Tag: food

  • گردوں کی بیماری کن غذاؤں کی وجہ سے ہوتی ہے؟

    گردوں کی بیماری کن غذاؤں کی وجہ سے ہوتی ہے؟

    گردوں کی خرابی جسے اینڈ اسٹیج رینل ڈیزیز بھی کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں 84 کروڑ افراد گردوں کے مختلف امراض سے متاثر ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک شخص گردوں کی کوئی نہ کوئی بیماری میں مبتلا ہے، جب گردے فیل ہوجاتے ہیں، تو مریض ڈائیلاسز یا گردے کی پیوند کاری کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

    اس پریشانی سے بچنے کیلیے ڈاکٹر محمد انیس نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ وہ کون سی عادات اور غلطیاں ہیں جس کے سبب انسان کے گردے خرابی کی طرف جاتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ بہت سی غذائیں بھی گردے تباہ کردیتی ہیں اگر آپ بھی یہ کھانے استعمال کررہے ہیں تو آپ خود اپنے گردوں کی خرابی کے ذمہ دار ہیں۔

    سب سے پہلے ڈبل روٹی یا سلائس جو ہمارے پاکستان میں بہت زیادہ رغبت سے کھائے جاتے ہیں ڈبل روٹی کو نرم رکھنے کیلیے پوٹاشیم برومیٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ گردوں کی بیماری کا سبب گوشت کا بہت زیادہ استعمال اور فرائیڈ اشیاء وغیرہ ہیں، اگر آپ تلا ہوا گوشت کھاتے ہیں تو اس سے بھی گردوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

    تیسرے نمبر پر آرٹیفشل ڈائی یعنی کھانے تیار کرتے ہوئے ان میں فوڈ کلرز کا استعمال گردوں کیلیے تباہ کن ہے، یہ گردوں کو بہت زیادہ ڈیمج کرتے ہیں۔

    اس کے ساتھ سافٹ ڈرنکس بھی گردوں کی بیماری کا ذریعہ ہیں اور گردوں کیلیے انتہائی مضر ہیں اس کو پینے سے گردے جلدی خراب ہوتے ہیں، اور جو لوگ ذرا ذرا سے درد کیلیے پین کلر اینٹی بائیوٹک ادویات لیتے ہیں یاد رکھیں اس کو بہت ہی مجبوری یا ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں۔

    ڈاکٹر محمد انیس نے بتایا کہ جو لوگ پیشاب آنے پر اسے روک لیتے ہیں یا اس کا فوری اخراج نہیں کرتے یہ عمل بھی گردوں کو نقصان پہچاتا ہے۔

    یاد رکھیں سوڈیم، پوٹاشیم فاسفورس میں کم خوراک کھانے اور گردے کو نقصان پہنچانے والی دیگر غذاؤں سے پرہیز کرکے گردے کے نقصان کے خطرے کو کم کرنا ممکن ہے۔

    ہفتے کے دوران تازہ، قدرتی طور پر کم سوڈیم والے اجزاء جیسے گوبھی، بلیو بیری، مچھلی اور اناج استعمال کریں۔

     

  • کیا ہم غذا کے نام پر پلاسٹک کھا رہے ہیں؟ ماہرین کا ہولناک انکشاف

    کیا ہم غذا کے نام پر پلاسٹک کھا رہے ہیں؟ ماہرین کا ہولناک انکشاف

    موجودہ دور میں ہر چیز میں پلاسٹک کا استعمال ضرورت سے زیادہ بڑھ چکا ہے اور بات اس حد تک جا چکی ہے کہ ہم اپنی غذا کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے پلاسٹک کو جسم میں داخل کررہے ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کرّہِ ارض کے ہر حصے میں سرایت کرچکے ہیں۔

    یہ ذرات براعظم انٹارکٹکا کی سمندری برف اور اس سمندر کی گہری کھائیوں میں رہنے والے جانوروں کی آنتوں اور دنیا بھر میں پینے کے پانی میں سرایت کرچکے ہیں۔

