Tag: exclusive interview

  • نیب کو قمرجاوید باجوہ کنٹرول کررہا تھا، عمران خان

    نیب کو قمرجاوید باجوہ کنٹرول کررہا تھا، عمران خان

    لاہور : چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو کو قمر جاوید باجوہ کنٹرول کررہا تھا، باجوہ نے الیکشن کرانے کا کہہ کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔

    یہ بات انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی، انہوں نے قمر باجوہ پر ایک بار پھر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام عائد کردیا، قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ نیب پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں تھا بلکہ نیب کو قمر باجوہ کنٹرول کررہا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ انہوں نے باجوہ کے کہنے پر دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں، ایکسٹینشن سے پہلے الگ باجوہ تھا اور ایکسٹینشن کے بعد الگ باجوہ تھا، ایکسٹینشن کے بعد اسے ن لیگ سے عشق ہوگیا اور ڈیل کے بعد چوروں کو مسلط کردیا گیا۔

    اسمبلیاں توڑنے کا کوئی افسوس نہیں

    سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ میں نے روس کا دورہ بھی سابق آرمی چیف کے مشورے سے کیا تھا مگر واپسی پر میرے خلاف تحریک عدم اعتماد آگئی اور باجوہ نے امریکیوں کو بھی ان کے خلاف بھڑکایا، مجھے اسمبلیاں توڑنے کا کوئی افسوس نہیں ہے۔

    عمران خان نے کہا کہ اگر پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی تو ملک نہیں چل سکتا، حکومت سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانتی تو پھر کس نے آنا ہے؟ اگر مارشل لاء لگایا گیا تو پھر ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔

     سرمایہ کاروں کو حکومت پر اعتماد نہیں

    عمران خان نے کہا کہ ہمارا ایک کروڑ اوورسیز پاکستانی کیوں یہاں سرمایہ کاری نہیں کرتا؟ سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہمیں حکومت پر اعتماد نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ملک میں استحکام آنے تک بیرونی سرمایہ کاری نہیں آسکتی، کرپٹ مافیاز کچھ نہیں کرنے دیں گے۔

    اپنی گفتگو میں انہوں نے نواز شریف اور آصف زرداری پر بھی کرپشن کا الزام عائد ہوئے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے اقتدار میں آنے کے بعد 17فیکٹریاں بنائیں، ملک کو نقصان نواز شریف اور رشوت کے کلچر نے پہنچایا، اس کو وزیراعظم بنانے کیلئے ملک کے ادارے تباہ کیے گئے۔

    ہم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں

    موجودہ عدالتی معاملات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ آئین پر عمل درآمد کیلئے ہم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ نا مانا گیا تو عوام کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں گے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت فیصلہ کرنا چاہیے، سپریم کورٹ کا کام یہ نہیں کہ فیصلے پرعمل درآمد ہوگا یا نہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا دنیا میں کسی کے ساتھ نہیں ہوا، صرف مجھے حکومت سے باہر رکھنے کے لیے کتنی بڑی قیمت ادا کی جارہی ہے۔

    سندھ کے عوام بھی تبدیلی چاہتے ہیں

    سندھ کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان بدل رہا ہے، نوجوان تیار ہورہے ہیں، سندھ کے عوام سب سے زیادہ تبدیلی چاہتے ہیں کیونکہ جو پہلے ایم کیوایم لوگوں کے ساتھ کیا کرتی تھی وہی ظلم پیپلز پارٹی اندرون سندھ کرتی ہے۔

  • متنازعہ سوالات پر وزیر خارجہ کا افغان اینکر کو کرارا جواب

    متنازعہ سوالات پر وزیر خارجہ کا افغان اینکر کو کرارا جواب

    کابل: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشکل سوالوں کے بے ساختہ جواب دیکر افغان اینکر کو لاجواب کردیا۔

