Tag: Farid ul Haq

  • مچھلی فرائی کرنے کے لیے سب سے صحت بخش، محفوظ تیل کون سا ہے؟

    مچھلی فرائی کرنے کے لیے سب سے صحت بخش، محفوظ تیل کون سا ہے؟

    اگر آپ کا شمار مچھلی شوق سے کھانے والوں میں ہوتا ہے تو کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ مچھلی فرائی کے لیے اور دیگر کھانوں میں استعمال کے لیے سب سے صحت بخش اور محفوظ تیل کون سا ہے؟

    اس سے پہلے کہ ہم فرائی کے لیے تیل کے بہترین آپشن کو جانیں ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جو تیل ہم استعمال کر رہے ہیں کیا وہ کھانے کے قابل ہے بھی یا نہیں؟

    صدیوں سے ہمارے آبا سرسوں، کھوپرے، زیتون کے تیل اور دیسی گھی کا استعمال کرتے آ رہے ہیں، یہ تیل کولہو میں بیل جوت کر نکالا جاتا تھا، یہ ایک مکمل آرگینک تیل تھا جو حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق تیار تھا۔ اس میں سب سے زیادہ استعمال سرسوں کے تیل کا ہوتا تھا کیوں کہ وہ سستا بھی تھا اور دستیابی بھی آسان تھی۔

    70 کی دہائی میں امریکا و یورپ سے آواز اٹھی کہ سرسوں کے تیل میں اومیگا 9 یعنی کہ ایرکک ایسڈ (Erucic Acid) کی مقدار زیادہ ہے جو ہارٹ اٹیک کا باعث بنتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جانوروں کی چربی، دیسی گھی اور مکھن کو بھی مضر صحت قرار دے دیا گیا۔

    جب اس کی خوب تشہیر کی گئی تو پھر مارکیٹ میں کنولا آئل متعارف کرایا گیا، اور یہ کہا گیا کہ اس میں ایرکک ایسڈ کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ صحت کے لیے بہترین ہے، اور کینیڈا دھڑا دھڑ کنولا آئل بنانے لگا۔

    معاملہ یہ تھا کہ ایرکک ایسڈ کے معمولی مقدار کو ہوا بنا کے پیش کیا گیا تھا تاکہ ان کا کاروبار چل نکلے، دل چسپ بات یہ ہے کہ کنولا بھی سرسوں ہی کی ایک قسم ہے، جسے میٹھی سرسوں کہا جاتا ہے، اس کے بعد کنولا آئل اور ریفائنڈ آئل کو فروغ ملا اور دنیا بھر میں اس کا استعمال عام ہو گیا۔

    لیکن پھر اس کے مضر صحت اثرات سامنے آنے لگے اور دنیا بھر میں شوگر، بلڈ پریشر، موٹاپا، دل کی بیماریاں اور کینسر عام ہونے لگیں، ایسا کیوں ہوا؟ آئیے اس کی وجوہ جان لیں۔

    کنولا آئل ایک GMO فوڈ تھا، اس کا مطلب ہے کہ وہ فوڈ جس میں جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے لیبارٹری میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ یہ چوں کہ خلاف فطرت ہے اس لیے مکمل آرگینک نہیں ہے۔ دوسرا طریقہ ہائبرڈ کہلاتا ہے جو مصنوعی ملاپ کے ذریعے دو اقسام کی کراس بریڈنگ مقامی طور پر کسان حضرات کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک پودے پر کسی اور پودے کا قلم لگانا، یہ آرگینک طریقہ کار ہے۔

    دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ موجودہ تیل کو پراسس یعنی ریفائنڈ کیا جاتا ہے اور اس عمل میں اس کے مفید اجزا خاص طور پر Omega 3 نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں، اور نقصان دہ کولیسٹرول یعنی کہ LDL کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

    ریفائنڈ اور غیر ریفائنڈ میں کیا فرق ہے؟

    آئل کی موجودہ شکل ریفائنڈ آئل کہلاتی ہے، یعنی کہ پراسس کیا ہوا ہو یا صاف شدہ تیل۔

    ریفائننگ کا یہ عمل ہیوی مشینری کے ذریعے کیا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران اس کی رنگت سنہری کرنے، بو ختم کرنے اور لمبے عرصے تک محفوظ کرنے کے لیے اس میں مضر صحت کیمیکل ڈالے جاتے ہیں، اور زیادہ دیر تک ہیوی ہیٹ دی جاتی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ تیل کی پراسیسنگ میں ہیٹ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

    ریفائننگ کے اس عمل کے دوران تیز درجہ حرارت اور کیمیکل ان میں سے تمام قیمتی اور قدرتی عناصر ختم کر دیتے ہیں اور اس کے بجائے یہ ٹرانس چربی کی مقدار کو بڑھا دیتے ہیں، جس سے غیر صحت بخش کولیسٹرول یعنی کہ LDL کولیسٹرول، ٹرائگلیسرائڈز، اور انسولین کی سطح بڑھ جاتی ہے اور فائدہ مند HDL کولیسٹرول کی سطح کم ہو جاتی ہے۔

    ریفائنڈ ہوئے بغیر تیل یقینی طور پر ریفائنڈ تیل سے زیادہ صحت بخش ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ کم آنچ پر، بغیر کیمکل اور کم پراسس کے ساتھ تیار ہوتے ہیں۔

    کولڈ پریس مشینیں

    غیر ریفائنڈ تیل پہلے کولہو میں تیار ہوتا تھا، ایک بڑے سے ڈونگے میں سرسوں کے بیچ ڈال کر اسے لکڑی اور بیلوں کی مدد سے کرش کر کے تیل نکالا جاتا تھا، اس عمل کو کولڈ پروسیس کہتے ہیں جس میں تیل قدرتی حالت میں رہ پاتا ہے۔ کیوں کہ تیل کو ہیٹ بھی کم لگتی ہے اور کیمکل بھی شامل نہیں کیے جاتے، بس اسے لمبے عرصے تک رکھا نہیں جا سکتا۔ تیل نکالنے کے بعد 3 مہینے کے اندر اندر استعمال کرنا ہوتا ہے۔

    اب کولہو میں بیلوں کی جگہ موٹر مشینوں نے لے لی ہے، لیکن باقی طریقہ کار وہی ہے، جیسا آپ کو تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ اب مارکیٹ میں ایسی کئی مشینیں بھی دستیاب ہیں جو کولڈ پراسس کے تحت بیج سے آئل نکالتی ہیں۔ آپ وہاں بیج دے کر تیل نکالیں اور پھر گھر میں خود بہت ہی آسانی سے اسے پراسس کر لیں۔ ایسی کولڈ پریس مشینیں اور کولہو پاکستان میں ہر جگہ دستیاب ہیں۔

