عالمی بینک کے جنوبی ایشیا کے عہدیدار نے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ ملک پاکستان کیلئے دو ارب ڈالر کی خصوصی امداد جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق عالمی بینک نے کہا ہے کہ سیلاب کی آفت سے متاثرہ پاکستان کو دو ارب ڈالر کی خصوصی امداد فراہم کرے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کے جنوبی ایشیا ریجنل ڈپٹی چیئرمین مارٹن ریزر نے پاکستان کی صورتحال کے حوالے سے جاری بیان میں کہا ہے کہ سیلاب سے جانی نقصان پر انہیں دلی افسوس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگوں کی بحالی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
ورلڈ بینک نے گزشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات کی جس میں پاکستان کے لیے سیلاب سے متعلق امداد کے لیے 850 ملین ڈالر فراہم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ 2 بلین ڈالر کے اعداد و شمار میں وہ رقم شامل ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 14 جون سے اب تک جاری مون سون کی موسلا دھاربارشوں سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں میں1638 سے زائد شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کراچی : چیئرمین نادرا طارق نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور ان کی رجسٹریشن کیلئے حب میں نادرا دفتر نے کام شروع کردیا۔
یہ بات انہوں نے حب نادرا کے دفترکے دورے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو نادرا کی رسائی کو آسان اور رجسٹریشن کو یقینی بنانے کیلئے نادرا دفتر نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے
اس موقع پر چیئرمین نادرا نے سیلاب متاثرین کو ملنے والی نادرا سہولیات کا معائنہ بھی کیا، انہوں نے بتایا کہ دفترمیں جدید سہولیات کے ساتھ بچوں کے کھیلنے کا ایریا بھی مختص کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرہ افراد کے گمشدہ شناختی کارڈز کو ترجیحی بنیادوں پر پروسیس کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
چیئرمین نادرا نے بتایا کہ حب میں بھی متاثرینِ سیلاب نے ہجرت کی ہے اور بروقت اقدامات اٹھاتے ہوئے اضافی موبائل رجسٹریشن گاڑی تعینات کردی گئی ہے۔
چئیرمین نادرا نے کہا کہ خواتین کی رجسٹریشن اور ان کے لئے دو دن جمعہ اور ہفتہ کو مختص کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تباہ کن سیلاب نے کئی خاندانوں کو متاثر اور ہجرت کرنے پرمجبورکیا ہے۔
کراچی : ڈاکٹر بن کر ملک و قوم کی خدمت کا عزم لے کر تعلیم حاصل کرنے والے مسیحا اپنے قول سے مکر گئے، سیلاب متاثرہ علاقوں میں ڈیوٹی دینے سے انکار کردیا۔
تفصیلات کے مطابق اندرون سندھ کے علاقوں میں سیلاب متاثرین کے علاج معالجے کیلئے حکومت کی جانب سے مقرر کیے جانے والے متعدد ڈاکٹروں نے ڈیوٹی انجام دینے سے انکار کردیا ہے۔
صوبائی محکمہ صحت کے واضح احکامات کے باوجود متعدد ڈاکٹروں نے ان علاقوں میں جانے سے معذرت کرتے ہوئے صاف انکار کیا ہے۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کی جانب سے سیلاب متاثرہ علاقوں میں ڈیوٹی نہ کرنے والے ڈاکٹروں کو آخری بار تنبیہہ کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق 89میل اور فیمل ڈاکٹرز کو محکمہ صحت سندھ کی جانب سے وراننگ جاری کی گئی ہے، محکمہ صحت کی ہدایت کے باوجود گریڈ17کے ڈاکٹرز تاحال اپنی ڈیوٹیوں سے غیرحاضر ہیں۔
