Tag: European Union

  • یورپی یونین نے کورونا ویکسین سے متعلق بڑا فیصلہ کرلیا

    یورپی یونین نے کورونا ویکسین سے متعلق بڑا فیصلہ کرلیا

    ویکسین لگانے کے انتظامات پہلے ہی کئی ملکوں نے ترتیب دے رکھے ہیں

    برسلز : یورپی یونین نے امریکی دوا ساز کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک کی ویکسین استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے، یورپین میڈیسنز ایجنسی کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ یہ نئے متغیر وائرس کیخلاف بھی مؤثر ثابت ہوگی۔

    یورپی کمیشن کے دواؤں کے ریگولیٹرز نے بائیو این ٹیک اور فائزر ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی ہے اس منظوری کے بعد رواں برس کے اختتام پر ویکسین لگانی شروع کر دی جائے گی۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپی میڈیسین ایجنسی اور یورپی کمیشن نے فائزر بائیو این ٹیک کی تیار کردہ انسداد کورونا وائرس کی ویکسین کے استعمال کی باضابطہ منظوری گشتہ روز21 دسمبر کو دی۔

    اس منظوری کے بعد براعظم یورپ کے چار سو ملین افراد کے لیے ویکسین لگانے کا وسیع پروگرام شروع ہو سکے گا۔ ویکسین لگانے کے انتظامات پہلے ہی کئی ملکوں نے ترتیب دے رکھے ہیں جن میں خاص طور پر جرمنی اور اسپین نمایاں ہیں۔

    یورپی یونین میں یہ پہلی کووِڈ 19 ویکسین ہے جس کی منظوری دے گئی ہے۔ یہ ویکسین برطانیہ اور امریکہ میں پہلے ہی لگائی جا رہی ہے۔ یورپی کمیشن کے حکام نے کہا ہے کہ پوری یورپی یونین میں آئندہ اتوار اور منگل کے روز کے درمیان کسی وقت اسے لگانا شروع کر دیا جائے گا۔

    یورپی یونین میں ادویات کے نگران ادارے، یورپین میڈیسنز ایجنسی نے مذکورہ ویکسین فراہم کرنے کا مشروط اجازت نامہ قبل ازیں پیر کے روز جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ویکسین کے فوائد خطرات سے زیادہ ہیں۔ اس کے بعد یورپین کمیشن نے تیزی کے ساتھ حتمی منظوری دے دی۔

    مذکورہ ایجنسی کے ایک عہدیدار نے ایک اخباری کانفرنس میں برطانیہ جیسے ملکوں میں پائی گئی کورونا وائرس کی نئی متغیر قسم کا ذکر کیا۔

    اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے عندیہ ملتا ہو کہ یہ ویکسین وائرس کی نئی متغیر قسم کے خلاف کام نہیں کرے گی۔

  • انتخابی دھاندلی، بیلاروس کے صدر سمیت دیگر افسران پر پابندیاں عائد

    انتخابی دھاندلی، بیلاروس کے صدر سمیت دیگر افسران پر پابندیاں عائد

    منسک : یورپی یونین میں شامل تین بالٹک ممالک لیتھوینیا، لیٹویا اور اسٹونیا نے پڑوسی ملک بیلاروس کے صدر لوکا شینکو کے خلاف سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

    یہ پابندیاں صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کی طرف سے نو اگست کے صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور اس کے بعد عوامی مظاہرے کچلنے پر لگائی گئی ہے۔ پابندیوں کا اطلاق ان کے دیگر قریبی 29 اعلٰی افسران پر بھی ہوگا۔

    یورپی یونین کے اندر بیلاروس کے پڑوسی ملک لیتھوینیا، لیٹویا اور اسٹونیا صدر لوکاشینکو کے مبینہ آمرانہ طرز حکمرانی پر سب سے زیادہ تنقید کرتے رہے ہیں۔

    بیلاروس کو یورپ کی آخری آمریت کہا جاتا ہے، صدر الیکسانڈر لوکاشینکو سن 1994 سے اس سابق سویت ریاست کے حاکم رہے ہیں۔ ان26برسوں میں صدر لوکاشینکو چھ بار انتخابات میں اپنے مخالفین کا تقریبا مکمل صفایا کرتے ہوئے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔

