Tag: fasting

  • روزہ : امراض قلب شوگر اور کینسر سے بچاؤ کا ذریعہ

    روزہ : امراض قلب شوگر اور کینسر سے بچاؤ کا ذریعہ

    ماہ رمضان کے دوران روزے رکھنا مذہبی فریضہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ صحت کی بہتری کے لیے بھی بہت زبردست عمل ہے۔

    اس حوالے سے ماہرین طب کی جانب سے کام کیا جاری ہے جس میں مخصوص اوقات تک کھانے سے دوری کے جسم پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے دل کے امراض اور کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔

    محققین کے مطابق تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر ایک ماہ میں پانچ مرتبہ کیلوریز کی نصف مقدار استعمال کی جائے تو کینسر، ذیابیطس اور امراض قلب جیسے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کم از کم چھ گھنٹے تک پانی پر اکتفا کرنے سے بھی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق روزہ رکھنے سے جسم میں انسولین کی مقدار بہتر ہوتی ہے، نظام ہضم درست ہوتا ہے اور میٹابولزم کے عمل میں بھی بہتری آتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزہ رکھنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے، روزہ رکھنے والے ممالک اور افراد پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کم کھانے سے نظام ہضم پر زور نہیں پڑتا اور خلیات میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل سست ہو جاتا ہے جب کہ دماغی صلاحیت میں بھی بہتری آتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ماہ میں کم از کم پانچ روزے رکھنا انسانی صحت اور زندگی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

  • ہفتے میں دو دن ’روزہ‘ بہترین ڈائٹنگ: نئی تحقیق

    ہفتے میں دو دن ’روزہ‘ بہترین ڈائٹنگ: نئی تحقیق

    لندن: سائنس دانوں نے ایک نئی تحقیق میں کہا ہے کہ ڈائٹنگ کا بہترین اور آسان طریقہ یہ ہے کہ ہفتے میں ’دو دن فاقہ‘ کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ’پلوس وَن‘ نامی آن لائن ریسرچ جرنل کے تازہ شمارے میں ایک تحقیق شایع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کامیاب ڈائٹنگ کے لیے روزانہ کم کھانے سے بہتر ہے کہ ہفتے میں صرف 2 دن فاقہ کیا جائے، جب کہ باقی 5 دن معمول کے مطابق صحت بخش غذائیں استعمال کی جائیں۔

    یہ تحقیق کوئین میری یونیورسٹی، برطانیہ کے سائنس دانوں نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ ڈائٹنگ کے اس طریقے کو ’5:2 ڈائٹ‘ (فائیو ٹو ڈائٹ) بھی کہا جاتا ہے، جو کچھ ہی سال قبل سامنے آیا ہے اور اب بہت مقبول ہو رہا ہے۔

    ڈائٹنگ کے اس طریقے میں ہفتے کے پانچ دنوں میں معمول کی غذاؤں سے مطلوبہ کیلوریز حاصل کی جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق مردوں کے لیے 2 ہزار سے 3 ہزار کیلوریز روزانہ بہتر ہیں، جب کہ خواتین کے لیے 16 سو سے 2400 تک کیلوریز لینا روزانہ مناسب ہے۔

    ہفتے کے باقی کے دو دنوں میں غذا بہت کم کر دی جاتی ہے، یعنی صرف 5 سو کیلوریز روزانہ تک، اور اسے میڈیکل سائنس کی زبان میں فاسٹنگ یعنی فاقہ کہا جاتا ہے۔

    ریسرچ کے دوران

    تحقیقی مطالعے کے لیے 3 سو ایسے رضاکار بھرتی کیے گئے جو موٹاپے میں مبتلا تھے، انھیں تین گروپس میں تقسیم کیا گیا، اور ہر گروپ میں 100 رضاکار رکھے گئے، ان سب سے 6 ہفتوں تک تین الگ الگ ڈائٹنگ پلانز پر عمل کروایا گیا۔

    جب نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ دو دن فاقہ کرنے والے اور روزانہ کم کھانے والے افراد کے درمیان کچھ خاص فرق نہ تھا، لیکن رضاکاروں نے دو دن فاقہ کرنے کا پلان زیادہ آسان پایا۔

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دو دن فاقے والا پلان حاملہ خواتین اور 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

