Tag: famous urdu poet

  • آج اردو کے عظیم شاعرفراق گورکھپوری کا یوم وفات ہے

    آج اردو کے عظیم شاعرفراق گورکھپوری کا یوم وفات ہے

    اردو زبان کے عظیم شاعر فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہر قانون اور اچھے شاعر تھے۔

    فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد آئی سی ا یس (انڈین سول سروس) کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی مخالفت میں استعفا دے دیا۔ جس کی پاداش میں انھیں جیل جانا پڑا۔ اس کے بعد وہ الہٰ اآباد یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے لکچرر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

    یہیں پر انہوں نے بہت زیادہ اردو شاعری کی جس میں آپ کی شہر آفاق کتاب گل نغمہ بھی شامل ہے۔ جس کو ہندوستان کا اعلی معیار ادب گیان پیٹھ انعام بھی ملا۔ اور وہ آل انڈیا ریڈیو کے پروڈیوسر بھی رہے۔

    بطور ممتاز شاعر انہوں نے اردو شاعری کی اہم اصناف مثلاً غزل، نظم، رباعی اور قطعہ میں کے وہ ایک منفرد شاعر ہیں جنہوں اردو نظم کی ایک درجن سے زائد اور اردو نثر کی نصف درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں اور ہندی ادبی اصناف پر متعدد جلدیں تحریر کیں، ساتھ ہی ساتھ انگریزی ادبی وثقافتی موضوعات پر چار کتابیں بھی لکھیں۔

    ان کے متعدد شاعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روح کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گل نغمہ کے نام سرفہرست ہیں۔ حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات عطا کیے تھے۔

    فراق کا انتقال طویل علالت کے بعد 3 مارچ 1982ء کو 85 سال کی عمر میں نئی دہلی میں ہوا۔ میت الہ آباد لے جائی ۔گئی جہاں دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے سنگم پر ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔

  • شعلہ بیان شاعر شکیب جلالی کو بچھڑےاڑتالیس برس بیت گئے

    شعلہ بیان شاعر شکیب جلالی کو بچھڑےاڑتالیس برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) – آج اردو زبان کے شعلہ بیان شاعر سید حسن رضوی المعروف شکیب جلالی کا یومِ وفات ہے ان کی شاعری معاشرتی نا ہمواریوں اور احساسِ محرومی کی عکاس ہے۔

    یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
    گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں

    شکیب جلالی یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ انہوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں شاعر ی شروع کر دی اور شاعری بھی ایسی کہ جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔

    دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا
    پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے

    شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہورمیں مقیم رہے، وہیں سے انہوں نے ایک رسالہ ’جاوید ‘نکالا لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ اس کے بعد ’مغربی پاکستان‘نامی سرکاری رسالے سے وابستہ ہوگئے۔

    کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
    میں پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں

    ان کی شاعری میں معاشرتی نا ہمواریاں اور احساس کی تپش نمایاں تھی اور ان کی یہی تپش جب ان کی برداشت سے باہر ہوگئی تو محض بتیس سال کی عمر میں 12 نومبر1966 کو سرگودھا ریلوے اسٹیشن کے قرین ایک تیز رفتار ٹرین کے سامنے آکر انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

    ان کا مجموعہ کلام 1972 میں روشنی اے روشنی کے نام سے شائع ہوا اور 2004 میں ان کا مکمل کلام کلیاتِ شکیب کے نام سے شائع ہوا۔

    مجھ کو گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
    جس طرح سائہ دیوار پہ دیوار گرے
    دیکھ کر اپنے در وبام لرز اٹھتا ہوں
    میرے ہم سائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

    اتر گیا ترے دل میں توشعر کہلایا
    میں اپنی گونج تھا اور گنبدوں میں رہتا تھا
    میں ساحلوں میں اتر کر شکیب کیا لیتا
    ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا

    سوچو توسلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
    دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

    اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
    زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمیں چلنے لگی