Tag: Extinction

  • براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ براعظم افریقہ میں جنگلی جانور معدوم ہو رہے ہیں، تحقیق کے مطابق انسانی سرگرمیوں کے باعث سنہ 2100 کے اواخر تک افریقی ممالیہ جانوروں اور پرندوں کی نصف نسلیں معدوم ہوسکتی ہیں۔

    دنیا بھر سے 550 ماہرین کی تیار کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیاتی نظام کے تنوع میں کمی سے انسانی کا معیار زندگی متاثر ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں یورپ اور وسطی ایشیا میں زمین پر بسنے والے جانوروں اور پودوں میں 42 فیصد کمی آئی ہے۔

    یہ اعداد و شمار دنیا کے آخری نر شمالی سفید گینڈے کی موت کے بعد سامنے آئے ہیں۔ ان انکشافات کے باوجود تحقیق میں کئی جنگلی حیات میں کامیاب اضافے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آف بائیو ڈائیورسٹی ایںڈ ایکوسسٹم سروسز (آئی پی بی ای ایس) کے مطابق چین اور شمال مشرقی ایشیا میں سنہ 1990 اور 2015 کے درمیان برساتی جنگلوں میں 20 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ ماضی میں معدومی کا شکار ہونے والے آمور تیندوے کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    کولمبیا میں بائیو ڈائیورسٹی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی سائنس دان سر رابرٹ واٹسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس عمل کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور قدرت کے غیرمستحکم استعمال سے پلٹنا ہوگا ورنہ پھر ہم جو مستقبل چاہتے ہیں اس کو خطرے کا سامنا ہوگا۔

    اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد سائنسی مضامین کا جائزہ لیا گیا اور اسے سنہ 2005 کے بعد حیاتی نظام پر سب سے جامع تحقیق کہا جا رہا ہے۔

    خوراک اور پانی کے حوالے سے لاحق خطرات میں آلودگی، موسمی تبدیلی اور جنگلات کا کٹاؤ سر فہرست ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے حکومتیں، کاروبار اور انفرادی طور پر افراد جب کھیتی باڑی، ماہی گیری، جنگلات، کان کنی یا انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے فیصلے کریں تو وہ ان کے حیاتی نظام پر اثرات کو بھی ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔

  • کیا ہماری زمین سے مینڈک ختم ہوجائیں گے؟

    کیا ہماری زمین سے مینڈک ختم ہوجائیں گے؟

    کینبرا: آسٹریلوی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہماری زمین سے مینڈک کی نسل کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلوی ماہرین نے مختلف بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلوں کے باعث مینڈک کی مختلف نسل کے معدوم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے آسٹریلوی حکام کو اس بات سے خبردار کیا ہے کہ مینڈکوں کی 26 اقسام سنہ 2040 تک دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی، 4 اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔

    مصنف ڈاکٹر گریم گلیسپی کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے شمالی علاقوں کے محکمہ ماحولیات نے سالوں کے مطالعے کے بعد مینڈک کی ختم ہو جانے والی اقسام کی نشاندہی کی ہے۔

    ڈاکٹر گلیسپی نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ مینڈک جلد ہی آسٹریلیا کے رینگنے والے جانوروں، ممالیہ جانوروں، پرندوں اور پودوں کی کئی اقسام کی طرح معدوم ہو سکتے ہیں جس سے فوڈ سائیکل متاثر ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر گلیسپی کے مطابق مینڈکوں میں جلد کی بیماری کے ساتھ ایک اور بیماری بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے مینڈک کی 4 اقسام معدوم ہوچکی ہیں۔

    ان نئی اقسام کی بیماریوں کے ساتھ تیزی سے بدلتی موسمیاتی تبدیلیاں بھی خطرے کا سبب بن رہی ہیں، جنہیں محفوظ کرنے کے لیے جلد سے جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

  • لندن میں تحفظ ماحول کے لیے مظاہرے جاری، 700 افراد گرفتار

    لندن میں تحفظ ماحول کے لیے مظاہرے جاری، 700 افراد گرفتار

    لندن : برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں تحفظِ ماحول کی تحریک کے زیر اہتمام مسلسل چھٹے روز بھی مظاہرے جاری رہے، اس دوران میں پولیس نے بلووں، نقضِ امن اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں 718 افراد کو گرفتار کر لیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق مظاہرین نے بھی شہر میں واٹرلو پل اور آکسفورڈ سرکس جنکشن کو بلاک کیے رکھا حالانکہ پولیس نے گلابی رنگ کی تیرتی کشتی کو وہاں سے ہٹا دیا تھا۔ یہ کشتی تحریک کے مرکزی فطری نقطہ کے طور پر استعمال ہورہی تھی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ پولیس نے 28 افراد پر مظاہروں اور نقضِ امن کے الزام میں فرد ِجرم عاید کردی ہے، ان مظاہروں کا اہتمام گذشتہ سال برطانیہ میں ماہرین تعلیم وتدریس کے قائم کردہ گروپ ”معدومی بغاوت“ کررہا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ یہ دنیا میں تحفظِ ماحول کے لیے ایک بڑی تحریک بن چکی ہے، اس مہم کے قائدین و کارکنان حکومتوں سے ماحول کے تحفظ کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان ، 2025 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے اور حیاتیاتی تنوع کے ضیاع کو روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

