Tag: european space agency

  • مریخ پر مکڑیاں؟ نئی تصاویر نے سب کو حیرت زدہ کردیا

    مریخ پر مکڑیاں؟ نئی تصاویر نے سب کو حیرت زدہ کردیا

    سائنسدانوں کو اس بات کا کسی حد تک یقین ہے کہ مریخ پر زندگی موجود ہے تاہم یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں اس بات کے سچ ہونے یا نہ ہونے کا یقینی جواب مل جائے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق 19ویں صدی کے آخری برسوں میں ایک امریکی خلاباز پرسیوال لورل کا خیال تھا کہ انہوں نے مریخ کی سطح پر نہریں دیکھی ہیں جو اس بات ثبوت ہے کہ اس سیارے میں کسی مخلوق کی زندگی کا وجود ہوسکتا ہے۔

    اس حوالے سے گزشتہ دنوں یورپی خلائی ایجنسی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کردہ تصاویر نے نئی بحث کو جنم دیا ہے، مریخ کی سطح پر رینگنے والی چیونٹیوں یا سیاہ مکڑیوں کی تصاویر نے سوشل میڈیا پر کافی دھوم مچائی ہوئی ہے۔

    سوشل میڈیا پر خلائی ایجنسی کی حال ہی میں شیئر کی گئی تصاویر میں صارفین کو مریخ کے دلفریب مناظر دکھائے گئے، ان تصاویر میں ایک نئی چیز دیکھنے میں آئی کہ مریخ کے جنوبی قطبی علاقے میں چاروں جانب ” سیاہ مکڑیاں” بکھری ہوئی نظر آرہی ہیں جسے "انکاسٹی” کا نام دیا گیا ہے۔

    خلائی ایجنسی نے اپنی پوسٹ میں مریخ کے ایک علاقے میں پھیلی ہوئی ان سیاہ مکڑیوں کے بارے میں حقائق تفصیل سے بتائے اور واضح کیا کہ دراصل میں وہ کیا چیز ہیں۔

    اس حوالے سے یوروپی اسپیس ایجنسی نے بتایا کہ مکڑیوں کی یہ تصاویر مارس ایکسپریس نے حاصل کی ہیں اور وضاحت کی کہ درحقیقت یہ کسی بھی قسم کے خوفناک رینگنے والے جاندار نہیں ہیں بلکہ یہ مناظر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ذخائر کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق مریخ پر سردیوں کے مہینوں کے دوران (کاربن ڈائی آکسائیڈ) برف جمع ہوجاتی ہے جس سے ایک پتلی برفیلی تہہ بن جاتی ہے پھر جب موسم بہار آتا ہے اور سورج کی روشنی برفیلی تہہ میں سے داخل ہوتی ہے جس سے تبدیلی پیدا ہونے کے بعد یہ جگہ ایسی نظر آتی ہے جیسے زمین پر مکڑیاں بکھری ہوئی ہوں۔

  • مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار

    مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار

    یورپی خلائی ایجنسی نے مشن مارس 2020 کے لیے ڈیزائن کردہ  روور کو حقیقت کے قالب میں ڈھالتے  ہوئے اس  کی تصاویر آشکار کردیں،  لیکن درحقیقت میں یہ روور مریخ کی جانب نہیں بھیجا جائے گا۔

    ای سی اے ( یورپی خلائی ایجنسی )کا کہنا ہے کہ یہ روور اسٹرکچرل تھرمل ماڈل کے تین روورز کی سیریز کا حصہ ہےجنہیں سرخ سیارے پر زندگی کی تلاش کے لیے جانے کے لیے تیار کرنا ہے تاہم ان تینوں میں سے کوئی بھی خود مریخ پر نہیں جایا جائےگا بلکہ تجربات کے نتیجے میں سامنے آنے والی خامیاں دور کرکے نیا روور تیار کیا جائے گا۔

     تیسرا روبوٹ جو کہ بالکل حقیقی کے مشابہہ ہوگا اسے بھی خلا میں نہیں بھیجا جائے گا بلکہ وہ یہی زمین پر رہے گا اور مریخ کی جانب جانے والے روور میں اگر سافٹ وئیر کے حوالے سے کوئی خرابی پیش آئی اور ماہرین کو اس میں تبدیلی کرنا پڑی تو وہ اس تبدیلی کو زمین پر موجود مشین پر آزمائیں گے اور اس کے نتائج کی روشنی میں خلا میں موجود روور کے سافٹ ویئر میں تبدیلی لائی جائے گی۔

    یاد رہے کہ یہ منزل کئی سال کے انتظار اور کئی تبدیلیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ ایس ٹی ایم کو  برطانیہ کی ایئربس فیکٹری میں تیار کیا گیا ہے اور اب اسے سخت ترین ماحولیاتی ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزرنے کے لیے  تولوز بھیجا جارہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اسے تمام سخت ترین حالات سے گزاریں گے تاکہ یہ طے ہوسکے یہ راکٹ لانچ  کے وقت اور وہاں مریخ پر لینڈنگ اور اسکے بعد پیش آنے والے تمام مشکل حالات سے گزر سکے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ

    چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ

    زمین کے پڑوسی سیارے مریخ جسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے، پر انسانی آبادیاں اور مزید دریافتیں کرنے کے مشن پر کام جاری ہے، اور اس سلسلے میں مریخ تک پہنچنے کے لیے چاند پر عارضی پڑاؤ قائم کیا جاسکتا ہے۔

    جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے کی سالانہ کانفرنس میں کہا گیا کہ مریخ تک پہنچنے کے لیے چاند بہترین پڑاؤ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں 4 ہزار کے قریب ماہرین فلکیات نے شرکت کی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب وقت ہے کہ ہم زمین کے مدار سے باہر بھی کاروباری سرگرمیاں شروع کریں اور نئی جہتوں کو دریافت کریں۔

    مزید پڑھیں: خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    ایک خلائی ماہر پائرو میسینا کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ 17 سال سے زمین کے محور سے بالکل باہر رہ رہے ہیں۔

    یہاں ان کی مراد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے ہے جو زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    سنہ 1998 میں لانچ کیا جانے والا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن 27 ہزار 6 سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے مدار میں چکر لگا رہا ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن ہر 92 منٹ میں زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔

    خلائی اسٹیشن پر متعدد خلا باز بھی موجود ہیں جو اسٹیشن پر مختلف خلائی آپریشنز سرانجام دے رہے ہیں۔

    اب یہ اسٹیشن مریخ کی طرف بڑھنے جارہا ہے اور یہ مریخ کی طرف جانے والا پہلا انسانی مشن ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    خلائی ماہرین کے مطابق اس سفر کے دوران چاند پر رک کر ایک مستقل پڑاؤ ڈالنا بہترین طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بنایا جانے والا سب سے تیز رفتار خلائی جہاز زمین سے مریخ تک کا سفر 39 دن میں طے کر سکتا ہے۔

    مریخ پر پہنچ کر انسانی آبادی بسانے کا ابتدائی مرحلہ رواں برس عالمی خلائی اداروں کا مشن ہے۔

    یورپین خلائی ایجنسی سنہ 2024 تک عالمی خلائی اسٹیشن کو ختم کرکے چاند پر مستقل کالونی بنانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ خلاؤں کی مزید تسخیر اب چاند پر رہتے ہوئے کی جاسکے۔

    دوسری جانب امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی چاند پر ایک خلائی اسٹیشن بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    چاند پر ایک مستقل باقاعدہ رہائشی پڑاؤ بنانے کا کام جاری ہے اور اس سلسلے میں یورپی خلائی ایجنسی نے روس کی خلائی ایجنسی روسکوسموس سے معاہدہ بھی طے کرلیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فیلے کی بیٹری جواب دے گئی

    فیلے کی بیٹری جواب دے گئی

    کراچی (ویب ڈیسک) – یورپین اسپیس ایجنسی کی جانب سے زمین سے پچاس کروڑ کلومیٹر فاصلے پر موجود دمدار ستارے پر بھیجے گئے روبوٹ ’فیلے‘کی بیٹری جواب دےگئی۔

    واضح رہےکہ فیلے نامی یہ روبوٹ اب سے چند دن قبل 67 پی نامی دم دار ستارے پر اترا تھا جو کہ زمین سے تقریباً پچاس کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔

    فیلے نے ستارے کی سطح پر اترنے سے پہلے اس کی تصاویر بھی خلائی ادارے کو بھیجی تھیں اور بین الاقوامی ذرائع کے مطابق اس نے سطح پر اتر کر تمام ضروری ٹیست بھی کرلئے تھے جن میں سطح کی ڈرلنگ بھی شامل ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق فیلے جس جگہ اترا ہے وہاں آنے والے کئی مہینوں تک سورج کی روشنی کا گزر نہیں ہوگا اور جب تک فیلے کے سولر پینل تک روشنی نہیں پہنچے گی وہ دوبارہ چارج نہیں ہوسکے گا۔

    سائنسدانوں نے یہ بھی امکان ظاہرکیا ہے کہ اس تمام عرصے میں ہم اس ستارے میں ہونے والی تمام جغرافیائی تبدیلیوں سے بے خبر رہیں گے لہذا اس بات کا بھی امکان ہے کہ کسی ممکنہ نقصان کے نتیجے میں فیلے دوبارہ کبھی چارج نہ ہوسکے۔

    واضح رہے کہ زمین سے اس قدر فاصلے پر انسانی آلات کی پہنچ تاریخ میں پہلی بار ہوئی تھی اور اس واقعےکو سائنسدانوں کی جانب سے انسانیت کا مستقبل قرار دیا جارہا تھا۔