Tag: gaza ceasefire

  • حماس کا غزہ فائر بندی مذاکرات سے متعلق اہم بیان

    حماس کا غزہ فائر بندی مذاکرات سے متعلق اہم بیان

    فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ غزہ فائر بندی مذاکرات میں بعض بنیادی معاملات میں اہم پیش رفت ہوگئی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ بقیہ معاملات پر جلد اتفاقِ رائے کی کوششیں کررہے ہیں۔

    واضح رہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ دوحہ میں جاری جنگ بندی مذاکرات کے نتیجے میں غزہ امن معاہدہ اسی ہفتے ہوسکتا ہے۔

    امریکا کے نومنتخب نائب صدر وینس نے بھی اسرائیل اور حماس کے مابین جلد از جلد معاہدہ طے پانے کے لیے امید لگا لی ہے۔

    نائب صدر نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جلد ہی ایک معاہدہ طے پا سکتا ہے اور اس پیش رفت کی وجہ یہ ہے کہ لوگ خوفزدہ ہیں کہ حماس کے لیے اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ایک معاہدہ ہونے والا ہے جو کہ بائیڈن انتظامیہ کے بالکل اختتام کی طرف ہے شاید آخری یا دو دن۔

    وہ اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ گزشتہ ہفتے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کیا مطلب تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ اگر حماس اپنے باقی ماندہ قیدیوں کو رہا نہیں کرتا تو مشرق وسطیٰ کو جہنم بنا دیں گے۔

    لاس اینجلس : سب سے مہنگا گھر شعلوں کی نذر ہوگیا، تصاویر دیکھیں

    وینس نے کہا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ صدر ٹرمپ کا حماس کو دھمکی دینا اور یہ واضح کرنا کہ نتائج میں جہنم کا سامنا کرنا پڑے گا اس وجہ سے ہم نے کچھ یرغمالیوں کو نکالنے میں پیش رفت کی ہے۔

  • حماس اسرائیل معاہدے میں کن باتوں پر اتفاق ہوا ہے؟

    حماس اسرائیل معاہدے میں کن باتوں پر اتفاق ہوا ہے؟

    حماس نے اسرائیل کی طرف سے پیش کی گئی 34 یرغمالیوں کی ایک فہرست پر اتفاق کر لیا۔

    روئٹرز کے مطابق امریکی اور عرب ثالثوں کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے کوششیں تیز ہو گئی ہیں، معاہدہ ہونے کی صورت میں ان قیدیوں کا فلسطینی قیدیوں کے بدلے تبادلہ کیا جائے گا۔

    حماس کے ایک عہدیدار نے اتوار کو روئٹرز کو بتایا کہ کوئی بھی معاہدہ غزہ سے اسرائیلی انخلا اور مستقل جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچنے سے مشروط ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی مذاکراتی وفد کے ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ معاہدے کے حوالے سے تمام بقایا نکات کے حل موجود ہیں، ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ معاہدہ عبوری ہوگا اور تقریباً 2 سے 3 ماہ تک جاری رہے گا۔

    اسرائیلی وفد کے مطابق اس معاہدے میں حماس کے رہنماؤں کو اندرون اور بیرون ملک نشانہ بنانے سے استثنیٰ دینے کی شرط رکھی گئی ہے، جس کے بدلے میں حماس رہنما غزہ کی پٹی چھوڑ دیں گے۔

    غزہ میں عرب اور بیرونی ممالک کے ساتھ مل کر ایک آزاد فلسطینی ادارے کو اقتدار سونپا جائے گا، غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی افواج کو اسی طرح تعینات کیا جا سکتا ہے جیسا کہ جنوبی لبنان میں یونی فِل تعینات ہے۔

    امریکا ممکنہ معاہدے کی تمام شقوں کے ساتھ اس کے نفاذ کی سرپرستی کرے گا۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے جمعہ کے روز قطر اور مصر کی ثالثی میں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے مذاکرات کاروں کو دوحہ بھیجا تھا۔ امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے حماس پر زور دیا کہ وہ ایک معاہدے پر رضامند ہو جائے۔

