Tag: gaza

  • ’کاش میرا دل ان کے دل جیسا ہوتا‘ غزہ سے واپسی پر امریکی نرس کا سی این این کو دل دہلا دینے والا انٹرویو

    ’کاش میرا دل ان کے دل جیسا ہوتا‘ غزہ سے واپسی پر امریکی نرس کا سی این این کو دل دہلا دینے والا انٹرویو

    دنیا کے سب سے بڑے محصور شہر غزہ میں صہیونی بربریت کے ہاتھوں انسانیت مٹتی جا رہی ہے، اور دنیا بھر کے لوگ رنگ و نسل، اور مذہب سے مبرا ہو کر اس پر چیخ اٹھے ہیں، ایک امریکی نرس نے بھی غزہ میں خدمات انجام دینے کے بعد واپسی پر اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے۔

    لہو لہو فسلطینی شہر غزہ میں ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کے تحت کام کرنے والی ایک نرس ایملی کالہان نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو میں منگل کو کہا ’’ان کا دل ابھی بھی غزہ ہی میں ہے، غزہ کے شہری بہترین لوگ ہیں۔‘‘

    غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری نے امریکی نرس کو جذباتی کر دیا، غزہ کے لوگوں کی بہادری اور بلند حوصلوں پر بولیں کہ کاش ان کا دل بھی غزہ کے لوگوں کے دل جیسا ہوتا۔

    گزشتہ ہفتے امریکا لوٹنے والی نرس نے کہا ’’اپنی جان کی پروا کیے بغیر طبی عملہ غزہ میں رکا ہے، اور میرا دل ابھی بھی غزہ میں ہے، غزہ کے شہری بہترین لوگ ہیں، کاش میرا دل بھی ان کے دل جیسا ہوتا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ جو طبی عملہ غزہ میں رہ گیا ہے اسے معلوم ہے کہ اسرائیلی حملوں کے سبب ان کی جانوں کو بھی خطرہ ہے، لیکن پھر بھی انھوں نے غزہ میں رہنے کو ترجیح دی۔

    امریکی نرس ایملی نے تقریباً ایک ماہ تک غزہ میں کام کیا، انھوں نے انٹرویو میں ان خوفناک حالات کے بارے میں بات کی جس میں فلسطینی شہری زندگی گزار رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’مجھے واضح طور پر راحت کا احساس ہے کہ میں گھر ہوں اور میں اپنے خاندان کے ساتھ ہوں اور 26 دنوں میں پہلی بار خود کو محفوظ محسوس کر رہی ہوں۔ لیکن میں اس بات میں کوئی خوشی محسوس نہیں کر رہی ہوں، کیوں کہ میرا محفوظ رہنا لوگوں کو پیچھے چھوڑ آنے کا نتیجہ ہے۔‘‘

    فلسطینی بچوں نے دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے پریس کانفرنس کر ڈالی

    ایملی کالہان نے بتایا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ جنوب میں ایک پناہ گزین کیمپ میں منتقل ہوئی، اس کیمپ میں 35,000 بے گھر لوگ مقیم تھے اور اب اس کیمپ میں 50,000 لوگ پناہ لینے پر مجبور ہیں، یہاں وسائل کی اتنی کمی تھی کہ لوگوں کو ہر 12 میں سے صرف 2 گھنٹے پانی تک رسائی حاصل تھی۔ ایملی نے کہا اسپتال بھرے ہوئے تھے اور لوگوں کو علاج کے فوراً بعد ڈسچارج کرنا پڑتا تھا، اس لیے لوگ بالخصوص بچے بغیر صحت یاب ہوئے، جلنے اور دیگر تازہ زخموں کے ساتھ کیمپ میں ادھر ادھر گھومتے دکھائی دیتے تھے۔

    ایملی نے اپنے فلسطینی ساتھیوں کی بے مثال قربانی کے حوالے سے کہا کہ اگر وہ نہ ہوتے تو ہم ایک ہفتے کے اندر مر جاتے، ایملی نے کہا فلسطینی ساتھیوں نے غیر ملکی ڈاکٹروں اور نرسوں کے زندہ رہنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں، سپلائی ختم ہونے پر ہمارے لیے خوراک اور پانی تلاش کر کے دیتے تھے اور انخلا کے وقت بسوں پر محفوظ لے جانے کے لیے جانیں خطرے میں ڈالتے تھے۔