  • خالی پیٹ کونسی غذائیں مفید اور کون سی نقصان دہ

    خالی پیٹ کونسی غذائیں مفید اور کون سی نقصان دہ

    صبح اٹھ کر نہار منہ پانی پینا فائدہ مند ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کا فائدہ سب لوگوں کو ہو، ایسی بہت سی غذائیں ہیں جنہیں نہار منہ کھانا صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر صحت ڈاکٹر ایرج نے سننے والوں کا آگاہ کیا کہ صبح اٹھنے کے بعد نہار منہ کون سی غذائیں کھانی چاہیئں اور کن سے پرہیز کرنا چاہیے۔

    انہوں نے بتایا کہ صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے سیب کا استعمال بہت زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے، اس کے علاوہ کھجور بادم یا اس کے ساتھ ساتھ سبزیوں میں نہار منہ شکر کندی کا استعمال بہت زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے۔

    ڈاکٹر ایرج نے بتایا کہ اکثر لوگ نہار منہ چائے کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے تیزابیت کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادرک اور لہسن کا استعمال بھی تیزابیت کا باعث بنتا ہے لہٰذا نہار منہ ان کے استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ پھل ہماری صحت کے لیے اہم اور ناقابل یقین حد تک فائدہ مند ہیں۔ پھلوں میں وٹامنز، غذائی اجزاء، فائبر اور پانی کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے، مناسب طریقے سے اپنی خوراک میں پھلوں کو شامل کرنے سے نظام انہظام بہتر ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ نہار منہ پھل کھانے سے جسم کو بہت زیادہ توانائی ملتی ہے، وزن میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے اور یہ پھل پورے دن کے لیے جسم کو ضروری توانائی مہیا کرتے ہیں۔

    ڈاکٹر ایرج نے بتایا کہ شہد میں منرلز، وٹامنز اور دیگر ضروری غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں جو آنتوں کو صاف ستھرا رکھنے کےلیے بے حد ضروری ہیں۔ خالی پیٹ نیم گرم پانی میں شہد ڈال کر پینے سے جسم میں موجود تمام زہریلے اور جراثیمی عناصر ختم ہوجاتے ہیں۔

  • روزے کے دوران ورزش کیسے کی جائے؟

    روزے کے دوران ورزش کیسے کی جائے؟

    ماہ رمضان میں افطار میں پکوڑے، سموسے، کچوریاں کھانا اور پھر بے دم ہو کر لیٹ جانا وزن بڑھانے کا سبب بنتا ہے، ایسے میں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ خود کو کیسے فٹ رکھا جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں فٹنس ٹرینر رومیسہ نے ماہ صیام میں فٹنس بحال رکھنے کی کارآمد ٹپس بتائیں۔

    انہوں نے بتایا کہ سحری میں غذائیت سے بھرپور خوراک لینی ضروری ہے جبکہ افطار میں کم کھایا جائے، سحری میں دہی کا استعمال ضرور کیا جائے، علاوہ ازیں پراٹھے کی جگہ روٹی کھائی جائے جو دن بھر جسم کی توانائی بحال رکھتی ہے۔

    رومیسہ کے مطابق رمضان میں ورزش کرنے کا سب سے اچھا وقت افطار سے قبل کا ہے کیونکہ خالی پیٹ ورزش کرنے سے 400 سے 500 اضافی کیلوریز جل سکتی ہیں۔

    اگر افطار سے قبل وقت نہ مل سکے تو افطار کے بعد جب کھانا ہضم ہوجائے یعنی ایک سے ڈیڑھ گھنٹے بعد تب ورزش کی جائے۔

    انہوں نے 30 سیکنڈز کے اندر کم جگہ میں کی جانے والی معمولی نوعیت کی ورزشیں بھی بتائیں۔

  • رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    ماہ صیام رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، تاہم ایسے ماہ میں ذیابیطس سمیت مختلف بیماریوں کا شکار افراد کچھ مشکل میں پڑجاتے ہیں کہ وہ روزہ کیسے رکھیں۔

    پاکستان میں ہر 4 میں سے ایک فرد شوگر کی کسی نہ کسی قسم کا شکار ہے، ایسے افراد اگر روزہ رکھ رہے ہیں تو انہیں صحت مند اور متوازن بلڈ شوگر لیول کے لیے کچھ تدابیر پر عمل کرنا چاہیئے۔

    شوگر کے مریضوں کو سب سے پہلے روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہیئے اور اپنے معالج کے تجویز کردہ اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    طبی ماہرین کے مطابق روزہ رکھنا ان افراد کے لیے مشکل ہوتا ہے جو کہ انسولین کا استعمال کرتے ہوں یا شوگر سے متعلق مخصوص ادویات کا استعمال کر رہے ہوں، ایسے افراد روزہ رکھنے کی صورت میں اگر پورے مہینے اپنے شوگر لیول کو مسلسل مانیٹر کرتے رہیں اور اپنے بلڈ شوگر لیول پر کڑی نظر رکھیں تو انہیں اس کی سمجھ آجائے گی اور وہ اپنے کھانے پینے کی عادات اور روزے کو اپنی شوگر کے لیول کے مطابق باآسانی چلا سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہنا ہے ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیئے جبکہ ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں کو روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیئے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

