Tag: Folk Singer

  • معروف لوک گلوکار الّن فقیر کی 19ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    معروف لوک گلوکار الّن فقیر کی 19ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    کراچی : پاکستان کے معروف لوک گلوکار الن فقیر کی19ویں برسی آج منائی جارہی ہے، صوفیانہ کلام میں جداگانہ انداز رکھنے والے گلوکار الن فقیر نے صوفیانہ کلام گا کر ملک گیرشہرت حاصل کی۔

    تفصیلات کے مطابق معروف لوک فنکار الن فقیر کو مداحوں سے بچھڑے انیس برس بیت گئے، اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت وہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں، ان کے مقبول گیت کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

    الن فقیرکو۔۔ اللہ اللہ کربھیا۔۔اور۔۔ تیرےعشق میں جوبھی ڈوب گیا۔ گانوں نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا، الن فقیرکو انیس سو اسی میں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، اس کے علاوہ شاہ لطیف ایوارڈ، شہباز ایوارڈ اور کندھ کوٹ ایوارڈز بھی ملے۔

    الن فقیر نے شاہ لطیف کے مزار سے پاکستان ٹیلی وژن تک سفر کیا، لوک گلوکاری کا بے تاج بادشاہ الن فقیر جیسا کوئی نہیں، انہوں نے ملک کو ’’تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا‘‘ اور ’’اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا‘‘ جیسے لازوال نغمے بھی دیے۔

    وادی مہران کے مردم خیز علاقےدادو ضلع میں انیس سو بتیس میں پیدا ہونے والے الن فقیر کی طبعیت شروع سی ہی صوفیانہ تھی سونے پر سہاگا قدرت نے انہیں خوبصورت آوازسے نواز رکھا تھا، ان کی گلوکاری کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا، الن فقیر نے صوفیانہ کلام گا کر ملک اور بیرون ملک میں شہرت حاصل کی۔

    الن فقیر نے اپنے فنی سفر کا آغاز شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کے ذریعے حیدر آباد ریڈیو سے کیا ،ان کا گایا ہوا گیت تیرے عشق میں جوبھی ڈوب گیا اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا انہیں فن کی دنیا میں امر کر گیا۔

    اپنے جداگانہ انداز گلوکاری کی بدولت الن فقیر کو کئی ایوارڈز بھی دیے گئے، ان میں اسی کی دہائی میں ملنے والا صدارتی ایوارڈ سرفہرست ہے۔ لوک گلوکاری کا یہ چمکتا ستارہ چار جولائی سن دو ہزار کو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا مگر وہ آج بھی اپنے چاہنے والے کے دلوں میں زندہ ہیں۔

  • معروف لوک گلوکار ٹریفک حادثے میں جاں بحق

    معروف لوک گلوکار ٹریفک حادثے میں جاں بحق

    ڈی آئی خان: ڈیرہ اسماعیل خان میں بس ڈرائیوری کی لا پرواہی سے معروف لوک گلوکار عالم محسود جاں بحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز جمعہ گومل یونیورسٹی کی بس نے رکشے کو ٹکر ماری، حادثے کے نتیجے میں جنوبی وزیرستان کے فوک گلوکار سید عالم محسود شدید زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔

    Folk Singer

    ریسکیو ذرائع کے مطابق فوک گلوکار سید عالم محسود رکشے میں سوار کام کی غرض سے جارہے تھے کہ ڈی آئی خان روڈ پر گومل یونیورسٹی نے رکشے کو ٹکر ماری ‘ رکشے میں سوار لوک گلوکار عالم محسود جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھتے تھے۔

    واقعے کی اطلاع ملتے ہی جائے حادثہ پر پہنچنے والی امدادی ٹیموں نے گلوکار کی نعش کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے،تاحال یونیورسٹی ڈرائیور کو گرفتار نہیں کیا جاسکاہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھجن میں غلطی کرنے پر مسلم گلوکار کو قتل کر دیا گیا

