Tag: Germany

  • جرمنی میں ہزاروں ملازمتیں

    برلن: جرمنی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہزاروں ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بزنس کنسلٹنٹس ‘مک کنسی‘ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جرمنی میں اس وقت 39 ہزار آئی ٹی ماہرين کی قلت ہے جو 2030 تک بڑھ کر 1 لاکھ 40 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمنی ميں انفارميشن ٹيکنالوجی کے شعبے ميں اعلیٰ تربيت يافتہ افراد کی شدید کمی پائی جاتی ہے، اور آنے والے برسوں ميں صورت حال مزيد شدت اختيار کر سکتی ہے۔

    اس حوالے سے بزنس کنسلٹنٹس ‘مک کنسی‘ نے ايک ریسرچ اسٹڈی کیا، جس ميں یہ پيشن گوئی سامنے آئی ہے کہ 2030 تک ملکی سول سروس سيکٹر ميں آئی ٹی ماہرين کی قلت ایک لاکھ سے بھی بڑھ جائے گی۔

    اس سے قبل 2019 ميں ایک ریسرچ اسٹڈی کی گئی تھی، جس کے بعد سے اب تک آئی ٹی ماہرین کی کمی میں 15 في صد اضافہ ہوا ہے۔

    اس ریسرچ اسٹڈی ميں اندازہ ريٹائر ہونے والوں اور نئی بھرتيوں کی موجودہ شرح پر لگايا گيا ہے، اس وقت جرمن سول سروس ميں 5.1 ملين آئی ٹی پروفيشنلز ملازمت کر رہے ہيں، جن ميں سے 15 لاکھ کے لگ بھگ 2030 تک ريٹائر ہو جائيں گے۔

  • جرمنی : 70 سالہ تاریخ میں مہنگائی کی شرح میں سب سے بڑا اضافہ

    جرمنی : 70 سالہ تاریخ میں مہنگائی کی شرح میں سب سے بڑا اضافہ

    برلن : جرمنی میں 70سال سے زیادہ عرصے کے بعد پہلی مرتبہ سالانہ افراطِ زر کی سب سے زیادہ شرح ریکارڈ کی گئی ہے، صارفین کی قوتِ خرید میں بھی تشویشناک حد تک کمی سامنے آئی ہے۔

    جرمنی کے وفاقی بیورو شماریات دفترکے مطابق یوکرین پرروس کے حملے کی وجہ سے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اس نے 2022 کے پورے سال میں افراطِ زر کی شرح کو7.9فی صد تک پہنچا دیا ہے۔

    آخری بارسالانہ افراط زر1951 میں اس سطح کے قریب تھا جب دوسری عالمی جنگ کے بعد معاشی عروج شروع ہونے پریہ 7.6 فی صد ریکارڈ کیا گیا تھا۔2021 میں سالانہ افراطِ زر کی شرح 3.1 فی صد رہی تھی۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ابتدائی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ دسمبر میں افراطِ زرمیں کچھ کمی واقع ہوئی ہے، گذشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 8.6 فی صد تک، کیونکہ صارفین کو ان کے توانائی اور گیس کے بلوں کی ادائی میں مدد کے لیے ایک بار سرکاری رقوم کی فراہمی اثراندازہوئی ہے۔

    اکتوبرمیں ماہانہ افراطِ زر کی شرح ریکارڈ 10.4 فی صد تک پہنچ گئی تھی جبکہ نومبرمیں یہ شرح 10 فی صد تک گرگئی تھی۔

    جرمنی میں بڑھتی ہوئی قیمتیں صارفین کی قوتِ خریدکوکم کررہی ہیں۔اس کے پیش نظر بہت سی جرمن یونینوں نے افراطِ زرکے اثرات کو کم کرنے کے لیے حالیہ مہینوں میں اوسط سے زیادہ تن خواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔اس کے لیے اس نے کامیابی کے ساتھ مہم چلائی ہے۔

    دریں اثنا یورپ کی سب سے بڑی معیشت میں بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے، اعداد و شمار کے مطابق دسمبر میں بے روزگاروں کی تعداد بڑھ کر ساڑھے 24لاکھ یا 5.4 فی صد تک ہوگئی ہے۔

