Tag: future

  • کیریئر پلاننگ کیا ہے؟ کیسے کی جائے؟

    کیریئر پلاننگ کیا ہے؟ کیسے کی جائے؟

    کیریئر پلاننگ زندگی میں کامیاب ہونے کا سب سے اہم مرحلہ ہے یہ ایک ایسا نقشہ ہے جو ان افراد کو آسانی فراہم کرتا ہے جنہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرلی ہو اور مستقبل کے حوالے سے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے بے چین ہوں۔

    اپنی زندگی کامیابی کے ساتھ گزارنے کے لیے کسی پیشے کا انتخاب کرنا کیریئر کہلاتا ہے، اپنے لیے اچھا کیریئر منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسا ذریعہ معاش اختیار کرے جو اس کی صحت، صلاحیتوں اور رجحان کے مطابق ہو تاکہ وہ اس خاص پیشے میں زیادہ ترقی کرسکے اور کام کرنے سے اسے اکتاہٹ یا تھکن محسوس نہ ہو بلکہ تسکین، اطمینان اور مسرت حاصل ہو۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کیریئر کونسلر یوسف الماس نے ناظرین خصوصاً نوجوانوں کو ان کے بہترین مستقبل کیلئے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا۔

    انہوں نے بتایا کہ کسی بھی نوجوان کی زندگی تین مواقع ایسے آتے ہیں جہاں اسے مشوروں اور رہنمائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے، جس پر عمل کرکے وہ آنے والی زندگی کیلئے اپنے اہداف مقرر کرسکتا ہے۔

    یوسف الماس نے بتایا کہ جب بچہ آٹھویں کلاس پاس کرکے نویں میں جاتا ہے تو یہ پہلا مرحلہ ہے کہ جب اس کی بہترین انداز میں کاؤنسلنگ کی جائے اور اسے غیر نصابی سرگرمیوں کی جانب بھی راغب کیا جائے۔

    اس کے بعد میٹرک پاس کرنے کے بعد کالج میں داخلے کے وقت دوسرا مرحلہ آتا ہے کہ جس میں اسے پھر آپ کی رہنمائی درکار ہے کہ اسے کاؤنسلنگ کی جائے۔

    تیسرا مرحلہ جب آتا ہے جب وہ کالج سے نکل کر یونیورسٹی کیلئے قدم بڑھاتا ہے، وہاں بھی اسے ایک اچھے اور تجربہ کار شفیق اور مہربان اساتذہ اور سینئرز کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ہر شخص کو کوئی ایک یا چند کام آسان لگتے ہیں وہ انہیں دوسروں کے مقابلے میں جلد سیکھ جاتا ہے، ان کے تکنیکی پہلوﺅں کو فوری طور پر سمجھ لیتا ہے۔ دوسرے افراد کے مقابلے میں اسے یہ برتری اس لیے حاصل ہوتی ہے کہ اس کا رجحان اس خاص کام یاشعبے کی طرف ہوتا ہے۔

    بعض نوجوانوں کو الیکٹرونکس کے آلات سے اس قدر دلچسپی ہوتی ہے کہ اس کے اسرار و رموز سے خود بہ خود واقف ہوجاتے ہیں۔ پیشے کے انتخاب میں اپنے رجحان کو لازماً مدِنظر رکھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی ترجیحات میں سے کیریئر کا انتخاب کرنا چاہیے۔

  • مستقبل میں لوگوں کی اوسط عمر کیا ہوگی ؟؟

    مستقبل میں لوگوں کی اوسط عمر کیا ہوگی ؟؟

    ایک زمانے میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ انسان کی أوسط عمر میں 90 سال سے زیادہ اضافہ ممکن نہیں ہے لیکن طبی شعبے میں ہونے والی ترقی اور سماجی پروگراموں میں بہتری نے یہ رکاوٹ دور کردی، اس وقت دنیا بھر میں خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ عرصہ زندہ رہتی ہیں۔

    جب 1776ء میں بینجمن فرینکلن نے امریکا کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے تھے تو اُن کی عمر 77 سال تھی، اُس زمانے میں مردوں کی اوسط عمر 34 سال بھی نہیں ہوتی تھی، یعنی اپنے زمانے کے حساب سے فرینکلن نے بہت طویل عمر پائی اور بالآخر 84 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس طویل عمری کا راز وہ شراب نوشی سے پرہیز اور تیراکی کے شوق کو قرار دیتے تھے۔

