Tag: Ernest Hemingway

  • نوبیل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگوے کا تذکرہ

    نوبیل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگوے کا تذکرہ

    ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے باقاعدہ بگل بجا کر شادمانی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا بیٹا بڑا ہو کر کہانی کار بنا اور اسے دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔ وہ نوبیل انعام کا حق دار ٹھیرا لیکن اس کی زندگی کا انجام بڑا دردناک ہوا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے خود کُشی کی تھی۔

    افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس ناول نگار کے والد ہی نہیں‌ دادا کی موت بھی طبعی نہ تھی۔ انھوں نے بھی اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے 2 جولائی 1961ء کو خودکُشی کی جب وہ 61 برس کے تھے۔ وہ ایک ناول نگار اور صحافی کی حیثیت سے دنیا میں‌ مشہور تھے۔

    شہرۂ آفاق ادیب ارنسٹ ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معزّز اور تعلیم یافتہ خاندان کے فرد تھے۔ ان کا گھرانہ فنونِ لطیفہ کا شیدائی تھا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ ہیمنگوے کی ماں گریس اپنے قصبے کی ایک مشہور گلوکار اور موسیقار تھی۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔

    ہیمنگوے کے والد کو سیر و سیّاحت کے شوقین تھے۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی اکثر پُرفضا مقامات کی سیر اور شکار کی غرض سے اپنے ساتھ لے جاتے۔ ہیمنگوے نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے والد ہی سے سیکھا۔ انھیں شروع ہی سے فطرت کو قریب سے دیکھنے اور جنگلی حیات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور اس کی جھلک بعد میں‌ ان کی تحریروں میں نظر آئی۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنی تخلیقی صلاحیت کی بدولت نہایت خوبی سے اپنی مختصر کہانیوں اور ناولوں‌ میں شامل کیا اور قارئین کو متأثر کرنے میں کام یاب رہے۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا اور اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا، اس کی بدولت انھیں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کے طور پر ملازمت مل گئی۔ یہاں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو معیاری کام اور عمدہ تحریر کو سمجھنے اور لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری کا موقع ملتا رہا۔ وہ ایک ایسے صحافی اور لکھاری تھے جو کھیل کود اور مہم جوئی کے دلدادہ تھے جس نے ان کی تحریروں کو دل چسپ اور قابلِ توجہ بنا دیا۔ انھیں‌ ادب کے مطالعے کے ساتھ اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، اس کا پیشہ ورانہ سفر میں‌ بہت فائدہ ہوا۔ ہیمنگوے نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضمون نویسی کرتے رہے جس نے انھیں‌ پہچان دی۔ 1921ء میں ان کی شادی ہوئی اور وہ پیرس منتقل ہوگئے جہاں ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائیوں نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

    پیرس میں‌ وہ اپنے وقت کے باکمال ادیبوں اور شعرا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے جن میں‌ شہرۂ آفاق ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس بھی شامل ہیں۔ اس حلقۂ ادب میں رہتے ہوئے ہیمنگوے کو اپنی تحریروں پر داد پانے اور حوصلہ افزائی کے ساتھ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگے جن کی اشاعت نے ہیمنگوے کو پیرس اور اپنے وطن امریکہ میں بھی کہانی کار کے طور پر پہچان دی۔ وہ 1926ء میں اپنا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر لائے جو ان کی مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ہیمنگوے کا ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا اور قارئین نے انھیں‌ بہت سراہا۔ ہیمنگوے نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر کیا اور وہاں‌ قیام کے دوران بھی انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیوں سے سجاتے رہے۔ انھیں فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ایک ناول پر نوبیل انعام دیا گیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کا ناول فیئر ویل ٹو آرمز بھی بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ اردو زبان میں‌ ناول کے شائقین تک پہنچے اور انھیں‌ بہت سراہا گیا۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ انھوں نے ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی، اور اسی طرح شادیاں بھی۔ ہیمنگوے نے ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی حصّہ لیا۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کے شوقین تھے اور اسی کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    فطرت کے دلدادہ، مہم جوئی کے شوقین اور انگریزی ادب میں اپنی تخلیقات کی بدولت ممتاز ہونے والے ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں مشہور ہے کہ عام روش سے ہٹ کر جب وہ کچھ لکھنا چاہتے تو کھڑے ہوجاتے تھے۔ اگر آپ ادب اور فنونِ لطیفہ کے شائق ہیں تو یقینا مشہور تخلیق کاروں‌ کی بعض دل چسپ یا ناقابلِ فہم اور اکثر بری عادات، یا ان کے لکھنے اور مطالعہ کرنے کے انداز کے بارے میں‌ بھی کوئی تحریر ضرور نظر سے گزری ہوگی۔اسی طرح کسی تخلیقی کام کے دوران یہ ادیب اور شاعر کچھ خاص طور طریقے اپناتے تھے جن میں ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتے تھے کہ وہ ان کے سینے تک پہنچتا تھا۔ غالباً یہ ان کے لیے پُرسکون طریقہ اور یکسوئی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوگا۔ تاہم بعض‌ تصاویر میں وہ کرسی پر اسی طرح بیٹھے ہوئے ٹائپ رائٹر پر کام کررہے ہیں جیسا کہ عام آدمی کرتا ہے۔

