Tag: Forest

  • دریائی پتھروں پر بنایا جانے والا زرد پارک

    دریائی پتھروں پر بنایا جانے والا زرد پارک

    چین: دریائی پتھروں پر بنایا جانے والا جنگل عوام کے لیے کھول دیا گیا جہاں لوگوں کی بڑی تعداد اس پارک کو دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔

    چینی میڈیا کے مطابق جنگاتی کے صوبے گانسو میں ماہرین نے دریا کے بڑے بڑے سبز (پیلے) پتھروں کو جمع کر کے  جیولوجیکل پارک تعمیر کیا جس کی خوبی یہ ہے کہ یہاں کشش ثقل اور ہوا کی کشیدگی کو بھی بالکل اُسی طرح شامل کیا گیا جیسے دریا میں موجود ہوتی ہے۔

    اطلاعات کے مطابق جس مقام پر یہ پارک تعمیر کیا گیا وہاں پہلے سے پہاڑیاں اور دریا موجود تھا جسے ماہرین نے ایسے انوکھے طریقے سے تیار کیا کہ  یہاں ڈھلان کی وجہ سے لوگ اپنے جسم پر قابو نہیں رکھ سکتے اور وہ خود بہ خود نیچے کی طرف جانے لگتے ہیں۔

    زرد پتھروں پر بنے پارک کا رقبہ 150 کلومیٹر سے طویل ہے اور اس کی مکمل تیاری میں تقریبا 4 سال کا عرصہ لگا، دریا کے کنارے واقع لگوان کے علاقے میں اس سے قبل لوگوں کو خوفزدہ کرنے کا پارک تعمیر کیا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ہیم برگر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور اگر ہم گھر سے باہر ہوں اور کھانے کا وقت ہوجائے تو بھوک مٹانے کے لیے ذہن میں پہلا خیال برگر ہی کا آتا ہے۔

    دنیا بھر میں برگر کے شوقین افراد کے لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران برگر کے نئے نئے ذائقے متعارف کروا رہے ہیں اور اب برگر لاتعداد ذائقوں میں دستیاب ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ یہ برگر ہماری زمین کو کن خطرات سے دو چار کر رہا ہے؟

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اس بارے میں جاننے سے پہلے ہم ذرا برگر کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح اور کن کن مراحل سے گزر کر ہماری پلیٹ تک پہنچتا ہے۔

    ہیم برگر کا سفر برازیل میں ایمازون کے جنگلات سے شروع ہوتا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمازون کو سب سے بڑا خطرہ دنیا بھر کو نقصان پہنچنانے والے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے ہی ہم وطنوں سے ہے۔

    ایمازون کے خاتمے کی وجہ

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    ملک بھر میں لاتعداد فارمز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مختلف جانوروں کی پرورش کی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت دیگر ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس وقت گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مویشیوں کی ضروریات

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اس وقت ہماری زمین کا 30 فیصد حصہ مویشیوں کے زیر استعمال ہے جبکہ امریکا کی 80 فیصد زراعت مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    بدترین نقصان

    اب ان مویشیوں کا سب سے بدترین نقصان بھی جان لیں۔ ان مویشیوں کے فضلے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے ماحول اور زمین کے لیے نقصان دہ ترین گیس ہے۔

    ہماری فضا کو گرم اور زہریلا بنانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 18 فیصد حصہ انہی میتھین گیسوں پر مشتمل ہے۔

    یعنی ہم جو کاربن اخراج کا رونا روتے ہیں، تو مویشیوں سے خارج ہونے والی گیس کاربن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور مقدار میں بھی کاربن سے کہیں زیادہ ہے۔

    ماحول دوست کیسے بنا جاسکتا ہے؟

    ان مویشیوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہ کاری کو کم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال بے حد کم کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں کھائی جائیں۔

    قدرتی طریقوں سے اگائی گئیں سبزیاں اور پھل نہ صرف ہماری صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور یہ ہماری فضا سے زہریلی گیسوں کی کمی میں معاون ثابت ہوں گی۔

  • جنگلات کا عالمی دن: شہروں کی ترقی کے لیے جنگلات ضروری

    جنگلات کا عالمی دن: شہروں کی ترقی کے لیے جنگلات ضروری

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جنگلات کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے۔

