Tag: face mask

  • کرونا وائرس کی نئی اقسام: فیس ماسک کی افادیت کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    کرونا وائرس کی نئی اقسام: فیس ماسک کی افادیت کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    کرونا وائرس سے بچنے کے لیے سماجی دوری اور فیس ماسک کا استعمال نہایت ضروری ہے، اور حال ہی میں ایک اور تحقیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فیس ماسک کا استعمال نئے کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔

    برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی، آکسفورڈ یونیورسٹی اور کوپن ہیگن یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں فیس ماسک کے اثرات کا جائزہ 6 براعظموں میں لیا گیا۔

    فیس ماسک کا استعمال کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اہم ترین رکاوٹ کا کردار ادا کرتا ہے اور تجرباتی تحقیقی رپورٹس کے مطابق اس سے کسی کے بات کرنے سے بننے والے ذرات یا ہوا میں موجود ذرات کی روک تھام ہوتی ہے۔

    تاہم اب تک اس وبائی بیماری کے پھیلاؤ پر اس اثر کا وبائی ڈیٹا کو مدنظر رکھ کر جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔

    تحقیقی ٹیم نے فیس ماسک کے اثرات کا تجزیہ کیا جو اپنی طرز کا سب سے بڑے سروے بھی ہے جس میں 2 کروڑ افراد اور 6 براعظموں کے 92 خطوں کے ڈیٹا کو دیکھا گیا۔

    ماہرین نے ماضی کے تحقیقی کام کا بھی تجزیہ کیا۔

    انہوں نے ایک تکنیک کو استعمال کرکے فیس ماسک پہننے اور فیس ماسک کے استعمال کی پابندی کے اثرات کا ان خطوں میں کیسز کی تعداد سے موازنہ کیا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر کسی خطے میں سب لوگ فیس ماسک کا استعمال کریں تو کووڈ 19 کے کیسز کی شرح میں 25 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فیس ماسک کے لازمی استعمال کی پابندی لوگ بتدریج کرتے ہیں اور کیسز کی تعداد سے کسی علاقے میں فیس ماسک پہننے کی شرح کی پیشگوئی بھی کی جاسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت جب فیس ماسک کا استعمال گھٹ رہا ہے اور ان کو پہننے کی پابندی بھی بتدریج ختم ہورہی ہے، اس وقت ہماری تحقیق سے تصدیق ہوتی ہے کہ کسی آبادی میں فیس ماسکس کووڈ 19 کی روک تھام میں اہم اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اس تحقیقی ٹیم کا کام ابھی جاری ہے اور اب کرونا وائرس کی نئی اقسام پر فیس ماسک کے اثرات کا تجزیہ کیا جارہا ہے جبکہ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ کس قسم کے ماسکس کو پہننا بیماری سے زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔

  • فیس ماسک پہننے سے کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

    فیس ماسک پہننے سے کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

    ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیس ماسک پہننے سے بالغ افراد کی جسمانی سرگرمیوں پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    جریدے جرنل آف نیوٹریشن، اوبیسٹی اینڈ ایکسرسائز میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ این 95 ریسیپٹر یا کپڑے کا ماسک پہننے سے جسمانی سرگرمیوں کی گنجائش محدود نہیں ہوتی۔

    فیس ماسک کا استعمال اب دنیا بھر میں عام ہوچکا ہے مگر اب تک ایسی کوئی کلینکل تحقیق نہیں ہوئی تھی جس مین جسمانی سرگرمیوں یا روزمرہ کے معمولات پر یہ معمول کس حد تک اثرانداز ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فیس ماسک پہننے سے جسمانی سرگرمیوں یا ورزش کی گنجائش پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    امریکا کے کلیولینڈ کلینک کی اس تحقیق میں 20 صحت مند بالغ فراد کی خدمات حاصل کی گئی تھی اور متعدد اقسام کے ٹرائلز میں لوگوں کو مکمل تھکنے تک جسمانی سرگرمیوں کی ہدایت کی گئی۔

