Tag: George Floyd

  • سوشل میڈیا پر متعصبانہ میسجز : امریکی حکومت نے سخت ترین سزا سنادی

    سوشل میڈیا پر متعصبانہ میسجز : امریکی حکومت نے سخت ترین سزا سنادی

    نیو یارک : امریکا میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کا معاملہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا، آج بھی کچھ شرپسند عناصر سوشل میڈیا پر اپنی نفرت کا اظہار کررہے ہیں۔

    امریکہ کے شہر نیو یارک میں حکام نے نو فائر فائٹرز کو اپنے فون سے نسل پرستانہ میسجز اور میمز شیئر کرنے پر بغیر تنخواہ کے معطل کر دیا ہے۔ ان میسجز اور میمز میں منی ایپلس میں پولیس کے ہاتھوں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کا بھی مذاق اُڑایا گیا تھا۔

    خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک ترجمان نے اس معطلی کو نیو یارک کے محکمہ فائر کی تاریخ میں دی جانے والی سخت ترین سزا قرار دیا ہے۔

    فائر ڈپارٹمنٹ کشمنر ڈینیئل نگرو کا کہنا تھا کہ کئی سیاہ فام فائر فائٹرز سے شکایات موصول ہونے کے بعد محکمے نے 9 فائر فائٹرز کو بغیر تنخواہ کے کچھ دنوں سے لے کر چھ ماہ تک کے عرصے کے لیے معطل کر دیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ نو میں سے ایک فائر فائٹر کے بارے میں توقع ہے کہ وہ اپنی معطلی کے دن مکمل ہونے کے بعد ایجنسی چھوڑ دیں گے۔ اس کے علاوہ فائر ڈپارٹمنٹ کے تین افسران کی سرزنش بھی کی گئی۔

    نیویارک ٹائمز کے مطابق گذشتہ برس اپریل میں شیئر کیے جانے والے میمز اور میسجز میں سفید فام فائر فائٹرز نے منی ایپلس کے پولیس افسر ڈیرک شوون کے جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھنے سے ہونے والی ہلاکت کے لمحات کا مذاق اُڑایا تھا۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مذکورہ افسران نے دیگر نسل پرستانہ میسجز بھی شیئر کیے ہوئے تھے جن میں سے ایک مظاہرین پر آگ بجھانے کے آلے کے استعمال سے متعلق تھا۔

    سیاہ فام فائر فائٹرز نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ان کا ماننا تھا ڈپارٹمنٹ میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے معطلی چھوٹی سزا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈپارٹمنٹ کے سربراہان نے تسلیم کیا ہے کہ وہاں نسل پرستی، صنفی امتیاز اور ہراسگی کو گوارا کیا گیا ہے۔

    ڈینیئل نگرو کے مطابق محکمے نے حالیہ برسوں میں تاریخی طور پر متنوع(مختلف نسلی پس منظر کی حامل) کلاسوں کا اکیڈمی میں خیرمقدم کیا ہے۔

    انہوں نے مسئلے کا اعتراف کیا لیکن کہا کہ محکمے میں ہر نسل اور طبقے کی شمولیت پر کام کیا جا رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ انہیں ایسا محسوس کروائیں کہ ان کا یہاں سے تعلق ہے تاہم کچھ صورتوں میں ہم ناکام ہوئے ہیں۔

  • جارج فلائیڈ قتل کیس: سابق پولیس اہلکار ڈیرک شاوین مجرم قرار

    جارج فلائیڈ قتل کیس: سابق پولیس اہلکار ڈیرک شاوین مجرم قرار

    واشنگٹن: جیوری نے سیاہ فام جارج فلائیڈ قتل کیس میں سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل کا مجرم قرار دے دیا، جس کے بعد ڈیرک شووِن کوعدالت سے گرفتارکرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق جیوری نے سیاہ فام جارج فلائیڈ قتل کیس کا فیصلہ سنادیا، فیصلے میں سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکارڈیرک شووِن پر قتل کے 3 الزامات ثابت ہوئے۔