    تیل کو گھر پر کیسے صاف کریں؟

    سرسوں کا غیر صاف شدہ یعنی کہ غیر ریفائنڈ تیل گھر پر ریفائنڈ کرنے کے لیے اس میں کٹی پیاز، لہسن، زیرہ اور آٹے کا پیڑا ڈال کر اسے گرم کر کے پھر بلکی آنچ پر ایک گھنٹے تک پکایا جاتا ہے۔ اس عمل سے بو ختم ہو جاتی ہے، رنگ سنہرا ہو جاتا ہے اور فاسد مادے ختم ہو جاتے ہیں، جو کچھ فاسد مادے رہ بھی جاتے ہیں وہ نیچے پیندے میں بیٹھ جاتے ہیں۔

    ایک گھنٹے تک ہلکی آنچ پر گرم کرنے کے بعد آنچ بند کر کے اس میں سے ساری ڈالی ہوئی چیزیں نکال لیں اور پانچ گھنٹے تک ایسے ہی پڑا رہنے دیں۔ یاد رہے کہ اس وقت پتیلے یا برتن پر ڈھکن نہ لگائیں تاکہ بخارات پانی بن کر تیل میں شامل ہو کر تیل خراب نہ کر دیں بلکہ کسی کپڑے سے ڈھانپ لیں۔

    پانچ گھنٹے بعد اوپر کا تیل کسی برتن کے ذریعے کسی اور برتن میں شفٹ کر لیں اور پیندے میں پڑا تیل رہنے دیں، کیوں کہ اس میں کچھ مضر اثرات ہو سکتے ہیں، پیندے میں پڑا یہ تھوڑا سا تیل آپ مالش اور سر پر لگانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

    اب آپ کے پاس قدری طریقے سے پراسس کیا ہوا بھرپور صحت بخش تیل ہے، جسے آپ بلا جھجھک ہر ریسپی میں استعمال کر سکتے ہیں، چاہے وہ سبزی ہو، گوشت ہو یا دال۔ ہمارے آبا صدیوں سے اسی طریقے سے تیل نکال کر اور صاف کر کے استعمال کرتے آئے ہیں۔ انھیں نہ بلڈ پریشر کے مسائل تھے نہ شوگر کے، نہ دل کے، اور ان کی ہڈیاں بھی مضبوط تھیں۔ اس کولڈ پراسس کے تحت حاصل شدہ غیر ریفائنڈ تیل بہت مفید بھی ہے اور سستا بھی اور سرسوں کا تیل خاص کر فرائی کرنے کے لیے سب سے بہترین ہے کیوں کہ اس کا اسموک پوائنٹ ہے۔

    اسموک پوائنٹ کیا ہے؟

    جب تیل کو اتنا گرم کیا جائے کہ اس میں سے دھواں نکلنے لگے تو اس عمل کو Smoke Point یا Burning Point کہتے ہیں۔ تیل میں سے دھواں نکلنے کے بعد اگر اسے آنچ سے ہٹا نہیں دیا جائے یا آنچ کم نہ کی جائے اور اس میں سے ایسے ہی دھواں نکلتا رہے تو اس کے مفید اجزا تو ختم ہو ہی جاتے ہیں، ساتھ میں یہ تیل بالکل زہریلا ہو جاتا ہے، جو صحت کے لیے اور خاص کر دل کے لیے زہر قاتل ہے۔

    عام طور سے فیکٹریوں میں پراسیسنگ کا عمل اچھا نہیں ہوتا کیوں کہ وہ پراسیسنگ میں ہیٹ کا خیال نہیں رکھتے، اور تیل مضر صحت ہو جاتا ہے اور اس پر ان کے دعوے کہ یہ ریفائنڈ یعنی کہ گندگی سے مبرا صاف و شفاف تیل ہے، بہ ظاہر دیکھنے پر تو تیل صاف و شفاف نظر آتا ہے لیکن درحقیقت غیر فائدہ مند اور نقصان دہ ہوتا ہے۔

    یہ بھی ذہن نشین رہے کہ فرائی کرنے کے لیے تیل کو صرف دو مرتبہ اور وہ بھی کم وقت کے لیے ہی استعمال کر سکتے ہیں، صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے بعد وہ تیل قابل استعمال نہیں رہتا۔ اب اس تناظر میں بازار میں فرائی کرنے والوں کو ذہن میں لائیں، ایک تو وہ ریفائنڈ تیل استعمال کرتے ہیں جو کہ پہلے ہی سے نقصان دہ ہے، اس پر مستزاد یہ کہ وہ اسے بار بار اور مسلسل استعمال کرتے رہتے ہیں جو پک پک کر ڈیزل کی طرح اور زہر قاتل بن جاتا ہے۔

    اس لیے بازار کی فرائی کی ہوئی چیزیں سخت نقصان دہ ہوتی ہیں، خصوصاً مچھلی، کیوں کہ وہ ڈیپ فرائی میں اور سارا دن استعمال ہونے والے تیل میں تلتی ہے۔

    فرائی میں پھر سب سے نقصان دہ ڈیپ فرائی ہے، اس لیے ہمیشہ shallow فرائی کیا کریں، پین میں اتنا آئل ڈالیں کہ پیندا تر ہو جائے، جب کہ اس کے برعکس ہمارے ہاں کڑھائی اور پین کو آئل سے تقریباً آدھا بھر دیا جاتا ہے۔

    تیلوں کا اسموک پوائنٹ

    سب سے زیادہ اسموک پوائنٹ ایواکاڈو (avocado) آئل کا ہے جو 271 ڈگری سیلسیس ہے۔ یعنی کہ تیز ہیٹ اور زیادہ دیر تک پکنے پر جلے گا نہیں، اس طرح یہ فرائی کے لیے بہترین ہے لیکن یہ مہنگا ہونے کی وجہ سے عام عوام کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس کے بعد دیسی گھی کا 250 ڈگری ہے لیکن یہ بھی مہنگا ہے۔

    اب بچتے ہیں سرسوں کا تیل 249 ڈگری، سن فلاور 232 ڈگری، کنولا 204 ڈگری، زیتون کا 160 ڈگری اور ناریل کا 177 ڈگری ہے۔