    مردوں اور خواتین دونوں کو ٹرائلز کا حصہ بنایا گیا اور یہ سب کسی حد تک متحرک افراد تھے۔

    ورزش کے دوران ان رضاکاروں کو کپڑے کا ماسک، این 95 ماسک یا کوئی ماسک نہیں پہنایا گیا اور آکسیجن استعمال کرنے کی مقدار، دھڑکن کی رفتار اور دیگر جسمانی پیمانوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    جسمانی سرگرمی کا حصہ بننے کے فوری بعد لوگوں سے مختلف سوالات بھی پوچھے گئے اور جاننے کی کوشش کی گئی ماسکس سے انہیں کس حد تک پریشانی یا تکلیف کا سامنا ہوا۔؎

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ کسی بھی قسم کی جسمانی سرگرمی سے لوگوں کی صلاحیت کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ فیس ماسک سے صحت مند بالغ افراد کی جسمانی صلاحیت متاثر نہیں ہوتی۔

    تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ڈیٹا کسی حد تک محدود ہے کیونکہ اسے ورزش کے فوری بعد اکٹھا کیا گیا اور ورزش کے دوران ٓکسیجن کی گنجائش اور وینٹی لیشن کی شرح پر کام نہیں کیا گیا۔

    اب ماہرین کی جانب سے مزید تحقیق کی جائے گی اور مختلف عمروں کے افراد کو شامل کیا جائے گا جن میں نظام تنفس کے امراض کے شکار بھی شامل ہوں گے۔ ان افراد کی روزمرہ کی سرگرمیوں پر فیس ماسک کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔

  • فیس ماسک نے لوگوں کو ایک اور بیماری سے بچا لیا

    فیس ماسک نے لوگوں کو ایک اور بیماری سے بچا لیا

    کورونا وائرس کی عالمی وبا نے دنیا بھر کے لوگوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے، اس جان لیوا بیماری سے بچنے کیلئے حکومتی سطح پر شہریوں کو احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا جارہا ہے۔

    ان احتیاطی تدابیر میں فیس ماسک پہننا، سماجی فاصلہ اور سینیٹائزر کے استعمال سمیت دیگر ہدایات جاری کی گئی ہیں جن پر عوام کی بڑی تعداد عمل پیر ابھی ہے۔

    مذکورہ احتیاطی تدابیر ہر شخص کو کورونا وائرس سے کافی حد تک تو محفوظ رکھتی ہی ہیں ساتھ ساتھ ان پر عمل درآمد سے  انسان دیگر بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔

    اس حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق شہریوں میں فیس ماسک کے استعمال سے ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

    بھارت میں تپ دق کے علاج کے محکمے نے مریضوں کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں ایک سال کے دوران تقریباً نو ہزار کی کمی واقع ہوئی ہے۔

    بھارت کے پریاگ راج ضلع تپ دق کے محکمہ کے اعداد و شمار کے مطابق جہاں سال2020میں11610 نئے افراد کی شناخت کی گئی تھی وہیں2021 میں صرف 3059 نئے مریض پائے گئے ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق چیف میڈیکل افسر نے بتایا کہ تپ دق کی بیماری کے بارے میں لوگوں میں بیداری پیدا ہوگئی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے فیس ماسک نے تپ دق اور انسانوں کے درمیان رکاوٹ پیدا کرکے لوگوں کو ٹی بی جیسے موذی مرض سے  بچانے کا کام کیا۔

  • دھوپ سے کملائے ہوئے چہرے کی شادابی لوٹانے کے لیے آسان فیس ماسک

    دھوپ سے کملائے ہوئے چہرے کی شادابی لوٹانے کے لیے آسان فیس ماسک

    موسم گرما میں جلد کی رونق کم ہوجانا اور رنگ کا گہرا ہوجانا عام بات ہے تاہم اس مسئلے کو گھر میں نہایت آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر بتول نے جلد کی چمک اور صفائی کے لیے شاندار ٹپ بتائی۔