    بھجن میں غلطی کرنے پر مسلم گلوکار کو قتل کر دیا گیا

    راجھستان: نام نہادسیکولر بھارت کا بھیانک انتہا پسند چہرہ سامنے آگیا ، بھارتی ریاست راجھستان میں مسلم گلوکار بھجن میں غلطی کرنے پر انتہا پسند ہندوؤں کی سفاکیت شکار ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک میں اقلیتوں کے ساتھ وحشیانہ برتاؤ کا ایک اور واقعہ سامنے آگیا ، مسلمان گلوکار انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔

    راجستھان میں مسلم لوک فنکار کوہندو انتہاپسندوں نے بیدردی سے قتل کردیا، بھارتی پولیس کے مطابق بھارتی ریاست راجھستان میں ڈانٹال نامی گاؤں میں ستائیس ستمبر کو تنازعہ اس وقت شروع ہوا، جب ایک پنڈت نے لوک گلوکار احمد خان پر الزام لگایا کہ اس نے ہندو دیوی کی شان میں پڑھی جانے والی بھجن میں غلطیاں کی تھیں۔

    محض معمولی غلطی پر گلوکار کے قتل کے بعد مسلم آبادی خوفزدہ ہوکر ہجرت پر مجبور ہوگئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق اب تک دو سو سے زائد مسلمان علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں، کئی خاندانوں نےاسکول اورسرکاری عمارتوں میں پناہ لے لی ہے، انتہاپسند مودی کی سرکار میں سیکولر بھارت انتہا پسندی کی راہ پر چل پڑا مسلمان،عیسائی،سکھ اور دلت کوئی محفوظ نہیں۔


    مزید پڑھیں : گوشت کھانے کا شبہ،4 افراد پر ہجوم کا بدترین تشدد، ایک شخص ہلاک،3زخمی


    بین الاقوامی مذہبی آزادی پر کےامریکی کمیشن کی رپورٹ کےمطابق دوہزار سولہ میں بھارت میں عدم برداشت اورمذہبی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

    واضح رہے کہ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد سے مسلمان اقلیت پر ہونے والے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، انتہا پسند ہندوؤں کے حملوں میں متعدد مسلمان ہلاک بھی ہو چکے ہیں جبکہ کئی ریاستوں میں گائے کے گوشت پر پابندی بھی عائد کی جا چکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • گلوکار پٹھانے خان کی 17ویں برسی آج منائی جائے گی

    گلوکار پٹھانے خان کی 17ویں برسی آج منائی جائے گی

    فیصل آباد : معروف لوک گلوکار پٹھانے خان کی سترھویں برسی آج نو مارچ کو منائی جائے گی، پٹھانے خان کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 17 سال بیت گئے ہیں لیکن ان کے گائے ہوئے عارفانہ کلام آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صدارتی ایوارڈ یافتہ برائے حسن کارکردگی کے حامل ملک کے معروف گلوکار پٹھانے خان کی 17ویں برسی آج بروزجمعرات کو منائی جائے گی ، پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد تھا۔

    پٹھانے خان سنہ 1926کو تمبو والی بستی کوٹ ادو میں پیدا ہوئے، انہیں غزل، کافی، لوک گیتوں پر بے حد کمال حاصل تھا، پٹھانے خان نے کئی دہائیوں تک اپنی سریلی آواز کا جادو جگایا اور خواجہ غلام فرید ، بابا بلھے شاہ ، مہر علی شاہ سمیت کئی شاعروں کے عارفانہ کلام کو گایا، جس پر حکومت نے اس نامور گلوکار کو 1979 میں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔

    پٹھانے خان کا مشہور و معروف صوفیانہ کلام ’’میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں‘‘ قارئین کی نذر