    اس میں صحت کے لیے سب سے بہترین دیسی گھی اور زیتون کا تیل ہے، لیکن یہ دونوں مہنگے ہونے کی وجہ سے عام استعمال کے لیے ممکن نہیں، اور زیتون یعنی کہ Olive Oil کا اسموک بہت پوائنٹ کم ہے، اس لیے اس کو ہلکی آنچ اور کم ٹائم کے لیے پکنے والی غذاؤں کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

    بہترین چوائس مسٹرڈ آئل یعنی کہ سرسوں کا تیل ہے، جس کا اسموک پوائنٹ بھی زیادہ ہے اور صحت کے لیے بھی بہت کار آمد ہے اور اسی تیل میں مچھلی فرائی کا اصل مزا آتا ہے۔

    کنولا تیل سرسوں سے اچھا ہے لیکن وہ مہنگا ہے اور اسموک پوائنٹ بھی کم ہے، آپ سرسوں کی جگہ کنولے سے بھی تیل نکلوا سکتے ہیں، اسی لیے جب بھی تیل کا انتخاب کریں ہمیشہ غیر ریفائنڈ اور سرسوں کا، زیتون، ناریل، کنولا اور دیسی گھی کا انتخاب کریں۔

    مکھن، دیسی گھی، کاربوہائیڈریٹس

    کچی لسی، دہی، مکھن، دیسی گھی، جانوروں کی چربی اور Nuts کا استعمال ضرور کیا کریں، حالیہ ریسرچ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ان غذاؤں کا دل کی بیماری، موٹاپے اور شوگر سے تعلق نہیں ہے۔ یہ فیٹس بدن کے لیے صحت بخش ہیں جو کہ صحت مند کولیسٹرول HDL کو بڑھاتے ہیں۔

    کاربوہائیڈریٹس بدن کے لیے نقصان دہ ہیں، حالاں کہ کاربو ہائیڈریٹس بدن کے لیے ایندھن کا کام کرتے ہیں اور باڈی کو طاقت دیتے ہیں، لیکن ریفائنڈ تیل کی طرح ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹ فوڈز بدن کو انرجی کی بجائے زہر دے رہے ہیں، جس میں تمام ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹ شامل ہیں، یعنی کہ چینی، نشاستہ، موجودہ گندم (پرانی 55 سال پہلے تک والی نہیں، اور پراسس گندم، یعنی آٹے میں سے چوکر نکلا آٹا، جیسا کہ آٹا مل والے کرتے ہیں) بیکری آئٹم، تمام پراسس فوڈز، کولڈرنک، میٹھی اشیا، چاول (فائبر نکلا ہوا چاول، موجودہ تمام سفید کلر کے چاول سے فائبر ہٹا دیا جاتا ہے، اصلی یعنی صحت بخش اور غیر نقصان دہ چاول براؤن کلر کے چاول ہیں جن میں فائبر ہوتا ہے) اور میدے سے بننے والی تمام اشیا۔

    ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹ فوڈز کے مسلسل استعمال سے LDL یعنی غیر صحت بخش کولیسٹرول اور خون میں انسولین اور گلوکوز کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے اور یہ دل کی بیماری، شوگر، موٹاپے، اور کینسر کا باعث بنتے ہیں۔

    اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب سے یعنی 60 اور 70 کی دہائی سے موجودہ گندم اور ریفائنڈ تیل آئے ہیں، اور قدرتی خوراک کو ختم اور جینیاتی تبدیلیاں کر کے اور آمیزش کر کے پیش کیا گیا ہے، اور پراسس فوڈز کا استعمال بڑھا ہے، شوگر، بلڈ پریشر، کینسر، موٹاپا، ہارٹ اٹیک اور ہڈیوں کی بیماریوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

  • دھوکا نہ کھائیں، اصلی مُشکے کی پہچان کیسے کریں؟

    مچھلی کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے تو سرمائی اور پاپلیٹ کے ساتھ ساتھ مُشکا کا نام بھی ضرور لیا جاتا ہے۔ مچھلیوں کی ان تینوں اقسام کے ذائقے لاجواب ہیں، اور ان کے نام بھی عوام میں اتنے مقبول ہیں کہ اکثر لوگ ان مچھلیوں کی اگرچہ پہچان تو نہیں کر پاتے، لیکن نام سے ضرور واقف ہیں۔

    مُشکا Croaker فیملی سے ہے، اور کروکر کی دنیا بھر میں تقریباً 284 کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں، پاکستان کے پانیوں میں اس کی چند مشہور اور زیادہ دیکھی جانے والی اقسام یہ ہیں:

    ایرانی مشکا، کنٹراسی مشکا، بوہرا مشکا، گولی مشکا، رنگڑ مشکا، سوا مشکا اور کالا مشکا۔

    اصلی مُشکے کی پہچان:

    پہچان کے لیے تصاویر دی گئی ہیں، لیکن مزید آسانی کے لیے بتاتے چلیں کہ اصلی مشکا ’ایرانی مشکا‘ ہوتا ہے، جو مشہور اور ذائقے دار ہے، اسے انگلش میں Silver Croaker کہا جاتا ہے، اور اس کے منہ میں 3 دانت ہوتے ہیں، دو دانت اوپر اور ایک نیچے۔

    کروکر فیملی میں ایرانی مشکے سے مشابہت رکھنے والی 2 قسمیں ’بوہرا‘ اور ’کنٹراسی‘ ہیں۔

    بوہرا کے دانت نہیں ہوتے اور یہ مچھلی تھوڑا گولائی میں ہوتی ہے اس لیے پہچان آسان ہے، لیکن کنٹراسی کے بھی ایرانی مشکے کی طرح 3 دانت ہوتے ہیں، مشابہت بھی ایرانی مشکے سے زیادہ ہے، لیکن کنٹراسی کا منہ تھوڑا گول اور موٹا ہوتا ہے جب کہ ایرانی کا پتلا اور ذرا سا لمبا۔

    جسمانی ساخت

    کنٹراسی مشکا کا جسم پوری گولائی میں ہوتا ہے، یعنی سر سے لے کر دم تک، جب کہ اس کے برعکس ایرانی مشکا سر سے کمر تک گولای میں ہوتا ہے، پھر اس کے بعد تھوڑا سا curve میں پتلا ہو کر دم تک سیدھا ہوتا ہے، اور اس کی جلد کی چمک کنٹراسی کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے، یعنی ایک دم سنہرا رنگ آ رہا ہوتا ہے، بہ شرط یہ کہ جب بالکل تازہ ہو، اس کے برعکس کنٹراسی مُشکا کی جلد کا رنگ تھوڑا پھیکا ہوتا ہے۔