    ڈاکٹر بتول کے مطابق پودینے کے 10 عدد پتے لیں اور اس میں ادرک کا ذرا سا ٹکڑا ڈال دیں۔ اس میں پانی ڈالیں اور اسے رات بھر کے لیے چھوڑ دیں۔

    صبح اس پانی میں 1 چمچ کارن فلور شامل کریں اور اس ماسک کو چہرے پر لگا لیں، 10 منٹ لگانے کے بعد دھونا شروع کریں اور دھوتے ہوئے ہلکا سا مساج کریں۔

    یہ اشیا چہرے سے داغ دھبے، بلیک اور وائٹ ہیڈز ختم کر کے چہرے کو شادابی بخشتی ہیں جبکہ اس سے رنگ بھی صاف ہوتا ہے۔

  • ماسک کی وجہ سے چشمے پر بھاپ کی تہ سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ

    ماسک کی وجہ سے چشمے پر بھاپ کی تہ سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ

    جہاں ایک طرف کرونا وبا میں احتیاط کے پیش نظر فیس ماسک پہننا ضروری ہے، وہاں اس سے ایک چھوٹی سی پریشانی چشمے پر بھاپ کی تہ بننے کی صورت میں بھی سامنے آئی ہے۔

    کرونا وبا کے دوران نظر کا چشمہ لگانے والے ان دنوں حفاظتی ماسک کے استعمال کے دوران چشمے کے گلاسز پر بھاپ کی تہہ جم جانے سے پریشان ہیں، کیوں کہ بھاپ کی وجہ سے صاف نظر نہیں آتا۔

    یہ مسئلہ سرد ہوا، منہ اور ناک سے نکلنے والی گرم ہوا شیشے سے ٹکرانے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

    چشمے کے گلاس پر بھاپ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پہلے چشمے کے گلاس پانی اور صابن سے دھوئیں، پھر شیونگ کریم اندر کی طرف سے چشمے پر لگائیے اور پھر نرمی سے اسے صاف کر دیں۔

    چشمے کے گلاسز پر اسپرے کے استعمال سے قبل امراض چشم کے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ لیں۔

    جب کہ اس مسئلے سے مستقل نجات کے لیے چشمے تک ہوا کی رسائی کم کرنا ضروری ہے، اس کے لیے ماسک کے اوپر موجود ناک کے ابھار کو اچھی طرح سے بند کر دیں۔

    ماسک کے بالائی کونے پر اسپیشل پٹی چسپاں کی جائے، یہ جلد پر استعمال کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی ہے۔

  • وہ ماسک جو کرونا وائرس کی تشخیص کر سکے گا

    وہ ماسک جو کرونا وائرس کی تشخیص کر سکے گا

    کرونا وائرس فی الحال ہماری دنیا سے جاتا نظر نہیں آتا اور فی الحال طب اور سائنس کا رخ اسی طرف ہے، دنیا بھر میں کرونا وائرس کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف ایجادات کی جارہی ہیں۔

    یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے ماہرین نے ایسے سنسر بنائے ہیں جو یہ جاننے کے لیے کسی بھی ماسک پر لگائے جا سکتے ہیں کہ اسے پہننے والا کرونا وائرس کا شکار ہوا ہے یا نہیں۔ جب سانس یا لعاب میں وائرس کی موجودگی کی نشاندہی ہوگی تو سنسر کا رنگ تبدیل ہو جائے گا۔

    ماہرین نے ماسک پر رنگ بدلنے والی ایسی پتریاں لگائی ہیں جو کسی شخص کے سانس یا لعاب میں کووڈ 19 کا باعث بننے والے کرونا وائرس کی موجودگی کا پتہ لگا سکتی ہیں۔