    آج دنیا بھر میں متوقع عمر مردوں کے لیے 70 سال اور خواتین کی 75 سال ہے۔ اس صدی کے وسط یعنی 2050ء تک دنیا میں 100 سال یا اس سے زیادہ عمر رکھنے والے افراد کی تعداد تقریباً 37 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے، جو 1990ءمیں صرف 95 ہزار تھی۔

    جرمنوں کی اوسط متوقع عمر میں مسلسل اضافہ، عورتیں مردوں سے آگے | معاشرہ | DW | 05.11.2019

    ایک تحقیق کے مطابق حیاتیاتی طور پر ہماری زیادہ سے زیادہ عمر کی "حد” 150 سال ہے، الّا یہ کہ کوئی مرض لاحق ہو جائے یا کسی قدرتی آفت کے ہاتھوں جان چلی جائے۔

    ویکسین کی دستیابی اور طبی لحاظ سے دیگر کامیابیوں کی بدولت عمر میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن اس سے کئی نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں مثلاً دنیا کے چند ممالک اور علاقوں میں بزرگوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے لیے سرمائے کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔

    دوسری جانب اگر انسان کی اوسط عمر میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے مستقبل کے حوالے سے سوچنے کے انداز میں تبدیلی آسکتی ہے اور ممکن ہے کہ وہ مختلف کیریئرز اپنائیں اور اپنی زندگی کے مختلف مراحل کو ایک تسلسل میں لا سکیں۔

    حالیہ تاریخ میں کچھ مراحل ایسے آئے ہیں جو انسان کی اوسط عمر کے حوالے سے اچھے امکانات نہیں لائے، مثلاً امریکا پچھلے سال کووِیڈ-19 کی وجہ سے دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا میں پہلی بار متوقع عمر میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ فرانس میں بھی 2020ء میں اوسط عمر میں کمی آئی ہے۔

    عمر کی اوسط حد میں اضافے کے آثار - ایکسپریس اردو

    لیکن اس کے واضح اشارے موجود ہیں ہم اوسط عمر میں غیر معمولی اضافے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اگر لوگ صحت مندی کے ساتھ طویل عمر پائیں تو اس کے معاشی فوائد بھی ہیں۔ رواں ماہ شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عمر رسیدگی کے عمل کو دھیما کرنے سے ایک سال میں 38ٹریلین ڈالرز کا فائدہ ہو سکتا ہے۔

    معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم او ای سی ڈی کے مطابق اُس کے 25 رکن ممالک جن میں تعلیم کی شرح بہت زیادہ ہے، کی متوقع عمر میں تقریباً چھ سال کا اضافہ ہو سکتا ہے، ان کے ملکوں کے مقابلے میں کہ جہاں شرحِ خواندگی کم ہے۔

    سائنسی شواہد کے مطابق ذہنی دباؤ سے بچنا طویل عمری کا راز ہے۔ دماغ کے خلیات کو مضر اثرات سے بچانے والے ایک جین کا تعلق غیر معمولی طویل عمری سے ہے۔ تحقیق کے مطابق عمر رسیدگی کے اثرات کو کم کرنے اور عمر کو بڑھانے کے لیے سگریٹ کے دھوئیں، شراب اور کیڑے مار ادویات سے بچنا اہم ہیں۔

  • مستقبل میں‌ مذہبی رہنما اصول تیار کرنے کی ضرورت ہے، پوپ فرانسس

    مستقبل میں‌ مذہبی رہنما اصول تیار کرنے کی ضرورت ہے، پوپ فرانسس

    رباط : مسیحی برادری کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے انتہا پسندی سے نمٹنے کےلیے مبلغین اسلام کو تربیت فراہم کرنے کے عمل کو خوب سراہا۔

    تفصیلات کے مطابق مسیحی برادری کے رومن کیتھولک فرقے کے سربراہ پوپ فرانسس نے 34 برس بعد دورہ مراکش کے موقع پر جنونیت کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مستقبل کے لیے مذہبی رہ نما اصولوں کی مناسب تیاری کی ضرورت ہے۔

    پوپ فرانسس نے ضمیر کی آزادی اور مذہبی آزادی کا انسانی وقار کے بنیادی حق کے طور پر دفاع کیا ہے۔

