Tag: flagship reference

  • نواز شریف کی فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کیخلاف نیب نے عدالت سے رجوع کرلیا

    نواز شریف کی فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کیخلاف نیب نے عدالت سے رجوع کرلیا

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف کی فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کیخلاف نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا، جس میں استدعا کی ہے کہ ٹرائل کورٹ میں پیش کی گئی دستاویزات ہائی کورٹ میں جمع کرانے کی اجازت دی جائے ، دستاویزات میں نواز شریف کے ٹیکس ریکارڈ اور پراپرٹی کی تفصیلات شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیب کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کیخلاف متفرق درخواست دائر کردی ، درخواست ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے دائر کی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ پچیس جون کو عدالت نے نیب کو دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کی تھی اور ٹرائل کورٹ میں جمع کروائے گئے ، نواز شریف کے ٹیکس اور پراپرٹی کے ریکارڈ کو جمع کرانے کا حکم دیا تھا، دستاویزات ٹرائل کورٹ میں بھی جمع کروائی گئی تھیں جن کا اصل ریکارڈ بھی موجود ہے۔

    نیب نے استدعا کی ٹرائل کورٹ میں پیش کی گئی دستاویزات ہائیکورٹ میں جمع کرانے کی اجازت دی جائے اور نواز شریف کی بریت کیخلاف زیر سماعت اپیل کے ساتھ ریکارڈ منسلک کرنے کا حکم دیا جائے۔

    ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کے گوشواروں کا ریکارڈ ، عرب امارات ، برطانیہ اور بی وی آئی میں ملزمان کی کمپنیز کی تفصیلات اور بی وی آئی ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ملزمان کی کمپنیوں کے سالانہ ریکارڈز کی تفصیلات درخواست میں شامل ہیں جبکہ ملزمان کی کمپنیز کی ملکیت پراپرٹیز کا ریکارڈ بھی درخواست کا حصہ ہیں۔

    واضح رہے گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے گرفتار کیا گیا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں تفتیشی افسر محمد کامران کا بیان قلمبند کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سماعت میں تفتیشی افسر محمد کامران کا بیان قلمبند کیا گیا۔

    کمرہ عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ہمراہ مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی، اقبال ظفر جھگڑا، راجہ ظفر الحق، طارق فضل چوہدری، مریم اورنگزیب، طارق فاطمی اور آصف کرمانی بھی موجود رہے۔

    تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں کہا کہ کمپنیز ہاؤس لندن میں حسن نواز کی کمپنیوں کے ریکارڈ کے لیے درخواست دی۔ ریکارڈ کی فراہمی کے لیے ادا کی گئی فیس ضمنی ریفرنس کا حصہ ہے۔ کمپنیز ہاؤس میں حسن نواز کی 10 کمپنیوں کے ریکارڈ کے لیے درخواست دی۔

    تفتیشی افسر نے نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کی کمپنیوں کی ملکیتی جائیداد کی تفصیلات پیش کردیں۔ تفصیلات پیش کرتے ہوئے تفتیشی افسر نے کہا کہ حسن نواز کی 18 کمپنیوں کے نام پر 17 فلیٹس اوردیگرپراپرٹیز ہیں۔

    تفتیشی افسر کی جانب سے پیش کی جانے والی تفصیلات کے جواب میں وکیل صفائی نے کہا کہ پیش کردہ تفصیلات قانون شہادت کے تحت قابل قبول شہادت نہیں ہیں۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ کمپنیز ہاؤس، ایچ ایم لینڈ رجسٹری کو ریکارڈ دینے کی درخواست کی، درخواست پر اپنا ایڈریس پاکستانی ہائی کمیشن لندن کا دیا۔ ٹیلی فون پر متعلقہ محکموں سے ریکارڈ کے لیے پیروی کی۔

    مزید پڑھیں: فلیگ شپ ریفرنس کی گزشتہ سماعت

    انہوں نے کہا کہ 24 اگست 2017 کو ڈائریکٹر نیب راولپنڈی کے ساتھ ہائی کمیشن گیا۔ قونصل اسسٹنٹ ذکی الدین نے 12 سر بمہر لفافے لا کر دیے۔ لفافے راؤ عبد الحنان کے دفتر سے لا کر دیے گئے تھے۔ راؤ عبد الحنان ہائی کمیشن میں بطور قونصل اتاشی تعینات تھے۔