    اس سنسر کا مقصد کووڈ 19 ٹیسٹ کا نعم البدل ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد وائرس کا علم ہونے کے بعد علاج کے لیے رجوع کرنا ہے۔

    امریکا کے صحت کے قومی اداروں نے کیلیفورنیا یونیورسٹی کو اس پروجیکٹ کے لیے 13 لاکھ ڈالر فراہم کیے ہیں۔

    تحقیقی ٹیم کرونا وائرس کے حوالے سے خطرناک ماحول میں کام کرنے والوں کے لیے سنسر بنانے کے لیے ایک مصنوعات ساز کمپنی کے ساتھ شراکت داری کرے گی، روزمرہ ٹیسٹنگ میں آسانی کے لیے ان سنسرز کی قیمت کر رکھی جائے گی۔

    دوسری جانب ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے طلبا کی ٹیم نے ایسا ماسک بنایا ہے جو سانس لینے میں آسانی پیدا کرتے ہوئے وائرس سے محفوظ رکھتا ہے۔

    اسے بنانے سے قبل طلبا نے ماسک پہننے میں ہچکچاہٹ محسوس کرنے والے لوگوں کا سروے کیا، ان میں سے بہت سے افراد خاص طور پر ورزش کے دوران سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے تھے۔

    ان طلبا کا بنایا ہوا فلو ماسک نامی ماسک منہ سے سانس باہر نکالتے وقت بننے والی دھند اور گرمی کو ختم کرتا ہے جس سے ماسک پہننے سے پیدا ہونے والی مشکل میں کمی آتی ہے۔

    کیونکہ زیادہ تر لوگ ناک کے راستے سانس لیتے ہیں، اس لیے اس ٹیم نے ناک اور منہ سے سانس لینے کے لیے علیحدہ علیحدہ خانے بنائے ہیں۔

    الی نوائے یونیورسٹی کے ماہرین نے بھی کووڈ 19 کی تشخیص کے لیے لعاب کا ایک سستا ٹیسٹ وضع کیا ہے جو کم وقت میں نتائج فراہم کرتا ہے۔

    ایری زونا یونیورسٹی کے ہی اساتذہ نے استعمال شدہ پانی کو استعمال کرتے ہوئے ایک اور کرونا وائرس ٹیسٹ وضع کیا ہے جبکہ اسی یونیورسٹی کے طلبا نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی نگرانی کرنے کے لیے ایک موبائل ایپ بھی تیار کی ہے۔

  • فیس ماسک پہننے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ ماہرین کی نئی تحقیق

    فیس ماسک پہننے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ ماہرین کی نئی تحقیق

     نیو یارک : امریکہ کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے فیس ماسک اس طرح پہننا چاہیے کہ وہ ضرورت سے زیادہ ڈھیلے نہ ہوں۔

    کووڈ 19 کی وبا کے بعد سے فیس ماسک کے استعمال پر دنیا بھر میں تحقیقی کام کیا جارہا ہے، تاہم زیادہ توجہ فیس ماسک کی تیاری میں استعمال ہونے والے میٹریل اور افادیت پر دی جارہی ہے۔

    جب ہم کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے فیس ماسک پہنتے ہیں تو صرف خود کو نہیں بلکہ ارگرد موجود افراد کو بھی تحفظ فراہم کررہے ہوتے ہیں۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ درحقیقت اگر فیس ماسک ڈھیلا بھی ہے تو بھی یہ کوویڈ 19سے تحفظ کے لیے اسے نہ پہننے سے زیادہ بہتر ہے۔

    ڈیلاویئر یونیورسٹی کی تحقیق میں ہوا میں موجود ذرات سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے فیس ماسکس کی افادیت جانچنے کا ایک منفرد طریقہ کار تیار کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تحقیق کے دوران انہوں نے دریافت کیا کہ اچھی طرح فٹ ماسک ڈھیلے فیس ماسکس کے مقابلے میں وائرس سے بچاؤ میں زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق ڈھیلے فیس ماسک بھی کوویڈ 19 سے بچانے میں ان کو نہ پہننے کے مقابلے میں زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تحقیق کے مذکورہ نتائج طبی جریدے پلس ون میں شائع ہوئے۔

