Tag: fatima jinnah

  • وزیراعظم شہبازشریف  کا مادر ملت فاطمہ جناح کو برسی پر خراجِ عقیدت پیش

    وزیراعظم شہبازشریف کا مادر ملت فاطمہ جناح کو برسی پر خراجِ عقیدت پیش

    اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف نے مادر ملت فاطمہ جناح کو برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا قوم مادر ملت کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے مادر ملت فاطمہ جناح کو برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مادر ملت کو پاکستان کے لیےخدمات پر قوم سلام پیش کرتی ہے۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فاطمہ جناح قائداعظم کی بہن ہی نہیں بلکہ ان کی فکری وراثت کی بھی امین تھیں، مادرملت کی زندگی کا بیش تر حصہ اپنے عظیم بھائی کی رفاقت میں بسر ہوا، قائداعظم کی زندگی کے آخری 19 برس فاطمہ جناح اپنے بھائی کے ساتھ رہیں۔

    شہباز شریف نے کہا کہ فاطمہ جناح نےعظیم بھائی کےساتھ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بھرپورحصہ لیا، قیام پاکستان کےبعدشدید علیل قائد کی خدمت اور تیمارداری میں دن رات ایک کردیا اور اپنے عظیم بھائی کی وفات کے بعد انھوں نے ان کا مشن آگے بڑھانے کا کام سنبھالا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ قوم مادر ملت کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی، اللہ تعالیٰ مادر ملت کے درجات بلند فرمائے، آمین۔

    خیال رہے قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کام کرنے والی ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی 55 ویں برسی آج نہایت عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔

  • مادرملت فاطمہ جناح کی 126 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    مادرملت فاطمہ جناح کی 126 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 126 ویں سالگرہ  آج ملک بھر میں انتہائی عقیدت واحترام اور قومی جذبے کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    برصغیر کی تاریخ  میں جناح پونجا وہ خوش نصیب باپ ہیں کہ جہاں  اُن کے بیٹے محمد علی جناح برصغیر کے عظیم مسیحا کے طور پر سامنے آئے وہیں اُن کی بیٹی فاطمہ جناح عملی طور اپنے بھائی کے مشن پر اُن کے ساتھ شامل رہیں۔

    فاطمہ جناح 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں وہ قائد اعظم محمد علی جناح سے 17 سال چھوٹی تھیں لیکن قائد کی دیکھ بھال اور اُن کے سیاسی مشن کو پورا کرنے کے لیے قدم قدم پر قائد کے ساتھ ہمراہ رہیں۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظم محمد علی جناح کی بہن ہی نہیں بلکہ ان کی فکری وراثت کی بھی امین تھیں، محترمہ کی زندگی کا بیش ترحصہ اپنے عظیم بھائی کی رفاقت میں بسر ہوا،وہ تحریک پاکستان میں مشغول اپنے بھائی کی دیکھ بھال کے لیے ہر وقت اُن کے ساتھ رہتیں۔

    وہ صرف اپنے بڑے بھائی کی ضروریات کا خیال ہی نہیں رکھتی تھیں بلکہ اُن کے سیاسی مشن کی تکمیل میں معاون ومددگار بھی ثابت ہوئیں،محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے مسلم لیگ کے خواتین ونگ کو منظم کیا اور مسلم لیگ کا پیغام خواتین کے ذریعے گھر گھر پہنچایا۔

    قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کے آخری انیس برس تو ایسے تھے جب محترمہ فاطمہ جناح ، لمحہ بہ لمحہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھیں،یہ وہ وقت تھا جب تحریک پاکستان اپنے منطقی انجام کی جانب رواں دواں تھی۔

    قائد اعظم کے ساتھ طویل رفاقت کے باعث محترمہ کے مزاج اور برتاؤ میں قائد اعظم سے کافی مماثلت پائی جاتی تھی، وہی جذبہ خدمت عوام، وہی جرات و بے باکی اور وہی یقین محکم جو بھائی کی خصوصیات تھیں، قدرت نے بہن کو بھی ودیعت کردی تھیں۔

    مادر ملت نے برصغیر کا شہر بہ شہر دورہ کرکے مسلمان عورتوں میں ایک نئی زندگی پیدا کردی اور یہ محترمہ کی مساعی کا ہی نتیجہ تھا کہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں مسلمان عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ قابل تعریف خدمات انجام دیں۔

    محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے دوش بدوش 1936ء میں ہی خدمت قوم و وطن کا بیڑا اٹھا لیا تھا تاہم قائد اعظم کی اہلیہ سے علیحدگی کے بعد سے محترمہ فاطمہ ہر آن قائد کے ہمراہ رہتیں اور ان کی صحت کا خیال رکھتیں، اندرون ملک دوروں کے دوران بھی وہ قائد کے ہمراہ ہوتیں۔

    تقسیم ہند کے بعد ایک نئی مملکت کا قیام جس میں وسائل نہایت قلیل جبکہ مسائل پہاڑ کی مانند تھے اور پھر قائد اعظم کی تیزی سے بگڑتی صحت نے قوم وملت کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا اس دوران محترمہ فاطمہ جناح ہی تھیں جنہوں نے نہ صرف قائد کی تیمارداری اور دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی بلکہ قوم و ملت کے حوصلوں کو بھی بلند رکھا۔

    قیام پاکستان کے محض ایک سال بعد ہی قائد اعظم کی وفات نے قوم کے حوصلے پست کر دیے تھے اور دشمنوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ علیحدہ اسلامی ریاست کا خواب ایک سال بعد بھی چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے ایسے موقع پر ایک بار پھر محترمہ نے قوم کے جذبوں کو اپنی تقاریر سے جِلا بخشی۔ قوم کو دوبارہ سے قائد کے پیغام پر یکجا کیا اور اُن میں نئی روح پھونکی۔

    اس حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح نے مسلسل جدوجہد کی اور وہ مختلف مواقع پر قوم سے مخاطب بھی ہوتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف قومی دنوں اور تہواروں کے مواقع پر ریڈیو پاکستان سے بھی عوام سے خطاب کیا۔ اس سلسلے کا آغاز قائداعظم کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا۔

    ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور محترمہ کی تقاریر کے ایک نایاب مجموعے گلبانگ حیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی پہلی تقریر 5 نومبر 1947ء کو نشر ہوئی تھی۔ قائداعظم کی زندگی ہی میں محترمہ فاطمہ جناح کی دوسری تقریر 28 مارچ 1948ء کو ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے نشر ہوئی تاہم محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی رحلت کے بعد ریڈیو پاکستان سے جو پہلی تقریر نشر کی اس کی تاریخ نشریہ27 ستمبر 1948ءتھی۔

    ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یوم آزادی، یوم وفات قائداعظم اور عیدالفطر کے مواقع پر محترمہ فاطمہ جناح اپنی نشری تقریروں کے ذریعے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں، ان تمام تقاریر اور بیانات کے مسودے محترمہ کی تقاریر کے پہلے مجموعے گلبانگ حیات میں محفوظ ہیں۔

    صرف اتنا ہی نہیں جب خاتون پاکستان کو لگا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو خطرہ لا حق ہے تو وہ دوبارہ میدان عمل میں نکلیں اور انہوں نے ملک بھر میں جلسے کرکے ڈکٹیٹرز کو للکارا، پوری قوم ایک بار پھر محترمہ کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے جوق در جوق اُن کے قافلے میں شامل ہونے لگے۔

    سازشی عناصر نے محترمہ کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے محترمہ کو محبت کو نکال سکے، یہی وجہ ہے کہ 9 جولائی 1967ء کو جیسے ہی محترمہ کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی تیزی سے پھیلی عوام دھاڑے مارتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل غمزدہ۔

    عوام کی والہانہ عقیدت کے مدنظر حکومت نے محترمہ کی وصیت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور محترمہ کی تدفین اُن کے بھائی قائد اعظم کے پہلو میں کی، عوامی سطح پر خاتون پاکستان کہلانے والی محترمہ فاطمہ جناح کو سرکاری سطح پر مادر ملت کے لقب سے نوازا گیا۔

    یوں قائد اعظم محمد علی جناح کی نظریاتی ساتھی و رفیقہ زندگی میں بھی قائد کی ہمراہ رہیں اور مرنے کے بعد بھی اپنے بھائی کے پہلو میں دفن ہوئیں جہاں ان کی قبر مبارک سیاسی جدو جہد کرنے والے کارکنوں اور تحریک پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں ملک کو تعمیر کرنے والوں کے لیے مرجع خلائق ہے۔

  • بلاول بھٹو کا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کوخراج عقیدت پیش

    بلاول بھٹو کا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کوخراج عقیدت پیش

    اسلام آباد: چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا فاطمہ جناح دھرتی کی عظیم بیٹی اور قائداعظم کی تصویر تھیں ، پیپلز پارٹی بطور جماعت فاطمہ جناح کی جدوجہدکاتسلسل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے برسی کے موقع پر مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا فاطمہ جناح دھرتی کی عظیم بیٹی اورقائداعظم کی تصویرتھیں، فاطمہ جناح کی بھائی کی معاونت بےمثال ثبوت ہے۔.

