Tag: EU

  • بریگزٹ: تھریسامے دوبارہ مذاکرات کیلئے کوشاں، یورپی یونین کا انکار

    بریگزٹ: تھریسامے دوبارہ مذاکرات کیلئے کوشاں، یورپی یونین کا انکار

    لندن : یورپی یونین نے بریگزٹ معاہدے پر نئے مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب بریگزٹ پر مزید مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں گزشتہ روز بریگزٹ معاہدے پر ارکان پارلیمان نے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے سات میں سے دو ترامیم منظور کی ہیں۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایم پیز کی جانب سے بریگزٹ معاہدے پر دوبارہ گفت و شنید کے مشورے کے بعد وزیر اعظم تھریسامے یورپی یونین کے رہنماؤں سے دوبارہ مذاکرات کی امید کررہی ہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ 317 میں کل 301 ممبران پارلیمنٹ نے بریگزٹ مسودے میں آئرش بیک اسٹاپ کے معاملے کو تبدیل کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن یورپی یونین نے برطانوی وزیر اعظم سے طےشدہ معاہدے کے مسودے میں تبدیلی سے انکار کردیا ہے۔

    وزیر اعظم تھریسامے نے ایم پیز کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کے مسودے میں ترمیم کو مسترد کیے جانے کے بعد اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن کو معاملے پر گفتگو کی دعوت دی ہے۔

    وزیر اعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ ایم پیز کی اکثریت معاہدے کے ساتھ یورپی یونین سے انخلاء چاہتے ہیں لیکن معاہدے کے مسودے میں ترمیم آسان نہیں ہوگی۔

    سابق سیکریٹری امور برائے بریگزٹ امور ڈومینک راب نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یورپی یونین نے خود کہا تھا کہ ’بتائیں آپ کیا چاہتے ہیں‘۔

    ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ ہم نے بیک اسٹاپ کے معاملے پر عقل مندی سے نمایاں تبدیلیاں کرکے وزیر اعظم کے ہاتھوں کو مضبوط کیا تھا۔

    سابق سیکریٹری برائے بریگزٹ امور ڈومینک راب نے اصرار زور دیتے ہوئے کہا کہ معاہدے میں تبدیلی کی جاسکتی ہے ’سوال یہ نہیں ہے کہ یورپی یونین یہ کرسکتی ہے، بلکہ کیا وہ یہ کریں گے‘۔

    دوسری جانب سے یورپی یونین کے رہنما نے معاہدے پر مزید مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آئرش بیک اسٹاپ یورپی یونین سے انخلاء کے معاہدے کا حصّہ ہے‘ اور انخلاء کے معاہدے دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔

    یورپی یونین کونسل کے ایک ترجمان کے مطابق ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد ممکنہ اقدامات کے حوالے سے اپنے ارادے واضح کرے۔

    فرانسیسی صدر ایمینئول میکرون نے بھی بریگزٹ معاہدے پر گفتگو سے انکار کردیا ہے جبکہ آئرش وزیر خارجہ نے سیمون کوینی نے کہا ہے کہ ’ووٹنگ کے باوجود بیک اسٹاپ معاہدہ ضروری ہے‘۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    خیال رہے کہ دو ہفتے قبل بریگزٹ معاہدے پر پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہوئی تھی جس میں برطانوی حکومت کوشکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔حکومت کی شکست کے بعد اپوزیشن نے وزیراعظم تھریسا مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی پیش کی گئی تھی جوناکام رہی۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل برطانیہ کے سابق چانسلر اوسبورن نے کہا تھا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے۔

