Tag: first woman

  • امریکا کی پہلی خاتون قائم مقام صدر کون ہیں؟

    امریکا کی پہلی خاتون قائم مقام صدر کون ہیں؟

    امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو طبی معائنے کے دوران نائب صدر کملا ہیرس کو مختصر دورانیے کے لیے اقتدار منتقل کیا جس کے بعد وہ قائم مقام صدر بن گئیں۔

    کملا ہیرس نے ایک گھنٹے اور 25 منٹ کے لیے قائم مقام صدر بن کر تاریخ رقم کر دی، وہ ملکی تاریخ کی پہلی خاتون بن گئی جنہوں نے امریکا کے صدر کے اختیارات سنبھالے۔

    وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر جو بائیڈن کی معمول کے طبی معائنے کے دوران کلونو سکوپی کی گئی جس کے لیے انہیں اینستھیزیا دیا گیا۔

    صدر جو بائیڈن اپنی 79 ویں سالگرہ کے دن جمعے کی صبح دارالحکومت واشنگٹن سے کچھ دور واقع والٹر ریڈ میڈیکل سینٹر گئے تھے۔ جو بائیڈن امریکی تاریخ میں صدارت کے منصب پر فائز ہونے والے سب سے عمر رسیدہ صدر ہیں۔

    واضح رہے کہ جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر بائیڈن کا یہ پہلا طبی معائنہ ہے۔

    کلونو سکوپی کے دوران جو بائیڈن کو بے ہوش کیا گیا جس کے دوران ماضی کی طرح نائب صدر نے اقتدار سنبھالا، جس میں امریکی مسلح افواج اور جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے پر کنٹرول بھی شامل ہے۔

    قبل ازیں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ صدر بائیڈن مختصر مدت کے لیے نائب صدر کو اقتدار منتقل کریں گے جب وہ بے ہوشی کی حالت میں ہوں گے، نائب صدر اس دوران ویسٹ ونگ میں اپنے دفتر سے کام کریں گی۔

    57 سالہ کملا ہیرس نائب صدر کے عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں جبکہ اب انہیں امریکا کی پہلی خاتون قائم مقام صدر بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوچکا ہے، یہی نہیں بلکہ وہ ان دونوں عہدوں پر براجمان رہنے والی پہلی سیاہ فام ایشیائی نژاد خاتون بھی ہیں۔

    امریکا کے آئین میں 25 ویں ترمیم کے مطابق جو بائیڈن نے عارضی صدر اور ایوان نمائندگان کے اسپیکر کو دستخط شدہ خط لکھ دیا تھا جس میں انہوں نے آگاہ کیا کہ وہ اینستھیزیا کے دوران وہ اپنے فرائض نبھانے سے قاصر ہوں گے لہٰذا کملا ہیرس قائم مقام صدر ہوں گی۔

    طبی معائنہ مکمل ہونے کے بعد کملا ہیرس صدارتی فرائض جو بائیڈن کو واپس کر دیں گی۔

    جین ساکی کے مطابق آئین کے تحت اقتدار کی عارضی منتقلی سال 2002 اور 2007 میں بھی ہوئی تھی جب صدر جارج ڈبلیو بش کو اسی قسم کے طبی مرحلے سے گزرنا پڑا تھا۔

  • سعودی عرب : ویکسی نیشن کرانے والی پہلی خاتون نے کیا کہا ؟ ویڈیو دیکھیں

    سعودی عرب : ویکسی نیشن کرانے والی پہلی خاتون نے کیا کہا ؟ ویڈیو دیکھیں

    ریاض : سعودی عرب میں پہلی بار کورونا ویکسین لگوانے والی خاتون کا کہنا ہے کہ میں خوش نصیب انسان ہوں جس نے پہلی بار ویکسی نیشن کروائی، اللہ ہماری حکومت کو شاد و آباد رکھے۔