    خارجہ امور پر مہارت رکھنے والے شاہ محمود قریشی نے افغان ٹی وی طلوع کو انٹرویو دیا، انٹرویو میں میزبان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے طالبان لیڈروں کی موجودگی سے متعلق سوال کیا کہ طالبان لیڈر ہیبت اللہ، سراج حقانی اور ملایعقوب کہاں ہیں؟۔

    جس پر پاکستان کے وزیر خارجہ نے بے ساختہ جواب دیا کہ اپنی حکومت سے پوچھیں، وزیرخارجہ کےبےساختہ جواب پر میزبان لطف اللہ ہکابکا رہ گئے۔

    اینکر نے کوئٹہ اور پشاور میں طالبان شوریٰ کی موجودگی سے متعلق سوال کیا تو اسے ایک بار پھر سبکی کا سامنا کرنا پڑا، وزیر خارجہ نے افغان اینکر کو جواب دیا کہ طالبان کی پاکستان میں کوئی محفوظ پناہ گا نہیں، زیادہ تر افغان طالبان کی قیادت افغانستان میں ہے، کوئٹہ اور پشاور شوریٰ کے بارے میں ایک دہائی سے سن رہے ہیں، لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں۔

    پاکستان میں طالبان کو مالی اعانت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چند برسوں سے بہت سی چیزیں چل رہی ہیں، ہم پرانے معاملات میں پھنسے ہوئے ہیں، افغانستان کو اس سے نکلنا ہوگا، اگر اس معاملات سے نہیں نکل پاتے تو امن کیلئے لمبا سفر نہیں ہو پائے گا۔ ہم چاہتے ہیں افغانستان لمبا سفر کرے ہم مفاہمت اور امن چاہتے ہیں۔

    وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے مکمل انٹرویو کا لنک

    افغانستان سے متعلق پالیسی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ہمسایہ ملک میں امن اوراستحکام دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ایک مستحکم افغانستان ہمیں علاقائی رابطہ فراہم کرتا ہے جس کی ضرورت ہے۔

    گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کہتا چلا آ رہا ہے مسئلہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں، افغانستان سے متعلق فیصلے افغانوں نے کرنے ہیں، ہم صرف ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں، ہم امن کے لیے افغانستان کے پارٹنر ہیں۔

  • کیا مہوش حیات کا سیاست میں آنے کا ارادہ ہے؟ خصوصی انٹریو میں اداکارہ کے اہم انکشافات

    کیا مہوش حیات کا سیاست میں آنے کا ارادہ ہے؟ خصوصی انٹریو میں اداکارہ کے اہم انکشافات

    کراچی : پاکستان کی معروف فلمی اداکارہ اور تمغہ امتیاز کی حامل مہوش حیات نے کہا ہے کہ سیاست میں آنا میری خواہش ہے، جب بھی موقع ملا تو اس شعبے میں بھی قدم رکھوں گی۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر انہوں نے اپنی نجی زندگی اور مستقبل کے ارادوں سے بھی آگاہ کیا۔

    مہوش حیات نے کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ سوشل میڈیا پر ہمیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جس سے ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے، مشہور شخصیت (پبلک فیگر) ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا دل پتھر کا ہے یا ہم کچھ محسوس نہیں کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ کوئجھی بھی فلم سائن کرنے پہلے میں اسکرپٹ کا مطالعہ کرتی ہوں اور فلم میں اپنے کردار کا جائزہ لیتی ہوں، میری سب سے پہلی ترجیح اچھا کردار ہوتا ہے، اس میں بہتری کیلیے ڈائریکٹر سے صلاح مشورہ بھی کرتی ہوں۔

    ایک سوال کے جواب میں مہوش حیات نے بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی پر مبنی ایک فلم پر کام ہورہا ہے اس میں ضرور کام کروں گی، انہوں نے کہا کہ پہلے سیاست میں اتنی دلچسپی نہیں تھی البتہ کرنٹ افیئرز شوق سے دیکھتی تھی۔

