Tag: fish

  • پاکستان میں پائی جانے والی دھوتر مچھلی (جیولین گرنٹر) کی پہچان، اقسام اور معلومات

    پاکستان میں پائی جانے والی دھوتر مچھلی (جیولین گرنٹر) کی پہچان، اقسام اور معلومات

    دھوتر مچھلی اپنی لذیذ اور منفرد ذائقے اور صحت بخش غذائیت کے باعث بہت مشہور مچھلی ہے اور اسی وجہ سے اس کی بین الاقوامی طور پر بھی اچھی ڈیمانڈ ہے۔ چوں کہ، ماہی گیری پاکستان کی ایک اہم صنعت ہے اور مچھلی کی برآمدات اس کی صنعت کا اہم حصہ ہیں، دھوتر مچھلی بھی اس برآمدات میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ اسے زیادہ تر خلیجی ممالک اور اس کے بعد چین، تھائی لینڈ، امریکا اور کچھ یورپی منڈیوں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

    قیمت


    لذیذ، میٹھے، منفرد ذائقے اور ایکسپورٹ ڈیمانڈ کی وجہ سے اس کی قیمتیں زیادہ ہی رہتی ہیں۔ کراچی فشری میں ایکسپورٹ کوالٹی دھوتر کی قیمت 100 سے 1500 روپے فی کلو رہتی ہے، جو 1800 تک بھی جا سکتی ہے۔

    یہ سمندر میں ریتیلی اور کیچڑ والی تہوں پر رہنا پسند کرتی ہے اور اس کا تعلق Haemulidae فیملی سے ہے۔ یہ ہر طرح سے پکانے پر ذائقہ دیتی ہے، لیکن سب سے زیادہ اس کا سالن اور پھر گرل زیادہ مشہور ہے۔

    پکڑے جانے پر یہ خنزیر کی آواز کے مشابہہ آوازیں نکالتی ہے، جسے ’’گرنٹنگ‘‘ کہتے ہیں، اسی نسبت سے اسے گرنٹر نام ملا ہے۔ پاکستان میں اس کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن ذیل میں صرف ان اقسام کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو کراچی فشری میں سال بھر نظر آتی ہیں اور عوام میں مقبول ہیں۔

    جیولین گرنٹر


    اسے انگلش میں javelin grunter کہتے ہیں جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadesys kaakan ہے۔

    دھوتر کی نسل میں سب سے زیادہ مشہور اور ذائقے دار یہ والی نسل ہے اور یہی اصلی دھوتر مانی جاتی ہے۔ یہ دو رنگوں، سفید/سلوری اور پیلی/گولڈن میں آتی ہے۔ کراچی فشری میں سفید/سلوری کو وائٹ دھوتر اور دوسری والی کو گولڈن دھوتر کہتے ہیں۔ وائٹ دھوتر ہی اصلی اور ذائقے دار مانی جاتی ہے اور اسی کی ہی زیادہ ایکسپورٹ ڈیمانڈ ہے۔

    کراچی فشری میں اس کی قیمت ایک ہزار سے پندرہ سو روپے فی کلو کے آس پاس رہتی ہے۔ یہ وزن میں عام طور پر ایک سے 3 کلو تک کے سائز میں نظر آتی ہے، جب کہ زیادہ سے زیادہ یہ 5 سے 6 کلو تک بڑھ سکتی ہے۔ عمر میں یہ 7 سے 10 سال تک جی سکتی ہے۔

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحر الکاہل: بحیرہ احمر، خلیج فارس، افریقہ کے مشرقی ساحل سے جنوب مشرقی ایشیا، شمال سے تائیوان، جنوب سے کوئنز لینڈ آسٹریلیا تک ہے۔

    اولڑی دھوتر


    اسے انگلش میں Silver Grunt کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys argenteus ہے۔

    وائٹ اور گولڈن دھوتر کے بعد تیسرے نمبر پر یہ والی نسل کراچی فشری میں زیادہ نظر آتی ہے، اسے فشری میں اولڑی دھوتر یا دوغلا دھوتر کہا جاتا ہے۔ یہ وائٹ اور گولڈن دھوتر سے کم ذائقے دار ہوتی ہے۔

    اس کا رنگ ہلکا سفید سلوری ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ ہلکی سبز یا ہلکی زیتونی رنگ کی بھی نظر آتی ہے۔ کراچی فشری میں اس کی قمیت 500 سے 700 روپے کے آس پاس رہتی ہے۔ اس کے بدن پر دھبے ہوتے ہیں، وزن میں یہ ایک سے 2 کلو تک کے سائز میں نظر آتی ہے، جب کہ یہ 5 سے 7 سال تک جی سکتی ہے۔

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحر الکاہل، بحیرہ احمر سے فلپائن تک (لیکن خلیج فارس سے ریکارڈ کے بغیر)، عمان، کویت، شمال سے جنوبی جاپان، جنوب سے شمالی آسٹریلیا نیو کیلیڈونیا تک ہے۔

    چھوٹے دھبوں والی گرنٹر


    اسے انگلش میں Small Spotted Grunter کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys commersonnii ہے۔ یہ بھی اصلی دھوتر، جیولین دھوتر کی طرح ذائقے دار ہوتی ہے، لیکن بہت زیادہ ماہی گیری کے باعث اب یہ پاکستان میں نایاب ہو گئی ہے اور بہت ہی کم نظر آتی ہے۔