    ماہرین صحت کی ایک بڑی تعداد مائیکرو پلاسٹک کے اثرات کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے جو انسانی جسم کے تقریباً تمام اعضاء میں پائے گئے ہیں۔

    پلاسٹک پھیپھڑوں سے لے کر گردوں اور پھر خون تک میں پایا گیا ہے، سائنس دان ابھی تک صحت پر ان کے اثرات کے بارے میں یقینی طور پر کوئی فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں۔

    پلاسٹک ہماری کرہ ارض کا بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یوں لگتا ہے بہت جلد ہماری زمین پلاسٹک کی ایک دبیز تہہ سے ڈھک جائے گی۔

    چونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا چنانچہ غیر ضروری سمجھ کر پھینکا جانے والا پلاسٹک ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور اس کے بعد یہ دریاؤں، ندی نالوں حتیٰ کہ زمین کی مٹی میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔

    پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے جن کا اوسط وزن 5 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے، یہ پلاسٹک ہمارے جسم کے اندر بھی جارہا ہے۔

    ہم سانس لینے، کھانے اور پینے کے ساتھ پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو بھی اپنے جسم کے اندر لے کر جارہے ہیں اور اگر جانچ پڑتال کی جائے تو ہمارے جسم کے اندر اچھا خاصا پلاسٹک مل سکتا ہے۔

    مائیکرو پلاسٹک کے ذرات (5 ملی میٹر سے کم) ہوا، پانی، خوراک، پیکیجنگ، مصنوعی ٹیکسٹائل، ٹائر اور کاسمیٹکس میں پائے گئے ہیں۔ ہر روز انسان سانس لیتے ہوئے یا دیگر مادوں کے رابطے میں آنے کے بعد ان ذرات کو نگل رہے ہیں۔

    لی مینز انسٹی ٹیوٹ برائے مالیکیولز اینڈ میٹریلز کے محقق فابین لیگارڈ نے فرانسیسی پارلیمنٹ کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران کہا ہے کہ 2024 کے شخص کے جسم کے تقریباً تمام حصوں میں پلاسٹک کا مواد موجود ہے۔

    انہوں نے کہا کہ توقع کی جارہی ہے کہ 2040 میں پیدا ہونے والے بچوں کے حوالے سے صورت حال انتہائی ابتر ہوجائے گی۔ حالیہ برسوں میں سائنسدانوں نے پھیپھڑوں، دل، جگر، گردوں، اور یہاں تک کہ نال اور خون میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات دیکھے ہیں۔

  • چاکلیٹ کے علاوہ کون سی غذا دانتوں کو جلدی خراب کرتی ہے؟

    چاکلیٹ کے علاوہ کون سی غذا دانتوں کو جلدی خراب کرتی ہے؟

    مسکراہٹ کو خوبصورت بنانے میں ہمارے دانتوں کا کردار بہت اہم ہے اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ ہنستے ہوئے اچھے لگیں تو دانتوں کی صحت کا خیال رکھیں۔

    دندان سازوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اکثریت دانتوں کو درکار توجہ دینے میں ناکام رہتی ہے جس کی وجہ سے دانتوں کی صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔

    ماہرین نے دانتوں کی صفائی کے لئے چند اہم تجاویز دی ہیں جن پر عمل کرکے دانتوں کی صحت کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

    ہماری صحت کا دارومدار ہماری غذا اور منہ سے ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی تمام غذاؤں سے پرہیز کیا جائے جو منہ کی صحت کو خراب کرکے دانتوں کو نقصان پہچاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کچھ غذائیں جن کے بارے تصور کیا جاتا ہے کہ وہ دانتوں کے لیے بری نہیں ہے تاہم وہ حیران کن حد تک منہ کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں ان ہی میں کاربوہائیڈریٹ سے تیار کھانے شامل ہیں۔

