Tag: Flag Ship reference

  • فلیگ شپ ریفرنس: نوازشریف کوشک کا فائدہ دے کربری کیا گیا: تفصیلی فیصلہ

    فلیگ شپ ریفرنس: نوازشریف کوشک کا فائدہ دے کربری کیا گیا: تفصیلی فیصلہ

    اسلام آباد: احتساب عدالت نےفلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس کاتفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، اس ریفرنس میں نواز شریف کو بری کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کی جانب سے جار ی کردہ تفصیلی فیصلہ 69صفحات پر مشتمل ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کو شک کا فائدہ دیا گیا ہے ۔

    یاد رہے کہ 24 دسمبر کو احتساب عدالت نے فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ سنایا تھا ، فلیگ شپ میں سابق وزیراعظم کو بری قرار دیا گیا تھا، تاہم العزیزیہ کیس میں انہیں سات سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ اس ریفرنس میں انہیں دس سال کے لیے ناا ہل قرار دیا گیا تھا اور بھاری جرمانے کے ساتھ ان کی جائیداد بھی ضبط کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

    عدالتی فیصلے کے بعد میاں نواز شریف کو حراست میں لے کر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ قانون کے مطابق اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔

    احتساب عدالت کی جانب سے مرتب کیے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نوا زشریف کو شک کا فائدہ دے کر بری کیا جارہا ہے ، نیب کیس کو ثابت نہیں کرسکا ہے اور کسی بھی شخص کے قصوروار ہونے کا مکمل یقین ہونے تک اسے سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دستیاب شواہدکی بنیادپرنوازشریف کابینی فیشل اونرہوناخارج ازامکان نہیں ہے۔ دوسری جانب ریفرنس میں شریک ملزمان حسن اورحسین نوازاشتہاری ہی رہیں گے، ان کاٹرائل وطن واپسی پرکیاجائےگا۔

    تحریری فیصلے میں یہ بھی درج ہے کہ گلف اسٹیل کی فروخت سےکمپنیاں بنانےکادعویٰ بوگس ثابت ہوا اور نوازشریف کےقوم سےخطاب کےمندرجات بھی قابل قبول نہیں ہے۔کمپنیوں کےقیام کےوقت کم عمرحسن نوازکاآزادذریعہ معاش نہیں تھا۔

    خارج ازامکان ہے کہ فلیگ شپ میں7 لاکھ پاؤنڈکی سرمایہ کاری نوازشریف کی ہو، یہ بھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا کہ نوازشریف نے7لاکھ پاؤنڈخفیہ رقم سےدیئےہوں تاہم مکمل شواہد کی عدم موجودگی کے سبب انہیں اس ریفرنس سے بری کیا گیا ہے ۔

    کیس کا پس منظر


    سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف تحقیقات اس وقت شروع ہوئیں، جب 4 اپریل 2016 کو پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کے نام سامنے آئے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے کالے دھن کو بیرون ملک قائم بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔

    پاناما لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل تھا۔

    کچھ دن بعد وزیر اعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی تاہم معاملہ ختم نہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ (موجودہ وزیر اعظم) عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں۔

    درخواستوں پر سماعتیں ہوتی رہیں اور 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی قومی ادارہ احتساب (نیب) کو حکم دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔

    بعد ازاں نیب میں شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے جن میں سے ایک ایون فیلڈ ریفرنس پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی جبکہ مریم نواز کو 7 سال قید مع جرمانہ اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

  • فلیگ شپ ریفرنس : کوئی ثابت نہیں کرسکا کہ بچے میرے زیرکفالت تھے، نوازشریف

    فلیگ شپ ریفرنس : کوئی ثابت نہیں کرسکا کہ بچے میرے زیرکفالت تھے، نوازشریف

    اسلام آباد :  سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ریفرنس مخالفین اور جے آئی ٹی کی جانبدار رپورٹ کی وجہ سے بنایا گیا، کوئی گواہ ثابت نہیں کرسکا کہ میرے بچے میرے زیرکفالت تھے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت ہوئی، سابق وزیر اعظم نوازشریف نے  342کا بیان قلمبند کرادیا،  ریفرنس میں 136 سوالات کےجوابات قلمبند کیے گئے، دوران سماعت احتساب عدالت کے جج نے نواز شریف سے سوال کیا کہ آپ کے خلاف ریفرنس کیوں بنایا گیا ؟