    یہ اولڑی دھوتر سے ملتی جلتی ہے۔ اولڑی دھوتر کا بدن گولائی میں جب کہ اس کا لمبائی میں ہوتا ہے۔ اولڑی کے بدن پر ہلکے گہرے اور کم دھبے جب کہ اس کے بدن پر کالے اور زیادہ دھبے ہوتے ہیں، جب کہ بدن کی طرح اس کا منہ بھی لمبا ہوتا ہے۔

    یہ وزن میں 6 سے 7 کلو تک پہنچ سکتی ہے لیکن پاکستان میں زیادہ ماہی گیری کی وجہ سے ایک سے 3 کلو تک میں پائی جاتی ہے، عمر میں یہ 9 سال تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کا مسکن جنوب مشرقی بحر اوقیانوس، مغربی بحر ہند، جنوبی افریقہ، مشرقی افریقہ، خلیج فارس، سوکوٹرا، سیشلز، مڈغاسکر سے بھارت کے شمال مغربی ساحل تک ہے۔

    کاک گرنٹر


    اسے انگلش میں cock grunter کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys multimaculatus ہے۔ اس کا مسکن بحر ہند، افریقہ کے مشرقی ساحل سے آسٹریلیا تک ہے۔

    اس کی جسمانی ساخت اولڑی دھوتر کی طرح ہوتی ہے اور بدن پر دھبے اسمال سپاٹڈ گرنٹر کی طرح ہوتے ہیں، لیکن دھبے گہرے بھورے ہوتے ہیں اور اس کے منہ پر بھی ہوتے ہیں۔ یہ وزن میں ایک سے 2 کلو تک پہنچتی ہے جب کہ 6 سے 7 سال تک جی سکتی ہے۔

    سیڈل گرنٹ


    اسے انگلش میں Saddle Grunt fish کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys maculatus ہے۔ اس کا مسکن ہند-مغربی بحر الکاہل، بحر ہند، شمال سے چین، جنوب سے آسٹریلیا تک ہے۔

    اس کی جسمانی ساخت جیولین دھوتر سے ملتی جلتی ہے۔ جیولین لمبائی میں جب کہ یہ تھوڑی سی گولائی میں ہوتی ہے۔ اس کی ڈورسل فن (کمر کا پنکھ) پر ایک کالا دھبا ہوتا ہے اور کمر سے نیچے پیٹھ کر طرف بریکٹ کی شکل کی کئی موٹی دھاریاں ہوتی ہیں، جو کہ بیچ بیچ میں کٹی ہوئی بھی ہو سکتی ہیں۔

    یہ وزن میں 2 کلو تک ہوتی ہے اور عمر میں 8 سال تک جی سکتی ہے۔

  • تازی اور باسی مچھلی کی پہچان، مچھلیوں کی تازگی کے گریڈز

    وقاص رفیق

    مچھلی انسانی غذا کا ایک بہت اہم جز ہے، مچھلی میں وہ خاص پروٹینز اور معدنیات پائی جاتی ہیں جو عام طور پر دوسری غذاؤں سے نہیں ملتیں، ضرورت کے مطابق ان کی کمی کو پھر ادویات کے ذریعے پورا کرنا پڑتا ہے۔

    مچھلی میں اللہ نے اومیگا 3، فیٹی ایسڈ، وٹامن بی 12، 6،3،1،2، وٹامن ڈی3، سلینیم، کیلشیم، فاسفورس، آئرن، زنک غرض یہ کہ بے تحاشا فوائد رکھے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہارٹ اٹیک کے خطرات کم کر دیتی ہیں، اور ہمارا شوگر اور بلڈ پریشر لیول نارمل رکھتی ہیں۔

    مچھلی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہے، یہ فالج جیسے مرض کے خطرات کو کم کر دیتی ہے، کینسر جیسے جان لیوا مرض سے حفاضت کرتی ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد فوائد ہیں جو ہم مچھلی کھا کر حاصل کر سکتے ہیں۔

    مچھلی صرف سردی میں کھانی چاہیے؟

    کہا جاتا ہے کہ مچھلی صرف سردی میں کھانی چاہیے، یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے، مچھلی کا استعمال سال کے 12 مہینے کرنا چاہیے، ڈاکٹر حضرات بھی ہفتے میں 2 بار مچھلی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

    لیکن مچھلی سے اس کے تمام فوائد کے حصول کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی پائی جاتی ہے، اور بدقسمتی سے ہم کم علمی کی وجہ سے مچھلی کی افادیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

    مچھلی فروشوں کی دھوکے بازیاں

    اس کی بڑی وجہ مچھلی کی پہچان نہ ہونا ہے، اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مچھلی فروش باسی مچھلی کو تازی کہہ کر فروخت کر دیتے ہیں، عام طور سے مچھلی فروش آپ کو سب سے پہلے مچھلی کے گلپھڑے کھول کر دکھاتا ہے، جو مضر صحت فوڈ کلر استعمال کر کے لال کیا ہوا ہوتا ہے، اور تو اور کچھ مچھلی فروش مچھلی ہی غلط دے دیتے ہیں، مثال کے طور پر سرمئی بول کر سارم اور ٹونا بیچ دیتے ہیں۔