    پٹھانے خان نے 79 مختلف ایوارڈز حاصل کیے اور ذوالفقار علی بھٹو بھی لوک گلوکار کی دل میں اترنے والی آواز کے معترف تھے جن کے فن کلام کو ان کے دیرینہ دوست اور بیٹے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ پٹھانے خان کی آواز میں درد کے ساتھ بے پناہ کشش بھی تھی اور اسی لیے ان کا عارفانہ کلام سنتے ہی سامعین پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔

    ان کے مشہور صوفیانہ کلام میں میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں، الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو ان کی دنیا بھر میں شہرت کا باعث بنا۔

    ان کا یک اور شاہکار کلام ’’الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو‘‘ قارئین کی نذر

    اس کے علاوہ جندڑی لئی تاں یار سجن، کدی موڑ مہاراں تے ول آوطناں، آ مل آج کل سوہنا سائیں، وجے اللہ والی تار، کیا حال سناواں، میرا رنجھنا میں کوئی ہور، اور دیگر ان کے مشہور گیتوں میں شامل ہیں.

    پٹھانے خان 74سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد سنہ 2000میں انتقال کرگئے لیکن ان کے فن کے سحر میں مبتلا مداحوں نے کوٹ ادو کے تاریخی بازار کو ہی ان کے نام سے منسوب کر دیا۔

    مرحوم کی برسی کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں ان کی یاد میں تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں پٹھانے کی فن لوک موسیقی کیلئے نمایاں خدمات پر ان کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

  • صحرائے بلبل کو بچھڑے تین برس بیت گئے

    صحرائے بلبل کو بچھڑے تین برس بیت گئے

    کراچی: خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھنے والی معروف فوک گلوکارہ ریشماں کو مداحوں سے بچھڑے تین سال بیت گئے آج اُن کی تیسری برسی منائی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تقسیم ہند کے بعد 1947 میں پیدا ہونے والی اور خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ ریشماں نے 12 برس کی کمر عمر میں ریڈیو پاکستان سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔

    بعد ازاں انہیں فوک سنگر کے طور پر باقاعدہ پہچان ملی، ریشماں نے اپنے کیرئیر ویسے تو بہت سے گانے گائے تاہم اُن کے مشہور ہونے والے گانوں میں ’’چار دنا دا پیار او ربا، اکھیوں کے آس پاس، بانئیں اور لگ دا دل میرا‘‘ شامل ہیں۔

    غریب اور خانہ بدوش گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے گلوکارہ باقاعدہ تعلیم خاصل نہ کرسکیں تاہم وہ بہت کم عمری سے ہی صوفیاء کرام کے مزاروں پر منقبت پڑھتی تھیں۔ ریشماں کو پذیرائی اُس وقت ملی جب انہوں نے معروف صوفی بزرگ حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر ’’ہو لعل میری‘‘ قوالی پیش کی۔ علاوہ ازیں ان کے کئی گانے بھارتی فلموں میں بھی آئے۔

    ریڈیو پر کامیابیاں سمیٹنے کے بعد گلوکارہ کو ٹی وی میں آنے کا موقع ملا یہاں بھی انہوں نے انتھک محنت اور لگن سے پرفارم کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔ اُن کی پذیرائی اور کلاموں کو دیکھتے ہوئے بھارت کے سابق وزیر اعظم نے ریشماں کو بھارت آنے کی خصوصی دعوت دی تھی۔

    ریشماں کو 1980 میں طبیعت ناساز ہونے پر اسپتال منتقل کیا گیا تاہم رپوٹس آنے پر انہیں گلے کے کینسر کا انکشاف سامنے آیا۔ غربت کے باعث گلوکارہ اپنا مناسب علاج نہ کرواسکیں تاہم سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں انہیں بھرپور امداد فراہم کی۔

    طویل علالت کے بعد گلوکارہ 3 نومبر 2013 کو طویل علالت کے بعد انتقال کرگئی، اُن کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز اور ’’بلبل صحرا‘‘ کا خطاب عطاء کیا۔