    اس تحقیق میں فیس ماسک میں موجود خلا اور اطراف سے ہوا میں موجود وائرل ذرات کے جسم تک پہنچنے کے عمل کو دیکھا گیا، محققین نے اس مقصد کے لیے ایک ٹیسٹ ٹیوب ماڈل تیار کیا گیا جس میں وائرل ذرات کی منتقلی کے لیے نیولائزر کا استعمال کیا گیا۔

    تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ درست طریقے سے فٹ این 95 ماسک وائرل ذرات سے بچانے کے لیے سب سے مؤثر ہوتا ہے۔ انہوں نے موازنہ کرکے دریافت کیا کہ ڈھیلے این 95 ماسکس، سرجیکل ماسکس اور کپڑے کے ماسکس پہننے والوں کے منہ اور ناک سے زیادہ ذرات خارج ہوکر ہوا میں پہنچ جاتے ہیں۔

    تاہم محققین کا کہنا تھا کہ ایک ماسک پہننے سے چشموں کے شیشے دھندلے ہونے کی وجہ ماسک کے اندر نمی ہوتی ہے، جو منہ اور ناک سے خارج ہونے والے ذرات کا حجم بڑا کرنے میں مدد دیتی ہے۔

  • کورونا ویکسین کے بعد ماسک لگانے کی ضرورت ہے؟ ماہرصحت نے بتادیا

    کورونا ویکسین کے بعد ماسک لگانے کی ضرورت ہے؟ ماہرصحت نے بتادیا

    ریاض : سعودی عرب کے شہری اس بات پر شش و پنج کا شکار ہیں کہ کیا کورونا ویکسین کے استعمال کے بعد بھی ماسک پہننا بھی لازمی ہوگا یا اس کی ضرورت باقی رہے گی؟

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق طیبہ یونیورسٹی میں وائرس کے علوم کے ماہر ڈاکٹر یاسرالقرشی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسین کے بعد بھی ماسک پہننا جاری رہے گا۔

    اپنے ایک بیان میں انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب میں فائزر کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کا اندراج ہوگیا ہے، کمپنی کا کہنا ہے کہ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ ویکسین کی کامیابی کی شرح90 فیصد ہے جس کا مطلب ہے کہ ویکسین لگانے والے90 فیصد افراد کو کورونا سے تحفظ حاصل ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ باقی رہ جانے والے دس فیصد لوگ وہ ہوں گے جنہیں ویکسین سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا، اس بات کی وجہ سے بعد میں بھی سب کو ماسک پہننا ضروری ہے۔

    علاوہ ازیں ویکسین سے تحفظ حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ویکسین لگانے والوں کورونا وائرس دوبارہ لاحق نہیں ہوسکتا، ویکسین لگانے والے شخص کو کورونا لاحق ہوسکتا ہے مگر وائرس کی وجہ سے وہ بیمار نہیں ہوگا، ایسا شخص کورونا کا حامل ہوگا اور دوسروں کو بھی منتقل کرتا رہے گا۔

    انہوں نے کہا کہ کورونا ویکسین اگر تمام افراد کو لگا بھی دیا جائے تو اسے فعال ہونے کے لیے بھی وقت چاہئے، اس لیے فیس ماسک طویل عرصے تک پہننا لازمی ہے۔

  • کورونا وائرس : اپنے چہرے سے پیسے کمانے کا آسان طریقہ، ویڈیو دیکھیں

    کورونا وائرس : اپنے چہرے سے پیسے کمانے کا آسان طریقہ، ویڈیو دیکھیں

    کورونا وائرس کی دوسری لہر مزید شدت اختیار کررہی ہے جس کے پیش نظر حکومتوں کی جانب سے عوام کو احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔

    کورونا کی وبا سے بچاؤ کیلئے انوکھے فیش ماسک کی تیاری کا کام شروع کردیا گیا ہے، اس سلسلے میں فیس ماسک بنانے والی جاپانی کمپنی نے ایسے ماسک متعارف کرائے ہیں جس سے آپ اپنی پسند کا چہرہ بنا سکتے ہیں۔

    مذکورہ کمپنی آپ سے آپ کا چہرہ خریدے گی، کمپنی کا کہنا ہے کہ اسے آپ اپنا اپنا چہرہ دیں اور اچھی خاصی رقم لیں، لوگوں کو صرف کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے کے خدوخال کے رائٹس دیں گے۔

    لوگوں کے چہروں کے حقوق خریدنے کا منفرد کاروبار کرنے والی کمپنی نے چہرے کے رائٹس کی کم سے کم قمیت 380ڈالر مقرر کی ہے جبکہ نامور شخصیات کو ان کی شہرت کے تناسب سے معاوضہ دیا جائے گا۔

  • کورونا ماسک کب اور کیسے پہنا جائے؟ عالمی ادارہ صحت نے بتا دیا

    کورونا ماسک کب اور کیسے پہنا جائے؟ عالمی ادارہ صحت نے بتا دیا

    نیو یارک : عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے فیس ماسک کے استعمال کے لیے حوالے سے نئی سفارشات جاری کی ہیں۔

    اس سے قبل عالمی ادارے نے رواں سال جون میں فیس ماسک کے حوالے سے سفارشات جاری کرتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا تھا کہ عوامی مقامات کے اندر اور باہر ہر ایک کو فیس ماسک استعمال کرایا جائے، بالخصوص ان حصوں میں جہاں وائرس کا خطرہ زیادہ ہے۔

    اب کورونا وائرس کی دوسری لہر میں تیزی آئی ہے، جس کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے زیادہ تفصیلی سفارشات جاری کی ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او نے ان سفارشات میں کہا ہے کہ جن علاقوں میں یہ وائرس پھیل رہا ہے، وہاں12 سال یا اس سے زائد عمر کے تمام افراد فیس ماسک کو دکانوں، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص ہونے کی صورت میں لازمی استعمال کریں۔

    سفارشات کے مطابق ایسے مقامات جہاں ہوا کی نکاسی کا نظام اچھا نہیں وہاں گھروں کے اندر بھی مہمانوں کے آنے پر فیس ماسک کا استعمال کیا جائے۔

    سفارشات میں کہا گیا کہ باہر اور ہوا کی اچھی نکاسی والے مقامات کے اندر بھی فیس ماسک کو اس وقت لازمی استعمال کیا جائے گا جب کم از کم ایک میٹر تک جسمانی دوری کو برقرار رکھنا ممکن نہ ہو۔

    ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ فیس ماسک بیماری کی بجائے وائرس کے پھیلاؤ سے تحفظ فراہم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ دیگر احتیاطی تدابیر جیسے ہاتھ دھونے پر بھی عمل کیا جانا چاہیے۔

    عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ وہ علاقے جہاں کووڈ 19 پھیل رہا ہے، وہاں طبی مراکز میں ہر ایک کو میڈیکل ماسکس کا استعمال کرنا چاہیے۔

    اس پابندی کا اطلاق ان مراکز میں آنے والے افراد، معمولی حد تک بیمار، کیفے ٹیریا اور عملے کے کمروں میں بھی ہونا چاہیے۔

    عالمی ادارے نے کہا کہ طبی عملے کو کووڈ 19 کے مریضوں کی دیکھ بھال کے دوران ممکن ہو تو این 95 ماسک کا استعمال کرنا چاہیے۔