    مچھلی کی چمک بھی تازگی کی پہچان ہوتی ہے لیکن کچھ مچھلی فروشوں نے اس کا بھی حل نکال لیا ہے، اور پانی میں تیل ملا کر مچھلی پر اسپرے کرتے رہتے ہیں۔

    بعض اوقات آپ کو مارکیٹ میں پہلے سے بون لیس کی ہوئی مچھلی بھی نظر آتی ہے، جو مُشکا مچھلی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے لیکن وہ مشکا قطعی نہیں ہوتی، اس لیے پہلے سے کٹی ہوئی مچھلی اور صاف شدہ جھینگا خریدنے سے اجتناب کریں۔

    کچھ مچھلیوں کی شکل ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے، اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سستی مچھلی کو مہنگی مچھلی کے دام پر بھی بیچ دیا جاتا ہے۔ بازار میں فرائی مچھلی بیچنے والے بھی جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور سستی مچھلی کو مہنگی مچھلی بتا کر بیچتے ہیں، کیوں کہ مچھلی کٹنے اور مصالحہ لگنے کے بعد نہیں پہچانی جا سکتی۔

    پہچان

    مچھلی کی پہچان کے حوالے سے کچھ ضروری باتیں درج ذیل ہیں:

    – تازہ مچھلی ہمیشہ سخت ہوگی، مچھلی کو انگلی سے دبائیں تو وہ واپس اصلی حالت میں آ جاتی ہے۔

    – تازہ مچھلی کی آنکھ سفید ہوگی، لال آنکھ یا اندر دھنسی ہوئی آنکھیں باسی مچھلی کی پہچان ہیں۔

    – تازہ مچھلی کے گلپھڑے میں ایک لیس ہوگی جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔

    – مچھلی کے گلپھڑے میں ہاتھ لگا کر بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اصلی رنگ ہے یا کلر استعمال کیا گیا ہے۔

    – تازہ مچھلی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کے جب آپ مچھلی کو سر کی طرف سے پکڑ کر اٹھائیں گے تو مچھلی لٹکنے کی بجائے سیدھی رہے گی۔

    گریڈ کے حساب سے قیمت

    مچھلی کی قیمت کی بات کی جائے تو مچھلی اپنے گریڈ کے حساب سے بکتی ہے، اے، بی اور سی گریڈ۔

    اگر A گریڈ کی مچھلی کی قیمت 1000 روپے کلو ہے، تو B گریڈ کی 700 سے 800 رہے تک، اور C گریڈ کی 500 سے 600 روپے تک ہوتی ہے۔

    عام طور پر ہمارے قریبی بازاروں میں B اور C گریڈ مچھلی فروخت ہوتی ہے، اگر آپ کو A گریڈ مچھلی خریدنی ہے تو آپ کو فشری کا رخ کرنا پڑے گا، کراچی میں مچھلی کی 2 منڈیاں لگتی ہیں۔ پہلی منڈی رات 4 بجے سے صبح 9 بجے تک لگتی ہے، جسے گجے کی منڈی کہا جاتا ہے، گجے کا مطلب ان کشتیوں کا مال ہوتا ہے جو کشتیاں ایک یا دو مہینے کے لیے سمندر میں شکار کے لیے جاتی ہیں۔ اتنے عرصے میں مچھلی کی کوالٹی گر جاتی ہے اور یہ مچھلی تھوڑی سستی ہوتی ہے۔

    دوسری منڈی دوپہر 3 بجے سے مغرب تک لگتی ہے، اس وقت کی مچھلیاں ان کشتیوں والی ہوتی ہیں جو 12 اور 24 گھنٹے کے لیے شکار پر جاتی ہیں، ان کشتیوں کی مچھلیاں A گریڈ اور ایکسپورٹ کوالٹی کی ہوتی ہیں، اس لیے یہ مچھلیاں گجے کی مچھلیوں سے مہنگی ہوتی ہیں۔

    کانٹے

    مچھلی میں کانٹوں کے حوالے سے بات کی جائے تو سمندر کی 99 فی صد مچھلیوں میں صرف بیچ کا ایک کانٹا ہوتا ہے، جسے کنگی کہتے ہیں، اور گوشت میں کانٹے نہیں ہوتے۔

    زیادہ کانٹے میٹھے پانی یعنی دریائی مچھلی میں پائے جاتے ہیں، جن میں رہو، گلفام، تلاپیا، کتلا، پلہ، سنگاڑہ، ملی اور مہاشیر شامل ہیں، جب کہ زیادہ کانٹوں والی سمندری مچھلیوں میں سافی، سمندری بام، سمندری پلہ اور سلیمانی شامل ہیں۔

    یاد رہے کہ دریا یا ڈیم یعنی میٹھے پانی کی مچھلیاں اب مارکیٹوں میں دستیاب نہیں ہیں، مارکیٹوں میں جتنی بھی میٹھے پانی کی مچھلیاں ہیں وہ سب فارم کی ہوتی ہیں، جو قدرتی حالات میں نہیں پلتیں، اس لیے انھیں لینے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ یہ صحت بخش نہیں ہوتے، یہ بھی ذہن میں رہے کہ سمندری مچھلی کی فارمنگ نہیں ہو سکتی۔