    اس حوالے سے دانتوں کی صحت کی ماہر وٹنی ڈی فوگیو کا کہنا ہے کہ خمیری کاربوہائیڈریٹس جو چپچپے اور روٹی کی طرح ہوتے ہیں جیسے سفید روٹی، پاستا، چپس، سیریل اور کریکرز آپ کے موتی کی طرح سفید دانتوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔

    خمیری کاربوہائیڈریٹ جب آپ کھاتے ہیں تو چبانے کے دوران یہ ٹوٹ کر شکر میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور یہی ان کے نقصان دہ ہونے کی اصل وجہ ہے۔

    اس طرح یہ مخصوص کاربوہائیڈریٹ منہ کو زیادہ تیزابی بناتے ہیں جبکہ منہ میں موجود لعاب آپ کے دانتوں سے اس چپچپے کھانے کو ہٹانے کے لیے بہت زیادہ کام کرتا ہے جس سے دانتوں کے سڑنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    فوگیو نے مزید یہ بھی کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کینڈی چینی ہے، ٹھیک ہے، لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ روٹی میں بھی چینی ہے۔ جبکہ دوسری طرف، ڈارک چاکلیٹ حیرت انگیز طور پر آپ کے دانتوں کے لیے اچھی ہے کیونکہ اسے آسانی سے دانتوں پر سے صاف کیا جاسکتا ہے اسی طرح ایسی تمام غذائیں جنہیں زیادہ چبانے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے گاجر، سیلری جیسی کچی سبزیاں،سالم اناج عام طور پر آپ کی دانتوں کی صحت کے لیے بہتر ہیں۔

    اگر آپ تھوڑی سی مٹھائی اور کچھ نمکین جیسے چپس کھانے کے شوقین ہیں تو انہیں ایک ہی وقت میں کھا لیں تاکہ دانتوں کو صفائی یعنی آپ کا لعاب اور آپ کے منہ میں موجود تیزابی پی ایچ کو شوگر کو بے اثر کرنے کا وقت مل سکے، اگر آپ دن بھر یہ غذائیں کھاتے رہیں گے تو یہ دانتوں کے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔

    فوگیو نے یہ بھی کہا کہ جس ترتیب میں آپ اپنی پسندیدہ غذائیں کھاتے ہیں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دانتوں پر جن کا کوئی اثر نہ ہو جیسے پھل، سبزیاں اور ڈیری آئٹمز خاص کر دہی ہمیشہ آخر میں استعمال کرنے چاہیے۔

    مثال کے طور پر، اگر آپ پنیر کھا رہے ہیں، تو کوشش کریں کہ اسے آخر میں کھائیں تاکہ آپ کے منہ میں موجود تیزابی پی ایچ کو کیویٹی پیدا کرنے والے مادوں کو بے اثر کرنے میں مدد مل سکے۔

    لیکن اگر آپ کے پیلیٹ میں اس قسم کی کوئی بے اثر کرنے والی غذا نہیں ہے تو آپ پانی پی لیں تاکہ دانتوں میں غذا کے ذرات اور اس کے اثر کو دور کیا جاسکے۔ کھانا صحت بخش غذاؤں پر مشتمل ہی کیوں نہ ہو اگر یہ دانتوں پر زیادہ دیر تک رہے تو کیویٹی اور مسوڑھوں کی بیماری کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔

    فوگیو نے خبردار کیا کہ اگر کھانے کے بعد چپچپا مادہ دن بھر دانتوں پر جمع رہے، تو یہ مستقل ٹارٹر کی صورت اختیار کر لیتا ہے اسے سخت ہونے اور کیویٹی بننے میں 24 سے 72 گھنٹے لگتے ہیں۔ لہٰذا، فلاسنگ کا ایک دن بھی ناغہ نقصان دہ پلاک کی تعمیر کو تیز کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ مسوڑھوں کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ اور لوگوں میں دانتوں کے گرنے کی سب سے بڑی وجہ مسوڑھوں کی بیماری ہے، کیویٹی نہیں۔

