Tag: ESA

  • روس نے عالمی خلائی مرکز میں ہونے والی لیکج کو سازش قراردے دیا

    روس نے عالمی خلائی مرکز میں ہونے والی لیکج کو سازش قراردے دیا

    ماسکو: روس کے خلائی پروگرام کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی خلائی مرکز میں ہونے والی لیکج ممکنہ طور پر روسی خلائی پروگرام کو سپوتاژ کرنے کی سازش ہوسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی اسپیس ایجنسی کے چیف ڈمٹرے روگوزن کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پہنچنے والے روسی اسپیس کرافٹ میں ایک سوراخ کا انکشاف ہوا، جو کہ ڈرل سے کیا گیا ہے ۔

    ان کا کہنا تھا کہ’ممکنہ طور پر یہ سوراخ جان بوجھ کرکیا گیا ہے ، یا تو یہاں زمین پر، یا پھر اوپر خلا میں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ خلا بازوں نے اس سوراخ کو ٹیپ کی مدد سے بند کیا ہے، جس کے سبب پریشر میں معمولی کمی واقع ہورہی تھی تاہم اس سے خلا بازوں کی جان کوکوئی خطرات لاحق نہیں تھے۔

    ابتدا میں روسی ماہرین کی جانب سے خیال کیا گیا تھا کہ یہ سوراخ خلا میں تیرتے کسی انتہائی چھوٹے لیکن تیز رفتار پتھر نے کیا ہوگا تاہم باریک بینی سے جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ یہ سوراخ ڈرل کے ذریعے ہی کیا گیا ہے اورکرنے والے کے ہاتھ نازک یا کمزور تھے۔

    روسی اسپیس چیف نے اپنے ٹیلی وژن پیغام میں بتایا کہ ماضی میں بھی اس نوعیت کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم تحقیقات کررہے ہیں کہ یہ واقعہ ممکنہ طور پر زمین پر ہی پیش آیا ہوگا لیکن اس کا ایک رخ اور بھی ہے، خلا میں جان بوجھ کر مداخلت کرنا، یعنی یہ کام خلا میں بھی ممکن ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم ہرصورت واقعے کے قصوروار کو ڈھونڈ نکالیں گے کہ یہ ہمارے ادارے کی ساکھ کا معاملہ ہے۔ انہوں نےمزید بتایا کہ اسپیس شپ کے جس حصے میں سوراخ ہے، وہ حصہ خلابازوں کو زمین پر واپس لانے میں استعمال نہیں ہوگا سو خلابازوں کی زندگی کو کسی طرح کے خطرات نہیں ہیں۔

    یاد رہے کہ عالمی خلائی مرکز ان محدود ترین معاملات میں سے ایک ہے جہاں امریکا اور روس آپس تعاون جاری رکھتے ہیں ، چاہے سیاسی اختلافات کتنے ہی شدید ہوں اور واشنگٹن کی جانب سے ماسکو پر لگائی گئی پابندیوں کے بعد بھی تعاون جاری ہے۔

    اس وقت عالمی خلائی مرکز میں روس کے دو، ناسا کے تین اور یورپین اسپیس ایجنسی کا ایک خلا باز موجود ہے۔

  • خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ خیزتحقیق کرنے والے پاکستانی سائنس داں سے ملیے

    خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ خیزتحقیق کرنے والے پاکستانی سائنس داں سے ملیے

    پاکستانی نژاد جرمن سائنسداں ڈاکٹر نزیر خواجہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح پاکستان سے دیگر طالب علم بھی اسپیس سائنس کے میدان میں آگے آئیں اور ملک کا نام روشن کریں، ان کی حالیہ تحقیق نے خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔

    حال ہی میں ڈاکٹر نزیر خواجہ اور ان کی ٹیم نے ناسا ، یورپی اور اطالوی خلائی ایجنسی کے انتہائی مہنگے مشن ’کیسینی‘ سے حاصل شدہ ڈیٹا پر ثابت کیا ہے کہ مریخ کے ایک چاند ’انسلیداس ‘ پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی نشونما کے لیے درکار ہیں۔

    ان کی اس تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے ناسا نے گزشتہ ماہ اس کا باقاعدہ اعلان کیا جس کے بعد یہ ساری دنیا کے نشریاتی اداروں کی ہیڈلائن بن گئی۔ ڈاکٹر نزیر اور ان کے ساتھی فرینک پوسٹ برگ اس وقت سے ہی عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    پاکستان کے لیے فخر کا مقام یہ ہے کہ اس انتہائی بلند پایہ تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر نزیر خواجہ پاکستانی شہری ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیااور پھر وہیں خلائی تحقیق سے وابستہ ہوگئے۔

    پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں، اس نیٹ ورک کے قیام کا مقصد اسپیس سائنس میں دلچسی رکھنے والے طلبہ و طالبات کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے تربیت یافتہ رضا کار اگلے مرحلےمیں اسکولوں میں جاکر طالب علموں کی رہنمائی کریں گے کہ مروجہ روایتی مضامین سے ہٹ کر بھی طالب علموں کے پاس کئی مواقع موجود ہیں۔