    سفارشات میں مزید کہا گیا کہ سخت جسمانی مشقت کرنے والوں کو فیس ماسک پہننے سے گریز کرنا چاہیے بالخصوص دمہ کے مریضوں کو، کیونکہ ان کو چند خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    عالمی ادارے کے مطابق جم میں ہوا کی مناسب نکاسی، جسمانی دوری اور زیادہ چھوئی جانے والی اشیا کی صفائی کا خیال رکھا جانا چاہیے یا عارضی طور پر بند کردینا چاہیے۔

    ڈبلیو ایچ او کی سفارشات اس وقت سامنے آئی ہیں جب گزشتہ ماہ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) نے فیس ماسک کے حوالے سے اپنی سفارشات کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کپڑے کے فیس ماسک درحقیقت دوطرفہ تحفظ فراہم کرتے ہیں، یعنی پہننے والے اور اس کے ارگرد موجود افراد دونوں کو۔

    امریکی ادارے نے اپنی گائیڈلائنز میں کہا کہ دیگر افراد کے منہ سے خارج ہوکر ہوا میں موجود وائرل ذرات سے کپڑے کے ماسک پہننے والوں کو تحفظ ملتا ہے۔

    سی ڈی سی نے کہا کہ متعدد تہیں اور دھاگوں کی زیادہ تعداد والے کپڑے کے ماسک ۔ایک تہہ اور کم دھاگے والے ماسک کووڈ 19 سے زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

    ادارے کے مطابق کچھ کیسز میں تو یہ ماسک ہوا میں موجود لگ بھگ 50 فیصد چھوٹے ذرات کو بھی فلٹر کردیتے ہیں۔ نئی گائیڈلائنز میں سی ڈی سی نے فیس ماسکس کے دوطرفہ تحفظ کے لیے متعدد تحقیقی رپورٹس کا حوالہ دیا۔

    سی ڈی سی کا کہنا تھا کہ فیس ماسک کے فوائد اس وقت بڑھتے ہیں جب کسی برادری کے زیادہ تر افراد ان کا استعمال کریں۔ ادارے کے بقول درحقیقت فیس ماسک کا استعمال لازمی بناکر مستقبل میں لاک ڈاؤنز سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے، جس کے ساتھ

    دیگر احتیاطی تدابیر سماجی دوری، ہاتھوں کی صفائی اور ہوا کی نکاسی کے مناسب نظام کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ اس سے قبل متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دینے سے نئے کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی آتی ہے۔

    فیس ماسک کیوں ضروری ہے؟

    اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو جان لیں کہ کورونا وائرس کے بیشتر کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں متاثرہ افراد میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں یا کئی دن بعد نظر آتی ہیں۔

    مگر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے مریض علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی اس بیماری کو دیگر صحت مند افراد میں منتقل کرسکتے ہیں، اب وہ کھانسی، چھینک کے ذرات سے براہ راست ہو یا ان ذرات سے آلودہ کسی ٹھوس چیز کو چھونے کے بعد ہاتھ کو ناک، منہ یا آنکھوں پر لگانے سے۔

    ماہرین کے مطابق یہ واضح ہوچکا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے پر فیس ماسک کے استعمال سے چین، جنوبی کوریا، جاپان اور دیگر ممالک میں کیسز کی شرح میں کمی لانے میں مدد ملی۔ درحقیقت فیس ماسک سے صرف آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو بھی تحفظ ملتا ہے۔

    منہ کو ڈھانپنا ایسی رکاوٹ کا کام کرتا ہے جو آپ کو اور دیگر کو وائرل اور بیکٹریل ذرات سے تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ بیشتر افراد لاعلمی میں دیگر افراد کو بیمار کردیتے ہیں یا کھانسی یا چیزوں کو چھو کر جراثیم پھیلا دیتے ہیں۔

    امریکی ادارے سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ کے مطابق ہوسکتا ہے کہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہوں اور علامات محسوس نہ ہوں مگر پھر بھی آپ وائرس کی منتقلی میں کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فیس ماسک کا استعمال ایک اچھا خیال ہے۔