    اب اس حکومت کے آنے کے بعد میرا ارادہ ہے کہ سیاسی میدان میں قدم رکھوں، جو لوگ اس ملک کی نمائندگی کرسکتے ہیں یا سفیر بن سکتے ہیں ان کو سیاست میں ضرور آنا چاہیے۔

  • پاکستان کے موجودہ حالات‘ ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف کا خصوصی انٹرویو

    پاکستان کے موجودہ حالات‘ ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف کا خصوصی انٹرویو

    دفاعی تجزیہ کار ایئرمارشل (ر) شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران دونوں ہمارے لیے محترم ممالک ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں۔

    ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف نے گزشتہ روز ملک کی موجودہ داخلی اور خارجی صورتحال پر اے آروائی نیوز ویب ڈیسک سے خصوصی گفتگو کی
    جس میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں وزیردفاع خواجہ آصف کے بیانات میں تضاد غیر سنجیدگی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

    شاہد لطیف پاک فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ تھری سٹار جنرل ہیں۔ انہوں نے 1971 سے 2006 ملک و قوم کے لئے خدمات سر
    انجام دی۔ حکومت پاکستان اور پاک فضائیہ نے انہیں ہلال امتیاز ، ستارہ امتیاز اور ستارہ بسالت سے نوازا۔ شاہد لطیف تجزیہ کار برائے
    دفاع اور حالت حاضرہ بھی ہیں۔


    اے آروائی نیوز:- سابق آرمی چیف کے حوالے سے بیانات میں تضاد ‘ کیا وزیر دفاع سےغیر ذمے دار انہ بیان کی تو قع کی جاسکتی
    ہے ؟۔

    شاہد لطیف:- اگر وزیرِدفاع کو اس متعلق کوئی علم نہیں تھا تو ان کو یہ بات کرنی ہی نہیں چا ہیے تھی۔ان کو تو یہ کہنا چا ہیے تھا کہ میں
    اس بابت کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں کیونکہ یہ بہت سنجیدہ نوعیت کا سوال ہے‘ مگروہ تویہاں تک کہہ گئے کہ دو یا تین روز قبل اس فیصلے پر
    عملدرآمد ہوچکا ہے۔ پھرجب ان سے سوال ہوا کہ کیا حکومتِ وقت کی مرضی سے سابق آرمی چیف راحیل شریف نے یہ فیصلہ کیا ہےتو ان کا
    جواب تھا کہ اس کے لئے اجازت لینا ہو تی ہے تو یقینا راحیل شریف نے حکومت سے اجازت لی ہو گی۔ چند روز قبل انہوں نے
    بڑے وثوق سے یہ بات کی جبکہ آج سینٹ میں وہ اپنے بیان سے یکسر مختلف بات کہتے نظر آئے ۔ ان کے چند روز قبل کے بیان اور
    موجودہ بیان کے درمیان بہت بڑا تضاد ہے. میں سمجھتا ہوں کہ اتنے اہم عہدے پر فائز انسان کو اس قسم کی غیر ذمے دارانہ بیان بازی
    زیب نہیں دیتی۔

    shahid-latif-2

    اے آروائی نیوز:- پانامہ لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کی اسمبلی کے فلور پر تقریر اور عدالت میں دوران سماعت کی جانے
    والی بات کے درمیان بھی بڑا تضاد دیکھا جبکہ وزیر دفاع کے بیانات بھی مکمل کنفوژ ن کا شکار نظر آتے ہیں؟۔

    شاہد لطیف:- دیکھیں! وزیراعظم کا عہدہ بہت اہم ہوتا ہے. کیوں ریاست کے اموراس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں.اب کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سیاسی بیانات جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ مناسب ہی نہیں لگتا کہ وزیر ا عظم جیسی شخصیت فلور آف ہاؤس میں جو بات کرے اس کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو جبکہ پارلیمنٹ کا ایک تقدس ہو تا ہے کیونکہ وہاں عوام کے منتخب کرده نما ئندے موجود ہو تے ہیں۔ وہاں ملک و قوم کی فلاح کے لئے فیصلہ سازی کی جاتی ہے. اُس پارلیمنٹ میں وزیرا عظم اپنی صفائی پیش کر رہے تھے۔صفائی پیش کرنے کے بعدآپ بولیں کہ جی میرا مقصد یہ نہیں تھا وہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔

    اے آروائی نیوز:- دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں اور ابھی حال میں بھی سیاست دانوں کی جانب سے فوج پر تنقید کی جاتی رہی ہے‘ آپ کے خیال میں اس کا کیا سبب ہے؟۔

    شاہد لطیف:- اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے یہاں احتساب کا عمل فعال نہیں ہے‘ لہذا ہرہر شخص اپنی بات کہنے میں آزاد ہے ۔من گهڑت باتیں بھی بلاخوف وخطر بولی جا تی ہیں‘ اگر کوئی سوال کرے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ جناب یہ تو سیاسی بیان تھا۔

    اپنے ہی ملک کی فوج کے خلاف بات کرنا مناسب نہیں لگتا ہے‘ پھر ہمارے آ ئین میں بھی درج ہے کہ فوج کے خلا ف بحیثیت ادارہ کوئی بات نہیں کی جائے گی اس کے باوجود صورتحال غیر تسلی بخش ہے اور اس کی بنیادی وجہ احتساب کے عمل کا غیر فعال ہو نا ہے ۔

    دوسرا سبب یہ ہے کہ اکثر سیاسی شخصیات پا رلیمنٹ میں اہم عہدوں پر فائز ہو نے کی وجہ سے آ ئینی شق کے حوالے سے استثنیٰ حاصل کیے ہو تے ہیں۔ لہذا ان کی مرضی ہے جو چا ہیں کریں۔

    یہاں ایک اور دل چسپ بات! یہ حضرات آئین کی استثنیٰ والی شق کوتو مانتے ہیں البتہ آ ئین نے جہاں کسی بات سے منع کیا ہے اوروہ ان کی مرضی کے مطا بق نہیں‘ اس پر عمل کرنا تودر کناراس کا ذکر کرنا بھی گو ارا نہیں کرتے ہیں۔

    shahid-post-1

    اے آروائی نیوز:- کیا فوج میں کمان کی تبدیلی سے پالیسی پر کوئی فرق پڑا ہے ‘ جیسا کہ سرل یا کلبھوش یادو کا معاملہ ہے؟۔

    شاہد لطیف :- یہ دونوں معاملا ت سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ ان ایشوز کا منطقی انجام ہو نا چا ہیے۔ من گهڑت نیوزاسٹوری میں مسلح افواج کو بدنام کا گیا ہے دشمن کو خو ش کرنے کے لئے اس ایجنڈے پر کام کیا گیا ہے۔ اس قسم کی بہتا ن تر اشیاں تو ہندوستان کرتا ہے ۔ یہ تو سب جانتے ہیں ہے کہ پاکستان میں د ہشتگر دی ’ را‘ کر واتی رہی ہے اور آپ اپنےہی ملک کی افواج کو دہشت گردی کا ذمے دار گردان رہے ہیں ۔پاک افواج ملک کی سلامتی کی ضامن ہیں نہ کہ دہشتگر دوں کے سر پر ست۔اس فوج نے ملک کی بقا کی خا طر سینے پر گو لیا ں کھا ئی ہیں. اپنے گرم لہو کو نچھاور کر کے وطن عزیز کی بنیادیں مستحکم کی ہیں. یہ بھلا کیسے د ہشت گر دوں کے سر پرست ہو سکتے ہیں. جبکہ ان کا کام ہی ملک سے د ہشت گر دی کے ناسور کو ختم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں اللّه کی مہر بانی سے ہمیں کامیابی بھی نصیب ہوئی ہے . ضرب عضب اور کراچی آ پر یشن کی کامیابیاں سب کے سامنے ہیں۔