  • بریگزٹ : تھریسامے یورپی یونین سے بیک اسٹاپ مراعات کو محفوظ کریں، بورس جانسن

    بریگزٹ : تھریسامے یورپی یونین سے بیک اسٹاپ مراعات کو محفوظ کریں، بورس جانسن

    لندن : سابق وزیر بورس جانسن نے تھریسامے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کو محفوظ بنانے کیلئے شمالی آئرش بیک اسٹاپ کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمنٹ سے بریگزٹ ڈیل منظور کروائیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق سابق وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر ہم فریڈم کلوز (یورپی یونین کے شہریوں کو رکن ممالک میں بغیر ویزے کے سفر کی آزادی) برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تو یہ بریگزٹ کی اچھی خبر ہوگی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ایم پیز منگل کے روز وزیر اعظم تھریسامے کی ترمیم شدہ بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کریں گے، جو مستقبل میں بریگزٹ کی سمت طے کرے گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ آئرلینڈ کے ڈپٹی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ سخت بارڈر کو روکنے کےلیے بیک اسٹاپ میں کی گئی تبدیلی قابل قبول نہیں ہوگی۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کیلئے بیک اسٹاپ(اوپن بارڈر) ’انشورنس پالیسی‘ ہے، جس کے ذریعے یورپی یونین برطانیہ کے انخلاء کے بعد بھی شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رہے گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین اور برطانیہ کو یقین ہے کہ شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد قائم کرنا امن کے لیے خطرناک ہوگا لیکن بریگزٹ کے حامی ایم پیز بیک اسٹاپ پلان کو پسند نہیں کرتے۔

    بریگزٹ کے حامی ایم پیز کا خیال ہے کہ اگر بریگزٹ کے بعد ہی بیک اسٹاپ پلان رہا تو برطانیہ یورپی یونین سے انخلاء کے باوجود یورپی یونین کے قوانین میں بندھا رہے گا۔

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے انخلا کی مخالفت میں فیصلہ دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیے تھے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگنے کا خطرہ

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگ سکتا ہے، اندرونی خانہ جنگی ہوئی تو آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے، ہنگاموں سے نمٹنے کے لیے فوج کی مدد کے ساتھ کرفیو کا آپشن بھی زیر غور کررہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    یاد رہے کہ ایک روز قبل برطانیہ کے سابق چانسلر جارج اوسبورن کا کہنا ہے کہ یورپین یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے۔

  • دہشتگردوں کی مالی امداد کا الزام، سعودیہ بھی یورپی یونین کی فہرست میں شامل

    دہشتگردوں کی مالی امداد کا الزام، سعودیہ بھی یورپی یونین کی فہرست میں شامل

    برسلز/ریاض : یورپی یونین نے دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کا نام بھی شامل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کا نام بھی شامل کردیا ہے، یورپی یونین نے یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب سعودی عرب پر صحافی جمال خاشقجی کے بعد شدید عالمی دباؤ ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے ایجنسی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی مذکورہ فہرست میں سعودی عرب کے علاوہ افغانستان، شمالی کوریا، عراق، شام، اور ایران سمیت 16 ممالک شامل ہیں، ان ممالک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) مرتب کردہ نئے قوانین کے تحت شامل کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کمیشن کی جانب سے یہ قوانین گزشتہ برس تیار کیے گئے تھے لیکن اس فہرست میں رواں ہفتے ترمیم کی گئی ہے جس میں سعودی عرب کا نام شامل کیا ہے۔

    سعودی عرب کے حکام کی جانب سے یورپی یونین کمشین کے اقدام پر فوری کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق مذکورہ اقدامات سعودی حکومت کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کے باعث ریاست میں غیر ملکی سرمایہ متاثر ہوسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں : مائیک پومپیو کا دورہ سعودی عرب، جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق گفتگو ہوگی

    خیال رہے کہ سعودی صحافی اور کالم نویس جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں قتل کیا گیا تھا، جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے باعث ان کے ناقد تھے۔

  • بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    لندن: برطانیہ کے سابق چانسلر جارج اوسبورن کا کہنا ہے کہ یورپین یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے جارج اوس بورن کا کہنا تھا کہ اس وقت برطانیہ کو ’نوبریگزٹ‘ اور ’نو ڈیل‘ میں سے ایک کو چننا ہے، اورنوڈیل کو چننا ایسا ہی ہے جیسے آپ رشین رولٹ کھیل رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے ۔ یاد رہے کہ رشین رولٹ ایک ایسا کھیل ہے جو کبھی بھی نہیں کھیلنا چاہیے، اس مین ریوالور کے چھ میں سے پانچ خانے خالی رکھے جاتے ہیں اور ایک میں گولی ہوتی ہے۔ ریوالور بند کرکے گھمایا جاتا ہے اور بندوق چلانے والے کے پاس زیادہ سے زیادہ پانچ اور کم سے کم ایک موقع بھی ہوتا ہے ،لیکن بھیانک موت بالاخر مقدر ہوتی ہے۔