    چھلکے

    ایک اہم بات یہ کہ، مچھلی کے چھلکے (Scales) کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، کچھ لوگ بغیر چھلکے کی مچھلی کھانے سے گریز کرتے ہیں، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کون سی مچھلی چھلکے والی ہوتی ہے۔

    اکثر لوگ کالا پاپلیٹ، سارم، امروز کو بھی بغیر چھلکے کی مچھلی سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، ان مچھلیوں پر باریک چھلکا موجود ہوتا ہے۔

    بغیر چھلکے والی سمندری مچھلیوں میں سرمئی، سفید پاپلیٹ، ٹونا، شارک، سوارڈ فش اور کیٹ فش شامل ہیں۔

    مچھلی بے شک طاقت کا خزانہ ہے لیکن مچھلی کے یہ سب فوائد ہم تازہ مچھلی یعنی A گریڈ کا انتخاب کر کے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔

  • کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر ہے؟ ٹونا مچھلی کی اقسام اور مکمل معلومات

    پچھلی تحریر میں ہم نے مرکری کی سطح کے حوالے سے بتایا تھا کہ کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھانی چاہیے؟ اب اس تحریر میں ایک اور اہم سوال کا جواب فراہم کیا جا رہا ہے کہ کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر ہے؟

    دنیا بھر میں ٹونا کی کل 15 اقسام پائی جاتی ہیں، جب کہ پاکستان کے پانیوں میں اس کی عام طور سے اور زیادہ دیکھی جانی والی 4 اقسام موجود ہیں۔

    1… یلو فِن ٹونا (Yellowfin Tuna)

    2… بلو فِن ٹونا (Bluefinfin Tuna)

    3… بونیٹو (Bonito)

    4… بِگ آئی ٹونا (bigeye Tuna)

    مندرجہ بالا چار اقسام میں بلو فِن ٹونا بہت کم نظر آتی ہے، جب کہ باقی 3 اقسام عام ہیں۔

    یہ تو آپ نے پڑھا ہوگا کہ مچھلی قدرت کی جانب سے طاقت کا ایک خزانہ ہے، ماہرین غذائیات کہتے ہیں کہ ایک صحت مند جسم کی تشکیل لیے مچھلی کا باقاعدہ استعمال نہایت ضروری ہے، لیکن جیسا کہ پھول کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں، ویسا ہی مچھلی کے بیش بہا فائدوں کے ساتھ اس کا ایک نقصان بھی ہے۔

    یہ نقصان مرکری (پارہ) کی صورت میں ہے، جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے، مچھلی کی ہر جاتی کا الگ الگ مرکری لیول ہوتا ہے، تو آئیں، ٹونا کے مرکری لیول کو سمجھتے ہیں۔

    ٹونا میں کتنا مرکری ہے؟

    ٹونا کی اقسام میں سب سے زیادہ مرکری بلو فِن ٹونا میں پایا جاتا ہے، جو کہ 1.0 پی پی ایم ہے، جو کہ ایک مہلک سطح ہے۔ اس کے بعد بگ آئی ٹونا ہے جس میں 0.689 پی پی ایم مرکری پایا جاتا ہے، جو کہ پارے کی ہائی لیول سمجھی جاتی ہے۔ تیسرے نمبر پر یلو فِن ٹونا ہے جس کا مرکری لیول 0.354 ہے، جو کہ ایک قابل قبول اور میڈیم رینج ہے، جب کہ آخر میں بونیٹو ہے۔ اگر چہ بونیٹو میں باقی ٹونا کی نسبت کم پارہ پایا جاتا ہے لیکن اس کا گوشت ڈارک، ٹوٹنے پھوٹنے، اور ذائقہ دار نہ ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔

    پہچان

    اگرچہ تصاویر ساتھ دی گئی ہیں لیکن پھر بھی آسانی کے لیے بتاتے چلیں کہ بلو فِن پر نیلے رنگ کی پٹی ہوتی ہے، جو اوپر کی سمت آنکھوں کے پیچھے سے شروع ہو کر دم تک جاتی ہے، بونیٹو پر اوپر کی سمت دھاریاں اور ڈاٹ ہوتے ہیں۔ بگ آئی کے پر کالے اور جسم سلور اور کالے رنگ کی ہوتی ہے، جب کہ یلو فِن کے پر پیلے اور آنکھوں کے پیچھے سے ایک پیلا شیڈ دم تک جاتا ہے۔

    ٹونا اور سرمائی میں مچھلی فروشوں کا فراڈ

    مچھلی سے عوام کی عدم دل چسپی کے باعث مچھلی فروش اس کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سستی مچھلیاں مہنگی مچھلیوں والے نام بتا کر لوگوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ اگر ہم صرف ٹونا کی بات کریں تو مشہور مچھلی کنگ میکرل یعنی کہ سرمائی کے نام پر ٹونا بیچی جاتی ہے۔

    دونوں کی قیمت میں ڈبل سے بھی زیادہ فرق ہوتا ہے، سرمائی کی A گریڈ کی قیمت آج کل 1600 روپے ہے، جب کہ ٹونا کی 500 روپے۔ تصاویر میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ دونوں کی جسمانی ساخت اور رنگ میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن مچھلیوں سے لوگوں کی لاعلمی انھیں اپنے ہی ہاتھوں لٹوا دیتی ہے۔

