Tag: Farmers Protest

  • کسان اتحاد نے ملک بھر میں سڑکوں پرآ کر احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا

    کسان اتحاد نے ملک بھر میں سڑکوں پرآ کر احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا

    ملتان: کسان اتحاد نے ملک بھر میں فوری طور پر سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    چیئرمین کسان اتحاد خالد کھوکھر نے ملتان میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس بار کسانوں نے اتنی پیدار کی کہ وہ تہوار مناتے، لیکن کرپشن کی طاقت سے 6 کروڑ کاشت کاروں کو ذبح کر دیا گیا، گندم امپورٹ کرنے والے کرداروں کو پھانسی لگنی چاہیے۔

    انھوں نے فوری طور پر سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کبھی احتجاج کرنے کا دل نہیں کرتا، سڑکیں بند کرنے سے تکلیف ہوتی ہے لیکن یہ معاشرہ کسانوں کو پاکستانی اور انسان تسلیم نہیں کر رہا، زرعی ملک ہونے کے باوجود کیا گندم درآمد کرنی چاہیے تھی؟

    چیئرمین کسان اتحاد نے کہا 10 مئی کو بعد نماز جمعہ ملتان سے احتجاج شروع کر رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں کسان اور سیکڑوں کی تعداد میں ٹریکٹر ٹرالیاں سڑکوں پر ہوں گی، ہمارا مقصد احساس دلانا ہے کہ زراعت کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہے، اس لیے ہمارے پاس احتجاج کے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہے۔

    خالد کھوکھر نے کہا دنیا میں زراعت پر 25 سالہ پالیسی بنتی ہے، بھارتی کاشت کار کو پاکستانی 800 روپے کی یوریا ملتی ہے، ڈی او پی اور سستا ڈیزل ملتا ہے، روزانہ 8 گھنٹے بجلی مفت ملتی ہے، لیکن یہاں کاشت کار یوریا لینے جاتا ہے تو اس کی تذلیل کی جاتی ہے، آج بھی یوریا بلیک میں فروخت ہو رہی ہے، اور الگ الگ 5 ریٹ ہیں۔

    انھوں نے کہا ’’ہم اسلام آباد اور لاہور میں ہر فورم پر گئے، آرمی چیف، وزیر اعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، ایف سی، منسٹر فوڈ سیکیورٹی سب کو درخواست دی، اب میں سول سوسائٹی کے پاس آ گیا ہوں، گزارش ہے سول سوسائٹی، میڈیا، وکلا، طلبہ، تاجر سب احتجاج میں شریک ہوں، ہمارا احتجاج انتہائی پرامن ہوگا، ہم ایسا احتجاج نہیں کریں گے کہ لوگ تنگ ہوں۔‘‘

    کسان اتحاد کے چیئرمین نے کہا مافیا کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ریزرو گندم کے ریٹ کو بڑھا دیا گیا، مافیا نے پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچانے کے لیے یہ سب کچھ کیا، انھوں نے ایک بوٹی کھانے کے لیے پورا اونٹ ذبح کر دیا، جو گندم 2400 روپے میں آئی کیا اس کا فائدہ کنزیومر کو ہوا؟ جب کہ مافیا نے تقریباً 100 ارب روپے کمائے، اور اس پر پاکستان کے زر مبادلہ کا 1 بلین ڈالر خرچ ہوا، یوں ڈیڑھ سو ارب روپے کا حکومت کو نقصان ہوا۔

    خالد کھوکھر نے کہا ہماری آپس میں بہت بڑی مشاورت ہوئی اور سوچا گیا کہ منڈیوں کو بند کر دیں، لیکن خوف خدا آیا کہ ہم رزق بند کرنے والے کون ہیں، میری گیدڑ بھپکیاں نہیں ہوتیں، جو کہتا ہوں کرتا ہوں، جب تک کاشتکار سے گندم نہیں خریدی جاتی احتجاج جاری رہے گا۔