    مسوڑھوں کی بیماری سے دیگر صحت کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں جیسے امراض قلب اور گردے کی بیماری، ذیابیطس، الزائمر۔ مسوڑھوں میں موجود خون کی نالیاں جسم کے تمام اعضاء سے جڑی ہوئی ہیں، اور یہ خراب ٹارٹر بیکٹیریا آپ کے دل کو متاثر کر کے امراض قلب کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔

    لہٰذا دن میں ایک بار دانتوں کی اچھی طرح صفائی نہ صرف دانتوں کی بیماری سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ امراض قلب سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔

  • سعودی عرب: فوڈ انڈسٹری میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری و منافع

    سعودی عرب: فوڈ انڈسٹری میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری و منافع

    ریاض: سعودی عرب میں غذائی صنعت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، اگلے 12 سال میں یہ صنعت اربوں ڈالر کا سرمایہ کاری کرے گی۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی وزیر صنعت و معدنی وسائل بندر الخریف کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی خوراک کی صنعت سنہ 2035 تک 20 ارب ڈالر کے فروغ کے لیے تیار ہے۔

    پولٹری، ڈیری، بیکری اور مٹھائی کے شعبوں کو نئے فنڈز کے ساتھ ساتھ مشروبات اور جوس کی صنعتوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ سرمایہ کاری زرعی پیداوار میں بھی اضافہ کرے گی جس سے مملکت کو تقابلی فوائد حاصل ہوں گے۔

    یہ فیصلہ قومی صنعت کی حکمت عملی کے مقاصد کے مطابق 2022 میں زرعی برآمدات کو 3.7 ارب ڈالر سے 2035 میں 10.9 ارب ڈالر تک دگنا کرنے کے بھی مطابق ہے۔

    قومی صنعتی حکمت عملی کا مقصد وژن 2030 میں بیان کردہ فوڈ سیکیورٹی اور اقتصادی تنوع کے اقدامات کو فروغ دینا ہے۔

    سعودی وزیر کا کہنا ہے کہ پولٹری سیکٹر کے منصوبے جیسے المرائی کمپنی کا پولٹری کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے 1.2 ارب ڈالر کا منصوبہ اور سیارا عربیہ فوڈ انڈسٹریز کمپنی کی 120 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اس شعبے کی ترقی کے لیے سب سے اہم اقدامات تھے۔

    وزیر صنعت و معدنی وسائل بندر الخریف کا مزید کہنا تھا کہ 133 ملین ڈالر کا کینڈ ٹونا پراجیکٹ جس سے مملکت میں ملازمت کے چار ہزار نئے مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے، خوراک کی صنعت میں ایک اور بڑا انیشی ایٹو ہے۔

    سعودی وزیر نے پیشگوئی کی کہ مملکت کا شعبہ 2019 میں 41 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2030 تک 57 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا جس کا تخمینہ سالانہ شرح نمو 3 فیصد ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فوڈ انڈسٹری کی مارکیٹ میں یہ ترقی خوراک اور مشروبات پر صارفین کے اخراجات میں 1.4 فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ آبادی میں 1.73 فیصد اضافے سے ہوگی۔

    سعودی زرعی اور لائیو سٹاک انویسٹمنٹ کمپنی نے اس ماہ کے اوائل میں برازیل کے سب سے بڑے پولٹری پروڈیوسر بی آر ایف ایس اے کی جانب سے 900 ملین ڈالر کی ممکنہ نئی پیشکش میں حصص خریدنے کا عہد کیا۔

    مارفرگ گلوبل فوڈز ایس اے جو بی آر ایف کے 33 فیصد کی مالک ہے، نے بقیہ 250 ملین شیئرز خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔

  • کون سی غذائیں ڈپریشن سے نجات دلا سکتی ہیں

    کون سی غذائیں ڈپریشن سے نجات دلا سکتی ہیں

    ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس کا شکار اکثر افراد ہوجاتے ہیں، ڈپریشن محض دماغ تک محدود رہنے والا مرض نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں جسم بھی متاثر ہوتا ہے۔