    رواں برس یہ دن جنگلات اور پائیدار شہر کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے جنگلات کو کاٹ کر رہائشی علاقوں میں تبدیل کیا جارہا ہے لہٰذا جنگلات کا تناسب برقرار رکھنے کے لیے شہروں میں شجر کاری کی جائے تاکہ موسمیاتی تغیرات کے نقصانات سے نمٹا جاسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی شہر میں جنگلات کی موجودگی اس شہر کی خوشحالی، خوبصورتی اور باشندوں کی صحت و تندرستی میں اضافہ کرسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بڑے اور پرہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے۔

    مزید پڑھیں: سب سے زیادہ درختوں والے شہر


    پاکستان کے 2 نایاب جنگلات

    پاکستان میں جنگلات کی 2 ایسی نایاب اقسام موجود ہیں جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔


    صنوبر کے جنگلات

    بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔

    forest-2
    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔

    یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔

    پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 

    forest-3
    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔

    اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔


    تیمر کے جنگلات

    کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    forest-5
    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا۔

    forest-6
    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔


     پاکستان میں درختوں کی کٹائی

    وفاقی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 سے 2005 تک پاکستان کے جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی گئی۔ اس بے دریغ کٹائی کی وجہ شہروں کا تیز رفتار اور بے ہنگم پھیلاؤ، زراعت کے لیے درختوں کو کاٹ دینا، اور گلوبل وارمنگ (درجہ حرارت میں اضافہ) ہے۔

    ماہرین کے مطابق جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس مقام سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔

    وہاں پر صحرا زدگی کا عمل شروع ہوجاتا ہے یعنی وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے، جبکہ وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔


    اگلے 100 سال میں جنگلات کا خاتمہ؟

    اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.8 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جنگل میں چھپے ڈاکو پکڑنے کے بجائے جنگل کو جلا دیا گیا

    جنگل میں چھپے ڈاکو پکڑنے کے بجائے جنگل کو جلا دیا گیا

    جھنگ: صوبہ پنجاب کے ضلع جھنگ میں واقع شور کوٹ کی تحصیل میں ڈاکوؤں کے جنگل میں چھپنے پر پولیس نے پورے جنگل کو جلا ڈالا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلات کے ملازمین اور گارڈ نے 4 مسلح افراد کو جنگل میں چھپتے دیکھا تھا جس کے بعد پولیس کو اطلاع دی گئی۔

    پولیس 6 گھنٹے تک ڈاکوؤں کو تلاش کرتی رہی اس کے بعد ناکامی پر جنگل کے بلاک 2 کو آگ لگا دی گئی۔

    پولیس کی جانب سے جنگل میں آگ لگانے سے 100 ایکڑ پر لگے درخت جل گئے۔

    یاد رہے کہ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق سنہ 2000 سے 2005 تک پاکستان کے جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی گئی۔

    اس بے دریغ کٹائی کی وجہ شہروں کا تیز رفتار اور بے ہنگم پھیلاؤ اور زراعت کے لیے درختوں کو کاٹ دینا شامل ہے اور اس کے باعث گلوبل وارمنگ (درجہ حرارت میں اضافہ) ہورہی ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    ماہرین کے مطابق جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس مقام سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔

    وہاں پر صحرا زدگی کا عمل شروع ہوجاتا ہے یعنی وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے، جبکہ وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کے جنگلاتی رقبے میں 33 فیصد کمی آچکی ہے اور اس وقت ملک کا صرف 2.2 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ایبٹ آباد میں محکمہ جنگلات کی سرپرستی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی

    ایبٹ آباد میں محکمہ جنگلات کی سرپرستی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی

    ایبٹ آباد: خیبر پختونخواہ حکومت کا صوبے کو سرسبز بنانے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ ٹمبر مافیا کے بعد محکمہ جنگلات کے عملہ کی سرپرستی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ایبٹ آباد میں ٹمبر مافیا نے ہزاروں قیمتی درخت کاٹ دیے۔

    ایبٹ آباد میں گلڈانیہ کے جنگلات میں دن دہاڑے قیمتی درختوں کی اسمگلنگ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ جنگلات کا عملہ بھی درختوں کی کٹائی میں ملوث ہے۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حکومت نے محکمہ جنگلات کی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو جنگلات کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

    دوسری جانب صوبے میں شجر کاری کی مہم بھی جاری ہے اور خیبر پختونخواہ پاکستان کا واحد صوبہ بن گیا ہے جہاں وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے 35 لاکھ ایکڑ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔

    چند روز قبل عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بلین ٹری سونامی منصوبے پر کامیاب عملدر آمد کے بعد خیبر پختونخواہ کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہونے لگا ہے جس نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کو پورا کرتے ہوئے 35 لاکھ ایکڑ زمین پر جنگلات قائم کیے۔