  • گندم کی فروخت : کسان دھرنے کے فیصلے پر قائم، یہ معاملہ کیا ہے؟

    گندم کی فروخت : کسان دھرنے کے فیصلے پر قائم، یہ معاملہ کیا ہے؟

    صوبہ پنجاب کے کسانوں کیلئے خطیر لاگت سے اگائی گئی گندم فروخت کرنا سر کا درد بن گیا، گندم کی سرکاری خریداری کم ہونے سے اناج منڈیوں میں فی من قیمت تین ہزار روپے من تک گرگئی۔

    پنجاب میں گندم کی کٹائی شروع ہوچکی ہے لیکن کسان اپنی فصل حکومت کے مقرر کردہ نرخ سے کم قیمت پر بیچنے پر مجبور ہیں، حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے من مقرر کی تھی جو پچھلے سال 4 ہزار روپے فی من تھی۔

    حکومت پنجاب اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوگئی جس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے اس صورتحال کا نوٹس لے کر کسانوں سے گندم کی فوری خریداری کا حکم دے دیا ہے۔

    اس حوالے سے کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی فصل حکومت کے مقرر کردہ نرخ کے بجائے 3100اور 3200روپے فی من خریدی جارہی ہے۔

    پنجاب حکومت کے مطابق 26ہزار میٹرک ٹن درآمدی گندم پہلے سے گوداموں میں موجود ہے ہم مزید 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم نہیں خرید سکتے، جس سے 3 سے 4سو ارب روپے کا نقصان ہوگا۔

    اس سلسلے میں موجودہ پنجاب حکومت نے سارا ملبہ نگراں حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سارے فیصلے گزشتہ نگراں حکومت نے کیے، گندم کی امپورٹ کی وجہ سے سرپلس گندم خریدنے کی مزید گنجائش نہیں ہے۔

    موجودہ صورتحال کے تناظر میں کسان اتحاد کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اپنی مقرر کردہ امدادی قیمت پر گندم کی خریداری یقینی بنائے بصورت دیگر اس مطالبے کے ساتھ 29 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا دیں گے اور اس وقت تک بیٹھیں گے جب تک ہمارا مطالبہ پورا نہیں ہوجاتا۔

    50لاکھ میٹرک ٹن گندم کہاں لے کر جائیں؟

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کسان اتحاد کے مرکزی چیئرمین خالد حسین نے بتایا کہ چار لاکھ میٹرک ٹن سے متعلق وزیر اعظم کا اعلان خوش آئند ہے لیکن اس سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ کسانوں کے پاس 40 سے 50 لاکھ میٹرک ٹن گندم پڑی ہوئی ہے ہم اس کو کہاں لے کر جائیں؟

    انہوں نے بتایا کہ پچھلی مرتبہ ہم نے 25ہزار ٹن گندم گھر میں رکھ لی تھی تو تحصیل دار نے اسے ضبط کرکے ہمارے خلاف مقدمات قائم کردیے تھے کہ آپ گندم نہیں رکھ سکتے۔ خالد حسین کا کہنا تھا کہ ہم اپنی دو فصلوں گندم اور گنے کی فصل کی قیمت کا تعین خود نہیں کرسکتے یہ حکومت کا کام ہے۔

    کسان اتحاد کے رہنما کا کہنا ہے کہ ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں اگر احتجاج کرنے آئے تو بہت برا ہوگا، لیکن ہم اس بات پر قائم ہیں اور 29 اپریل بروز پیر کسان اتحاد کے تحت لازمی دھرنا دیا جائے گا۔

  • کسانوں نے مطالبات کی منظوری کے لیے پیر تک کی ڈیڈ لائن دے دی

    کسانوں نے مطالبات کی منظوری کے لیے پیر تک کی ڈیڈ لائن دے دی

    اسلام آباد: کسان اتحاد کا احتجاج پانچویں روز میں داخل ہو گیا ہے، کسانوں نے مطالبات کی منظوری کے لیے پیر تک کی ڈیڈ لائن دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں کسان اتحاد کا دھرنا پانچویں روز میں داخل ہو گیا، حکومت اور کسانوں کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے، گزشتہ روز مذاکرات میں بات چیت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی تھی۔