محکمہ صحت سندھ نے ان ڈاکٹروں کے نام ذرائع ابلاغ میں جاری کر تے ہوئے مذکورہ تمام ڈاکٹروں کو شوکاز نوٹسز بھی جاری کردیے ہیں۔
کراچی: صوبہ سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض سے مزید 9 سیلاب متاثرین دم توڑ گئے، سندھ میں اب تک 318 سیلاب متاثرین مختلف وبائی امراض کے باعث انتقال کر چکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض شدت اختیار کر گئے، گزشتہ 24 گھنٹے میں 9 سیلاب متاثرین دم توڑ گئے۔
ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ انتقال کر جانے والے متاثرین وبائی امراض میں مبتلا تھے، 3 سیلاب متاثرین کا تعلق نوشہرو فیروز سے تھا، 2 جیکب آباد، 2 ٹنڈو الہٰ یار اور 2 قمبر عمر کوٹ سے تعلق رکھتے تھے۔
ذرائع کے مطابق انتقال کر جانے والے متاثرین میں 5 مرد اور 4 خواتین شامل ہیں۔
جاں بحق ہونے والے سیلاب متاثرین گیسٹرو، ڈائریا، ملیریا، بخار اور امراض قلب کا شکار تھے۔ سندھ میں اب تک 318 سیلاب متاثرین انتقال کر چکے ہیں۔
کراچی : نیشنل فلڈ رسپانس کو آرڈی نیشن سینٹر (این ایف آرسی سی) اور پاک بحریہ کی جانب سے متاثرین کی امداد اور بچاؤ کی کوششیں جاری ہیں، متاثرہ افراد کو خیمے اور کھانے پینے کی اشیا کی فراہم کی گئیں۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک بحریہ کے4فلڈ ریلیف سینٹرز،18 کلیکشن پوائنٹس متاثرین کی خدمت میں دن رات مصروف عمل ہیں۔
این ایف آرسی سی کے مطابق متاثرین میں اب تک1519ٹن راشن،4904خیمے،6لاکھ51ہزار627لیٹر منرل واٹر تقسیم کیا گیا ہے، پاک بحریہ کی9 خیمہ بستیوں میں16ہزار79افراد رہائش پذیرہیں۔
اس کے علاوہ 23ایمرجنسی رسپانس ٹیموں نے15ہزار231افراد کو بچا کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا، ایمرجنسی ٹیمیں54موٹرائزڈ بوٹس،2ہوورکرافٹ سے لیس ہیں۔
نیشنل فلڈ رسپانس کے مطابق پاک بحریہ نے اندرون سندھ میں2ہیلی کاپٹر بھی تعینات کئے ہیں، اب تک6 پروازوں میں471پھنسے افراد کو ریسکیو کیا گیا۔ این ایف آرسی سی کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹرز سےراشن کے4656پیکٹ متاثرین میں تقسیم کیے گئے،۔
8ڈائیونگ ٹیموں نے متاثرہ علاقوں میں27 آپریشنز بھی کئے اور 70میڈیکل کیمپس میں57ہزار64مریضوں کا علاج کیا گیا، ہرمریض کو 3سے5دن کی مفت ادویات فراہم کی گئیں۔
پاکستان میں متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے تحریک انصاف کی فنڈ ریزنگ لائیو ٹیلی تھون مہم میں پانچ ارب روپے سے زائد کی رقم جمع ہوگئی ہے۔
یہ بات سابق وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اپنے ایک بیان میں کہی ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کیلئے کی گئی پہلی ٹیلی تھون سے5ارب روپے سے زائد رقم جمع کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ دو ارب روپے ٹیلی تھون میں بحالی کے کاموں کیلئے وقف کیے گئے ہیں۔ 29اگست سے اب تک 38لاکھ ڈالر سے زائد موصول ہوئے۔
ڈاکٹرثانیہ نشتر نے کہا کہ ایک کروڑ 78لاکھ ڈالر کی کریڈٹ کارڈز سے ادائیگی نہ ہوسکی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے1ارب90کروڑ روپے مل چکے ہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر سے تقریباً ایک لاکھ پاکستانیوں نے عطیات جمع کرائے۔