    مسیحوں کے روحانی پیشوا نے مختلف عقیدوں کے پیروکاروں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ باہمی بھائی چارے کے ساتھ مل جل کر رہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کسی بھی رومن کیتھولک پیشوا کا 34 برس بعد یہ پہلا دورہ ہے، انہوں نے مراکش پہنچنے کے فوراً شاہ محمد ششم کے ہمراہ آئمہ اور اسلام کے مرد و خواتین مبلغین کی تربیت کےلیے تیار کردہ مراکز کا دورہ کیا۔

    مزید پڑھیں : دہشت گرد جوکر رہے ہیں وہ مذہب نہیں‘ پوپ فرانسس

    مراکش کے سربراہ محمد ششم کا کہنا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ علم کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے، بنیاد پرست سخت گیری کا کوئی فوجی یا مالی حل نہیں بلکہ اس کا واحد حل تعلیم ہی ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام دہشت گردوں میں مشترکہ چیز مذہب نہیں بلکہ اس سے لاعلمی ہے۔

  • مستقبل میں لوگ زیر سمندر شہروں میں زندگی بسر کریں گے، ٹائم ٹریولر کا دعویٰ

    مستقبل میں لوگ زیر سمندر شہروں میں زندگی بسر کریں گے، ٹائم ٹریولر کا دعویٰ

    لندن : برطانیہ میں 2030 سے آنے والے نوجوان نے دعویٰ کیا ہے کہ مستقبل میں کینیڈا، امریکا اور میکسیکو میں شامل ہوجائے گا اور تینوں ملکر ’ایک طاقتور ملک‘ بنائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق مستقبل یا ماضی سے حال میں آنے کے مناظر عموماً فلموں میں تو دکھے جاتے ہیں لیکن برطانیہ میں ایک نوجوان نے حقیقت میں سنہ 2030 سے آج کے زمانے میں آنے کا دعویٰ کیا تھا جو اب نئے نئے انکشافات سے دنیا کو مزید حیرت میں مبتلا کررہا ہے۔

    سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مستقبل سے آنے والے نوح نامی نوجوان نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کی بڑتی ہوئی آلودگی ایک مسئلہ بن جائے گی جس کے باعث بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

    ٹائم ٹریولر نوح نے یوٹیوب کے چینل ایپکس ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’لوگ خلاء کا دورہ کرنے وہاں رہائش بھی اختیار کرریں گے اور ہمارے پاس زیر سمندر بھی شہر موجود ہیں‘۔

    ٹائم ٹریولر کا کہنا تھا کہ دنیا کی بڑتی ہوئی آلودگی ایک مسئلہ بن جائے گی جو ہمیں مستقبل میں کچھ منفرد اور عجیب طریقوں سے زندگی گزارنے پر مجبور کرے گی۔

    نوح نے دعویٰ کیا کہ ’اصل میں خود زیر سمندر آباد شہروں میں سے ایک کا دورہ کرچکا ہوں، میں آپ کو بتاتا ہوں وہ واقعی بہت کمال ہیں‘۔

    نوح نے بتایا کہ ’آپ آبدوز سے سفر کریں گے جو آپ کو ایک بہت بڑے زیر سمندر شہر میں لے جائے گی جو ہر اس چیز سے مزین ہوگا جو زمین پر ہوتی ہیں‘۔

    خیال رہے کہ 2017 میں دنیا بھر میں آلودگی کی سطح 7 اعشاریہ 5 ارب تک پہنچ گئی تھی، سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ زمین میں زمین 9 سے 10 ارب آلودگی اپنے اندر جمع کرنے کی صلاحیت ہے۔

    مستقبل سے زمانہ حال میں آنے والے نوجوان نے دعویٰ کیا کہ سنہ 2028 میں کینیڈا، امریکا اور میکسیکو میں شامل ہوکر ایک طاقتور ملک تشکیل دے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں نوح خبروں کی شہ سرخیوں کی زینت بنا ہو بلکہ اس سے قبل بھی نوح کئی ایسے دعوے کرچکا ہے جس نے ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں : مستقبل سے آنے کا دعویٰ کرنے والے نوجوان کی بریگزٹ کے بارے میں پیشگوئی