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ کمپنیز ہاؤس سے بھیجے گئے لفافے ویزا اتاشی کے دفتر میں کھولے، راؤ عبد الحنان نے بتایا دستاویزات کی پہلے تصدیق ضروری ہے۔ راؤ عبدالحنان نے دستاویزات اسی دن واپس کردی۔

    اس کے جواب میں نواز شریف کے وکلا نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ زبانی کہانی سنا رہے ہیں۔

    تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ دستاویزات کی تصدیق کے بعد واپس ہائی کمیشن گیا، تصدیق کے بعد راؤ عبدالحنان کا بیان قلم بند کیا۔

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ تفتیشی افسر کا بیان آج بھی مکمل نہ ہو سکا اور وہ کل بھی اپنا بیان جاری رکھیں گے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    سماعت میں متحدہ عرب امارات حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے کہا کہ ایم ایل اے میں یو اے ای حکام سے قانونی سوالات پوچھے تھے۔ وکیل نے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے پہلا سوال کوئی قانونی نہیں بلکہ حقائق سے متعلق تھا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ جی یہ درست ہے پہلے سوال میں صرف حقائق پوچھے تھے۔ دوسرا سوال بھی حقائق سے متعلق تھا۔ قانونی سوالات باہمی قانونی تعاون کے تحت خط و کتابت کے تناظر میں کہے۔

    خواجہ حارث نے دریافت کیا کہ نیب قوانین کی کس شق کے تحت آپ نے یہ ایم ایل اے بھیجا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ حکومت نے جے آئی ٹی کو ایم ایل اے بھیجنے کی اتھارٹی دے رکھی تھی۔ وزارت قانون و انصاف نے ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا تھا۔ سیکشن 21 کے تحت ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا گیا۔

    جج نے وکیل سے کہا کہ خواجہ صاحب آپ صرف حقائق سے متعلق سوال پوچھیں تو بہتر ہے۔ کس قانون میں کیا ہے یہ سوالات گواہ سے کیا پوچھنے ہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ میں نے پہلے سیکشن 21 پڑھا تھا۔ یہ وکیلوں والے سوالات ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانونی نکات سے متعلق سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔ واجد ضیا ہمارے گواہ ہیں کوئی قانونی ماہر نہیں۔

    عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کا اعتراض منظور کرتے ہوئے خواجہ حارث کو گواہ سے صرف متعلقہ سوالات پوچھنے کی ہدایت کردی۔

    واجد ضیا نے مزید کہا کہ 13 مئی 2017 کو حماد بن جاسم کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا خط لکھا، حماد بن جاسم نے پاکستان آ کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کیا۔

    انہوں نے کہا کہ حماد بن جاسم نے لکھا آپ لوگ دوحہ آ کر بیان ریکارڈ کریں۔ حماد بن جاسم نے خط کے جواب میں کہا سوالنامہ پہلے فراہم کریں۔ ہم نے 24 مئی 2017 کو ایک اور خط حماد بن جاسم کو لکھا۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حماد بن جاسم نے پھر پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں قطری شہزادے نے قطر میں ملاقات پر مشروط رضا مندی ظاہر کی۔ سوالنامہ پہلے بھیجنے پر جے آئی ٹی رضا مند نہ ہوئی۔

    اس سے قبل 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت میں وکیل زبیر خالد نے اخبار کی خبر پر نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ منسٹر ہے جو آپ اور نواز شریف کی گرفتاری سے متعلق بیان دے رہا ہے۔

    معاون وکیل زبیر خالد نے کہا تھا کہ عدالت کو سو موٹو لینا چاہیئے۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، آپ پر 302 کا کیس ہو تو آپ بھی کہنا شروع کردیں بری ہوجائیں گے۔

    بعد ازاں احتساب عدالت نے نواز شریف کے وکلا کو باقاعدہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ سماعت میں استغاثہ کے اہم گواہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا بیان مکمل ہونے کے بعد ان پرجرح کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ کےحکم پر معطل سینیٹر سعدیہ عباسی احتساب عدالت پہنچیں۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر جرح کی۔

    جرح کے دوران واجد ضیا نے کہا کہ نوٹس میں آیا کیپیٹل ایف زیڈ ای دستاویز کسی قونصلیٹ سے تصدیق شدہ نہیں، درست ہے دستاویز پر نواز شریف کا نام بھی مختلف انداز میں لکھا تھا۔ نواز شریف کے انگلش اور عربی والے نام میں فرق تھا۔