    یہ نومبر کے مقابلے میں تقریباً0.1 فی صد پوائنٹ زیادہ ہے، اگرچہ اس طرح کا اضافہ سال کے اختتام پر غیرمعمولی نہیں کیونکہ عارضی معاہدوں کی میعاد ختم ہوجاتی ہے۔

    سال2022کے پورے عرصے میں بے روزگاروں کی اوسط تعداد 24 لاکھ 20 ہزار تھی اور یہ 2021 کے مقابلے میں قریباً دولاکھ کم ہے۔

  • جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش : درجنوں ملزمان گرفتار

    جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش : درجنوں ملزمان گرفتار

    برلن : جرمنی کی سکیورٹی فورسز نے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے درجنوں ملزمان کو گرفتار کرلیا، گرفتار شدگان میں کچھ سابق فوجی بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی میں ہونے والے ملک گیر آپریشن میں 25 افراد کو حکومت کا تختہ الٹنے اور باشاہت قائم کرنے کی سازش کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جرمن اٹارنی جنرل کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مشتبہ افراد ایسی دہشتگرد تنظیم کو تشکیل دینے میں ملوث ہیں جس کا مقصد ملکی آئین کو کالعدم کرنا اور 1871 جیسی جرمن شہنشاہوں کی طرز پر حکومت قائم کرنا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق زیرِ حراست افراد جرمنی کی قومی اسمبلی پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے جسے مبینہ طور پر روسی افراد کی حمایت بھی حاصل تھی، حراست میں لئے گئے افراد میں کچھ سابق فوجی بھی شامل ہیں۔

    مذکورہ ملزمان کو جرمنی کی مختلف ریاستوں میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا، ملزمان کا تعلق انتہائی دائیں بازو اور سابق فوجی شخصیات کے گروپ سے ہے جنہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

    رپورٹ کے مطابق گرفتار شدگان میں 22 افراد کا تعلق جرمنی سے ہے جبکہ دیگر تین افراد میں روسی شہری بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آسٹریا اور اٹلی میں بھی دو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

    Germany detains 25 over plot to overthrow government

    جرمن اٹارنی دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ سازش میں جرمنی کے شاہی خاندان کے ایک سابق رکن کا ہاتھ ہے، جس کی شناخت جرمنی کے رازداری کے قانون کے تحت ہینرچ کے طور پر کی گئی ہے۔

    ہینرک کو مستقبل کی ریاست میں رہنما کے طور پر پیش کیا گیا تھا جبکہ ایک اور مشتبہ شخص روئڈگر وی پی ملٹری ونگ کا سربراہ تھا۔

    بیان میں کہا گیا کہ ہینریچ کا تعلق ریوس کے شاہی گھرانے سے ہے اور وہ ”شہزادہ“ کا لقب استعمال کرتا ہے، اس شاہی گھرانے نے مشرقی جرمنی کے کچھ حصوں پر حکمرانی کی تھی۔

    دوسری جانب اس حوالے سے روس کے صدارتی ترجمان کریملن نے کہا کہ جرمن ریاست کا تختہ الٹنے کی سازش میں روس کے ملوث ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا، ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ یہ جرمنی کا اندرونی مسئلہ ہے۔

  • 100سے زائد بچوں سے جنسی زیادتی، ٹیچر پر فرد جرم عائد

    100سے زائد بچوں سے جنسی زیادتی، ٹیچر پر فرد جرم عائد

    فرینکفرٹ : جرمنی میں سو سے زائد بچوں اور نوجوانوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے ملزم کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔

    ملزم پیشے کے اعتبار سے سابق اسکول ٹیچر ہے، جس نے ان جرائم کا ارتکاب گزشتہ 23 سالوں کے دوران کیا، ملزم پر 100 سے زائد بچوں اور نوجوانوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی گئی۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 47سالہ ملزم پر 14 سال سے کم عمر بچوں سے بدسلوکی کے 64 اور 17 سال تک کے نابالغوں سے زیادتی کے35 الزامات ہیں۔

    جرمن شہر فرینکفرٹ ایم مین میں ریاستی استغاثہ نے پیر کو ڈی ڈبلیو کو تصدیق کی کہ انہوں نے ایک سابق استاد پر بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 100 سے زائد الزامات عائد کیے ہیں۔