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ فاطمہ جناح نےنظریہ جمہوریت کی حفاظت کیلئےآمروقت کوللکارا، پیپلزپارٹی بطورجماعت فاطمہ جناح کی جدوجہد کا تسلسل ہے۔

    مزید پڑھیں : مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ہم سے جدا ہوئے 52 سال ہوگئے

    خیال رہے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی باونویں برسی آج منائی جارہی ہے، مادر ملت کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ جدوجہد پاکستان میں مسلمان عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ قابل تعریف خدمات انجام دیں۔

    بانی پاکستان قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح عزم و ہمت کا پیکر تھیں، انھوں نے تحریک پاکستان میں خواتین کوبیدارکرنےمیں اہم کردارادا کیا۔

  • مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ہم سے جدا ہوئے 52 سال ہوگئے

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ہم سے جدا ہوئے 52 سال ہوگئے

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 52 ویں برسی آج ملک بھر میں انتہائی عقیدت واحترام اور قومی جذبے کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    جناح پونجا وہ خوش نصیب باپ ہیں کہ جہان اُن کے بیٹے محمد علی جناح برصغیر کے عظیم مسیحا کے طور پر سامنے آئے وہیں اُن کی بیٹی فاطمہ جناح عملی طور اپنے بھائی کے مشن پر اُن کے ساتھ شامل رہیں۔

    فاطمہ جناح 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں وہ قائد اعظم محمد علی جناح سے 17 سال چھوٹی تھیں لیکن قائد کی دیکھ بھال اور اُن کے سیاسی مشن کو پورا کرنے کے لیے قدم قدم پر قائد کے ساتھ ہمراہ رہیں۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظم محمد علی جناح کی بہن ہی نہیں بلکہ ان کی فکری وراثت کی بھی امین تھیں، محترمہ کی زندگی کا بیش ترحصہ اپنے عظیم بھائی کی رفاقت میں بسر ہوا،وہ تحریک پاکستان میں مشغول اپنے بھائی کی دیکھ بھال کے لیے ہر وقت اُن کے ساتھ رہتیں۔

    وہ صرف اپنے بڑے بھائی کی ضروریات کا خیال ہی نہیں رکھتی تھیں بلکہ اُن کے سیاسی مشن کی تکمیل میں معاون ومددگار بھی ثابت ہوئیں،محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے مسلم لیگ کے خواتین ونگ کو منظم کیا اور مسلم لیگ کا پیغام خواتین کے ذریعے گھر گھر پہنچایا۔

    قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کے آخری انیس برس تو ایسے تھے جب محترمہ فاطمہ جناح ، لمحہ بہ لمحہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھیں،یہ وہ وقت تھا جب تحریک پاکستان اپنے منطقی انجام کی جانب رواں دواں تھی۔

    قائد اعظم کے ساتھ طویل رفاقت کے باعث محترمہ کے مزاج اور برتاؤ میں قائد اعظم سے کافی مماثلت پائی جاتی تھی، وہی جذبہ خدمت عوام، وہی جرات و بے باکی اور وہی یقین محکم جو بھائی کی خصوصیات تھیں، قدرت نے بہن کو بھی ودیعت کردی تھیں۔

    خاتون پاکستان نے برصغیر کا شہر بہ شہر دورہ کرکے مسلمان عورتوں میں ایک نئی زندگی پیدا کردی اور یہ محترمہ کی مساعی کا ہی نتیجہ تھا کہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں مسلمان عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ قابل تعریف خدمات انجام دیں۔

    محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے دوش بدوش 1936ء میں ہی خدمت قوم و وطن کا بیڑا اٹھا لیا تھا تاہم قائد اعظم کی اہلیہ سے علیحدگی کے بعد سے محترمہ فاطمہ ہر آن قائد کے ہمراہ رہتیں اور ان کی صحت کا خیال رکھتیں، اندرون ملک دوروں کے دوران بھی وہ قائد کے ہمراہ ہوتیں۔

    تقسیم ہند کے بعد ایک نئی مملکت کا قیام جس میں وسائل نہایت قلیل جبکہ مسائل پہاڑ کی مانند تھے اور پھر قائد اعظم کی تیزی سے بگڑتی صحت نے قوم وملت کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا اس دوران محترمہ فاطمہ جناح ہی تھیں جنہوں نے نہ صرف قائد کی تیمارداری اور دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی بلکہ قوم و ملت کے حوصلوں کو بھی بلند رکھا۔

    قیام پاکستان کے محض ایک سال بعد ہی قائد اعظم کی وفات نے قوم کے حوصلے پست کر دیے تھے اور دشمنوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ علیحدہ اسلامی ریاست کا خواب ایک سال بعد بھی چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے ایسے موقع پر ایک بار پھر محترمہ نے قوم کے جذبوں کو اپنی تقاریر سے جِلا بخشی۔ قوم کو دوبارہ سے قائد کے پیغام پر یکجا کیا اور اُن میں نئی روح پھونکی۔

    اس حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح نے مسلسل جدوجہد کی اور وہ مختلف مواقع پر قوم سے مخاطب بھی ہوتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف قومی دنوں اور تہواروں کے مواقع پر ریڈیو پاکستان سے بھی عوام سے خطاب کیا۔ اس سلسلے کا آغاز قائداعظم کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا۔

    ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور محترمہ کی تقاریر کے ایک نایاب مجموعے گلبانگ حیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی پہلی تقریر 5 نومبر 1947ء کو نشر ہوئی تھی۔ قائداعظم کی زندگی ہی میں محترمہ فاطمہ جناح کی دوسری تقریر 28 مارچ 1948ء کو ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے نشر ہوئی تاہم محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی رحلت کے بعد ریڈیو پاکستان سے جو پہلی تقریر نشر کی اس کی تاریخ نشریہ27 ستمبر 1948ءتھی۔

    ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یوم آزادی، یوم وفات قائداعظم اور عیدالفطر کے مواقع پر محترمہ فاطمہ جناح اپنی نشری تقریروں کے ذریعے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں، ان تمام تقاریر اور بیانات کے مسودے محترمہ کی تقاریر کے پہلے مجموعے گلبانگ حیات میں محفوظ ہیں۔

    صرف اتنا ہی نہیں جب خاتون پاکستان کو لگا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو خطرہ لا حق ہے تو وہ دوبارہ میدان عمل میں نکلیں اور انہوں نے ملک بھر میں جلسے کرکے ڈکٹیٹرز کو للکارا، پوری قوم ایک بار پھر محترمہ کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے جوق در جوق اُن کے قافلے میں شامل ہونے لگے۔

    سازشی عناصر نے محترمہ کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے محترمہ کو محبت کو نکال سکے، یہی وجہ ہے کہ 9 جولائی 1967ء کو جیسے ہی محترمہ کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی تیزی سے پھیلی عوام دھاڑے مارتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل غمزدہ۔

    عوام کی والہانہ عقیدت کے مدنظر حکومت نے محترمہ کی وصیت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور محترمہ کی تدفین اُن کے بھائی قائد اعظم کے پہلو میں کی، عوامی سطح پر خاتون پاکستان کہلانے والی محترمہ فاطمہ جناح کو سرکاری سطح پر مادر ملت کے لقب سے نوازا گیا۔

    یوں قائد اعظم محمد علی جناح کی نظریاتی ساتھی و رفیقہ زندگی میں بھی قائد کی ہمراہ رہیں اور مرنے کے بعد بھی اپنے بھائی کے پہلو میں دفن ہوئیں جہاں ان کی قبر مبارک سیاسی جدو جہد کرنے والے کارکنوں اور تحریک پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں ملک کو تعمیر کرنے والوں کے لیے مرجع خلائق ہے۔

  • مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا 125 واں یوم پیدائش

    مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا 125 واں یوم پیدائش

    کراچی : مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا 125 واں یوم پیدائش آج عقیدت واحترام سے منایا جارہا ہے، آپ بابائے قوم کی ہمشیرہ اور ان کی سب سے معتبر مشیر تھیں۔