    اسی طرح بونیٹو یعنی کہ چکی فش کو اصلی ٹونا کے نام پر بیچا جاتا ہے، بونیٹو کی قیمت 200 روپے تک ہوتی ہے جب کہ ٹونا کی 500 کے آس پاس ہوتی ہے۔

    کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر اور ذائقے دار ہے؟

    جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ بلو فِن اور بگ آئی ٹونا کا مرکری لیول بہت زیادہ ہوتا ہے، اور بونیٹو بے کار ہے، اس لیے ان تینوں کو نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے، بالخصوص بلو فن ٹونا کو۔

    یلو فِن کا مرکری لیول میڈیم رینج کا ہے، گوشت بھی زیادہ سیاہ نہیں ہے، فوائد بھی بہت ہیں اور ذائقہ بھی اچھا ہے، اس لیے ہمیشہ یلو فِن ٹونا ہی خریدیں۔ چوں کہ یلو فن کی تعداد کم ہے اس لیے یہ آپ کو مارکیٹ سے کم ہی دستیاب ہوگی، اور آپ کو بگ آئی ہر طرف ملے گی، لیکن اگر آپ کو یلو فِن نہیں ملتی تو آپ بہ حالت مجبوری بگ آئی ٹونا بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن پھر آپ کو خوراک میں رد و بدل کرنی پڑے گی۔

    یلو فِن آپ مہینے میں 4 مرتبہ کھا سکتے ہیں لیکن بگ آئی ٹونا صرف 2 مرتبہ کھانا بہتر ہے۔ ایف ڈی اے کی تجویز کردہ خوراک کے مطابق آپ بگ آئی ٹونا 5 اونس یعنی 140 گرام ہفتے میں 3 مرتبہ کھا سکتے ہیں۔

    یلو فِن ٹونا کے فوائد

    یلو فِن ٹونا میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں، جو دل کی صحت کو بہتر بنانے اور کولیسٹرول کو کم کرنے، دماغی افعال کو بڑھانے اور آنکھوں کی صحت کو بہتر کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اومیگا 3 ہڈیوں اور جوڑوں کی بیماری دور کرنے اور کینسر کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، اس میں اومیگا 3 کا لیول 0.4 گرام پر 6 اونس ہے۔

    یلو فِن ٹونا پروٹین میں زیادہ اور کیلوریز میں کم ہوتی ہے، اس لیے یہ جسم کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ وزن بھی بڑھنے نہیں دیتی، یہ پوٹاشیم کا بھی بھرپور ذریعہ ہے۔ ایک 3 اونس یلو فِن ٹونا کی سروِنگ میں 93 کیلوریز ہوتی ہیں، اور یہ 21 گرام پروٹین فراہم کرتا ہے۔ اس میں موجود پوٹاشیم بلڈ پریشر کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یلو فِن کے 100 گرام میں 527 ملی گرام پوٹاشیم ہوتا ہے۔

    یلو فن ٹونا میں زنک، مینگنیز اور وٹامن سی جیسے غذائی اجزا ہوتے ہیں جو قوت مدافعت کو بڑھانے اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتے ہیں، 100 ملی گرام میں 42 ملی گرام میگنیشیم اور 64 ملی گرام زنک ہوتا ہے۔ زنک ایک اہم معدنیات ہے جو جسم کے بہت سے معمول کے افعال اور نظاموں کے لیے ضروری ہے، بشمول مدافعتی نظام، زخم بھرنے، خون کا جمنا، تھائرائیڈ گلینڈ کی حفاظت کرنا، ذائقہ اور سونگھنے کی حس کو معمول میں رکھنا۔ زنک حمل، بچپن اور جوانی کے دوران معمول کی نشوونما میں بھی مدد کرتا ہے۔

    میگنیشیم جسم میں بہت سے افعال کے لیے اہم ہے، یہ عضلات اور اعصاب کو صحیح طریقے سے کام کرنے، بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر کو صحیح سطح پر رکھنے اور پروٹین، ہڈی اور ڈی این اے بنانے کے لیے ضروری ہے، وقت کے ساتھ میگنیشیم کی کم سطح کیلشیم اور پوٹاشیم کی سطح کو کم کر سکتی ہے۔

    سیلینئیم

    سب سے اہم بات یہ کہ یلو فِن ٹونا میں سب سے زیادہ سیلینیم ہوتا ہے جو کہ 92 مائکرو گرام فی 3 اونس ہے، اس کے بعد جھینگے، کیکڑے، سیپیاں، لور یا سارڈین اور حجام ہیں جن میں 60 مائکروگرام تک سیلینیم ہوتا ہے۔ باقی سمندری غذاؤں میں یلو فِن سے تقریباً آدھا سیلینیم ہوتا ہے۔

    سیلینیم مختلف انزائمز اور پروٹینز کا ایک لازمی جزو ہے، جسے سیلینو پروٹین کہتے ہیں، جو ڈی این اے بنانے اور سیل کو پہنچنے والے نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں مدد کرتے ہیں۔ سیلینیم مدافعتی نظام کے افعال اور تولیدی عمل کو بہتر بنانے میں مدد کر تا ہے۔ اس لیے بانجھ پن کی ادویات میں سیلینیم شامل کیا جاتا ہے تا کہ تولیدی عمل کو بڑھایا جا سکے۔

