Tag: Faiz Ahmed Faiz

  • جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

    جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

    محبت، وصل، فراق اور زمانے کی ناانصافیوں کو بیک وقت اپنی شاعری میں سمونے والے خوبصورت لب و لہجے کے ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج 34 برس بیت گئے۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں 13 فروری 1911 کو پیدا ہونے والے فیض کی شاعری وقت کی قید سے آزاد ہے اور آج بھی زندہ و جاوید لگتی ہے۔

    جب ہم معاشرے میں ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد دیکھتے ہیں تو ہمیں بے اختیار فیض کے اشعار اور ان کے مصائب یاد آتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم ان کی رومانوی شاعری پڑھتے ہیں تو اس میں محبوب سے والہانہ و غائبانہ محبت اور رقیب سے ہمدردی کے منفرد اسلوب ملتے ہیں جو بلاشبہ کسی اور کی رومانوی شاعری میں موجود نہیں۔

    انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اورعاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔

    فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سر بلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔

    فیض کی زندگی نشیب و فراز سے بھرپور رہی۔ اپنے وطن میں انہیں پابند سلاسل بھی کیا گیا جہاں سے انہوں نے ایسی شاعری کی جس میں ہتھکڑیوں اور سلاخوں کی کھنکھاہٹ اور محبوب سے ہجر کا غم ایک ساتھ نظر آتا ہے۔

    یہ خوں کی مہک ہے کہ لب یار کی خوشبو
    کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو

    گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
    کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو

    ان کی رومانوی شاعری میں دیگر شاعروں کی طرح غرور اور خود پسندی کی جگہ انکسار نظر آتا ہے۔

    گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
    دھل کے نکلے گی ابھی چشمہ مہتاب سے رات

    اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
    اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ

    ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
    کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

    جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
    ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

    یہی عجز اور انکسار اس وقت بھی نظر آتا ہے جب وہ رشک سے اپنے رقیب سے مخاطب ہوتے ہیں۔

    آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
    جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

    جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
    دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

    تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
    زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے

    تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
    تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

    انہوں نے برطانوی نژاد خاتون ایلس سے شادی کی تھی۔ ایک بار معروف مصنف حمید اختر نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے شوہر کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار ضرور ہوتی ہوں گی‘، تو ایلس نے جواب دیا، ’حمید! فیض شاعر ہیں، شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا‘؟

    فیض نے جب معاشرے کی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف قلم اٹھایا، تو اس وقت ان کا لہجہ بہت مختلف تھا۔

    مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

    تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
    یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

    اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    فیض کے مجموعہ کلام میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر شامل ہیں جبکہ سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات کا مجموعہ ہے۔

    فیض نے نثر میں بھی میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی یادگار کتابیں تحریر کیں۔

    انہیں کئی بین الاقوامی اعزازت سے بھی نواز گیا جس میں لینن پرائز سرفہرست ہے۔

    خوبصورت و دھیمے لہجے کا یہ شاعر 20 نومبر سنہ 1984 کو دنیا سے ناطہ توڑ گیا جس کے بعد انہیں لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں پیوند خاک کردیا گیا۔

    مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
    جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

  • فیض احمد فیض کی صاحبزادی کو انڈیا سے واپس بھیج دیا گیا

    فیض احمد فیض کی صاحبزادی کو انڈیا سے واپس بھیج دیا گیا

    لاہور: اردو کے معروف شاعر فیض احمد فیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی کو دہلی میں کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا لیکن عین وقت پر انہیں اس میں شرکت کرنے سے روک دیا گیا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق دہلی میں 10 سے 12 مئی کو منعقدہ اییشین میڈیا سمٹ میں منیزہ ہاشمی کو بطور مقرر شرکت کرنا تھی، منیز ہاشمی کا کہنا ہے کہ جب وہ دہلی پہنچیں تو ہوٹل میں ان کی بکنگ منسوخ کردی گئی اور کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا۔

    منیزہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ منتظمین نے اس بارے میں ان سے کوئی بات نہیں کہ اور نہ ہی وضاحت پیش کی، ہوسکتا ہے کہ ان کا مقصد یہی تھا کہ کوئی پاکستانی اس میں شرکت نہ کرسکے۔

    ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سے قبل متعدد بار انڈیا کا دورہ کرچکی ہیں، پہلے کبھی اس قسم کی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ کسی تقریب میں انہیں شرکت سے روک دیا گیا ہو۔

    منیزہ ہاشمی کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان بہت سے مسائل ہیں اور دونوں جانب سے عوام کے میل جول سے ان کے حل میں مدد مل سکتی ہے اور امن کا یہی پیغام میرے والد نے بھی دیا تھا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک سماجی موضوع تھا اس تقریب میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ظاہر ہوتی، لیکن دہلی میں یہ کوشش کی گئی کہ کوئی پاکستانی اس میں شرکت نہ کرے۔

     منیزہ ہاشمی کے بیٹے علی ہاشمی نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹویٹر پر ردعمل دیتے ہوئے نریندر مودی اور سشما سوراج سے سوال کیا  کہ یہ ہے آپ کا ترقی یافتہ بھارت؟ میری 72 سالہ ماں کو  کانفرنس میں شرکت کے لیے بلایا گیا پھر انہیں شرکت سے روک دیا گیا، نہایت ہی شرمناک عمل ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    محبت، وصل، فراق اور زمانے کی ناانصافیوں کو بیک وقت اپنی شاعری میں سمونے والے خوبصورت لب و لہجے کے ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج 33 برس بیت گئے۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں 13 فروری 1911 کو پیدا ہونے والے فیض کی شاعری وقت کی قید سے آزاد ہے اور آج بھی زندہ و جاوید لگتی ہے۔

    جب ہم معاشرے میں ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد دیکھتے ہیں تو ہمیں بے اختیار فیض کے اشعار اور ان کے مصائب یاد آتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم ان کی رومانوی شاعری پڑھتے ہیں تو اس میں محبوب سے والہانہ و غائبانہ محبت اور رقیب سے ہمدردی کے منفرد اسلوب ملتے ہیں جو بلاشبہ کسی اور کی رومانوی شاعری میں موجود نہیں۔

    انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اورعاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔

    فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سر بلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔

    فیض کی زندگی نشیب و فراز سے بھرپور رہی۔ اپنے وطن میں انہیں پابند سلاسل بھی کیا گیا جہاں سے انہوں نے ایسی شاعری کی جس میں ہتھکڑیوں اور سلاخوں کی کھنکھاہٹ اور محبوب سے ہجر کا غم ایک ساتھ نظر آتا ہے۔

    یہ خوں کی مہک ہے کہ لب یار کی خوشبو
    کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو

    گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
    کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو

    ان کی رومانوی شاعری میں دیگر شاعروں کی طرح غرور اور خود پسندی کی جگہ انکسار نظر آتا ہے۔

    گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
    دھل کے نکلے گی ابھی چشمہ مہتاب سے رات

    اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
    اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ

    ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
    کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

    جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
    ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

    یہی عجز اور انکسار اس وقت بھی نظر آتا ہے جب وہ رشک سے اپنے رقیب سے مخاطب ہوتے ہیں۔

    آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
    جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

    جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
    دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

    تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
    زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے

    تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
    تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

    انہوں نے برطانوی نژاد خاتون ایلس سے شادی کی تھی۔ ایک بار معروف مصنف حمید اختر نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے شوہر کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار ضرور ہوتی ہوں گی‘، تو ایلس نے جواب دیا، ’حمید! فیض شاعر ہیں، شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا‘؟

    فیض نے جب معاشرے کی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف قلم اٹھایا، تو اس وقت ان کا لہجہ بہت مختلف تھا۔

    مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

    تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
    یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

    اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    فیض کے مجموعہ کلام میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر شامل ہیں جبکہ سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات کا مجموعہ ہے۔

    فیض نے نثر میں بھی میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی یادگار کتابیں تحریر کیں۔

    انہیں کئی بین الاقوامی اعزازت سے بھی نواز گیا جس میں لینن پرائز سرفہرست ہے۔

    خوبصورت و دھیمے لہجے کا یہ شاعر 20 نومبر سنہ 1984 کو دنیا سے ناطہ توڑ گیا جس کے بعد انہیں لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں پیوند خاک کردیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فیض احمد فیض کا106واں یومِ پیدائش آج منایاجارہاہے