    پولیس نے لندن میں مظاہرین کو ہائیڈ پارک کے ایک کونے ماربل آرچ تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انھوں نے گرفتاری کی دھمکیوں کو نظر انداز کردیا ہے اور دوسری جگہوں کو بھی بلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ ہم کاروبارِ زندگی کو معمول پرلانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس مظاہرے کے دوران میں ایک غیر معمولی بات دیکھنے میں آئی ہے اور وہ یہ کہ اس کے شرکاء گرفتار ی کے لیے تیار ہیں اور وہ گرفتاری کے وقت کوئی مزاحمت بھی نہیں کرتے ہیں۔

    پولیس کا مزید کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے خود اس کے لیے بھی لاجسٹیکل مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ جیل کوٹھڑیوں اور حوالاتوں میں تو اتنے زیادہ زیر حراست افراد کو رکھنے کے لیے جگہ نہیں رہی ہے اور فوجداری نظامِ انصاف کے لیے بھی مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔

  • پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہونے کے قریب

    پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہونے کے قریب

    بدلتے موسموں اور گرم ہوتے درجہ حرارت نے جہاں انسانوں کی زندگی دشوار بنا دی ہے وہیں جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی بے شمار خطرات پیدا کردیے ہیں۔

    اس میں بڑا حصہ انسانوں کا ہے جو ان جانوروں کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کو بے دریغ کاٹ رہے ہیں جس کے باعث مختلف اقسام کے جانداروں کی معدومی کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔

    حال ہی میں ایک رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ رواں دہائی میں پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہوجائیں گی۔

    برڈ لائف انٹرنیشل کی جانب سے کی جانے والی تجزیاتی تحقیق میں معلوم ہوا کہ اس دہائی کے اندر براعظم امریکا میں پائے جانے والے پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہوجائیں گی۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    اس فہرست میں مکاؤ، پوالی، ایک قسم کا الو اور کرپٹک ٹری ہنٹر نامی پرندے شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض پرندے اس لیے بھی معدوم ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی آبادی کم ہوجاتی ہے اور بڑے پرندے انہیں کھا لیتے ہیں تاہم اس فہرست میں کچھ پرندے ایسے بھی شامل ہیں جو جنگلات کے خاتمے کی وجہ سے معدوم ہورہے ہیں۔

    فہرست میں اس کے علاوہ بھی 26 ہزار پرندوں و جانوروں کی اقسام ایسی ہیں جو معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    تحقیق میں شامل سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کے لیے تو اب کچھ نہیں کیا جاسکتا تاہم دیگر خطرے کا شکار جانوروں کی حفاظت اور بچاؤ کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔

  • کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب زمین چھٹی معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن یہ عمل جس تیزی سے واقع ہورہا ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے کہیں آگے ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے نتائج کے مطابق زمین کی 30 فیصد ریڑھ کی ہڈی والے جاندار جن میں مچھلیاں، پرندے، دیگر آبی حیات، رینگنے والے جانور اور کچھ ممالیہ جاندار شامل ہیں، کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں پیش کی گئی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دہائی تک کہا جارہا تھا کہ زمین پر جانوروں کے خاتمے کا عمل رونما ہونے والا ہے۔ اب خیال کیا جارہا ہے کہ یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور حالیہ تحقیق سے علم ہورہا ہے کہ اس عمل میں تیزی آچکی ہے اور اسے کسی طرح نہیں روکا جاسکتا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    تحقیق میں بتایا گیا کہ معدومی کے خطرے کی طرف بڑھتے ان جانداروں میں گوریلا، چیتے، بندر اور گینڈے وغیرہ شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ معدومی کا یہ عمل شروع ہوچکا ہے تو ایک اوسط اندازے کے مطابق ہر سال ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 2 جانداروں کی اقسام معدوم ہوجاتی ہے۔

    پناہ گاہوں کی تباہی

    ماہرین نے اس عظیم معدومی کی سب سے بڑی وجہ جانداروں کی پناہ گاہوں یا ان کے گھروں کی تباہی کو قرار دیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں جاری کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت گرم علاقے کے جانداروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ صدیوں سے اپنی رہائش کو چھوڑ کر نئی رہائش اختیار کریں۔

    ہجرت کا یہ عمل جانوروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور نئے ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باعث تیزی سے ان کی اموات واقع ہوتی ہیں۔

    پناہ گاہوں کی تباہی کی ایک اور وجہ دنیا بھر میں تیزی سے ہونے والی جنگلات کی کٹائی بھی ہے جس سے جنگلوں میں رہنے والے جانور بے گھر ہوتے جارہے ہیں۔

    گوریلا سمیت دیگر افریقی جانور مختلف افریقی ممالک میں جاری خانہ جنگیوں کی وجہ سے بھی خطرات کا شکار ہیں جس کے باعث ان کے غذائی ذخائر میں بھی کمی آرہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