    اگست کے انتخابات میں بھی سرکاری نتائج کے مطابق انہیں 80.1 فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کی مدمقابل خاتون امیدوار سویٹلانا ٹیخانوسکایا کے حق میں صرف 10.12 فیصد ووٹ آئے۔ مبصرین کے مطابق ماضی کی طرح اس بار بھی کئی مقامات پر دھاندلی کا سہارا لیا گیا۔

    یورپی یونین کے مطابق بیلاروس کے یہ انتخابات آزادنہ اور منصفانہ نہیں تھے۔ برطانیہ ان انتخابی نتائج کو مسترد کر چکا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ کھل کر حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرے۔

    جرمنی کے وزیر خزانہ اولاف شُلز نے صدر لوکاشینکو کو ایک آمر قرار دیا، جو ان کے مطابق لوگوں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یورپی یونین کے دیگر ممالک بھی صدر لوکاشینکو کے قریبی ساتھیوں اور سینئر حکام پر پابندیاں لگانے کے حق میں ہے۔

  • یورپی یونین : چار ممالک کی سفری پابندیاں ختم نہیں ہوئیں

    یورپی یونین : چار ممالک کی سفری پابندیاں ختم نہیں ہوئیں

    برسلز : یورپین ممالک کی جانب سے سفری پابندیاں ختم کرنے کے اعلان کے باوجود اسپين،فن لينڈ، ناروے اورسويڈن کیلئےسفری انتباہ  موجود ہے، یہ پابندیاں، کورونا وائرس کی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات میں شامل تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق یورپین ممالک نے 15جون سے سفری پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیاتھا، جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے بھی شہریوں کو27يورپی ممالک میں سفر کی اجازت دے دی گئی تھی۔

    اس حوالے سے يورپی کميشن کا کہنا ہے کہ یورپین ممالک کے شہری اپنے پڑوسی ممالک میں بلارکاوٹ داخل ہوسکیں گے،
    مؤثر پاليسيوں اور لاک ڈاؤن سے کئی يورپی ملکوں نے وبا پر قابو پایا، تاہم اسپين،فن لينڈ، ناروے اورسويڈن کیلئےسفری انتباہ اب بھی موجود ہے۔

    واضح رہے کہ یورپی یونین نے رکن ممالک کو تجویز پیش کی تھی کہ بلاک کے باہر سے سفر کرنے والوں پر عائد سفری پابندیاں پہلی جولائی سے بتدریج ختم کی جائیں اور ان ممالک کی فہرست تیار کی جائے، جن پر پابندیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔

    یورپی یونین کے انتظامی ادارے، یورپی کمیشن نے رکن ممالک سے کہا تھا کہ بلاک کی سفری پابندیوں میں 15 جون تک توسیع کی جائے۔ یہ پابندیاں، کورونا وائرس کی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات میں شامل تھیں۔

    یورپی یونین ہوم افئیرز کمشنر محترمہ یِلوا جوہانسَن نے جمعرات کے روز اعلان کیا ہے کہ کمیشن نے ان اقدامات میں 30 جون تک توسیع کرنے اور اس کے بعد پابندیوں کو بتدریج ہٹانے کے مقصد سے آگے بڑھنے کی تجویز پیش کی ہے۔

    محترمہ جوہانسَن نے یہ بھی کہا کہ کسی مخصوص ملک سے پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ اس ملک میں وبائی پھیلاؤ کی صورتحال، اور یہ دیکھ کر کیا جائے کہ آیا اس ملک نے یورپی یونین سے سفر کرنے والوں کو آنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ رکن ملکوں کے درمیان تبادلہ خیال کے بعد بلاک تک رسائی دیے جانے والے ملکوں کی فہرست مرتب کی جائے گی۔ کمیشن نے رکن ملکوں سے آپس میں سرحدی کنٹرولز میں 15 جون سے نرمی لانے کی بھی سفارش کی تھی۔