    وزن اور قیمت

    ایرانی مشکا ایک کلو، ایک کلو سے کم اور 2 سے 3 کلو تک کی سائز میں دیکھی جاتی ہے، ایک کلو سے سائز بڑھنے پر اسے سیلنڈر مشکا بھی کہا جاتا ہے۔

    اے گریڈ ایرانی مشکا 800 سے 1000 روپے کلو تک دستیاب ہوتی ہے، جب کہ کنٹراسی اور بوہرا اس کی آدھی قیمتوں پر، اور ان کے ذائقوں میں بھی بہت فرق ہے۔ اگر کسی کو ایرانی مشکے کے دھوکے میں کنٹراسی اور بوہرا کھلا دیا جائے، تو پھر وہ دوبارہ مشکے کی فرمائش شاید ہی کرے۔

    کروکر مچھلی کا ایک کلو کا پوٹا 1 کروڑ میں کیوں بکتا ہے؟

    مچھلیوں کی چند اقسام کو چھوڑ کر باقی تمام مچھلیوں کے پیٹ کے نچلے حصے میں ایک پوٹا پایا جاتا ہے، جسے انگلش میں Air Bladder یا Swim Bladder اور Fish Maw بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مچھلی کو سانس لینے اور تیرنے میں مدد ملتی ہے۔

    مہنگے بکنے والے پوٹے کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اس سے دل کے آپریشن میں استعمال ہونے والے ٹانکوں کے دھاگے بنتے ہیں، لیکن یہ قیاس درست نہیں کیوں کہ اس کے مصدقہ شواہد کہیں سے بھی نہیں ملتے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اسے چند روایتی چینی ادویات میں شامل کیا جاتا ہے۔

    پوٹا زیادہ تر چین بھیجا جاتا ہے، جہاں اسے چند روایتی ادویات، کھانوں اور خاص کر سوپ میں استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ چند یورپی اور امریکی ریستورانوں میں بھی اس کا سوپ دستیاب ہوتا ہے، پوٹے کی گراں قدری اصل میں چین کے اُمرا کی وجہ سے ہے۔ چین کے امرا اسے خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں، اور اسے سُکھا کر اپنے پاس رکھتے ہیں تا کہ اس کی برکت سے ان کی دولت میں اضافہ ہوتا رہے۔

    مزید برآں وہ اسے چند روایتی ڈشز میں اور سوپ میں بھی استعمال کرتے ہیں، سوپ، ادویات اور کھانوں میں پوٹا ’کولیجن‘ کے ہائی لیول کی وجہ سے ڈالا جاتا ہے، اور یہی کولیجن کی ہائی سطح ہی اسے اتنا گراں قدر بنا دیتی ہے۔

    کولیجن (Collagen) کیا ہے؟

    کولیجن جسم میں ایک پروٹین ہے، مختلف قسم کے کولیجن جسم کے بہت سے اعضا میں ہوتے ہیں، جن میں بال، جلد، ناخن، ہڈیاں، لیگامینٹس، کارٹلیج، خون کی نالیاں اور آنتیں شامل ہیں۔ کولیجن بالوں، جلد، ہڈیوں، پٹھوں، اور نسوں کی صحت کو یقینی بناتا ہے۔

    انسانی جسم میں کولیجن کی قدرتی پیداوار عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے، 30 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کولیجن کی سطح کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، نتیجتاً، کولیجن ریشوں کو پہنچنے والے نقصان یا جسم میں کولیجن کی کم سطح جلد کی ساختی معاونت کو کمزور کرتی ہے۔

    جلد اور پٹھے مضبوطی، سختی، چمک اور حجم کھو دیتے ہیں، اور جلد پر جھریاں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پٹھے، ٹشوز اور جلد کمزور ہو کر لٹکنے اور پھیلنے لگتے ہیں۔

    چوں کہ پوٹے میں کولیجن کی اونچی سطح پائی جاتی ہے، اس لیے پوٹے میں موجود کولیجن جسم میں کولیجن کی سطح بڑھا دیتے ہیں، جس سے جلد، پٹھے اور پٹھوں سے منسلک چھوٹی ہڈیاں مضبوط رہتی ہیں اور بدن توانا، ہشاش بشاش اور جوان نظر آتا ہے، اسی لیے پوٹے کو بڑھتی عمر کے اثرات کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    دنیا بھر میں کولیجن کی سطح کو برقرار رکھنے کی ادویات بھی استعمال کی جاتی ہیں، پاکستان میں کولیجن کی 180 گولیوں کی بوتل 7000، اور 540 گولیوں کی بوتل 21 ہزار روپے میں دستیاب ہے۔

    کون کون سی کروکر کے پوٹے بکتے ہیں؟

    رِنگڑ مشکا، گولی مشکا اور سوا کے پوٹے مہنگے داموں بکتے ہیں، نر مچھلی کا پوٹا مہنگا اور مادہ کا سستا بکتا ہے، کیوں کہ مادہ کا پوٹا نر کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے، اسی لیے پوٹے کی بھاری قیمت اس کے سائز کے حساب سے طے کی جاتی ہے، پوٹا جتنا بڑا ہوگا قیمت اتنی زیادہ ہوگی۔

    سب سے مہنگا پوٹا گولی مشکا کا ہوتا ہے، 10 کلو کے گولی مشکے کی قیمت تقریباً ڈھائی سے 3 لاکھ روپے تک ہوتی ہے، لیکن چوں کہ گولی مشکے کا سائز دس، بارہ کلو سے زیادہ نہیں ہوتا، اسی لیے اس کا پوٹا چھوٹا ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتا۔

    اس کے برعکس سوا مشکا اپنی سائز کو 50 کلو کے آس پاس تک بڑھا سکتا ہے، اس لیے اس کے بڑے پوٹے کی وجہ سے قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل جیوانی کے مقام پر پکڑی جانے والی 48 کلو وزنی نر سوا مچھلی ایک کروڑ 35 لاکھ روپے میں نیلام ہوئی تھی۔

    دس کلو تک کے سوا مچھلی کی قیمت تقریباً 1 لاکھ جب کہ 20 کلو تک کے 4 سے 5 لاکھ روپے ہوتی ہے، لیکن 40 تا 45 کلو وزن ہونے پر اس کا پوٹہ تقریباً 1 کلو تک کا ہو جاتا ہے، جس کی قیمت 1 کروڑ روپے تک ہو جاتی ہے۔

    مُشکا مچھلی میں مچھلی فروشوں اور مچھلی صاف کرنے والوں کا فراڈ

    مچھلی سے لاعلمی کے سبب مچھلی فروشوں کے ہاتھوں لٹنا اس کاروبار میں ایک بالکل عام بات ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مچھلی فروشوں کو یہ کوئی غلط بات بھی نہیں لگتی۔