    کسان اتحاد کا کہنا ہے کہ مطالبات منظور نہ ہوئے تو پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیں گے، وفاقی حکومت کو کل تک کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کسان اتحاد نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے حوالے سے مطالبات نہ ماننے پر بنی گالہ کے باہر دھرنے کی بھی دھمکی دے دی۔

    چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین کے مطابق رانا ثنا اللہ کا رویہ پہلے جیسا نہیں تھا، وزیر اعظم نے پیر کو مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، پیر تک مطالبات نہ مانے گئے تو ریڈ زون کا رخ کریں گے۔

    خالد حسین نے کہا رانا ثنا کے لہجے میں تلخی تھی، رانا ثنا نے ملاقات میں کہا ریڈ زون میں آئے تو کہیں ایسا نہ ہو عمران خان کے لیے کی جانے والی تیاری آپ پر پریکٹس کرلوں، میں نے انھیں بتایا کہ کسان ڈرنے والے نہیں، رانا ثنا یاد رکھیں حکومت آنی جانی چیز ہے، اور پھر آپ کو بھی فرق پتا چل جائے گا، مطالبات نہ مانے تو آپ تیاری کریں ہم آ رہے ہیں۔

  • پنجاب میں کھاد کا شدید بحران، کاشتکار سڑکوں پر نکل آئے

    پنجاب میں کھاد کا شدید بحران، کاشتکار سڑکوں پر نکل آئے

    ملتان : جنوبی پنجاب میں کھاد کا بحران شدت اختیار کرگیا، کھاد کی خریداری کے لئے کاشتکار دن بھر خوار ہونے لگے۔

    کھادوں کی قیمتیں کم نہ ہونے اور بحران کی وجہ سے مہنگی کھاد خریدنا کاشت کاروں کی مجبوری بن گیا ہے، جس کے باعث کاشتکاروں نے احتجاجی مظاہرے شروع کردیئے ہیں۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ دن بھر لائنوں میں لگ کر بھی کھاد نہیں مل رہی، ہمارے کیلئے کنٹرول قیمت پر کھاد کا حصول ایک خواب بن گیا ہے۔

    کسانوں نے کہا کہ کھاد ڈیلرز کنٹرول ریٹس پر کھاد فروخت نہیں کررہے اور انتظامیہ کھاد کی فراہمی کے سلسلے میں بااثر افراد کو ہی نواز رہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق حکومت نے کھاد کے مصنوعی بحران پر نوٹس لیا لیکن اس کے باوجود جنوبی پنجاب میں تاحال مختلف کھادیں ہی نایاب ہیں جن کی تلاش میں کاشتکاروں کی اکثریت خوار ہو رہی ہے۔

    کاشت کاروں نے حکومت سے گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاون کا مطالبہ کیا ہے۔

  • کاشتکاروں کا احتجاج، کوئٹہ کا ملک کے دیگر شہروں سے رابطہ منقطع

    کاشتکاروں کا احتجاج، کوئٹہ کا ملک کے دیگر شہروں سے رابطہ منقطع

    کوئٹہ: بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے ستائے کاشتکاروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے قومی شاہراہوں کو بلاک کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق زرعی فیڈروں پر بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے کاشتکاروں کو احتجاج پر مجبور کردیا، بجلی کی عدم فراہمی پر کاشتکاروں نے بلوچستان کی اہم شاہراہوں کو بند کردیا ہے، جس کے باعث کوئٹہ کا ملک کے دیگر شہروں سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔

    احتجاجی کاشتکاروں نے زرعی فیڈرز پر بجلی کی عدم دستیابی کے باعث کراچی کوئٹہ ہائی وے کو "کولک پاس” کےمقام پربند کردیا ہے، اسی طرح کوئٹہ جیکب آباد ہائی وے کو "کولپور” کے مقام پر بلاک کیا، کاشتکاروں نے کوئٹہ چمن ہائی وے کو "یارو” کے مقام پربند کیا۔