    گوٹنگن سے تعلق رکھنے والے 47 سالہ ملزم جس نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے رواں سال جنوری سے مذکورہ مقدمے سے پہلے گرفتار ہے، اس نے ان جرائم کا ارتکاب سال1998 سے 2021 کے دوران کیا۔

    جرمنی حکام پر اس کے جرائم کا انکشاف اس وقت ہوا جب امریکی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ پر قابل اعتراض مواد پھیلانے کے جرم میں ملوث قرار دیا گیا۔

    بعد ازاں قانونی کارروائی کے دوران جرمن پولیس نے ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا جہاں سے مختلف اقسام کا غیرقانونی مواد برآمد ہوا، چھاپے کے دوران ملنے والی یوایس بی ڈیوائسز سے ملزم کے خلاف مزید ٹھوس شواہد سامنے آئے تھے۔

  • کم فاصلے کے لیے بجلی سے چلنے والی گاڑی متعارف

    کم فاصلے کے لیے بجلی سے چلنے والی گاڑی متعارف

    دنیا بھر میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں متعارف کروانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، حال ہی میں ایک جرمن کمپنی نے بھی اس میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جرمن کمپنی نے سورج کی روشنی سے چلنے والی گاڑی متعارف کروا دی۔

    جرمن کمپنی سونو کی سائیون نامی الیکٹرک سولر گاڑی سنگل چارج پر 190 میل کا فاصلہ طے کر سکتی ہے۔

    یہ گاڑی سورج کی توانائی سے ہر سال 5 ہزار 400 میل کا فاصلہ طے کرسکتی ہے، جو ایک ہفتے میں اوسطاً 75 سے 150 میل یا روزانہ 10 سے 20 میل تک کا سفر بنتا ہے، مگر بہت زیادہ فاصلے تک اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

    کمپنی نے سولر پینلز کو چھت کے ساتھ ساتھ گاڑی کے اطراف میں بھی نصب کیا ہے جبکہ گاڑی کو بجلی سے چلانے کے لیے 54 کلو واٹ بیٹری دی گئی ہے۔

    اس گاڑی کی بیٹری کو 30 منٹ میں بجلی سے 80 فیصد تک چارج کیا جاسکتا ہے اور گاڑی میں اسٹور ہونے والی بجلی کو دیگر سے شیئر کرنا بھی ممکن ہے۔

    کمپنی کا دعویٰ ہے کہ بجلی غائب ہونے پر بھی یہ گاڑی خود کو چارج کرسکتی ہے مگر اس کے لیے ہوم بیک اپ سسٹم کی ضرورت ہوگی۔

    واضح رہے کہ اس گاڑی کو کمپنی کی جانب سے سنہ 2023 کے وسط میں یورپ میں متعارف کروانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کی قیمت 25 ہزار ڈالرز رکھی جائے گی۔

  • جرمن معالجوں‌ کی مہارت کے باوجود علاج کے لیے جرمنی جانے کے رجحان میں‌ کمی کیوں آئی؟

    جرمن معالجوں‌ کی مہارت کے باوجود علاج کے لیے جرمنی جانے کے رجحان میں‌ کمی کیوں آئی؟

    برلن: جرمن معالجوں‌ کی مہارت کے باوجود علاج کے لیے جرمنی جانے کے رجحان میں‌ کمی آ گئی ہے۔

    جرمنی میں طبی سیاحت کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمنی یورپ کے مشہور طبی سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے، تاہم طبی علاج کے لیے جرمنی آنے والے سیاحوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی ہے۔

    بون رائن زیگ یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز میں میڈیکل ٹورزم ریسرچ یونٹ کی سربراہ مریم آصفی کا کہنا ہے کہ ماہر جرمن آرتھوپیڈک سرجن، ماہرین امراض قلب اور عمومی سرجری کے جرمن ماہرین بین الاقوامی طبی سیاحوں میں خاص طور پر مقبول ہیں، کم پائی جانے والی بیماریوں کے مریض بھی بہترین ممکنہ علاج کے لیے جرمنی آنے پر غور کرتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ اگرچہ جرمنی میں طبی دیکھ بھال کے شعبے کو بہترین بین الاقوامی شہرت حاصل ہے لیکن حالیہ برسوں میں غیر ملکی مریضوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔

    مریم آصفی نے بتایا کہ طبی سیاحت میں کمی کی کئی وجوہ ہیں، لیکن کرونا وبا کی وجہ سے لگائی گئی سفری پابندیاں اس کی بڑی وجہ بنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ روس اور یوکرین سے خاص طور پر مریضوں کی آمد میں بہت کمی ہوئی ہے۔

    مقامی اسپتالوں کا مؤقف ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ان کے لیے اب غیر ملکی مریضوں کی آمد سے ہونے والی آمدنی خاص اہمیت کی حامل نہیں رہی ہے، کئی اسپتالوں نے انٹرنیشنل میڈیسن یونٹ بند کر دیے۔

    واضح رہے کہ جرمنی میں صحت کی دیکھ بھال کے مناسب اخراجات کی وجہ سے 2020 میں 177 مختلف ممالک سے 65 ہزار سے زیادہ غیر ملکی علاج کے لیے جرمنی آئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر یورپیوں کا تعلق پولینڈ اور نیدرلینڈز سے تھا، جب کہ غیر یورپی مریض زیادہ تر روس، یوکرین اور سعودی عرب سے آئے تھے۔

  • جرمن فوڈ بینکوں کے آگے مجبور ہونے والے افراد کی تعداد حد سے تجاوز کر گئی

    جرمن فوڈ بینکوں کے آگے مجبور ہونے والے افراد کی تعداد حد سے تجاوز کر گئی

    برلن: جرمنی میں بڑھتی ہوئی غربت سے لوئر مڈل کلاس کی زندگی مشکل ہو گئی ہے، فوڈ بینکوں کے آگے مجبور ہونے والے شہریوں کی تعداد بھی حد سے تجاوز کر گئی۔

    جرمنی کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک کے تقریباً نصف فوڈ بینکوں کے صارفین کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنی ہو چکی ہے اور بہت سے ضرورت مندوں تک غذائی امداد نہیں پہنچ پا رہی۔

    خط غربت سے نیچے جانے والے جرمن شہریوں کے پاس اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے متبادل ذرائع بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔

    جرمنی میں غربت میں بے پناہ اضافے کی پہلی وجہ تو کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالم گیر وبا تھی، لیکن اب معیشت کی تباہی کے بعد غربت کا گراف تیزی سے بڑھ گیا ہے، اور عام شہریوں کی روزمرہ زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

    مقامی اخبارات ایسی خبروں اور تبصروں سے بھرے پڑے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ فوڈ بینکوں سے رجوع کرنے والے ضرورت مندوں کو وہاں سے خالی ہاتھ مایوسی کے ساتھ لوٹنا پڑ رہا ہے۔

    فوڈ بینکوں کا کہنا ہے کہ جب تک پہلے والے اپنی رکنیت منسوخ نہ کریں، نئے افراد کو خوراک کی فراہمی کے لیے کیسے رجسٹر کریں، رکنیت کی درخواستوں مین بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق جرمنی میں 13.8 ملین شہری خط غربت کے قریب یا اس سے نیچے پہنچ چُکے ہیں، ماہرین اس تعداد میں بہت زیادہ اضافے کی پیش گوئی کر رہے ہیں کیوں کہ جرمنی کی لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے لیے آسمان سے باتیں کرتے توانائی کے اخراجات یعنی بل وغیرہ کی ادائیگی کے لیے کافی مالیاتی وسائل موجود نہیں رہے ہیں۔

    فوڈ بینکوں کی خراب ہوتی صورت حال کی ایک جزوی وجہ یوکرین پر روس کا حملہ بھی قرار دیا جا رہا ہے، جیسے جیسے جرمنی کی روزمرہ زندگی اور سماجی نظام میں یوکرینی پناہ گزینوں کو ضم کیا جا رہا ہے، ویسے ویسے جرمن فوڈ بینک میں یوکرینی خاندانوں کے افراد کی شمولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

  • جرمنی کا پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے مزید امداد کا اعلان

    جرمنی کا پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے مزید امداد کا اعلان

