Tag: Foreign employees

  • سعودی عرب میں مقیم تمام غیرملکیوں کیلئے اہم خبر

    سعودی عرب میں مقیم تمام غیرملکیوں کیلئے اہم خبر

    ریاض : سعودی عرب میں غیرملکی کارکنوں کو بنیادی طور پر دو زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جن میں تجارتی اداروں میں کام کرنے والے کارکن اور انفرادی شہریوں کی زیر کفالت ملازمت کرنے والے شامل ہیں۔

    شہریوں کی زیر کفالت کام کرنے والے کارکنوں کو "عمالہ منزلیہ” کہا جاتا ہے جسے اردو میں گھریلو ملازمین کہتے ہیں، ایسے کارکنوں کی اقامہ فیس کم ہوتی ہے اور ان کا براہ راست تعلق لیبر آفس سے نہیں ہوتا۔

    تجارتی اداروں کے ملازمین کی اقامہ فیس زیادہ ہوتی ہے اور ان کی منظوری وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود آبادی سے لی جاتی ہے جن کے اقاموں کے اجرا سے قبل "ورک پرمٹ” بنائے جاتے ہیں۔

    سعودی محکمہ پاسپورٹ ’جوازات‘ کے ٹوئٹر پر ایک شخص نے دریافت کیا کہ ’کیا کمرشل ڈرائیور کی کفالت گھریلو ڈرائیور کے طور پر کی جاسکتی ہے؟

    سوال کے جواب میں جوازات کا کہنا تھا کہ ’کمرشل ڈرائیور کے اقامہ کو ’سائق خاص‘ میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی‘۔ ایسے افراد جو کمرشل ڈرائیور ہوتے ہیں انہیں گھریلو ڈرائیور کے اقامہ پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

    واضح رہے مملکت کے قانون کے مطابق تجارتی اداروں میں کام کرنے والے غیرملکی کارکن وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود آبادی کے تحت آتے ہیں۔ ان کے ورک پرمٹ کے اجرا کے لیے سعودائزیشن کے قانون کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

    ایسے شعبے جو سعودیوں کے لیے مخصوص ہیں ان پر غیرملکی کام نہیں کر سکتے۔ ممنوعہ شعبے جن پر صرف سعودیوں کو کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے، کے لیے غیرملکیوں کو ورک پرمٹ جاری نہیں کیے جاتے۔

    بعض شعبوں میں سعودائزیشن کا تناسب مقرر ہوتا ہے جبکہ بعض ایسے شعبے جن کے لیے سعودی کارکنان موجود ہوتے ہیں ان میں غیر ملکی کارکنوں کو ملازمت نہیں دی جاتی۔

    گھریلو ملازمین جن میں فیملی ڈرائیور، چوکیدار، ہاؤس نرس، خانساماں اور خادمہ وغیرہ شامل ہیں تو یہ ملازمین ’عمالہ منزلیہ‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔

    گھریلو ملازمین کے اقاموں کا اجرا اور ان کی تجدید براہ راست محکمہ جوازات سے کی جاتی ہے جس کے لیے وزارت افرادی قوت کا تعلق نہیں ہوتا۔

    مذکورہ شعبوں میں آنے والے کارکنوں کے اقامہ کی سالانہ فیس بھی کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں کمرشل اداروں میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

    کارکن کو پانچ برس قبل ہروب کی وجہ سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا اس کو دوبارہ بلانے کا کوئی طریقہ ہے؟

    جوازات کے قانون کے مطابق وہ غیرملکی کارکن جنہیں مملکت سے کسی بھی وجہ سے ڈی پورٹ کیا جاتا ہے انہیں سعودی عرب کے لیے تاحیات بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔

    ایسے افراد جنہیں ڈی پورٹ کیا جا چکا ہو وہ نئے قانون کے تحت سعودی عرب میں کسی بھی ورک ویزے پر دوبارہ نہیں آ سکتے۔ البتہ ایسے افراد کو صرف حج یا عمرہ ویزے پر ہی آنے کی اجازت ہوتی ہے۔

    واضح رہے بعض افراد کا خیال ہے کہ چونکہ بلیک لسٹ کا قانون حال ہی میں منظور ہوا ہے۔ اس لیے اس کا اطلاق ماضی میں ڈی پورٹ ہونے والوں پر نہیں ہوتا تو یہ ایک غلط تصور ہے۔

    جوازات کی جانب سے متعدد بار اس حوالے سے وضاحت کی جا چکی ہے کہ ڈی پورٹ ہونے والوں کے بارے میں منظور شدہ قانون کے تحت انہیں تاحیات بلیک لسٹ کیا جاتا ہے۔

    ماضی میں جن افراد کو ڈی پورٹ کیا جاتا تھا، ان کے لیے ممنوعہ مدت کا بھی تعین کر دیا جاتا تھا۔ ایسے افراد کو مخصوص مدت کے دوران مملکت آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