    شوگر لیول گرنے اور زیادہ ہونے کی علامات کیا ہیں؟

    انسانی خون میں شوگر لیول کی کمی کی علامات میں بہت زیادہ پسینہ آنا، سردی لگنا، انتہائی شدید بھوک کا محسوس ہونا، بینائی کا دھندلانا، دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہونا اور سر چکرانا شامل ہے جبکہ شوگر لیول میں اضافے کی علامات میں مریض کے ہونٹوں کا خشک ہونا اور بار بار پیشاب آنا شامل ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ شوگر کے مریض رمضان کے مہینے کے دوران پروٹین اور فائبر سے بھرپور غذا کا استعمال کریں جبکہ میٹھے کھانوں اور کیفین سے گریز کریں۔

    ذیابیطس کے مریض رمضان کے دوران ہر قسم کی غذا کا استعمال کرسکتے ہیں، بس یہ خیال رکھیں کہ وہ متوازن غذا ہو، کسی بھی غذا کا زیادہ استعمال پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے شوگر کے مریضوں کے لیے تجویز کیے گئے چند مفید مشورے مندرجہ ذیل ہیں۔

    شوگر کے مریض کے لیے ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے وہ خود کو روزہ رکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔

    ماہرین کی جانب سے بہترین مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ ہر مریض رمضان کے آغاز سے قبل ہی اپنے معالج سے دواؤں اور غذا کا چارٹ اور طریقہ استعمال بنوا لے، ادویات سے متعلق خود سے کوئی فیصلہ نہ کریں۔

    شوگر کے شکار افراد سحری میں ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جو دیر سے ہضم ہوں، عام حالات میں ذیابیطس کے مریض پراٹھا نہیں کھا سکتے لیکن وہ سحری میں کم تیل سے بنا ہوا پراٹھا کھا سکتے ہیں، دیر سے ہضم ہونے والی غذاؤں میں حلیم بھی شامل ہے، حلیم میں گوشت اور دالوں کے سبب فائبر بہت زیادہ پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں تا دیر بھوک نہیں لگتی۔

    کولیسٹرول کے بڑھنے کے خدشات کے سبب انڈے کا استعمال نہ کریں، شوگر کے مریض اگر انڈے کا استعمال کرنا بھی چاہتے ہیں تو نصف زردی کے ساتھ انڈہ کھایا جا سکتا ہے، انڈے کا استعمال کسی سالن کے ساتھ ملا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔

    شوگر کے جن مریضوں کو پیاس زیادہ لگتی ہے وہ سحری میں الائچی کے قہوے کا استعمال کر سکتے ہیں، الائچی کے قہوے میں کم مقدار میں دودھ بھی شامل کیا جا سکتا ہے یا پھر نمکین لسی کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

    سحری کے دوران میٹھے میں کھجلہ، پھینیاں، کسٹرڈ یا کسی بھی قسم کی میٹھی غذا کا استعمال ہر گز نہ کریں۔

    شوگر کے مریض روزہ کھجور سے افطار کر سکتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق ایک کھجور میں 6 گرام کاربو ہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں جس میں معدنیات، فائبر، فاسفورس اور پوٹاشیئم بھی موجود ہوتا ہے، کھجور میں پائے جانے والا پوٹاشیئم تھکاوٹ اور بوجھل پن دور کرتا ہے۔

    ذیابیطس کے مریض روزہ افطار کرتے ہوئے ایک کھجور کھا سکتے ہیں اور اگر ان کا شوگر لیول متوازن ہے تو 2 کھجوریں بھی کھائی جاسکتی ہیں۔

    افطار کے دوران پھلوں کی چاٹ بغیر چینی، کریم اور دودھ کے کھائی جا سکتی ہے، پھلوں میں تھوڑی سی مقدار میں لیموں کا رس بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

    مائع میں سادہ پانی بہترین قرار دیا جاتا ہے جبکہ نمک میں بنا ایک گلاس لیموں پانی بھی پیا جا سکتا ہے، شوگر کے مریض گھر کی بنی ہوئی غذاؤں کا ہی استعمال کریں، کوشش کریں کے تیل، نمک، لال مرچ اور چینی کی زیادہ مقدار لینے سے پرہیز کیا جائے۔