  • بریگزٹ ڈیل : یورپی یونین سے انخلا برطانوی حکومت کیلئے درد سر بن گیا

    بریگزٹ ڈیل : یورپی یونین سے انخلا برطانوی حکومت کیلئے درد سر بن گیا

    لندن : برطانوی وزیراعظم کی مشکلات میں کمی آئی اور نہ ہی بریگزٹ کا معاملہ حل ہوسکا، پارلیمان نے یورپی یونین سے ڈیل کا بل تو منظور کرلیا لیکن ایک بار پھر بریگزیٹ ٹائم ٹیبل مسترد کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا برطانوی حکومت کیلئے درد سر بن گیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کا ایک اور گرما گرم اجلاس ہوا جس میں برطانوی پارلیمنٹ میں وزیراعظم بورس جانسن کی یورپی یونین سے انخلا کیلئے ڈیل پر ووٹنگ ہوئی، جس کوپارلیمنٹ نے منظور کرلیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دوسرے مرحلے میں برطانوی پارلیمنٹ نے بریگزٹ کے ٹائم ٹیبل کو مسترد کرتے ہوئےبریگزٹ کو بریک لگادیا۔

    اراکین پارلیمنٹ نے کہا کہ ایک سو دس صفحات پر مشتمل معاہدے کا جائزہ لینے کیلئے تین روز کافی نہیں اس لئے بریگزٹ کی تاریخ کو اکتیس اکتوبرسے آگے بڑھایا جائے۔

    خبر رساں ایجنسی کے مطابق پارلیمنٹ میں شکست کے بعد برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ اب مزید غیر یقینی کی صورتحال کاسامنا ہوگا۔ یورپی یونین کے صدر نے یورپی ممالک کے سربراہان سے برطانیہ کو مزید وقت دینے کی درخواست کی ہے۔

    مزید پڑھیں : برطانیہ میں بریگزٹ کے خلاف غصے کا انوکھا اظہار

    خیال رہے کہ گزشتہ روز برطانوی ممبران پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل کے فیصلے میں تاخیر کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ بریگزٹ میں تاخیر پر یورپی یونین سے مزید کوئی بات نہیں ہوگی۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 2016 کے ریفرنڈم کے مطابق 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا تاہم ہاؤس آف کامنز کی جانب سے متعدد مرتبہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے باعث بریگزٹ میں 12 اپریل توسیع کی گئی تھی۔

  • یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، یورپی یونین

    یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، یورپی یونین

    لندن : یورپی یونین کے رہنماؤں نے برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کو خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے اگلے وزیراعظم کے لیے بورس جانسن اور وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کے درمیان سخت مقابلہ ہے جن میں سے کوئی ایک مستقبل میں بریگزٹ کی ذمہ داری نبھائے گا اس حوالے سے بورس جانسن اور جیریمی ہنٹ دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ تھریسا مے کی جانب سے برسلز سے کیے گئے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

    خیال رہے کہ تھریسا مے کی جانب سے کیے گئے معاہدے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے 3 مرتبہ مسترد کیا تھا۔

    برسلز میں سربراہان کے اجلاس میں یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ ویسٹ منسٹر میں جاری سیاسی ڈرامے کے باوجود یورپی یونین صبر کا مظاہرہ کرے گا۔

    ڈونلڈ ٹسک نے صحافیوں کو بتایا کہ لندن میں کچھ فیصلوں کی وجہ سے بریگزٹ کا عمل پہلے کے مقابلے میں زیادہ پرجوش ہونے کا امکان ہے تاہم اس حوالے سے ہماری پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دیگر 27 یورپی یونین رہنما اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے قانونی معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائےگی۔

    ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ اگر برطانیہ چاہتا ہے تو ہم لندن اور یورپی یونین کے مستقبل پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن بریگزٹ معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

    یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ، جنہوں نے بریگزٹ پر بات چیت کےلئے یورپی یونین کی سربراہی کی تھی نے کہا کہ رہنماؤں نے اتفاق رائے سے بارہا کہا تھا کہ علیحدگی کے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں بورس جانسن نے 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے تھے۔برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن نے تھریسا مے کے بعد ملک کے اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی برتری قائم رکھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین ووٹ دیں گے تاہم ان امیدواروں میں بورس جانسن انتہائی متنازع شخصیت ہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ وہی ہیں جو برسلز سے جیت سکتے ہیں جبکہ ناقدین ان کے طریقہ کار اور عدم توجہ پر تنقید کرتے ہیں۔

