اسلام آباد : چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد نے ایک کیس کی سماعت کے دوران نیب پراسکیوٹر کو مقدمے کی تیاری کرکے نہ آنے پر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ کیس کی مکمل تیاری کر کے آئیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ملازم محمد شفیق کی ملازمت سے جبری ریٹائرمنٹ کیخلاف اپیل کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپیل کی سماعت کی۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر عدالت کے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر رہے، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے نیب پراسیکیوٹر عمران الحق کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صاحب آپ یہاں کھڑے ہوکر کیا کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے مقدمے کی کوئی تیاری نہیں کی، آپ نے مقدمے کے قانونی پہلوؤں پر عدالت کی کوئی معاونت نہیں کی، وقفے کے بعد کیس کی مکمل تیاری کر کے آئیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسارکیا کہ قانون کے مطابق غیر حاضری پر کیا سزاہو سکتی،؟ ہمیں مقدمے کی مکمل ہسٹری بتائیں۔
اپیل کی سماعت کے موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے نیب پراسیکیوٹر سے کیا کہ کیا آپ مقدمے کی مکمل تحقیق کرکے نہیں آئے؟، آپ مقدمے سے متعلق عدالتی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
جسٹس سجاد علی کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق برطرف ملازم سات سال میں ایک ہزار 66 دن غیرحاضر رہا۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ملازم کو غیر حاضری پر جبری ریٹائر کیا گیا، اس کی رخصت کو بغیر تنخواہ کے رخصت قرار دیا گیا، ملازم کو دو سزائیں نہیں دی گئیں۔ بعد ازاں کیس کی سماعت میں وقفہ ہوگیا۔
سماعت کے دوران وقفے کے بعد سپریم کورٹ نے نیب کی اپیل منظور کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس اعجاالاحسن نے کہا کہ محمد شفیق کو مس کنڈکٹ پر محکمے نے جبری ریٹائر کیا ہے، محکمے نے درخواست کو جبری ریٹائرمنٹ کے بعد منظور کیا، بظاہر محکمہ اس عمل کا مجاز ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ کسی نجی اسپتال کا نہیں بلکہ سرکاری اسپتال کا میڈیکل سرٹیفکیٹ محکمے کو دیا گیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک بار پھر کہا کہ نیب پراسیکیوٹر صاحب آپ کام پر دھیان دیں، نیب پراسیکیوٹر تیاری کے بغیر عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا نیب کیسز میں عدالت نے کام کرنا ہے یا نیب پراسیکیوشن نے؟ آج بھی مقدمے میں نیب کی کوئی متعلقہ عدالتی نظیر پیش نہیں کی گئی۔