    کچھ غذاؤں کا استعمال کر کے آپ اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔

    ماضی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق صحت کے لیے مفید غذاؤں کے استعمال سے ڈپریشن کے شکار افراد میں بیماری کی علامات کی شدت میں کمی آتی ہے۔

    اس مقصد کے لیے غذائی اجزا سے بھرپور غذاؤں کا زیادہ جبکہ جنک فوڈ اور میٹھے کا کم از کم استعمال کرنا چاہیئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈپریشن کا شکار افراد اپنی غذا سے اس بیماری کی علامات کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔

    کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق غذا میں سیلنیئم کا استعمال بڑھانے سے مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ انزائٹی کی شدت میں کمی آتی ہے، یہ جز سالم اناج، سی فوڈ اور کلیجی میں پایا جاتا ہے جبکہ اس کے سپلیمنٹس بھی دستیاب ہیں۔

    اس کے علاوہ مچھلی، کلیجی، انڈوں اور دودھ کا بھی استعمال کریں جبکہ پھلوں، سبزیوں اور گریوں پر مشتمل غذا میں اینٹی آکسائیڈنٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس سے ڈپریشن کی علامات سے نجات بھی ملتی ہے۔

    اسی طرح فولک ایسڈ کے حصول کے لیے سبز پتوں والی سبزیاں، پھل یا ان کے جوس، گریاں، پھلیاں، دودھ سے بنی مصنوعات، انڈے، سی فوڈ اور سالم اناج کا استعمال کرنا چاہیئے۔

  • ڈیلیوری رائیڈر 2 ہزار روپے ٹپ لے کر بھی ناراض

    ڈیلیوری رائیڈر 2 ہزار روپے ٹپ لے کر بھی ناراض

    کسی کو سروس فراہم کرنے کے لیے ٹپ دینا ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور بہترین کام کے لیے شکریے کا اظہار ہے، تاہم یہ ادائیگی کا لازمی حصہ نہیں ہے۔

    امریکا میں البتہ ٹپ کلچر خاصی اہمیت رکھتا ہے اور ہر جگہ ہی ٹپ دینا معمول ہے، تاہم ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں جب ملازمین کم ٹپ دینے پر باقاعدہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔

    امریکی شہر نیویارک میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جب کھانے کی ڈلیوری کرنے والی خاتون اچھی خاصی ٹپ کو کم قرار دے کر آرڈر کیا ہوا کھانا واپس لے کر چلی گئیں اور کسٹمر ہکا بکا رہ گیا۔

    ویڈیو میں، جو اب سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے، دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈور ڈیش نامی فوڈ سروس کمپنی کی خاتون رائیڈر کھانے کی ڈلیوری دینے پہنچیں۔

    گھر کے مالک نے انہیں کھانا دروازے پر رکھ کر جانے کا کہا لیکن خاتون نے سیکیورٹی کیمرے کے ذریعے انہیں کہا کہ وہ ان سے کچھ بات کرنا چاہتی ہیں۔

    مالک نے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں جس پر خاتون رائیڈر نے کہا کہ انہیں یہاں تک آنے میں 40 منٹس لگے ہیں، شاید آپ کو اس فاصلے اور محنت کا اندازہ نہیں اور آپ نے جو دیا ہے وہ بہت کم ہے۔

    مالک کے دریافت کرنے پر انہوں نے نے مزید کہا کہ انہیں 8 ڈالرز (22 سو پاکستانی روپے) کی ٹپ دی گئی ہے جو ان کی محنت کے لیے ناکافی ہے۔

    مالک نے رکھائی سے جواب دیا کہ انہیں مزید کیا چاہیئے جس پر خاتون نے کہا کہ وہ کھانا واپس لے کر جارہی ہیں اور اس کے بعد جواب کا انتظار کیے بغیر وہ کھانا اٹھا کر واپس چلی گئیں۔