  • غزہ میں جنگ بندی کے لیے دوحہ مذاکرات میں بڑی پیش رفت

    غزہ میں جنگ بندی کے لیے دوحہ مذاکرات میں بڑی پیش رفت

    غزہ میں جنگ بندی کے لیے دوحہ مذاکرات میں پیش رفت سامنے آئی ہے، حماس ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں جنگ بندی 42 دن کی ہوگی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ میں پہلے مرحلے میں قید اسرائیلی خواتین اور بوڑھوں کو آزاد کیا جائے گا، بدلے میں اسرائیل جیلوں میں قید فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔

    رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں اسرائیلی فورسز غزہ کی مشرقی سرحد پر واپس جائیں گی۔ دوسرے مرحلے میں غزہ سے اسرائیلی افواج انخلاء کرے گی، بدلے میں غزہ میں قید اسرائیلی فوجیوں کو رہا کردیا جائے گا۔

    اسرائیلی آرمی چیف کا کہنا ہے کہ غزہ میں قید 100 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لئے حماس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

    دوسری جانب غزہ میں اسرائیل کی جانب سے خون کی ہولی کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے، قابض صیہونی فوج کے فضائی حملے میں مزید 10 فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔

    رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں ایک گھر کو نشانہ بنایا۔

    سوئٹزرلینڈ میں حزب اللہ پر پابندی کی قرارداد منظور

    فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں مزید 38 فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے جبکہ 203 کے قریب زخمی ہوئے۔

  • ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دیں

    ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دیں

    نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششوں کا آغاز کردیا، ٹرمپ کے نامزد ایلچی نے قطری اور اسرائیلی وزرائے اعظم سے ملاقات کی ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے گزشتہ ماہ قطر کا دورہ کیا۔

    رپورٹس کے مطابق اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ ملاقات کے نتیجے میں قطر نے ثالثی کا کردار دوبارہ شروع کردیا ہے۔

    امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ حماس کے مذاکرات کار مذاکرات کے نئے دور کی سہولت کے لیے دوحہ واپس جائیں گے۔

    اس سے قبل نومنتخب امریکی صدر نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ 20 جنوری کی تقریب حلف برداری سے پہلے یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو مشرق وسطیٰ کو جہنم بھگتنی ہوگی۔

    نو منتخب امریکی صدر کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے انسانیت کے خلاف ان مظالم کا ارتکاب کیا وہ قیمت ادا کریں گے۔

    دسمبر کے دوران امارات کا سفر کرنے والوں کو کیلئے اہم خبر

    انہوں نے کہا کہ اس سب کے ذمہ داروں کو ایسا سبق دیا جائے گا جیسا پہلے کبھی امریکی تاریخ میں نہیں دیا گیا، یرغمالیوں کو فوری رہا کیا جائے۔

  • امریکا نے غزہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی

    امریکا نے غزہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی

    نیویارک : غزہ پر اسرائیلی مظالم جاری رہیں گے، امریکا نے سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی۔ امریکا پہلے بھی تین بار جنگ بندی کی قرار دادیں ویٹو کرچکا ہے۔

    اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 10 منتخب ممالک نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ غزہ میں غیر مشروط، فوری اور مستقل جنگ بندی کی جائے۔

    خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق قرارداد کے حق میں 14مستقل ممالک نے ووٹ دیا لیکن امریکا نے قرارداد کو ویٹو کردیا، امریکا 7 اکتوبر 2023 سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران پہلےبھی 3 بار جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔

    یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقے پر بمباری کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں اب تک تقریباً 44ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں17ہزار چار سو سے زائد بچے شامل ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران غزہ میں ہر30منٹ میں ایک بچہ اسرائیلی حملوں سے شہید ہوا۔

