Tag: formation of judicial commission

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    لاہور :  لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش  کردی جبکہ  حکومت  کو جوڈیشل کمیشن سےمتعلق ایک ہفتےمیں آگاہ  کرنے  اور عینی شاہدین کوطلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنےکا بھی حکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال پرجوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پرسماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے کہا حکومت چاہے توسیشن جج سےانکوائری کراسکتےہیں۔

    عدالت نے عینی شاہدین کو طلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنے اور ایک ہفتے میں حکومت کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق آگاہ کرنے کا بھی حکم دیا۔

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ سانحہ ساہیوال کےتمام ملزمان جسمانی ریمانڈپرہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا وقوعہ کی تاریخ بتائیں، یہ ہوا میں لکھتے ہیں سب کچھ ہورہاہے لیکن کاغذمیں کچھ نہیں ہوتا، جس پر سرکاری وکیل نے کہا اے ایس آئی محمد عباس کابیان ریکارڈ کیا۔

    حکومت چاہےتوسیشن جج سےانکوائری کراسکتےہیں، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

    چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل سے استفسار کیا آپ کاکوئی گواہ موجودہے؟ جس پر وکیل جلیل نے بتایا عمیرخلیل ہمارااہم گواہ ہے، ابھی اس کابیان جمع کرارہے ہیں، تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا آج ہی عمیر کا بیان ریکارڈ کرائیں۔

    وفاق کے وکیل نے کہا وزیراعظم نے پنجاب حکومت سے سانحے پر رپورٹ مانگی ہے، اے اے جی نے بتایا متاثرہ فریقین نے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے استدعا نہیں کی، جس پر عدالت نے کہا یہ بتائیں ضروری ہے کوئی متاثرہ فریق ہی درخواست دے؟

    اے اے جی نے کہا ضروری نہیں جوڈیشل کمیشن کیلئے متاثرہ فریق درخواست دے، جس پر چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا کہنا تھا موقع کے جو بھی گواہ ہیں جے آئی ٹی کو دیں، سرکاری وکیل نے بتایا جے آئی ٹی جائے وقوعہ کا با ربار دورہ کررہی ہے۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کن کے بیانات ریکارڈ کئےگئے ہیں؟ چشم دیدگواہان کے بیانات سے متعلق بتائیں، تو سرکاری وکیل کا کہنا تھا ابھی تک چشم دیدگواہ کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس نے خلیل کے وکیل سےاستفسار کیا عینی شاہدین کے نام دیں، آپ ان پر بھروسہ کریں گے تو کیس خراب ہوجائے گا، جس پر سرکاری وکیل نے کہا سی سی ٹی وی فوٹیج اورخول لیب بھجوادیئےہیں۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل سے مکالمے میں کہا آپ کہیں تو جوڈیشل انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کوآپ کیس کا حصہ نہیں بناسکیں گے، مجسٹریٹ سے جوڈیشل انکوائری کی جائے تو وہ کیس کاحصہ بن سکےگا۔

    جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور بیانات ریکارڈ کرے

    جلیل کے وکیل نےجوڈیشل انکوائری کیلئےمہلت دینےکی استدعاکردی جبکہ ذیشان کے وکیل نے موقع کےگواہ 3افراد کی فہرست پیش کی ، جس پر عدالت نے حکم دیا جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور بیانات ریکارڈ کرے۔

    یاد رہے4 فروری کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی، عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے، معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

  • سانحہ ساہیوال پر  جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی، عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے۔

    تفصہلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار شمیم خان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔

    جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت نے تفتیشی رپورٹ اور آئی جی پنجاب کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا، عدالت نے قرار دیا کہ جب آئی جی پنجاب کو بلایا تو وہ کیوں پیش نہیں ہوئے؟ حکم دیا تھا کہ آئندہ ساہیوال کی طرح پولیس مقابلہ نہیں ہو گا۔

    سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صوبے بھر کے آر پی اوز کو اس حوالے سے ہدایات جاری کر دی ہیں، جس پر عدالت نے حکم دیا کہ ہمیں وہ تحریری نوٹیفیکیشن دیا جائے جو عدالتی احکامات کے بعد جاری ہوا۔

    بتایا جائے کون سے افسر نے اہلکاروں کو اس آپریشن کا حکم دیا تھا، عدالت کا استفسار

    سرکاری وکیل عدالت کو مزید آگاہ کیا کہ خلیل کے بھائی کو بار بار بلایا مگر وہ شامل تفتیش نہیں ہو رہے جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور گواہان کی شہادتوں سے تفتیش آگے بڑھ رہی ہے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ایسی سی سی ٹی وی فوٹیج کا کیا فائدہ جس میں ملزمان کی نشاندہی نہ ہو، بتایا جائے کون سے افسر نے اہلکاروں کو اس آپریشن کا حکم دیا تھا۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی جواد قمر نے آپریشن کا حکم دیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ان سے پوچھیں کہ انہوں نے کس کس کو آپریشن کے لیے بھجوایا تھا، جس پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی جواد قمر کو معطل کیا جا چکا ہے۔

    آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب

    عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر تے ہوئے ریمارکس دیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے۔

    سرکاری وکیل نے کہا خلیل کے بھائی کو بار بار بلایا مگر وہ شامل تفتیش نہیں ہو رہے، خلیل کے بھائی جلیل کے وکیل نے کہا کہ یہ کیس شناخت پریڈ کا نہیں ہے،جس پر عدالت نے جے آئی ٹی کو مدعیوں اور گواہوں کی جانب سے پیش کی جانے والی ہر طرح کی شہادتوں کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیتے ہوئے کارکردگی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

    وکیل شہبازبخاری نے بتایا سی ٹی ڈی افسران دھمکیاں دے رہےہیں اورہراساں کررہےہیں، خلیل کے ورثا پر دباؤ ڈال کر بیانات تبدیل کرائےگئے، ہراساں کیے جانےکی وجہ سے مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔

    ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گےچیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

    عدالت نے مدعی سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس جو شواہد تھے تو کیوں نہیں دیئے تاکہ ملزمان کی شناخت ہو سکتی، مدعی شہادتیں لائیں، اگر جے آئی ٹی نہیں لیتی تو عدالت میں جمع کروائیں۔

    سرکاری وکیل نے کہا کہ جن اہلکاروں نے آپریشن کیا وہ گرفتار ہیں، جس پر عدالت نے قرار دیا کہ ہمیں وہ ریکارڈ دیا جائے جس میں سی ٹی ڈی کے اعلی افسر نے آپریشن کی اجازت دی۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وارننگ دی کہ اگر ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا تو آپ سب نتائج کے ذمہ دار ہوں گے، ایف آئی آر میں پانچ اہلکار نامزد ہیں جبکہ مدعی کہتے ہیں وہ 16 اہلکار تھے۔

    عدالت نے کیس کی سماعت 7 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر تے وہوئے کہا معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے، بعد ازاں سماعت سات فروری تک ملتوی کر دی۔

    گذشتہ سماعت میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ آئی جی پنجاب آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کروائیں اور وقوعہ کے تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے اورانہیں تحفظ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کردی تھی۔