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    جارج اوس بورن کا مزید کہنا تھا کہ نو ڈیل کی صورت میں بندوق برطانیہ کی کنپٹی پر ہوگی لہذا ایسی کسی صورتحال سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

    ممبران پارلیمنٹ اس وقت برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی بریگزٹ ڈیل کے مدمقابل منصوبوں پر کام کررہے ہیں جن میں سے ایک بریگزٹ کو ملتوی کرنا بھی ہے ، جو کہ رواں سال 29 مارچ کو طے ہے۔

    دوسری جانب وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا ہے نو بریگزٹ کے نقصانات کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ کی گئی مجوزہ بریگزٹ ڈیل کو منظور کرلیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغیر ڈیل کے یورپین یونین سے انخلا ناممکن ہے۔

     یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کو بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے 15 جنوری کو ہونے والی ووٹنگ میں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    خیال رہے کہ نومبر 2018 میں وزیر اعظم تھریسامے اور یورپی یونین کے سربراہوں کے درمیان بریگزٹ معاہدے پر اتفاق ہوا تھا لیکن ایم پیز نے 230 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے معاہدے کو مسترد کردیا تھا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے نکلنے کےلیے بریگزٹ معاہدے کو منظور نہیں کیا تو 29 مارچ کو برطانیہ، یورپی یونین سے بغیر کسی ڈیل کے ہی نکلنے پر مجبور ہوگا۔

  • بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے کے بعد تھریسامے نے سیاسی رابطے تیز کردیے

    بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے کے بعد تھریسامے نے سیاسی رابطے تیز کردیے

    لندن: برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے کے بعد وزیراعظم تھریسامے نے یورپی رہنماؤں سے رابطے تیز کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے یورپی بلاک سے بھرپور حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی رابطے بڑھا دیے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تھریسامے نے یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک سمیت دیگر یورپی رہنماؤں سے ٹیلی فون پر رابطے کیے ہیں۔

    یورپی کونسل کے صدر نے ٹیلی فونک رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تھریسامے سے بریگرٹ ڈیل پر گفتگو سمیت مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال ہوا۔

    برطانوی وزیر اعظم نے یورپی کمیشن کے صدر جان کلاڈی جنکر اور ڈچ وزیر اعظم مارک رُٹے سے بھی رابطے کیے، اس دوران بریگزٹ اور تھریسامے کے خلاف برطانوی پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پر بھی گفتگو ہوئی۔

    بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے پر بڑا دکھ ہوا: صدر یورپین کمیشن

    خیال رہے کہ یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے پر برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے انخلا کی مخالفت میں فیصلہ دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیے تھے۔

    بریگزٹ ڈیل مسترد، ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا

    علاوہ ازیں یورپین کمیشن کے صدر جان کلاڈی جنکر کا کہنا تھا کہ بریگزٹ ہونے میں بہت کم دن رہ گئے ہیں ایسے میں برطانوی پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل مسترد کی جس پر بڑا دکھ ہے۔

  • برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بتا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں: تھریسامے

    برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بتا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں: تھریسامے

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بتا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی قوم سے خطاب کرتے ہوئے تھریسامے کا کہنا تھا کہ بطور وزیراعظم میری ذمےداری ہے کہ عوامی خواہش پرعمل کراؤں، تمام جماعتوں کو دعوت دیتی ہوں کہ آئیں مل کر مسئلے کا حل نکالیں۔

    انہوں نے کہا کہ بریگزٹ پر ریفرنڈم میں عوامی خواہشات کا احترام کیا جائے گا، اپوزیشن کے لیے بات چیت کے دروازے کھلے ہیں، آئیں بریگزٹ کا معاملہ ممکن بنائیں۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں، کل سے مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوں گی، ہم متحد ہوکر برطانیہ کے مستقبل کے لیے کام کریں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ لیبر پارٹی کے رویئے سے مایوسی ہوئی، حالات سے کس طرح مقابلہ کرنا ہے اسی بابت سوچ رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ آج روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد پر پارلیمنٹ میں بحث ہوئی، تحریک عدم اعتماد پر اراکین پارلیمنٹ کی ووٹنگ میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی حمایت میں 325 اور مخالفت میں 306 ووٹ آئے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے معاملے پر پارلیمان کا اعتماد کھودیا، ہاؤس آف کامنزنے بریگزٹ ڈیل مسترد کردی، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

