Tag: Ford

  • کاریں بنانے والی بڑی کمپنی کا بھارت چھوڑنے کا اعلان

    کاریں بنانے والی بڑی کمپنی کا بھارت چھوڑنے کا اعلان

    نئی دہلی: فورڈ کو بھارت میں 2 ارب ڈالرز کا نقصان ہونے کے بعد کمپنی نے بھارت میں پلانٹ بند کرنے کا اعلان کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق تقریباً دو بلین ڈالر کا نقصان اٹھانے کے بعد فورڈ موٹر کمپنی بھارت میں گاڑیاں بنانا بند کر رہی ہے، کیوں کہ اسے بھارت میں منافع کے حصول کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا، اس طرح وہ ایشیائی حریفوں کے زیر اثر ترقی کرتی ہوئی بڑی مارکیٹ کو چھوڑنے والی ایک اور کار ساز کمپنی بن گئی ہے۔

    فورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت میں وہ کار بنانے کے دونوں پلانٹ بند کر رہی ہے، کمپنی کے مطابق 2022 کی دوسری سہ ماہی تک ریاست گجرات اور تمل ناڈو میں کارخانے بند کر دیے جائیں گے۔ تاہم کمپنی کے اعلان کے مطابق کار انجن بنانے کی فیکٹری بدستور بھارت میں رہے گی، جہاں سے تیار کیے گئے انجن بیرون ملک برآمد کیے جائیں گے۔

    سعودی عرب: نئی طرز کی گاڑیاں تیار کرنے کا اعلان

    واضح رہے کہ فورڈ تیسری ایسی امریکی کمپنی ہے جس نے حالیہ برسوں میں بھارت میں اپنا کاروبار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل 2017 جنرل موٹرز نے بھارتی مارکیٹ سے بوریا بستر سمیٹا تھا، اور ہارلے ڈیوڈسن نے بھی انڈین مارکیٹ کے لیے کاریں بنانا بند کر دیا تھا۔

    نئی کاروں کی مانگ میں بے حد کمی کی وجہ سے بھارت میں کاریں بنانے والی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، فورڈ بھارت میں اپنی گاڑیوں کے 5 مختلف ماڈلز متعارف کرا چکی ہے اور یہ کمپنی گزشتہ پچیس سالوں سے بھارت میں کاریں تیار کر رہی ہے۔

  • فورڈ کی مینیجر ادارے کو خواتین کے لیے محفوظ بنانے میں کوشاں

    فورڈ کی مینیجر ادارے کو خواتین کے لیے محفوظ بنانے میں کوشاں

    مختلف اداروں اور شعبوں میں جنسی ہراسمنٹ کے الزامات نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور کام کرنے والے مقامات پر خواتین کے تحفظ کے حوالے سے دنیا بھر میں بحثیں جاری ہیں۔

    اس حوالے سے بڑے عہدوں پر کام کرنے والے افراد پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے ادارے میں خواتین کو کام کرنے کے لیے باعزت، محفوظ اور پیشہ وارانہ ماحول فراہم کریں۔

    ایسی ہی ایک کوشش ڈیبرا منزانو بھی کر رہی ہیں جو امریکی موٹر کمپنی فورڈ کی پروڈکشن مینیجر ہیں، ڈیبرا فورڈ کا کلچر تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔

    ڈیبرا گزشتہ 25 سال سے فورڈ سے منسلک ہیں اور گزشتہ برس ہی انہیں پروڈکشن مینیجر کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔ وہ اس وقت کمپنی کے شمالی امریکا میں واقع 27 پلانٹس میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی خاتون ہیں۔

    وہ چاہتی ہیں کہ وہ اس کلچر کو تبدیل کریں جہاں لوگ آسانی سے ایک دوسرے کو مذاق و تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں کسی جوابی کارروائی کا خوف نہیں ہوتا۔ ان کا مقصد خواتین کے لیے ادارے میں ایک پرسکون ماحول فراہم کرنا ہے۔

    ڈیبرا کہتی ہیں، ’میرے لیے اہم یہ ہے کہ ہمارے ادارے کا ماحول ایسا ہو جہاں سب کی عزت کی جاتی ہو۔ یہ رویہ پہلے اونچے عہدے کے لوگوں سے شروع ہوگا اس کے بعد نچلی سطح پر آئے گا‘۔

    فورڈ گزشتہ کچھ عرصے سے کئی مقدمات اور الزامات کا سامنا کر رہا ہے جن کے مطابق کمپنی کے اندر امتیاز روا رکھا جارہا ہے اور نسلی تعصب برتا جارہا ہے، علاوہ ازیں جنسی ہراسمنٹ کے الزامات بھی لگائے گئے۔ دسمبر 2017 میں فورڈ کے سی ای او جم ہیکٹ نے عوامی طور پر ان واقعات پر معافی مانگی تھی۔

    ڈیبرا کا کہنا ہے کہ وہ جنسی ہراسمنٹ کے لیے صفر برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اور ایک لیڈر کا ایسا رویہ یقیناً کمپنی کے ماحول پر مثبت اثرات مرتب کر رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: سوئٹزر لینڈ میں ہزاروں خواتین کی ملک گیر ہڑتال

    ڈیبرا ہفتے میں کچھ وقت مختلف ملازمین کے ساتھ گزارتی ہیں اور ان سے دریافت کرتی ہیں کہ وہ کمپنی کے بارے میں اپنے تجربات شیئر کریں اور یہ بھی بتائیں کہ ایسا کیا کیا جائے کہ وہ خود کو ادارے میں محفوظ اور پرسکون سمجھیں۔

    انہوں نے مرد ملازمین سے بھی اس بارے میں بات کی کہ وہ خواتین ملازمین کی عزت کریں اور کام کے معاملے میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ’جب خواتین بڑے عہدوں پر فائز ہوتی ہیں تو دیگر خواتین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے منفی سلوک کے بارے میں بات کرسکیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’میں چاہتی ہوں کہ لوگ اپنے بچوں کو یہاں کام کرنے کے لیے بھیجنے کی خواہش کریں۔ میں کمپنی کے ملازمین سے بھی پوچھتی ہوں کہ کیا وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو یہاں کام کرنے کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں؟ اگر ان کا جواب نفی میں ہوتا ہے تو میں ان سے پوچھتی ہوں کہ ایسا کیا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ادارے کو زیادہ سے زیادہ محفوظ اور آرام دہ بنایا جاسکے‘۔

    ڈیبرا کا ماننا ہے کہ ایک محفوظ اور باعزت معاشرے کے لیے صرف خواتین کو ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی کوشش کرنی ہوگی۔ ’دونوں فریق مل کر ہی ایک دوسرے کے لیے بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں‘۔