    شوگر کے مریض رات بھوک لگنے پر ایک روٹی کم مرچ مصالحے والے سالن کے ساتھ یا سلاد اور رائتے کے ساتھ کھا سکتے ہیں، چاولوں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے مگر ایک پلیٹ سے زیادہ نہیں، رات سونے سے قبل بھوک محسوس ہونے پر ایک گلاس دودھ بغیر شکر کے پیا جا سکتا ہے۔

    رمضان بخیر و عافیت گزارنے اور روزو ں کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے افطار کے بعد اور رات کھانے سے قبل کم از کم 30 منٹ چہل قدمی لازمی کریں، شوگر کے مریضوں کے لیے چہل قدمی بھی ایک بہترین علاج قرار دیا جاتا ہے۔

    شوگر کے مریض اپنے معالج کے مشوروں کے مطابق رمضان گزاریں، خود سے ادویات یا شوگر لیول کے کم یا زیادہ ہونے کی علامات پر علاج نہ کریں۔

  • روزے کے دوران ورزش کیسے کی جائے؟

    روزے کے دوران ورزش کیسے کی جائے؟

    رمضان کے دنوں میں ورزش کرنا ایک مشکل کام لگ سکتا ہے لیکن احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہلکی پھلکی ورزشیں کی جاسکتی ہیں۔

    دبئی کے ایک ٹرینر اور نیوٹریشن کوچ دیوندر بینس نے رمضان میں ورزش کے حوالے سے کچھ مشورے دیے ہیں۔

    ٹرینر دیوندر بینس کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ورزش کس وقت کی جائے، اور وقت وہ ہونا چاہیئے جب آپ نے پیٹ زیادہ بھرا ہوا نہ ہو۔

    ان کے مطابق بہترین وقت افطاری کے بعد کا ہے لیکن اس وقت آپ کا پیٹ زیادہ بھرا ہوا نہیں ہونا چاہیئے یعنی آپ ہلکی پھلکی چیزوں کے ساتھ افطاری کرنے کے بعد ورزش کے لیے چلے جائیں اور کھانا بعد میں کھا لیں۔

    اگر صبح جلدی اٹھ سکتے ہیں تو دوسرا بہترین وقت سحری سے پہلے کا ہے، اور اگر آپ خالی پیٹ ورزش کرنے کے عادی ہیں تو یہ کام افطاری سے پہلے بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے ڈی ہائیڈریشن یعنی پانی کی کمی ہو سکتی ہے۔

    ٹریننگ سے پہلے اور بعد میں انرجی کو بحال کرنے کے لیے آپ کا دل کاربو ہائیڈریٹس کھانے کو چاہتا ہے تو اس کے لیے چاول یا پاستے کی جگہ سبزیاں یا ایسی چیزیں استعمال کریں جن میں فائبر ہو۔

    اس کے علاوہ اپنے مسلز کو توانا رکھنے کے لیے پروٹین کا استعمال کریں جس کے لیے آپ گوشت، دالیں اور لوبیہ کھا سکتے ہیں اور پروٹین شیک بھی پی سکتے ہیں۔

    روزے کے دوران جسم انرجی کے لیے جمع شدہ کاربو ہائیڈریٹس اور پروٹینز کا استعمال کرتا ہے جس سے آپ کے پٹھے کمزور ہو سکتے ہیں۔ ہلکے پھلکے ویٹ یا باڈی ویٹ کے ساتھ ٹریننگ کرنے سے یہ پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔

    اس کے لیے آپ پش اپس اور بیٹھکیں لگا سکتے ہیں یا کم ویٹ کے ساتھ چھاتی اور کندھوں کی ورزش کر سکتے ہیں۔

    روزے کے دوارن بھاگنے یا جاگنگ جیسی وزرش نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کے جسم سے جمع شدہ گلائیکوجن جلدی ختم ہو جائیں گے اور جسم پروٹین مانگے گا، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ افطاری سے قبل واک کر لی جائے۔

  • رمضان المبارک: جسم کو پانی کی کمی سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

    رمضان المبارک: جسم کو پانی کی کمی سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

    ماہ رمضان کا آغاز ہوچکا ہے اور اس بار کرونا وائرس کی وجہ سے وہ گہما گہمی نہیں ہے جو ہر سال دیکھنے میں آتی ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے نیا بھر میں زیادہ تر افراد گھروں پر اپنا وقت گزار رہے ہیں۔