  • فلسطینی بچوں نے دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے پریس کانفرنس کر ڈالی

    فلسطینی بچوں نے دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے پریس کانفرنس کر ڈالی

    غزہ: مظلوم فلسطینی بچوں نے دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے پریس کانفرنس کر ڈالی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق منگل کی رات اسرائیلی وحشیانہ حملوں میں بچ جانے والے چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں نے دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے غزہ کے الشفا اسپتال میں پریس کانفرنس کر ڈالی۔

    دس سالہ بچے نے کہا اکتوبر کی ساتویں تاریخ سے ہمیں نسل کشی کا سامنا ہے، ہمارے سروں پر بموں کی بارش کی جا رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ ہم زندہ تو ہیں لیکن انھوں نے زندگیوں کو مار ڈالا ہے۔

    اس نے کہا ’’وہ دنیا سے جھوٹ بول رہے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ مزاحمتی جنگجوؤں کو نشانہ بنا رہے ہیں، لیکن ہم بچے ایک سے زیادہ بار ان کی لائی ہوئی موت سے بچ چکے ہیں، انھوں نے غزہ کے لوگوں کو قتل کیا، ہمارے خوابوں اور ہمارے مستقبل کو مارا۔‘‘

    غزہ کے مظلوم بچوں سے یکجہتی کے لیے شاہراہِ قائدین پر اسکولوں کے ہزاروں طلبہ کا مارچ

    غزہ کے بچوں کے نمائندے نے کہا ’’ہم ایک محفوظ جگہ کی تلاش میں الشفا اسپتال آئے تھے لیکن یہاں بھی ہمیں بار بار بمباری کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم حیران تھے کہ قابض فوج کی جانب سے الشفا اسپتال کو نشانہ بنانے کے بعد ہمیں ایک بار پھر موت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘

    بچے نے دنیا سے اپیل کرتے ہوئے کہا ’’قابض فوج ہمیں بھوکا مار رہی ہے، غزہ میں بہت سے بچے مر چکے ہیں، بہت سے بچوں نے اپنے خاندانوں کو کھو دیا ہے، بچوں کو مارنا بند کرو، قابض افواج ہم بھوکے ہیں، ہمارے پاس پانی اور کھانا نہیں ہے، ہم ناقابل استعمال پانی پیتے ہیں، ہم اب چیخنے اور اپنی حفاظت کے لیے آپ سے لڑنے آئے ہیں۔ ہم جینا چاہتے ہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں۔ ہمیں خوراک، دوا اور تعلیم دو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے زندہ رہیں۔‘‘

    واضح رہے کہ ان بچوں میں سے کوئی تو بے گھر ہونے والے پناہ گزین ہیں، جنھیں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں بھاگ کر الشفا اسپتال میں پناہ لینی پڑی تھی، اور کچھ وہ ہیں جو اپنے والدین کی لاشوں کے ساتھ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ اسپتال آئے تھے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ میں ہر دس منٹ میں ایک بچہ مر رہا ہے۔ غزہ میں فلسطینی وزارت صحت کے فراہم کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنگ کے آغاز سے اب تک 4,237 بچے شہید جا چکے ہیں۔

  • اسرائیلی حملوں میں اقوام متحدہ کی بیکریوں کو نقصان، شمالی غزہ میں آٹا، پانی ختم

    اسرائیلی حملوں میں اقوام متحدہ کی بیکریوں کو نقصان، شمالی غزہ میں آٹا، پانی ختم

    غزہ: وحشیانہ اسرائیلی حملوں میں اقوام متحدہ کی بیکریوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، شمالی غزہ میں قائم تمام بیکریاں بند ہونے سے آٹا اور پانی ختم ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شمالی غزہ میں آٹا اور پانی ختم ہونے کے باعث تمام بیکریاں بند ہو گئی ہیں، اسرائیلی فورسز کے حملوں میں شمالی غزہ میں متعدد بیکریوں کو نقصان بھی پہنچا ہے۔