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے 1910 میں میٹرک اور 1913 میں سینئر کیمبرج کا امتحان پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے پاس کیا۔ سنہ 1922 میں محترمہ نے دندان سازی کی تعلیم مکمل کی۔

    محترمہ فاطمہ جناح نے 1929 میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زوجہ کے انتقال کے بعد اپنی زندگی بھائی کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سے ان کی زندگی کا مقصد بھائی کی خدمت اور ہر میدان میں ان کا ساتھ دینا بن گیا تھا۔

    انہوں نے نہ صرف نجی زندگی بلکہ سیاسی زندگی میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیا اور ہر سیاسی موقع پر ان کے ساتھ رہیں۔

    سنہ 1940 میں جب قائد اعظم تقسیم ہند کی تاریخ ساز قرارداد میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے تو محترمہ فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

    محترمہ نے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کا جس طرح ساتھ دیا، اسی کا اعجاز تھا کہ برصغیر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئیں اور قیام پاکستان کے خواب کو تکمیل تک پہنچایا۔

    فاطمہ جناح 7 اگست 1947 کو 56 سال کے بعد دہلی کو الوداع کہہ کر کراچی منتقل ہوگئیں۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے کئی برسوں تک بھائی کی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔

    ضعیف العمری کے باوجود مادر ملت فوجی آمر ایوب خان کے خلاف منصب صدارت کے مقابلے میں اتریں، تاہم سازشی عناصر نے محترمہ کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے محترمہ کی محبت کو نکال سکے۔

    محترمہ فاطمہ جناح ہر مقام اور ہر میدان میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ دیکھنے کی خواہاں تھیں۔ وہ جب تک زندہ رہیں تب تک انہوں نے خواتین کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی۔

    مادر ملت فاطمہ جناح 9 جولائی 1967 کو 73 سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔

    فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کے آخری قیام کراچی میں واقع موہٹہ پیلیس میں گزارے جو حکومت پاکستان نے انہیں بھارت میں موجود ان کی جائیداد کے عوض الاٹ کیا تھا۔

    اپنے قیام کے دنوں میں محترمہ محل کی بالائی منزل سے مرکزی دروازے کی چابی نیچے پھینکا کرتی تھیں جس کی مدد سے ان کا ملازم دروازہ کھول کر اندر آجاتا اور گھریلو امور انجام دیتا۔

    ایک دن انہوں نے مقررہ وقت پر چابی نہیں پھینکی۔ تشویش میں مبتلا ملازم پہلے مدد مانگنے پڑوسیوں کے پاس گیا بعد ازاں پولیس کو بلوایا گیا۔اس وقت کے کمشنر کی موجودگی میں دروازہ توڑ کر اندر کا رخ کیا گیا تو علم ہوا کہ محترمہ رات میں کسی وقت وفات پاچکی تھیں۔ آج اگرچہ وہ ہم میں نہیں مگر ان کی بے مثال جدوجہد اور قربانیاں آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی برسی

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی برسی

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 51 ویں برسی آج ملک بھر میں انتہائی عقیدت و احترام اور قومی جذبے کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے 1910 میں میٹرک اور 1913 میں سینئر کیمبرج کا امتحان پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے پاس کیا۔ سنہ 1922 میں محترمہ نے دندان سازی کی تعلیم مکمل کی۔

    محترمہ فاطمہ جناح نے 1929 میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زوجہ کے انتقال کے بعد اپنی زندگی بھائی کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سے ان کی زندگی کا مقصد بھائی کی خدمت اور ہر میدان میں ان کا ساتھ دینا بن گیا تھا۔

    انہوں نے نہ صرف نجی زندگی بلکہ سیاسی زندگی میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیا اور ہر سیاسی موقع پر ان کے ساتھ رہیں۔

    سنہ 1940 میں جب قائد اعظم تقسیم ہند کی تاریخ ساز قرارداد میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے تو محترمہ فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

    محترمہ نے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کا جس طرح ساتھ دیا، اسی کا اعجاز تھا کہ برصغیر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئیں اور قیام پاکستان کے خواب کو تکمیل تک پہنچایا۔

    فاطمہ جناح 7 اگست 1947 کو 56 سال کے بعد دہلی کو الوداع کہہ کر کراچی منتقل ہوگئیں۔

    قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے کئی برسوں تک بھائی کی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔

    ضعیف العمری کے باوجود مادر ملت فوجی آمر ایوب خان کے خلاف منصب صدارت کے مقابلے میں اتریں، تاہم سازشی عناصر نے محترمہ کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے محترمہ کی محبت کو نکال سکے۔

    محترمہ فاطمہ جناح ہر مقام اور ہر میدان میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ دیکھنے کی خواہاں تھیں۔ وہ جب تک زندہ رہیں تب تک انہوں نے خواتین کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی۔

    مادر ملت فاطمہ جناح 9 جولائی 1967 کو 73 سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔

    فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کے آخری قیام کراچی میں واقع موہٹہ پیلیس میں گزارے جو حکومت پاکستان نے انہیں بھارت میں موجود ان کی جائیداد کے عوض الاٹ کیا تھا۔

    اپنے قیام کے دنوں میں محترمہ محل کی بالائی منزل سے مرکزی دروازے کی چابی نیچے پھینکا کرتی تھیں جس کی مدد سے ان کا ملازم دروازہ کھول کر اندر آجاتا اور گھریلو امور انجام دیتا۔

    ایک دن انہوں نے مقررہ وقت پر چابی نہیں پھینکی۔ تشویش میں مبتلا ملازم پہلے مدد مانگنے پڑوسیوں کے پاس گیا بعد ازاں پولیس کو بلوایا گیا۔

    اس وقت کے کمشنر کی موجودگی میں دروازہ توڑ کر اندر کا رخ کیا گیا تو علم ہوا کہ محترمہ رات میں کسی وقت وفات پاچکی تھیں۔

    آج اگرچہ وہ ہم میں نہیں مگر ان کی بے مثال جدوجہد اور قربانیاں آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مادرِ ملت فاطمہ جناح کے زیر استعمال گاڑیاں اصلی حالت میں واپس آگئیں

    مادرِ ملت فاطمہ جناح کے زیر استعمال گاڑیاں اصلی حالت میں واپس آگئیں

    کراچی: مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال 2 تاریخی گاڑیاں اپنی اصل حالت میں واپس آگئیں، پاکستان کے ماہر مکینک نے شبانہ روز محنت کرکے یہ کاررنامہ سرانجام دیا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت پاکستان نے گزشتہ برس قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ کے زیر استعمال دونوں گاڑیاں سنہرے رنگ کی کیڈلک اور مرسڈیز بینز 200 ماڈل زنگ آلود حالت میں نیشنل میوزیم کے گیراج میں موجود تھیں۔

    معاہدے کے تحت حکومت نے یہ گاڑیاں مرمت کے لیے ونٹاج اینڈ کلاسک کار کلب کے بانی محسن اکرام کے حوالے کیں جن پر انہوں نے شبانہ روز محنت کی اور گاڑیوں کو اپنی اصلی حالت میں واپس لائے۔

    گاڑیوں کی مرمت اور انہیں حکومت کے حوالے کرنے کے بعد محسن اکرم نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کیڈلک گاڑی 100 فیصد اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی جبکہ مرسڈیز بینز کا 98 فیصد کام مکمل ہو سکا کیونکہ آگے لگے لوگو کی مرمت نہیں ہوسکی‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ‘گاڑیوں کو اصل حالت میں واپس لانے کے لیے ہم نے اس میں کچھ پتھروں کا استعمال کیا، اب یہ دونوں گاڑیاں قائد اعظم ہاؤس میں نمائش کے لیے رکھی جائیں گی اور عوام بھی انہیں اپنی اصلی حالت میں دیکھ سکیں گے‘۔

    مزید پڑھیں: محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال گاڑیاں بحالی کے لیے ماہرین کے حوالے

    انجینئر اکرام کا کہنا تھا کہ ’خستہ حال اور زنگ آلود گاڑیوں کو چمکتا ہوا دیکھ کر مجھے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے کیونکہ اس کام کے لیے میں نے 19 سال تک جدوجہد کی‘۔

    واضح محسن اکرام نے 1992 میں موہٹہ پیلیس میں ان گاڑیوں کی نشاندہی کی تھی اور تب سے وہ حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ ان گاڑیوں کو محفوظ کیا جائے۔