    جس کے بعد ڈیرک شووِن کوعدالت سےگرفتارکرلیا،سابق پولیس آفیسر ڈیرک شوون ضمانت پر رہا تھے۔

    جارج فلائیڈ کے خاندان نے جیوری کے فیصلے پر اظہارمسرت کیا جبکہ عدالت کے باہرجمع لوگوں نے ’بلیک لائیوز میٹر‘اور’انصاف‘ کے نعرےلگائے۔

    جارج فلوئیڈ کے قتل کے فیصلے سےقبل منی ایپلس میں سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت کیے گئے اور منی تین ہزار نیشنل گارڈز کو طلب کرلیا گیا تھا۔

    صدرجوبائیڈن او نائب صدرکاملاہیرس نے جارج فلائیڈکے اہلخانہ کو ٹیلیفون کرکے جیوری کےفیصلےپرمبارکباددی۔

    برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا آج میرے جذبات جارج فلوئیڈ کے اہل خانہ اور دوستوں کی طرح ہیں۔

    سابق امریکی صدر باراک اوباما اور ان کی اہلیہ نے عدالتی فیصلے کی تعریف کی اور زور دیا کہ ہمیں انصاف کے حصول کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

    یادرہے گذشتہ سال مئی میں جارج فلائیڈکو  پولیس نےدوران گرفتاری قتل کردیاتھا ، جارج فلوئیڈ کی  ہلاکت کے بعد ریاست منی سوٹا  میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے  اور شہر میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔

    سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ہاتھ پیچھے بندھے جارج فلوئیڈ زمین پر لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی گردن پر پولیس اہلکار نے گھٹنا رکھا ہوا ہے اور  جارج فلوئیڈ کہہ رہے ہیں کہ ان کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔

  • امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ قتل کیس میں اہم پیشرفت

    امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ قتل کیس میں اہم پیشرفت

    نیو یارک : امریکی پولیس اہلکاروں‌ کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاہ فام باشندے کے کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، مقتول جارج فلائیڈ کے اہل خانہ نے بڑی رقم کے عوض منیا پولِس سٹی کونسل سے تصفیہ کرلیا۔

    اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق منیا پولِس سٹی کونسل اور جارج فلائیڈ کے اہلخانہ کے تصفیے میں جارج کے اہلخانہ کو 27 ملین ڈالرز کی رقم ادا کی جائے گی۔

    رپورٹس کے مطابق جارج کے قتل میں نامزد منیا پولِس پولیس کے سابق افسر کے ٹرائل کے لیے جیوری تشکیل دی جارہی ہے جس میں 29 مارچ سے شروع ہونے والی سماعت کے لیے 12 میں سے 6 ججوں کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کا بتانا ہے کہ ریاست منی سوٹا کے شہر منیا پولِس کی سٹی کونسل نے جارج فلائیڈ کے کیس میں متفقہ طور پر پری ٹرائل تصفیے کی منظوری دی جو ریاست منی سوٹا میں اب تک پری ٹرائل کا سب سے بڑا تصفیہ ہے۔

    سٹی کونسل سے تصفیے کے بعد جارج کے اہلخانہ کے وکلا کا کہنا تھا کہ جارج کے قتل کی ویڈیو نے تبدیلی اور انصاف کا ناقابل تردید مطالبہ کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایک انتہائی غلط موت کے کیس میں سب سے بڑا پری ٹرائل تصفیہ ہمیشہ سیاہ فاموں کو ایک طاقتور پیغام دے گا کہ سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی معنی رکھتی ہیں اس لیے نسلی بنیاد پر لوگوں کے خلاف پولیس کا ظلم ختم ہونا چاہیے۔

    خیال رہے کہ 25 مئی کو امریکی پولیس اہلکاروں‌ نے ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کا گلا گھونٹ کر اسے بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا تھا جس کے بعد پورے ملک میں ہنگامے اور پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔

  • جارج فلائیڈ کے قتل میں ملوث ملزم کو رہائی مل گئی

    جارج فلائیڈ کے قتل میں ملوث ملزم کو رہائی مل گئی

    نیو یارک : امریکہ میں افریقی نژاد سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل میں ملوث ملزم پولیس آفیسر کو عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا، آفیسر تھامس لین کو 10 لاکھ ڈالر کی ضمانت پر آزادی ملی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ میں پولیس تشدد سے سیاہ فام شخص کی ہلاکت کیخلاف پوری دنیا میں مظاہرے جاری ہیں تو دوسری طرف عدالت سے ملزم کو رہا کیے جانے کی اطلاعات بھی آرہی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکہ میں سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے معاملے میں ملزمان منیپولیس کے چار سابق افسران میں سے ایک آفیسر تھامس لین کو جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔

    تھامس لین نامی اس افسر کو 10 لاکھ ڈالر کی ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔ تھامس کے وکیل ارل گرے نے کہا ہے کہ ان کے مؤکل نے جارج فلائیڈ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، تھامس لین نے ایمبولینس میں بھی فلائیڈ کو ہوش میں لانے کی کوشش کی تھی۔

    واضح ر ہے کہ جارج فلائیڈ کی گزشتہ دنوں پولیس حراست میں موت واقع ہو گئی تھی اس کیخلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہورہے ہیں۔

    دوسری جانب مقتول سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی مینیاپولیس میں آخری رسومات ادا کی گئیں جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی،
    مقدمے کے وکیل بینجمن کرمپ نے کہا کہ جارج فلوئیڈ کو کورونا نے نہیں بلکہ نسلی پرستی کی وبا نے قتل کیا۔

    مزید پڑھیں : سیاہ فام کے قتل میں ملوث تین پولیس اہلکاروں کی ضمانت منظور

    یاد رہے کہ شدید عوامی دباؤ کے بعد واقعے کے مرکزی ملزم سفید فام پولیس اہلکار کے خلاف مقدمے میں مزید سخت دفعات شامل کی گئی تھیں اور تین دیگر پولیس اہلکاروں کو بھی مقدمے میں شامل کیا گیا تھا۔

    اٹلانٹا شہر میں بھی مظاہرین کیخلاف طاقت کے بے جا استعمال پر چھ پولیس اہلکاروں کو برطرف کر کے فرد جرم عائد کر دی گئی تھی۔

  • امریکا میں سیاہ فام شخص کے قتل کی پیشگوئی بھی 27 سال قبل ہوگئی تھی؟

    امریکا میں سیاہ فام شخص کے قتل کی پیشگوئی بھی 27 سال قبل ہوگئی تھی؟

    امریکا میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کئی پوسٹس اور ویڈیوز میں ایک منظر دکھایا جا رہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ یہ دی سمپسنز سے لیا گیا ہے اور دیگر کئی واقعات کی طرح سمپسنز نے جارج فلائیڈ کے قتل اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مظاہروں کی بھی پیشنگوئی کردی تھی، تاہم اب اس منظر کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔

    مشہور ٹی وی کارٹون سیریز دی سمپسنز کو دنیا بھر میں دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے لیکن حال ہی میں یہ کچھ متنازعہ اور کسی حد تک خوفزدہ کردینے والی سیریز بن گئی جس میں دکھائے گئے مناظر حقیقت بن رہے ہیں۔

    دی سمپسنز کے کچھ ویڈیو کلپس گزشتہ 2 ماہ میں بے حد وائرل ہوئے ہیں جس میں کرونا وائرس کے پھیلنے اور امریکا و یورپ کے قاتل مکھیوں سے متاثر ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی، اس سے قبل اس سیریز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کا صدر بننے کی بھی پیشنگوئی کی گئی تھی۔

