Tag: Floating City

  • تیرتے ہوئے شہر کا خیال حقیقت بن جائے گا؟

    تیرتے ہوئے شہر کا خیال حقیقت بن جائے گا؟

    سطح سمندر میں اضافے کے پیش نظر سمندروں کے قریب رہنے والے افراد کو بہت سے خطرات لاحق ہیں، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے تیرتے ہوئے شہر کی تعمیر پر غور کیا جارہا ہے۔

    جنوبی کوریا میں تیرتے ہوئے شہر کا خیال حقیقت کا روپ دھارنے جا رہا ہے، اقوام متحدہ کی پشت پناہی میں کام کرنے والے سائنس دان جنوبی کوریا کے شہر بوسن میں دنیا کے پہلے تیرتے شہر کا نمونہ بنا رہے ہیں۔

    اوشیئنکس نامی اس منصوبے کا اعلان گزشتہ برس ہوا تھا لیکن ڈیزائن کی نئی تصاویر اب جاری کی گئی ہیں۔

    تصویر میں دکھایا گیا کہ کس طرح آپس میں جڑے پلیٹ فارم 15.5 ایکڑ پر بنے ہوں گے اور ان میں 12 ہزار لوگوں کے رہنے کی گنجائش ہوگی۔

    اس تیرتے ہوئے شہر کی تعمیر پر اندازاً لاگت 20 کروڑ ڈالرز آئے گی جس کی تکمیل 2025 تک متوقع ہے۔

    اوشیئنکس کے سی ای او لفپ ہوفمین کا کہنا تھا کہ ہم اوشیئنکس بوسن کو بنانے کی راہ پر گامزن ہیں، یہ تیرتا ہوا انفرا اسٹرکچر سطح سمندر میں اضافے کے پیشِ نظر سمندر کے اوپر نئی زمین ساحلی شہر کے لیے بنا سکتا ہے۔

    اس منصوبے کا مقصد ساحلی علاقوں پر رہنے والوں کی مدد کرنا ہے جن کی آبادیوں کو بڑھتی سطح سمندر تباہ ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔

    اوشیئنکس کے مطابق دنیا میں پانچ میں سے 2 لوگ ساحل سے 62 میل کے فاصلے کے اندر رہتے ہیں جبکہ سیلاب پہلے ہی لاکھوں لوگوں کو ان کے گھر چھوڑنے پر مجبور کر چکا ہے۔

  • تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    دنیا بھر میں موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے بدترین اثرات کو دیکھتے ہوئے ان سے بچاؤ اور مطابقت کے لیے نئے نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور انہی میں سے ایک ’تیرتا ہوا شہر‘ بھی ہے جو جلد حقیقت بننے والا ہے۔

    کچھ عرصے پہلے اس کا تصور پیش کیے جانے کے بعد اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا تھا، تاہم اب اقوام متحدہ نے خود اس منصوبے کی سرپرستی لے لی ہے اور اسی دہائی میں یہ منصوبہ مکمل کردیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد تیرتے ہوئے شہر ایک حقیقت بن جائیں گے۔

    اس شہر کی تعمیر سطح سمندر میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہے، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے دنیا کے 90 فیصد شہروں کے زیر آب آجانے کا خدشہ ہے۔

    منصوبے کے ابتدائی خاکے کے مطابق یہاں ہزاروں افراد کے رہنے کے لیے گھر ہوں گے، جبکہ یہاں ٹاؤن اسکوائرز اور مارکیٹس بھی بنائی جائیں گی۔

    اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ہونے والی ایک میٹنگ میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 10 سال کا عرصہ پیش کیا گیا ہے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شہرسونامی اور دیگر خطرناک سمندری طوفانوں کے دوران قائم رہ سکیں گے؟

    اس حوالے سے پروجیکٹ کی ٹیم میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبہ اوشیئن انجینئرنگ کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ اس شہر کو ایسا بنایا جائے کہ یہ درجہ 5 کے طوفانوں میںبھی  قائم رہ سکے۔

    کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے تعمیراتی منصوبے بنانے کا مقصد کلائمٹ چینج کی اصل وجوہات اور انہیں کم کرنے کے اقدامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔

    ایک اور خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ صرف امرا کے لیے مخصوص ہوجائے گا جیسا اس سے قبل دبئی میں ہوچکا ہے اور غریب افراد زمین پر کلائمٹ چینج کے شدید اثرات سہنے کے لیے رہ جائیں گے۔

    مذکورہ عالیشان منصوبے کے حوالے سے پیش رفت اقدامات جلد سامنے آنے شروع ہوجائیں گے۔