    اے آروائی نیوز:- تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت مسلح افواج کو پنجاب پولیس بنانے کی خواہش مند ہے‘ کیا ان کا یہ موقف درست ہے ؟۔

    شاہد لطیف :-دیکھیں یہ پاکستان تحریک انصاف کا اپنا موقف ہے ‘ ان کی سو چ بھی ہو سکتی ہے اور شاید حکومت کی یہ واقعی خواہش بھی ہو۔ماضی میں پیپلز پارٹی کے زمانے میں آ ئی . ایس . آ ئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لانے کی بھی کو شش کی گئ تھی‘ تاہم ایسا ہو نہیں سکا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کے فوج کا ادارہ حکومت کا تا بع ہے مگرمسلح افواج کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیا کرتی ہیں۔

    اے آروائی نیوز:-جمہوری دور میں فوجی عد الت کا قیام اور تو سیع کا معاملہ کس قسم کی ’جمہوریت‘ ہے ؟

    شاہد لطیف :- دیکھیں فوجی عد التو ں کا قیام پا ر لیمنٹ کے فیصلہ سازی سے ہی عمل میں آیا تھا ۔ جمہوری حکومت نے یہ اقدامات کیےتھے۔ آئین میں اکسیویں ترمیم پارلیمنٹ کی منشا سے ہوئی تھی۔ نیشنل ایکشن پلان میں بھی یہ نکتہ حکومت نے خود ڈالا تھا۔ پاک فوج زبردستی تونہیں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لائی۔ اس ی طرح تو سیع کے معا ملے میں بھی پاک فوج کی ایسی کوئی خوا ہش نہیں ہے۔ فوج کا کام ملک کی دفاعی خدمت کرنا ہے اور وہ نہ صرف وہ کا م نیک نیتی کے ساتھ کر رہی ہے بلکہ حکومت جب بھی انہوں ملکی فلاح و بہبود کے حوالے سے جب بھی تعاون کی درخواست کرتی ہے ۔ پاک افواج خندہ پیشانی سے وطن عزیز کی خدمت پر مامور ہو جاتی ہے۔

    اے آروائی نیوز:- 39 مسلما ن مما لک کے اتحاد کے حو الے سے سابق آمی چیف راحیل شریف کی شر ا ئط سامنے آ ئی ہیں‘ کیا اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ سعو د ی عرب سے آفر آئی ہوگی ؟تب ہی شرائط سامنے آئیں؟۔

    شاہد لطیف:- دیکھیں آ فر آ ئی ہو گی یا نہیں میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے.میں اتنا جانتا ہوں پاکستان خود دہشتگردی سے نبرد آ ذما ہے . ہم نے جب پہلے اپنی فوج یمن نہیں بھیجی تو اب کیوں اس قسم کے اقدامات کریں گے جس سے پاکستان کو کسی قسم کےخطرات کا سامنا کرنا پڑ ے۔ ہم سعودی عرب اورایران دونوں کا دل سے احتر ام کرتے ہیں دونوں ہما رے برا در اسلامی ممالک ہیں۔ہماری خواہش ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں۔

    اے آروائی نیوز:-کیا پاکستان کو 39 مسلم ا تحا د کا حصہ ہو نا چا ہیے ؟ اس سے ہما ری خا رجہ اور د فا عی پا لیسی پر کیسےا ثرات مرتب ہوں گے؟۔

    شاہد لطیف :-رہی بات خارجہ اور دفا عی پالیسی کی تو جناب اس حکومت کو تین سال سے زائد کا عرصه ہو گیا ہے تاحال ملک کا کوئی وزیر خا رجہ نہیں ہےاور دفاعی پالیسی سے اگر آپ کی مراد وزارت دفا ع ہے تو ان کی پالیسیاں تو ان کے غیرسنجید ه بیانات سے آشکار ہیں ۔ ہاں! اگر دفاع سے مراد پاکستان ڈیفنس ہے تو پاک افواج ملک کی خا طر ہر قسم کے خطرات سے نمٹنے کی صلا حیت رکھتی ہے . ماشا اللہ