  • بریگزٹ ڈیل مسترد، ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا

    بریگزٹ ڈیل مسترد، ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا

    برسلز : یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے پر برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو دارالعوام میں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا، پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے انخلا کی مخالفت میں فیصلہ دے دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا۔

    ڈونلڈ ٹسک نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ پر ٹویٹ کیا کہ اگر معاہدہ ناممکن ہے اور کوئی بھی ڈیل نہیں چاہتا، تو پھر کس میں یہ کہنے کی ہمت ہوگی کہ مثبت حل کیا ہے؟

    یورپی حکام اور سیاست دانوں کی جانب سے بریگزٹ ڈیل مسترد کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے پر بڑا دکھ ہوا: صدر یورپین کمیشن

    اس سے قبل یورپین کمیشن کے صدر جان کلاڈی جنکر نے کہا تھا کہ بریگزٹ ہونے میں بہت کم دن رہ گئے ہیں ایسے میں برطانوی پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل مسترد کی جس پر بڑا دکھ ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کے تیار کردہ بریگزٹ معاہدے کی مخالفت میں حکمران جماعت کے ہی 118 ایم پیز نے ووٹ دئیے جو برطانوی تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہے۔

    برطانوی پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ نے بریگزٹ کے عمل کو مزید مشکوک کردیا ہے جبکہ اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن نے تھریسامے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    دوسری جانب شکست کے بعد تھریسامے کا کہنا ہے کہ غیریقینی میں گزرنے والا ہر دن برطانیہ کو نقصان دے رہا ہے، اب بھی حکومت کو پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہے۔

    برطانوی وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہماری حکمت عملی 29 مارچ تک وقت گزارنا نہیں، 2 سال تک بریگزٹ ڈیل پر کام کیا، مستقبل سے متعلق سوچ رہے ہیں۔

  • نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    لندن: برطانیہ کا 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے نکلنا طے ہے او ر دونوں فریق اگر کسی معاہدے تک نہ پہنچ پائے تو برطانیہ اور ای یو 27 کے بیرون ملک مقیم باشندے شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔

    برطانیہ اور یورپی یونین ان دنوں ایک تاریخ سازمرحلے سے گزر رہے ہیں اور دونوں جانب سے اس پر ایک معاہدے کی کوشش کی جارہی ہے ، وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان ایک معاہدے کا مسودہ طے پاچکا ہے تاہم برطانوی پارلیمنٹ اس پر شدید تحفظات رکھتی ہے اورامکان ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل ہی برطانیہ کے انخلا کا وقت آجائے گا۔

    یورپی یونین سے ہونے والے معاہدے میں ای یو 27 ممالک میں رہائش پذیر برطانوی شہریوں کو اور برطانیہ میں رہائش پذیر یورپی شہریوں کو بریگزٹ کا عمل مکمل ہونے تک قانونی تحفظ ملے گا اور وہ ہیلتھ کیئر، ویزہ فری ٹریول اور ملازمتوں کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرسکیں گے تاہم اگر دونوں فریقین میں معاہدہ طے نہیں پایا تو پھر ان شہریوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں


    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    اس وقت 13 لاکھ برطانوی شہری یورپین یونین کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہیں جبکہ یورپی یونین کے 32 لاکھ شہری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ یہ تمام افراد یورپی یونین کے شہریوں کو حاصل تمام تر مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن اگر معاہدہ طے نہیں پاتا تو بریگزٹ کے ساتھ ہی ان کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ ماہرین اس صورتحال کو کھائی میں گرنے جیسا قرار دے رہے ہیں۔

    اگر بریگزٹ مسودہ برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہوجاتا ہے تو دونوں جانب کے شہری حالیہ سہولیات کو 31 دسمبر 2020 تک بلا تعطل حاصل کرسکیں گے اور اس دوران برطانیہ اور دیگر 27 یورپی ممالک اپنے ان شہریوں کے لیے معاہدے کرسکیں گے۔