  • سعودی عرب : غیر ملکی ملازمین کے حقوق سے متعلق بڑا فیصلہ

    سعودی عرب : غیر ملکی ملازمین کے حقوق سے متعلق بڑا فیصلہ

    ریاض : سعودی عرب میں قومی کمیٹی برائے انسداد انسانی اسمگلنگ نے کہا ہے کہ کارکن کو اقامہ نہ دینا اور  پاسپورٹ حوالے نہ کرنا بھی انسانی اسمگلنگ کی سرگرمی کے دائرے میں آتا ہے۔

    اسپانسر کو سعودی قانون کے بموجب اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنے گھریلو ملازمین میں سے کسی کا بھی اقامہ یا پاسپورٹ یا کوئی شناختی دستاویز اپنے قبضے میں رکھے اور کارکن کو اس سے محروم رکھے۔

    سبق ویب سائٹ کے مطابق انسداد انسانی اسمگلنگ کی قومی کمیٹی نے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے کارکن سے کام لینا، ایسی ڈیوٹی لینا جو اس کی ملازمت کے معاہدے کے منافی ہو اور اس سے مطابقت نہ رکھتی ہو انسانی اسمگلنگ میں شمار ہوتا ہے۔

    انسداد انسانی اسمگلنگ کی کمیٹی نے یہ بھی بتایا کہ کارکن کو دفتر یا کارخانے یا کام کی جگہ سے نکلنے سے روکنا اسے مقررہ وقت پر حقوق نہ دینا، اسے مقررہ حد سے کم محنتانہ دینا یا چھٹی کے دنوں میں چھٹی کرنے سے روکنا انسانی اسمگلنگ ہے۔

    انسداد انسانی اسمگلنگ کی قومی کمیٹی نے توجہ دلائی کہ گھریلوعملے کو صحت نگہداشت کی سہولت فراہم نہ کرنا، رہنے سہنے کے لیے جگہ فراہم نہ کرنا یا غیر معیاری رہائش دینا اور بغیر کسی وقفے کے گھنٹوں ڈیوٹی لینا انسانی اسمگلنگ میں شمار ہوگا۔

  • غیرملکی ملازمین سے متعلق سعودی حکام کی وضاحت

    غیرملکی ملازمین سے متعلق سعودی حکام کی وضاحت

    ریاض : سعودی حکام نے فلپائن سے گھریلو خادماؤں اور ملازمین کی درآمد عارضی طور پر معطل کرنے سے متعلق گردش کرنے والی اطلاعات پر وضاحت جاری کی ہے۔

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود نے بتایا کہ سماجی رابطے کی سائٹس پر یہ رپورٹ گردش کر رہی ہے کہ فلپائن سے گھریلو عملے کی درآمد عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہے۔

    سوشل میڈیا پر اس کا سبب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ فلپائنی ملازماؤں اور ایک سعودی شہری کے درمیان ہونے والا جھگڑا تھا جس کی وجہ سے درآمد معطل کی گئی ہے۔

    وزارت افرادی قوت نے بتایا کہ ‘یہ درست ہے کہ مقامی شہری اور فلپائنی ملازمہ کے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا تاہم سارا معاملہ اسی وقت سلجھا دیا گیا تھا، فلپائنی کارکن کو ریاض میں سفارت خانے کے تعاون سے وطن واپس بھیجوا دیا گیا تھا۔

    وزارت افرادی قوت نے بتایا کہ فلپائن سے ملازماوں کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہے، بیان میں کہا گیا کہ وزارت ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہر ملک ورکرز کے حقوق انہیں دلائے جائیں اور اس سلسلے میں کسی کی حق تلفی نہ ہو۔

  • سعودی عرب: غیر ملکی ملازمین کے حوالے سے ایک اور فیصلہ

    سعودی عرب: غیر ملکی ملازمین کے حوالے سے ایک اور فیصلہ

    ریاض: سعودی عرب میں سرکاری اور نجی اداروں میں غیر ملکی ملازمین کی جگہ ایل ایل بی پاس سعودی شہریوں کا تقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں رکن شوریٰ ڈاکٹر ناصح البقمی نے وزارت افرادی قوت سے مطالبہ کیا ہے کہ سرکاری اور نجی اداروں میں غیر ملکی ملازمین کی جگہ ایل ایل بی پاس سعودی شہریوں کا تقرر کیا جائے۔

    رکن شوریٰ نے یہ مطالبہ وزارت کی رپورٹ پر بحث کے دوران خصوصی سفارش کے طور پر کیا ہے۔

