Tag: fasting

  • اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    دنیا میں اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے اور غیرمسلموں کا بھی ایک طبقہ روزہ رکھتا ہے، حالانکہ ان کے ہاں روزے کے معاملات کچھ الگ ہیں اور وہ اپنے طریقے سے روزے رکھتے ہیں، ان کے روزے کے ایام بھی مختلف ہیں۔

    اسلام میں روزہ ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ جن میں روزہ ایک اہم عبادت ہے ،اور اپنے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    دنیا میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رمضان کے روزے رکھتی ہے، اللہ نے قرآن کریم میں جہاں روزے کی فرضیت بیان کی ہے وہاں یہ بھی بتایا ہے کہ پرانی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے۔

    ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فر ض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘(سورہ بقرہ)

    اہل اسلام کے لئے روزے کی فرضیت کا حکم اگرچہ ہجرت نبوی کے بعد ہوا مگراس سے قبل بھی دنیا کے دوسرے مذاہب میں روزے کا تصور پایا جاتا تھا۔

    یہودی مذہب

    مسلمانوں کے علاوہ یہودی بھی بہت زیادہ روزے رکھتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی مُقدس کتاب تورات میں کئی مقامات پرروزہ کی فرضِیّت کاحکم دیاگیاہے۔

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں صرف ایک روز ہ فرض تھا اور یہ عاشورہ کا روزہ تھا ۔یوم عاشورہ کے روزے کو کفارہ کا روزہ کہا جاتا ہے، روزے میں یہودی اپنا بیش تر وقت سینیگاگ میں گزارتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں نیز توریت کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں۔

    تورات کی بعض روایات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا ۔ یہ روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے سخت بات کہی گئی تھی کہ جو کوئی اس روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے الگ ہو جائے گا ۔

    توریت کی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پہاڑ پر توریت لینے کے لئے گئے اور چالیس دن مقیم رہے تو روزے کی حالت میں رہے۔

    یہودیوں کے ہاں مصیبت اور آفات آسمانی کے وقت میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ رکھتے بھی ہیں۔ جب بارشیں نہیں ہوتی ہیں اور قحط سالی پڑتی ہے تو بھی یہودیوں کے ہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔یہودیوں میں اپنے بزرگوں کے یوم وفات پر روزہ رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے یوم انتقال پر یہودی روزہ رکھتے ہیں، علاوہ ازیں کچھ دوسرے بزرگوں کے یوم وفات پر بھی روزے رکھے جاتے ہیں۔

    پارسی مذہب

    پارسی مذہب کی اِبتدا حضرت عیسٰی علیہ السلام سے چھ سو سال پہلے فارس (ایران)میں ہوئی تھی، یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی روزہ کا تصور پایاجاتا ہے۔ انجیل کی روایات کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے روزے کے بارے میں اپنے حواریوں کو ہدایت بھی فرمائی ہے۔

    رومن کیتھولک

    عیسائیوں میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے، رومن کیتھولک عیسائیوں میں بُدھ اورجمعہ کو روزہ رکھاجاتا ہے۔ اِن روزوں کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ اُن کے بقول پانی خوراک میں شامل نہیں ہے۔

    بائبل میں اس بات کی تاکید ملتی ہے کہ روزہ خوشدلی کے ساتھ رکھا جائے اور چہرہ اداس نہ بنایا جائے اور نہ ہی بھوک وپیاس سے پریشان ہوکر چہرہ بگاڑا جائے۔

    ہندو مذہب

    بھارت میں پرانے زمانے سے ہی روزے کا تصور پایا جاتا ہے جسے عرف عام میں ’’ورت‘‘ کہا جاتا ہے۔’’ورت‘‘کیوں رکھا جاتا ہے اور اس کے احکام کہاں سے آئے اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر مذہبی اور سماجی روایات چلی آرہی ہیں جن کی پابندی میں یہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔

    ہندووں میں ہر بکرمی مہینہ کی گیارہ بارہ تاریخوں کو ’’اکادشی‘‘ کا روزہ ہے، اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے ، ہندو جوگی اور سادھو میں بھوکے رہنے کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور وہ تپسیا وگیان ،دھیان کے دوران عموماً کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔

    ہندووں کے ہاں روزے کی حالت میں پھل،سبزی اور دودھ وپانی وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے ،مگر بعض روزے ایسے بھی ہیں، جن میں وہ ان چیزوں کا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

    ہندوسنیاسی بھی جب اپنے مُقدس مقامات کی زیارت کیلئے جاتے ہیں تو وہ روزہ میں ہوتے ہیں، ہندوؤں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ اِس کے علاوہ قریبی عزیز یا بزرگ کی وفات پربھی روزہ رکھنے کی رِیت پائی جاتی ہے۔

    خاص بات یہ کہ ہندو عورتیں اپنے شوہروں کی درازی عُمر کیلئے بھی کڑواچوتھ کاروزہ رکھتی ہیں۔

    بُدھ مذہب

    بدھ مذہب کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ہوئی، بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ تھے، بدھ مت میں روزے کو ان تیرہ اعمال میں شمار کیا گیا ہے، جو ان کے نزدیک خوش گوار زندگی اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ روزے کو باطن کی پاکیزگی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    بُدھ مت کے بھکشو (مذہبی پیشوا) کئی دنوں تک روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔

    گوتم بُدھ کی برسی سے مُتصِل پہلے پانچ دن کے روزے رکھے جاتے ہیں یہ روزے بھکشو مکمل رکھتے ہیں لیکن عوام جزوی روزہ رکھتے ہیں جس میں صرف گوشت کھانامنع ہوتاہے۔

    بُدھ مت میں عام پیروکاروں کو ہر ماہ چار روزے رکھ کر گناہوں کا اعتراف اور توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

    جین مذہب

    جین مت کی ابتدا آج سے تقریباً 2550 سال پہلے ہندوستان کے علاقے اترپردیش میں ہوئی۔ مہاویر اس مذہب کے بانی ہیں۔

    ہندومت کی طرح جین مت میں بھی سنیاسی مقدس مقامات کی زیارت کے دوران میں روزے رکھتے ہیں اور اسی طرح بعض خاص تہواروں سے پہلے روزے رکھنے کا دستور بھی ان میں پایا جاتا ہے، ان کے مذہب میں مشہور تہوار وہ ہیں، جو ان کے مذہب کے بانی مہاویر کی زندگی کے مختلف ایام کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔

    ان کا پہلا تہوار سال کے اس دن منایا جاتا ہے، جس دن مہاویر عالم بالا سے بطن مادر میں منتقل ہوئے تھے۔ دوسرا تہوار ان کے یوم پیدایش پر منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے دنیا سے تیاگ اختیار کیا تھا، یعنی ترک دنیا کی راہ اختیار کی تھی۔ چوتھا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے الہام پا لیا تھا اور پانچواں تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن ان کی وفات ہوئی تھی اور ان کی روح نے جسم سے مکمل آزادی حاصل کر لی تھی۔

    ان تہواروں میں سب سے نمایاں تہوار پرسنا کے نام سے موسوم ہے۔ یہ تہوار بھادرا پادا (اگست۔ ستمبر) کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ جین مت کے بعض فرقوں میں یہ تہوار آٹھ دن تک اور بعض میں دس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس تہوار کا چوتھا دن مہاویر کا یوم پیدایش ہے۔ اس تہوار کے موقع پر عام لوگ روزے رکھتے اور اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتے اور توبہ کرتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    کراچی: گزشتہ برس کراچی میں ماہ رمضان میں پڑنے والی شدید گرمی سے 1 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ گرمی کی یہ شدید لہر جسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے، موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کا ایک نتیجہ تھا۔

    شہر کراچی میں درختوں کی کٹائی، بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر، دن بدن فیکٹریوں اور صنعتوں میں اضافہ اور ان سے نکلنے والے دھویں نے اس شہر کو ساحلی شہر ہونے کے باوجود گرم ترین شہر میں تبدیل کردیا ہے۔