    یہ تھائرائیڈ ہارمون، میٹابولزم اور ڈی این اے کی ترتیب کو برقرار رکھنے اور جسم کو آکسیڈیٹیو نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اور امیون سسٹم کو طاقت دے کر جسم کو بیماریوں سے لڑنے میں مدد دیتا ہے۔

    ان نتائج سے معلوم ہوا کہ مچھلی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے، مچھلی باقاعدگی سے ہر کوئی نہیں کھاتا، سب فاسٹ فوڈز، کڑاھیاں، بریانیاں اور پلیٹرز کی طرف جاتے ہیں، اور بیماریاں پیسوں سے خرید کر خوشی خوشی نوش کرتے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شوگر، بلڈ پریشر، ہڈیوں اور دل کی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔

    مچھلی کے باقاعدہ استعمال سے ان بیماریوں سے بچاؤ بالکل ممکن ہے، ماہرین غذائیات کے مطابق جو لوگ باقاعدگی سے مچھلی کھاتے ہیں، ان میں شوگر اور بلڈ پریشر کی سطح نارمل ہوتی ہے، ہڈیاں مضبوط اور صحت مند اور دل بالکل نارمل کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے مچھلی سارا سال باقاعدگی سے کھانی چاہیے۔

    A گریڈ خریدیں اور فرائی نہ کریں

    لیکن خیال رہے کہ ہمیشہ تازی یعنی A گریڈ اور 5 کلو سے نیچے کا پیس لیا کریں، اور ٹونا کو اپنی خوراک کا لازمی حصہ بنائیں، بدقسمتی سے ٹونا کو اس کے لال گوشت کی وجہ سے پاکستان میں پسند نہیں کیا جاتا، جب کہ امریکا، یورپ، چین اور جاپان میں اس کے فوائد کی وجہ سے یہ بہت مقبول اور مہنگی مچھلی ہے۔

    یاد رکھیں کہ ٹونا مچھلی فرائی کرنے کے لیے نہیں ہے، اس کو ہمیشہ بریانی اور سالن یا قورمے کے لیے استعمال کریں۔

  • مچھلی کھانے والے بکرے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

    ویسے تو بکرے عموماً گھاس پھوس اور اناج کھاتے ہیں، تاہم سوشل میڈیا پر ایک ایسے بکرے کی ویڈیو وائرل ہورہی ہے جو مچھلی کھا رہا ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپ لوڈ کی گئی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔

    ویڈیو میں ایک سیاہ رنگ کے بکرے کو دیکھا جاسکتا ہے جس کے سامنے مچھلیوں سے بھرا تھال رکھا ہے۔

    بکرا نہایت مزے سے وہ مچھلیاں کھا رہا ہے۔

    لوگوں نے اس ویڈیو کو دیکھ کر نہایت حیرانی کا اظہار کیا ہے، ویڈیو کے کیپشن میں تحریر ہے کہ بلی سوچ رہی ہوگی کہ کیا اب میں گھاس کھاؤں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Manas Padhi (@official_manas143)

    خیال رہے کہ بکرے کی خوراک گھاس پھوس، پودوں اور اناج پر مشتمل ہوتی ہے، علاوہ ازیں وہ پھل اور سبزیاں بھی کھا سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بکروں کے اندر کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے تجسس پایا جاتا ہے لہٰذا وہ کسی کھانے کی چیز کو دیکھ کر اسے چکھنے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں، البتہ وہ اسے پسند آنے کی صورت میں ہی کھاتے ہیں۔

  • سمندر سے سوئی جیسے دانتوں والی عجیب مخلوق نکل آئی

    سمندر سے سوئی جیسے دانتوں والی عجیب مخلوق نکل آئی

    اوریگان: امریکا میں سمندر سے سوئی جیسے دانتوں والی عجیب مخلوق نکل آئی، جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔

    امریکی ریاست اوریگان کے شہر بروکنگز میں ساحل پر ایک عجیب و غریب نظر آنے والا سڑتا ہوا سمندری جانور ملا ہے۔

    سوشل میڈیا پر ایک صارف کرسٹین ٹائلٹسن کچھ تصویریں پوسٹ کی ہیں، جن میں سوئی نما دانتوں والا جانور نظر آتا ہے، جو پتھروں کے ڈھیر پر مردہ پڑا ہے۔

    تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سمندری مخلوق کا جسم گل سڑ چکا ہے، اور جسم کے اندر کے حصے بھی نظر آنے لگے ہیں، انٹرنیٹ صارف نے لوگوں سے اس مخلوق کی شناخت میں مدد بھی طلب کی، ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ مخلوق اوریگون کے شہر بروکنگز میں ساحل پر دیکھی۔

    پوسٹ شیئر ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، کئی صارفین نے تصویروں پر تبصرہ کرتے ہوئے قیاس کیا کہ یہ کیا ہو سکتی ہے۔ ایک صارف نے لکھا میرے خیال میں اسے آاااغ کہتے ہیں۔ ایک اور صارف نے قیاس کیا کہ یہ وولف اییل ہو سکتی ہے، یعنی شمالی بحرالکاہل میں رہنے والی ایک خاص نوع کی مچھلی۔

    تاہم، ایک تیسرے صارف نے نشان دہی کی کہ وولف اییل (eel) کے دانت اتنے بڑے نہیں ہوتے، سمندری حیات سے متعلق ایک گروپ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ عجیب و غریب مخلوق ایک قسم کی اییل ہے، جسے منکی فیس اییل (بندر جیسے چہرے والی اییل مچھلی) کہتے ہیں۔

