Tag: galaxy

  • خلائی مخلوق کے بارے میں وہ نظریات جو آپ کو دنگ کردیں

    خلائی مخلوق کے بارے میں وہ نظریات جو آپ کو دنگ کردیں

    دنیا بھر کے سائنس دان اور ماہر فلکیات کہیں نہ کہیں موجود خلائی مخلوق کا کھوج لگانے کی کوششوں میں ہیں، اتنی بڑی کائنات میں آخر کہیں نہ کہیں تو زندگی موجود ہوگی، تو پھر ہم اب تک اس کا سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہے؟

    اگر اس کائنات میں ہمارے علاوہ کوئی اور بھی ہے، تو آخر وہ کہاں ہے اور اب تک ہمارا اس سے رابطہ کیوں نہیں ہوسکا؟

    یہ مشہور سوال دنیا کا پہلا جوہری ری ایکٹر تیار کرنے والے اٹلی کے مشہور طبیعات دان انریکو فرمی نے پوچھا تھا، سب کہاں ہیں؟

    لیکن اس کا کوئی جواب آج تک نہیں مل سکا۔

    ویسے تو سازشی نظریات ماننے والوں کی بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہماری دنیا میں اکثر و بیشتر اڑن طشتریاں اترتی رہتی ہیں، لیکن ان کی خبروں کو چھپایا جاتا ہے۔

    تو آج ہم بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے، کہ ہم اب تک خلائی مخلوق سے ملاقات کیوں نہیں کر سکے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے سنہ 2009 میں لانچ کی جانے والی کیپلر اسپیس ٹیلی اسکوپ نے ہماری زمین کے ارد گرد یعنی ہماری کہکشاں کے اندر سینکڑوں سیارے دریافت کیے۔

    اس دریافت کی بنیاد پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ہماری کہکشاں کے اندر کم از کم کھربوں کی تعداد میں سیارے موجود ہیں، اور کائنات میں ایسی اربوں کہکشائیں موجود ہیں۔

    فرض کیا جائے کہ ہماری کہکشاں میں موجود 10 ہزار میں سے کسی ایک سیارے پر بھی زندگی موجود ہے، تب بھی کم از کم 5 کروڑ ممکنہ سیارے ایسے ہوسکتے ہیں جہاں زندگی موجود ہونی چاہیئے۔

    ہماری زمین، کائنات میں ہونے والے ایک بڑے دھماکے یعنی بگ بینگ کے 9 ارب سال بعد تشکیل پائی، فرض کرتے ہیں کہ اس طویل عرصے کے دوران ہم سے پہلے کسی سیارے پہ زندگی جنم لے چکی ہو۔

    اس سیارے کی مخلوق رفتہ رفتہ ارتقائی مراحل سے گزر کر ایک جدید مخلوق بنی ہو اور اس نے ہم جیسی یا ہم سے بھی بہتر ٹیکنالوجی تیار کرلی ہو۔

    گو کہ آج زمین پر جتنی بھی ٹیکنالوجی موجود ہے وہ گزشتہ صرف 100 سال کے عرصے میں سامنے آئی، لیکن چلیں ہم اس غائبانہ خلائی مخلوق کو رعایت دیتے ہیں کہ اسے اپنی ٹیکنالوجی کو جدید ترین سطح پر لانے میں کئی لاکھ سال لگے، تو اب تک اس مخلوق کو ٹیکنالوجی کے ذریعے کم از کم ہماری پوری کہکشاں تو فتح کرلینی چاہیئے تھی۔

    اور مان لیا کہ ایسا ہی ہوا ہو، اس خلائی مخلوق نے توانائی پیدا کرنے والے سیارے خلا میں چھوڑ رکھے ہوں، یا پھر ایسے فن پارے تخلیق کیے ہوں جو خلا میں معلق ہوں اور ہمیں چمکتے ستاروں اور مختلف خلائی مظاہر کی صورت میں دکھائی دیتے ہوں۔

    تب تو ایسی مخلوق سے رابطہ کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا کہ ان کے خارج کردہ سگنلز خلا میں جابجا موجود ہوں گے، لیکن پھر بھی ہم انہیں ڈھونڈنے میں ناکام ہیں۔ آخر کیوں؟

    اس کا سب سے آسان اور ممکنہ جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ نہایت ترقی یافتہ، ذہین اور جدید ٹیکنالوجی کی حامل اس مخلوق نے کہکشاں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہو اور انہوں نے مصنوعی طریقے سے ایک خلائی خاموشی طاری کر رکھی ہو تاکہ کسی ممکنہ دشمن سے بچ سکیں، اسی میں ان کی بقا ہے۔

    لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایسی جدید مخلوق لاکھوں سال پہلے خود ہی مٹ چکی ہو کیونکہ ان کی تیار کردہ ٹیکنالوجی ان کے قابو سے باہر ہوگئی ہو اور اس نے پورے سیارے کو تباہ کردیا ہو۔

    یا پھر ایک عام سا خیال، کہ ممکن ہو وہ مخلوق اتنی ذہین نہ ہو کہ اتنی ترقی کرسکے، یا پھر واقعی ہم ہی اس کائنات کی واحد تہذیب ہوں۔

    بہت سی ترقی کرلینے کے باوجود ہم اب تک سیاروں اور ستاروں کی بہت معمولی سی تعداد ہی کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات حاصل کرسکے ہیں، تو یہ بھی ممکن ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش کے لیے ہم غلط سمت میں دیکھ رہے ہوں۔

    ایک اور دلچسپ نظریہ یہ بھی ہے کہ، ممکن ہے کہ خلائی مخلوق نے جان لیا ہو کہ زندگی صرف معلومات کے پیچیدہ نظام کا نام ہے جس کے لیے جسامت کوئی معنی نہیں رکھتی۔

    جیسے زمین پر ایجاد کیا گیا اسٹیریو سسٹم آہستہ آہستہ چھوٹا ہو کر ایک معمولی سے آئی پوڈ کی صورت ہاتھوں میں سما گیا، ویسے ہی خلائی مخلوق نے بھی خود کو مائیکرو اسکوپک لیول پر منتقل کرلیا ہو، ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ہماری کہکشاں خلائی مخلوق سے بھری پڑی ہو لیکن ہمیں ان کی موجودگی کا ادراک نہیں۔

    ایک اور اچھوتا نظریہ جاننا بھی آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

    یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان کے دماغ میں موجود خیالات دراصل خلائی شے ہوں۔ وہ ایسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ظاہری جسم تو مرجاتا ہے لیکن ہمارے آئیڈیاز اور خیالات، زمین پر موجود ایجادات، کتابوں اور فن کی صورت میں زندہ رہتے ہیں اور یہ اپنے اندر پوری ایک دنیا، ایک اچھوتی دنیا رکھتے ہیں۔

    ممکن ہے کہ خلائی مخلوق نے خود کو ارتقائی مراحل سے گزار کر ایسے زندہ رہنے کا راز جان لیا ہو۔

    ان میں سے کون سا نظریہ حقیقت کے کتنا قریب ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔ شاید ہم کبھی خلائی مخلوق کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوجائیں، یا پھر ہم یہ ادھوری خواہش لیے ختم ہوجائیں اور خلائی مخلوق کا راز کبھی نہ جان سکیں۔

  • سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ وزنی بلیک ہول دریافت

    سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ وزنی بلیک ہول دریافت

    ملکی وے یعنی ہماری کہکشاں کے برابر موجود کہکشاں میں ایک نایاب بلیک ہول دریافت ہوا ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین فلکیات نے ملکی وے کہکشاں کی پڑوس میں موجود بڑی کہکشاں میں ایک نایاب بلیک ہول دریافت کیا ہے، اس بلیک ہول کا وزن متوسط درجے کا ہے اور یہ تیسری قسم کا نایاب بلیک ہول ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔

    یہ بلیک ہول اینڈرومیڈا کہکشاں میں B023-G078 نامی ستاروں کے جھرمٹ میں پایا گیا۔

    میسیئر 31 یا ایم 31 کے نام سے بھی جانی جانے والی اینڈرومیڈا کہکشاں ہماری ملکی وے کہکشاں کے سب سے قریب اسپائرل کہکشاں ہے۔

    نئے دریافت ہونے والے بلیک ہول کا وزن ہمارے سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے، یہ کہکشاؤں کے درمیان میں پائے جانے والے بلیک ہولز (سپر میسِو بلیک ہولز) سے چھوٹا لیکن ستاروں کے پھٹنے پر بننے والے بلیک ہولز (اسٹیلر بلیک ہولز) سے بڑا ہے۔

    اس حوالے سے ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ انٹرمیڈیٹ یعنی متوسط بلیک ہولز وہ سبب ہوتے ہیں جن سے سپر میسو بلیک ہولز بڑھتے ہیں۔

    آسٹروفزیکل جرنل میں شائع ہونے والی یہ نئی تحقیق ہوائی میں قائم جمنائی نارتھ ٹیلی اسکوپ میں نیئر انفرا ریڈ انٹیگرل فیلڈ اسپیکٹروگراف کے فراہم کردہ ڈیٹا پر مبنی تھی۔