ٹیلی تھون میں اندرون اور بیرون ملک سے پاکستانیوں اور مختلف شعبوں سے وابستہ معروف افراد جن میں شوبز، کھیلوں اور سیاست سے تعلق رکھنے والی شخصیات شامل ہیں نے سیلاب متاثرین کے لیے عطیات کا اعلان کیا۔
مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہونے والی اس ٹیلی تھون مہم میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان خود بھی موجود تھے۔
کراچی : جرمنی نے بلوچستان میں سینکڑوں سیلاب متاثرین کو خوراک پہنچانے کی ذمہ داریاں سنبھال لیں، جرمن قونصل جنرل ہولگر زیگلر نے بلوچستان کادورہ کیا۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی دنیا کیلئے غیرمتوقع ہے، بین الاقوامی سطح پر امداد کرنے والے ادارے اور شخصیات متاثرین کی مدد کیلئے فوری طور پر اپنا کردار ادا کریں۔
جرمنی کی جانب سے بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کی تحصیل اوتھل میں ایک ہزارخاندانوں کیلئے مستقل خوراک کا اہتمام کیا جارہا ہے۔
امدادی خوراک بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے تعاون سے فراہم کی جارہی ہے، جرمن قونصل جنرل نے سیلاب متاثرین میں راشن تقسیم کیا۔
قونصل جنرل نے متاثرین سے ان کا احوال جانا، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی دیکھ کردل دکھی ہے، ایمرجنسی صورتحال میں بین الاقوامی ادارے، این جی اوز اورڈونرزپاکستان کی مدد کریں۔
اس موقع پر سی ای او بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام شاہنوازخان نے میڈیا کو بتایا کہ سیلاب سے تین ارب ڈالرکا نقصان ہوا ہے، ایسی مشکل صورتحال میں جرمنی کی امداد سیلاب متاثرین کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں، سیلاب کے بعد ڈائیریا، ملیریا سمیت کئی بیماریوں سے متاثرین کو بچاناہے جس کیلئے جرمنی فنڈنگ ایجنسیز کے ساتھ مل کرمشکل گھڑی میں سیلاب متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
31 سالہ زبیدہ صوبہ سندھ کے ضلع بدین کے ایک گاؤں حیات خاصخیلی کی رہائشی تھیں، مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد جب ان کے گاؤں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو ان کا خاندان سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنی جان بچا کر وہاں سے نکل آیا۔
اب ان کا خاندان دیگر سینکڑوں خاندانوں کے ساتھ جھڈو (ضلع میرپور خاص) میں سڑک پر قائم ایک خیمہ بستی میں مقیم ہے۔ جب زبیدہ سے بیت الخلا کی دستیابی کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ بھڑک اٹھتی ہیں، ’واش روم؟ وہ یہاں کہاں ہے، گاؤں میں تو ہم نے دو پیسے کما کر کچا پکا چند اینٹوں کا واش روم کم از کم بنا تو لیا تھا، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘۔
زبیدہ ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جو سیلاب زدہ علاقوں سے نکل کر اب ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں اور ایک وقت کھانے کے علاوہ انہیں کوئی سہولت موجود نہیں۔
جھڈو کے قریب سڑک پر، اور اس سمیت پورے سندھ میں قائم خیمہ بستیوں میں بیت الخلا کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں جس سے تمام ہی افراد پریشان ہیں، تاہم خواتین اس سے زیادہ متاثر ہیں۔
باقاعدہ بیت الخلا موجود نہ ہونے، اور آس پاس غیر مردوں کی موجودگی میں رفع حاجت کے لیے جانا سیلاب سے متاثر ہونے والی ان خواتین کے لیے آزمائش بن چکا ہے۔