    اب گزشتہ چند روز سے دی سمپسنز کے نام سے ایک اور منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں کارٹون کا ایک کردار ایک سیاہ فام شخص کی گردن پر گھٹنا رکھے دکھائی دیتا ہے جبکہ ایک اور کردار ایک بینر اٹھائے کھڑی ہے جس پر جسٹس فار جارج کے الفاظ درج ہیں۔

    یہ بالکل وہی واقعات ہیں جو چند روز قبل امریکا میں پیش آئے جب 4 پولیس اہلکاروں نے ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو پکڑا اور ایک اہلکار اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر کھڑا ہوگیا۔

    پولیس اہلکار کی اس حرکت سے جارج فلائیڈ دم گھٹنے سے مرگیا جس کے بعد پورا امریکا پرتشدد مظاہروں کی زد میں آگیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    Normally you’re used to see colorful and cheerful drawings from me, but since i’ve got quite a good audience, i’d like to use it as much as i can in the right way when the situation requires it, and bring something good, and useful with my drawings, and you guys know it. Especially in this exact moment. With this piece i’d like you to think deeply, Taking the chance to bring The Simpsons as an example for the cause. The Simpsons has always been everyone’s childhood, so the message will be clear and strong enough i suppose. Imagine you’re sat with you daughter/son watching the Simpsons, and all of a sudden this scene happens in the show, as cruel as it has been, no jokes, no irony, nothing that the Simpsons normally has, and what it’s loved for. Imagine that, how would you feel? … Think about that deeply, and give yourself an answer, no need to add anything else! 🙏🏻 • • • • • • #noracism #georgefloyd #justiceforgeorgefloyd #ripgeorgefloyd #georgefloyd🙏🏾 #noracismo #equality #humanrights #art #artist #simpsons #simpson #thesimpsons #illustration #illustrationartists #digitalart #digitalillustration #yuripomo #cartoon #cartoonist #icantbreathe #blacklivesmatter #blacklives #blacklivesmatter✊🏾 #blacklivesmatters #racism #colinkaepernick #riots

    A post shared by Yuri Pomo (@yuripomo) on

    دی سمپسنز کے اس منظر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کہا جارہا ہے کہ اس کارٹون سیریز میں اس تمام منظر نامے کی بھی پیشنگوئی کردی گئی تھی تاہم جلد ہی علم ہوا کہ یہ منظر ایک مصور کا تخلیق کردہ ہے۔

    اٹلی سے تعلق رکھنے والے مصور یوری پومو نے بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ یہ ڈرائنگ انہی کی بنائی ہوئی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ وہ اکثر و بیشتر دی سمپسنز کی تھیم پر مختلف واقعات کی منظر کشی کرتے رہتے ہیں جن کا مقصد اس کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ حقیقت ہے، اور نہایت خوفناک ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    •”On February 23, 2020, Ahmaud Marquez Arbery, an unarmed 25-year-old African-American has been chased and gunned down by two white men claiming they were conducting a citizen’s arrest for a burglary. Ahmaud was simply just going for a run.” 🙏🏾 •”In the middle of the night on March 13 in Louisville, KY, two police officers and one sergeant entered the wrong home without knocking or announcing themselves. They claim they were executing a search warrant for a suspected drug dealer, but this person did not live at Breonna’s address and had actually already been arrested. Breonna’s boyfriend fired a shot when he thought people were trying to break in. The police then fired 20 shots, 8 of which hit and killed Breonna.”🙏🏾 •”on 25th May 2020 George Floyd yelled “I can’t breathe” and pleaded for his life as a white Minneapolis police officer violently pinned him down with his knee on his neck. George died after.”🙏🏾 This must stop! We gotta fight racism all together, together we’ll end this endless tragical and abominable situation! This is my homage to these three poor souls, may you rest in piece! The world won’t let it slip, and justice will be served! ❤️✊🏻✊🏾 • • • • • • • • • • • • #noracism #georgefloyd #justiceforgeorgefloyd #ripgeorgefloyd #georgefloyd🙏🏾 #noracismo #equality #humanrights #art #artist #simpsons #simpson #thesimpsons #illustration #illustrationartists #digitalart #digitalillustration #yuripomo #cartoon #cartoonist #icantbreathe #blacklivesmatter #blacklives #blacklivesmatter✊🏾 #blacklivesmatters #racism #colinkaepernick #riots #breonnataylor #ahmaudarbery