    یہ تبدیلی بہ مشکل 2 عشروں میں وجود میں آئی۔ کراچی والوں کو اب بھی وہ دن یاد ہیں جب شہر میں ہر وقت سمندر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور موسم معتدل رہتا تھا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    گزشتہ برس آنے والی ہیٹ ویو کراچی والوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایسی صورتحال بھی پیش آسکتی ہے اور ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیئے۔ ہوش و حواس بحال ہونے تک 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ 36 ہزار سے زائد افراد اسپتالوں میں داخل ہوگئے۔

    رواں برس کا آغاز ہوتے ہی محکمہ موسمیات اور موسمیاتی ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو دوبارہ آئے گی۔ نہ صرف کراچی میں بلکہ پورے ملک میں ایسی ہی شدید گرمی کی لہریں آئیں گی اور ایک نہیں کئی لہریں آئیں گی جو پورے موسم گرما میں جاری رہیں گی۔

    خوش آئند بات یہ ہوئی کہ موسم گرما کے آغاز سے قبل ہی صوبائی و شہری حکومت متحرک ہوگئی۔ بڑے پیمانے پر ہیٹ ویو کے نقصانات سے بچنے کے انتظامات کر لیے گئے۔ پورے شہر میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے۔ کئی غیر حکومتی تنطیموں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور جگہ جگہ پانی کے اسٹالز اور سایہ دار جگہیں قائم کردیں۔ مارچ اور اپریل میں 400 سے زائد رضا کاروں کو ہیٹ ویو کا شکار افراد کو ہنگامی طبی امداد دینے کی تربیت دی گئی۔

    مزید پڑھیں: کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    ہیٹ ویو سے قبل آگہی مہم بھی بھرپور انداز میں چلائی گئی۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے اندرون سندھ بڑی تعداد میں پمفلٹس تقسیم کیے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی بھرپور آگہی دی گئی یوں گزشتہ برس کی 1000 ہلاکتوں کے مقابلے میں رواں برس اب تک صرف 2 افراد کی ہلاکت دیکھنے میں آئی۔

    رواں برس ماہ رمضان کے آغاز سے ہی محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو سے بھی خبردار کردیا اور یوں شدید گرمی میں روزے رکھ سکنے یا نہ رکھنے کا مسئلہ سامنے آگیا۔ گزشتہ برس بھی علما کی جانب سے روزے میں آسانی کا فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔ شدید گرمی میں روزوں کے بارے میں کیا حکم ہے، اس بارے میں ہم نے مختلف علما سے رائے لی۔

    مزید پڑھیں: ناگپور میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کی انوکھی تدبیر

    مختلف مکتبہ فکر کے علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے افراد جن کی حالت اتنی خراب ہو کہ جان جانے کا خطرہ ہو، روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔

    پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کا اس بارے میں کہنا ہے، ’ڈاکٹرز کے مطابق اگر شدید گرمی سے آپ کی جان جانے کا خدشہ ہو، یا جسمانی طور پر آپ بدتر حالت میں ہوں اور روزہ رکھنے سے اس میں مزید خرابی کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ رمضان میں شدید گرمی کی لہر آنے کی صورت میں کونسل کی جانب سے روزے میں لچک کی ہدایت بھی جاری کردی جائے گی۔

    کیو ٹی وی کے پروگرام ’آسک مفتی‘ میں علامہ لیاقت حسین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’قرآن میں لکھا ہے، ’اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘ اگر جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا، ’جہاں تک ہیٹ ویو کا تعلق ہے تو اس کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ مثلاً دھوپ میں گھر سے نہ نکلیں، زیادہ مشقت والا کام نہ کریں۔ پھر بھی اگر جسمانی حالت اس قابل نہ ہو کہ سارا دن بھوکے پیاسے رہ کر نہ گزارا جا سکے تو روزہ چھوڑ دیں، اور بعد میں اس کا کفارہ دے دیں‘۔