    یورپی یونین نے بریگزٹ پر کوئی ڈیل نہ ہونے کی صورت میں متوازی منصوبے کے تحت طے کیا ہے کہ برطانیہ کے ان شہریوں کے ساتھ مہربان رویہ اپناتے ہوئے انہیں فی الفور عارضی رہائشی کی حیثیت سے نوازا جائے اور برطانیہ بھی اپنے ہاں مقیم یورپی شہریوں کے لیے ایسا ہی کرے۔

    چارٹ بشکریہ بی بی سی

    ساتھ ہی ساتھ یورپی کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ نو ڈیل کی صورت میں برطانوی شہریوں کو یورپ کے ممالک میں وقتی طور پر ویزہ فری رسائی دی جائے اور برطانیہ بھی ایسا ہی کرے، تاکہ شہریوں کے معمولات کسی صورت متاثر نہ ہوں۔

    اگر 29 مارچ تک دونوں فریق کسی معاہدے پر نہیں پہنچتے تو برطانوی شہری ، یورپین یونین میں ایسے ہی ہوجائیں گے جیسا کہ امریکا ، چین یا کسی بھی اور ملک کے شہری ہیں اور ان پر ’تیسرے ملک ‘ کے شہریوں والے قوانین کا اطلاق ہوگا، جب تک کہ کوئی دو طرفہ ایمرجنسی ڈیل طے نہ کرلی جائے۔

    وہ برطانوی شہری اس معاملے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو اپنے کام کے سلسلے میں متواتر ایک سے زیادہ یورپی ممالک کا سفر کرتےر ہتے ہیں اور انہیں اپنے یورپی مدمقابل افراد کی طرح ویزی فری انٹری کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔

    دوسری جانب یونین کے ممالک میں مقیم برطانوی شہریوں کو صحت کے معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ ابھی ایک انشورنس پالیسی پوری یونین میں نافذ العمل ہے تاہم بریگزٹ کے بعد انہیں برطانیہ اورہراس ملک کے لیے علیحدہ انشورنس لینا ہوگی جہاں کا سفر ان کے معمولات میں شامل ہے، یہی صورتحال یونین کے شہریوں کو بھی درپیش ہوگی جنہیں برطانیہ کا سفر کرنا ہوگا ، انہیں وہاں کی انشورنس الگ سے لینا ہوگی۔

    کل 15 جنوری کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والےمسودے پر ووٹنگ ہونے جارہی ہے اور اس کے بعد ہی یورپ میں ہونے والے اس تاریخ ساز عمل کے مستقبل کے خدو خال ابھر کے سامنے آسکیں گے۔

  • بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یعنی کہ یورپین یونین اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، مارچ 2019 میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرناطے ہوچکا ہے اورتاحال برطانیہ اور یورپی یونین اس حوالے سے کسی حتمی معاہدے پر دستخط نہیں کرپائے ہیں۔

    بریگزٹ مسودہ نامی دستاویز جسے برطانوی حکومت اور یورپی یونین کے اعلیٰ ترین دماغوں نے ماہ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد تیار کیا ہے، برطانیہ کی پارلیمنٹ اس پر راضی نہیں ہیں ، حد یہ ہے کہ خود حکومتی پارٹی کے کئی ارکان، جو کہ بریگزٹ کے حامی بھی ہیں ، تھریسا مے سے منحرف ہوچکے ہیں ۔

    یورپی یونین کا ماننا ہے کہ وہ اپنی جانب سے جس حد تک برطانیہ کو رعایت دے سکتے تھے ، وہ اسے بریگزٹ مسودے میں دی جاچکی ہے اور اس سے آگے ایک انچ بھی بڑھنا یورپ کے لیے ممکن نہیں ہے لہذا اب تھریسا مے کی حکومت اسی مسودے کو پارلیمنٹ سے منظور کروائے یا پھر برطانیہ’نوڈیل‘ کاراستہ اختیار کرے۔

    بریگزٹ ڈیل پر گزشتہ ماہ برطانوی پارلیمنٹ میں رائے شماری کی جانی تھی تاہم ممبران پارلیمنٹ کے تیور دیکھ کر تھریسا مے نے اسے ملتوی کیا اور اب یہ رائے شماری 15 جنوری کو منعقد کی جائے گی۔ اس دوران پارلیمنٹ میں برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتما د بھی لائی گئیں لیکن وہ اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے سالِ نو کے آغاز پراپنی تقریر میں ہاؤس آف کامنز کے ممبران سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مواہدے کی حمایت کرکے برطانیہ کو آگے بڑھنے کا موقع دیں، تاہم ممبران نے ان کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے جوابی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ووٹنگ سے پہلے اپنا پلان بی پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں کہ اگر ان کا مسودہ پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ آگے کیا لائحہ عمل اختیار کریں گی۔