    گاہک ان کی اس حرکت پر ہکا بکا رہ گیا، ویڈیو میں ان کی اور ایک خاتون کی حیرت زدہ بات چیت سنائی دیتی ہیں۔

    سوشل میڈیا پر لوگوں نے مکمل طور پر اس گاہک کی حمایت کی۔

    لوگوں کا کہنا تھا کہ 8 ڈالر اچھی خاصی ٹپ ہے، اگر رائیڈر کو زیادہ ہی رقم کی ضرورت تھی تو انہیں ٹپ پر انحصار کرنے کے بجائے کوئی دوسرا کام کرنا چاہیئے۔

    ایک اور صارف نے کہا کہ رائیڈر کو پتہ نہیں کہ کمپنی گاہک سے معذرت کرے گی، اس کی پوری رقم اور ٹپ واپس کرے گی اور ہوسکتا ہے ہرجانے کے طور پر اسے اضافی رقم یا اس کی پسند کا کھانا بھی بھجوا دے۔

    ایک اور صارف نے کہا کہ مجھے ایسے سرپھرے رائیڈرز اور ملازمین کی برطرفی کی خبریں سن کر بے حد خوشی ہوتی ہے۔

  • سیلاب سے فصلیں تباہ، عالمی سطح پر بھی غذائی قلت کا خدشہ ہے: وزیر اعظم

    سیلاب سے فصلیں تباہ، عالمی سطح پر بھی غذائی قلت کا خدشہ ہے: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خوراک کی قلت واقع ہوئی ہے، پاکستان میں بھی حالیہ سیلاب کے بعد خوراک کی صورتحال تشویش ناک ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ حالیہ تباہ کن سیلاب نے لاکھوں ایکڑ پر تیار فصلوں کو تباہ کر دیا ہے، پاکستان جیسے زرعی ملک کو بھی اس نقصان کے ازالے کے لیے اشیائے خور و نوش درآمد کرنا پڑیں گی۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آج خوراک کا عالمی دن دنیا کے مختلف ممالک کے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مجموعی عالمی اقدامات کی اہمیت اجاگر کرتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے قدرتی آفات اور عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خوراک کی پہلے ہی کمی ہوئی، اب غذائیت سے بھرپور خوراک کی عالمی سطح پر مزید قلت کا خدشہ ہے۔

    وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی ہماری زندگیوں پر کئی طریقے سے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے جس میں عالمی سطح پر غربت اور بھوک میں اضافہ سر فہرست ہے۔

  • پناہ گزین کیمپوں میں 36 لاکھ کھانے تقسیم

    پناہ گزین کیمپوں میں 36 لاکھ کھانے تقسیم

    اومان: اردن میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں 36 لاکھ کھانوں کی تقسیم کی گئی، یہ تقسیم ایک ارب کھانوں کی تقسیم کی مہم کا حصہ ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق 1 ارب کھانوں کی مہم کے تحت اردن میں پناہ گزین کیمپوں میں 36 لاکھ کھانوں کی تقسیم مکمل کرلی گئی۔

    فوری طور پر قابل تبادلہ اسمارٹ واؤچرز کی شکل میں یہ کھانے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے تعاون سے مستحقین میں براہ راست تقسیم کیے گئے۔

    ڈبلیو ایف پی کے تعاون سے، محمد بن راشد المکتوم گلوبل انیشیٹوز (ایم بی آر جی آئی ) کے زیر اہتمام ایک ارب کھانے کے منصوبے کے تحت یہ کھانے اردن کے پناہ گزین کیمپوں میں ایک فوڈ سیفٹی نیٹ بناتے ہوئے ضرورت مندوں ایک وسیع طبقے تک پہنچائے گئے۔

