Tag: Germany

  • جرمنی نے آنکھیں پھیر لیں

    جرمنی نے آنکھیں پھیر لیں

    برلن: جرمنی نے بھی یوکرین سے آنکھیں پھیر لی ہیں، جرمن چانسلر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک یوکرین میں جنگی طیارے نہیں بھیجے گا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا ہے کہ وہ پولینڈ کی طرف سے سوویت دور کے MiG-29 لڑاکا طیارے جرمنی میں امریکی رامسٹین ایئر بیس کے ذریعے یوکرین کو فراہم کرنے کی تجویز کی حمایت نہیں کرتے۔

    برلن میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شولز نے کہا کہ جرمنی پہلے ہی یوکرین کو دفاعی ہتھیار اور اہم مالی مدد اور انسانی امداد بھیج چکا ہے۔

    واضح رہے کہ پولینڈ نے پیش کش کی تھی کہ وہ جرمنی میں امریکی فضائی اڈے کے ذریعے اپنے روسی ساختہ مِگ 29 طیارے یوکرین بھیج سکتا ہے، تاہم امریکا نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا تھا۔

    یوکرین کے میٹرنٹی اسپتال پر حملہ ‘فیک نیوز’ ہے: روس

    اب جرمن چانسلر نے واضح کر دیا ہے کہ جرمنی نے یوکرین کو ہتھیاروں سمیت ’ہر طرح کا دفاعی سامان فراہم کیا ہے‘ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’بلاشبہ اس میں جنگی طیارے شامل نہیں ہیں۔‘

    دریں اثنا برطانیہ میں ٹین ڈاؤنگ اسٹریٹ نے کہا ہے کہ نیٹو کے پائلٹس اور جنگی طیاروں کی جانب سے روسی طیاروں کو مار گرانا ’بلا جواز‘ ہوگا، وزیر اعظم بورس جانسن کے ترجمان نے بھی با رہا کہا ہے کہ وہ یوکرین میں دفاعی ضروریات کے تحت ہی ہتھیار بھیجیں گے۔

  • روس نے حملہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے، جرمنی

    روس نے حملہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے، جرمنی

    میونخ : جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی سالانہ بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے متنبہ کیا کہ یوکرائن پر حملہ کیا گیا تو جواب میں روس کو فوری اور سخت پابندیوں کا سامناکرنا پڑے گا۔

    میونخ میں ہونے والی جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ کی سالانہ بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس کے اختتامی سیشن میں روس اور یوکرائن کے بحران کی شدت اور ممکنہ خطرات پر بحث کی گئی۔

    سیکیورٹی کانفرنس کی صدارت جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے کی، جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے روس سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی اپیل کی۔

    بیئربوک نے اس بات پر بھی زور دیا کہ 2014 سے جی سیون اور بین الاقوامی تنظیموں نے یوکرین کو48 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی ہے۔

    انتونیو گوتریس نے کہا کہ یوکرائنی بحران عالمی سیکیورٹی کے لیے انتہائی پیچیدہ خطرہ ہے، وزیر خارجہ لٹویا کا کہنا تھا کہ روس سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا ضروری ہے۔

    جرمن چانسلر نے کہا کہ حملہ کیا گیا تو روس کو فوری سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ روسی فوجیوں کا اجتماع یوکرائن کیلئے ناقابل قبول خطرہ ہے۔

  • جرمنی میں ایک دن میں 2 لاکھ سے زائد کرونا کیسز رپورٹ

    جرمنی میں ایک دن میں 2 لاکھ سے زائد کرونا کیسز رپورٹ

    برلن: جرمنی میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 2 لاکھ سے زائد کووڈ کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں، یہ وبا کے شروع ہونے کے بعد سے جرمنی میں کرونا کیسز کی یومیہ بلند ترین شرح ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق جرمنی میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 2 لاکھ سے زائد افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

    جرمنی میں وبائی امراض کے روک تھام اور ریسرچ کے وفاقی ادارے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ جرمنی میں اس عالمی وبا کی شروعات کے بعد سے اب تک پہلی مرتبہ کسی ایک دن میں اتنے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں جس کی بڑی وجہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون ہے۔

    ایک ہفتے قبل تک جرمنی میں نئے انفیکشنز کی مجموعی تعداد 70 ہزار سے کم تھی، اس وبا میں تیزی سے اضافہ تشویش کی ایک نئی لہر بھی ساتھ لایا ہے۔ جرمنی میں اب تک 9 ملین افراد اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔

    جرمنی میں اس نئی لہر کی وجہ سے صحت، چائلڈ کیئر اور تعلیمی اداروں پر بوجھ بڑھ گیا ہے اور متعلقہ محکموں میں عملے کی قلت بھی دیکھی جا رہی ہے۔

    رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق جرمنی میں نصف آبادی کو کرونا کی تیسری ویکسین یعنی بوسٹر لگائے جانے کا سنگ میل عبورکرلیا گیا ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق 75 فیصد لوگوں کو کم از کم ایک خوراک دی جا چکی ہے تاہم دیگر مغربی یورپی ممالک جیسے فرانس، اٹلی اور اسپین کے مقابلے میں یہ شرح کم ہے۔

  • بھیڑوں اور بکریوں نے لوگوں کو کرونا ویکسین لگوانے پر کیسے راغب کیا؟

    بھیڑوں اور بکریوں نے لوگوں کو کرونا ویکسین لگوانے پر کیسے راغب کیا؟

    جرمنی میں زیادہ سے زیادہ افراد کو کرونا وائرس کے خلاف ویکسی نیشن کی ترغیب دینے کے لیے بھیڑوں اور بکریوں کو بھی مہم میں شامل کرلیا گیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق روٹی کے لذیذ ٹکڑوں کی بدولت تقریباً 700 بھیڑ اور بکریاں ویکسی نیشن مہم میں شامل ہوگئیں، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کرونا وائرس کے خلاف ویکسین لگوانے کی ترغیب دینا تھا۔

    پیر کے روز جانوروں کو تقریباً 100 میٹر (330 فٹ) سرنج کی شکل میں ہیمبرگ کے جنوب میں شنورڈنگن کے ایک کھیت میں ترتیب دیا گیا۔

    اس موقع کے لیے چرواہے وائیبکے شمٹ کوچن نے اپنے جانوروں کے ساتھ مشق کرتے ہوئے کئی دن گزارے۔ وائیبکے شمٹ کوچن نے سرنج کی شکل میں روٹی کے ٹکڑے بچھا دیے، جنہیں بھیڑ اور بکریوں نے کھیت میں آنے کے بعد جلدی سے کھا لیا۔

    آرگنائزر ہانسپیٹر ایٹزولڈ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ان لوگوں کے لیے تھا جو ابھی تک ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔

    جرمنی کی حکومت نے کرونا وائرس کی تازہ ترین لہر کو شکست دینے کی کوشش میں ایک تیز رفتار ویکسی نیشن مہم کو اپنی اولین ترجیح بنا لیا ہے۔ پیر تک جرمنی میں ویکسین کی دو خوراکیں لینے والوں کی تعداد 71 فیصد ہو چکی ہے۔

  • جرمنی کا بڑا قدم، 3 جوہری پلانٹس بند کر دیے

    جرمنی کا بڑا قدم، 3 جوہری پلانٹس بند کر دیے

    برلن: جرمنی نے اپنے آخری 6 جوہری پلانٹس میں سے 3 کو بند کر دیا۔

    روئٹرز کے مطابق جرمنی نے اپنے آخری 6 جوہری پاور اسٹیشنز میں سے 3 کو بند کر دیا ہے، جرمنی جوہری توانائی سے اپنی دست برداری کو مکمل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے، اور اس نے اپنی توجہ قابل تجدید ذرائع پر مرکوز کر دی ہے۔

    جرمنی کی حکومت نے 2011 میں جاپان کے فوکوشیما ری ایکٹر کے پگھلنے کے بعد جوہری توانائی کے مرحلہ وار ختم ہونے کا فیصلہ کیا تھا، جب زلزلے اور سونامی نے 1986 میں چرنوبل کے بعد دنیا کی بدترین جوہری تباہی میں ساحلی پلانٹ کو تباہ کر دیا۔

    جرمنی نے جو تین جوہری پلانٹس بند کر دیے ہیں ان میں بروکڈورف، گروھنڈے اور گنڈریمنگن سی کے ری ایکٹر شامل ہیں، جنھیں ساڑھے تین دہائیوں کے آپریشن کے بعد جمعے کو بند کر دیا گیا، آخری تین جوہری پاور پلانٹس بھی 2022 کے آخر تک بند کر دیے جائیں گے۔