    یورپی یونین کیا چاہتی ہے؟


    تھریسا مے اس معاملے پر یورپین یونین سے بھی اپیل کرچکی ہیں کہ بریگزٹ مسودے پر آئرش بارڈر کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازعے میں ان کی حکومت کو کچھ رعایت دی جائے لیکن یورپی بلاک کا اس معاملے میں ماننا ہے کہ وہ اس معاملے میں پہلے ہی بہت رعایت دے چکے ہیں اور اس سے زیادہ یورپی یونین کے بس میں نہیں ہے۔

     ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    جرمنی اور آئرلینڈ اس معاملے پر وہ سب کچھ کرچکے ہیں جو وہ کرسکتے ہیں تاہم کسی سیاسی اعلامیے کی گنجائش فی الحال موجود نہیں ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے صرف یقین دہانی ہی کرائی جاسکتی ہے کہ وہ آئرش بارڈر پر بیک اسٹاپ کو روکنے کے لیے 2021 تک تجاری معاہدے کو حتمی شکل دے دی جائے گی، لگتا نہیں ہے کہ یہ یقین دہانی برطانیہ کی ٹوری اور ڈیموکریٹ یونینسٹ پارٹی کو مطمئن کرپائے گی۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    لیبرپارٹی کی مشکلات


    دریں اثنا حکومتی جماعت یعنی کہ لیبر پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے لیے اس مسودے کی حمایت میں بے پناہ مشکلات ہیں۔ سیاسی اعشارئیے بتار ہے کہ ہیں لیبر پارٹی کے ارکان نے اگراس مسودے کی حمایت کی تو ان کے لیے آئندہ الیکشن میں اپنےلیے عوامی حمایت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے اس معاہدے پراپنی حکومت کوسپورٹ کیا تواس صورت میں وہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے حکومت سے ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار واپس لے لیں گے، جس کے سبب پارٹی قیادت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    معاشی افراتفری


    جہاں ایک جانب سیاسی میدان میں ہلچل مچی ہوئی ہے وہیں اس ساری مشق کے اثرات برطانیہ کی معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں ۔ سال 2018 کی آخری سہہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو صرف ایک فیصد رہی ہے ۔ پیداوار کرنے والے گزشتہ تیس سال کی تاریخ میں کارکنوں کے سب سے بڑے کال کا سامنا کررہے ہیں اور گھروں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    دوسری جانب اگر یورپی یونین اور برطانیہ بریگزٹ کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں کرپاتے ہیں تو شمالی آئرلینڈ میں حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کرنا پڑے گی جو کہ مسائل کا شکار برطانوی حکومت کے لیے ایک سنگین بوجھ ہوگا۔

    اب ہوگا کیا؟


    صورتحال یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ بریگزٹ مسودے پر رائے شماری کرنےجارہی ہے، سو اگر تھریسا مے کی حکومت مطلوبہ مقدار میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تب تو پھر تمام چیزیں منصوبے کے مطابق آگے بڑھیں گی، لیکن ا س کے امکانات فی الحال کم ہی ہیں۔

    دوسری جانب یورپی یونین اس وقت تک برطانیہ کو مسودے پر مزید کوئی رعایت دینے پر آمادہ نظر نہیں آرہا جب تک موجودہ مسودہ کم از کم ایک بار رائے شماری میں شکست سے دوچار نہ ہوجائے ۔ ووٹنگ کے نتائج پر ہی آگے کے حالات منحصر ہیں، اگر شکست کا مارجن سو ووٹ سے کام کا ہوا تو تھریسا مے کی حکومت کم از کم اس پوزیشن پر ہوگی کہ ایک بار پھر یورپی یونین سے رجوع کیا جائے اور مسودے کو کسی دوسرے تناسب کے ساتھ ایک بار پھر ووٹنگ کے لیے لایا جائے۔ لیکن اگر پہلی رائے شماری میں ہی بھاری اکثریت سے شکست ہوتی ہے یا دوسری بار بھی یہ مسودہ شکست سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یقیناً یورپ ایک بڑے بحران کا سامنا کرے گا۔