    سعودی عرب میں جمعرات سے شہریوں میں کورونا ویکسین لگائے جانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے  سعودی عرب کی خاتون جو مملکت میں ویکسین لگانے والی پہلی خاتون ہیں، ان خاتون کے جذبات اور احساسات قابل دید ہیں۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں سعودی خاتون شیخہ الحربی نے کہا کہ وہ اپنی خوشی بیان نہیں کرسکتیں۔ ویکسین لگوانے کے بعد وہ خوشی سے رات کو سو نہیں سکیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شیخہ الحربی نے حکومت کو ڈھیروں دعائیں دیں اور کہا کہ اللہ ہماری حکومت کو شاد و آباد رکھے جو عوام کو اتنی زیادہ توجہ دیتی ہے۔ میں خود کو ایک خوش نصیب انسان سمجھتی ہوں، میں پہلی خاتون ہوں جس نے ویکسین لگوائی ہے، خوشی میری سب سے بڑی خوشی ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب کے وزیر صحت ڈاکٹر توفیق الربیعہ نے گزشتہ روز کورونا ویکسین لگوائی اور اس کے بعد انہوں ‌نے عوام الناس میں یہ ویکسین لگانے کی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔ گزشتہ روز ڈیڑھ لاکھ سے زاید افراد نے ویکسین لگوانے کے لیے اپنا رجسٹریشن کرایا ہے۔ ویکسین لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہوگی تاہم یہ سعودی باشندوں اور تارکین وطن سب کے لیے مفت ہوگی۔

  • سعودی خاتون کے لیے ایک اور اعزاز

    سعودی خاتون کے لیے ایک اور اعزاز

    ریاض: سعودی عرب میں سعودی رائل گارڈز میں پہلی بار خاتون کو تعینات کیا گیا ہے، سعودی خاتون کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد تعریفی اور حوصلہ افزا تبصرے سامنے آرہے ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی رائل گارڈز میں پہلی سعودی خاتون کو تعینات کیا گیا ہے جس کی وردی میں دوران ڈیوٹی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔

    شہزادہ سطام بن خالد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر رائل گارڈز کی وردی میں پہلی سعودی خاتون کی تصویر ایسی ایموجیز کے ساتھ شیئر کی جن سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سعودی عرب خواتین کے کردار کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انہیں وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔

    مذکورہ سعودی خاتون رائل گارڈ کی وردی میں ڈیوٹی دے رہی ہیں جبکہ ان کے قریب رائل گارڈ کا ایک اور اہلکار بھی تعینات ہے، دونوں حفاظتی ماسک پہنے ہوئے ہیں۔

    معروف مصنف حلیمہ المظفر نے ٹویٹر پر رائل کمیشن میں سعودی خاتون کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ میں وطن عزیز کی خواتین پر فخر کرتی ہوں۔ تصویر دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔

    اس سے قبل محکمہ شماریات نے، سعودی خاتون کامیابی کے سفر کی ساتھی کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی وژن 2030 نے خواتین کی حیثیت مضبوط بنانے اور انہیں ملکی و بین الاقوامی سطحوں پر اپنا کردار ادا کرنے کے مزید مواقع مہیا کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔

    سوشل میڈیا پر بیشتر سعودی صارفین نے رائل کمیشن میں خاتون کی شمولیت پر پسندیدگی کا اظہار کیا اور اس اقدام کو قابل تعریف قرار دیا۔ بعض افراد نے اس پر حیرت کا اظہار بھی کیا ہے۔

  • سعودی وزارت سول سروس میں پہلی مرتبہ خاتون تعینات

    سعودی وزارت سول سروس میں پہلی مرتبہ خاتون تعینات

    ریاض: سعودی عرب کے وزیر برائے سول سروسز سلیمان الحمدان نے ہند بنت خالد الزاہد کو سیکریٹری کے عہدے پر تعینات کردیا۔ وہ اس عہدے پر تعینات ہونے والی پہلی سعودی خاتون ہیں۔

    سعودی حکومت کی خواتین کو خود مختار بنانے کی پالیسی کے تحت ایک اور اہم عہدے پر پہلی بار خاتون کو تعینات کردیا گیا۔ وزارت سول سروسز میں پہلی بار تعینات کی جانے والی ہند الزاہد نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ انتظامی امور میں 18 سال کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔

    وہ اس سے قبل وزارت لیبر و سماجی بہبود اور سعودی عرب کی آئل کمپنی ارامکو میں بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔

    ہند بنت خالد نے دمام کی عبد الرحمان بن فیصل یونیورسٹی میں متعدد کمیٹیوں میں مشیر کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں اور دمام فضائی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔

    سول سروسز کی وزارت میں خاتون کی سیکریٹری کے عہدے پر تعیناتی کا تمام حکومتی اداروں کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا ہے اور اسے وزارت کے پروگرام کے اہداف کو بہتر بنانے کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔

    گزشتہ ماہ امریکا میں سعودی سفیر کے عہدے پر بھی پہلی بار ایک خاتون ریما بنت بندر بن سلطان کو تعینات کیا گیا تھا۔ شہزادی ریما بنت بندر سعودی عرب میں ماس پارٹی سپیشن فیڈریشن کی صدر اور ڈیولپمنٹ پلاننگ اسپورٹس اتھارٹی میں بطور نائب اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    ریما بنت بندر کے والد بندر بن سلطان بھی سنہ 1983 سے 2005 تک امریکا میں سعودی سفیر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

    یاد رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان وژن 2030 کے تحت سعودی خواتین کو ڈرائیونگ اور کھیل سمیت مختلف شعبوں میں آگے لانے کے لیے کوشاں ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملکی امور میں مرد و خواتین کی یکساں شرکت ہی ملک کی ترقی کا باعث بنے گی۔

  • خلا میں جانے والی پہلی خاتون سے ملیں

    خلا میں جانے والی پہلی خاتون سے ملیں

    چاند پر سب سے پہلا قدم کس نے رکھا تھا، یہ تو سب ہی جانتے ہیں۔ تاہم زمین سے باہر خلا میں جانے والا پہلا شخص اور پہلی خاتون کون تھی اس کے بارے میں بہت کم افراد جانتے ہیں۔

    سنہ 1969 میں جب چاند پر پہلے انسان نے قدم رکھا، اس سے 8 سال قبل ہی روس اپنے پہلے خلا نورد کو خلا میں بھیج چکا تھا۔ یوری گگارین کو خلا میں جانے والے پہلے شخص کا اعزاز حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    اس کے صرف 2 سال بعد 1963 میں ایک باہمت خاتون ویلینٹیا ٹرشکوا خلا میں جانے والی پہلی خاتون کاا عزاز حاصل کر کے تاریخ میں اپنا نام درج کروا چکی تھیں۔

    سنہ 1937 میں سوویت یونین کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والی ویلینٹینا کے والد ٹریکٹر ڈرائیور تھے جبکہ والدہ ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں ملازمت کرتی تھیں۔

    ویلینٹینا کی عمر صرف 2 سال تھی جب ان کے والد فوج کی ملازمت کے دوران مارے گئے۔ والد کی موت کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ فیکٹری میں کام کرنے لگیں۔

    ویلینٹینا کو پیراشوٹنگ کا بہت شوق تھا۔ اپنی پہلی نوکری کے دوران اس نے کچھ رقم جمع کی تھی تاکہ وہ پیراشوٹ جمپنگ کر کے اپنا شوق پورا کرسکے۔

    22 سال کی عمر میں وہ ایک مشاق اسکائی ڈائیور بن چکی تھی۔

    یہ وہ وقت تھا جب روس خلائی میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ روس کی جانب سے پہلی بار کسی انسان کو خلا میں بھیجا جا چکا تھا اور اب وہ کسی خاتون کو خلا میں بھیجنے کا خواہشمند تھا۔

    اس وقت ویلینٹینا نے خطرہ مول لیا اور خلا باز بنانے کے لیے درخواست دے دی۔

    جب خلا میں جہاز بھیجے جانے کے حتمی امتحان کا وقت آیا تو ویلینٹینا نے 400 مرد و خواتین کو شکست دے کر اس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس کے بعد اس کی خلائی تربیت شروع کردی گئی۔