    فیض احمد فیض کا106واں یومِ پیدائش آج منایاجارہاہے

    اردو کےعظیم شاعر،ادیب اورمعروف صحافی فیض احمد فیض کا 106 واں یومِ پیدائش 13 فروری کو منایا جارہاہے۔

    فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کوشاعرِ مشرق علامہ اقبال کے شہرسیالکوٹ میں پیدا ہوئے،انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن رہے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے ہی حاصل کی،گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے اور اورینٹل کالج سے عربی میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض نے 1930 میں لبنانی شہری ایلس سے شادی کی۔ وہ بھی شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اورشخصیت سے متاثرتھیں۔

    انہوں نے 1935میں ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی پھر 1942 میں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئےاور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔1947میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پرفوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اورعربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔انہوں نےان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سےبراہ راست استفادہ کیا۔اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    انہوں نےجب شاعری شروع کی تواس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورپوری اور جوش ملیح آبادی جیسےقدآور شعراء موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    faiz-post-1

    اردو شاعری میں فیض کےمنفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ،شام شہریاراں سروادی سینا ،مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    اردو کےعظیم شاعرفیض1959ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں سیکریٹری تعینات ہوئےپھر1962 تک وہیں تعینات رہے۔اس کے علاوہ ادبی رسالہ ادب لطیف کےمدیراوراس کے بعد روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل ونہار کے مدیر اعلٰی رہے۔

    انہیں9 مارچ1951 کوفیض احمد فیض راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کےالزام میں گرفتار کیاگیا۔فیض نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں گزارے،جبکہ دو اپریل 1955 کو انہیں رہا کردیا گیا۔

    فیض احمد فیض وہ واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں فیض کو لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔آپ کےکلام کومحمد رفیع،ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اورجگجیت سنگھ جیسےگلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔

    اردو کے شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض20نومبر 1984 کو73برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ان کی شاعری آج بھی بے حد مقبول ہے۔

  • آج فیض احمد فیض کے مداح ان کا 105واں یوم پیدائش منارہے ہیں

    آج فیض احمد فیض کے مداح ان کا 105واں یوم پیدائش منارہے ہیں

    جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
    علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں

    فیض احمد فیض کا شماراردو کےعظیم شعراء میں ہوتا ہے، آپ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپ کا نام فیض احمد اور تخلص فیض تھا۔

    انہوں نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے ہی حاصل کی، اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے اور اورینٹل کالج سے عربی میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    انیس سو تیس میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد آپ برٹش آرمی میں بطورکپتان شامل ہوگئے اور محکمہ تعلقات عامہ میں فرائض انجام دیئے۔فیض نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ کرفوج کوخیرباد کہا اوراس کے بعد وہ واپس شعبہِ تعلیم سے منسلک ہوگئے۔

    فیض نے قلم کاری کا آغازشاعری سے کیا اوراردواورپنجابی میں شاعری کی، بعد میں وہ صحافت سے منسلک ہوگئے، فیض احمد فیض اردو ادب میں ایک ایسا ممتاز نام ہیں، جنہوں نے سیاسی اورسماجی مسائل ک مختلف احساسات سے جوڑتے ہوئے یادگاررومانوی گیتوں کا حصہ بنا دیا۔

    ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد​
    فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے​

    فیض احمد فیض کی تخلیقات میں نقش فریادی، دست صبا، نسخہ ہائے وفا، زندان نامہ، دست تہہ سنگ، سروادی سینا، مرے دل مرے مسافرسمیت درجنوں شعری مجموعے اور تصانیف شامل ہیں۔ ان کے ادبی مجموعوں کا انگریزی ، فارسی، روسی ، جرمن اوردیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

    انہوں نے ادبی صورتحال اور ملکی حالات پر مضامین بھی تحریر کئے، جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ فیض احمد فیض شروع سے ہی انقلابی ذہن کے حامل تھے، وہ ایک طویل عرصے تک انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن رہے اورآمریت اورظلم کے خلاف قلمی جہاد کے ساتھ ساتھ عملی کرداربھی ادا کیا۔

    گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
    گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