    یو این کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے سے شمالی غزہ میں خوراک نہیں پہنچائی جا سکی ہے، جس سے صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے، جب کہ جنوبی غزہ میں صرف 9 بیکریاں جزوی طور پر کام کر رہی ہیں۔

    الجزیرہ کے مطابق غزہ کی وزارت داخلہ کا بھی کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں تمام بیکریاں مسلسل اسرائیلی بمباری کے باعث اور ایندھن اور آٹے کی کمی کی وجہ سے بند ہو گئی ہیں۔

    واضح رہے کہ محصور شہر غزہ کے باسیوں کے کھانے پینے کا زیادہ تر انحصار اقوام متحدہ کی قائم بیکریوں پر ہے، جہاں کھانے کی اشیا کے لیے طویل قطاریں لگتی ہیں، اس امید میں کہ غزہ والے اپنے بچوں کے لیے کھانے کو کچھ حاصل کر سکیں گے۔

  • اسکاٹش فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف کے رشتے دار تاحال غزہ میں پھنسے ہوئے ہیں

    اسکاٹش فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف کے رشتے دار تاحال غزہ میں پھنسے ہوئے ہیں

    ایڈنبرا: اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف کے رشتے دار تاحال غزہ میں پھنسے ہوئے ہیں، انھوں نے اسرائیل سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف نے کہا ہے کہ بس اب بہت ہوا، اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری اب بند ہونی چاہیے، انھوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تاریخ گواہ رہے کہ اسکاٹ لینڈ نے درست سِمت اختیار کی۔

    حمزہ یوسف کا کہنا تھا کہ غزہ میں اب بھی ان کے کئی رشتے دار پھنسے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ ان کی اہلیہ اور ان کے سسرال والے بھی غزہ میں پھنسے ہوئے تھے تاہم اب وہ وہاں سے نکل چکے ہیں۔

    فرسٹ منسٹر کا کہنا تھا کہ 10 ہزار سے زائد افراد شہید ہو گئے ہیں جن میں 4 ہزار بچے بھی شامل ہیں، غزہ میں بین الاقوامی برادری جنگ بند کروائے۔

    واضح رہے کہ عالمی سطح پر جنگ بندی کے مطالبوں کے باوجود غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری ہے، اور غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، گزشتہ روز اسرائیلی فورسز نے رفح میں بمباری کی جس میں 14 فلسطینی شہید ہوئے، پناہ گزینوں کے المغازی کیمپ پر بھی اسرائیلی طیاروں نے پھر بمباری کی، شاط کیمپ میں حملے کے دوران 2 گھر تباہ کر دیے گئے، مغربی کنارے پر پُر تشدد کارروائیوں میں مزید 10 فلسطینی شہید ہوئے۔

    ادھر سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا، تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کی ہٹ دھرمی قائم ہے، انھوں نے کہا جب تک حماس یرغمالی رہا نہیں کرتا، جنگ بندی نہیں ہو سکتی، جنگ میں تھوڑی دیر کے لیے وقفے کو قبول کیا جا سکتا ہے۔

  • غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں دنیا متحد ہونا شرع ہو گئی

    غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں دنیا متحد ہونا شرع ہو گئی

    غزہ: صہیونی فورسز کی جانب سے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں دنیا متحد ہونا شرع ہو گئی ہے، اور اسرائیل کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آشکار ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطین کی حمایت اور غزہ کے عوام کی نسل کشی کے خلاف عالمی سطح‌ پر صہیونی حکومت کی مذمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

    مغربی کنارے کے شہر تلکرم میں اپنے مظلوم بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مارچ میں فلسطینیوں‌ نے پرچم اٹھا کر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کی، امریکی وزیرِ خارجہ کے دورہ عراق کے موقع پر دارالحکومت بغداد میں بڑا مظاہرہ کیا گیا، انٹونی بلنکن جب بغداد کے دورے کے بعد جب ترکیے پہنچے تو وہاں بھی ان کو مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا، ترکیے کے بڑے شہر ادرنا کے شہریوں نے احتجاج کے دوران امریکی ایئر بیس پر دھاوا بول دیا۔