    ڈاکٹر ناصح البقمی نے وزارت افرادی قوت کو ہدایت کی ہے کہ سعودی افرادی قوت میں سرمایہ کاری کرنے والے نجی اداروں کو سہولتیں اور ترغیبات فراہم کرنے کا اہتمام کریں جو نجی ادارے سعودی شہریوں کو ملازمت کی تربیت کا انتظام کرے، کلیدی اور ایگزیکٹیو عہدوں پر سعودی تعینات کریں اور انہیں خصوصی سہولتیں دی جائیں۔

    مجلس شوریٰ نے وزارت افرادی قوت سے ایک مطالبہ یہ بھی کیا کہ بے روزگاری کے خاتمے کی مہم کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کیے جائیں۔

    رکن شوریٰ کی جانب سے کہا گیا کہ مملکت کے مختلف علاقوں کو کس قسم کی ترقیاتی خدمات درکار ہیں اس کا بھی تجزیہ پیش کرے، علاوہ ازیں سماجی بہبود کی نئی حکمت عملی جلد از جلد تیار کی جائے۔

    خاتون رکن شوریٰ رائدہ ابونیان نے سفارش پیش کی کہ لچکدار قانون محنت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، جو ادارے اپنے یہاں لچکدار قانون محنت کے تحت مقامی شہریوں کو ملازمت فراہم کر رہے ہوں انہیں نطاقات پروگرام کے سلسلے میں سہولت دی جائے۔

  • سعودی حکومت کا غیرملکی ملازمین کی سہولت کیلئے بڑا اقدام

    سعودی حکومت کا غیرملکی ملازمین کی سہولت کیلئے بڑا اقدام

    ریاض : سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود کے ماتحت مصالحت کرانے والے ادارے نے دو ماہ کے دوران 3 ہزار سے زیادہ دعوے نمٹا کرغیرملکیوں کے 50 لاکھ ریال سے زیادہ کے بقایا جات واپس دلادیے۔

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود نے بیان جاری کرکے بتایا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ہمیں غیرملکی ملازمین کی طرف سے تین ہزار درخواستیں موصول ہوئیں- مصالحتی ادارے نے وڈیو اجلاس کے ذریعے تنازع کے فریقوں کا موقف سنا۔

    وزارت افرادی قوت آجروں اور اجیروں کے معاملات تیزی سے نمٹانے کے لیے مصالحتی کارروائی پر زور دے رہی ہے۔ وزارت افرادی قوت نے بتایا کہ اجیر آجر کے خلاف آّن لائن درخواست ’ودی‘ سسٹم کے تحت پیش کرتا ہے۔ انتظامیہ خود کار سسٹم کے تحت سماعت کی تاریخیں متعین کرتی ہے۔

    فریقین کو سن کر ان سے شواہد طلب کیے جاتے ہیں۔ آجر اور اجیر کو حقیقت حال سے مطلع کیا جاتا ہے۔ فریقین کو مصالحت کے ذریعے تنازع طے کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ قصور وار ثابت ہونے پر آجر سے اجیر کے حقوق دلادیے جاتے ہیں۔

    وزارت افرادی قوت نے کہا کہ آجر اور اجیر کے درمیان تنازع کا مصالحتی فیصلہ ابتدائی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے فریقین کے نکتہ ہائے نظر میں خلیج پاٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    اگر فریقین راضی ہوجاتے ہیں تو معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ راضی نہیں ہوتے تو کیس لیبر کورٹ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ آجر اوراجیر دونوں کو حق ہوتا ہے کہ وہ مصالحتی فیصلہ قبول کریں یا نہ کریں، قبول کرنے پر نافذ کردیا جاتاہے اورمصالحتی فیصلے پرعدم اطمینان کے اظہار پر مقدمہ لیبر کورٹ بھیج دیا جاتا ہے۔

  • کویتی حکومت کا تارکین وطن کی سہولت کیلئے اہم فیصلہ

    کویتی حکومت کا تارکین وطن کی سہولت کیلئے اہم فیصلہ

    کویت سٹی : کورونا بحران کے آغاز سے اب تک ایسے 70 ہزار ایسے غیرملکی ریکارڈ پر آئے ہیں جن کے کویتی اقامے ختم ہوگئے ہیں۔ کویتی وزارت داخلہ نے ایسے تارکین وطن کا مسئلہ ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔

    کویتی ذرائع ابلاغ کے مطابق آئندہ ہفتے کویت کی وزارت داخلہ کے اعلی افسران بیرون کویت موجود 70 ہزار غیرملکیوں کے معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لیں گے۔

    اطلاعات کے مطابق وزارت داخلہ کے حکام تارکین وطن کی کویت واپسی سے متعلق اہم فیصلے کریں گے۔ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ زائد المیعاد اقامے والے 70 ہزار غیرملکیوں کو متعدد زمروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے- ہر زمرے میں شامل تارکین کے معاملات الگ الگ بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔

    کویتی وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جن غیرملکیوں کی کویت واپسی کا فیصلہ ہوگا ان کے لیے وزٹ ویزے جاری ہوں گے- ان ویزوں پر وہ کویت واپس آئیں گے.