    ارنسٹ ہیمنگوے اچھے نشانہ باز تھے یا نہیں‌، مگر ان کی بندوق سے نکلنے والی گولی کئی جانوروں کو شکار کرچکی تھی، کون جانتا تھا کہ ہیمنگوے ایک روز اپنی ہی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کرلیں گے۔

  • شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    مشہور ہے کہ ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے خوشی اور مسرت کا اظہار کرنے کے لیے باقاعدہ بگل بجا کر اپنے بیٹے کی آمد کا چرچا کیا تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے والد کی موت طبعی نہ تھی بلکہ انھوں نے خود کُشی کی تھی اور 1961ء میں آج ہی کے دن ان کے بیٹے نے بھی اپنی زندگی کا ختم کرلی۔ خود کشی کے وقت وہ 61 برس کے تھے اور انھیں ایک ناول نگار، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا تھا

    ارنسٹ ہیمنگوے شہرۂ آفاق تخلیق کار تھا جو 21 جولائی 1899ء کو پیدا ہوا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور ماں گریس ہال ہیمنگوے گلوکار اور موسیقار تھی۔ ماں باپ دونوں ہی تعلیم یافتہ اور نہایت قابل تھے اور ان کا شمار اپنے علاقے کے معزّزین میں‌ کیا جاتا تھا۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے نواحی علاقے سکونت پذیر تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے باپ کو سیر و سیّاحت کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے جانے لگا۔ اس نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے باپ ہی سے سیکھا اور اس دوران فطرت کو بہت قریب سے دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا جس کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

    طالبِ علمی کے زمانے میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو اسکول میگزین اور اخبار سنبھالنے کا موقع ملا اور اس کا یہ تجربہ گریجویشن کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کی ملازمت کے دوران بہت کام آیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے یہاں چند ماہ کے دوران اچھی تحریر اور مضمون نگاری کے سنہری اصول سیکھے۔ وہ ایک ایسا صحافی اور لکھاری تھا جو کھیل کود اور مہم جوئی کا بھی دل دادہ تھا اور مطالعے کے ساتھ اسے اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، ان کا اسے بہت فائدہ ہوا۔ اس نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضامین بھی لکھے۔ 1921ء میں شادی کے بعد وہ پیرس چلا گیا جہاں ادیبوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ بزم آرائیوں نے اسے بھی ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

    یہ ادیب اور شاعر اپنے وقت کی نادرِ روزگار اور باکمال شخصیات تھیں جن میں‌ ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس شامل ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے اس نے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور وہ شایع ہونے لگیں۔ 1926ء میں ارنسٹ ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آگیا جو اس کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا۔ اس نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر اور وہاں‌ قیام کیا اور اس دوران اپنے وسیع تجربات اور مشاہدات کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیاں‌ دیں جن کی بنیاد پر اس نے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ دنیا کا سب سے معتبر نوبیل انعام بھی حاصل کیا۔