    اس مبارک ماہ کے ساتھ ہی گرمی کا آغاز بھی ہوچکا ہے لہٰذا اس وقت سب سے بڑا چیلنج جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا ہے تاکہ پورے ماہ خشوع وخضوع سے عبادت کی جاسکے۔

    پانی کی کمی کا سامنا زیادہ تر خواتین کو ہوسکتا ہے کیونکہ رمضان میں ان کی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں اور یوں روزے کے ساتھ گھریلو امور نمٹانا اور عبادات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ گرمی میں روزہ رکھنے کے باعث جسم میں پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے لیے سحر و افطار میں پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیئے۔

    سحر و افطار میں پانی یا پھلوں کے رس زیادہ سے زیادہ پیئیں، اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بھی ضرور کریں۔

    رمضان المبارک میں سخت گرمی کے باعث جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ماہرین طب کے تجویز کردہ سات آسان طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔

    سحری میں کم از کم 2 گلاس پانی لازمی پیئیں جبکہ جوس اور کولڈ ڈرنک سے دور رہیں۔ یہ آپ کے وزن میں اضافہ کریں گی۔

    ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جن میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جیسے تربوز، کھیرا، سلاد وغیرہ۔ یہ آپ کے جسم کی پانی کی ضرورت کو پورا کریں گے۔

    افطار کے اوقات میں ایک ساتھ 7 یا 8 گلاس پانی پینا نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

    روزہ کے بعد کھجور اور 2 گلاس پانی کے ساتھ افطار کریں۔

    رات میں نماز تراویح اور دوسری عبادات کے وقت پانی کی بوتل ساتھ رکھیں۔

    رات کو سوتے ہوئے بھی پانی کی بوتل اپنے قریب رکھیں۔

    کوشش کریں کہ گرم اور دھوپ والی جگہوں پر کم سے کم جائیں۔

    ان تدابیر کو اپنا کر آپ اپنے جسم کو پانی کی کمی سے بچا کر ایک پرلطف ماہ رمضان گزار سکتے ہیں۔

  • تحقیقاتی ماہرین کو روزے کے  مزید طبی فوائد مل گئے، روزہ صحت کے لیے مفید قرار

    تحقیقاتی ماہرین کو روزے کے مزید طبی فوائد مل گئے، روزہ صحت کے لیے مفید قرار

    فرانس: جرمنی کے طبی ماہرین نے تحقیق کے بعد روزے کو انسانی صحت کے لیے فائدے مند قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کے طبی ماہرین نے روزے کی سائنسی اہمیت کے حوالے سے جامع اور سائنسی تحقیق کی جس میں 1400 سے زائد افراد نے حصہ لیا۔

    ’پلوس‘ نامی طبی جریدے میں تحقیقاتی رپورٹ شائع کی گئی جس میں ماہرین نے بتایا کہ ’جرمنی کے شہریوں نے جنوبی علاقے میں واقع کونسٹانس جھیل کے قریب پانچ سے 20 روز تک بحالیِ صحت کے لیے روزے رکھے‘۔

    رپورٹ کے مطابق تحقیق برلن یونیورسٹی اسپتال کے تعاون سے کی گئی جس میں غذا کے ذریعہ علاج کرنے کے طریقے پر بھی غور کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: نماز جوڑوں اور کمر درد سے نجات میں معاون: امریکی تحقیق

    ماہرین کے مطابق تحقیق میں شامل ہونے والے افراد نے جب روزہ رکھا اور اُن کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے، ایک مخصوص وقت تک بھوک اور پیاس کی حالت میں رہنے سے اُن کے جسم میں موجود کولیسٹرول کم ہوا۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزن میں کمی یا موٹاپے کا علاج کرنے کا موزوں طریقہ روزہ ہی ہے کیونکہ روزے داروں کے وزن میں تیزی سے کمی ہوئی جبکہ ایسے افراد جنہوں نے روزہ رکھا اُن کے معدے کا سائز بھی کم ہوا۔

    یہ بھی پڑھیں: روزے کے انسانی صحت پرحیرت انگیزفوائد

    ماہرین کے مطابق روزے داروں کا بلڈپریشر، خون میں گلوکوز کی مقدار بہتر ہوئی جبکہ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ روزہ رکھنا امراض قلب سے بچاؤ کا سب سے آسان اور اہم ذریعہ ہے اس کے علاوہ ذیابیطس اور ذہنی تناؤ کے مریضوں کے علاج میں بھی یہ معاون ثابت ہوتا ہے۔