    ویلینٹینا کو خلائی مشن ووسٹوک اسپیس کرافٹ کا پائلٹ منتخب کیا گیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 26 برس تھی۔

    اس کے ساتھ ٹریننگ پر موجود تمام دیگر امیدوار مرد تھے اور اس سے عمر میں کہیں زیادہ بڑے تھے۔ ان کی ٹریننگ بھی ویلینٹینا سے کہیں زیادہ مشکل تھی۔

    ویلینٹینا نے اپنے ٹرینر سے درخواست کی کہ اسے ویسی ہی تربیت دی جائے جو اس کے ساتھی مرد خلابازوں کو دی جاتی ہے۔

    جون 1963 کی ایک صبح ویلینٹینا کے خلائی جہاز نے زمین کو پیچھے چھوڑا اور خلا کی طرف رخت سفر باندھا۔ ویلینٹینا نے خلا میں 3 دن گزارے اور اس دوران زمین کے گرد 48 چکر لگائے۔

    مشن کے دوران ویلینٹینا کو احساس ہوا کہ اس کے خلائی کیپسول میں زمین پر واپسی کا پروگرام سیٹ نہیں کیا گیا۔

    ویلینٹینا نے بغیر کسی گھبراہٹ کے زمین پر رابطہ کیا، اس میں کافی وقت لگا۔

    بالآخر اس نے زمین پر موجود سائنسدانوں کی ہدایات کے مطابق مہارت سے واپسی کا پروگرام سیٹ کیا اور زمین کی فضا سے 4 میل کے فاصلے پر کامیابی سے خود کو خلائی جہاز سے علیحدہ کرلیا۔

    ویلینٹینا کہتی تھیں، ’جس طرح کوئی پرندہ صرف ایک پر کے ساتھ پرواز نہیں کرسکتا، اسی طرح خلائی مشنز میں مزید کامیابی کے لیے مرد کے ساتھ خواتین کی شرکت بھی ضروری ہے‘۔

    ویلینٹیا ٹرشکوا خلا میں جانے والی اب تک کی سب سے کم عمر خاتون ہیں۔

  • جارجیا میں پہلی خاتون صدر منتخب

    جارجیا میں پہلی خاتون صدر منتخب

    تبلسی : جارجیا کی عوام نے صدارتی انتخابات کے دوران پہلی مرتبہ سالومے نامی خاتون کو ملک کی سربراہی کے لیے منتخب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ملک جارجیا میں دو روز قبل صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں بڑی تعداد میں عوام اپنے سربراہ مملکت کا انتخاب کرنے اپنے گھروں سے ووٹ ڈالنے نکلے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف جارجیا نے بدھ کے روز انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا جس میں جارجیا کی پہلی خاتون صدر 66 سالہ سالومے زوربیشویلی کو سربراہ مملکت منتخب کیا گیا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سالومے بیشویلی کا تعلق جارجیا کی حکمران جماعت ہے، جس نے انہیں صدارتی انتخابات کے لیے نامزد کیا تھا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ سالومے کے حق میں 59 فیصد ووٹ ڈالے گئے جبکہ ان کے مخالف امیدوار کو تقریباً 40 فیصد ملے جس کے باعث سالومے صدارتی الیکشن کے میدان میں کامیاب رہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سالومے زوربیشویلی آئندہ ماہ 16 تاریخ کو سربراہ مملکت کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گی سالومے کو ملک کی پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جارجیا کی نو منتخب صدر بطور سفارت کار بھی خدمات انجام دے چکی ہے جس کی خدمات اور ذہانت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی جماعت نے انہیں صدارتی امیدوار نامزد کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ 66 سالہ سالومے پیرس میں پیدا ہوئی تھیں، کیوں کہ 1921 میں جارجیا کا روس کے ساتھ الحاق ہونے بعد ان کے والدین پیرس فرانس منتقل ہوگئے تھے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جارجیا کے صدارتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنے والے امید وار اور حزب اختلاف کی 11 اتحادی جماعتوں نے نتائج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔

  • نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    دنیا کا سب سے معتبر اعزاز نوبل انعام اب تک کئی خواتین کو مل چکا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    نوبل انعام پہلی بار جس خوش نصیب خاتون کے حصے میں آیا وہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والی سائنس داں میری کیوری تھیں۔ وہی میری کیوری جنہوں نے ریڈیم کی دریافت کی تھی۔

    سنہ 1867 میں پیدا ہونے والی میری کا تعلق وارسا کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ پانچ بہن بھائیوں میں وہ سب سے زیادہ ذہین تھی اور اس نے بہت کم عمری میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔

    جب اس کی والدہ اور بڑی بہن کا انتقال ہوا تو اسے مجبوراً گھر چلانے کے لیے ملازمت کرنی پڑی۔ اس کی پہلی ملازمت ایک معلمہ کی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب خود اس کی تعلیم نامکمل تھی۔

    اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا تاہم پولینڈ کی یونیورسٹیوں میں اس وقت خواتین کا داخلہ ممنوع تھا۔ میری نے اپنے طور پر طبیعات اور ریاضی کی کئی کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    وہ سائنس کے شعبے میں آگے جانا چاہتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ سائنسی ایجادات اور دریافتیں برے کاموں سے زیادہ بہتری کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    6 سال تک ملازمت کرنے کے بعد وہ اتنی رقم جمع کرسکی کہ فرانس جاسکے اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرسکے۔

    فرانس آنے کے بعد بھی میری نے اپنی زندگی کا زیادہ تر عرصہ نہایت غربت میں گزارا۔ وہ طویل وقت تک سخت محنت کرتی رہتی جبکہ بعض اوقات وہ پورا دن ایک ڈبل روٹی، پنیر اور ایک کپ چائے پر گزارا کرتی۔

    یونیورسٹی میں اس کے تمام ہم جماعت مرد تھے جو اکثر مشکل تھیوریز سمجھنے کے لیے اس کی مدد لیا کرتے تھے۔ میری نے طبیعات کی ڈگری حاصل کی اور اس کے ساتھ ہی ایک فرانسیسی طبیعات داں سے شادی کرلی۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    یہ وہ دور تھا جب ایکسرے نیا نیا دریافت ہوا تھا اور میری اسے سمجھنے اور اس پر کام کرنے کے لیے نہایت پرجوش تھی۔ میری ہی تھی جس نے تیز (تابکار) شعاعوں کی دریافت کی اور انہیں ریڈیو ایکٹیوٹی کا نام دیا۔

    یہ بہت بڑی دریافت تھی جو اس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کی تھی۔ اس دریافت کو طبیعات میں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا لیکن یہ نامزدگی صرف میری کے شوہر کے لیے تھی۔

    شدید صنفی امتیاز کے اس دور میں لوگ یقین نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی عورت سائنس پر بھی کام کرسکتی ہے؟

    اس کے شوہر کے اصرار پر بالآخر اس کی محنت کو بھی تسلیم کیا گیا اور دونوں کو انعام کے لیے نامزد کیا گیا، بعد ازاں میری نے اپنے شوہر کے ساتھ نوبل انعام جیت لیا اور اس کے ساتھ ہی وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔

    اس وقت آئن اسٹائن نے میری کی ہمت بندھائی اور تمام تنقید اور طنز کو نظر انداز کرنے کو کہا۔ آئن اسٹائن نے میری کو نصیحت کی، ’کبھی بھی حالات یا لوگوں کی وجہ سے اپنی ذات کو کمتر مت جانو‘۔

    یہ وہ وقت تھا جب لیبارٹریز میں صرف مرد ہوا کرتے تھے اور میری ان میں واحد خاتون تھیں، لیکن وہ ان کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں۔

    میری نے بعد ازاں مزید 2 عناصر پولونیم اور ریڈیم دریافت کیے۔ اس دریافت پر اسے ایک بار پھر نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا، اور اس بار یہ انعام کیمیا کے شعبے میں تھا۔