    بورس جانسن سے حالیہ خطرات یہ ہیں کہ وہ برطانیہ کا 3 کروڑ 90 لاکھ پاؤنڈز (4 کروڑ 40 لاکھ یورو، 5 کروڑ ڈالر) مالیت کا قانون اس وقت روک دیں گے جب تک یورپی یونین بہتر شرائط پر آمادہ نہیں ہوتا۔

    واضح رہے کہ بریگزٹ 2 مرتبہ تاخیر کا شکار ہوچکا ہے، جیریمی ہنٹ اور بورس جانسن کہتے ہیں کہ برطانیہ کو موجودہ ڈیڈلائن 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجانا چاہیے، چاہے کسی معاہدے کے بغیر ایسا ہو تاہم جیریمی ہنٹ نے تجویز دی ہے کہ اگر برسلز کے ساتھ معاہدے کے قریب ہو تو بریگزٹ میں تاخیر ہوسکتی اور بورس جانسن نے 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدگی کی ضمانت دینے سے انکار کردیا ہے۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے 24 مئی کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    تھریسا مے استعفے کے باوجود نئے سربراہ کے انتخاب تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہیں گی جو جولائی کے اواخر میں منتخب ہوں گے، لیکن وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی (بریگزٹ) کے معاملے پر فیصلے کا اختیار نہیں رکھتیں۔

  • برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا مستعفیٰ ہونے کا اعلان

    برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا مستعفیٰ ہونے کا اعلان

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں ناکامی کے بعد وزارت ِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا ہے، استعفے کا سبب بریگزٹ پر ارکانِ پارلیمنٹ کی حمایت حاصل نہ کرسکنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے اعلان کیا ہے کہ وہ 7 جون کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی، ساتھ ہی ساتھ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کا منصب بھی چھوڑدیں گی۔

    برطانوی وزیراعظم کوبریگزٹ ڈیل میں ناکامی پرتنقیدکاسامناتھا۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام نے2016میں یورپی یونین سےنکلنےکاانتخاب کیا، تاہم میں بطور وزیراعظم بریگزٹ ڈیل پرارکان کوقائل کرنےکی کوشش میں ناکام رہی ہوں۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ بطورجمہوری لیڈرعوام کی رائےکااحترام اورنفاذان کی ذمہ داری تھی، لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکتا لہذا بہتر ہے کہ وہ وزارت ِ عظمیٰ کا منصب کسی ایسے شخص کو سونپ دیں جو ان سے زیادہ اس عہدے کا اہل ہو۔

    وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے بریگزٹ کےلیے معاہدے کے تیار کردہ مسودے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ تین مرتبہ مسترد کرچکے ہیں، مذکورہ معاہدے پر یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان نومبر 2018 میں اتفاق ہوگیا تھا لیکن اسے برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری نہ مل سکی۔

    منظوری نہ ملنے کے سبب یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان ایک بار پھر مذاکرات ہوئے جن میں بریگزٹ سے متعلق طویل مدتی توسیع پراتفاق ہوگیا، یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ دونوں فریقوں نے 31 اکتوبر تک بریگزٹ میں لچک دار توسیع پر اتفاق کیا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ نے 29 مارچ کو یورپین یونین سے نکلنا تھا۔

    یادر ہے کہ آج سے تین سال قبل 2016 میں 43سال بعد تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    اس وقت ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم تھے اور وہ بریگزٹ کے حق میں نہیں تھے جس کے سبب انہوں نے عوامی رائے کے احترام میں اپنے منصب سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا تھا۔ استعفیٰ دیتے وقت ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کا انعقاد پارلیمانی نظام کا حصہ ہے، چھ سال تک برطانیہ کا وزیر اعظم بنے رہنے پر فخر ہے، برطانیہ کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہے اور سرمایہ کاروں کو یقین دلاتا ہوں کہ برطانوی معیشت کی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔

    ان کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں اب یورپی یونین سے بات چیت کے لیے تیار ہونا ہوگا، جس کے لیے سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی ایئر لینڈ کی حکومتوں کو مکمل ساتھ دینا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ برطانیہ کے تمام حصوں کے مفادات کا تحفظ ہو۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے ابتداء میں مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ ہوگا۔

  • یورپی یونین پاکستان کا بڑا تجارتی اور سرمایہ کار پارٹنر ہے، عمران خان

    یورپی یونین پاکستان کا بڑا تجارتی اور سرمایہ کار پارٹنر ہے، عمران خان

    اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ یورپی یونین پاکستان کا بڑا تجارتی اور سرمایہ کار پارٹنر ہے، رکن ممالک کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کیلئے آنے والی یورپی کمیشن کی نمائندہ خصوصی برائے خارجہ و سیکورٹی پالیسی فیڈریکا موگیرینی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

    وزیراعظم عمران خان نے پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین پاکستان کا بڑا تجارتی اور سرمایہ کار پارٹنر ہے، یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو انتہائی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    وزیر اعظم نے جی ایس پی پلس کے بعد دوطرفہ تجارت میں اضافے کا خیرمقدم کیا، وزیر اعظم نے یورپی کمیشن کی نمائندہ خصوصی کو موجودہ علاقائی صورتحال، افغان مفاہمتی امن عمل اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے میں پاکستان کے مثبت کردارسے بھی آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یورپی یونین مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اجاگر کرے۔

    ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے فیڈریکاموگیرینی نے پلوامہ واقعے کے بعد کشیدہ صورتحال کو بہتر انداز میں سنبھالنے پروزیراعظم کی تعریف کی اور وزیراعظم کے اصلاحاتی ایجنڈا کیلئے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔

    مزید پڑھیں: آرمی چیف سے یورپی کمیشن کی نمائندہ خصوصی کی ملاقات

    واضح رہے کہ اس سے قبل  یورپی کمیشن کی نمائندہ خصوصی برائے خارجہ و سیکورٹی پالیسی فیڈریکا موگیرینی  نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی ملاقات کی تھی۔

  • عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا نوٹس لے، سینیٹر سراج الحق

    عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا نوٹس لے، سینیٹر سراج الحق

    اسلام آباد : امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لے، کشمیریوں کا ان کا جائز حق دیا جائے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں یورپی یونین کے سفیروں سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا،اسلام آباد میں امیر جماعت اسلامی سے ڈنمارک، یورپی یونین کے سفیر، برطانیہ و جرمنی کے سینئر سفارت کاروں نے ملاقات کی۔

    اس موقع پر رکن آزاد کشمیر اسمبلی عبدالرشید ترابی، میاں اسلم، عبد الغفار عزیز بھی موجود تھے۔ سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

    عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لے، انہوں نے اپیل کی کہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم وستم بند کرانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔

    مزید پڑھیں: بھارت کے یوم جمہوریہ پر کشمیریوں کا یوم سیاہ، 2 کشمیری نوجوان شہید

    کشمیریوں کو یواین قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق دلوایا جائے، انہوں نے بتایا کہ5فروری کو پوری پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کشمیری بھائیوں سے اظہاریکجہتی کرے گی۔

  • بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    برطانیہ نے سنہ 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی اور سنہ 1975 میں اسے ریفرنڈم کے ذریعے قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ قانونی حیثیت ملنے کے 41 سال بعد برطانوی عوام نے سنہ 2016 میں ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ یورپی یونین میں شمولیت ایک گھاٹے کا سودا تھا، لہذا اب اس یونین سے قطع تعلقی کی جائے۔ 23 جون 2016 میں برطانیہ کے 51.9 فیصد عوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا۔

    [bs-quote quote=”بچھڑنا ہے توجھگڑا کیوں کریں ہم” style=”style-9″ align=”left” author_name=”جون ایلیا”][/bs-quote]

     

    یہاں سے شروع ہوتا ہے عالمی منظر نامے کا سب سے دلچسپ اور منفردسیاسی عمل جس میں یورپی یونین اور برطانیہ نے وہ فارمولا طے کرنا تھا کہ جس کےذریعے علیحدگی کا عمل خوش اسلوبی سے طے پاجائے ۔ بقول شاعر