    غزہ کے دفاع میں برطانوی عوام کی جانب سے بھی پرجوش حمایت جاری ہے، لندن کے بعد ایڈنبرا میں ہزاروں شہری ٹرین اسٹیشن پر جمع ہوئے، مظاہرین صہیونی حکومت کے خلاف اور فلسطین کے حق میں نعرے لگاتے رہے، ایمسٹرڈیم اور نیدرلینڈز میں بھی نہتے مظلوم بے بس فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے گئے۔

    فلسطینی بچے بھی اتنے ہی اہم ہیں ، جتنے اسرائیلی اور امریکی بچے، امریکی سینیٹر برنی سینڈرز پھٹ پڑے

    ادھر اقوام متحدہ نے ایک بار پھر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے، اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے سربراہان نے اتوار کو کہا کہ غزہ میں ایک پوری آبادی محصور اور حملوں کا شکار ہے، وہ زندہ رہنے کے لیے ضروری اشیا تک رسائی سے محروم ہیں، ان کے گھروں، پناہ گاہوں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔

    یو این ایجنسیوں‌ کے سربراہان نے کہا یہ ناقابل قبول ہے، غزہ میں مزید خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن لے جانے کی اجازت دی جانی چاہیے، تاکہ محصور آبادی کی مدد کی جا سکے، ہمیں انسانی بنیادوں پر فوراً جنگ بندی کی ضرورت ہے۔

  • غزہ میں اسرائیل کے میجر سمیت مزید 4 فوجی ہلاک

    غزہ میں اسرائیل کے میجر سمیت مزید 4 فوجی ہلاک

    غزہ: فلسطین کے محصور شہر غزہ میں حماس کے ہاتھوں اسرائیل کے میجر سمیت مزید 4 فوجی ہلاک ہو گئے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں جاری لڑائی میں اپنے مزید چار فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے، جس کے بعد 7 اکتوبر سے اب تک ہلاک فوجیوں کی تعداد 345 ہو گئی ہے۔

    اسرائیلی میڈیا کے مطابق شمالی غزہ کی پٹی میں لڑائی کے دوران ہلاک فوجیوں میں کمپنی کمانڈر میجر یہودا نتن کوہن، ماسٹر سارجنٹ لیور آرازی، اسٹاف سارجنٹ گیلاد نیہمیا نطزان اور اسٹاف سارجنٹ یونادو راز شامل ہیں۔

    گزشتہ ہفتے سے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی زمینی کارروائی میں ہلاک اسرائیلی فوجیوں کی تعداد اٹھائیس ہو گئی ہے، آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ غزہ میں الگ الگ جھڑپوں میں دیگر دو فوجی شدید زخمی بھی ہوئے۔

    ادھر حماس کے القسام بریگیڈ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں لڑائی کے دوران گزشتہ 2 دن میں 24 اسرائیلی فوجی گاڑیاں اور ٹینک تباہ کر دیے گئے ہیں، مجاہدین غزہ کے شمال مغرب اور جنوب میں اگلے محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔

    اسرائیل کی غزہ پر ایٹمی حملے کی دھمکی

    ترجمان کے مطابق اسنائپرز رہائشی عمارتوں اور دیگر مقامات پر اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جب کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی بمباری میں 60 یرغمالی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔

  • جدید امریکی ڈرونز بھی غزہ میں قیدیوں کو تلاش نہ کر سکے

    جدید امریکی ڈرونز بھی غزہ میں قیدیوں کو تلاش نہ کر سکے

    واشنگٹن: جدید امریکی ڈرونز بھی محصور شہر غزہ میں اسرائیلی اور امریکی قیدیوں کو تلاش نہ کر سکے، پینٹاگون نے غزہ پر سے غیر مسلح ڈرون اڑانے کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی اور اسرائیلی قیدیوں کی تلاش میں غزہ کے اوپر امریکی ڈرونز کا استعمال کیا جا رہا ہے، امریکی حکام نے کہا ہے کہ وہ حماس کے ہاتھوں بنائے گئے قیدیوں کی تلاش میں غزہ میں نگرانی کرنے والے ڈرونز کا استعمال کر رہا ہے۔