    جس پر ان کا کہنا تھا کہ ریفرنس مخالفین اور جے آئی ٹی کی جانبدار رپورٹ کی وجہ سے بنایا گیا، جے آئی ٹی نے غیر ضروری معاملات میں الجھایا اور الزامات لگائے، کسی گواہ کے بیان نے مجھے ملزم ثابت نہیں کیا۔

    نوازشریف کا مزید کہنا تھا کہ صرف تفتیشی افسر محمد کامران اور واجد ضیاء نے میرے خلاف بیان دیا، دونوں کا بیان ان کی ذاتی رائے پر مبنی تھا، دونوں نے تسلیم کیا کہ میرے فلیگ شپ کا مالک ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے، دونوں گواہان نے دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیے۔

    انہوں نے کہا کہ گواہان نے بتایا ہل میٹل سے متعلق کوئی رقم منتقل نہیں ہوئی، کوئی گواہ ثابت نہیں کرسکا کہ میرے بچے میرے زیرکفالت تھے، کوئی بھی جرم میرے خلاف ثابت نہیں ہوا، تفتیشی افسر کے مطابق ریفرنس فائل کرنے کے سوا راستہ نہیں تھا،2گواہان کے بیانات کو قابل قبول شہادت قرار نہیں دیا جاسکتا۔

    ایک موقع پر جج نے ان سے پوچھا کہ میاں صاحب ! کیا ریفرنس کے دوران آپ بچوں سے ملاقات کرتے رہے؟ ملاقات میں بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ مشکل وقت ہے، دستاویزات مجھے دے دیں، آپ سیاست میں مصروف تھے لیکن اب ان کو چاہیے کہ وہ اپنے والد کا ساتھ دیں۔

    جس پر سابق وزیر اعظم کا جواب تھا کہ بچوں کا کاروبا ہے وہ بناتے رہے اور بیچتے بھی رہے، حسن نواز فلیٹس خرید کر ری فرنیش کر کے فروخت کرتے تھے، ہر فلیٹ کے نام پر ایک کمپنی بنائی گئی تھی، اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بچے اب بڑے ہوگئے ہیں، اپنی مرضی کرتے ہیں۔

    نواز شریف نے عدالت میں ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا

    دوران سماعت نوازشریف نےعدالت میں1999 کا ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا، انہوں نے کہا کہ سال1999میں مجھے اٹک جیل سے کراچی میں سندھ ہائیکورٹ میں پیش کیا جانا تھا، جس کیلئے مجھے ایک پرانے جہازمیں بٹھادیا گیا۔

    ایک ہاتھ میں ہتھکڑی لگائی اور دوسرے ہاتھ کو سیٹ کے ساتھ باندھ دیا گیا، نوازشریف نے بتایا کہ ملتان میں ری فیولنگ کی وجہ سے کراچی7گھنٹے میں پہنچے۔

    انہوں نے کہا کہ میرے وکیل بیرسٹر خواجہ نوید نے عدالت کو بتایا کہ مجھے باندھ کر لایا گیا ہے، خواجہ نوید نے کہا کہ جہاز کریش ہوجاتا تو نوازشریف کیسے چھلانگ لگاتے؟نوازشریف کی اس کہانی پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

    علاوہ ازیں عدالت میں نوازشریف کی جانب سےدیے گئے137جوابات ٹائپ کرلیے گئے، نواز شریف نے جوابات پر دستخط کردیئے بعد ازاں وہ احتساب عدالت سے روانہ ہوگئے۔