    ماہرین سمندری حیات کے مطابق منکی فیس اییل مچھلی شمالی امریکا کے پیسفک ساحل سے تعلق رکھتی ہے، وہ اوریگون سے باجا کیلیفورنیا اور میکسیکو تک پتھریلی چٹان کے رہائش گاہوں میں پائی جاتی ہے، اور انھیں ان کی غیر معمولی صورت کی وجہ سے منکی فیس اییل کہا جاتا ہے۔

  • زندہ مچھلی پانی سے اچھل کر نوجوان کے حلق میں پھنس گئی

    زندہ مچھلی پانی سے اچھل کر نوجوان کے حلق میں پھنس گئی

    تھائی لینڈ میں ایک نوجوان اس وقت مشکل میں پڑ گیا جب ایک مچھلی پانی سے اچھل کر اس کے حلق میں پھنس گئی، ڈاکٹرز کو سرجری کر کے نوجوان کی جان بچانی پڑی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق تھائی لینڈ میں ایک مچھلی پانی سے اچھل کر ایک نوجوان کے حلق میں جا کر پھنس گئی، تاہم کامیاب سرجری کے بعد اسے نکال لیا گیا۔

    مذکورہ نوجوان دریا میں اسپیئر فشنگ میں مصروف تھا، جیسے ہی وہ سانس لینے کے لیے پانی سے باہر آیا عین اسی وقت چھوٹی مچھلی ایناباس اچھل کر اس کے منہ میں چلی گئی اور اس کے حلق میں پھنس گئی۔

    دم گھٹنے سے اس کی جان جانے کا خطرہ پیدا ہوا تو اسے طبی امداد کے لیے فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا، جہاں کامیاب سرجری کے بعد مچھلی کو نکال لیا گیا۔

  • پلیٹ میں سرو کی گئی مچھلی کی حملہ کرنے کی کوشش

    پلیٹ میں سرو کی گئی مچھلی کی حملہ کرنے کی کوشش

    مچھلی یا دیگر سی فوڈ بعض لوگوں کی پسندیدہ خوراک ہوتی ہے لیکن دنیا کے بعض حصوں میں پوری کی پوری مچھلی اس طرح سرو کی جاتی ہے کہ وہ زندہ ہوتی ہے اور حرکت کر رہی ہوتی ہے۔

    ایسی ہی ایک پلیٹ میں سرو کی گئی مچھلی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا کہ کھانے اور دیکھنے والے دونوں ہی کراہیت اور خوف میں مبتلا ہوگئے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کسی ریستوران میں سرو کی گئی ڈش میں سبزی کے ساتھ دو مچھلیاں بالکل سالم حالت میں موجود ہیں۔

    تاہم اگلا ہی لمحہ مزید حیران کن ہے جب کھانے والا چوپ اسٹک سے مچھلی کو ذرا سا ہلاتا ہے، جس کے بعد مچھلی میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ منہ کھول کر چوپ اسٹک کا کنارہ منہ میں دبا لیتی ہے۔

    اس موقع پر مچھلی کے منہ میں موجود ننھے ننھے دانت بھی دکھائی دیتے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر اب تک اس ویڈیو کو لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں اور مختلف تبصرے کر رہے ہیں، بعض افراد نے اس پر خوف اور کراہیت کا اظہار کیا ہے جبکہ بعض اس پر بھی مزاحیہ تبصرے کر رہے ہیں۔

  • انسانی دل کے خلیات سے روبوٹک مچھلی تیار

    انسانی دل کے خلیات سے روبوٹک مچھلی تیار

    واشنگٹن: سائنسدانوں نے انسانی دل کے خلیات کی مدد سے تیرنے کی صلاحیت رکھنے والی مچھلی تیار کی ہے، مچھلی کو کاغذ، پلاسٹک، جیلاٹین اور انسانی دل کے پٹھوں کے خلیات سے تیار کیا گیا ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی اور ایموری یونیورسٹی کے ماہرین نے مکمل طور خود کار بائیو ہائبرڈ مچھلی تیار کی ہے جس کو انقلابی پیشرفت قرار دیا جارہا ہے جو مستقبل میں دل کے پیچیدہ مصنوعی اعصاب کی تیاری میں مددگار ثابت ہوگی۔

    اس مچھلی کو کاغذ، پلاسٹک، جیلاٹین اور انسانی دل کے پٹھوں کے خلیات سے تیار کیا گیا ہے۔

    یہ مچھلی اپنی دم کو دائیں بائیں ہلا سکتی ہے جس سے اسے تیرنے میں مدد ملتی ہے اور اس کے تیرنے کا انداز دھڑکن جیسا ہوتا ہے۔

    ہارورڈ اسکول آف انجنیئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز کی جانب سے ٹویٹر پر اس روبوٹک مچھلی کی ویڈیو بھی شیئر کی گئی۔ ماہرین نے بتایا کہ اس تحقیق سے دل کے علاج جیسے پیس میکرز میں پیشرفت کرنے میں مدد ملے گی۔