    جنگ عظیم اول کے دوران میری کو ایک تجربے کے دوران معلوم ہوا کہ ایکسریز سے زخمی فوجیوں کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے تاہم ایکسرے مشین اس وقت بہت مہنگی تھیں۔

    اس موقع پر بھی میری نے ہمت نہیں ہاری اور ایک ہلکی پھلکی ایکسرے مشین ایجاد کر ڈالی جو ٹرک کے ذریعے اسپتال تک پہنچائی جاسکتی تھی۔ اس مشین کی بدولت 10 لاکھ فوجیوں کی جانیں بچائی گئیں۔

    ساری زندگی تابکار شعاعوں کی زد میں رہنے والی میری بالآخر انہی شعاعوں کا شکار ہوگئی، اس کا انتقال 4 جولائی 1934 کو ہوا۔

    میری کیوری نہ صرف نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں بلکہ وہ اب تک واحد خاتون ہیں جنہیں 2 مختلف شعبوں میں نوبل انعام ملا۔ ان کی دریافتوں نے جدید دور کی طبعیات اور کیمیائی ایجادات میں اہم کردار ادا کیا۔

    وہ کہتی تھیں، ’ہمیں یقین ہونا چاہیئے کہ خدا نے ہمیں کسی نے کسی صلاحیت کے تحفے سے نواز ہے۔ ہمیں بس اس تحفے کو پہچاننا ہے اور اس مزید مہمیز کرنا ہے‘۔

  • ڈنمارک میں نقاب پہننے پر پابندی کے بعد پہلی خاتون کو سزا

    ڈنمارک میں نقاب پہننے پر پابندی کے بعد پہلی خاتون کو سزا

    کوپن ہیگن : ڈنمارک میں نقاب پرپابندی کا قانون نافذ ہونے کے بعد نقاب پہننے پرخاتون کوسزا سنا دی گئی، خواتین کا کہنا ہے  نقاب نہیں اُتاریں گی اور اپنے حق کے لیے لڑیں گی ۔

    غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق ڈنمارک میں اٹھائیس سالہ خاتون کو شاپنگ مال میں نقاب پہن کر آنے پر ایک ہزار کرونر کی رقم کا جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی جبکہ شاپنگ مال میں خاتون کا نقاب ہٹانے کی کوشش بھی کی گئی۔

    مسلمان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے لڑیں گی اورنقاب نہیں اُتاریں گی ۔

    خیال رہے  ڈنمارک میں عوامی مقامات پر نقاب پہن کر آنے پر پابندی کا قانون رواں ہفتے نافذ کیا گیا ہے۔

    کوپن ہیگن میں ہزاروں خواتین  نے نقاب پرپابندی کے خلاف مظاہرہ کیا اور  نقاب پرپابندی کوانسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے قانون کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔


    مزید پڑھیں :  ڈنمارک میں نقاب پر پابندی کے خلاف خواتین کا مظاہرہ


    خواتین مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسلام کے خلاف نفرت اور بنیاد پرستی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جبکہ پردہ عین عورت کا حسن اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، مظاہرین خواتین نے ریلی میں نقاب پہن رکھے تھے۔

    واضح رہے رواں سال مئی میں ڈنمارک پارلیمنٹ نے عوامی مقامات پر مسلمان خواتین کے پورے چہرے کے نقاب پر پابندی کا قانون منظور کیا تھا، جس کے بعد قانون کا اطلاق یکم اگست سے ہوا۔

    قانون کے مطابق خواتین پورے چہرے کو ڈھانپ نہیں سکیں گی تاہم سر پر اسکارف پہننے کی اجازت ہوگی کیونکہ یہ بعض مذاہب کی روایت ہے۔

    اس سے قبل آسٹریا، فرانس اور بیلجیم میں اسی طرح کا قانون منظور ہوچکا ہے اور اب ڈنمارک بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے، جہاں خواتین کے برقعہ پہننے پر پابندی عائد ہے۔