    نوح کا کہنا تھا کہ میں ماضی میں واپس آیا ہوں تاکہ لوگوں کو مستقبل کے حوالے حقیقت بیان کرسکوں‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یوٹیوب پر جاری ہونے والی ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین نے تنقید اور طنز و مزاح سے بھرپور تبصرے کیے تھے، ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’2030 سے آنے والے شخص ہمارے جیسے کپڑے کیوں پہنے ہوئے ہیں‘۔

  • کامیاب ہونے کے لیے اب ڈگری کی ضرورت ختم

    کامیاب ہونے کے لیے اب ڈگری کی ضرورت ختم

    بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا، جدید دور کے مطابق شعبے کا انتخاب کرنا اور اعلیٰ تعلیمی ڈگری لینا ایک بہترین مستقبل اور کیریئر کی ضمانت ہوسکتا ہے، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رواج اب بدلتا جارہا ہے اور مستقبل میں ڈگریاں بے فائدہ ہوجائیں گی۔

    امریکا میں کیے جانے والے ایک سروے میں 93 فیصد افراد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی کالج ڈگری پیشہ وارانہ طور پر ان کے لیے غیر ضروری ثابت ہوئی، اس کے برعکس مختلف مہارتوں کے لیے کیے جانے والے شارٹ کورسز ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے۔

    سروے کے نتائج نے کئی سوالات کو جنم دے دیا۔

    دنیا بھر میں نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھاری قرضے دیے جاتے ہیں جن کا تخمینہ بہت زیادہ ہے، علاوہ ازیں ان قرضوں کو ادا کرنے میں نوجوانوں کی بہت محنت اور وقت بھی لگتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گوگل میں کام کرنے کے لیے ڈگری کی ضرورت نہیں

    ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے سربراہ کے مطابق انہوں نے اپنے کیریئر میں بے شمار افراد کو ملازمت دی، لیکن انہوں نے کبھی بھی یہ سوال نہیں کیا کہ آیا ان کے پاس آنے والے امیدواروں کے پاس کمپیوٹر سائنس کی ڈگری ہے یا نہیں۔

    اس کے برعکس انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مذکورہ امیدوار کمپیوٹر کوڈنگ کو کس حد تک اور کتنے بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ڈگری سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہوگی کہ آپ جو کام کرنے جارہے ہیں اس میں کتنی مہارت اور نئے آئیڈیاز رکھتے ہیں۔

    ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وقت بدل گیا ہے، پرانے دور کے لوگ زندگی بھر صرف ایک ملازمت کرتے تھے لیکن اب لوگ بیک وقت کئی کام اور ملازمتیں کرتے ہیں، ایسے میں ہر کام کی علیحدہ ڈگری لینا ایک مشکل امر ہے، صرف مہارت ہی آپ کو اس شعبے میں کامیاب کرسکتی ہے۔

    گو کہ بدلتے وقت کے ساتھ رجحان بدلنا بھی ایک فطری شے ہے، تاہم تعلیم حاصل کرنا، تعلیمی اداروں میں وقت گزارنا اور اساتذہ سے سیکھنا ایسی دولت ہے جس کا نعم البدل کچھ نہیں ہوسکتا۔

  • ماضی کے دریچوں سے مستقبل کی جھلک

    ماضی کے دریچوں سے مستقبل کی جھلک

    آج جب ہم اکیسویں صدی کے 18 ویں سال میں بیٹھ کر مستقبل کا سوچتے ہیں تو فضا میں اڑتی گاڑیاں، مریخ پر رہائش اور نہ جانے کیا کیا ہمارےذہن میں آتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ماضی میں لوگ مستقبل کو کیسا تصور کرتے ہوں گے؟

    سنہ 1900 میں ایک جرمن چاکلیٹ کمپنی نے اکیسویں صدی کے طرز زندگی کے بارے میں مبنی کچھ پوسٹ کارڈز شائع کیے تھے کہ آج کا دور ممکنہ طور پر ایسا ہوگا۔

    اس وقت ان پوسٹ کارڈز کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ ان پوسٹ کارڈز میں کئی ایسی چیزیں دکھائی گئیں تھی جو آج کے دور میں حقیقت بن چکی ہیں جبکہ کچھ واقعی مستقبل میں ممکن نظر آتی ہیں۔

