Tag: European leaders

  • چین اور یورپی ملکوں نے بھی مصر کے غزہ منصوبے کی حمایت کردی

    چین اور یورپی ملکوں نے بھی مصر کے غزہ منصوبے کی حمایت کردی

    او آئی سی کے بعد چین اور یورپی ملکوں نے بھی مصر کے غزہ منصوبے کی حمایت کردی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں کہا مصر کی تجویز غزہ کی تعمیر نو کا حقیقت پسندانہ راستہ ہے، اس سے فلسطینیوں کی تباہ حال زندگیوں میں جلد اور پائیدار بہتری آسکتی ہے۔

     چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا غزہ فلسطینیوں کا ہے، اور وہاں امن کیلئے مصر کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں، مصرکے منصوبے کے تحت غزہ کی تعمیر نو پر تیریپن ارب ڈالر لاگت آئے گی اور فلسطینی بے گھر بھی نہیں ہوں گے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی تعمیر نو کیلئے فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کی تجویز دی تھی۔

    غزہ سے متعلق عرب لیگ منصوبہ

    الجزیرہ کے مطابق مصر کی تجویز کے مطابق جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کی حکمرانی کےلیے آزاد اور پیشہ ور فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں ایک عبوری مدت تک غزہ کے امور سنبھالے گی۔

    یہ کمیٹی انسانی امداد کی نگرانی اور غزہ کی مجموعی انتظامیہ کی ذمہ دار ہوگی، منصوبے کے تحت  پہلا مرحلہ تقریباً 6 ماہ پر محیط ہوگا، جبکہ اگلے دو مراحل مجموعی طور پر 4 سے 5 سال تک جاری رہیں گے۔

  • جرمن چانسلر و یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کون کررہا ہے؟ تہلکہ خیز انکشافات

    جرمن چانسلر و یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کون کررہا ہے؟ تہلکہ خیز انکشافات

    کوپن ہیگن : ڈینش میڈیا نے اپنی خفیہ ایجنسی پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل و دیگر یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کےلیے امریکا سے تعاون کا الزام عائد کردیا۔

    ڈنمارک کے ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی گزشتہ کئی برسوں سے جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور جرمن صدر فرینک والٹر سمیت متعدد یورپی رہنماؤں کی جاسوسی میں ملوث ہے۔

    ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ڈینش خفیہ ایجنسی ’ڈیفنس انٹیلی جنس سروس‘ (ایف ای) کی جانب سے 2012 سے 2014 تک امریکا کی ’قومی سلامتی ایجنسی‘ (این ایس اے) کی معاونت کےلیے یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کی گئی۔

    مقامی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ ڈینش خفیہ ایجنسی نے امریکی انٹیلیجنس کے کہنے پر جرمنی ، فرانس ، نیدرلینڈ، سویڈن اور ناروے کے عہدیداروں سے متعلق معلومات اکٹھا کرکے امریکی ایجنسی کے حوالے کیں۔

    میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 2015 میں ڈنمارک کی حکومت کو خفیہ ایجنسی کی جانب سے جرمن چانسلر و دیگر یورپی ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کا علم ہوگیا تھا، جس پر ڈنمارک نے 2020 میں خفیہ ایجنس کی قیادت کو برطرف کردیا۔

    واضح رہے کہ سن 2013 میں بھی جرمن چانسلر اور صدر سمیت یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کے الزامات سامنے آئے تھے۔

  • ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھیں گے، یورپی رہنماؤں کا عزم

    ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھیں گے، یورپی رہنماؤں کا عزم

    پیرس: امریکا کے اتحادی یورپی ملکوں فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی حکام کا کہنا ہے کہ فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے اعلیٰ حکام سے ملاقات طے پاگئی ہے، جس میں مستقبل میں معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھنے کے طریقے کار پر بات کی جائے گی۔

    مشترکہ بیان میں پانچوں ملکوں نے کہا ہے کہ انہیں امریکی فیصلے پر تشویش اور تحفظات ہیں، فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا کے نکلنے سے معاہدہ ختم نہیں ہوا بدستور برقرار ہے، فرانسیسی صدر ایرانی ہم منصب سے ٹیلی فون پر گفتگو کریں گے تاکہ معاہدے کے مستقبل پر بات چیت کی جاسکے۔

    فرانسیسی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ایران معاہدے میں درج شرائط کی پابندی کررہا ہے اور اس کے باوجود معاہدے سے امریکا کے نکلنے سے خطے میں عدم استحکام کا خدشہ ہے۔

    یورپی یونین کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے پر کاربند رہے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ جب تک ایران جوہری معاہدے پر عمملدرآمد کررہا ہے، اس پر وہ اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد نہ کی جائیں جو معاہدے سے قبل نافذ تھیں۔

    جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ٹرمپ کے اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ بالکل واضح نہیں کہ امریکی حکام کے ذہن میں معاہدے کے متبادل کے طور پر کیا چل رہا ہے۔

    امریکا کا قریب ترین یورپی اتحادی برطانیہ پہلے ہی ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کی حمایت کرچکا ہے، برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے رواں ہفتے اس معاملے پر امریکی حکام سے بات چیت کے لیے واشنگٹن ڈی سی کا دورہ بھی کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