    جہاں تک مشکا مچھلی کی بات ہے تو اصل مشکا کی جگہ خریداروں کو بوہرا یا کنٹراسی مشکا اصل کی قیمت میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اگر آپ فشری مارکیٹ جاتے ہیں تو آپ کو مچھلی فروش یا مچھلی صاف کرنے والے لڑکے اوریجنل ایرانی مشکے کی جگہ گولی مشکا یا رنگڑ مشکا خریدنے پر مائل کر دیتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ ان کی قیمتیں زیادہ ہیں اس لیے یہ ذائقے دار ہیں، یہ سراسر غلط بیانی ہے، رنگڑ اور گولی مشکے پر وہ اس لیے زور دیتے ہیں تا کہ آپ کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر وہ مچھلی کا پوٹا ہتھیا لیں۔ اسی طرح جب آپ فشری جاتے ہیں تو وہاں صفائی اور کٹنگ کرنے والے پوٹا ہتھیانے کے لیے آپ کو گولی مشکا، رنگڑ مشکا، اور سوا خریدنے کے لیے آمادہ کرتے رہتے ہیں۔

    اس لیے ہمیشہ اوریجنل مشکا یعنی کہ 3 دانت والا ایرانی مشکا لیں، اور کالا مشکا سے خبردار رہیں کہ وہ ذائقے دار نہیں ہوتا۔

    خصوصیات اور کھانے کی مقدار

    مشکا ایک چھلکے والی اور کم مرکری لیول کی مچھلی ہے، جسے ہفتے میں ایک سے دو دفعہ کھایا جا سکتا ہے۔ مچھلی کی کھال لازمی کھایا کریں، کیوں کہ اس میں بھی بھرپور کولیجن، اومیگا 3، پروٹین اور وٹامن E ہوتے ہیں۔ کھال کے ساتھ ساتھ ہڈیوں، پروں اور چھلکے میں بھی یہی وٹامنز ہوتے ہیں، اسی لیے چین میں مچھلی کے پروں کا سوپ بکتا ہے۔

    مچھلی کی ہڈیاں پھینکنے کی بہ جائے وٹامنز اور پروٹینز کی وجہ سے لازمی چبایا کریں۔ یاد رکھیں مچھلی ہمیشہ تازی یعنی A گریڈ ہی خریدیں، تبھی آپ اس کے فوائد حاصل کر پائیں گے، اور ہمیشہ 5 کلو سے بڑا پیس نہ لیں، کیوں کہ بڑی مچھلی میں مرکری لیول زیادہ ہوتا ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    مشکے کے صحت بخش فوائد

    مشکا وٹامن A کا اچھا ذریعہ ہے، جو بینائی کو کمزور نہیں ہونے دیتا، اور اس میں موجود وٹامن B1 جسم کو توانا رکھتا ہے، جب کہ وٹامن B5 جسم کے امیون سسٹم کو طاقت دیتا ہے، اور ہیموگلوبن کی سطح کو بڑھاتا ہے اور جسم سے فاسد اور زہریلے مادوں کے اخراج کرنے میں جگر کی مدد کرتا ہے۔

    اس میں موجود وٹامن B9 صحت مند نظام انہضام، بالوں، جلد، گردوں اور آنکھوں کی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ وٹامن D کیلشیم کو جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مزید برآں، یہ آنت کو غذائی اجزا جذب کرنے، اور ہڈیوں کی بیماریاں جیسا کہ اوسٹیوملیشیا اور رکٹس کو روکنے اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔

    اس میں موجود وٹامن E بصارت، تولید، خون، دماغ اور جلد کی صحت کے لیے اہم ہے۔ وٹامن ای میں اینٹی آکسیڈنٹ خواص بھی ہیں، جو ذیابیطس، الزائمر کی بیماری اور کینسر سے بچاتے ہیں۔ وٹامن K ہمارے جسم کی ہڈیوں کی صحت کے مسائل جیسا کہ آسٹیوپوروسس، دماغی صحت کے مسائل، آرٹریل کیلسیفیکیشن، ویریکوز رگوں، اور کینسر کی مخصوص بیماریوں، پروسٹیٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، جگر کا کینسر، اور لیوکیمیا سے تحفظ فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

    اس میں موجود پوٹاشیم پٹھوں کو مضبوطی دیتا ہے، اور آئرن خون کی کمی نہیں ہونے دیتا، فاسفورس ہارمون کو متوازن رکھتا ہے۔ یہ توازن صحت مند دماغ، گردے، دل، اور خون کو فروغ دینے کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ فاسفورس کے صحت کے فوائد میں سیلز کی مرمت، پروٹین کی تشکیل، ہارمونل توازن، بہتر ہاضمہ، اور صحت مند ہڈیوں کی تشکیل شامل ہیں۔

    وٹامن B2 جسم میں مختلف روزمرہ کے افعال میں بہت سے خامروں کی مدد کرتا ہے، اس کی کمی صحت کے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ جیسا کہ دماغ اور دل کے امراض اور کچھ کینسر طویل مدتی بی 2 کی کمی سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ بی 2 دماغی افعال کو ٹھیک کرنے اور مائیگرین (دائمی سر درد) جیسی بیماری سے بچاتا ہے۔

    اس میں موجود وٹامن B 12 خون کے خلیات بنانے اور صحت مند اعصابی نظام کے قیام میں مدد دیتے ہیں۔ مشکے میں سلینئم اور اومیگا 3 بھی ہوتے ہیں، جن کے کئی اہم فوائد ہیں، جیسے کہ دل کو صحت مند رکھنا، فالج کے اٹیک کو روکنا، امیون سسٹم کو طاقت دینا اور ڈی این اے کے توازن کو برقرار رکھنا شامل ہیں۔

  • کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر ہے؟ ٹونا مچھلی کی اقسام اور مکمل معلومات

    پچھلی تحریر میں ہم نے مرکری کی سطح کے حوالے سے بتایا تھا کہ کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھانی چاہیے؟ اب اس تحریر میں ایک اور اہم سوال کا جواب فراہم کیا جا رہا ہے کہ کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر ہے؟

    دنیا بھر میں ٹونا کی کل 15 اقسام پائی جاتی ہیں، جب کہ پاکستان کے پانیوں میں اس کی عام طور سے اور زیادہ دیکھی جانی والی 4 اقسام موجود ہیں۔

    1… یلو فِن ٹونا (Yellowfin Tuna)

    2… بلو فِن ٹونا (Bluefinfin Tuna)