    انہوں نے کہا کہ عربی والے کالم میں پورا نام محمد نواز شریف محمد لکھا تھا، اسکرین شاٹ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے یہ نام غلط لکھا ہے۔ اسکرین سامنے ہو تو کلک کرنے سے پورا نام سامنے آجاتاہے۔

    واجد ضیا نے کہا کہ کسی بھی سافٹ ویئر کو کھول کر دیکھ لیں، پورا نام صرف نام والے خانے پر کلک کرنے سے ہی سامنے آتا ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے کمپیوٹر کی تربیت کہاں سے لی؟ واجد ضیا نے بتایا کہ میں نے ہالینڈ سے کمپیوٹر کورس کیا تھا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ کمپیوٹر ایکسپرٹ ہیں؟ جس پر واجد ضیا نے کہا کہ کمپیوٹر ایک بڑی فیلڈ ہے میں خود کو ایکسپرٹ نہیں کہہ سکتا، کمپیوٹر کی بنیادی تربیت لے رکھی ہے۔

    وکیل نے پوچھا کہ آپ کی ٹیم کو ایسی ہدایت تھی اسکرین شاٹ کے وقت نام پر کلک نہیں کرنا؟ جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جی نہیں ایسی کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ وکیل نے پوچھا کیا یہ ممکن ہے اسکرین شاٹ لینے سے کچھ معلومات پوشیدہ رہ سکتی ہیں؟ جس پر واجد ضیا نے کہا کہ اسکرین پر جو بھی ہو وہ اسی صورت میں تصویر بن جاتی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کے اسکرین شاٹ پر ناموں کے کتنے باکس بنے ہیں؟ واجد ضیا نے کہا کہ یہ تو میں گن کر ہی بتا سکتا ہوں۔

    جج نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب پلیز، کیا سوال کر رہے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ انہوں نے خود یہ بات شروع کی پتہ تو چلے یہ دستاویز ہے کیا۔ انہوں نے مزید پوچھا کہ آپ کے نوٹس میں آیا تھا کسی بھی خانے میں نواز شریف کا نام موجود نہیں؟

    واجد ضیا نے کہا کہ اتنا اندازہ تھا کہ تمام دستاویزات نواز شریف سے متعلق ہی ہیں۔ کمپنی مالک نے تمام ادائیگیوں سے متعلق جافزا حکام کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ نے جافزا اتھارٹی سے سرٹیفکیٹ حاصل کیا کہ تنخواہ لی گئی جس پر انہں نے کہا کہ میں نے جو دستاویز پیش کیں وہ یہی ہے کہ نواز شریف نے تنخواہ لی۔

    احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس پر مزید سماعت گواہ واجد ضیا کی استدعا پر کل تک ملتوی کردی گئی۔

    اس سے قبل سماعت میں واجد ضیا نے اپنا بیان مکمل کروا دیا تھا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حمد بن جاسم کے 2 خطوط سی ایم ایز کے ساتھ لگائے گئے۔ ورک شیٹ میں سرمایہ کاری، اخراجات اور منافع کی تفصیل ہے۔ 8 ملین ڈالرکی ادائیگی اور التوفیق کمپنی کا نام ورک شیٹ میں ظاہر کیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ 2001 سے 2003 میں 5041 ملین ڈالر کی 3 ٹرانزیکشن ہوئیں، تینوں ٹرانزیکشن حسین نواز کے نام پر دکھائی گئیں۔ ورک شیٹ میں دکھائی گئی ٹرانزیکشنز کی کوئی رسید نہیں دی گئی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ اسٹیٹمنٹ حسن نواز کو دکھائی تھی، حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا انہوں نے کبھی یہ ورک شیٹ دیکھی نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا ورک شیٹ پر انحصار کر رہے ہیں، ورک شیٹ پیش کرنے والے کو کبھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ التوفیق کمپنی سے کیا گیا لین دین اس کیس سے متعلق نہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ ورک شیٹ میں ایون فیلڈ کے 8 ملین ڈالر کی ایڈجسٹمنٹ دکھائی گئی، حسین نواز نے بتایا 2006 کی سیٹلمنٹ کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں۔ حسین نواز نے بتایا 1980 میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کا تحریری معاہدہ نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیان قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز کبھی اس عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ورک شیٹ مصنوعی تھی۔ مصنوعی ورک شیٹ منی ٹریل میں ربط پیدا کرنے کے لیے گھڑی گئی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ قطری شہزادے کے خطوط محض کہانی تھے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا کی ذاتی رائے قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کیں۔

