Tag: Gambia

  • حیرت انگیز: ووٹنگ باکس میں بیلٹ پیپرز نہیں کنچے ڈالے جاتے ہیں

    حیرت انگیز: ووٹنگ باکس میں بیلٹ پیپرز نہیں کنچے ڈالے جاتے ہیں

    بنجول: دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں ووٹنگ بیلٹ پیپرز کے ذریعے نہیں بلکہ بچوں کے کھیلنے کی مشہور چیز ’کنچوں‘ کی مدد سے کی جاتی ہے۔

    آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ مغربی افریقہ میں واقع ملک گیمبیا آج کے جدید دور میں بھی الیکشن کے دوران ووٹنگ کے لیے کنچوں کا استعمال کرتا ہے۔

    گیمبیا کے شہریوں کا خیال ہے کہ اس منفرد اور اچھوتے طریقے میں دھاندلی کا امکان کم ہوتا ہے، ویسے کاغذ کی نسبت دیکھا جائے تو شیشے سے بنے کنچوں کا استعمال بلاشبہ ماحول دوست بھی ہے، کیوں کہ کاغذ کی تیاری کے لیے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال عالمی کاغذی صنعت کے لیے 100 ملین ہیکٹر سے زائد رقبہ پر موجود جنگلات کاٹے جاتے ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ گیمبیا کی حکومت نے یہ دل چسپ اور آسان نظام اپنے ناخواندہ ووٹرز کی سہولت کے لیے وضع کیا تھا، اس میں ووٹرز مختلف رنگوں کے دھاتی ڈرمز میں شیشے کی بنی ہوئی گولیاں (کنچے) ڈال کر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، ڈرمز پر امیدواروں کی تصویریں چسپاں ہوتی ہیں۔

    ووٹرز جب اپنے پسندیدہ امیدوار کے ڈرم میں کنچا ڈالتے ہیں تو وہ ڈرم کے اندر رکھی سائیکل جیسی ایک گھنٹی پر گرتا ہے، جس سے تیز آواز پیدا ہوتی ہے، اگر گھنٹی ایک سے زیادہ بار بجے تو انتخابی عملے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی دھاندلی کر رہا ہے۔

    گیمبیا کے اس انتخابی نظام اخراجات بھی یقیناً کم آتے ہیں، ہر بار کے انتخابات میں ڈرمز اور کنچے دوبارہ استعمال کیے جا سکتے ہیں، بیلٹ پیپرز چھاپنے کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم اب گیمبیا میں بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق ووٹنگ کے لیے کاغذی بیلٹ کے استعمال پر غور کیا جا رہا ہے۔

  • گیمبیا میں بھارتی دوا ساز کمپنی پر مقدمہ چلانے کی سفارش

    گیمبیا میں بھارتی دوا ساز کمپنی پر مقدمہ چلانے کی سفارش

    بنجول: گیمبیا میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے کھانسی کے شربت بنانے والی ہندوستانی کمپنی کے خلاف ملک میں کم از کم 70 بچوں کی موت کے شبہ میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مغربی افریقی ملک گیمبیا میں بھارتی سیرپ سے بچوں کی ہلاکت کے معاملے میں گیمبیا کی پارلیمانی انکوائری کمیٹی نے بھارتی دوا ساز کمپنی پر مقدمہ چلانے کی سفارش کر دی۔

    بی بی سی کے مطابق کمیٹی نے کئی ہفتوں کی تحقیقات کے بعد رپورٹ میں بھارتی کمپنی کی تمام ادویات پر پابندی لگانے اور اس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا حکم دیا۔

    کمیٹی نے کہا ہے کہ میڈن فارماسیوٹیکلز کو کھانسی کی ایک زہر آلود دوا کی برآمد کے لیے جواب دہ ٹھہرانا چاہیے۔ عالمی ادارہ صحت پہلے ہی بھارت میں بننے والے کھانسی کے سیرپ پر پابندی کا حکم دے چکا ہے۔

    ادارے نے کہا کہ ان ادویات میں ایسے کیمیکلز ہیں جو انسانی جان کے لیے زہر ہیں، واضح رہے کہ گیمبیا میں بھارتی کمپنی کی تیار کردہ کھانسی کی دوا پینے سے بچوں کے گردوں میں شدید زخم ہو گئے تھے، جس کے نتیجے میں 69 بچے مر گئے تھے۔

  • روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں پیش

    روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں پیش

    دی ہیگ: میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میانمار میں جنگی جرائم ہو رہے ہیں تاہم انہوں نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا۔

    برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت کے لیے پیش ہوئی ہیں جو گیمبیا نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف کیا ہے۔

    اپنے کیس میں مغربی افریقی ملک گیمبیا نے کہا ہے کہ میانمار اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

    گیمبیا کا کہنا ہے کہ سنہ 1948 کے نسل کشی کے کنونشن کا دستخط کنندہ ہونے کے طور پر اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ نسل کشی کو روکے اوراس کے ذمہ داران کو سزا دلوائے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رونما ہورہا ہو۔

    گیمبیا نے ثبوت کے طور پر عدالت میں اقوام متحدہ کی رپورٹس پیش کی ہیں جو روہنگیا مسلمانوں کے قتل، اجتماعی زیادتی اور دیہاتوں کو جلانے کے حوالے سے تیار کی گئی ہیں۔

    گیمبیا نے عدالت انصاف سے درخواست کی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے کا حکم دیا جائے تاکہ صورتحال کو مزید بدتر ہونے سے روکا جاسکے۔

    درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ میانمار کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مظالم کے ثبوت محفوظ رکھے اور ان تک اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو رسائی دے۔

    کیس کو 17 رکنی ججز کا پینل دیکھ رہا ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ یہ کیس کئی سال تک چل سکتا ہے۔ جیسا کہ بوسنیا نسل کشی کے خلاف کیس جو سنہ 1995 میں شروع ہوا اور اسے مکمل ہونے میں 15 برس لگے۔

    کیس کی سماعت میں میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی پیش ہوئیں تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میانمار میں جنگی جرائم ہو رہے ہیں تاہم انہوں نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا۔

    انہوں نے عدالت میں اس بات پر بھی اصرار کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور فوجی آپریشن ضرور کیا جارہا ہے، تاہم اس کا ہدف رخائن کی ریاست میں موجود مسلح اور جنگجو مسلمان ہیں، نہتے اور غیر مسلح روہنگیوں کو کچھ نہیں کہا جارہا۔

    کیس کا دارو مدار چونکہ ’نسل کشی‘ پر ہے لہٰذا دوران سماعت میانمار کے ایک وکیل نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کی اموات کی تعداد اتنی نہیں کہ اسے نسل کشی قرار دیا جائے۔

    آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف سے اس درخواست کو خارج کرنے کی بھی درخواست کی اور کہا کہ اس ضمن میں پہلے ان کے اپنے ملک کی عدالتوں کو کام کرنے کا موقع دینا چاہیئے۔