    البتہ انہوں نے صرف ’گمان‘ کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ ’یہ سوچنا کہ تمام احتیاطی تدابیروں کے باوجود میں روزہ رکھنے کے قابل نہیں، غلط ہے اور یہ جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کے مترادف ہے‘۔

    گرمی کے باعث اگر طبیعت خراب ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس بارے میں رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے بتایا، ’جہاں تک برداشت ہوسکے روزہ کو نہ توڑا جائے، لیکن اگر برداشت سے باہر ہوجائے، انسان بے ہوش ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑا جا سکتا ہے۔ اس روزہ کی قضا ہوگی، کفارہ نہیں ہوگا‘۔

    واضح رہے کہ کراچی میں پچھلے 2 دن سے درجہ حرارت 40 کے قریب ہے۔ موسم گرما کے آغاز سے ہی سندھ کے جنوبی حصوں جیکب آباد، لاڑکانہ اور موہن جو دڑو میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزہ دار اس موسم میں مشروبات اور پھلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور مرغن اور چکنائی والی غذاؤں سے پرہیز کریں۔

  • رمضان المبارک میں جسم میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے 7 طریقے

    رمضان المبارک میں جسم میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے 7 طریقے

    ماہ صیام کے آغاز سے ہی ملک کے بیشتر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں،  کراچی سمیت ملک کے بیشتر ترعلاقوں میں گرمی کی شدت برقرارشدید گرمی اور حبس کی وجہ سے روزہ داروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    سخت گرمی کے باعث جسم میں پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے، جس کے لئے سحر و افطار میں پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیئے، پانی یا پھلوں کے رس زیادہ سے زیادہ پییں اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بھی ضرور کریں۔

    رمضان المبارک میں سخت گرمی کے باعث جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے سات آسان طریقے مندرجہ زیل ہیں۔

    سحری میں کم از کم دو گلاس پانی لازمی پیئیں جبکہ جوس اور کولڈ سے دور رہیں یہ آپکا وزن بڑھائیں گیں۔

    ایسے کھانےکا استعمال کریں جس میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جسیے تربوز ، کھیرا، سلاد آپ کو پانی کی کمی سے روکنے میں مددگار ثابت ہونگے۔

    افطار کے اوقات میں ایک ساتھ 7 یا 8  گلاس پانی پینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

    روزہ افطار کو کھجور اور دو گلاس پانی کے ساتھ  افطار کریں۔

    جب رات میں نماز تراویح اور دوسری عبادات کے لئے جائیں تو پانی کی بوتل کو ساتھ لے کر جائیں ۔


    رات کو ایک پانی کی بوتل اپنے قریب رکھیں۔

    کوشش کریں کہ گرم اور دھوپ والی جگہ پر کم سے کم جائیں۔

  • کلائی میں باندھی گھڑی خون میں شوگر کی مقدار بتائے گی

    کلائی میں باندھی گھڑی خون میں شوگر کی مقدار بتائے گی

    کراچی :  (ویب ڈیسک) ذیا بیطس کے مرض میں مبتلاافراد کےلئے خوش خبری،کلائی میں باندھی گئی گھڑی خون میں شوگر کی درست مقدار بتائے گی۔

    سائنس دانوں نے ذیابیطس میں مبتلا شخص کے خون میں شوگر کی مقدار جانچنے کےلئے گھڑی نما آلہ تیار کرلیا ہے جسے کلائی پر باندھ کر خون میں شوگر کی مقدار کا پتا چلایا جاسکتا ہے، اس مخصوص گھڑی کانام ’’گلوکو واچ‘‘ رکھا گیا ہے، گھڑی کے نیچے ایک خصوصی پٹی لگی ہوئی ہے جو پسینے کے ذریعے شوگر کی سطح چیک کر سکتی ہےاور اس پٹی کو با آسانی تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس گھڑی میں ایک اسکرین نصب ہے جو بٹن دبانے پر چند ہی لمحوں میں شوگر کی سطح بتا دیتی ہے، دوسرا بٹن آواز کے ذریعے گلوکوز کی سطح بتاتا ہے۔