    3… بونیٹو (Bonito)

    4… بِگ آئی ٹونا (bigeye Tuna)

    مندرجہ بالا چار اقسام میں بلو فِن ٹونا بہت کم نظر آتی ہے، جب کہ باقی 3 اقسام عام ہیں۔

    یہ تو آپ نے پڑھا ہوگا کہ مچھلی قدرت کی جانب سے طاقت کا ایک خزانہ ہے، ماہرین غذائیات کہتے ہیں کہ ایک صحت مند جسم کی تشکیل لیے مچھلی کا باقاعدہ استعمال نہایت ضروری ہے، لیکن جیسا کہ پھول کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں، ویسا ہی مچھلی کے بیش بہا فائدوں کے ساتھ اس کا ایک نقصان بھی ہے۔

    یہ نقصان مرکری (پارہ) کی صورت میں ہے، جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے، مچھلی کی ہر جاتی کا الگ الگ مرکری لیول ہوتا ہے، تو آئیں، ٹونا کے مرکری لیول کو سمجھتے ہیں۔

    ٹونا میں کتنا مرکری ہے؟

    ٹونا کی اقسام میں سب سے زیادہ مرکری بلو فِن ٹونا میں پایا جاتا ہے، جو کہ 1.0 پی پی ایم ہے، جو کہ ایک مہلک سطح ہے۔ اس کے بعد بگ آئی ٹونا ہے جس میں 0.689 پی پی ایم مرکری پایا جاتا ہے، جو کہ پارے کی ہائی لیول سمجھی جاتی ہے۔ تیسرے نمبر پر یلو فِن ٹونا ہے جس کا مرکری لیول 0.354 ہے، جو کہ ایک قابل قبول اور میڈیم رینج ہے، جب کہ آخر میں بونیٹو ہے۔ اگر چہ بونیٹو میں باقی ٹونا کی نسبت کم پارہ پایا جاتا ہے لیکن اس کا گوشت ڈارک، ٹوٹنے پھوٹنے، اور ذائقہ دار نہ ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔

    پہچان

    اگرچہ تصاویر ساتھ دی گئی ہیں لیکن پھر بھی آسانی کے لیے بتاتے چلیں کہ بلو فِن پر نیلے رنگ کی پٹی ہوتی ہے، جو اوپر کی سمت آنکھوں کے پیچھے سے شروع ہو کر دم تک جاتی ہے، بونیٹو پر اوپر کی سمت دھاریاں اور ڈاٹ ہوتے ہیں۔ بگ آئی کے پر کالے اور جسم سلور اور کالے رنگ کی ہوتی ہے، جب کہ یلو فِن کے پر پیلے اور آنکھوں کے پیچھے سے ایک پیلا شیڈ دم تک جاتا ہے۔

    ٹونا اور سرمائی میں مچھلی فروشوں کا فراڈ

    مچھلی سے عوام کی عدم دل چسپی کے باعث مچھلی فروش اس کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سستی مچھلیاں مہنگی مچھلیوں والے نام بتا کر لوگوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ اگر ہم صرف ٹونا کی بات کریں تو مشہور مچھلی کنگ میکرل یعنی کہ سرمائی کے نام پر ٹونا بیچی جاتی ہے۔

    دونوں کی قیمت میں ڈبل سے بھی زیادہ فرق ہوتا ہے، سرمائی کی A گریڈ کی قیمت آج کل 1600 روپے ہے، جب کہ ٹونا کی 500 روپے۔ تصاویر میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ دونوں کی جسمانی ساخت اور رنگ میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن مچھلیوں سے لوگوں کی لاعلمی انھیں اپنے ہی ہاتھوں لٹوا دیتی ہے۔

    اسی طرح بونیٹو یعنی کہ چکی فش کو اصلی ٹونا کے نام پر بیچا جاتا ہے، بونیٹو کی قیمت 200 روپے تک ہوتی ہے جب کہ ٹونا کی 500 کے آس پاس ہوتی ہے۔

    کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر اور ذائقے دار ہے؟

    جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ بلو فِن اور بگ آئی ٹونا کا مرکری لیول بہت زیادہ ہوتا ہے، اور بونیٹو بے کار ہے، اس لیے ان تینوں کو نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے، بالخصوص بلو فن ٹونا کو۔

    یلو فِن کا مرکری لیول میڈیم رینج کا ہے، گوشت بھی زیادہ سیاہ نہیں ہے، فوائد بھی بہت ہیں اور ذائقہ بھی اچھا ہے، اس لیے ہمیشہ یلو فِن ٹونا ہی خریدیں۔ چوں کہ یلو فن کی تعداد کم ہے اس لیے یہ آپ کو مارکیٹ سے کم ہی دستیاب ہوگی، اور آپ کو بگ آئی ہر طرف ملے گی، لیکن اگر آپ کو یلو فِن نہیں ملتی تو آپ بہ حالت مجبوری بگ آئی ٹونا بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن پھر آپ کو خوراک میں رد و بدل کرنی پڑے گی۔

    یلو فِن آپ مہینے میں 4 مرتبہ کھا سکتے ہیں لیکن بگ آئی ٹونا صرف 2 مرتبہ کھانا بہتر ہے۔ ایف ڈی اے کی تجویز کردہ خوراک کے مطابق آپ بگ آئی ٹونا 5 اونس یعنی 140 گرام ہفتے میں 3 مرتبہ کھا سکتے ہیں۔

    یلو فِن ٹونا کے فوائد

    یلو فِن ٹونا میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں، جو دل کی صحت کو بہتر بنانے اور کولیسٹرول کو کم کرنے، دماغی افعال کو بڑھانے اور آنکھوں کی صحت کو بہتر کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اومیگا 3 ہڈیوں اور جوڑوں کی بیماری دور کرنے اور کینسر کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، اس میں اومیگا 3 کا لیول 0.4 گرام پر 6 اونس ہے۔

    یلو فِن ٹونا پروٹین میں زیادہ اور کیلوریز میں کم ہوتی ہے، اس لیے یہ جسم کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ وزن بھی بڑھنے نہیں دیتی، یہ پوٹاشیم کا بھی بھرپور ذریعہ ہے۔ ایک 3 اونس یلو فِن ٹونا کی سروِنگ میں 93 کیلوریز ہوتی ہیں، اور یہ 21 گرام پروٹین فراہم کرتا ہے۔ اس میں موجود پوٹاشیم بلڈ پریشر کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یلو فِن کے 100 گرام میں 527 ملی گرام پوٹاشیم ہوتا ہے۔