سیلاب متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ان خواتین نے رفع حاجت سے بچنے کے لیے پانی پینا اور کھانا کھانا بے حد کم کردیا ہے جس سے پہلے سے ہی کم خوراکی کا شکار یہ خواتین مزید ناتوانی کا شکار ہورہی ہیں، یاد رہے کہ ان میں درجنوں خواتین حاملہ بھی ہیں۔
سکھر کی صحافی سحرش کھوکھر بتاتی ہیں کہ اکثر کیمپوں میں موجود خواتین چار، پانچ کا گروپ بنا کر ذرا سناٹے میں جاتی ہیں، اور چادروں یا رلی کی آڑ سے حوائج ضروریہ سے فارغ ہورہی ہیں۔
سڑک کنارے آباد ہوجانے والی خیمہ بستیوں میں لاکھوں سیلاب زدگان موجود ہیں
سحرش کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 15، 20 روز سے سکھر اور ملحقہ علاقوں میں فلڈ ریلیف کیمپس کی کوریج کے لیے جارہی ہیں، نہ انہیں کہیں مناسب بیت الخلا کا انتظام دکھائی دیا، نہ ہی میڈیکل کیمپس میں لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں جو خواتین کی بیماریوں کا علاج کرسکے۔
جھڈو کی خیمہ بستی میں بھی زیادہ تر افراد نے اپنے خیموں کے قریب رلیوں کے ذریعے ایک مخصوص حصہ مختص کر کے عارضی بیت الخلا بنایا ہوا ہے۔
زبیدہ اور دیگر خواتین نے بتایا کہ انہیں بیت الخلا کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں اور وہ آس پاس گڑھوں میں جمع بارش کا پانی جو اب گندا ہوچکا ہے، اس مقصد کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنے والے فلاحی کارکنان کا کہنا ہے کہ بیت الخلا کی عدم دستیابی سے خواتین عدم تحفظ اور بے پردگی کا شکار ہوگئی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ رفع حاجت کے لیے وہ دن کی روشنی میں نہ جائیں اور وہ اندھیرا ہوجانے کا انتظار کرتی ہیں، تاہم کئی علاقوں میں ہراسمنٹ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس سے خواتین مزید خوفزدہ ہوگئی ہیں۔
سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں فلاحی اداروں کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر ساجدہ ابڑو بتاتی ہیں، کہ رفع حاجت کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے سب سے آسان طریقہ تو ان لوگوں کو کھلے میں رفع حاجت کا نظر آرہا ہے۔
اب چونکہ وہاں لوگوں نے رہائش بھی اختیار کر رکھی ہے، تو کھلے میں رفع حاجت وہاں پر بیماریوں کا باعث بن رہی ہے، کھڑے پانی کی وجہ سے ویسے ہی وہاں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر مختلف وبائی امراض اور جلدی انفیکشنز کا باعث بن رہے ہیں جس کا شکار ان کیمپوں میں موجود ہر تیسرا شخص دکھائی دے رہا ہے۔
ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ رفع حاجت روکنے اور اس کے لیے گندا پانی استعمال کرنے، اور چونکہ یہ لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں اپنی جانیں بچا کر نکلے ہیں تو خواتین کے پاس مناسب ملبوسات بھی نہیں، تو خواتین میں پیشاب کی نالی میں انفیکشنز کی شکایت عام دیکھی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رفع حاجت روکنے کی وجہ سے، یا گندے پانی کے استعمال سے ہونے والا انفیکشن بڑھ کر گردوں تک کو متاثر کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ جھجھک کی وجہ سے خواتین یہ مسئلہ لیڈی ڈاکٹرز تک کو نہیں بتا پاتیں، جس کی وجہ سے اس کا علاج نہیں ہوتا اور مرض بڑھتا رہتا ہے۔ بعض علاقوں میں لیڈی ڈاکٹرز سرے سے موجود ہی نہیں، چنانچہ یہ توقع رکھنا بے کار ہے کہ خواتین مرد ڈاکٹرز سے اپنا علاج کروائیں گی۔