    اس معاملے میں کچھ بھی ممکن ہے کیبنٹ واک آؤٹ کرسکتی ہے، حکمت عملی میں مستقل تبدیلی لائی جاسکتی ہے، کسٹم یونین کی جانب پیش رفت بھی ممکن ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے ریفرنڈم یا پھر برطانیہ میں انتخابات کا انعقاد بھی ممکنات میں شامل ہے۔ آخرالذکردونوں صورتیں یورپی یونین کے آئین کے آرٹیکل 50 سے متصادم ہیں لہذا ان پریورپی یونین کی رضامندی لازمی ہوگی۔

    اب پندرہ جنوری کو ہونے والی ووٹنگ کا نتیجہ کچھ بھی آئے لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ اس کرہ ارض پر یورپ وہ خطہ ہےجو ماضی میں بات بات پر برسرِ پیکار ہوجایا کرتا تھا، آج اپنی تاریخ کے حساس ترین دور اور پیچیدہ ترین تنازعے کو بھی جمہوری طریقے سے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    برطانوی حکومت اپنے عوام کی رائے کا احترام کررہی ہے اور یورپی یونین برطانوی حکومت کو اس کے عوام کی جانب سے حاصل آئینی اعتماد کا احترام کرتے ہوئے بنا کسی جنگ و جدل کے برطانیہ کو دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ چھوڑنے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس وقت بھی جو تنازعات ہیں، وہ زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں اور امید ہے کہ 15 جنوری کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ان کا حل کیا نکلے گا۔

  • بریگزٹ معاہدہ برطانیہ کو سزا دینے کے لیے ہے، سیمی ولسن

    بریگزٹ معاہدہ برطانیہ کو سزا دینے کے لیے ہے، سیمی ولسن

    لندن: برطانیہ کی ڈپلومیٹک یونینسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کی بریگزٹ ڈیل سے یورپی یونین ، برطانیہ کو سزا دینے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ سے متعلق ڈی یو پی کے ترجمان اور بریگزٹ کے کٹر حامی سیمی ولسن نے خبردار کیا ہے کہ یورپین یونین برطانوی عوام کے جمہوری فیصلے کا احترام نہیں کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ’’ میرا خیال ہے کہ برطانوی عوام اب محسوس کررہے ہیں کہ یورپی یونین برطانیہ کے منتخب نمائندوں کی رائے کی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یورپی یونین نے بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ نہ ہماری وزیراعظم کی عزت کرتے ہیں، نہ ہی ہمارے اداروں کی، نہ ان کی نظر میں ہمارے جمہوری فیصلوں کی اہمیت ہے اور نہ ہی ہمارے عوام کی جنہوں نے ایک جمہوری عمل سے یہ فیصلہ لیا ہے‘‘۔

    انہوں نے یہ بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ ایسی صورتحال میں کسی دوستانہ معاہدے پر پہنچنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    سیمی ولسن نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے خواہش ظاہر کی جارہی ہے کہ وہ ہمیں بطور پارٹنر رکھنے کے خواہش مند ہیں ، لیکن یہ ڈیل ظاہر کررہی ہے کہ وہ ہمیں یورپین یونین سے علیحدگی کی سزا دیناچاہتے ہیں اور اس معاہدے سے انہیں ایسا کرنے میں آسانی رہے گی۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نے بریگزٹ ڈیل پر ممبران ِ پارلیمنٹ کے اعتراض کے بعد برسلز کا دورہ کیا تھااور یورپی یونین سے آئرش تنازعے کے مجوزہ حل پر قانونی معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جو کہ ناکام رہی تھی۔

    یورپی یونین کی جانب سے واضح کردیا گیا تھا کہ اب اس معاہدے کی کسی بھی شق پر مزید مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے اور برطانیہ کو من و عن اس پر عمل کرنا ہوگا۔ یادر ہے کہ آئندہ سال مارچ میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدہ ہونا طے شدہ ہے، جس کے لیے برطانوی عوام کی اکثریت نے ریفرنڈم میں ووٹ دیا تھا۔