    A post shared by Yuri Pomo (@yuripomo) on

  • برسلز : سیاہ فام کی ہلاکت اور کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف احتجاجی مظاہرہ

    برسلز : سیاہ فام کی ہلاکت اور کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف احتجاجی مظاہرہ

    برسلز : امریکا میں پولیس کے ہاتھوں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف ہزاروں افراد نے برسلز کی سڑکوں پر مظاہرہ کیا، مظاہرین نے بھارتی مظالم کے شکار کشمیریوں کے حق میں بھی نعرے بازی کی۔،

    تفصیلات کے مطابق امریکہ میں پولیس تشدد سے ہلاک ہونے والے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، احتجاجی مظاہرے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والےافراد کی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    یورپین دارالحکومت برسلز میں اس مظاہرے کا اہتمام بلیک لائیوز میٹر نامی گروپ نے کیا تھا۔ سپریم کورٹ بلڈنگ کے سامنے چوک پر ہونے والے مظاہرے میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر مختلف نعرے درج تھے۔

    اس کے علاوہ مظاہرین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں پر مظالم کیخلاف بھی آواز بلند کی، مظاہرین نے بھارتی ظلم کے شکار کشمیریوں کے حق میں بھی نعرےبازی کی اور انہیں انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔

    واضح  رہے کہ امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کیخلاف ہونے والے مظاہروں کا دائرہ امریکہ سے نکل کر برطانیہ تک پہنچ گیا ہے۔

  • امریکا مظاہرے: وہ لمحات جنہوں نے دیکھنے والوں کی آنکھیں نم کردیں

    امریکا مظاہرے: وہ لمحات جنہوں نے دیکھنے والوں کی آنکھیں نم کردیں

    واشنگٹن: امریکا میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے بعد جہاں پورا امریکا پرتشدد مظاہروں کی آگ میں جل رہا ہے وہیں اس کی تپش دوسرے ممالک تک بھی پہنچ رہی ہے۔

    پرتشدد مظاہروں اور دکانوں کو لوٹنے کے ساتھ ان مظاہروں میں ایسے واقعات بھی پیش آرہے ہیں جن سے انسانیت پر یقین پھر سے بحال ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

    واشنگٹن ڈی سی میں جب پولیس نے ایک سڑک کو بلاک کر کے مظاہرین کو محصور کردیا تو راہول نامی ایک شخص نے 80 کے قریب مظاہرین کو اپنے گھر کے اندر بلا لیا جہاں انہوں نے رات گزاری اور آرام کیا۔

    واشنگٹن میں ہی ایک سیاہ فام نو عمر لڑکے پر پولیس نے گنیں تانیں تو ایک سفید فام لڑکی دونوں کے درمیان لڑکے کی ڈھال بن کر کھڑی ہوگئی۔

    ںیویارک کے شہر بروکلن میں چند مظاہرین نے ایک برانڈ کے اسٹور کو لوٹنے کی کوشش کی تو مظاہرین ہی میں سے چند افراد ان کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور اسٹور کو لٹنے سے بچا لیا۔

    ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن میں پولیس چیف کو مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے بھیجا گیا لیکن وہاں پہنچ کر وہ مظاہرین کے ساتھ شامل ہوگئے اور نہایت پرجوش تقریر کرڈالی۔ تارک وطن پولیس چیف نے کہا کہ ہم تارکین وطن نے ہی اس ملک کی تعمیر کی ہے اور ہم اس ملک کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔

    متعدد شہروں میں مظاہرین نے گا کر اور رقص کر کے جارج فلائیڈ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ جارج کے آخری الفاظ میرا دم گھٹ رہا ہے ایک انقلابی نعرے کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