    انہوں نے کہا کہ قطری شہزادے نے کاوشوں کے جواب میں تاخیری حربوں سے کام لیا۔ قطری شہزادے نے پہلے بیان دینے سے ہی انکار کیا، قطری شہزادے نے گارنٹی مانگی کہ انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسن نواز فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، حسن نواز نامعلوم ذرائع سے آنے والی رقم کمپنیوں کو بطور قرض دیتے رہے۔ فلیگ شپ کے نیچے قائم کی گئی کمپنیوں کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کا جائزہ لیا۔ کمپنیوں کے قرضے، منافع، نقصان اور ٹرانزکشنز پر 2 چارٹ مرتب کیے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرانزکشنز سے حسن نواز کی کمپنیوں اور برطانیہ سے باہر رقوم کا پتہ چلا، ٹرانزکشنز سے دو کمپنیوں کے درمیان فنڈز اور لون کا تبادلہ ظاہر ہوتا ہے۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2008 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو 615000 پاؤنڈ کا قرضہ دیا۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2009 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو اتنا ہی دوبارہ قرضہ دیا۔

    واجد ضیا کے مطابق جفزا کی دستاویزات کے مطابق 09-2008 میں نواز شریف چیئرمین تھے، کومبر کی جانب سے کیو ہولڈنگ کو 2007 میں 1.7 ملین پاؤنڈ کا قرضہ دیا گیا۔ کومبر کمپنی حسین نواز کی ملکیت میں ہے۔ حسن نواز نے 10-2009 میں چوہدری شوگر مل کو 87 ملین کا قرضہ دیا۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل ہوگیا۔ استغاثہ کے اہم گواہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا بیان فلیگ شپ ریفرنس میں بھی مکمل ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔

    سماعت میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا چوتھے روز بھی بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    سماعت کے دوران 17 جولائی 2017 کا قطری شہزادے حمد بن جاسم کو لکھا گیا خط بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا سپریم کورٹ کو خط اور مظہر عباس کا 16 مارچ 2017 کو واجد ضیا کو لکھا ہوا خط بھی پیش کردیا گیا۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تہمینہ جنجوعہ کے خط پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ تہمینہ جنجوعہ کیس میں نہ ہی گواہ ہیں نہ ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حمد بن جاسم کے 2 خطوط سی ایم ایز کے ساتھ لگائے گئے۔ ورک شیٹ میں سرمایہ کاری، اخراجات اور منافع کی تفصیل ہے۔ 8 ملین ڈالرکی ادائیگی اور التوفیق کمپنی کا نام ورک شیٹ میں ظاہر کیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ 2001 سے 2003 میں 5041 ملین ڈالر کی 3 ٹرانزیکشن ہوئیں، تینوں ٹرانزیکشن حسین نواز کے نام پر دکھائی گئیں۔ ورک شیٹ میں دکھائی گئی ٹرانزیکشنز کی کوئی رسید نہیں دی گئی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ اسٹیٹمنٹ حسن نواز کو دکھائی تھی، حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا انہوں نے کبھی یہ ورک شیٹ دیکھی نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا ورک شیٹ پر انحصار کر رہے ہیں، ورک شیٹ پیش کرنے والے کو کبھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ التوفیق کمپنی سے کیا گیا لین دین اس کیس سے متعلق نہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ ورک شیٹ میں ایون فیلڈ کے 8 ملین ڈالر کی ایڈجسٹمنٹ دکھائی گئی، حسین نواز نے بتایا 2006 کی سیٹلمنٹ کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں۔ حسین نواز نے بتایا 1980 میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کا تحریری معاہدہ نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیان قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز کبھی اس عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ورک شیٹ مصنوعی تھی۔ مصنوعی ورک شیٹ منی ٹریل میں ربط پیدا کرنے کے لیے گھڑی گئی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ قطری شہزادے کے خطوط محض کہانی تھے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا کی ذاتی رائے قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کیں۔