    یلو فن ٹونا میں زنک، مینگنیز اور وٹامن سی جیسے غذائی اجزا ہوتے ہیں جو قوت مدافعت کو بڑھانے اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتے ہیں، 100 ملی گرام میں 42 ملی گرام میگنیشیم اور 64 ملی گرام زنک ہوتا ہے۔ زنک ایک اہم معدنیات ہے جو جسم کے بہت سے معمول کے افعال اور نظاموں کے لیے ضروری ہے، بشمول مدافعتی نظام، زخم بھرنے، خون کا جمنا، تھائرائیڈ گلینڈ کی حفاظت کرنا، ذائقہ اور سونگھنے کی حس کو معمول میں رکھنا۔ زنک حمل، بچپن اور جوانی کے دوران معمول کی نشوونما میں بھی مدد کرتا ہے۔

    میگنیشیم جسم میں بہت سے افعال کے لیے اہم ہے، یہ عضلات اور اعصاب کو صحیح طریقے سے کام کرنے، بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر کو صحیح سطح پر رکھنے اور پروٹین، ہڈی اور ڈی این اے بنانے کے لیے ضروری ہے، وقت کے ساتھ میگنیشیم کی کم سطح کیلشیم اور پوٹاشیم کی سطح کو کم کر سکتی ہے۔

    سیلینئیم

    سب سے اہم بات یہ کہ یلو فِن ٹونا میں سب سے زیادہ سیلینیم ہوتا ہے جو کہ 92 مائکرو گرام فی 3 اونس ہے، اس کے بعد جھینگے، کیکڑے، سیپیاں، لور یا سارڈین اور حجام ہیں جن میں 60 مائکروگرام تک سیلینیم ہوتا ہے۔ باقی سمندری غذاؤں میں یلو فِن سے تقریباً آدھا سیلینیم ہوتا ہے۔

    سیلینیم مختلف انزائمز اور پروٹینز کا ایک لازمی جزو ہے، جسے سیلینو پروٹین کہتے ہیں، جو ڈی این اے بنانے اور سیل کو پہنچنے والے نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں مدد کرتے ہیں۔ سیلینیم مدافعتی نظام کے افعال اور تولیدی عمل کو بہتر بنانے میں مدد کر تا ہے۔ اس لیے بانجھ پن کی ادویات میں سیلینیم شامل کیا جاتا ہے تا کہ تولیدی عمل کو بڑھایا جا سکے۔

    یہ تھائرائیڈ ہارمون، میٹابولزم اور ڈی این اے کی ترتیب کو برقرار رکھنے اور جسم کو آکسیڈیٹیو نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اور امیون سسٹم کو طاقت دے کر جسم کو بیماریوں سے لڑنے میں مدد دیتا ہے۔

    ان نتائج سے معلوم ہوا کہ مچھلی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے، مچھلی باقاعدگی سے ہر کوئی نہیں کھاتا، سب فاسٹ فوڈز، کڑاھیاں، بریانیاں اور پلیٹرز کی طرف جاتے ہیں، اور بیماریاں پیسوں سے خرید کر خوشی خوشی نوش کرتے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شوگر، بلڈ پریشر، ہڈیوں اور دل کی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔

    مچھلی کے باقاعدہ استعمال سے ان بیماریوں سے بچاؤ بالکل ممکن ہے، ماہرین غذائیات کے مطابق جو لوگ باقاعدگی سے مچھلی کھاتے ہیں، ان میں شوگر اور بلڈ پریشر کی سطح نارمل ہوتی ہے، ہڈیاں مضبوط اور صحت مند اور دل بالکل نارمل کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے مچھلی سارا سال باقاعدگی سے کھانی چاہیے۔

    A گریڈ خریدیں اور فرائی نہ کریں

    لیکن خیال رہے کہ ہمیشہ تازی یعنی A گریڈ اور 5 کلو سے نیچے کا پیس لیا کریں، اور ٹونا کو اپنی خوراک کا لازمی حصہ بنائیں، بدقسمتی سے ٹونا کو اس کے لال گوشت کی وجہ سے پاکستان میں پسند نہیں کیا جاتا، جب کہ امریکا، یورپ، چین اور جاپان میں اس کے فوائد کی وجہ سے یہ بہت مقبول اور مہنگی مچھلی ہے۔

    یاد رکھیں کہ ٹونا مچھلی فرائی کرنے کے لیے نہیں ہے، اس کو ہمیشہ بریانی اور سالن یا قورمے کے لیے استعمال کریں۔

  • کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھانی چاہیے؟

    ہماری غذاؤں میں مچھلی ایک بہترین غذا ہے، ہر کوئی مچھلی پسند کرتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ مچھلی میں ایک ایسی چیز بھی پائی جاتی ہے جو انسانی صحت کے لیے بہت مضر ہے، یہ ہے پارہ، اس لیے یہ اہم سوال ابھرتا ہے کہ پارے کی مہلک سطح سے بچنے کے لیے کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھائیں؟

    سب سے یہ پہلے یہ جان لیں کہ مرکری کیا ہے؟
    مرکری ( پارہ ) ایک بھاری دھات ہے جو قدرتی طور پر ہوا، مٹی اور پانی میں پائی جاتی ہے۔ اس کی 3 اہم شکلیں ہیں۔
    1: عنصری
    2: نامیاتی
    3: غیر نامیاتی

    پانی میں پائی جانے والی قسم نامیاتی (Methyl mercury) کہلاتی ہے۔ سمندری پانی میں میتھائل مرکری کی بہت کم مقدار ہوتی یے، لیکن سمندری پودے جیسا کہ الجی (Algae) اسے جذب کرتے رہتے ہیں۔ چھوٹی مچھلیاں ان الجیوں کو کھا کر مرکری جذب کرتی ہیں۔ پھر بڑی مچھلیاں ان چھوٹی مچھلیوں کو کھا کر اپنے جسم میں مرکری لیول بڑھاتی رہتی ہیں، اور اس طرح اس چَین سے مچھلی کے گوشت میں میتھائل مرکری کی خطرناک سطح پروان چڑھتی ہے، جو انسانی جسم کے لیے بھی مہلک ہو سکتی ہے۔ انسانی بدن میں اس کا لیول بڑھنے پر یہ گردوں، اعصابی نظام اور دل پر حملہ کرتا ہے، جس سے کئی مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