    بی بی سی کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل پیٹ رائڈر نے جمعہ کو کہا کہ یرغمالیوں کی بازیابی کی کوششوں میں مدد کے لیے ڈرون استعمال کیے گئے، UAV پروازیں 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئیں۔

    روئٹرز کے مطابق امریکی حکام نے کہا ہے کہ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی کے بعد سے 10 امریکی جو لاپتا ہیں وہ غزہ میں قید کیے گیے 200 سے زائد افراد میں شامل ہو سکتے ہیں۔

    امریکی حکام کے مطابق ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے غزہ پر ڈرون پروازیں آپریٹ کیے جا رہے ہیں۔

  • غزہ میں اسپتال، ایمبولینس اور اسکولوں پر بمباری، شہید فلسطینیوں کی تعداد 10 ہزار سے بڑھ گئی

    غزہ میں اسپتال، ایمبولینس اور اسکولوں پر بمباری، شہید فلسطینیوں کی تعداد 10 ہزار سے بڑھ گئی

    اسرائیلی فورسز کی بربریت میں مزید شدت آ گئی ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران صہیونی فورسز نے غزہ میں اسپتال، ایمبولینس اور اسکولوں پر بمباری کی، جس میں 100 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو گئے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 29 روز میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، غزہ میں گزشتہ روز الشفا اسپتال کے مرکزی دروازے پر بمباری سے درجنوں افراد شہید ہوئے، جب کہ فلسطینی زخمیوں کو مصر لے جانے والی ایمبولینس پر بھی اسرائیلی فوج نے حملہ کیا۔

    غزہ میں اسکول پر اسرائیلی بمباری میں 20 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے، شمال سے جنوب نقل مکانی کرنے والوں پر بھی بمباری کی گئی جس کے باعث 14 افراد شہید ہو گئے جب کہ خان یونس میں گھر پر حملے میں ایک خاندان کے 5 افراد شہید ہوئے۔

    دوسری طرف حماس نے اسرائیلی فوج کے ساتھ بیت الحنون میں شدید مقابلے کی ویڈیو جاری کر دی، جس نے اسرائیلی فوج کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا، اسرائیلی فوج نے بیت الحنون پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

    ادھر دنیا بھر میں اسرائیلی فورسز کی بربریت کو روکنے کے لیے لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، اور یک آواز ہو کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ میں قتل عام روکا جائے، فوری جنگ بندی کی جائے، امریکی ریاست اوریگن کے شہر پورٹ لینڈ میں مظاہرین اسرائیل جانے والے بحری جہاز پر چڑھ گئے اور احتجاج کیا، مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ اس جہاز میں ہتھیار ہیں جو اسرائیل بھیجے جا رہے ہیں۔

    ارجنٹینا میں ہزاروں سماجی کارکنوں نے ریلی نکالی اور فلسطین میں اسرائیلی فورسز کی جارحیت کو روکنے کا مطالبہ کیا، آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں غزہ میں شہید ہونے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں، مظاہرین نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

  • غزہ پر گرائے گئے بموں کی دھماکا خیز قوت ہیروشیما ایٹم بم سے زیادہ ہونے کا انکشاف

    غزہ پر گرائے گئے بموں کی دھماکا خیز قوت ہیروشیما ایٹم بم سے زیادہ ہونے کا انکشاف

    فلسطینی محصور شہر غزہ پر گرائے گئے بموں کی دھماکا خیز قوت ہیروشیما ایٹم بم سے زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    ترک میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ پر بموں کی ہیروشیما سے بڑی قیامت ڈھائی گی ہے، دوسری عالمی جنگ کے دوران ہیروشیما کی تباہی سے بھی زیادہ غزہ میں تباہی مچی۔