    اگرچہ قرار داد میں غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کا مطالبہ شامل تھا، واشنگٹن نے "غیر مشروط” جنگ بندی کے مطالبے کی مخالفت کی تھی۔

    اقوام متحدہ میں امریکی نائب مندوب رابرٹ وُڈ نے نیویارک میں اجلاس کے دوران کہا کہ ہم نے مذاکرات کے دوران واضح کر دیا تھا کہ ہم ایسی کسی غیر مشروط جنگ بندی کی حمایت نہیں کرسکتے جو یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی نہ بنائے، انہوں نے مزید کہا کہ جنگ کے پائیدار خاتمے کے لیے یرغمالیوں کی رہائی ضروری ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد کو چوتھی بار ویٹو کیا ہے۔

  • حماس نے غزہ جنگ بندی کے لیے تجاویز کو دھوکہ قرار دے دیا

    حماس نے غزہ جنگ بندی کے لیے تجاویز کو دھوکہ قرار دے دیا

    فلسطینی تنظیم حماس کے ترجمان نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی کے لیے اسرائیل کی نئی تجاویز آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔

    اپنے ایک جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کی تجاویز میں اسرائیلی جارحیت کو روکنا شامل نہیں تھا۔

    اس کے علاوہ تجاویز میں اسرائیلی فوج کا انخلا اور بےگھر فلسطینیوں کی واپسی بھی شامل نہیں تھی۔

    ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم وقت حاصل کرنے کے لیے جنگ بندی کا ڈرامہ رچاتا ہے۔

    نیتن یاہو غزہ میں جارحیت جاری رکھنے کیلئے مذاکرات کو کور کے طور پراستعمال کررہا ہے، اسرائیل لبنان پر مرکوز جنگ بندی مذاکرات میں بھی ایسا ہی کررہا ہے۔

    اس سے قبل بھی ایک بیان میں حماس ترجمان نے واضح کیا تھا کہ غزہ جنگ بندی کے لیے نئی تجاویز کی ضرورت نہیں، اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ حماس کے قبول کیے گئے امریکی منصوبے پر رضامند ہو۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے بھی اپنے بیان میں یہی کہا تھا کہ اسرائیل جنگ بندی کی کوششوں کو "مسترد” کر رہا ہے، بیروت کے مضافات میں ہونے والے حالیہ حملے اس کا واضح ثبوت ہیں۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق لبنان کے وزیر اعظم نے اسرائیل پر جنگ بندی کے خاتمے کی کوششوں کو مسترد کرنے کا الزام اس وقت عائد کیا جب اسرائیلی فوج نے جنوبی بیروت پر دوبارہ بمباری کی۔

    وزیر اعظم میقاتی نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بیروت کے جنوبی علاقے اور دیگر علاقوں پر بمباری “اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کو یقینی بنانے کی تمام کوششوں کو مسترد کرنے کا اشارہ دیتی ہے۔

    جبالیہ کیمپ اسرائیلی فوج کا قبرستان بن گیا

    علاوہ ازیں غزہ کا جبالیہ کیمپ اسرائیلی فوجیوں اور ٹینکوں کا قبرستان بنتا جارہا ہے، القسام بریگیڈ نے راکٹ مار کر جدید بکتر بند گاڑی تباہ کردی، ایک صہیونی فوجی کو اسنائپر سے نشانہ بنایا گیا، سر میں گولی لگنے سے اہلکار وہیں ڈھیر ہوگیا۔

  • غزہ جنگ بندی کے لیے سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے سربراہان کی گفتگو سامنے آ گئی

    غزہ جنگ بندی کے لیے سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے سربراہان کی گفتگو سامنے آ گئی

    لندن: غزہ جنگ بندی کے لیے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سکس کے سربراہان کی فون پر ہونے والی گفتگو سامنے آ گئی ہے۔