    بعد ازاں ورلڈ اکنامک فورم نے بھی اس منصوبے کی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے پر 12 کروڑ ڈالرز سے زائد رقم خرچ کی گئی جس کے بعد یہ ملک کی سب سے بڑی ماحول دوست سرمایہ کاری بن گئی ہے۔

    یاد رہے کہ بلین ٹری سونامی کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں داخل ہوگیا ہے اور اب تک صوبے بھر میں 94 کروڑ درخت کامیابی سے لگائے جاچکے ہیں۔

    منصوبے کے تحت صوبے میں مجموعی طور پر ایک ارب درخت لگائے جانے تھے اور منصوبہ اب اپنے اختتامی مراحل میں ہے


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دریائے سندھ کے کنارے وسیع پیمانے پر شجر کاری مہم

    دریائے سندھ کے کنارے وسیع پیمانے پر شجر کاری مہم

    سکھر: دریائے سندھ کے کنارے سکھر کے مقام پر کچے کے علاقے میں 5 ہزار ایکڑ سے زائد زمین پر درخت اگانے کی مہم کا آغاز کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلات کی جانب سے دریائے سندھ کے کنارے کچے میں سکھر کے مقام پر 5 ہزار ایکڑ سے زائد زمین پر درخت اگائے جارہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں

    محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر خالد نظامانی کی نگرانی میں سکھر کے الف کچو میں بیج بوائی اور شجر کاری کا آغاز کیا گیا جس میں پہلے مرحلے پر 5 ہزار ایکڑ جبکہ مجموعی طور پر 18 ہزار ایکڑ پر جنگلات لگائے جائیں گے۔

    شجر کاری کی مہم کا مقصد دریائی جنگلات کے رقبے میں اضافہ کرنا ہے۔ پہلے مرحلے میں دریا کنارے کیکر، کنڈی اور دیگر مقامی درخت لگائے گئے۔

    محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر خالد نظامانی کہنا ہے کہ ماحول کی بہتری کے لیے دریائی جنگلات لازم ہیں اور یہ جنگلات مقامی لوگوں کے تعاون سے لگائے جانے ضروری ہیں۔

    مزید پڑھیں: کیا درخت بھی باتیں کرتے ہیں؟

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کے 2.2 فیصد حصے پر جنگلات موجود تھے تاہم بے دریغ غیر قانونی کٹائی کے باعث ہم صرف سنہ 1990 سے 2010 کے درمیان اپنا 33 فیصد سے زائد جنگلاتی رقبہ کھو چکے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نو منتخب وزیر ماحولیات کا جنگلات کی کٹائی میں کمی کا عزم

    نو منتخب وزیر ماحولیات کا جنگلات کی کٹائی میں کمی کا عزم

    اسلام آباد: نئے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تغیرات مشاہد اللہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کر کے پاکستان کو درپیش موسمیاتی تغیرات کے خطرات میں کمی کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے حکومت تمام تر اقدامات اٹھا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جنگلات کی کٹائی اور تحفظ کے حوالے سے قائم فورم (آر ای ای ڈی پلس) کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں نو منتخب وزیر برائے کلائمٹ چینج مشاہد اللہ نے بھی شرکت کی۔

    یہ ان کی حلف برداری کے بعد ماحولیاتی تحفظ سے متعلق کسی بھی فورم کا پہلا اجلاس تھا۔

    اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد اللہ نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی ہوتے ہوئے پاکستان کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانا ناممکن ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج کے خطرات کے مقابلے میں جنگلات ایک بہترین ڈھال ہیں جو ان خطرات کی شدت بے حد کم کرسکتے ہیں۔

    مشاہد اللہ نے پاکستان پر کلائمٹ چینج کے اثرات کے حوالے سے مختلف رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے ملک میں جنگلات کے رقبے میں کمی آئی جو اب ایک شدید مسئلے کے طور پر سامنے آرہا ہے۔

    انہوں نے جنگلات کی کٹائی کے ایک اور سبب توانائی کے حصول کے لیے لکڑی کے استعمال کی طرف بھی اشارہ کیا۔

    مزید پڑھیں: بلوچستان میں زیتون کے جنگلات تباہی سے دو چار

    ان کا کہنا تھا کہ جنگلات کی کٹائی میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک کے لیے متبادل اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو قابل رسائی بنایا جائے۔

    اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوامی شعور و آگاہی کی مہمات پر بھی زور دیا جس کے تحت لوگوں کو جنگلات کی اہمیت اور ان کی ضرورت کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