    اس کا ایک ناول فیئر ویل ٹو آرمز خود اس کے دو عاشقانہ قصّوں اور ایک جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ وہ ناول ہیں جنھیں اردو زبان کے شائقین نے بہت سراہا۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے محبتیں‌ بھی کیں، شادیاں بھی اور متعدد ممالک میں قیام بھی کیا۔ اس دوران اس نے جنگ میں‌ بھی حصّہ لیا، تخلیقی سفر بھی جاری رکھا، سیرو سیاحت کے ساتھ تمام مشاغل بھی پورے کیے۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کا شوق رکھتا تھا اور اسی کھیل سے متعلق اس کا ایک ناول بھی منظرِ عام پر آیا جو بہت مشہور ہوا۔

    فطرت کے دلدادہ اور جہانِ ادب میں نام ور ارنسٹ ہیمنگوے کو اس لحاظ سے بدقسمت کہا جاسکتا ہے کہ والد کی طرح خود اس نے ہی گولی مار کر اپنی زندگی ختم نہیں کی بلکہ اس کی بہنوں نے بھی خود کشی کی تھی۔

  • معروف اداکاروں کا شجرہ نسب جان کرآپ حیران رہ جائیں گے

    معروف اداکاروں کا شجرہ نسب جان کرآپ حیران رہ جائیں گے

    فلموں میں کام کرنے والے اداکار یوں تو خود بے حد مشہور ہوتے ہیں اور لوگ کم ہی ان کے خاندانی پس منظر پر توجہ دیتے ہیں، کیونکہ ان کی اپنی شخصیت نہایت مضبوط اور چکا چوند سے بھرپور ہوتی ہے۔

    تاہم ہالی ووڈ کے کچھ اداکار ایسے بھی ہیں جو کسی نہ کسی مشہور شخصیت کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج ہم آپ کو ایسے ہی کچھ فنکاروں سے ملوانے جا رہے ہیں۔

    بریڈ پٹ

    معروف ہالی ووڈ اداکار بریڈ پٹ اور سابق امریکی صدر بارک اوباما آپس میں عزیز ہیں۔

    برطانوی اخبار گارجین کی ایک تحقیق کے مطابق یہ دونوں معروف شخصیات سنہ 1960 میں موجود ایک شخص ایڈون ہک کی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔

    جونی ڈیپ

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق امریکی اداکار جونی ڈیپ اور ملکہ برطانیہ الزبتھ دور کے کزنز ہیں۔

    دونوں کا تعلق برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ سوئم سے ہے جو سنہ 1327 سے 1377 تک برطانیہ کے حکمران رہے۔

    میڈونا

    امریکی گلوکارہ میڈونا اور برطانوی شاہی خاندان کے ولی عہد شہزادہ چارلس کی دوسری اہلیہ کمیلا پارکر ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

    جارج کلونی

    مشہور امریکی اداکار جارج کلونی اور امریکا میں سیاہ فاموں کو حقوق دلانے والے سابق صدر ابراہم لنکن بھی آپس میں رشتے دار ہیں۔

    جارج کلونی ابراہم لنکن سے اپنے اس تعلق سے بے خبر تھے حتیٰ کہ ابراہم لنکن کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم لنکن کی پروڈکشن ٹیم نے یہ تحقیق سر انجام دی۔

    رابرٹ پٹنسن

    مشہور فلم سیریز ٹوئیلائٹ کے اداکار رابرٹ پٹنسن رومانیہ میں 15ویں صدی کے ایک شہنشاہ ولاد سوئم سے تعلق رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس حکمران کو تاریخ میں ڈریکولا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو اپنے دشمنوں کو نہایت اذیت ناک طریقوں سے موت دیا کرتا تھا۔

    گویا ٹوئیلائٹ سیریز میں خون پینے والے ڈریکولا کا کردار ادا کرنے والے رابرٹ سچ مچ ڈریکولا کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

    سنڈی کرافورڈ

    امریکی اداکارہ سنڈی کرافورڈ انیسویں صدی کے مشہور امریکی مصنف ارنسٹ ہمنگ وے کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

    بروک شیلڈ

    امریکی ماڈل اور اداکارہ بروک شیلڈ فرانس کے بادشاہ ہنری چہارم کی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