    ریاست کولوراڈو میں ہزاروں مظاہرین نے 9 منٹ تک زمین پر لیٹ کر میرا دم گھٹ رہا ہے کے نعرے لگائے، یہ اتنا ہی وقت ہے جتنا سفید فام پولیس اہلکار نے جارج کے گلے کو اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا۔

    متعدد شہروں میں پولیس والوں نے گھٹنے ٹیک کر مظاہرین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

    نسلی تعصب کے خلاف امریکا سے بھڑکنے والی یہ چنگاری دیگر ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے، نیوزی لینڈ، برطانیہ، نیدر لینڈز، آسٹریلیا، جرمنی اور فرانس میں بھی لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور نسلی تعصب کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔

    جنگ زدہ ملک شام میں ایک مصور نے جارج فلائیڈ کی تصویر بنا کر اسے خراج عقیدت پیش کیا۔

    دوسری جانب جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے معاملے میں برطرف تمام پولیس اہلکاروں کے خلاف نئی دفعات عائد کردی گئی ہیں۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق پولیس اہلکار ڈیرک شووین کے خلاف سیکنڈری ڈگری قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ باقی پولیس اہلکاروں پر بھی اس قتل میں مدد کرنے اور قتل کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

  • امریکی باکسر نے سیاہ فام مقتول کے جنازے کے اخراجات اٹھا لیے

    امریکی باکسر نے سیاہ فام مقتول کے جنازے کے اخراجات اٹھا لیے

    مینیسوٹا: امریکی ریاست مینیسوٹا میں سفید فام پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں جان گنوانے والے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے جنازے کے اخراجات ایک سابقہ سیاہ فام امریکی باکسر نے اٹھا لیے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی باکسر فلائیڈ مے ویدر نے سیاہ فام مقتول جارج فلائیڈ کے جنازے کے اخراجات اٹھانے کی پیش کش کی تھی، جسے جارج فلائیڈ کے اہل خانہ نے قبول کر لیا ہے۔

    اجازت ملنے پر فلائیڈ مے ویدر کی جانب سے جنازے کے لیے 88 ہزار 500 ڈالر کا چیک بھجوایا گیا۔ مے ویدر نے اس سے قبل اپنے سابقہ حریف باکسر جنارو ہرنینڈز اور 2011 میں امریکی لے جنڈ پروفیشنل باکسر جو فریزر کے جنازوں کے اخراجات بھی اٹھائے تھے۔

    ریاستیں حالات قابو نہ کر سکیں تو فوج تعینات کر دی جائے گی

    یاد رہے کہ 25 مئی کو امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر مینی پولس میں ایک سفید فام اہل کار ڈیرک شوین نے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو اس کی گاڑی سے اتار کر ہاتھ پیچھے ہتھکڑی سے باندھے اور پھر زمین پر گرا کر گھٹنے سے اس کی گردن اس وقت تک دباتا رہا جب تک اس کی سانس رک نہیں گئی۔ اس دوران تین اور پولیس اہل کار بھی موقع پر موجود تھے۔ ڈیرک شوین کی بیوی کیلی نے اس واقعے کے بعد اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوہر سے طلاق کی درخواست دائر کر دی۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد امریکا بھر میں نسلی فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، سیاہ فام امریکیوں نے ملک بھر میں پر تشدد مظاہرے کیے، وائٹ ہاؤس کے باہر بھی مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔

    ادھر 31 مئی کو ٹرمپ انتظامیہ نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا، گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر ریاستیں ابتر ہونے والے حالات پر قابو نہ کر سکیں تو فوج تعینات کر دی جائے گی۔ انھوں نے کہا جارج فلائیڈ کو انصاف فراہم کیا جائے گا، ہم ان کی ہلاکت پر جاری پر امن احتجاجی مظاہرین کے ساتھ ہیں، لیکن مظاہروں کی آڑ میں کچھ لوگ انتشار، لوٹ مار، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہیں۔