    اسلام آباد: جرمنی کی جانب سے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے مزید 10 ملین ڈالر امداد کا اعلان کردیا گیا، جرمن سفیر کا کہنا ہے کہ ہم اس مشکل وقت میں اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گرینز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے جرمنی کی جانب سے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے امداد کے بارے میں بتایا۔

    جرمن سفیر نے لکھا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ جرمنی نے ایک بار پھر پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے اپنی امداد میں مزید 10 ملین یورو کا اضافہ کر دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سے جرمنی کی مجموعی امداد 60 ملین یورو سے زائد تک جا پہنچی ہے، ہم اس مشکل وقت میں اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

    خیال رہے کہ پاکستان کے لیے امداد کا اعلان گزشتہ روز جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے، پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا تھا۔

    انالینا بیئر بوک کا کہنا تھا کہ جرمنی پاکستان کا اہم ترین شراکت دار ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، پاکستان میں سیلاب سے اس قدر تباہی ہوئی کہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی عالمی برادری سے پاکستان کے لیے مزید 81.5 ملین ڈالر امداد کی اپیل کی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر پلیتھا ماہی پالا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی امداد سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولیات کو بہتر بنایا جائے گا۔

  • گلیشیئر سے پرانی لاش برآمد ہو گئی

    گلیشیئر سے پرانی لاش برآمد ہو گئی

    برن: سوئٹزرلینڈ میں ایک گلیشیئر سے 32 برس پرانی لاش برآمد ہو گئی ہے، حکام نے لاش کی شناخت بھی کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق کوہ پیماؤں کے ایک گروہ نے جولائی کے آخر میں اسٹاکجی گلیشیئر پر ایک لاش برآمد کی ہے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ 32 برس قبل لاپتا ہونے والے ایک جرمن شہری کی ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ باقیات جرمنی کے بڈن-ورٹمبرگ کے قصبے نورٹنگن سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نوجوان کی ہیں، جو 1990 کی دہائی میں پیدل سفر کے دوران لاپتا ہو گیا تھا۔

    باقیات سوئٹزرلینڈ کی زرمٹ پہاڑی کے ایک تفریحی مقام سے دریافت ہوئی ہیں، حکام نے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے لاپتا شخص کی پہنچان کی۔

    سوئٹزر لینڈ کی پولیس کا کہنا ہے کہ گلیشیئر کے سکڑنے کی وجہ سے اس شخص کی لاش سامنے آئی ہے۔

    کوہ پیماؤں کا کہنا تھا کہ انھوں نے اترائی میں ایک پتھر پر کچھ رنگ برنگی چیزیں دیکھیں، جس پر وہ کافی حیران ہوئے، انھیں لگا شاید کسی کو مدد کی ضرورت ہو، لیکن جب وہ نیچے گئے تو وہاں ایک لاش تھی اور اس کے قریب سامان پڑا ہوا تھا۔

    لاپتا ہونے والے 27 سالہ شخص کی شناخت تھامس فلیم کے نام سے ہوئی ہے، جو اگست 1990 میں اس وقت لاپتا ہوا تھا جب وہ الپس میں کئی دن کے پہاڑی دورے پر اکیلے سفر پر نکلا تھا۔

    فلیم کی اس کوہ پیمائی مہم کا اختتام اٹلی کے شہر ڈوموڈوسولا میں ہونا تھا، جہاں ان کا مقصد ایک دوست سے ملنا تھا، تاہم وہ اپنی منزل پر نہیں پہنچا، نوجوان نے تنہا سفر کے دوران اپنے لاپتا ہونے سے کچھ پہلے دو خط بھی لکھے تھے۔

    29 جولائی 1990 میں فلیم نے اپنی دادی کے نام ایک خط لکھا، جس میں انھوں نے اس خوشی کا اظہار کیا تھا کہ وہ تنہا سفر کر کے مونٹ بلانک کی بلندی طے کر چکے ہیں۔ آخری بار یکم اگست کو ان کی ماں سے ان کا رابطہ ہوا تھا اور اس کے تین دن بعد ہی ان کی ماں نے ان کے لاپتا ہونے کی اطلاع دی۔

    یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کہ اصل میں ہوا کیا تھا، ان کی تلاش میں سوئس اور اطالوی حکام نے تعاون کیا تھا، تجربہ کار پہاڑی گائیڈز کے ساتھ ایک ہیلی کاپٹر نے بھی علاقے کی تلاشی لی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے زندہ بچنے کی امیدیں دم توڑ گئیں۔

  • جرمنی جانے کے خواہش مند طلبا و طالبات کیلئے بڑی خبر

    جرمنی جانے کے خواہش مند طلبا و طالبات کیلئے بڑی خبر

    پاکستانی طلبہ و طالبات اور محققین کو جرمنی میں تعلیم و تحقیق کے لیے جانے کیلئے کن شرائط پر عمل کرنا ضروری ہے اس کیلئے ذیل میں چند مشورے اور معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔

    دنیا بھر سے نوجوانوں کے جرمنی آنے کی بنیادی وجہ اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کرنا ہے اور ساتھ ہی ایک منفرد ثقافتی تجربے میں بھیگنے کا موقع ملنا ہے۔

    لیکن جرمنی کی کسی بھی یونیورسٹی میں درخواست دینے سے پہلے یقینی بنائیں کہ آپ رہنے کے اخراجات اور اس سے منسلک مطالعہ کی فیس کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہوں۔

    ٹیکنیکل یونیورسٹی میونخ ، فری یونیورسٹی برلن، گوئٹے یونیورسٹی فرینکفرٹ اور جوہانس گٹنبرگ یونیورسٹی جیسی یونیورسٹیوں میں جرمنی میں فنانس کے بہترین کورسز ہر سال £23,000 سے کم کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔

    دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ جرمنی میں طلباء کے رہنے کے اخراجات فرانس، برطانیہ یا اٹلی کے مقابلے بہت کم ہیں، خاص طور پر دستیاب تعلیم کے اعلیٰ معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے جرمنی میں سینکڑوں یونیورسٹیاں انجینئرنگ، میڈیکل، فن تعمیر یا کاروبار میں ڈگریاں حاصل کرنے والے بین الاقوامی طلباء کے لیے مفت یا کم لاگت کے ٹیوشن پروگرام فراہم کرتی ہیں۔

    پاکستان چھوڑنے سے پہلے پڑھائی کی متوقع لاگت کا تخمینہ لگاتے وقت، رہائش، خوراک، ہیلتھ انشورنس، اور سفر کے ساتھ ساتھ اپنی ٹیوشن فیس جیسے اخراجات کو بھی یقینی بنائیں کیونکہ ایک اچھا بجٹ پلان آپ کے رہنے کے اخراجات کو بہتر طریقے سے سنبھالنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔

    جرمنی میں تعلیم حاصل کرنا پورٹل ایک قابل قدر آن لائن ٹول فراہم کرتا ہے جو ممکنہ بیرون ملک مقیم طلباء کو مختلف جرمن یونیورسٹیوں کی عملی معلومات تک تیزی سے رسائی حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

    اس حوالے سے آپ تمام تر تفصیلات اس سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں
    https://www.studying-in-germany.org/#

    رہائش کے اخراجات

    جرمنی میں رہائشی اخراجات اس بات پر منحصر ہوتی ہیں کہ آپ کہاں رہتے ہیں، آپ کی رہائش، آپ کے رہنے کے اخراجات، اور یہاں تک کہ لاگت سفری اجازت نامے کا دیگر دو فیسیں، جن کی لاگت ہر ماہ اوسطاً 140 یورو ہے، یونیورسٹیوں میں ہیلتھ انشورنس اور سمسٹر کی شراکت ہیں۔

    اس لیے طلباء سستے کرائے اور فلیٹوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، طالب علموں کی صرف ایک چھوٹی فیصد ڈورموں میں رہتی ہے۔ اوسط کرائے ایک جرمن شہر سے دوسرے شہر میں مختلف ہوتے ہیں اور وہ طلباء کے لیے جرمنی میں رہنے کی لاگت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    کچھ شہر کم مہنگے ہیں، جبکہ دوسرے زیادہ مہنگے ہیں۔ مثال کے طور پر میونخ میں طلباء کی رہائش ڈسلڈورف میں طلباء کی رہائش سے زیادہ مہنگی ہے۔

