبی ذخائر سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ایک ماہی گیری، یہاں کے لوگ ان دریاؤں سے مچھلی پکڑ کر روزگار کماتے تھے۔ دوسرا زراعت، جس کے لیے پانی انہی دریاؤں سے آتا تھا۔

    تیسرا ذریعہ روزگار یہاں کی سیاحت تھا۔ خشک ہونے والی خوبصورت جھیل اپنے مسحور کن محل وقوع کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی جو علاقے کی معیشت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتے تھے۔

    تاہم کلائمٹ چینج کے ان اثرات نےمقامی آبادی کے ذرائع روزگار کو ختم کر کے انہیں غربت کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔

    حکومت کی جانب سے مقامی آبادی کو یہاں سے منتقل ہونے پر زور دیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دیا مرزا کا ماحول دوست گھر

    دیا مرزا کا ماحول دوست گھر

    پرہجوم اور بڑے شہروں میں رہتے ہوئے فطرت سے قریب ہونا ایک مشکل کام ہے، تاہم اب آہستہ آہستہ لوگوں میں فطرت کی اہمیت اجاگر ہورہی ہے جس کے بعد اب وہ اپنے گھروں کو زیادہ سے زیادہ ماحول دوست بنانا چاہتے ہیں۔

    اس کی سب سے بہترین مثال بالی ووڈ اداکارہ دیا مرزا نے پیش کی جب ایک ویڈیو انٹریو میں انہوں نے اپنے گھر کی سیر کروائی۔

    ان کے گھر میں جا بجا فطرت کے نظارے موجود ہیں اور وہ اپنے روزمرہ کے کاموں کے لیے ماحول دوست اقدامات کرتے ہوئے فطرت سے قریب رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔

    ویڈیو میں سب سے پہلے دیا مرزا اپنے گھر کی 2 خوبصورت سرسبز بالکونیوں سے متعارف کرواتی ہیں۔ دیا کے مطابق یہ بالکونیاں نہ صرف ان کے گھر کو ٹھنڈا رکھتی ہیں بلکہ یہاں پر پرندوں کے آنے کا سبب بھی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’لوگ شکایت کرتے ہیں کہ شہر میں بھوری چڑیائیں نہیں رہیں، ان کی آبادی کم ہوگئی ہے۔ لیکن میں نے اپنی بالکونی میں ان کے لیے دانہ اور پانی رکھا ہے جس کے بعد اب یہ بڑی تعداد میں یہاں آتی ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی

    انہوں نے بتایا کہ چڑیاؤں کو پانی رکھنے کے لیے وہ مٹی کے کونڈے استعمال کرتی ہیں جن کے باعث سخت دھوپ میں بھی پانی ٹھنڈا رہتا ہے۔

    دیا کے مطابق ان کی سرسبز بالکونی میں صرف چڑیائیں ہی نہیں، مزید کئی پرندے اور تتلیاں بھی آتی ہیں۔

    بعد ازاں دیا گھر کے اندر اپنے فرنیچر سے متعارف کرواتی ہیں۔ دیا نے اپنے پرانے فرنیچر کو دوبارہ رنگ و روغن کروا کر نیا بنا لیا ہے اور اب وہی ان کے گھر کا حصہ ہے۔

    دیا اور ان کے شوہر ساحل نے دروازوں میں استعمال کی جانے والی پرانی لکڑی کو تراش کر اس سے ایک خوبصورت الماری بھی بنوائی ہے۔ اس طرح انہوں نے کٹے ہوئے درختوں کو ضائع ہونے، اور نیا فرنیچر بنانے کے لیے نئے درخت کٹنے سے بچا لیے۔

    دیا مرزا کا کچن

    خوبرو اداکارہ دیا مرزا کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے کچن سے ماحول کے لیے تباہ کن پلاسٹک کا صفایا کردیا ہے۔

    انہوں نے پلاسٹک کی بوتلوں کی جگہ شیشے اور چکنی مٹی سے بنے ہوئے کنٹینرز اور بوتلیں استعمال کرنا شروع کردی ہیں۔

    اسی طرح وہ کچرا پھینکنے کے لیے بھی پلاسٹک کے سیاہ تھیلوں کے بجائے پرانے اخبارات استعمال کرتی ہیں۔

    خشک اور گیلے کچرے کو الگ کر کے وہ گیلے کچرے کو کھاد بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں جو ان کے گھر کے پودوں کی نشونما میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

    دیا مرزا کو پانی ضائع کرنا بہت برا لگتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’جب میں پانی کو ضائع ہوتا دیکھتی ہوں تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے‘۔

    انہوں نے گھر کے ٹینکوں کو بہنے سے بجانے کے لیے وہاں آٹو میشن سسٹم نصب کردیا ہے۔ جیسے ہی ٹینک بھر جاتا ہے، سسٹم کی روشنی جل اٹھتی ہے اور یوں فوری طور پر نلکا بند کردیا جاتا ہے۔

    آخر میں دیا بوگن ویلیا کے ایک خوبصورت پودے سے ملواتی ہیں جس کی کھاد میں ان کے پالتو کتے کی راکھ شامل ہے۔

    وہ کہتی ہیں، ’اس بوگن ویلیا کو دیکھ کر مجھے اپنا سلطان (کتا) یاد آجاتا ہے اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہے‘۔

    آپ کو کیسا لگا دیا مرزا کا ماحول دوست گھر؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