     

    ریفرنڈم کے وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس علیحدگی کے حق میں نہیں تھے ، سو انہوں نے جمہوری روایات نبھاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایک ایسے وزیراعظم کے لیے نشست خالی کردی جو کہ عوامی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے یورپین یونین سے علیحدگی کے اس عمل کو سہولت سے انجام دے ۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اس عمل کے لیے تھریسا مے کو بطور وزیراعظم چنا اور ا ن کی سربراہی میں شروع ہوا مشن بریگزٹ جس میں برطانیہ کی پارلیمنٹ ان سے امید رکھتی تھی کہ وہ برطانیہ کے اس انخلا ء کے لیے ایک ایسا معاہدہ تشکیل دیں جو کسی بھی صورت برطانیہ کے لیے نقصان کا سودا نہ ہو۔

    سافٹ یا ہارڈ بریگزٹ


    جب یہ طے پاگیا کہ برطانیہ نے یورپی یونین سےعلیحدہ ہونا ہی ہے تو برطانیہ کے سامنے دو ہی راستے تھے ، ایک یہ کہ سافٹ انخلا کرے یعنی جس میں یورپ کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے کیے جائیں کہ برطانیہ کا انخلا بھی ہوجائے اور یورپی یونین کی شکل میں تشکیل پانے والی دنیا کی یہ واحد سنگل ٹریڈ مارکیٹ بھی متاثر نہ ہو۔ دوسری صورت کو ماہرین ’طلاق‘ کا نام دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں برطانیہ کوئی خاص معاہدے کیے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے ، اس عمل کو اپنانے میں برطانیہ کو واضح نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھا جائے تو سافٹ بریگزٹ ہی برطانیہ کے لیے فائدہ مند ہے لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مےنے یورپی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایک مسودہ تیار کیا جسے برطانوی ہاؤس آف کامنز سے منظوری درکارہے۔

    یورپی یونین اور برطانوی حکومت کے درمیان طے پانے والے 585 صفحات پر مشتمل معاہدے کے بنیادی نکات میں دو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات اور دوسرے تجارت اورسیکیورٹی کے معاملات۔ساتھ ہی ساتھ اس میں شہری حقوق، مالی معاملات اور آئریش بارڈر کے مسائل بھی شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ آئر لینڈ کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا معاملہ برسلز کے ساتھ ہونے والی اس ڈیل میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔تھریسا مے کے وزراء کا ماننا ہے کہ مسودے کے مطابق آئر لینڈ تجارتی طور پر یورپین یونین کے زیادہ قریب ہوجائے گا جو کہ کسی بھی صورت برطانیہ کے حق میں نہیں ہے۔خیال رہے کہ معاہدے کے دونوں ہی فریق آئرلینڈ کے ساتھ کوئی سخت بارڈر نہیں چاہتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے ساتھ بارڈر کا معاملہ ہی اس مسودے کا ایسا حصہ ہے جس پر برطانیہ کے عوامی نمائندو ں کوشدید قسم کے تحفظات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یا تو یہ معاملہ حل کیا جائے یا پھر وہ ہارڈ بریگزٹ کو اس معاہدے پر ترجیح دیں۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    مسودہ کیا کہتا ہے؟


    تھریسا مے اور یورپی حکام کے درمیان طے پانے والے بریگزٹ مسودے میں طرفین نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ فی الحال شمالی آئرلینڈ کو غیر معینہ مدت تک ایسے ہی رہنے دیا جائے جیسا کہ ابھی ہے ، لیکن اس مسودے میں کوئی حتمی مدت طے نہیں کی گئی ہے ۔ یہی وہ سارا معاملہ ہے جہاں برطانیہ کے عوامی نمائندے آکر رک گئے ہیں اور خود تھریسا مے کی اپنی جماعت کے ممبران پارلیمنٹ میں بھی اس مسودے کو منظور کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