    اطلاعات کے مطابق مستونگ سے کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ” لکپاس اور کھڈکوچہ” کے مقام سے بند کردیا گیا ہے، اس کے علاوہ کوئٹہ تفتان قومی شاہراہ کو ” پنجپائی اور کردگاپ” کےمقام سے مکمل طور پر بند کیا گیا ہے جبکہ کوئٹہ سبی سکھر قومی شاہراہ کو "کمبیلا کراس” سے ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کردیا گیا ہے۔

    مختلف مقامات پر شاہراہوں کی بندش کے باعث ملک کے دیگر شہروں سے کوئٹہ جانے والے مسافر پھنس کر رہ گئے ہیں ان مسافروں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جو کہ گرم موسم کے باعث شاہراؤں پر شدید کوفت کا شکار ہیں۔

    دوسری جانب احتجاجی کاشتکاروں کا موقف ہے کہ زرعی فیڈرز پر صرف ایک گھنٹے کی بجلی فراہم کی جارہی ہے، طویل لوڈشیڈنگ سے فصلوں کو نقصان پہنچ رہاہے، فوری طور پر بجلی کا مسئلہ حل نہ کیا تو مزید سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہونگے۔

  • ملک گیر ہڑتال : مشتعل بھارتی کسانوں نے ٹرینیں جام کردیں، ٹریفک معطل

    ملک گیر ہڑتال : مشتعل بھارتی کسانوں نے ٹرینیں جام کردیں، ٹریفک معطل

    جے پور: بھارت میں نئے زرعی قوانین کیخلاف کسان تحریک زور شور سے جاری ہے، ملک گیر ہڑتال کے باعث کئی مقامات پر ٹرینوں کی آمد ورفت کو معطل کرنا پڑا۔

    تفصیلات کے مطابق ریلوے کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ریواڑی، حصار، چرکھیداری، مانہرو، بھیوانی، باملہ ریلوے ڈویژن کے درمیان کسان تحریک کی وجہ سے ٹرین کی نقل و حرکت متاثر ہوئی ہے۔

    اس کے علاوہ ملک کی اہم شاہراہوں اورسڑکوں پر ٹریفک جام کے باعث شہری نظام درھم برھم ہوگیا، گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں، اس موقع پر پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

    بھارت میں زرعی قوانین کی مخالفت میں کسانوں کی ملک گیر ہڑتال کا اثر واضح دکھائی دے رہا ہے، پنجاب کے کئی مقامات پر مشتعل کسان ریلوے ٹریک پر بیٹھ گئے جس کے باعث محکمہ ریلوے کو 31 ٹرینوں کو روکنا پڑا۔ دہلی کی جانب سے آنے والی چار ریل گاڑیوں کی روانگی منسوخ کر دی گئی۔

    دوسری جانب مرکزی حکومت کے خلاف کسانوں کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال کے پیش نظر جھاڑ کھنڈ میں گاڑیوں کی آمد و رفت شدید متاثر ہوئی ہے، اہمم شاہراہیں بند کیے جانے کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگیا۔

    یا د رہے کہ کسان تنظیموں نے آج 26 مارچ کو مکمل طور سے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے، اس موقع پر ملک کے کئی حصوں میں ٹرینوں اور ٹریفک کی نقل و حمل متاثر ہوئے اور ساتھ ہی اس کا اثر بازاروں پر بھی پڑا۔

  • "کتیا کا افسوس کرنے والے ڈھائی سو کسانوں کی موت پر خاموش ہیں”

    "کتیا کا افسوس کرنے والے ڈھائی سو کسانوں کی موت پر خاموش ہیں”

    نئی دہلی : بھارتی ریاست میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک نے مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک کتیا بھی مر جاتی ہے تو حکمران تعزیتی پیغام جاری کرتے ہیں لیکن ڈھائی سو کسانوں کی موت پر کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

    بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر ستیہ پال ملک کا کہنا تھا کہ کسان تحریک میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے صرف اس کو حل کرنے کی ضرورت ہے یہ مسئلہ صرف سہارا قیمت (ایم ایس پی) کا ہے، اگر اس کو قانونی جامہ پہنا دیا جائے تو یہ معاملہ آسانی سے حل ہو جائے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں اس مسئلہ کو جلد حل ہونا چاہیے، میں ایک آئینی منصب پر فائز ہوں مڈل مین بن کر کام نہیں کرسکتا۔

    میں صرف کسان رہنماؤں اور حکومت کے نمائندگان کو صرف صلاح مشورہ دے سکتا ہوں، میرا صرف اتنا ہی کردار ہے اس سے زیادہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو فصل کی جائز قیمت نہ ملنے کا مسئلہ آج کا نہیں ہے بلکہ انگریزوں کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔

    مزید پڑھیں : بھارتی کسانوں کی نئی حکمت عملی، مودی کے ہوش ٹھکانے آگئے

    واضح رہے کہ زرعی قوانین کیخلاف بھارت کے کسانوں کا احتجاج مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے جبکہ کسان کسی بھی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

    مزید پڑھیں : بھارت کسان تحریک، 100 دن میں کتنے کسان ہلاک ہوئے؟

    دہلی بارڈرز پر کسان گزشتہ چار ماہ سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور وہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک واپس نہیں جانا چاہتے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کنڈلی بارڈ کے مقام پر عارضی جھونپڑیاں بنانا شروع کردی ہیں۔

  • بھارتی کسانوں نے حکومت کو حیرت زدہ کردیا، مودی سرکار پریشان

    بھارتی کسانوں نے حکومت کو حیرت زدہ کردیا، مودی سرکار پریشان

    نئی دہلی : نئے زرعی قوانین کیخلاف مظاہرہ کرنے والے ہزاروں کسان گزشتہ سو سے زائد دنوں سے اپنے گھر بار چھوڑ کر مطالبات کے حق میں سڑکوں پر موجود ہیں۔

    بھارتی حکومت کیخلاف دھرنے پر بیٹھے کسان یہ بات ذہنی طور پر مان چکے ہیں کہ انہیں اس سال کی گرمیاں بھی دہلی میں ہی گزارنی ہوں گی تاہم انہوں نے اس چلچلاتی دھوپ اور لو کے تھپڑوں سے بچنے کا پورا انتظام کرلیا ہے۔

    نئی دہلی کی سرحدوں پر کسانوں نے پکے گھر تو تعمیر کرنا شروع کر ہی دیے ہیں لیکن گرمی کی سختی سے محفوظ رہنے کے لیے اینٹ اور گارے کے گھروں کے علاوہ بانس کے گھر بھی بنائے جا رہے ہیں۔

    دیلی کے سنگھو بارڈر پر کسانوں اور کاریگروں نے ایک بانس کا گھر تعمیر کیا ہے، جو 25 فٹ لمبا، 12 فٹ چوڑا اور 15 فٹ اونچا ہے جس میں 15-16 لوگ آرام سے رہ سکتے ہیں۔

    اس بانس کے گھر کو کسانوں نے گرمی سے حفاظت کے ارادے سے تیار کیا ہے تاکہ گرم ہوا کے زور کو کم کیا جا سکے گھر کی چھت کو خاص پرالی سے تیار کیا گیا ہے۔

    بانس کے اس گھر میں جدت کا بھی پورا خیال رکھا گیا ہے۔ بجلی کنکشن ہے، چھتوں پر پنکھے لگے ہیں اور کولروں کا بھی انتظام کیا گیا ہے تاکہ گرمی کی وجہ سے تحریک کی شدت کم نہ ہونے پائے، کسانوں نے اس گھر کو صرف پانچ دن میں تیار کیا ہے۔

    جیسے جیسے موسم میں تبدیلی آرہی ہے، ویسے ویسے کسان بھی اپنی حکمتی عملی تبدیل کر رہے ہیں، ٹیکری بارڈر پر بلند شہر کے کسان پکے مکان تعمیر کر رہے ہیں جن کی قیمت 20 سے 30 ہزار تک ہے اور اب بانس کے مکان بھی تیار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