    تحقیق میں شامل 84 فیصد افراد جوڑوں کے درد، خون میں چکنائی کی زیادتی، جگر کی سوزش جیسے دائمی امراض میں مبتلا تھے، اُن سب کے مرض میں بھی کمی ہوئی جبکہ 93 فیصد افراد نے ماہرین کو یہ بھی بتایا کہ انہیں روزے کے اوقات میں بھوک کا احساس نہیں ہوا۔

    اسے بھی پڑھیں: روزہ انسان کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرتا ہے

    تحقیقاتی ماہرین نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ مطالعے میں ایسے بھی افراد شامل تھے جنہیں سردرد، بے خوابی جیسی بیماریاں تھیں ایسے لوگوں کو بھی روزہ رکھنے سے بہت فائدہ ہوا اور منفی اثرات ختم ہوئے۔

  • اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    دنیا میں اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے اور غیرمسلموں کا بھی ایک طبقہ روزہ رکھتا ہے، حالانکہ ان کے ہاں روزے کے معاملات کچھ الگ ہیں اور وہ اپنے طریقے سے روزے رکھتے ہیں، ان کے روزے کے ایام بھی مختلف ہیں۔

    اسلام میں روزہ ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ جن میں روزہ ایک اہم عبادت ہے ،اور اپنے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    دنیا میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رمضان کے روزے رکھتی ہے، اللہ نے قرآن کریم میں جہاں روزے کی فرضیت بیان کی ہے وہاں یہ بھی بتایا ہے کہ پرانی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے۔

    ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فر ض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘(سورہ بقرہ)

    اہل اسلام کے لئے روزے کی فرضیت کا حکم اگرچہ ہجرت نبوی کے بعد ہوا مگراس سے قبل بھی دنیا کے دوسرے مذاہب میں روزے کا تصور پایا جاتا تھا۔

    یہودی مذہب


    مسلمانوں کے علاوہ یہودی بھی بہت زیادہ روزے رکھتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی مُقدس کتاب تورات میں کئی مقامات پرروزہ کی فرضِیّت کاحکم دیاگیاہے۔

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں صرف ایک روز ہ فرض تھا اور یہ عاشورہ کا روزہ تھا ۔یوم عاشورہ کے روزے کو کفارہ کا روزہ کہا جاتا ہے، روزے میں یہودی اپنا بیش تر وقت سینیگاگ میں گزارتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں نیز توریت کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں۔

    تورات کی بعض روایات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا ۔ یہ روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے سخت بات کہی گئی تھی کہ جو کوئی اس روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے الگ ہو جائے گا ۔

    توریت کی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پہاڑ پر توریت لینے کے لئے گئے اور چالیس دن مقیم رہے تو روزے کی حالت میں رہے۔

    یہودیوں کے ہاں مصیبت اور آفات آسمانی کے وقت میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ رکھتے بھی ہیں۔ جب بارشیں نہیں ہوتی ہیں اور قحط سالی پڑتی ہے تو بھی یہودیوں کے ہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔یہودیوں میں اپنے بزرگوں کے یوم وفات پر روزہ رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے یوم انتقال پر یہودی روزہ رکھتے ہیں، علاوہ ازیں کچھ دوسرے بزرگوں کے یوم وفات پر بھی روزے رکھے جاتے ہیں۔

    پارسی مذہب


    پارسی مذہب کی اِبتدا حضرت عیسٰی علیہ السلام سے چھ سو سال پہلے فارس (ایران)میں ہوئی تھی، یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی روزہ کا تصور پایاجاتا ہے۔ انجیل کی روایات کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے روزے کے بارے میں اپنے حواریوں کو ہدایت بھی فرمائی ہے۔

    رومن کیتھولک


    عیسائیوں میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے، رومن کیتھولک عیسائیوں میں بُدھ اورجمعہ کو روزہ رکھاجاتا ہے۔ اِن روزوں کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ اُن کے بقول پانی خوراک میں شامل نہیں ہے۔

    بائبل میں اس بات کی تاکید ملتی ہے کہ روزہ خوشدلی کے ساتھ رکھا جائے اور چہرہ اداس نہ بنایا جائے اور نہ ہی بھوک وپیاس سے پریشان ہوکر چہرہ بگاڑا جائے۔

    ہندو مذہب


    بھارت میں پرانے زمانے سے ہی روزے کا تصور پایا جاتا ہے جسے عرف عام میں ’’ورت‘‘ کہا جاتا ہے۔’’ورت‘‘کیوں رکھا جاتا ہے اور اس کے احکام کہاں سے آئے اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر مذہبی اور سماجی روایات چلی آرہی ہیں جن کی پابندی میں یہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔

    ہندووں میں ہر بکرمی مہینہ کی گیارہ بارہ تاریخوں کو ’’اکادشی‘‘ کا روزہ ہے، اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے ، ہندو جوگی اور سادھو میں بھوکے رہنے کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور وہ تپسیا وگیان ،دھیان کے دوران عموماً کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔

    ہندووں کے ہاں روزے کی حالت میں پھل،سبزی اور دودھ وپانی وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے ،مگر بعض روزے ایسے بھی ہیں، جن میں وہ ان چیزوں کا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

    ہندوسنیاسی بھی جب اپنے مُقدس مقامات کی زیارت کیلئے جاتے ہیں تو وہ روزہ میں ہوتے ہیں، ہندوؤں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ اِس کے علاوہ قریبی عزیز یا بزرگ کی وفات پربھی روزہ رکھنے کی رِیت پائی جاتی ہے۔

    خاص بات یہ کہ ہندو عورتیں اپنے شوہروں کی درازی عُمر کیلئے بھی کڑواچوتھ کاروزہ رکھتی ہیں۔

    بُدھ مذہب


    بدھ مذہب کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ہوئی، بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ تھے، بدھ مت میں روزے کو ان تیرہ اعمال میں شمار کیا گیا ہے، جو ان کے نزدیک خوش گوار زندگی اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ روزے کو باطن کی پاکیزگی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    بُدھ مت کے بھکشو (مذہبی پیشوا) کئی دنوں تک روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔

    گوتم بُدھ کی برسی سے مُتصِل پہلے پانچ دن کے روزے رکھے جاتے ہیں یہ روزے بھکشو مکمل رکھتے ہیں لیکن عوام جزوی روزہ رکھتے ہیں جس میں صرف گوشت کھانامنع ہوتاہے۔

    بُدھ مت میں عام پیروکاروں کو ہر ماہ چار روزے رکھ کر گناہوں کا اعتراف اور توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

    جین مذہب


    جین مت کی ابتدا آج سے تقریباً 2550 سال پہلے ہندوستان کے علاقے اترپردیش میں ہوئی، مہاویر اس مذہب کے بانی ہیں۔

    ہندومت کی طرح جین مت میں بھی سنیاسی مقدس مقامات کی زیارت کے دوران میں روزے رکھتے ہیں اور اسی طرح بعض خاص تہواروں سے پہلے روزے رکھنے کا دستور بھی ان میں پایا جاتا ہے، ان کے مذہب میں مشہور تہوار وہ ہیں، جو ان کے مذہب کے بانی مہاویر کی زندگی کے مختلف ایام کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔

    ان کا پہلا تہوار سال کے اس دن منایا جاتا ہے، جس دن مہاویر عالم بالا سے بطن مادر میں منتقل ہوئے تھے۔ دوسرا تہوار ان کے یوم پیدایش پر منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے دنیا سے تیاگ اختیار کیا تھا، یعنی ترک دنیا کی راہ اختیار کی تھی۔ چوتھا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے الہام پا لیا تھا اور پانچواں تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن ان کی وفات ہوئی تھی اور ان کی روح نے جسم سے مکمل آزادی حاصل کر لی تھی۔

    ان تہواروں میں سب سے نمایاں تہوار پرسنا کے نام سے موسوم ہے۔ یہ تہوار بھادرا پادا (اگست۔ ستمبر) کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ جین مت کے بعض فرقوں میں یہ تہوار آٹھ دن تک اور بعض میں دس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس تہوار کا چوتھا دن مہاویر کا یوم پیدایش ہے۔ اس تہوار کے موقع پر عام لوگ روزے رکھتے اور اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتے اور توبہ کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • روزہ کو مکروہ کرنے یا توڑنے والی چیزیں

    روزہ کو مکروہ کرنے یا توڑنے والی چیزیں

    ہر سال ماہ رمضان میں روزے رکھنے کے دوران روزے کے حوالے سے کچھ سوالات و مسائل سامنے آتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ روزے کو مکروہ کر سکتے ہیں یا توڑ سکتے ہیں۔

    آج ہم ایسے ہی کچھ افعال و عوامل سے آگاہی حاصل کرنے جارہے ہیں جو روزہ کو توڑنے یا اسے مکروہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔


    ناک سے خون بہنا

    اگر کسی مخصوص صورتحال جیسے گرمی لگنے یا چوٹ لگنے کی صورت میں نکسیر پھوٹ جائے اور ناک سے خون بہنے لگے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