    جرمنی میں، یونیورسٹی کی ٹیوشن فیس مسابقتی ہے لیکن جب آپ رہنے اور کھانے کے اخراجات کے ساتھ ساتھ دوسرے تیسرے درجے کے اخراجات بھی لیتے ہیں، تو وہ بین الاقوامی طلباء کے لیے مہنگے پڑ سکتے ہیں۔

    اگرچہ ٹیگٹ اور ریوے جیسی ٹاپ سپر مارکیٹیں مہنگی ہو سکتی ہیں، لیکن ملک میں اسٹیپلز اتنے مہنگے نہیں ہیں۔ ایلڈی اور لیڈل سپر مارکیٹیں ہیں جہاں آپ خریداری کرتے وقت اوسطاً 10-15 فیصد بچا سکتے ہیں۔

    مقامی عوامی نقل و حمل پر ایک طرفہ ٹکٹ کی قیمت فی الحال اوسطاً 2 یورو ہے۔ اگر آپ ایک ہی لائن پر اکثر سفر کرتے ہیں، تو آپ کو اوسطاً 70 یورو کا ماہانہ ٹکٹ مل سکتا ہے۔

    زیادہ تر معاملات میں، آپ کے یونیورسٹی بس ٹکٹ کا احاطہ آپ کے سمسٹر کی شراکت کی ادائیگی سے کیا جائے گا۔

    جرمنی میں قانون کے مطابق ہیلتھ انشورنس کی ضرورت ہے، قطع نظر اس کے کہ آپ کہاں رہتے ہیں یا آپ کتنی رقم کماتے ہیں۔ جس لمحے سے آپ ملک میں پہنچیں گے، آپ کو ہیلتھ انشورنس خریدنی ہوگی۔

    عام طور پر، جرمنی میں، دو قسم کے ہیلتھ انشورنس پلان ہوتے ہیں: پبلک ہیلتھ انشورنس اور پرائیویٹ ہیلتھ انشورنس۔ پبلک ہیلتھ انشورنس پلان کی ماہانہ فیس فی الحال 70 اور 80 یورو کے درمیان ہے۔

    Pakistan DAAD

    اگر آپ مزید طبی ضروریات کو پورا کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو نجی ہیلتھ انشورنس پلان حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی، جو کہ عام طور پر زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔

    اسٹڈی ویزا کے لیے کون اپلائی کر سکتا ہے؟
    جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے سے پہلے ہندوستانی طلبہ کو جرمن اسٹوڈنٹ ویزا حاصل کرنا ہوگا۔جرمن قونصل خانے سے۔ تین ماہ تک کے مطالعے کے لیے شینگن ویزا درکار ہے، اور تین ماہ سے زیادہ کی تعلیم کے لیے جرمن قومی ویزا درکار ہے۔

    مطالعہ کے لیے جرمن ویزا مختلف مطالعاتی سطحوں اور ڈگریوں کے لیے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی طلباء کے لیے معمول کا سٹوڈنٹ ویزا جو کسی جرمن ادارے میں قبول کر لیا گیا ہے اور ایک کل وقتی یونیورسٹی پروگرام میں اپنی تعلیم شروع کرنے کے لیے تیار ہیں وہ ‘جرمن سٹوڈنٹ ویزا’ ہے۔

    اگر آپ کو ذاتی طور پر یونیورسٹی میں داخلے کے لیے درخواست دینے کے لیے جرمنی میں رہنے کی ضرورت ہے، تو آپ کو ‘جرمن طالب علم درخواست گزار ویزا’ کی ضرورت ہوگی۔

    یہ ویزا آپ کو جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ یہ صرف یونیورسٹی میں درخواست کے طریقہ کار کے لیے درست ہے۔ اور آخر میں، جرمنی میں جرمن زبان کے کورس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے، آپ کو ‘جرمن لینگویج کورس کا ویزا’ درکار ہوگا۔

    ایک طالب علم کو جرمن ویزا کے لیے درخواست دیتے وقت یونیورسٹی میں داخلے اور کم از کم تعلیم کے پہلے سال کے لیے فنڈنگ ​​کے ثبوت کے ساتھ ساتھ جرمنی میں رہنے کی لاگت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ داخلے کے اہل ہونے کے لیے ‘جرمن بلاک شدہ بینک اکاؤنٹ’ میں 10,332 یورو کی رقم جمع کرنی ہوگی۔