    ہفتے کے روز فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز اور ایم آئی 6 کے چیف رچرڈ مور نے کہا کہ دونوں ایجنسیوں نے غزہ میں کشیدگی کم کرنے اور فریقین میں تحمل لانے کے لیے تمام انٹیلیجنس چینلز کو استعمال کیا ہے۔

    CIA اور MI6 کے سربراہان نے غزہ جنگ بندی کے لیے مشترکہ اپیل جاری کی، اور کہا کہ وہ غزہ جنگ بندی کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی فلسطینی شہریوں کے مصائب اور ہولناک جانی نقصان کو ختم کر سکتی ہے اور 11 ماہ کی جہنم کی قید کے بعد یرغمالیوں کو گھر پہنچا سکتی ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا اور برطانیہ دونوں اسرائیل کے کٹر اتحادی ہیں، تاہم لندن نے اس ہفتے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد کے لائسنسوں کی ایک چھوٹی سی تعداد کو معطل کر دیا ہے، الجزیرہ کے مطابق اس کی وجہ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے دوران بین الاقوامی قانون کی ممکنہ خلاف ورزی ہے۔

    نئے امریکی صدر سے پہلے سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے گا، اینٹنی بلنکن

    واضح رہے کہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے امریکی اور برطانوی مدد اور حمایت کے ساتھ غزہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کرنے کی وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں، غزہ میں طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 33 فلسطینی مارے گئے ہیں، جب کہ اب تک غزہ میں 40,878 فسلطینی شہید ہو چکے ہیں، زخمیوں کی تعداد 1 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔

    امریکی کانگریس کے نمائندگان نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن مغربی کنارے میں جاری جارحیت سے آنکھیں نہیں پھیر سکتے، مغربی کنارے میں پرتشدد کارروائیاں روکنی ہوں گی۔

  • امریکی صدر نے اسرائیل اور حماس سے معاہدے کے لیے نرم شرائط کی اپیل کر دی

    امریکی صدر نے اسرائیل اور حماس سے معاہدے کے لیے نرم شرائط کی اپیل کر دی

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل اور حماس سے غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے نرم شرائط کی اپیل کر دی۔

    روئٹرز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ کو قطر کے امیر اور مصر کے صدر سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے، امریکی صدر نے ثالثی کرنے والے دونوں رہنماؤں سے غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے بات چیت کی۔

    وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر نے عبدالفتاح السیسی اور شیخ تمیم بن حمد سے اسرائیل اور حماس میں مذاکرات پر بھی تفصیلی گفتگو کی، جو بائیڈن نے گفتگو کے دوران کہا کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے اسرائیل اور حماس نرم شرائط رکھیں۔

    خیال رہے کہ ایک طرف امریکا اور ثالثی ممالک غزہ میں جنگ بندی کے لیے دن رات کوششیں کر رہے ہیں، دوسری طرف صہیونی ریاست اسرائیل نے غزہ پر مسلسل بمباری جاری رکھی ہوئی ہے، اور روزانہ متعدد فلسطینی نوجوان، بچے اور خواتین شہید ہو رہے ہیں، اسرائیل اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں، غزہ میں جن کے واضح ثبوت عالمی عدالت انصاف کو بھی فراہم کیے جا چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ جو بائیڈن کیلیفورنیا کی سانتا ینیز وادی میں ایک فارم پر چھٹیاں گزار رہے ہیں، تاہم وہ غزہ جنگ بندی کے مذاکرات کی بھی بہ غور نگرانی کر رہے ہیں۔

  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، قطر کے تجزیہ کار نے امریکی چال بازیاں بے نقاب کر دیں

    غزہ جنگ بندی مذاکرات، قطر کے تجزیہ کار نے امریکی چال بازیاں بے نقاب کر دیں

    دوحہ: غزہ جنگ بندی مذاکرات کی ناکامی کے تناظر میں قطر کے ایک تجزیہ کار نے امریکی چال بازیاں بے نقاب کر دیں۔

    دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ اسٹڈیز کے پروفیسر محمد الماسری نے الجزیرہ کو بتایا کہ نیتن یاہو کا غزہ جارحیت ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، جو بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر غزہ جنگ بندی قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔

    الماسری نے کہا کہ امریکا نے غزہ جنگ بندی مذاکرات میں اسرائیل پر خاطر خواہ دباؤ نہیں ڈالا، وہ واقعی اسرائیل پر کوئی دباؤ نہیں ڈال رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ فریقین میں خلیج پاٹنے کی موجودہ نام نہاد تجویز ’’فلسطینیوں کے لیے ایک دہشت ناک سودا‘‘ ہے اور حماس کی جانب سے اسے قبول کرنے کی واحد وجہ اگر کوئی ہو سکتی ہے تو بس یہ کہ اس سے انھیں اسرائیلی بموں سے چند ہفتوں کے لیے ’’چھٹکارا‘‘ مل جائے گا۔

    انھوں نے کہا کہ یہ معاہدہ اتنا برا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے اسرائیلی اور امریکی چاہتے ہیں کہ حماس ’’نا‘‘ کہے، تاکہ وہ حماس پر امن عمل کو روکنے کا الزام لگا سکیں۔

    امریکا، قطر اور مصر کی کوششیں ناکام، غزہ جنگ بندی معاہدہ نہ ہو سکا

    الماسری نے مزید کہا کہ سابق امریکی صدر اور ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی فوری جنگ بندی دیکھنے میں بہت کم دل چسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ ’’صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ابھی جنگ بندی کا معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس سے کملا ہیرس کی مہم میں مدد ملے گی۔‘‘

    واضح رہے کہ امریکا، قطر اور مصر کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں، اور جنگ بندی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ اعلیٰ امریکی سفارت کار انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ کا دورہ ختم کر دیا ہے، انھوں نے فریقین سے اپیل کی کہ اب ’اختتامی لائن‘ قریب ہے انھیں غزہ جنگ بندی معاہدے تک پہنچ جانا چاہیے۔

  • امریکا، قطر اور مصر کی کوششیں ناکام، غزہ جنگ بندی معاہدہ نہ ہو سکا

    امریکا، قطر اور مصر کی کوششیں ناکام، غزہ جنگ بندی معاہدہ نہ ہو سکا

    قاہرہ: امریکا، قطر اور مصر کی کوششیں ناکام ہو گئیں، غزہ جنگ بندی معاہدہ نہ ہو سکا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اعلیٰ امریکی سفارت کار انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ کا دورہ ختم کر دیا، انھوں نے فریقین سے اپیل کی کہ اب ’اختتامی لائن‘ قریب ہے انھیں غزہ جنگ بندی معاہدے تک پہنچ جانا چاہیے۔

    الجزیرہ ٹی وی نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ کا دورہ ختم کر دیا ہے، امریکی وزیرخارجہ نے کہا غزہ میں اسرائیلی اسیران اور فلسطینیوں کے لیے وقت اہم ہے، مصر میں ہونے والی یہ بات چیت غزہ میں جنگ بندی کا آخری موقع ہو سکتا ہے۔

    تاہم، حماس نے امریکا اور اسرائیل پر تاخیر اور نئی شرائط شامل کرنے کا الزام لگایا، اور کہا ہے کہ امریکا اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کے لیے وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    نیتن یاہو کا بیان غزہ جنگ بندی کیلیے مددگار نہیں، امریکی اہلکار

    دوسری طرف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا نے جنگ بندی مذاکرات میں اسرائیل پر خاطر خواہ دباؤ نہیں ڈالا۔ دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ اسٹڈیز کے پروفیسر محمد الماسری نے الجزیرہ کو بتایا کہ نیتن یاہو کا غزہ جارحیت ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر جنگ بندی قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