    آئیں ہم بھی ان خوبصورت پوسٹ کارڈز سے لطف اندوز ہوں۔


    موسم کو کنٹرول کرنے والی مشین


    زمین اور پانی دونوں پر چلنے والی ریل


    سیاحتی سب میرین


    شہر کو بارش سے محفوظ رکھنے والی ڈھال


    ذاتی اڑن طیارے


    قطب شمالی پر سیاحت


    غباروں کے ذریعے پانی پر چہل قدمی


    اڑنے والی ذاتی مشین


    پہیوں پر بنے شہر کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جارہا ہے

  • آسٹریلوی معاشرے کا تنوع اس کے بہترین مستقبل کی ضمانت ہے، مہرین فاروقی

    آسٹریلوی معاشرے کا تنوع اس کے بہترین مستقبل کی ضمانت ہے، مہرین فاروقی

    کینبیرا : پاکستانی نژاد مہرین فاروقی آسٹریلین سینیٹ کی پہلی مسلمان خاتون رکن منتخب ہوگئی، مہرین فاروقی نے کہا ہے کہ ’آسٹریلوی معاشرے کا تنوع اس کے بہترین مستقبل کی ضمانت ہے‘۔

    تفصیلات کے مطابق آسٹریلوی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی نژاد مسلم خاتون مہرین فاروقی گرین پارٹی کے ٹکٹ پر ریاست نیو ساؤتھ ویلز سے رکن سینٹ منتخب ہوئی ہیں جو اگلے ہفتے سینیٹر کی حیثیت حلف اٹھائیں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مہرین فاروقی پاکستان میں پیدا ہوئی اور سنہ 1992 میں بہتر مستقبل کے لیے آسٹریلیا منتقل ہوگئیں تھی جہاں انہوں نے ٹیچر اور انجینئر کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کی رکن سینیٹ منتخب ہونے والی مہرین فاروقی نے سائیکل ویز اور ہائیڈرو پاور انفرا اسٹرکچر سمیت انجینئرنگ کے مختلف منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پاکستانی نژاد مسلم خاتون نے سنہ 2013 میں پہلی مرتبہ مسلم خاتون کی حیثیت سے آسٹریلیا کی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی تھیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مہرین فاروقی کا شمار آسٹریلیا کی ان مشہور شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے فریزر اینگز کی نفرت آمیز تقریر کے دوران ہولوکاسٹ کی اصطلاحات استعمال کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    مہرین فاروقی کا کہنا تھا کہ ’میں ایک مسلمان مہاجر خاتون ہوں اور کچھ روز میں سینیٹر کا حلف اٹھا لوں گی اور مجھے فریزر اینگز بھی سینیٹر بننے سے نہیں روک سکتے‘۔

    مہرین فاروقی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں بحیثیت رکن سینیٹر آسٹریلیا کے مثبت اور بہتر مستقبل کے لیے کردار ادا کروں گی۔

    ایک اور رکن پارلیمینٹ نے فریزر اینگز پر تنقید کرنے ہوئے کہا تھا کہ ’فریزر نفرت آمیز اور متصبانہ تقریر کرکے لاکھوں آسٹریلوی عوام کی توہین کی ہے‘۔

    ڈاکٹر مہرین فاروقی نے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد آسٹریلین سینیٹ کے ٹویٹ کو اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے یہ کہہ کر ٹویٹ کیا تھا کہ ’’نئی ملازمت مل گئی،کام کے لیے تیار ہوجاؤ‘۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مہرین فاروقی نے نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز سے ماحولیاتی انجینئرنگ میں ڈکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہوئی ہے۔

  • روبوٹ سےکارکی شکل اختیارکرنےوالا روبوٹ نمائش کیلئےپیش

    روبوٹ سےکارکی شکل اختیارکرنےوالا روبوٹ نمائش کیلئےپیش

    جاپان میں روبوٹ سے کار کی شکل اختیار کرنے والا روبوٹ نمائش کیلئے پیش کردیا گیا۔

    جاپانی انجینئرز نے چند سیکنڈز میں کارمیں بدلنے والاچارعشاریہ تین فٹ لمبا روبوٹ تیارکیا ہے،روبوٹ کی حالت میں یہ ایک کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سےچلتا ہے جبکہ کار کی شکل اختیار کرنے پردس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑ سکتا ہے،کمپنی کا کہنا ہے کہ اگلا روبوٹ سولہ فٹ لمبا بنایا جائے گا،انجینئرزکا کہنا ہے کہ یہ آئیڈیا ہالی وڈ کی فلم ”ٹرانسفارمرز“سے لیا گیا ہے۔