    غزہ حکام نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر سے غزہ کی پٹی پر 18 ہزار ٹن بم گرائے ہیں، جو دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم کی دھماکا خیز قوت سے 1.5 گنا زیادہ ہے۔

    غزہ حکومت کے میڈیا آفس کے سربراہ سلامہ معروف نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اسرائیلی بمباری سے 2 لاکھ سے زیادہ عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ ساڑھے 32 ہزار عمارتیں پوری طرح تباہ ہو گئیں۔

    صہیونی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں 85 سرکاری عمارتیں، 47 مساجد، 3 گرجا گھر، 203 اسکول تباہ ہو گئے ہیں، جب کہ حملوں کی شدت کی وجہ سے اعداد و شمار ابھی تک مکمل نہیں ہیں۔

    واضح رہے کہ جنیوا کنونشن کے تحت عبادت گاہوں اور اسکولوں اور دیگر شہری ڈھانچوں پر حملے ممنوع ہیں، سلامہ معروف کے مطابق اسرائیلی فورسز نے 908 خاندانوں کا قتل عام کیا، جس سے ہزاروں افراد شہید ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ حملوں میں مجموعی طور پر 35 صحافی، 124 ہیلتھ کارکن، اور ہنگامی امدادی ٹیموں کے 18 اہلکار بھی مارے گئے ہیں۔

  • غزہ بمباری: برطانوی رکن پارلیمنٹ نے ایسا کیا کہا کہ برطرفی کی ’سزا‘ مل گئی؟

    غزہ بمباری: برطانوی رکن پارلیمنٹ نے ایسا کیا کہا کہ برطرفی کی ’سزا‘ مل گئی؟

    لندن: غزہ جنگ بندی کے مطالبے پر برطانوی رکن پارلیمنٹ پال برسٹو کے خلاف ایک اقدام کے تحت انھیں‌ حکومتی عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔

    برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق قدامت پسند رکن پارلیمنٹ پال برسٹو کو غزہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر حکومتی عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

    پال برسٹو محکمہ برائے سائنس، اختراع اور ٹیکنالوجی کے پارلیمانی پرائیویٹ سیکریٹری تھے، انھوں نے گزشتہ جمعرات کو وزیر اعظم رشی سونک کو دو صفحات پر مشتمل ایک خط لکھ کر کہا تھا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی میں ’’مستقل‘‘ وقفے پر زور دیں، اس خط کے بعد انھیں عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا۔

    وزیر اعظم ہاؤس کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ پال برسٹو کو ایسے تبصروں پر برطرف کیا گیا ہے جو ’’اجتماعی ذمہ داری کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘‘

    برطانوی وزیر داخلہ نے فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کو ’نفرت مارچ‘ قرار دے دیا

    پیٹربورو حلقے سے تعلق رکھنے والے برطرف پال برسٹو نے اسکائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ رشی سونک کے فیصلے کو اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں، تاہم انھیں ایک ایسا عہدہ چھوڑنا پڑا جو انھیں پسند تھا۔ پال برسٹو نے یہ بھی کہا کہ ان کے حلقے کے لوگوں کو اسرائیل فلسطین جنگ سے متعلق فکر لاحق ہے، اس لیے اب وہ اس کے بارے میں کھل کر بات کر سکیں گے۔

    انھوں نے خط میں لکھا ’’ہزاروں مارے جا چکے ہیں اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں، اس طرح اسرائیل کو محفوظ بنانے کی باتیں نا قابل فہم ہیں، اس طرح کچھ بھی بہتر نہیں کیا جا سکتا، مستقبل جنگ بندی سے جانیں بچیں گی، اور جنھیں ضرورت ہے انھیں انسانی امداد فراہم ہو سکے گی۔‘‘

    پال برسٹو نے لکھا ’’فلسطینی عوام کے لیے پانی، بجلی اور ایندھن تک رسائی بہت ضروری ہے، اگر آپ اس پر کچھ کہیں گے کہ غزہ کے لوگوں کو حماس کے حملوں کی اجتماعی سزا نہ دی جائے، تو میں اور میرے حلقے اس پر آپ کے شکر گزار ہوں گے۔‘‘