    بروکڈورف اور گروہندے پلانٹس چلانے والے پریسن الیکٹرا نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ جمعہ کی آدھی رات سے کچھ دیر قبل دونوں کو بند کر دیا گیا، جب کہ گنڈریمنگن سی پلانٹ نے بھی جمعہ کی شام کو پیداوار روک دی۔

    ایسے میں جب جرمنی کو موسمیاتی اہداف اور بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے مسائل کا سامنا ہے، اور جب کہ کچھ لوگ اسے صاف اور سستی توانائی سمجھتے ہیں، اب اس مرحلے کا ختم ہونا یورپ کی سب سے بڑی معیشت کے لیے ایک ناقابل واپسی قدم ہے۔

    ابتدائی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ چھ جوہری پاور پلانٹس نے 2021 میں جرمنی میں تقریباً 12 فی صد بجلی کی پیداوار میں حصہ لیا، قابل تجدید توانائی کا حصہ تقریباً 41 فی صد تھا، جس میں کوئلہ صرف 28 فی صد سے کم اور گیس تقریباً 15 فی صد تھا۔

    جرمنی کا مقصد ہوا اور شمسی توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دے کر 2030 تک قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی طلب کا 80 فی صد پورا کرنا ہے۔

  • خونخوار کتوں کے سامنے عورت نے عورت کو کاٹ لیا، لیکن کیوں؟

    خونخوار کتوں کے سامنے عورت نے عورت کو کاٹ لیا، لیکن کیوں؟

    برلن : جرمنی میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جسے پڑھ کر آپ بھی حیرت اور مسکراہٹ کا مشترکہ طور پر اظہار کریں گے۔

    جرمنی کے شہر میں دو خواتین کے مابین پالتو کتوں کی تربیت کے موضوع پر شروع ہونے والی بحث باقاعدہ لڑائی کی شکل اختیار کرگئی۔

    مذکورہ واقعہ گزشتہ روز مشرقی جرمن ریاست تھیورنگیا کے چھوٹے سے شہر آئزیناخ میں پیش آیا۔ ایک27 سالہ خاتون اپنے پالتو کتے کے ساتھ ایک پارک میں چہل قدمی کر رہی تھی کہ اس نے دیکھا کہ ایک51 سالہ خاتون نے جو خود بھی اپنے پالتو کتے کے ساتھ اسی پارک میں موجود تھی کہ اچانک اپنے کتے کو پیٹنا شروع کردیا۔

    یہ منظر دیکھ کر نوجوان خاتون نے اپنے سے زیادہ ادھیڑ عمر کی خاتون کو مخاطب کرکے اسے اپنے کتے کو پیٹنے سے روکنے کی کوشش کی تو دونوں خواتین کے مابین بحث شروع ہوگئی۔

    27سالہ خاتون کا کہنا تھا کہ اس خاتون کو اپنے کتے کی تربیت کے لیے اسے پیٹنا نہیں چاہیے جبکہ بڑی عمر کی خاتون کا اصرار تھا کہ کتا اس کا اپنا ہے اور وہ جانتی ہے کہ اس کی تربیت کیسے کی جانی چاہیے۔

    دیکھتے ہی دیکھتے یہ بحث باقاعدہ لڑائی کی شکل اختیار کرگئی اور دونوں خواتین نے اپنے کتوں کو چھوڑ کر ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کرنا شروع کردی۔

    اس حوالے سے پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ لڑتے لڑتے بڑی عمر کی خاتون زمین پر گرگئی اور اس نے اپنے دانت اپنی کم عمر حریف کی پنڈلی میں گاڑ دیے، جس سے وہ زخمی تو ہوگئی مگر زمین پر گری ہوئی خاتون کو زور زور سے لاتیں مارتی رہی۔

    پولیس نے اس واقعے کے بعد درج کی گئی ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ اس لڑائی میں دونوں خواتین زخمی ہو گئیں جبکہ ان کے پالتو کتے پاس کھڑے انہیں خاموشی سے دیکھتے ہی رہے، دونوں کتے نہ تو آپس میں لڑے اور نہ ہی ان میں سے کسی نے اپنی مالکن کی حریف خاتون کو کاٹنے کی کوشش کی۔

    پولیس کے مطابق اب ان دونوں خواتین کو اب ایک دوسرے کو جسمانی طور پر زخمی کرنے کے الزامات کے تحت عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔

  • جرمنی کو دنیا بھر سے چار لاکھ ملازمین کی ضرورت

    جرمنی کو دنیا بھر سے چار لاکھ ملازمین کی ضرورت

    برلن : جرمنی میں افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر سے تارکین وطن کی تعداد بڑھانے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    اس سلسلے میں جرمن حکومتی اتحاد کی سب سے جونیئر پارٹی فری ڈیموکریٹس ملک میں امیگریشن میں اضافے کی بھر پور حمایت کرے گی۔

    یہ بات فری ڈیموکریٹس کے پارلیمانی پارٹی لیڈر کرسچن ڈوئیر نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتائی انہوں نے کہا کہ جرمنی میں ملازمین کی مانگ، اقتصادی ترقی اور فلاحی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تارکین وطن کی تعداد کو بڑھایا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں ایک سو ارب ڈالر پینشن کے لیے مختص کیا جارہا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اس ملک کی آبادی میں کم عمر اور بزرگ افراد کی تعداد میں کتنا زیادہ فرق ہے۔

    Workers build up a support for the platform hall on the construction site of the Stuttgart 21 railway project at the main station in Stuttgart, Germany, Aug. 9, 2021. (AFP Photo)

    یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت جرمنی میں 40 سے 59 عمر کے افراد کی تعداد قریب 24 ملین ہے جبکہ پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد اٹھارہ ملین ہے، جرمنی کی کل آبادی لگ بھگ80ملین ہے۔

    جرمنی میں تارکین وطن افراد کی شدید کمی

    ڈویئر جو منگل کو کرسچن لنڈنر کی جگہ پارلیمانی گروپ کے سربراہ منتخب ہوئے تھے کا کہنا تھا کہ جرمنی کی فیڈرل ایمپلائمنٹ ایجنسی کے سربراہ کے مطابق جرمنی کو ہر سال چار لاکھ تارکین وطن کی ضرورت ہے۔”

    ڈوئیر کہتے ہیں کہ اقتصادی پالیسی کو لے کر جاپان سمیت جرمنی بہت پرانے خیالات کو اپنائے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی میں ہر شعبے میں ملازمین کی ضرورت ہے اور ملک کی خوشحالی کا انحصار اس بات پر ہےکہ کمی پوری کی جا سکے گی یا نہیں۔

    ڈوئیر کے مطابق جرمنی کو کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی طرح اپنے آپ کو تارکین وطن کی پالیسی کے حوالے سے جدید کرنا ہوگا۔

  • جرمنی میں روزگار کے مواقع، ہنرمند افراد کم پڑگئے

    جرمنی میں روزگار کے مواقع، ہنرمند افراد کم پڑگئے

    برلن : جرمنی میں اس وقت 34 ملین افراد مستقل ملازمت کر رہے ہیں جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے لیکن دوسری طرف افرادی قوت کی کمی کے باعث خالی آسامیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی کو ہر سال بیرون ملک سے چار لاکھ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، جرمنی میں ہنرمندوں کی شدید ضرورت ہے۔

    اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ضعیف افراد کی آبادی بڑھ رہی ہے اور نوجوان آبادی کم ہونے کے باعث مارکیٹ میں کام کرنے والے افراد اتنی تعداد میں دستیاب نہیں جتنی ضرورت ہے، ہر برس مزید کمپنیاں ہنر مند افراد کی کمی کی شکایت کر رہی ہیں جوکہ جرمنی کی معیشت کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

    برٹلسمان فاؤنڈیشن کے ایک سروے سے معلوم ہواہے کہ صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے، اس برس ساڑھے سات ہزار کمپنیوں میں سے 66 فیصد نے شکایت کی کہ انہیں ہنر مند افراد کی کمی کا سامنا ہے جب کہ گزشتہ برس55 فیصد کمپنیوں نے یہی شکایت کی تھی۔

    سالانہ چار لاکھ افراد کی ضرورت
    خالی آسامیوں اور انڈسٹری کی صورت حال کا انحصار مختلف علاقوں، شعبوں، تعلیمی اور پروفیشنل قابلیت کے اعتبار سے مختلف ہے لیکن جب کسی کمپنی سے پوچھا جائے کہ وہ کیسے ہنرمندوں کو تلاش کر رہے ہیں تو ہردو میں سے ایک کا جواب ہوتا ہے کہ ایسے ہنرمند جنہوں نے "ووکیشنل تربیت” کا کورس کر رکھا ہو۔ اسی طرح ایک چوتھائی کمپنیوں کو ڈگری یافتہ افراد کی تلاش بھی ہے۔

    شعبوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو دیکھ بھال کرنے والوں اور صحت کا شعبہ خاص طور پر ہنرمند افراد کی قلت کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ جرمن دفتر روزگار کے سربراہ ڈیٹلیف شیلے نے رواں برس اگست میں بتایا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جرمنی میں لیبر ختم ہو رہی ہے۔

    صحت کا محکمہ ہو یا ایئر کنڈیشنر سے متعلق ٹیکنیشین، ہر شعبے میں ہنرمندوں کی شدید ضرورت ہے۔ شیلے کا یہ بھی کہنا تھا کہ روزگار کی منڈی میں ہنرمندوں کی کمی پوری کرنے کے لیے ہرسال کم از کم چار لاکھ افراد بیرون ممالک سے جرمنی لانا پڑیں گے۔

    ملازمت کے لیے لوگ کیوں نہیں ملتے؟
    عملی طور پر دیکھا جائے تو زیادہ تر جرمن کاروباری ادارے اور کمپنیاں اب بھی مختلف وجوہات کی بنا پربیرون ممالک سے لوگوں کو ملازمت پر رکھنے سے کتراتے ہیں۔ برٹلسمان فاؤنڈیشن کے تازہ سروے کے مطابق صرف سولہ فیصد کمپنیاں ہی دوسرے ملکوں سے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہیں۔ زیادہ تر کمپنیوں کی کوشش ہےکہ وہ مقامی افراد کو ہی اپنی جانب راغب کریں اور اس سلسلے میں وہ انہیں کئی طرح کی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

    جرمن زبان سب سے بڑا مسئلہ
    جرمنی نے یکم مارچ سال2020 سے ایک نیا قانون متعارف کروایا تھا جس کا مقصد یورپی یونین کے باہر سےتعلیم یافتہ اسپیشلسٹ افراد کے لیے جرمنی آ کر کام کرنے کا عمل آسان بنانا تھا۔ اس کے باوجود اب بھی کئی کمپنیاں غیر ملکیوں کو بھرتی کرنے سے گریزاں دکھائی دے رہی ہیں۔

    سروے کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ جرمن کمپنیاں ایسا کیوں کر رہی ہیں تو یہ بات سامنے آئی کہ سب سے بڑی رکاوٹ جرمن زبان ہے اور اس کے بعد بڑی مشکل بیرون ممالک سے حاصل کی گئی تعلیمی سندوں کی تصدیق ہے۔

    جن اداروں نے بیرون ممالک سے افراد کو ملازمت پر رکھا بھی، ان کے لیے بھی ایسے افراد کی جرمن زبان سے واقفیت نہ ہونا مسئلہ رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں سے لوگوں کو جرمنی لانے کا پیچیدہ عمل بھی کمپنیوں کو ایسا کرنے سے روکتا رہا۔

    جرمنی میں کام کرنا آسان بن رہا ہے
    برٹلسمان فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق نیا قانون متعارف کرائے جانے کے بعد بیرون ممالک سے ہنرمند افرادکو جرمنی آنے کے لیے ترغیب دینا آسان بھی ہوا ہے۔ جرمنی میں ملازمت کے لیے خصوصی ویب سائٹ بھی بنائی گئی جس سے غیرملکیوں کو ملازمت کے لیے درکار قابلیت اور دیگر متعلقہ معلومات تک رسائی آسان بنائی جا رہی ہے۔

    جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 67 فیصد جرمن کمپنیوں کو اب بھی اندیشہ ہے کہ آئندہ برسوں میں بیرون ممالک سے وہ اتنے ہنرمند افراد جرمنی نہیں لا پائیں گے جتنی انہیں ضرورت ہے۔

    مائیگریشن امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس متعارف کرائے گئے "سکلڈ مائگریشن ایکٹ” پر تسلسل کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوسرے ممالک سے حاصل کی گئی تعلیمی اسناد کی تصدیق کا عمل آسان بنانا بھی ضروری ہے۔

    اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی پیش کی جا رہی ہے کہ جرمنی دیگر ممالک کے ساتھ "ٹریننگ پارٹنر شپ” پروگرام بھی شروع کرے۔ 57 فیصد جرمن کمپنیوں کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے غیر ملکی ہنرمند افراد کو  جرمنی میں ملازمت پر رکھنے کا مرحلہ مزید آسان ہوسکتا ہے۔