    محسن اکرام اپنی ٹیم کے ساتھ اس مرمتی کام کی نگرانی کی، ان کا کہنا تھا کہ نیشنل میوزیم کے گیراج میں کام کرنے کے لیے پہلے گیراج کو درست حالت میں لانا ہوگا کیونکہ یہاں روشنی موجود نہیں، دیواروں کا پلستر اکھڑ رہا اور بارش کے دوران یہاں کی چھت بھی ٹپکتی ہے۔

    خیال رہے کہ محسن اکرام اس سے قبل بھی کئی پرانی گاڑیوں کی مرمت و بحالی کا کام کر چکے ہیں اور خصوصاً مادرِ ملت کی گاڑیوں کو اصل حالت میں واپس لانے کے لیے وہ بے حد پرجوش تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سندھ اسمبلی: یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کا بل منظور

    سندھ اسمبلی: یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کا بل منظور

    کراچی : سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بانی ایم کیوایم کے نام سے منسوب یونیورسٹییز کا نام تبدیل کرنے کا بل منظورکرلیا گیا، بل کی حمایت ایم کیو ایم پاکستان نے بھی کی۔

    تفصیلات کے مطابق اسمبلی میں بانی ایم کیو ایم کے نام سے منسوب یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کا بل پیپلزپارٹی کے سنیئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے پیش کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ افسوس ہے کہ بانی ایم کیو ایم نے زمین سے ملنے والی عزت کا پاس نہیں رکھا۔ مذکورہ بل کی حمایت ایم کیو ایم پاکستان کے اراکین اسمبلی نے بھی کی۔

    جامعہ کا نیا نام فاطمہ جناح یونیورسٹی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سندھ کابینہ نے حیدر آباد میں بانی ایم کیو ایم سے منسوب یونیورسٹی کا نام تبدیل کر کے فاطمہ جناح یونیورسٹی رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    مزید پڑھیں : بانی ایم کیو ایم سے منسوب یونیورسٹی کا نام تبدیل

    وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حیدر آباد میں بانی ایم کیو ایم سے منسوب یونیورسٹی کا نام تبدیل کردیا جائے۔

  • آج مادرِملت فاطمہ جناح کا یومِ وفات ہے

    آج مادرِملت فاطمہ جناح کا یومِ وفات ہے

    کراچی: ملک بھرمیں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا48واں یوم وفات آج منایا جارہا ہے

    بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی فاطمہ جناح بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی محمد علی جناح سے بہت قربت رکھتی تھیں، انہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ جدوجہد کی اورخواتین کو متحرک کرنے میں اہم کردارادا کیا۔

    محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی قائداعظم محمد علی جناح کی ہمت اورحوصلہ تھیں اوران کی وفات کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستان کی سالمیت اوربقا کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

    ایوب خان کے آمرانہ دورِحکومت میں فاطمہ جناح جمہوریت کی بقا کے لئے میدان میں ڈٹی رہیں اوربلاشبہ آج پاکستان میں جمہوریت اورجمہوری اقدار فاطمہ جناح کی ہی مرہونِ منت ہیں۔

    محترمہ فاطمہ جناح پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ تھیں اوراپنے کیرئیر کے کامیاب ترین دنوں میں انہوں نے قائد اعظم کا ساتھ دینے کے لئے لئے بمبئی میں قائم اپنا کلینک بند کردیا اورتحریک پاکستان میں سرگرم ہوگئیں۔ وہ قائد اعظم کی سب سے قابل ِاعتماد مشیرتھیں اورانتہائی اہم ترین قومی معاملات میں قائد انہی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔

    آپ نے قائد اعظم کی رحلت کے بعد سیاست سے کونہ کشی اختیار کی لیکن پھرایوب خان کے خلاف میدان ِ سیاست میں سرگرم ہوگئیں۔ اپنے بھائی کے ساتھ کی گئی جدو جہد کے دنوں کو انہوں نے اپنی کتاب ’’مائی برادر ‘‘ میں قلم بند کیا ہے۔

    وطنِ عزیز کے لئے خدمات کے صلہ میں فاطمہ جناح کو مادرِملت کے خطاب سے نوازا گیا یوم مادرملت پر ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

    فاطمہ جناح 9 جولائی 1967 انتقال کرگئیں، سرکاری سطح پرآپ کی موت کی وجہ حرکتِ قلب بند ہونا بتائی گئی ہے۔ آپ کی تدفین قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں کی گئی ۔