    انہوں نے کہا کہ قطری شہزادے نے کاوشوں کے جواب میں تاخیری حربوں سے کام لیا۔ قطری شہزادے نے پہلے بیان دینے سے ہی انکار کیا، قطری شہزادے نے گارنٹی مانگی کہ انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسن نواز فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، حسن نواز نامعلوم ذرائع سے آنے والی رقم کمپنیوں کو بطور قرض دیتے رہے۔ فلیگ شپ کے نیچے قائم کی گئی کمپنیوں کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کا جائزہ لیا۔ کمپنیوں کے قرضے، منافع، نقصان اور ٹرانزکشنز پر 2 چارٹ مرتب کیے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرانزکشنز سے حسن نواز کی کمپنیوں اور برطانیہ سے باہر رقوم کا پتہ چلا، ٹرانزکشنز سے دو کمپنیوں کے درمیان فنڈز اور لون کا تبادلہ ظاہر ہوتا ہے۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2008 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو 615000 پاؤنڈ کا قرضہ دیا۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2009 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو اتنا ہی دوبارہ قرضہ دیا۔

    واجد ضیا کے مطابق جفزا کی دستاویزات کے مطابق 09-2008 میں نواز شریف چیئرمین تھے، کومبر کی جانب سے کیو ہولڈنگ کو 2007 میں 1.7 ملین پاؤنڈ کا قرضہ دیا گیا۔ کومبر کمپنی حسین نواز کی ملکیت میں ہے۔ حسن نواز نے 10-2009 میں چوہدری شوگر مل کو 87 ملین کا قرضہ دیا۔

    جج نے ریمارکس دیے کہ حسن نواز پہلے قرضہ لیتے رہے پھر دینا شروع کردیا۔ واجد ضیا نے بتایا کہ حسن نواز نے 2001 سے 2004 میں کمپنیوں کو 4.2 ملین کا قرضہ دیا۔

    احتساب عدالت میں جاری فلیگ شپ ریفرنس میں واجد ضیا کا بیان مکمل ہوگیا۔

    سماعت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جسے منظور کرلیا گیا۔

  • احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی

    احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے وکیل خواجہ حارث احتساب عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

    خواجہ حارث کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ صاحب کی طبعیت خراب ہے، معزز جج نے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ ملزم اپنی مرضی سے آئے۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر نہیں کی، یہ مرضی سے عدالت کو چلانا چاہتے ہیں۔

    خواجہ حارث کے معاون وکیل نے کہا کہ جس طرح کے الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں وہ نہیں کرنا چاہتا، نیب کے وکیل نے کہا کہ معاون وکیل کی موجودگی میں گواہ کا بیان قلمبند کیا جائے۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ 5منٹ میں معلوم کر کے بتائیں ورنہ نوازشریف کے وارنٹ جاری کیے جائیں گے۔

    معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف سے بات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ وہ الجھن کا شکارتھے، الجھن کی وجہ سے تاریخوں پرحاضرنہیں ہو سکے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کہا کہ نوازشریف کا الجھنا بنتا ہے، باقی وکلابھی کیا الجھن کا شکار ہوگئے تھے۔

    معاون وکیل نے کہا کہ خواجہ حارث کل بھی پیش نہیں سکیں گے ان کی طبیعت خراب ہے، معزز جج نے کہا کہ خواجہ حارث کو کیسے پتا کہ وہ 2 دن بیمار رہیں گے۔

    خواجہ حارث کے معاون وکیل منور دوگل نے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ پر نہیں لایا جا سکتا، عدالت

    ایون فیلڈ ریفرنس: جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ پر نہیں لایا جا سکتا، عدالت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت نے فیصلہ دیا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی مکمل رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ پر نہیں لایا جا سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔ سماعت میں استغاثہ کے گواہ تفتیشی افسرعمران ڈوگر کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران نیب نے لندن فلیٹس ریفرنس کا ٹرائل پہلے مکمل کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیشی افسرعمران ڈوگرکا بیان ریکارڈ کرلیں۔


    نوازشریف کے وکیل کی جانب سے درخواست دائر

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل کی جانب سے نئی درخواست دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کیس آخری مرحلے میں ہے، تفتیشی افسر کا بیان قلمبند کرنے سے دفاع متاثر ہوگا۔