    ڈاکٹر نزیر کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن سے حاصل کردہ ڈ یٹا پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ زحل کے چاند پر موجود سمندر میں بالکل ویسے ہی نمکیا ت پائے جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے سمندروں میں موجو د ہیں۔

    اے آروائی نیوز کے لیے خصوصی طور پر ریکارڈ کردہ ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر نزیر نے اپنی تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے زحل پر کوئی زندگی تلاش کرلی ہے بلکہ ہماری تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زحل کے چاند انسلیدس پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ اور یہ پہلی بار ہے کہ زمین سے باہر کسی مقام پرخلائی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو زندگی کے لیے سازگار حالات کے اتنے پختہ ثبوت ملے ہوں۔

  • پاکستانی سائنس داں نے زحل کے چاند پرزندگی کے آثاردریافت کرلیے

    پاکستانی سائنس داں نے زحل کے چاند پرزندگی کے آثاردریافت کرلیے

    پاکستانی نژاد جرمن سائنس داں ڈاکٹر نُزیر اوران کےہمراہ سائنسدانوں کی ٹیم نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ سیارہ زحل کے چاند پرزندگی کے آثارموجود ہیں، یہ تحقیق ناسا اوریورپی اسپیس ایجنسی اور اطالوی اسپیس ایجنسی کے مشترکہ مشن ’کیسینی‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا پرکی گئی ہے ۔

    سائنس کی دنیا کے موقر ترین جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی تحقیق پاکستانی سائنسداں ڈاکٹرنزیراورڈاکٹر فرینک پوسٹ بر کی سربراہی میں کی گئی ہے جس کے مطابق زحل کے برفیلے چاند’’انسیلیدس‘‘ پر زندگی کےلیے موافق حالات موجودہ ہیں۔

    نیچر نامی جریدے کا برقی عکس

    ناسا کے خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔

    یہ تحقیق یونی ورسٹی آف ہائیڈل برگ سے تعلق رکھنے والے نزیرخواجہ اورفرینک پوسٹ برگ کی سربراہی میں یورپین اسپیس ایجنسی میں کی گئی ہے ۔ تحقیق کے مطابق ہائیڈرو تھرمل وینٹس کے خلا میں تیرتے منجمد آمیزے کا جب تجزیہ کیا گیا تو اس میں نامیاتی مالیکیولز کے بڑے ٹکڑے پائے گئے جو کہ ارتقاء کے عمل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    ہائیڈرو وینٹس کا عمل

    اس حوالے سے ڈاکٹرپوسٹ برگ کا کہنا ہے کہ زحل کے چاند کےسمندروں میں جاری یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہماری زمین پر یہ عمل سمندروں کی تہہ میں جاری رہتا ہے اور اسی عمل کے نتیجے میں کرہ ارض پر اولین حیات کا وجود ہوا تھا۔

    ڈاکٹر پوسٹ برگ کی اس تحقیق میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر نزیر خواجہ ان کے شریکِ کار تھے اور دونوں ماہرین کے زیرِ نگرانی دنیا بھرکے نامور سائنسدانوں نے یہ تحقیق مرتب کی ہے۔

    ڈاکٹرنُزیربطور پاکستانی


    ڈاکٹر نزیر خواجہ کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔ انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔

    ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    اسلام آباد میں ڈاکٹر نزیر خواجہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے

    پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں

    بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔

    کیسینی جہاز کا سفر


    خیال رہے کہ کیسینی میں ایسے آلات موجود تھے کہ وہ خلا میں جس شے کا بھی معائنہ کرتا اس کا مکمل ڈیٹا یہاں امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کو موصول ہوجاتا تھا ۔ یہ جہاز چار ارب ڈالر کی لاگت سے خلا میں بھیجا گیا تھا جسے زحل تک پہنچنے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ اس نے زحل سے کئی کار آمد تصاویر اور ڈیٹا یہاں سائنسدانوں کو فراہم کیا تھا ۔

    خلائی جہاز کیسینی

    سنہ 2017 میں اس کا رخ زحل کی سطح کی جانب موڑ کر اسے تباہ کردیا گیا تھا ۔سائنس دانوں کے مطابق کیسینی کا مشن پورا ہوچکا تھا، اس کا ایندھن اختتام پر تھا ، جس کے بعد وہ ادھر ادھر بھٹکنے لگتا اس لیے اس جہاز کا تباہ ہونا بہتر تھا چنانچہ اسے زحل کے مدار میں داخل کردیا گیا۔

    ناسا کے مطابق اس مشن پر چار ارب ڈالر کی لاگت آئی اور تیرہ برس کاعرصہ لگا، اس کی رفتار ایک لاکھ 20 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور اسی رفتار سے یہ زحل کی سطح سے ٹکرانے کے لیے روانہ ہوا۔متوقع وقت پر جہاز کے سگنل آنا بند ہوگئے جس سے سائنس دانوں کو یقین ہوگیا کہ جہاز زحل سیارہ سے ٹکرا کر تباہ ہوچکا ہے۔