    انہوں نے کہا کہ دل بہت زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے اور اس کی ساخت کی نقل ہی کافی نہیں، دل کے نقص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے لیے مصنوعی دل تیار کرنے کے لیے ہمیں اس عضو کے بارے میں سب کچھ جاننا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ مصنوعی مچھلی کب تک متحرک رہے گی مگر وہ 100 سے زیادہ دن تک تیرتی رہی۔

    انہوں نے کہا کہ اس مچھلی میں دل کے بائیو فزکس کی نقل کرکے ہم نے خلیات کے اندر متعدد ایسے پراسیس متحرک کیے جو خود کو مستحکم رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں ہم ان خلیات اور ٹشوز کو زیادہ لمبے عرصے تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

    اس تجربے میں جن خلیات کا استعمال کیا گیا وہ ورزش کے ساتھ زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ انہیں ہارٹ فیلیئر کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ موجودہ غیرمعمولی پیشرفت کے باوجود اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

  • 2080 میں‌ مچھلیوں کی بڑی پریشانی کیا ہوگی؟

    2080 میں‌ مچھلیوں کی بڑی پریشانی کیا ہوگی؟

    شنگھائی: چینی بحری محققین کا کہنا ہے کہ 2080 میں‌ مچھلیوں کی بڑی پریشانی ان کے سانس لینے سے متعلق ہوگی، سمندر ان کے لیے خطرناک بنتا جا رہا ہے، اور ساٹھ عشروں بعد 70 فی صد آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مچھلیوں کی سانسیں پھولنے لگیں گی۔

    اس سلسلے میں چین میں ایک تحقیقی مطالعہ کیا گیا ہے، جس پر مبنی مقالہ امریکن جیوفزیکل یونین نامی جریدے میں چھپا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ مچھلیوں کے لیے آنے والے دن آسان نہیں ہوں گے، سمندروں میں دو ہزار اسّی تک ستّر فی صد آکسیجن کم ہو جائے گی، جس کی وجہ سے سمندری حیات کی کئی نسلیں تباہ ہو جائیں گی۔

    اس تحقیقی مطالعے کے مرکزی مصنف اور شنگھائی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی میں بحری جغرافیے کے ماہر یونتاؤ زھاؤ کا کہنا ہے کہ سمندروں کے درمیان والا حصہ، جہاں پر سب سے زیادہ مچھلیاں پائی جاتی ہیں، وہاں پر لگاتار آکسیجن کی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے، اور آکسیجن کم ہونے کی شرح کی رفتار غیر فطری ہے۔

    تحقیقی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال 2021 میں دنیا بھر کے سمندروں میں آکسیجن سنگین سطح پر پہنچ گئی ہے، انسانوں نے آلودگی اس قدر پھیلا رکھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کا اثر سمندروں پر بھی پڑنا شروع ہو گیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سمندروں میں آکسیجن گھلی ہوئی شکل میں ہوتی ہے، وہ بھی گیس کی شکل میں، جس طرح زمین پر جانوروں کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح سمندری جانداروں کو بھی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر میں گرمی پیدا ہو رہی ہے، اس کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ پانی میں گھلی ہوئی آکسیجن کی مقدار لگاتار کم ہوتی جا رہی ہے، مقالے کے مطابق سائنس دان دہائیوں سے لگاتار سمندر میں کم ہو رہی آکسیجن کو ٹریک کر رہے ہیں۔

    سائنس دانوں نے کلائمٹ ماڈلز کے ذریعے بتایا کہ سمندروں میں ڈی آکسیجنیشن کا عمل تیز ہو جائے گا، اور پوری دنیا کے سمندر اس سے متاثر ہوں گے، ماہرین کے مطابق سمندروں میں گھلی ہوئی آکسیجن ایک بار ختم یا کم ہو جائے تو پھر اسے واپس پہلی والی صورت میں لانا ناممکن ہو جائے گا۔

  • امریکا میں مچھلیوں کی بارش ہونے لگی

    امریکا میں مچھلیوں کی بارش ہونے لگی

    امریکی ریاست ٹیکسس میں آسمان سے مچھلیوں کی بارش ہونے لگی جس نے شہریوں کو حیران کردیا، لوگوں نے اسے سال 2021 کا آخری وار قرار دیا۔

    امریکی ریاست ٹیکسس میں اس وقت مقامی افراد حیران و پریشان رہ گئے جب بارش کے ساتھ آسمان سے مچھلیاں بھی برسنے لگیں۔

    بے شمار مقامی افراد نے سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر پوسٹ کیں جن میں بے حس و حرکت مچھلیاں دکھائی دے رہی ہیں۔

    یہ ایک غیر معمولی واقعہ ضرور ہے لیکن ایسا ہوتا ہے۔

    دراصل جب سمندر کا پانی بخارات بن کر ہوا میں اڑتا ہے، اس وقت اگر تیز ہوا چل رہی ہو یا طوفانی صورتحال ہو تو کئی چھوٹے سمندری جاندار جیسے مینڈک، کیکڑے یا چھوٹی مچھلیاں بھی اوپر اٹھ جاتی ہیں جو بعد میں بارش کے ساتھ زمین پر برستی ہیں۔

    ایک شخص نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ بارش کے ساتھ کچھ گرنے کی آواز پر وہ سمجھا کہ اولے گر رہے ہیں لیکن جب اس نے باہر جا کر دیکھا تو آسمان سے مچھلیاں گر رہی تھیں۔