    ماہرینِ فلکیات نے بلیک ہول کے وزن کی پیمائش اس کے گرد گھومنے والی گیس اور گرد کی حرکت سے کی۔

  • زمین سے 12 ارب نوری سال کے فاصلے پر نئی کہکشاں دریافت

    زمین سے 12 ارب نوری سال کے فاصلے پر نئی کہکشاں دریافت

    جاپانی سائنسدانوں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ انہوں ایک نئی بل کھاتی ہوئی کہکشاں دریافت کی ہے جسے کائنات کی تاریخ میں پہلی بار دیکھا گیا ہے۔

    یہ اعلان جاپان کی قومی فلکیاتی رصد گاہ اور ایک دیگر ادارے سے تعلق رکھنے والے تحقیق کاروں نے کیا۔

    ٹیم نے متعلقہ ڈیٹا کا تجزیہ چلی میں نصب الما دوربین کے ذریعے کیا اور معلوم کیا کہ 12 ارب 40 کروڑ نوری سال کی دوری پر واقع اس کہکشاں کے مرکز سے ایک بھنور کی طرح دو ڈوریاں نکل رہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کہکشاں کائنات کی پیدائش کے 1 ارب 40 کروڑ سال بعد تشکیل پائی، انہوں نے نشاندہی کی کہ اس کہکشاں میں ستاروں اور گیسوں کا بہت بڑا انبار ہے اور یہ اس دورانیے میں تشکیل پانے والی کہکشاؤں میں نسبتاً بڑی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہکشائیں بار بار دوسری کہکشاؤں کے ساتھ ملاپ کے عمل سے بڑی ہوتے ہوئے بل دار اشکال اختیار کرلیتی ہیں، اب تک 11 ارب 40 کروڑ سال قدیم ایک چکر دار کہکشاں کو کائنات میں قدیم ترین سمجھا جاتا تھا۔

  • لاکھوں میل دور کہکشاں پر آکسیجن کے اشارے مل گئے

    لاکھوں میل دور کہکشاں پر آکسیجن کے اشارے مل گئے

    ٹوکیو: لاکھوں میل دور کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے ملے ہیں، یہ کہکشاں بگ ہینگ (عظیم دھماکے) کے فقط ڈھائی سو ملین سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی تھی، اس سے کائنات کی ابتدا سے متعلق اہم معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

    ماہرین فلکیات کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کائناتی اعتبار سے ڈھائی سو ملین برس کا عرصہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے، اس لیے اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے یہ جاننے میں مدد دے سکتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کے باعث بننے والے عظیم دھماکے کے بعد اس کائنات کی ماہیت کیا تھی۔

    اس کہکشاں کو ایم اے سی ایس 1149 جے ڈی وی کا نام دیا گیا ہے اور یہ 13.8 ارب سال پہلے ہونے والے بگ ہینگ کے ساڑھے پانچ سو ملین سال بعد مکمل طور پر موجود تھی۔

    محققین کے مطابق اس کہکشاں سے چلنے والی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 13.28 ارب نوری سال لگے جبکہ سائنسدان اس روشنی کے ذریعے اس کہکشاں کو دیکھنے کو ’ماضی انتہائی بعید‘ میں جھانکنے سے تعبیر بھی کرتے ہیں۔

    سائنس دانوں کے مطابق اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے ملنے سے اس نظریے کو تقوت ملتی ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بعد یہاں آکسیجن، کاربن اور نائٹروجن ہی سب سے پہلے بننے والے عناصر تھے اور ابتدائی ستاروں پر یہی عناصر موجود ہوتے تھے تاہم بعد میں ان ابتدائی اور بڑے ستاروں کے پھٹنے کے بعد نئے اور بھاری عناصر تخلیق ہوئے۔

    یونیورسٹی آف جاپان سے وابستہ خلانورد تاکویا ہاتیسھوتو کے مطابق اس مطالعے سے قبل ہمارے پاس ابتدائی طرز کے ستاروں کی تخلیق سے متعلق فقط نظریاتی پیش گوئیاں ہی تھیں مگر اب ہم اس کائنات میں ابتدائی دور کے ستاروں کی تخلیق کا براہ راست مشاہدہ کررہے ہیں۔

    اس مطالعے کو بگ ہینگ کے بعد ستاروں اور کہکشاؤں کی تخلیق اور آغاز سے متعلق شواہد کی راہ میں بڑی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے، سائنس دان عظیم دھماکے کے بعد اس ابتدائی دور کو کاسمک ڈان یا کائناتی صبح قرار دیتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