    داخلہ کے طریقہ کار کو مکمل کرنے کے لیے، آپ کو اپنی پچھلی تعلیم کا ثبوت، نیز اسٹوڈنٹ ہیلتھ انشورنس، یونیورسٹی میں داخلے کی اہلیت، اور جرمن یا انگریزی زبان کی مہارت کا سرٹیفکیٹ جمع کروانا ہوگا۔

    جرمنی میں طلباء کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیکس

    آپ ایک طالب علم کے طور پر ہر ماہ 450 یورو تک کما سکتے ہیں اور حکومت کو کوئی ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ ماہانہ 450 یورو سے زیادہ کماتے ہیں، تو آپ کے آجر کو آپ کی طرف سے ٹیکس اور سماجی تحفظ کے تعاون کی ادائیگی کرنی ہوگی۔

    اگر آپ سالانہ 9400 یورو سے کم کماتے ہیں اور ٹیکس حکام کے پاس انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں، تو آپ کو سال کے آخر میں ادا کیے گئے ٹیکس کی واپسی کی جائے گی۔

    آپ تعلیمی سال کے دوران طالب علم کے ملازم کے طور پر فی ہفتہ 20 گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آپ کے طالب علم کی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

    جرمنی میں اسکالرشپ اور پیسے بچانے کے دوسرے طریقے

    اگر آپ جرمنی میں اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ کے ساتھ ادائیگی کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو آگاہ ہونا چاہیے کہ درخواست کا عمل مختلف ہوگا۔ اسے براہ راست اسکالرشپ / فنڈنگ ​​تنظیم کو بھیجا جانا چاہئے۔ Deutschlandstipendium اور Erasmuاسکالرشپ پروگرام دو مستثنیات ہیں۔

    DAAD (Deutscher Akademischer Austauschdienst) اور متعلقہ پروگراموں پر تحقیق کرتے ہوئے، آپ کو ایسی بنیادوں کو تلاش کرنا چاہیے جن میں آن لائن درخواست کی صلاحیت موجود ہو۔

    DAAD WISE (سائنس اور انجینئرنگ میں کام کرنے والی انٹرنشپ)، Konrad-Adenauer-Stiftung (بین الاقوامی طلباء کے لیے جنہوں نے اپنے آبائی ممالک میں بیچلر یا ماسٹر کی ڈگریاں مکمل کی ہیں اور وہ جرمنی میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں) اور ہینرک بول (یونیورسٹی کے درخواست دہندگان کے لیے) اپنے داخلے کے امتحانات پاس کیے ہیں) جرمنی میں دستیاب کچھ مشہور وظائف ہیں۔

    جہاں تک پیسہ بچانے کا تعلق ہے، آپ میونخ، ہیمبرگ، یا فرینکفرٹ جیسے زیادہ آبادی والے شہروں کے مضافاتی علاقوں میں کم قیمتوں کی توقع کر سکتے ہیں، اس لیے وہاں رہنا اور اکثر سفر کرنا کبھی بھی برا آپشن نہیں ہے۔ آپ کسی ایسے شخص کو بھی تلاش کر سکتے ہیں جس کے ساتھ آپ اپارٹمنٹ شیئر کر سکیں اور اس لیے کرایہ کی مجموعی لاگت کو کم کر دیں۔

    ایک طالب علم کے طور پر آپ ہر وقت چلتے پھرتے رہیں گے، چاہے وقت پر کلاس میں جانے کی جلدی ہو، اپنے اپارٹمنٹ میں واپسی ہو، یا شہر کے مخالف سمت میں کسی ساتھی کو دیکھنا ہو۔

    اگر آپ کو نقل و حمل کا کوئی دوسرا طریقہ استعمال کرنا ضروری ہے، تو سائیکل کو ترجیح دی جا سکتی ہے، خاص طور پر رش والے شہروں میں رش کے اوقات میں۔

    دستیاب نقل و حمل کے متعدد طریقوں میں سے عوامی نقل و حمل بلاشبہ سب سے زیادہ سرمایہ کاری مؤثر ہے اور طویل مدت میں آپ کو پیسہ بچانے میں مدد کرے گی۔