    اب اہم سوال یہ ہے کہ کتنی اور کون سی مچھلی کھائیں کہ پارے کی مہلک سطح سے بچیں رہیں؟
    مچھلی میں مرکری کی سطح کو ’پارٹس فی ملین‘ (PPM) کے حساب سے ماپا جاتا ہے۔ سمندری غذا کے استعمال کے لیے محفوظ سطح، ماہرین کے مطابق، ایک حصہ فی ملین (PPM) پارہ فی ہفتہ ہے۔ یعنی کہ پارے کی زیادہ سے زیادہ خوراک 3.3 مائیکرو گرام فی کلو گرام جسمانی وزن فی ہفتہ ہے۔ آسان زبان میں سمجھیں تو آپ وہ کم پارے والی مچھلیاں ہفتے میں دو بار کھا سکتے ہیں، جن کے پارے کی سطح 0.050 کے آس پاس ہوتی ہے۔ ان میں کیٹ فش، سول، حجام، بوئی، پلہ، تارلی یا لور اور جھینگا شامل ہیں۔

    اس کے بعد امروز ہے، جس کے پارے کی سطح 0.178 ہے، اسے مہینے میں 4 بار کھایا جا سکتا ہے، اور اسی سطح والی مچھلیوں میں مشکا اور ریڈ اسنیپر بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد گھیسر اور یلو فِن ٹونا ہیں، جن کے مرکری کا لیول 0.350 کے آس پاس ہوتا ہے، انھیں مہینے میں 2 بار کھا سکتے ہیں۔ اور اس فہرست میں چند مچھلیوں کو چھوڑ کر باقی سبھی مچھلیاں شامل ہیں جسنھیں مہینے میں 2 بار کھا سکتے ہیں۔

    وہ مچھلیاں جن میں مرکری کی سطح بہت بلند ہوتی ہے، انھیں کھانے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے، ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
    Swordfish 0.995
    Shark 0.979
    King mackerel 0.730
    Big-eye Tuna 0.689
    Marlin 0.485

    اگرچہ اس فہرست میں مشہور مچھلی کنگ میکریل یعنی سرمائی شامل ہے، تاہم اس سے پرہیز ہی بہتر ہے، پھر بھی اگر کھانا چاہیں تو مہینے میں صرف 1 بار کھائیں، لیکن خیال رہے کہ اس مہینے کیٹ فش اور جھینگے کے علاوہ اور کوئ سمندری غذا نہ کھائیں۔

    یاد رکھنے کی بات:
    آپ مچھلی کے پارے کے بارے میں فکرمند تب ہی ہو سکتے ہیں جب آپ اسے سال کے بارہ مہینے کھاتے ہیں۔ تب آپ کو مندرجہ بالا ہدایات کی روشنی میں ایک مینو ترتیب دینا پڑے گا، جس پر عمل کر کے آپ پارے کے نقصان دہ اثرات سے بے فکر ہو سکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر آپ پورا مہینہ 4 سے 5 بار کم مرکری والی فش کھائیں اور پھر کوئی سی 1 یا 2 میڈیم رینج والی مچھلی کھائیں۔ چوں کہ ہر مچھلی کے اپنے اپنے نیوٹریشن اور فائدے ہوتے ہیں اس لیے ہمیشہ الگ الگ نسل کی مچھلی کا انتخاب کریں، تاکہ آپ مچھلی کے فوائد سے پوری طرح مستفید ہو سکیں۔ لیکن اگر آپ کبھی کبھار یا مہینے میں 1 سے 2 بار مچھلی کھانے والے ہیں، تب آپ کو پارے کے بارے میں فکر کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں، بس مندرجہ بالا ہائی مرکری مچھلیوں سے اجتناب برتیں۔

    کیا پارے کے نقصان دہ اثرات کی وجہ سے مچھلی کھانا چھوڑ دینا چاہیے؟
    بالکل بھی نہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ ایک ’محفوظ‘ مینو ترتیب دے سکتے ہیں۔مچھلی کھانے کے بہت سے فوائد ہیں اور یہ اللہ کی ایسی نعمت ہے جو ملاوٹ سے مکمل پاک ہے۔

    مچھلی اومیگا 3 فیٹی ایسڈز اور وٹامنز جیسا کہ ڈی اور بی 2 (ربوفلاوین) بی 12، اور بی 6 سے بھرپور ہوتی ہے۔ مچھلی کیلشیم اور فاسفورس سے بھی بھرپور ہوتی ہے اور یہ معدنیات کا ایک بڑا ذریعہ ہے، جیسا کہ آئرن، زنک، آیوڈین، میگنیشیم اور پوٹاشیم۔

    چوں کہ مچھلی پروٹین کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اور اعصابی نشوونما میں مدد دیتی ہے، اس لیے یہ غذا کا ایک اہم جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن ایک صحت مند غذا کے حصے کے طور ہر ہفتے میں کم از کم دو بار مچھلی کھانے کی سفارش کرتی ہے۔ اگر آپ پھر بھی پارے کے بارے میں فکرمند ہیں تو آپ اپنی فکرمندی کے خدشات کو بہت ہی آسانی سے مزید گھٹا بھی سکتے ہیں۔

    آپ جب بھی مچھلی خریدیں ہمیشہ چھوٹے سائز کا پیس لیں، یعنی کہ 1 کلو، یا پھر 2 کلو سے 3 کلو والا پیس لیں، اور 5 کلو سے زائد والا پیس بالکل بھی نہ لیں۔ چوں کہ کم عمر مچھلی میں مرکری جذب کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے، اس لیے مرکری کے نقصان دہ اثرات کا خطرہ اور بھی کم ہو جاتا ہے۔

    یاد رکھیں کہ مچھلی میں سیلینئم (Selenium) بھی ہوتا ہے، یہ مختلف انزائمز اور پروٹینز کا ایک لازمی جزو ہے، جسے سیلینوپروٹین کہتے ہیں، جو ڈی این اے بنانے اور سیل کو پہنچنے والے نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں مدد کرتے ہے۔ سیلینئم مدافعتی نظام کے افعال اور تولیدی عمل کو بہتر بنانے میں بھی مدد کر تا ہے، اس لیے بانجھ پن کی ادویات میں سیلینئم شامل کیا جاتا ہے، تاکہ تولیدی عمل کو بڑھایا جا سکے۔ یہ تھائیرائڈ ہارمون، میٹابولزم اور ڈی این اے کی ترتیب کو برقرار رکھنے اور جسم کو آکسیڈیٹیو نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے یہ پارے کے نقصانات کو مزید کم کرتا ہے۔

    آخری بات، مچھلی ہمیشہ تازہ یعنی کہ A گریڈ خریدیں، تبھی آپ مچھلی کے مکمل فوائد سے استفادہ کر پائیں گے۔