  • پاک جرمن تعلقات کے 70 سال مکمل

    پاک جرمن تعلقات کے 70 سال مکمل

    کراچی: پاکستان اور جرمنی کے باہمی تعلقات کے 70 سال مکمل ہو گئے ہیں، دونوں ممالک نے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا عزم کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاک جرمن تعلقات کی سات دہائیاں مکمل ہونے پر جرمن قونصلیٹ میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن قونصل جنرل ہولگر زیگلر نے کہا جرمنی نے پاکستان میں سات دہائیوں سے اپنی سفارتی موجودگی برقرار رکھی ہے، اس دوران جرمنی نے پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات، ثقافت اور ترقی میں ہمیشہ تعاون کیا۔

    ہولگر زیگلر نے کہا کہ امید ہے دونوں ممالک مستقبل میں بھی اس دوستی کو برقرار رکھیں گے، ہم دونوں ممالک میں دوستانہ تبادلے میں فعال حصہ لینے کے لیے نوجوان نسل کو ترغیب دیں گے۔

    یاد رہے کہ پاک جرمن تعلقات کی سات دہائیاں مکمل ہونے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپریل میں برلن میں جرمن وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔

    پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس ذوالفقار نے اگست میں ہیمبرگ کی بندرگاہ کا دورہ کیا تھا، جب کہ گزشتہ ماہ جرمن فریگیٹ بایرن نے اس سلسلے میں کراچی کا دورہ کیا تھا۔

  • انگیلا میرکل کے بعد جرمنی کا اگلا چانسلر کون؟

    انگیلا میرکل کے بعد جرمنی کا اگلا چانسلر کون؟

    برلن: جرمنی میں اتوار کو نئے وفاقی پارلیمان کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہونے جا رہی ہے، جس کا نتیجہ بتائے گا کہ انگیلا میرکل کی جگہ جرمنی کا اگلا چانسلر کون ہوگا؟

    16 برس بہ طور چانسلر رہنے والی انگیلا میرکل کے سیاست سے کنارہ کش ہونے کے اعلان کے بعد سے یہ عام تاثر تھا کہ نارتھ رائن قیسٹ فالیا کے وزیر اعلیٰ ملک کے اگلے چانسلر بن سکتے ہیں۔

    آرمین لاشیٹ

    آرمین لاشیٹ موجودہ جرمن پارلیمنٹ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کے سربراہ ہیں، رائے عامہ کے جائزوں میں انھیں فی الوقت دوسری پوزیشن حاصل ہے۔

    60 سالہ جرمن سیاست دان کا تعلق ایک ایسے صوبے یا ریاست سے ہے، جہاں سے اب تک ملک کے 8 چانسلرز میں سے صرف ایک چانسلر کا تعلق تھا، جو چانسلر کے منصب پر براجمان ہو سکا۔

    جولائی میں ان کے صوبے میں آنے والے سیلاب کے دوران ناقص حکومتی انتظامات کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں خاصی کمی آ چکی ہے، جس کی وجہ سے آرمین لاشیٹ اس وقت دباؤ کا شکار ہیں، سیلاب متاثرہ علاقے میں ایک تقریب کے دوران ان کے قہقہے نے بھی برا اثر ڈالا۔

    سابق قانون دان اور جرنلسٹ آرمین لاشیٹ کو رواں برس جنوری میں سی ڈی یو کی قیادت سونپی گئی تھی، مبصرین کا خیال تھا کہ انھیں یہ منصب انگیلا میرکل کی حمایت سے ملا، وہ میرکل کے ایک با اعتماد رفیق ہیں۔

    اینالینا باربک

    یہ گرینز کی امیدوار ہیں، اور جرمنی کی گرینز دیگر ممالک کی اسی طرح کی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور سیاسی قوت ہے, جرمنی کے انتخابی نظام کی نوعیت کی وجہ سے گرینز کے پاس عام طور پر وفاقی کابینہ میں نشستوں کا کافی حصہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ 1998 سے 2005 تک یہ حکومتی اتحاد کا حصہ رہے۔

    اولاف شولز

    یہ سوشل ڈیموکریٹس کے امیدوار ہیں، ایس پی ڈی روایتی بائیں بازو کی اپوزیشن جماعت ہے، اس پارٹی سے اب تک صرف ایک چانسلر جرمنی کو ملا ہے، اور یہ 2013 سے حکومتی اتحاد کا حصہ رہی ہے، اولاف شولز اس وقت میرکل کے ڈپٹی اور وزیر مالیات ہیں۔