  • نئی دہلی : 8مارچ کا دن مودی حکومت کو مہنگا پڑگیا

    نئی دہلی : 8مارچ کا دن مودی حکومت کو مہنگا پڑگیا

    نئی دہلی : بھارت میں نئی دہلی کی سرحد پر ملک بھر سے آنے والے کسان متنازعہ زرعی قوانین کیخلاف گذشتہ تین  ماہ سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور اب اس ملک گیر تحریک میں ہزاروں خواتین بھی ان کے شانہ بشانہ ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی دارالحکومت دہلی کے مضافات میں کسانوں کا احتجاج گزشتہ سال نومبر سے جاری ہے اور آج خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اس احتجاج میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین بھی شامل ہوگئی ہیں۔

    ان میں کسان گھرانے سے تعلق رکھنے والی 37 سالہ وینا بھی ہیں، انہوں نے پورا نام نہ بتانے کی شرط پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم دن ہے کیونکہ یہ خواتین کی ہمت اور طاقت کی نمائندگی کرتا ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں وینا نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ اگر ہم خواتین متحد ہوں تو اپنے مقاصد کو بہت تیزی سے حاصل کرسکتی ہیں۔

    کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے بھارت میں روایتی منڈیوں کی تباہی ہوگی، حکومت طے شدہ قیمت پر چاول اور گندم نہیں خریدے گی اور ہم پرائیویٹ سیکٹر کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

    دوسری جانب بھارتی حکومت کے مطابق زرعی اصلاحات کا مقصد کسانوں کو خوش حال بنانا ہے، پرائیویٹ سیکٹر اس سلسلے میں ملک میں زراعت کے شعبے کو بہتر کرنے میں مدد کرے گا۔

    پولیس حکام اور کسان رہنماؤں کے مطابق دہلی کے مضافات میں ریاست ہریانہ کے قریب سرحد پر کسانوں کے احتجاجی دھرنے میں 20 ہزار خواتین شامل ہوئی ہیں۔

    احتجاجی دھرنے کے ایک مقام پر زرد اسکارف پہنے (جو سرسوں کے کھیتوں کی علامت ہے) خواتین سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ وہ نعرے لگاتی ہیں، چھوٹے مارچ کرتی ہیں اور نئے زرعی قوانین کو اپنی تقریروں میں تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔

  • بھارتی کسانوں کا احتجاج : کھڑی فصلیں اجاڑ دیں

    بھارتی کسانوں کا احتجاج : کھڑی فصلیں اجاڑ دیں

    سہارنپور : بھارت میں کسان تحریک اپنے زوروں پر ہے لیکن مودی سرکار ان کی بات ماننے کو تیار نہیں، تنگ آکر کسانوں نے گیہوں کی فصل پر ٹریکٹر چلاکر اسے ضائع کردیا۔

    بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع سہارنپور میں زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے اپنی گیہوں کی فصل پر احتجاجاً ٹریکٹر چلا دیا، اپنے ہاتھوں سے لگائی فصل کو برباد کرنے کے بعد کسان مایوسی کے ساتھ گھر واپس لوٹ گئے۔

    ضلع سہارنپور کے تحصیل بہٹ علاقہ کے گاؤں ڈھابہ میں بہت سے کسانوں نے گنے کی ادائیگی نہ ہونے، زرعی قوانین کی مخالفت میں جاری کسان تحریک کی سنوائی نہ ہونے اور بجلی کے زائد بلوں کی وجہ سے گیہوں کی فصل کو ٹریکٹر چلا کر برباد کردیا۔

    اس حوالے سے کسانوں نے مودی حکومت سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زرعی قوانین کی کافی عرصے سے مخالفت ہورہی ہے لیکن حکومت کسانوں کی بات سننے کو تیار نہیں۔’

    کسانوں کا کہنا ہے کہ اب وہ صرف اتنی ہی فصل اُگائیں گے، جس سے ان کے گھر کا گزر بسر ہوسکے وہ اب حکومت کو فروخت کرنے کے لئے فصلیں نہیں اگائیں گے۔