    کویت پہنچ کر ان کے وزٹ ویزے سابقہ ریزیڈنٹ پرمٹ میں تبدیل کردیے جائیں گے۔ کویتی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ان 70 ہزار افراد میں سے 3 زمروں میں شامل غیرملکیوں کی بابت طے کیا جا رہا ہے کہ انہیں واپسی کی اجازت نہیں ہوگی۔ ایسے غیرملکی کارکن جن کی عمریں 60 برس سے زیادہ ہوچکی ہیں۔

    ایسے غیرملکی کارکن جن کے اقامے فرضی کمپنیوں کے ہیں اور یہ کارکن ان کمپنیوں کے حقیقی ملازم نہیں ہیں۔
    وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں گھریلو عملے کا تعلق ہے تو ان کی کویت واپسی یا عدم واپسی کا فیصلہ سکیورٹی ریکارڈ اور عمر کی بنیاد پر کیا جائے گا-

    اگر کسی گھریلو ملازم کی عمر 60 برس سے اوپر ہوچکی ہوگی تو اس کے کفیل سے کہا جائے گا کہ وہ اس کی جگہ کوئی کم عمر ملازم لائے جبکہ گھریلو عملے میں سے کسی ایسے شخص کو جس کا سکیورٹی ریکارڈ خراب ہوگا اور اس کا اقامہ بیرون کویت ختم ہوچکا ہوگا اسے واپسی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

    بیرون کویت رہتے ہوئے زائد المیعاد اقامے کے مسئلے سے دوچار تارکین کے مالی حقوق کی بابت کویتی وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ ان میں سے جن لوگوں کے کویت نہ آنے کا فیصلہ کر لیا جائے گا افرادی قوت کا محکمہ ان کے حقوق ان کی کمپنی سے وصول کرکے انہیں بھجوائے گا- اس کی کارروائی کے لیے محکمہ ای پلیٹ فارم پر درخواستیں طلب کرے گا۔

  • سعودی عرب : غیر ملکی ملازمین کے لیے ایک اور سہولت

    سعودی عرب : غیر ملکی ملازمین کے لیے ایک اور سہولت

    ریاض: سعودی حکومت نے نجی اداروں میں کام کرنے والے غیر ملکی ملازمین کے لیے انشورنس اسکیم کی منظوری دے دی، اسکیم پر عملدر آمد کے جملہ اخراجات سعودی حکومت برداشت کرے گی۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی حکومت نے نجی اداروں میں کام کرنے والے غیر ملکی ملازمین کے بقایا جات کی ادائیگی کے لیے انشورنس اسکیم کی منظوری دے دی ہے۔

    وزیر افرادی قوت و سماجی بہبود انجینیئر احمد الراجحی کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان نے نجی اداروں کے غیر ملکی ملازمین کے حقوق و بقایا جات کے لیے انشورنس اسکیم کی منظوری دی گئی ہے۔ اس اسکیم پر عملدر آمد کے جملہ اخراجات سعودی حکومت برداشت کرے گی۔

    الراجحی نے اسکیم کی منظوری پر شاہ سلمان اور ولی عہد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسکیم کی بدولت نجی اداروں میں غیر ملکی ملازمین کے معطل حقوق اور بقایا جات کا مسئلہ ٹھوس بنیاد پر حل ہوجائے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اسکیم کی بدولت سعودی عرب کے نجی اداروں میں غیر ملکی ملازمین کے حقوق کو تحفظ حاصل ہوگا، اگر کسی غیر ملکی ملازم کےحقوق اور بقایا جات کو خطرہ لاحق ہوا تو اس انشورنس اسکیم کے باعث اول تو خطرات کا خاتمہ ہوجائے گا یا کم ازکم خطرات کا دائرہ بے حد محدود ہوجائے گا۔

    سعودی وزیر کے مطابق سعودی قیادت کی خواہش تھی کہ نجی ادارے ملک و قوم کی فلاح اور تعمیر و ترقی میں کلیدی کردارادا کریں اور درپیش مسائل سے نجات حاصل کریں۔

    انہوں نے بتایا کہ سعودی کابینہ نے انشورنس اسکیم کی منظوری کے ساتھ ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود، وزارت خزانہ اور سعودی عریبین مانیٹری اتھارٹی (ساما) کے نمائندوں پر مشتمل ہوگی۔

    کمیٹی نجی اداروں میں ان غیر ملکی ملازمین کے زمروں کا تعین کرے گی جن پر مبینہ انشورنس اسکیم لاگو ہوگی، کمیٹی انشورنس اسکیم پر عمل درآمد کے قاعدے، ضابطے اور طریقہ کار ترتیب دے گی اور انشورنس پالیسی کی فیس متعین کرے گی۔