  • آج قائدِاعظم کو وفات پائےچھیاسٹھ برس بیت گئے

    آج قائدِاعظم کو وفات پائےچھیاسٹھ برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) – مملکت ِ خداداد پاکستان کے بانی اور ہردل عزیز رہنماء قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1976 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے ، مسلمانوں کے حقوق اورعلیحدہ وطن کے حصول کے لئے انتھک جدوجہد نے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کئے۔ سن 1930 میں انہیں تپِ دق جیسا موزی مرض لاحق ہوا جسے انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور چند قریبی رفقاء کے علاوہ سب سے پوشیدہ رکھا۔ قیام پاکستان کے ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم خالق ِ حقیقی سے جا ملے۔

    قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام انتہائی تکلیف دہ صورتحال میں گزارے، ان کا مرض شدت پر تھا اور آپ کو دی جانے والی دوائیں مرض کی شدت کم کرنے میں ناکام ثابت ہورہیں تھیں۔

    ان کے ذاتی معالج ڈاکٹرکرنل الٰہی بخش اور دیگر معالجین کے مشورے پر وہ چھ جولائی 1948 کو آب و ہوا کی تبدیلی اورآرام کی غرض کے لئے کوئٹہ تشریف لے آئے، جہاں کا موسم نسبتاً ٹھنڈا تھا لیکن یہاں بھی ان کی سرکاری مصروفیات انہیں آرام نہیں کرنے دیں رہیں تھیں لہذا جلد ہی انہیں قدرے بلند مقام زیارت میں واقع ریزیڈنسی میں منتقل کردیا گیا، جسے اب قائد اعظم ریزیڈنسی کہا جاتا ہے۔

    اپنی زندگی کے آخری ایام قائدِ اعظم نے اسی مقام پر گزارے لیکن ان کی حالت سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی اور نوستمبر کو انہیں نمونیا ہوگیا ان کی حالت کے پیشِ نظر ڈاکٹر بخش اور مقامی معالجین نے انہیں بہترعلاج کے لئے کراچی منتقل کرنے کا مشورہ دیا ۔
    گیارہ ستمبر کو انہیں سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی منتقل کیا گیا جہاں ان کی ذاتی گاڑی اورایمبولینس انہیں لے کر گورنر ہاؤس کراچی کی جانب روانہ ہوئی۔ بد قسمتی کہ ایمبولینس خراب ہوگئی اور آدھے گھنٹے تک دوسری ایمبولینس کا انتظار کیا گیا ۔ شدید گرمی کے عالم میں محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی اور قوم کے محبوب قائد کو دستی پنکھے سے ہوا جھلتی رہیں۔

    کراچی وارد ہونے کے دوگھنٹے بعد جب یہ مختصر قافلہ گورنر ہاؤس کراچی پہنچا تو قائداعظم کی حالت تشویش ناک ہوچکی تھی اور رات دس بج کر بیس منٹ پر وہ اس دارِ فانی سے رخصت فرما گئے۔

    ان کی رحلت کے موقع پر انڈیا کے آخری وائسرے لارڈ ماوٗنٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناح اتنی جلدی اس دنیا سے کوچ کرجائیں گے تو میں ہندوستان کی تقسیم کا معاملہ کچھ عرصے کے لئے ملتوی کردیتا، وہ نہیں ہوتے تو پاکستان کا قیام ممکن نہیں ہوتا‘‘۔

    قائد اعظم کے بدترین مخالف اور ہندوستان کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے اس موقع پر انتہائی افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں ایک طویل عرصے سے انہیں ناپسند کرتا چلا آیا ہوں لیکن اب جب کہ وہ ہم میں نہیں رہے تو انکے لئے میرے دل میں کوئی تلخی نہیں ، صرف افسردگی ہے کہ انہوں نے جو چاہا وہ حاصل کرلیا لیکن اس کی کتنی بڑی قیمت تھی جو انہوں نے اداکی‘‘۔

    قائد اعظم کی وفات کے چھیاسٹھ سال بعد بھی انکی وفات کے موقع پر ہزاروں افراد کی حاضری اور شہر شہر منعقد ہونے والی تقریبات اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ پاکستانی قوم ان سے آج بھی والہانہ عقیدت رکھتی ہے۔