    تھریسا مے نے اس معاملے پر 11 دسمبر کو ہاؤس آف کامنز میں ووٹنگ کروانی تھی لیکن حد درجہ مخالفت دیکھ کر انہوں نے ووٹنگ ملتوی کرکے یورپی حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل ہوجائے کہ اس معاملے پرمن وعن ایسے ہی عمل ہوگا جیسا کہ برطانوی عوام کی خواہش ہے۔ یورپی یونین کے صدر نے اس معاملے پر کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے میں اب مزید کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ، ہاں اس کی شقوں کی وضاحت کی جاسکتی ہے ۔

    تھریسا مے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد


    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے ہیں اور ان کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد لانےکے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

    اگر تھریسا مے کے خلاف یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو ان کی جگہ بورس جانسن اورپاکستانی نژاد ساجد جاوید وزارتِ عظمیٰ کے لیے مضبوط ترین امیدوارہیں، لیکن یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اگر تھریسا مے نہیں رہتی ہیں اوران کی جگہ کوئی وزیراعظم برسراقتدار آتا ہے تو پھر اس بریگزٹ مسودے کی کیا حیثیت رہے گی اور آیا یہ کہ اسی کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا یا پھر برطانیہ 19 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے طلاق کی جانب جائے گا۔

    دیکھا جائے تو یورپ اور بالخصوص یورپی یونین اور برطانیہ اپنی تاریخ کے انتہائی اہم اور حساس ترین دور سے گزرررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہی یورپ ہے جو کبھی بات بات پر توپ وتفنگ لے کر میدان میں نکل آیا کرتا تھا اور کبھی سات سالہ جنگ تو کبھی تیس سالہ جنگ اور کبھی سو سال کی جنگ لڑتا تھا، جنگِ عظیم اول اور دوئم کے شعلے بھی یورپ سے ہی بھڑکے تھے لیکن اب یہ اس حساس ترین مرحلے سے جمہوریت کی اعلیٰ ترین اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے گزررہا ہےاورہر معاملہ مشورے اور افہام و تفہیم سے حل کیاجارہاہے۔

    امید ہے کہ برطانیہ اور اہل یورپ اس مرحلے سے نبٹ کر جب آگے بڑھیں گے تو ایک تابناک مستقبل ان کا انتظار کررہا ہوگا اور اپنی آئندہ نسلوں کو سنانے کے لیے ان کے پاس ایک ایسی تاریخ ہوگی جس پر وہ بلاشبہ فخر کرسکیں گے۔

  • امریکی صدر کا یورپی کاروں پر محصولات کا عندیہ، جرمن چانسلر کی تنبیہ

    امریکی صدر کا یورپی کاروں پر محصولات کا عندیہ، جرمن چانسلر کی تنبیہ

    برلن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درآمد کی جانے والی یورپی کاروں پر اضافی محصولات کے عندیے پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے متنبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین کو یہ دھمکی دی تھی کہ اگر وہ امریکی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرے گی تو امریکا یورپی کاروں پر اضافی ٹیکس عائد کردے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے امریکا کو تجارتی جنگ چھیڑنے سے متنبہ کیا ہے، ان کی طرف سے یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اُس دھمکی کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے یورپی یونین سے درآمد کی جانے والی کاروں پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔


    کینیڈا نے امریکی درآمدی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کر دیے


    انجیلا مرکل کا جرمن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹرمپ کی طرف سے ایلومینیم اور اسٹیل کی درآمدات پر ڈیوٹی عائد کرنے کے بعد سے یورپی یونین اور امریکا کے درمیان تجارتی تناؤ موجود ہے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ بات اہم ہے کہ اس تناؤ کو بھرپور تجارتی جنگ بننے سے روکا جائے، ٹرمپ نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ وہ یورپی کاروں پر 20 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔


    کاروں پر اضافی محصولات عائد کردی جائیں گی‘ امریکی صدر کی دھمکی


    خیال رہے کہ کینیڈا کی جانب سے بھی امریکی درآمدی منصوعات پر اضافی محصولات کا اطلاق یکم جولائی سے کیا جاچکا ہے، کینیڈین حکومت نے امریکی امپورٹس پر دس سے پچیس فیصد تک کے اضافی ٹیکس نافذ کیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