    فیض احمد فیض کی اعلیٰ ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ نشانِ امتیازاورسوویت یونین کی جانب سے لینن پرائزعطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں نگارایوارڈ اورپاکستان ہیومن رائٹس سوسائٹی کی طرف سے امن انعام سے بھی نوازا گیا۔

    ان کے اشعار کی انقلاب آفرینی آج بھی جذبوں کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہے۔ فیض نے شخصی آزادی اور حقوق کی آواز کچھ اس طرح بلند کی کہ وہ سب کی آواز بن گئی ، فیض نوبل پرائز کے لیے بھی منتخب ہوئے۔

    فیض احمد فیض مارچ انیس سواکیاون میں راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار بھی ہوئے، آپ نے چارسال سرگودھا، ساھیوال، حیدرآباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ آپ كو 2 اپریل 1955 كو رہا كر دیا گیا ، زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں۔

    زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں، وہ بیس نومبر انیس سو چوراسی کو تہتر برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اورلاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

    جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم
    جو چلے تو جاں سے گزر گئے

  • فیض احمد فیض کوہم سے بچھڑے تیس برس بیت گئے

    فیض احمد فیض کوہم سے بچھڑے تیس برس بیت گئے

    فیض احمد فیض کو ہم سے بچھڑے تیس برس بیت گئے ہیں۔

    فیض احمد فیض غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر ہیں، فیض احمد فیض انیس سو گیارہ میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپ کا نام فیض احمد اور تخلص فیض تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے ہی حاصل کی، اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے اور اورینٹل کالج سے عربی میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    انیس سو تیس میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ برٹش آرمی میں بطور کپتان شامل ہوگئے اور محکمہ تعلقات عامہ میں فرائض انجام دیئے۔اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے فوج کو خیرباد کہا۔ اس کے بعد وہ واپس شعبہ تعلیم سے منسلک ہوگئے۔

    فیض نے قلم کاری کا آغاز شاعری سے کیا اور اردو اور پنجابی میں شاعری کی، بعد میں وہ صحافت سے منسلک ہوگئے اور صدائے حق بلند کی، فیض احمد فیض اردو ادب میں ایک ایسا ممتاز نام ہیں، جنہوں نے سیاسی اور سماجی مسائل کو مختلف احساسات سے جوڑتے ہوئے یادگار رومانوی گیتوں کا حصہ بنا دیا۔

    faiz

    فیض احمد فیض کی تخلیقات میں نقش فریادی، دست صبا، نسخہ ہائے وفا، زندان نامہ، دست تہہ سنگ، سروادی سینا، مرے دل مرے مسافرسمیت درجنوں شعری مجموعے اور تصانیف شامل ہیں۔ ان کے ادبی مجموعوں کا انگریزی ، فارسی، روسی ، جرمن اور دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

    انہوں نے ادبی صورتحال اور ملکی حالات پر مضامین بھی تحریر کئے، جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔فیض احمد فیض شروع سے ہی انقلابی ذہن کے حامل تھے، وہ ایک طویل عرصے تک انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن رہے اورآمریت اور ظلم کے خلاف قلمی جہاد کے ساتھ ساتھ عملی کردار بھی ادا کیا۔

     

    FAIZ-2

    فیض احمد فیض کی اعلیٰ ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ نشانِ امتیاز اور سوویت یونین کی جانب سے لینن پرائزعطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں نگار ایوارڈ اور پاکستان ہیومن رائٹس سوسائٹی کی طرف سے امن انعام سے بھی نوازا گیا۔

    ان کے اشعار کی انقلاب آفرینی آج بھی جذبوں کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہے۔ فیض نے شخصی آزادی اور حقوق کی آواز کچھ اس طرح بلند کی کہ وہ سب کی آواز بن گئی ، فیض  نوبل پرائز کے لیے بھی منتخب ہوئے۔

    فیض احمد فیض مارچ انیس سو اکیاون میں راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار بھی ہوئے، آپ نے چار سال سرگودھا، ساھیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ آپ كو 2 اپریل 1955 كو رہا كر دیا گیا ، زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں۔

    زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں، وہ بیس نومبر انیس سو چوراسی کو تہتر برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اور لاہور ہی میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

    جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے

    رہ  یار ہم نے قدم  قدم  تجھے یادگار  بنا دیا