    اردن میں 40 ہزار 109 افراد کو فوڈ سپورٹ فراہم کرتے ہوئے، سمارٹ واؤچرز مستفید کنندگان کے موبائل فون پر الیکٹرانک کوڈ کے طور پر بھیجے گئے جس سے مستفید ہونے والے ڈبلیو ایف پی سے تصدیق شدہ دکانوں، گروسری اور بیکریوں سے اپنی ضرورت کا کھانا خرید سکتے ہیں۔

    ایم بی آرجی آئی کی ڈائریکٹر سارہ النعیمی کا کہنا ہے کہ اردن میں پناہ گزین کیمپوں میں اس مہم کے تحت ضرورت مندوں کو براہ راست کھانوں کی فراہمی ہمارے منفرد تعاون کے ماڈل کی عکاسی کرتی ہے۔

    اس مہم نے بھوک کے خلاف عالمی جنگ اور غذائی قلت، جس سے دنیا بھر میں 82 کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے، میں فعال کردار ادا کیا ہے۔

  • ایک ماہ میں 167 ارب روپے کی غذائی اشیا امپورٹ کی گئیں

    ایک ماہ میں 167 ارب روپے کی غذائی اشیا امپورٹ کی گئیں

    اسلام آباد: زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کا غذائی اشیا کے لیے امپورٹ پر انحصار برقرار ہے، جبکہ ملکی ایکسپورٹ میں کمی آئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ جولائی 2022 میں جون کے مقابلے میں ٹیکسٹائل برآمدات میں 13.21 فیصد کمی ہوئی جس کے بعد ٹیکسٹائل برآمدات 1 ارب 48 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہ گئیں۔

    ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ جون میں ٹیکسٹائل برآمدات 1 ارب 70 کروڑ 63 لاکھ ڈالر پر تھیں، جولائی 2022 میں ہونے والی ٹیکسٹائل برآمدات، جولائی 2021 کے مقابلے میں بھی 0.67 فیصد کم ہوئیں۔

    دوسری جانب جولائی میں 167 ارب 46 کروڑ روپے کی غذائی اشیا درآمد کی گئیں، جولائی میں سالانہ بنیادوں پر غذائی اشیا کی درآمد میں 62.06 فیصد اضافہ ہوا۔

    جولائی میں چائے کی درآمد میں 51.51 فیصد اضافہ ہوا اور 9 ارب 94 کروڑ 50 لاکھ روپے کی چائے درآمد کی گئی۔

    گندم کی درآمد میں 100 فیصد اضافہ ہوا اور 23 ارب 5 کروڑ 10 لاکھ روپے کی گندم درآمد کی گئیں، پام آئل کی درآمد میں 62.03 فیصد کا اضافہ ہوا اور 65 ارب 69 کروڑ 10 لاکھ روپے کا پام آئل درآمد کیا گیا۔

    جولائی میں 9 کروڑ 80 لاکھ روپے کی چینی درآمد کی گئی۔

    11 ارب 64 کروڑ 10 لاکھ روپے کی دالیں، 2 ارب 9 کروڑ 40 لاکھ روپے کا بچوں کا دودھ اور کریم اور 47 ارب 90 کروڑ 60 لاکھ روپے کی دیگر غذائی اشیا درآمد کی گئیں۔

  • وہ غذائیں جو ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں

    وہ غذائیں جو ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار ہے تاہم اس کے بارے میں شعور و آگاہی بے حد کم ہے۔

    حال ہی میں بین الاقوامی ماہرین نے ڈپریشن کے حوالے سے کچھ نئی تحقیق کی ہیں۔

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق ڈپریشن کسی کو بھی ہوسکتا ہے، اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس یا بیزار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے چینی اور بے بسی کا شکار رہتے ہیں تو آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن بھی ایک باقاعدہ بیماری ہے، اس کی دیگر علامات میں ٹھیک سے نیند نہ آنا، بھوک نہ لگنا یا وزن میں کمی، فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور توجہ و یاداشت کی کمی جیسے مسائل بھی شامل ہیں یہاں تک کہ اس بیماری کا شکار لوگ اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔

    ماہرین نفسیات نے دماغی، نفسیاتی اور اعصابی سکون اور توانائی حاصل کرنے کے لیے قیمتی مشورے دیے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق سبزے، درخت اور پرسکون قدرتی مقامات دماغی سکون کا باعث ہوتے ہیں اور ان کے اثرات کئی ہفتوں تک برقرار رہتے ہیں۔

    اکثر لوگ کسی نہ کسی بات پر پریشانی کا شکار ہو کر مایوس ہوجاتے ہیں، ایسی صورتحال میں انہیں چاہیئے کہ وہ اہل خانہ اور دوستوں سے رابطہ کریں کیوں کہ حوصلہ افزا اور تسلی بخش جملے آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے اور آپ کا اعتماد بڑھے گا۔

    کیا ڈپریشن سے بچنا ممکن ہے؟

    آپ بھی کسی شخص کو ڈپریشن سے بچا سکتے ہیں، ڈپریشن کے شکار شخص سے پوچھا جائے کہ وہ کس مشکل کا شکار ہے اور کیا اسے کسی قسم کی مدد درکار ہے۔

    اگر آپ کسی کے بارے میں جان لیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہے، تو بہتر ہوگا کہ آپ ان پر نظر رکھیں اور انہیں مائل کریں کہ وہ کسی ماہر نفسیات یا پروفیشنل سے مدد لینے پر مان جائیں لیکن اگر وہ ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں تو آپ خود جا کر کسی معالج سے مشورہ کر سکتے ہیں اور پوچھ سکتے ہیں کہ اس صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہیئے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے علاوہ آپ دیگر ذرائع جیسا کہ انٹرنیٹ وغیرہ سے بھی معلومات اکھٹی کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی بیماری کی شدت فراغت کے سبب زیادہ محسوس ہوتی ہے، اس کے بر عکس اگر انسان کسی نہ کسی کام میں خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر مصروف رکھے گا تو اس سے اس بیماری کی شدت میں کمی واقع ہوگی۔

    اگر انسان دن کے 24 گھنٹوں کو ایک نظم و ضبط کے ساتھ ترتیب دے تو اس سے اس کو اس بیماری کا مقابلہ کرنے کی طاقت مل سکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ پھلوں میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ ان کے استعمال سے موڈ بہتر ہوتا ہے اور ایسے ہارمون جو ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں، ان کا لیول تیزی سے کم ہوتا ہے۔

    خاص طور پر رس والے پھل جن میں انگور، کینو وغیرہ شامل ہیں، ڈپریشن کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔

    ڈپریشن سے بچانے والی غذائیں

    ماہرین کے مطابق مندرجہ ذیل غذائیں ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں۔

    وٹامن سی: ترنجی پھل، ہری سبزیاں اور دیگر پھل اور سبزیاں۔

    وٹامن ڈی: مچھلی، جھینگے، انڈے اور دودھ، پھلوں کے رس اور اناج سے بنی مصنوعات۔

    بی وٹامنز: سرخ گوشت، مچھلی، انڈے، دودھ کی مصنوعات، دلیہ اور پتوں والی ہری سبزیاں۔

    میگنیشیم، سیلینیم اور زنک: خشک میوے، بیج، دلیہ، ہری سبزیاں اور مچھلی۔

    کاربوہائیڈریٹس: بھوسی والی روٹیاں اور دلیہ، لال چاول، باجرا، پھلیاں اور نشاستہ دار سبزیاں، آلو، مکئی، مٹر۔

    بغیر چربی کا سرخ گوشت، مرغی کا گوشت، انڈے اور پھلیاں۔

    اومیگا 3 فیٹی ایسڈز: مچھلیاں، اخروٹ، گوبھی، پالک، گرما، کنولا اور السی کا تیل۔

    اومیگا 6 فیٹی ایسڈز: مرغی، انڈے، اناج اور سبزیوں کڈا تیل۔