    نوازشریف کے وکیل کی جانب سے تینوں ریفرنسزمیں واجد ضیاء کا بیان قلمبند کرنے کی درخواست کرتےہوئےکہا گیا کہ تینوں ریفرنسزمیں ایک جیسے الزامات ہیں، ایک ساتھ ٹرائل کریں،العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنسزمیں واجدضیاءکا بیان قلمبند کرائیں۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہمارا دفاع ظاہرہوجائے گا ، جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا ریفرنسزمیں بیان ریکارڈ کریں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ واجد ضیاء پرجرح سے پہلےتینوں ریفرنسزمیں بیان کا سوچتے، پہلے مرحلے میں لندن فلیٹس ریفرنس کا ٹرائل چاہتے ہیں، سردار مظفر نے کہا کہ وکیل صفائی کارروائی کوبلڈوزکرنا چاہتے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کے گواہوں کی ترتیب پراسیکیوشن کا اختیارہے، وکیل صفائی کی دفاع متاثرہونے کی بات پرفیصلہ ہوچکا ہے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ عمران ڈوگرصرف ایون فیلڈریفرنس میں تفتیشی ہیں، بیان قلمبند ہونے سے دفاع متاثرہونے کی بات درست نہیں ہے، گواہ کٹہرے میں پیش ہوچکا ہےاب یہ نئی درخواست لے آئے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پراسیکیوشن کے بھی قانونی حقوق ہوتے ہیں، شفاف ٹرائل اورکیا ہوسکتا ہے ایک گواہ پر18 دن جرح کی گئی، تفتیشی کا بیان قلمبند کرنے سے پہلے وکیل صفائی کوموقع دیا گیا۔

    سردار مظفر نے کہا کہ واجد ضیاء کے بعد فطری طورپرتفتیشی افسراگلے گواہ ہیں، چاہتے ہیں پہلے ایون فیلڈریفرنس کو مکمل کرلیا جائے۔


    عمران ڈوگر کا بیان قلمبند

    استغاثہ کے گواہ عمران ڈوگر نے عدالت کو بتایا کہ بطورڈپٹی ڈائریکٹرنیب لاہورمیں کام کررہا ہوں، 28 جولائی 2017 کے فیصلے کے بعد تفتیش کے لیے تعینات کیا گیا۔

    گواہ نے کہا کہ مجازاتھارٹی نے تفتیش کرنے کا کہا، تفتیش ایون فیلڈ پراپرٹیز سے متعلق تھی، 3 اگست2017 کوتحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جےآئی ٹی والیم ایک سے والیم نائن اے ریفرنس کا اہم جزو ہیں، نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ جےآئی ٹی رپورٹ کیسے پیش کرسکتے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ دستاویزہے جسے بطورشواہد حاصل کیا گیا، سپریم کورٹ نے دستاویزات کی روشنی میں ریفرنس کا حکم دیا۔

    سردار مظفر نے کہا کہ تفتیشی افسرنے جے آئی ٹی رپورٹ کوبطورشواہد حاصل کیا، جے آئی ٹی رپورٹ کوشامل نہ کیا گیا توکیس خراب ہوجائے گا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسرجے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کرسکتے، جےآئی ٹی رپورٹ صرف واجد ضیاء ہی عدالت میں پیش کرسکتےہیں، تفتیشی افسر صرف اپنے جمع شواہد ہی عدالت میں جمع کراسکتا ہے۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفر نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ کے لیے تیارکی گئی تھی، تفتیشی افسررپورٹ کو اپنےمواد کے طورپرپیش کرسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسرنے جےآئی ٹی رپورٹ اپنے مواد کے طورپرحاصل کی، وکیل صفائی کوجے آئی ٹی رپورٹ پہلے ہی مل چکی ہے، اب جےآئی ٹی رپورٹ سے ان کا کون ساحق متاثرہوجائے گا۔

    معززجج نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسرجوموادجمع کراناچاہتےہیں وہ ریفرنس سےمتعلق ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اس میں فلیگ شپ ریفرنس سے متعلق مواد بھی ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ مکمل دستاویزہے جسے ہم ایک ساتھ جمع کرانا چاہتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ تفتیشی افسرصرف پرائمری شواہد ہی پیش کرسکتا ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے فیصلہ دیا کہ مکمل جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ پر نہیں لایا جا سکتا۔ تفتیشی افسر رپورٹ کی کچھ دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنوا سکتے ہیں اور جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل دیگر دستاویزات پیش کر سکتے ہیں۔

    ایون فیلڈ ریفرنس کی مزید سماعت 2 مئی تک ملتوی کردی گئی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پرسابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے گواہ ڈی جی آپریشنز نیب ظاہر شاہ پرجرح مکمل کی تھی۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کی غیرحاضری پراحتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ واجد ضیاء دو دن کا وقت لے کر گئے تھے اب کدھر ہیں؟

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے نیب کے گواہ ظاہرشاہ سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ کے خلاف نیب میں غیرقانونی تعیناتی پر انکوائری چل رہی ہے جس پرانہوں نے جواب دیا تھا جی ہاں سپریم کورٹ کےحکم پر ایک کمیٹی بنی ہے جو انکوائرای کررہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