    البتہ یاد رہے کہ یہ عمل بے اختیار ہونا چاہیئے اور قصداً کسی ایسی صورتحال میں شامل ہونا جیسے لڑائی یا جھگڑے جس میں چوٹ لگنے اور خون بہنے کا خدشہ ہو روزے کو توڑ سکتا ہے۔


    دانتوں کی صفائی

    روزہ کے دوران دانتوں کی صفائی کے لیے مسواک بہترین شے ہے۔

    ٹوتھ پیسٹ کے بغیر بھی برش کیا جاسکتا ہے، البتہ علما ٹوتھ پیسٹ کے ساتھ دانت صاف کرنے سے گریز کی ہدایت کرتے ہیں کیونکہ ٹوتھ پیسٹ حلق میں جا کر روزے کو توڑ سکتا ہے۔


    خون کا ٹیسٹ

    کسی قسم کے طبی ٹیسٹ کے لیے خون کی معمولی مقدار کا جسم سے اخراج روزہ ٹوٹنے کا باعث نہیں۔ البتہ خون بہت زیادہ مقدار میں بہہ جائے، یا باقاعدہ کسی کو خون کی منتقلی کی جائے تب روزہ ٹوٹ سکتا ہے۔


    دانت نکلوانا

    دانت کی تکلیف کی صورت میں اگر ہنگامی طور پر دانت نکلوانا پڑجائے تو یہ اس صورت میں جائز ہے جب مسوڑھے سے نکلنے والا خون ایک یا دو قطرے سے زائد نہ ہو۔


    سرمہ لگانا

    آنکھ میں سرمہ لگانا کسی بھی صورت میں نہ تو روزے کو مکروہ کرتا ہے اور نہ ہی اسے توڑنے کا سبب بنتا ہے۔


    مائع خوشبویات کا استعمال

    بغیر الکوحل کے مائع خوشبویات جیسے عطر وغیرہ بھی روزہ کے دوران بلا جھجھک استعمال کیے جاسکتے ہیں اور ان سے روزے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔


    انہیلر کا استعمال

    ناک میں انہیلر کا استعمال روزہ توڑنے کا باعث ہے۔ دمے کے مریض افراد ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر روزہ رکھنے سے گریز کریں۔


    آنکھ یا کان میں دوا ٹپکانا

    آنکھ یا کان میں کسی بھی قسم کی دوا ٹپکانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ یہ دوا حلق اور پھر پیٹ میں جا پہنچے گی۔


    تیراکی

    تیراکی کے دوران منہ کے ذریعے پانی جسم کے اندر جانے اور روزہ ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے لہٰذا روزے کے دوران تیراکی سے گریز کیا جائے۔


    لپ اسٹک یا نیل پالش کا استعمال

    لپ اسٹک میں شامل مختلف ذائقہ جات منہ میں جانے کا سبب بن سکتے ہیں لہٰذا دوران روزہ لپ اسٹک کے استعمال سے گریز کیا جائے۔

    نیل پالش لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ یہ وضو کے دوران پانی کو ناخنوں کے اندر نہیں پہنچنے دیتا لہٰذا وضو کرنے سے قبل اسے صاف کرلینا ضروری ہے۔


    روزے کو مکروہ کرنے والی اشیا

    مندرجہ بالا افعال کے علاوہ مزید یہ چیزیں روزے کو مکروہ کرسکتی ہیں۔

    بلا ضرورت کسی چیز کو چبانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا۔

    جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی گلوچ کرنا یا کسی کو تکلیف دینا۔

    پیاس کی حالت میں پانی کے غرارے کرنا کیونکہ اس صورت سے روزہ ضائع ہونے کا قوی امکان ہے۔


    روزے کو توڑنے والی اشیا

    قصداً منہ بھر قے کرنا، البتہ طبیعت کی خرابی سے خود بخود قے آجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

    وضو کرتے وقت یا نہاتے وقت اگر غلطی سے پانی حلق میں چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

    کوئی ایسی چیز نگل جانا جو کھائی نہیں جاتی جیسے لکڑی، لوہا، کچا گیہوں کا دانہ وغیرہ۔

    کسی خوشبو دار چیز، سگریٹ اور حقے کا دھواں ناک یا حلق میں پہنچنا۔

    بھول کر کھا پی لینا پھر اس خیال سے کہ روزہ ٹوٹ گیا اور ارادتاً کھا پی لینا۔

    انجیکشن لگوانے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

    رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھالی پھر معلوم ہوا کہ صبح صادق کے بعد کھایا پیا تھا یعنی صبح صادق ہوچکی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