اس بات کی تصدیق صحافی سحرش کھوکھر نے بھی کی کہ متعدد علاقوں میں کیمپس کے قریب لیڈی ڈاکٹر تو کیا سرے سے میڈیکل کیمپ ہی موجود نہیں، اکثر میڈیکل کیمپ شہر کے مرکز میں لگائے گئے ہیں اور سیلاب متاثرین کو وہاں آنے کے لیے کہا گیا ہے، اب ان سیلاب متاثرین کا پاس وہاں تک جانے کا کرایہ ہی نہیں تو وہ جا کر کیسے اپنا علاج کروائیں گے۔
سیلاب سے سندھ کے 23 اضلاع تباہی و بربادی کی تصویر بن چکے ہیں
دوسری جانب محکمہ صحت کے ضلعی رین ایمرجنسی فوکل پرسن ڈاکٹر زاہد اقبال نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ضلعے میں 5 مخصوص مقامات پر فکسڈ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں، جبکہ کئی موبائل کیمپس بھی ہیں جو مختلف مقامات پر موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہر فکسڈ میڈیکل کیمپ میں 2 مرد اور 2 خواتین ڈاکٹرز موجود ہیں۔
ڈاکٹر زاہد کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے کی وجہ سیلاب زدگان میں ڈائریا کا مرض بے تحاشہ پھیل رہا ہے، صفائی کے فقدان سے جلدی بیماریاں اور مچھروں کی بہتات کے باعث ملیریا بھی زوروں پر ہے جبکہ حاملہ اور دیگر خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل میں تمام امراض کا علاج کرنے اور سیلاب زدگان کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خواتین کی ماہواری ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہوئی دکھائی دی جس میں پہلے تو کہا گیا کہ سیلاب سے بے گھر ہوجانے والی خواتین کو ماہواری کے لیے بھی سامان درکار ہے، لہٰذا اس بات کی ترغیب دی گئی کہ سیلاب متاثرین کو بھجوائے جانے والے امدادی سامان میں سینیٹری پیڈز بھی شامل کیے جائیں۔ تاہم اس پر تنقید کرتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سینیٹری پیڈز کو شہری خواتین کی عیاشی قرار دیا اور کہا کہ دیہی خواتین اس کا استعمال تک نہیں جانتیں۔
جھڈو میں سڑک کنارے قائم خیمہ بستی میں خواتین سے جب اس حوالے سے دریافت کیا گیا، تو زیادہ تر خواتین نے سینیٹری پیڈز سے لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم انہوں نے ماہواری کے دنوں کو اپنی آزمائش میں اضافہ قرار دیا۔
26 سالہ ہاجرہ نے کہا، ’یہاں چاروں طرف لوگ موجود ہیں، واش روم کے لیے جانا ویسے ہی بہت مشکل ہے، اوپر سے ان دنوں میں مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ عام حالات میں وہ ماہواری کے لیے سوتی کپڑا استعمال کرتی تھیں، عموماً تمام خواتین ہی ان کپڑوں کو دوبارہ دھو کر استعمال میں لاتی ہیں، لیکن اب کیمپ میں سامان کی بھی کمی ہے، پھر دھونے کے لیے گڑھوں میں موجود بارش کا گندا پانی ہی دستیاب ہے، ’کیا کریں، کہاں جائیں، بس مشکل ہی مشکل ہے‘، ہاجرہ نے بے بسی سے کہا۔
کیمپ میں موجود 15 سالہ یاسمین البتہ سینیٹری پیڈز سے واقف تھی۔ یاسمین نے ٹی وی پر ان کے اشتہارات دیکھ رکھے تھے، اور ایک بار انہیں استعمال بھی کرچکی تھی۔ یاسمین نے بتایا کہ سینیٹری پیڈز استعمال کرنے کے بعد اس نے انہیں دھو کر تلف کیا تھا۔ ’کیونکہ دھوئے بغیر پھینکنا گناہ ہے‘، اس نے بتایا۔
سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل سماجی کارکن فریال احمد کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے نہ صرف خواتین میں سینیٹری پیڈز تقسیم کیے ہیں بلکہ انہیں استعمال کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر ساجدہ ابڑو کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ تولیدی اعضا میں مختلف انفیکشنز اور بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اس کا اثر بعض اوقات آگے چل کر حمل کے دوران بھی ہوسکتا ہے جس سے دوران حمل یا بچے کی پیدائش میں مختلف پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بعض صورتحال میں ماہواری کے دوران ہونے والے مسائل بانجھ پن تک کا سبب بن سکتے ہیں۔
15 سالہ یاسمین کا کہنا ہے، ’ہم ماہواری کے لیے بار بار نئے کپڑوں کا استعمال نہیں کرسکتے اسی لیے استعمال شدہ کپڑے دھو کر دوبارہ استعمال کرتے ہیں، جو امیر ہیں ان کی جیب انہیں ایک دفعہ کی استعمال شدہ اشیا پھینک دینے کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہم غریب ہیں، مجبوری میں استعمال شدہ سامان دوبارہ استعمال کرتے ہیں‘۔
کراچی : مشہور ترک ڈرامہ سیریز ’ارطغرل غازی‘میں عبدالرحمان کا کردار ادا کرنے والے اداکار جلال آل پاکستان میں سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کے لیے کراچی پہنچ گئے۔
کراچی پہنچنے کے بعد ترک اداکار نے سندھ میں رضاکارانہ طور پر خدمات سر انجام دیتے ہوئے امدادی سامان کی بوریاں اپنے کندھے پر اٹھا کر سیلاب متاثرین کے خیموں تک پہنچائیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا گیا کہ جلال آل سندھ کے سیلاب متاثرین کے ساتھ گھل مل کر امدادی سرگرمیوں میں شامل ہوگئے وہ سیلاب سے متاثرہ بچوں کے ساتھ موج مستی کرکے ان کا دل بہلاتے رہے۔
یاد رہے کہ وہ اس سے قبل بھی سماجی خدمات مین پیش پیش رہتے ہیں اور ترک ہلال احمر کے ساتھ گزشتہ کئی سال سے منسلک ہیں۔
انسٹاگرام پر جلال آل نے سیلاب متاثرین کے ساتھ ایک ویڈیو اپ لوڈ کی اور لکھا کہ ترکی زندہ باد، پاکستان زندہ باد، سیلاب کی تباہی سے 4 کروڑ افراد بے گھر ہوگئے جبکہ ہزاروں اموات ہوگئیں۔
کراچی : ایم کیوایم پاکستان کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ملک سیلاب کی تباہ کاریوں جاری ہیں پھر بھی شہر قائد ملکی معیشت کو چلا رہا ہے۔
ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآباد میں رابطہ کمیٹی کی نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بارشوں کے بعد کراچی دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو بہت کم دکھایا گیا ہے، ملک میں اس وقت سب کی توجہ سیلاب متاثرین اور اس کی تباہی کی طرف مرکوز ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ان حالات میں بھی ایک شہر کراچی ہے اس ملک کی معیشت کو چلا رہا ہے، اس ملک کی عدالتیں، پولیس اور تمام معاملات یہ شہر چلا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس شہر میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی خراب ہوتی جارہی ہے، جرائم پیشہ افراد اس شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں، جرائم پیشہ افراد کا تعلق اس شہر سے نہیں ہے۔
اس شہر کے 300 سے زائد بیٹے ڈکیتوں نے قتل کردیے ہیں، صوبائی، وفاقی حکومتوں کو اس شہر کے امن و عامہ سے کوئی سروکار نہیں۔
متحدہ رہنما نے کہا کہ نہ جرائم پیشہ افراد اور نہ ہی پولیس اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں، یہ شہر پانی کا بل ادا کرتا ہے، اس شہر کے لوگوں کو ٹینکر مافیا سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس پوری ٹینکر مافیا کا تعلق اس شہر سے نہیں ہے، یہی نہیں اس شہر کے لوگ بجلی کا بل بھی دگنا ادا کرتے ہیں۔