Tag: Forests

  • ٹوائلٹ پیپر جنگلات کے خاتمے کا سبب

    ٹوائلٹ پیپر جنگلات کے خاتمے کا سبب

    یوں تو ہم سب پلاسٹک کے خطرات سے آگاہ ہیں اور دنیا بھر میں اس کی آلودگی کو کم کرنے پر کام بھی کیا جارہا ہے، تاہم ماحول کو نقصان پہنچانے والی ایک چیز ایسی ہے جس سے ہم سب بے خبر ہیں۔

    ماحول کے لیے نقصان دہ اس شے کا ہم بے دریغ استعمال کر رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ ان کی تیاری کے لیے قیمتی درختوں کو کاٹا جاتا ہے، وہ چیز ہے ٹوائلٹ پیپر۔

    امریکا کے نیچرل ریسورس ڈیفنس کاؤنسل نامی ادارے کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں ٹوائلٹ پیپرز کے بے تحاشہ استعمال نے کینیڈا کے جنگلات کو خاتمے کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق امریکا میں استعمال ہونے والے ٹشو پیپرز کے لیے کینیڈا میں موجود جنگلات کاٹے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے تقریباً 60 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں جو سالانہ 2 کروڑ 80 لاکھ کاروں سے خارج ہونے والے دھوئیں کے برابر کاربن جذب کرتے ہیں۔

    تاہم امریکا میں ٹشوز کی بے تحاشہ مانگ کی وجہ سے ان جنگلات کو بے دریغ کاٹا جارہا ہے۔ سنہ 1996 سے 2 کروڑ 80 لاکھ ایکڑ رقبے پر موجود درختوں کو کاٹا جا چکا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ پوری دنیا میں استعمال ہونے والے ٹشو پیپرز کے 20 فیصد صرف امریکا میں استعمال ہورہے ہیں، دوسری جانب امریکیوں کو نرم ملائم ٹشوز بھی درکار ہیں جن کے لیے ٹشوز بناتے ہوئے اس میں دیگر مٹیریل استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔

    اس حوالے سے دنیا بھر کی بڑی کمپنیوں نے ٹشو بنانے کے لیے ماحول دوست اقدامات کرنے سے انکار کردیا ہے، وجہ وہی ہے امریکیوں کی نرم ٹشوز کی مانگ۔

    ماہرین کے مطابق ٹشوز بناتے ہوئے اگر اس میں استعمال شدہ (ری سائیکل) مٹیریل کی آمیزش کی جائے تو یہ عمل درختوں کی کٹائی میں کمی کرے گا تاہم ایسے ٹشوز سخت اور کھردرے ہوتے ہیں۔

    رپورٹ میں ایک قدیم رومن رواج کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں ٹوائلٹ پیپرز کی جگہ اسفنج استعمال کیا جاتا تھا اور اسے سرکے سے بھرے ہوئے جار میں چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ وہ صاف ہو کر دوبارہ استعمال کے قابل ہوسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹوائلٹ پیپرز کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ماحول دوست ذرائع اپنانے ہوں گے ورنہ ہماری زمین پر موجود تمام درخت ٹشو پیپرز میں بدل جائیں گے۔

  • جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جنگلات کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے۔

    رواں برس یہ دن جنگلات اور توانائی کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔ جب ہم جنگلات اور توانائی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں پہلا خیال درختوں کی لکڑی کا آتا ہے جسے ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کی موجودگی کسی ملک کے ماحول، معیشت، شہری ترقی اور وہاں رہنے والے انسانوں کو مختلف جہتوں سے توانائی فراہم کرتی ہے۔

    forest-1

    جنگلات ماحول کی آلودگی میں کمی کرتے ہیں جبکہ درختوں پر لگے پھلوں کی تجارت کسی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بڑے اور پرہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے۔

    کراچی میں جنگلات اور درختوں کی کمی کی وجہ سے سنہ 2015 میں قیامت خیز گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) آئی جس نے ایک ہزار سے زائد افراد کی جانیں لے لیں۔

    وزیر اعظم کا پیغام

    جنگلات کے عالمی دن پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پیغام دیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ درخت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے آئندہ نسل پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت آئندہ نسلوں کو سر سبز مستقبل دینے کے لیے کوشاں ہے۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی کے باعث ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کے لیے گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 10 کروڑ مقامی پودے لگائے جائیں گے۔

    پاکستان کے 2 نایاب جنگلات

    پاکستان میں جنگلات کی 2 ایسی نایاب اقسام موجود ہیں جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔

    صنوبر کے جنگلات

    بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔

    forest-2
    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔

    یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔

    پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    forest-3
    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔

    اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔

    تیمر کے جنگلات

    کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    forest-5
    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا۔

    forest-6
    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔

     پاکستان میں درختوں کی کٹائی

    وفاقی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 سے 2005 تک پاکستان کے جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی گئی۔ اس بے دریغ کٹائی کی وجہ شہروں کا تیز رفتار اور بے ہنگم پھیلاؤ، زراعت کے لیے درختوں کو کاٹ دینا، اور گلوبل وارمنگ (درجہ حرارت میں اضافہ) ہے۔

    ماہرین کے مطابق جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس مقام سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔

    وہاں پر صحرا زدگی کا عمل شروع ہوجاتا ہے یعنی وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے، جبکہ وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔

    اگلے 100 سال میں جنگلات کا خاتمہ؟

    اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.8 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